از: بنت عثمان مدنیہ عطاریہ رکن مشاورت جامعات المدینہ گرلز
آنکھیں اللہ پاک کی بہت ہی عظیم اور پیاری نعمت ہیں
ان کی قدر کا اندازہ انہیں زیادہ ہے جنہیں یہ نعمت میسر نہیں ، ہونا تو یہ چاہئے
کہ اس نعمت پر اللہ پاک کا بے انتہا شکر ادا کیا جائے جیسا کہ ہماری بزرگ خواتین کرتی
رہیں، لیکن افسوس! بدقسمتی سے جس طرح خواتین کے متعلق یہ معروف ہے کہ وہ بولنے میں
بےباک ہوتی ہیں اور اپنی زبان کی حفاظت نہیں کرتیں، اسی طرح دیکھنے میں بھی بے باک ہیں، انہیں احساس تک نہیں
کہ دیکھنا بھی ایک عمل ہے جو ان کے لئے ثواب یا عذاب کا باعث بن سکتا ہے ۔کیونکہ فی
زمانہ ہم میں سے کثیر خواتین جانے انجانے میں اپنی آنکھوں کے غلط استعمال کی وجہ
سے اللہ پاک کی ناراضی کا سبب بن رہی ہیں، اس لئے کہ وہ ان آنکھوں کا استعمال وہاں
کرتی ہیں جہاں استعمال سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے یا پھر بسا اوقات وہ آنکھوں
کا جائز استعمال بھی کرتی ہیں مگر ارادہ و نیت درست نہیں ہوتی۔ یوں ان کی نگاہیں
اللہ پاک کی نافرمانی والے کاموں میں مصروف ہو کر اس کے غضب کو دعوت دیتی ہیں لہٰذا بہتر ہے کہ آنکھوں کی زیادہ سے
زیادہ حفاظت کی جائے تا کہ ان کے فوائد و برکات دنیا و آخرت میں ہمیں نصیب ہوں۔
یاد رہے! عورتوں کیلئے سب سے بہتر تو یہ ہے کہ وہ کسی
غیر مرد کو نہ دیکھیں، جیسا کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:
ذرا یہ تو بتاؤ کہ عورت کیلئے سب سے بہتر شے کیا
ہے ؟سب خاموش رہے اور کسی نے کوئی جواب نہ دیا ۔ حضرت علی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں گھر گیا اور سیدہ فاطمہ سے جب یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: ایک عورت
کے لئے سب سے بہتر شے یہ ہے کہ وہ کسی مرد کو دیکھے نہ کوئی مرد اسے دیکھے۔([1]) مشہور قاری حضرت ابو عمرو دانی رحمۃُ
اللہِ علیہ کے
استاذ حضرت ابو الحسن بن طاہر رحمۃُ اللہِ علیہ
کی صاحبزادی حضرت عروسہ صحراء رحمۃُ اللہِ
علیہا
کے متعلق منقول ہے کہ شادی کی پہلی رات ہی انتقال فرما
گئیں، جس کا سبب یہ بنا کہ شادی سے پہلے آپ ہر وقت اپنے رب کی عبادت میں
مصروف رہتی تھیں، یہاں تک کہ آپ کی توجہ
کسی اور طرف گئی نہ آپ نے کبھی اپنے والد ماجد کے علاوہ کسی اور مرد کو دیکھا،
چنانچہ شادی کی پہلی رات جب آپ کے شوہر نے آپ کا گھونگھٹ اٹھایا اور آپ نے اپنے
سامنے اپنے والد گرامی کے علاوہ کسی اور مرد کو دیکھا تو شرم و حیا سے آپ کے پسینے
چھوٹ گئے، گھبراہٹ اس قدر زیادہ ہو گئی کہ
آنکھوں سے دکھائی دینا بند ہو گیا۔ فوراً اللہ
پاک سے دعا کی: یااللہ!
مجھے اپنے سوا کسی اور کے دیکھنے سے بچا۔ اللہ
پاک نے ان کی دعا قبول فرمائی اور وہ اسی وقت جہانِ فانی سے کوچ فرما گئیں۔(2)
معلوم ہوا! اسلامی تاریخ میں ایسی خواتین بھی ہوئی
ہیں جنہوں نے زندگی بھر کسی غیر مرد کو دیکھا نہ کسی غیر مرد نے انہیں دیکھا۔
چونکہ پردے کا اس قدر اہتمام تقویٰ کی انتہائی اعلیٰ صورت ہے اور اس پر عمل کرنا
ہر ایک کے بس میں نہیں، لہٰذا اسلام نے اعتدال کی راہ بھی بتائی ہے یعنی اگر غیر
مردوں کی طرف دیکھنا پڑے تو نگاہیں جھکا کر رکھیں۔ جیسا کہ پارہ 18 سورۂ نور کی 31ویں آیت میں ہے: وَ
قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ ترجمۂ کنز العرفان: اور مسلمان عورتوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں کچھ
نیچی رکھیں۔ اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ عورت غیر مرد کو دیکھ سکتی ہے یا نہیں؟ کے جواب میں
فرماتے ہیں: نہ دیکھنے میں عافیت ہی عافیت ہے۔ البتہ دیکھنے میں جواز کی صورت بھی
ہے مگر دیکھنے سے قبل اپنے دل پر خوب خوب اور
خوب غور کر لے کہیں یہ دیکھنا گناہوں کے غار میں نہ دھکیل دے۔ فقہائے کرام جواز کی صورت بیان کرتے ہوئے
فرماتے ہیں: عورت کا مردِ اجنبی کی طرف نظر کرنے کا وہی حکم ہے جو مرد کا مرد کی
طرف نظر کرنے کا ہے اور یہ اس وقت ہے کہ عورت کو یقین کے ساتھ معلوم ہو کہ اس کی
طرف نظر کرنے سے شہوت نہیں پیدا ہو گی اور اگر
اس کا شبہ بھی ہو تو ہر گز نظر نہ کرے۔(3)
افسوس! صد افسوس! فی زمانہ خواتین آنکھوں کی حفاظت کے
معاملے میں بالکل بے پروا ہو چکی ہیں، جس کا بنیادی سبب ان کا نیکیوں سے، اسلامی
تعلیمات سے اور نیک صحبتوں سے دور ہو جانا
ہے۔ چنانچہ شیطان بڑی آسانی سے ایسی خواتین کو فلموں، ڈراموں وغیرہ کے ذریعے بے
پردگی و بے حیائی کے نزدیک لے جاتا ہے۔ لہٰذا
نگاہوں کی حفاظت کے حوالے سے ہمیں ہمیشہ یہ باتیں پیشِ نظر رکھنا چاہئیں:
نگاہوں
کی حفاظت کے طریقے
1-نگاہوں کی حفاظت کے فضائل و فوائد پر غور کیا جائے
کہ ان کی حفاظت سے اللہ پاک کی رضا و خوشی حاصل ہوتی ہے۔دل و دماغ کو اطمینان،
سکون، راحت تقویت اور چین نصیب ہوتا ہے۔روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ بہت سی
پریشانیوں مصیبتوں اور غموں سے حفاظت رہتی ہے۔ شیطان خوب ذلیل و رسوا ہوتا ہے۔ عزت و وجاہت اور
مرتبے میں اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا و آخرت
اچھی ہوتی ہے۔ جنت سے قربت اور جہنم سے
دوری نصیب ہوتی ہے۔ طبیعت میں اعتدال اور
نیکیوں کی طرف رغبت رہتی ہے۔ گناہوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔
2-بدنگاہی کے نقصانات اور عذابات کو پیشِ نظر رکھا
جائے۔ مثلاً ہمارے سامنے کوئی نشہ آور چیز رکھ دی جائے اور ہم اس کی تباہ کاریوں
سے واقف بھی ہوں تو یقیناً اس کے قریب بھی نہ جائیں گی۔ بالکل اسی طرح اگر بد
نگاہی کے نقصانات کو پیشِ نظر رکھیں گی تو ہمارے لئے اِس سے بچنا بھی ممکن ہو گا۔ نیز کوشش ہو گی کہ خود کسی غیر مرد کو دیکھیں نہ
کوئی ایسی صورت اپنائیں کہ ہر غیر مرد کی نگاہ ہماری جانب اٹھے۔ کیونکہ یہ دونوں
صورتیں منع ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے: اللہ پاک کی
لعنت ہو دیکھنے والے پر اور اس پر جس کی طرف دیکھا جائے۔(4) مفتی احمد
یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت
فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ جو مرد اجنبی عورت کوقصداً بلا ضرورت دیکھے اس پر بھی
لعنت ہے اور جو عورت قصداً بلا ضرورت اجنبی مرد کو اپنا آپ دکھائے اس پر بھی لعنت۔(5)
3-ایسے واقعات پڑھے جائیں جن میں عبرت یا نگاہ کی
حفاظت پر انعام مذکور ہو کیونکہ تاریخ میں ایسے کئی واقعات موجود ہیں جن میں مروی
ہے کہ ہماری بزرگ خواتین نے اپنی نگاہوں کی حفاظت کی تو اس کی برکت نہ صرف انہیں
حاصل رہی بلکہ اللہ پاک نے اس کا فائدہ دوسروں کو بھی پہنچایا۔ جیسا کہ شیخ نظامُ
الدِّین ابو المؤیّد رحمۃُ اللہِ علیہ کی والِدہ ماجِدہ کے پاکیزہ دامَن کے دھاگے کے واسطے سے مانگی گئی دعا کی
برکت سے فوری بارش برسنے لگی۔ (6)
4-اچھی صحبت اختیار کی جائے کہ اس کی برکت سے بری
صفات زائل ہو جاتی ہیں۔اللہ پاک ہمیں اپنی آنکھوں کی حفاظت کرنے کی سعادت عطا
فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]البحر الزخار،2/
159، حدیث : 526 2جامع کرامات
اولیا، 2/249 3پردے کے بارے میں
سوال جواب، ص 24 4شعب الایمان للبیہقی،
6/162 ، حدیث: 7788 5مراۃ المناجیح، 5/24
6اخبار الاخیار ،ص294
از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ
اللہ پاک کے غضب کو دعوت دینے والا ايك کام بد
نگاہی بھی ہے، یہ گناہ کثیر دینی و دنیوی
نقصانات کا سبب ہے، اگرچہ اس میں وقتی لذت ہے لیکن اس سے طلب مزید بڑھتی ہے اور
کبھی بھی سیری حاصل نہیں ہوتی۔ خواہ کتنی ہی بدنگاہی کر لی جائے دل بے چین رہتا ہے اور قیامت کے دن کی ذلت و
رسوائی اس کے علاوہ ہے۔ اسلام میں مردوں اور عورتوں دونوں کو بد نگاہی سے بچنے کا حکم
دیا گیا ہے تاکہ شیطان انہیں کسی قسم کے فتنے میں مبتلا نہ کر سکے۔ جیسا کہ حضرت
عیسیٰ علیہ السّلام سے منقول ہے:خود کو بد
نگاہی سے بچاؤ کہ بد نگاہی دل میں شہوت کا بیج بوتی ہے، پھر شہوت بد نگاہی کرنے
والے کو فتنہ میں مبتلا کر دیتی ہے۔([1])اور اس فتنے کے متعلق امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جو اپنی آنکھ کی حفاظت پر قادر نہ ہو وہ
اپنی شرم گاہ کی حفاظت پر بھی قادر نہیں۔ (2)یاد رہے! ایک
روایت میں ہے کہ اَلْعَیْنَانِ تَزْنِیَانِ یعنی آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں۔(3) جبکہ ایک روایت
میں آنکھوں کے زنا کی وضاحت یہ کی گئی ہے: زِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ یعنی آنکھوں کا زنا بدنگاہی ہے۔(4) چنانچہ مسلمان خواتین کو پارہ 18 سورۂ نور کی 31ویں آیت میں حکم دیا گیا کہ بد
نگاہی کریں نہ بد نگاہی کا ذریعہ بنیں۔
بدنگاہی سے بچنے کا طریقہ:
1-عورتوں کے لئے بہتر تو یہ
ہے کہ ہمیشہ پردے میں رہیں کہ کوئی انہیں دیکھے نہ یہ کسی کو دیکھیں، اس حوالے سے
امہات المومنین کا وہ واقعہ ذہن بنانے کے لئے کافی ہے کہ جس میں حضرت ام سلمہ رضی اللہُ عنہا فرماتی
ہیں: ایک مرتبہ وہ اور حضرت میمونہ رضی اللہُ عنہا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس تھیں
کہ حضرت ابن ام مکتوم رضی اللہُ عنہ حاضر ہوئے
تو حضور نے ہمیں پردہ کرنے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس پر میں نے عرض کی: حضور! وہ
نابینا ہیں ہمیں نہیں دیکھ سکتے۔ تو حضور نے ارشاد فرمایا: کیا تم بھی اندھی ہو
اور دیکھ نہیں سکتیں۔(5)
2-فی زمانہ فتنوں سے بچنا چونکہ انتہائی مشکل ہے، لہٰذا اگر ہر وقت اس طرح اپنی نگاہوں کی حفاظت نہیں کر
سکتیں کہ کوئی نا محرم مرد آپ کو دیکھے نہ آپ کسی کو دیکھیں تو کم از کم اتنا ہی کر لیجئے کہ اپنی نگاہیں ہمیشہ
جھکا کر رکھئے اور انہیں آوارگی سے بچائیے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے دانستہ و
نادانستہ آپ کی نگاہیں کسی کے جسم کے ان حصوں پر پڑ جائیں جنہیں دیکھنا آپ کے لئے
جائز نہ ہو۔ جیسا کہ امام رازی فرماتے ہیں: عورت ہو یا مرد اس کے جسم کا وہ حصہ جو
کسی بھی عورت کو دیکھنا جائز نہیں، اس سے مراد ناف سے لے کر گھٹنوں تک کا حصہ ہے،
جبکہ باقی جسم دیکھ تو سکتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو، اگر
فتنے کا اندیشہ ہو تو یہ بھی ممنوع ہے۔(6)
3-بدنگاہی کا ذریعہ بھی نہ بنیں، یعنی ایسے چمکیلے بھڑکیلے لباس نہ پہنیں
جس سے مردوں کی نظریں ان کی طرف اٹھیں اور یوں وہ
خود بھی گناہوں میں مبتلا ہوں اور اس وجہ سے ہمیں بھی دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی وغیرہ کا سامنا کرنا پڑے۔ اللہ پاک ہمیں بد نگاہی سے بچنے کی توفیق عطا
فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
[1]منہاج العابدین، ص 62 2احیاء العلوم، 3/ 125 3مسند امام احمد، 2/84، حدیث: 3912 4بخاری، 4/169، حدیث:6243 5ترمذی،4/ 356، حدیث: 2787 6تفسیر رازی، 8/361
از: بنت اکرم
عطاریہ ایم اے اردو، گلشن معمار ،کراچی
آج
جو کچھ زبیدہ بیگم نے اپنی بہن کے منہ سے سنا تھا، اس کی انہیں قطعی امید نہ تھی۔ اپنے تئیں وہ پر یقین تھیں کہ ان کی
بہن ان کی امید نہ توڑے گی، لیکن ہوا اس کے برعکس۔ رہ رہ کر دماغ میں وہ الفاظ
گردش کر رہے تھے جو ان کی بہن نے کہے تھے کہ میں کیسے زہرا کو اپنے بیٹے کے ساتھ
بیاہ لاؤں! وہ اب یتیم ہو چکی ہے، جہیز میں کیا لائے گی؟ میں چار لوگوں کو کیا دکھاؤں
گی؟ میرے بیٹے کی ذمہ داریاں بڑھ جائیں گی، گھر اور سسرال میں بس پس کر رہ جائے گا۔
یہ
الفاظ زبیدہ بیگم کے لئے گویا زہریلے نشتر تھے، کیونکہ ان الفاظ نے انہیں سرتاپا
جھنجوڑا ہی نہیں بلکہ ماضی کی کئی تلخ باتیں بھی انہیں یاد کروا دیں، تقریباً یہی
الفاظ انہوں نے چند سال قبل اپنے شوہر کی بھتیجی کے لئے استعمال کئے تھے، جب ان کے
شوہر نے اپنے مرحوم بھائی کی بیٹی کو اپنی بہو بنانے کے بارے میں بات کی تھی۔
آہ!
وقت نے کس قدر جلد پلٹا کھایا تھا، آج وہ خود بیوہ ہو چکی تھیں اور ان کی بیٹی کے
سر پر بھی والد کا سایہ نہ رہا تھا، زبیدہ بیگم آج خود احتسابی کی کیفیت کا شکار
تھیں اور خود اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بنے کھڑی تھیں، جو کچھ انہوں نے دوسروں
کی بیٹیوں کے ساتھ کیا تھا سب کچھ ان کی نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا کہ کیسے وہ
آئے دن بڑی شان سے اپنے بیٹے کے لئے رشتے دیکھنے جایا کرتیں اور کبھی کسی لڑکی کو
قد کے چھوٹی ہونے کی وجہ سے تو کسی کو جسامت میں موٹی ہونے کی وجہ سے خاطر میں نہ
لاتیں، کبھی کسی کی ناک اور دانت انہیں پسند نہ آتے تو کبھی کسی کی چال اور رنگت اچھی
نہ لگتی، کبھی کسی کی فیملی کے بڑا ہونے پر اعتراض کرتیں تو کبھی کسی کے کم پڑھا
لکھا ہونے کی وجہ سے انکار کر دیتیں۔ غریب
لڑکیوں بالخصوص جن کے سر پر والد کا سایہ نہ ہوتا انہیں محض اس وجہ سے دیکھنا بھی
پسند نہ کرتیں کہ وہ جہیز کم لائیں گی۔ ایسی نجانے کتنی ہی باتیں انہیں آہستہ
آہستہ یاد آ رہی تھی جن کی وجہ سے وہ اب تک من پسند بہو ڈھونڈ نہ پائی تھیں۔
آج
زبیدہ بیگم کو ان سب ماؤں کے دکھ کا اندازہ ہو رہا تھا، جب چوٹ ان کے دل پر لگی
اور ان کی بیٹی کا رشتہ لینے سے انکار کیا گیا ، جو کچھ انہوں نے دوسروں کی بچیوں
کے ساتھ کیا آج خود ویسا ہی سلوک ان کے ساتھ بھی ہوا تو غلطی کا احساس پیدا ہوا،
فوراً اپنے رب کے حضور معافی کی خواستگار ہوئیں اور اپنی غلطی کو سدھارنے کے لئے
ایک عزم کے ساتھ اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کیونکہ ان کو یقین ہو چلا تھا کہ جیسی کرنی ویسی
بھرنی کے مصداق وہ دوسروں کے ساتھ اچھا کریں گی تو یقیناً انہیں بھی اس کا اچھا
صلہ ملے گا۔
زہرہ
نے اپنی ماں کو یوں کہیں جانے کے لئے چادر اوڑھتے دیکھا تو حیرانی سے پوچھا: امی!
خیریت ہے! کہاں جا رہی ہیں؟ بولیں: تمہاری چچی کے گھر تمہارے بھائی کے لئے سعدیہ
کا رشتہ لینے جا رہی ہوں۔ انہوں نے جب یہ بتایا تو زہرہ پہلے تو اپنی والدہ کی اس
کایا پلٹ پر بڑی حیران ہوئی پھر بولی: کیا چچی جان مان جائیں گی۔ تو زبیدہ خاتون
بولیں: ہاں مجھے یقین ہے وہ مان ہی جائیں گی۔ اِن شاءَ اللہ ۔
(یہ مضمون ماہنامہ خواتین
ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
از: بنت نظر احمد وانی کشمیر
ماں اللہ
پاک کی ایک ایسی نعمت ہے جسے اس نے انسان کی اولین تربیت و نگہداشت کا بہترین ذریعہ
بنایا ہے، انسانوں میں ماں کا کوئی نعمُ البدل ہے نہ رشتوں میں ماں جیسا کوئی رشتہ
ہے، ہمدردی میں ماں سے بڑھ کر کوئی کردار ہے نہ ماں کے دل اور آنکھ جیسا کوئی دل
اور آنکھ کہ دنیا کے ناگوار ترین شخص کو اگر کوئی گوارا کر سکتا ہے تو وہ
ماں کا دل ہے اور اسی دنیا کی بدترین صورت
کو خوبصورت دیکھ سکتی ہے تو وہ ماں کی آنکھ ہے۔
بلاشبہ
تاریخ کے صفحات اولاد کی خاطر ماں کی دی گئی بے مثل قربانیوں کے تذکرے سے بھرے
ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام مذاہب اور دنیا کے سارے لوگ ماں کو بہت زیادہ احترام کے قابل سمجھتے ہیں۔
بچے
پر ماں کے شفقت کرنے اور تکالیف جھیلنے کا آغاز اس کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہو جاتا
ہے اور پھر پیدائش کے وقت اور اس کے بعد بھی یہ سلسلہ نہیں رکتا، وہ اس کی دیکھ
بھال کرتے کرتے اگرچہ خود بنجر ہوجائے مگر اسے زرخیز بنا دیتی ہے۔ اپنی خواہشوں
اور خوشیوں کا گلا گھونٹ کر بھی اسے خوش دیکھنا چاہتی ہے، اولاد کے لئے اس کے لہجے
میں مٹھاس، کردار میں شفقت، آغوش میں دنیا بھر کی راحت اور قدموں تلے جنت ہے۔
بعض
رشتے ایسے ہیں جن کی عظمت کو پورے طور پر لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے انہی میں سے
ایک ماں کا رشتہ بھی ہے۔ واقعی ماں بہت سی خوبیوں کی جامع ہے۔
(یہ مضمون ماہنامہ
خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)
مکہ
مکرمہ کے فضائل :
مکہ المکرمہ
نہایت بابرکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا
ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقینا ًدیدارِ مکۃ المکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔
قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا۔اللہ رب العزت نے بعض
رسولوں کوبعض رسولوں پرفضیلت عطاکی ہے۔اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں
میں سے ،ماہِ رمضان المبارک کو،راتوں میں سے لیلۃ القدرکی رات کواسی طرح شہروں میں
سے مکۃ المکرمہ اورمدینہ منورہ کوفضیلت عطاکی ہے۔شہرِمکہ کی اللہ رب العزت نے قرآنِ
پاک میں قسم اٹھائی ہے۔اللہ رب العزت نے اس شہرکی قسم اٹھائی ہے، مجھے اس شہرمکہ
کی قسم !اے محبوب اس (شہرمکہ)میں تم تشریف فرماہو۔(پارہ
30سورہ البلد)قرآنِ
پاک سے اس بات کاپتاچلاکہ جس جگہ محبوبانِ خداکے پاؤں لگ جائیں وہ جگہ عام جگہ
نہیں رہتی بلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں مقبول جگہ ہوتی ہے۔حضور نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:
1۔’’مکے میں رمضان گزارنا غیرِمکہ میں ہزار
رمضان گزارنے سے افضل ہے۔‘‘(جمع الجوامع، ج4، ص472، حدیث 12589)
2 ۔حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب مکہ فتح فرمایا تواس روزفرمایا:اس شہرکواللہ
پاک نے اس دن سے حرمت عطافرمائی جس روز زمین اورآسمان کوپیداکیاتھا۔یہ اللہ پاک کی
حرمت کے باعث تاقیامت حرام ہے اور اس میں جنگ کرناکسی کے لئے نہ مجھ سے پہلے حلال
ہواورنہ میرے لئے مگردن کی ایک ساعت کے لئے کسی پس وہ اللہ پاک کی حرمت کے ساتھ
قیامت تک حرام ہے نہ اس کاکانٹاتوڑاجائے اورنہ اس کاشکاربھڑکایاجائے اوراس کی گری
پڑی چیزصرف وہ اٹھائے جس نے اعلان کرناہواورنہ یہاں کی گھاس اکھاڑی جائے۔(البخاری)
3۔حضرت عبداللہ بن عدی بن حمراء رضی
اللہ عنہ فرماتے
ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کومقامِ
حزورہ پرکھڑے ہوئےدیکھا،حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
فرماتے تھے:اللہ پاک کی قسم!تو ساری زمین میں سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی
تمام زمین میں خداکوزیادہ پیاری ہے !اگرمیں تجھ سے نکالانہ جاتاتوکبھی نہ نکلتا۔(ترمذی
،ابن ماجہ)
4 ۔حضرت جابر رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے ،میں نے نبی کریمصلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکوفرماتے
ہوئے سنا:تم میں سے کسی کویہ جائزنہیں کہ وہ مکہ معظمہ میں ہتھیاراٹھائے پھرے۔(مسلم)
5۔حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا
فرماتی ہیں:رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:
ایک لشکر کعبہ معظمہ پرحملہ کرے گاتوجب وہ میدانی زمین میں ہوں گے توان کے اگلے
پچھلے سب کودھنسادیا جائے گا۔میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!ان کے اگلے پچھلوں کوکیسے دھنسادیاجائے گا حالانکہ
ان میں سوداگربھی ہوں گے اور وہ بھی جو اس لشکر سے نہیں!رسول اللہصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دھنسایاتوسارے اگلے پچھلوں کوجائے
گاپھراپنی نیتوں پراٹھائے جائیں گے۔(مسلم، بخاری)
6۔حضرت عبد اللہ ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
مکہ معظمہ سے فرمایا: تو کیسا پاکیزہ شہرہے اور تو مجھے کیساپیاراہے!اگرمیری قوم
مجھے یہاں سے نہ نکالتی تومیں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔(ترمذی)
7۔حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،حضورنبی اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:کوئی شہرایسانہیں جسے دجال نہ روندے سوائے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ان کے راستوں میں
سے ہرراستہ پرصف بستہ فرشتے حفاظت کررہے ہیں۔(بخاری)
8۔حضرت عیاش ابن ابوربیعہ مخزومی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،رسول اللہصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:یہ امت بھلائی پررہے گی جب تک اس حرمت کابحق تعظیم واحترام کریں جب اسے
بربادکریں گے ہلاک ہوجائیں گے۔(ابن ماجہ)
9۔حضرت انس بن مالک رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:جواپنے گھرمیں نمازپڑھے اسے پچیس نمازوں کاثواب،جوجامع مسجدمیں نمازپڑھے
اسے پانچ سونمازوں کاثواب،جوجامع مسجداقصیٰ اورمیری مسجد(مسجدنبوی)میں
نمازپڑھے اسے پچاس ہزارنمازوں کاثواب اور جومسجدحرام میں نمازپڑھے اسے ایک لاکھ
نمازوں کاثواب ملتاہے۔(ابن ماجہ)
اللہ پاک ماہِ
رمضان المبارک کے صدقے ہمیں زیارتِ مکہ مکرمہ نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ مکرمہ حجاز
کا مشہور شہر مشرق میں حبلِ ابو قبیس اور
مغرب میں جبلِ قعیقعان دو بڑے بڑے پہاڑوں کے درمیان واقع ہے، اس کے چاروں
طرف چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں اور ریتیلے میدانوں کا سلسلہ دور دور تک چلا گیا ہے، اسی
شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کی ولادتِ باسعادت ہوئی، مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجہ کے مہینے میں تمام دنیا کے
لاکھوں مسلمان بحری، ہوائی اور خشکی کے راستوں سے حج کے لئے آتے ہیں۔اس مقدس شہر کی
فضلیت یہ ہے کہ اس میں خدا کا گھر ہے،حضور
پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم یہاں
پیدا ہوئے اور عمر کا زیادہ تر حصّہ یہاں بسر کیا، قرآنِ پاک میں جابجا اس شہر کا
ذکر موجود ہے، مکہ دنیا کے وسط میں واقع ہے، یہ امن و امان والی جگہ ہے، مکہ مکرمہ
کو حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے 8ھ میں فتح کیا،حضور پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کا ذکر اس طرح فرمایا:مَا اَطیَبَكَ
مِن بلدِكَ و اَحَبَّكَ اِلَىَّ۔اے
مکہ!تو کتنا عمدہ شہر ہے اور مجھے کس قدر محبوب ہے۔
احادیثِ
نبوی اور فضیلت ِمکہ مکرمہ:
1۔حضورِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے مکہ میں ماہِ رمضان کے روزے رکھے،
اللہ پاک نے اس کے لاکھ مہینوں کے روزے لکھ لئے اور مسجد حرام میں ایک نماز لاکھ نمازوں کے برابر ہے۔ جو
مکہ میں ایک دن بیمار ہوتا ہے اللہ پاک اس
کے جسم کو جہنم کی آگ پر حرام فرما دیتا ہے۔
2۔حضور پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: مکہ میں سختیاں اور درجے ہیں،جس نے یہاں
کی شدت پر صبر کیا، میں روزِ قیامت اس کا شفیع و گواہ ہوں گا، مکہ اور مدینہ میں
مرنا قیامت کے روز حساب اور خوف سے با امن رہ کر جنت میں سلامتی سے داخل کر دیتا
ہے اور حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس
کے قیامت کے دن شفیع ہوں گے، آگاہ رہو کہ
مکہ کے رہنے والے اہل ُاللہ ہیں اور اس کے گھر کے ہمسائے۔
3۔رسولِ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مسجد ِنبوی میں ایک نماز ایک ہزار نماز جیسی ہے، مسجد حرام میں ایک نماز
لاکھ نمازوں جتنا درجہ رکھتی ہے اور مسجدِ اقصی میں پانچ سو نمازوں جتنا۔
4۔رکن اور
مقام کے درمیان جو جگہ ہے، وہ طہارت پاکیزگی اور قرب میں اللہ پاک کے نزدیک سب سے
بڑی ہوئی ہے۔
5۔رُکنِ یمانی
اور رکنِ اسود کے درمیان جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
6۔یعنی مکہ میں
اقامت نہایت سعادت ہے اور اس سے خروج شقاوت، وہاں کی رہائش نہیں چھوڑنی چاہئے، بخل
اور سوال سے پرہیز کرنا چاہئے، کیونکہ یہ شیطانی فعل ہیں۔
7۔ اللہ پاک
کے نزدیک اکرم وہ ملائکہ ہیں جو بیت اللہ کے گرد طواف کرتے ہیں۔جس نے ایک نظر بیت
اللہ کو دیکھا اور اس کی خطائیں خواہ
سمندر کی جھاگ جتنی ہوں تو بھی اللہ پاک
ان کو بخش دے گا۔
8۔ بیت اللہ
کے گرد جس نے سات طواف کئے، اللہ پاک ہر قدم کے عوض ستر ہزار درجے بلند کرتا ہے
اور ستر ہزار نیکیاں عطا کرتا ہے اور سات شفاعتوں کا حق عطا کرتا ہے، جس کی وہ اپنے مسلمان گھر والوں سے شفاعت کرنا
چاہے اور اگر وہ چاہے تو اسے آخرت پر رکھ چھوڑے۔
9۔نبیِّ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ وہ حرم ہے، جس کو اللہ پاک نے روزِ
ازل سے حرم بنایا۔اے لوگو ! کوئی مکہ مکرمہ میں ہتھیار لے کر نہ چلے ۔
(مسلم کتاب الحج، باب النبی عن حمل السلاح بمکۃ مشکوٰۃ باب حرم مکہ پہلی فصل،
فضائل مکہ مکرمہ اور فضائل مدینہ منورہ، ص 17)
10۔ جس سے ہو
سکے وہ مکہ و مدینہ منورہ میں سے کہیں مرے تو اسے چاہئے کہ وہیں جان دے، کیوں کہ میں سب سے پہلے اسی کی شفاعت کروں گا اور وہ مرنے
والا قیامت کے دن اللہ پاک کے عذاب سے امن میں ہوگا۔
نوٹ:
یہ تمام احادیث
ایک عربی رسالے سے ماخوذ ہیں جو مکہ مشرفہ کے فضائل میں حسن بصری رحمۃ
اللہ علیہ
کی طرف منسوب ہے۔ یہ مطبع عثمانیہ کا1325ھ کا چھپا ہوا ہے۔اسے عزیزی ظفر حسین مکہ معظمہ سے لائے تھے۔کتاب تاریخِ
مکہ معظمہ مؤلف حضرت مولانا پیر غلام دستگیر نامی ہاشمی ،ص 11-12- 13-14
مکہ معظمہ وہ شہر ہے جس کی تعریف میں قرآن ِمجید
رطب اللسان ہے، یہ مبارک شہر جو سب شہروں سے افضل ہے، کئی خصوصیتوں کا حامل ہے،
مکہ میں ربّ الامکان کا مکان ہے، مکہ میں مقامِ ابراہیم ہے، مکہ کو رب کریم نے
بلدہ طیبہ کہا ہے، مکہ ہی وہ شہر ہے جسے اللہ پاک نے ام القری کہا۔
اللہ پاک سے
دعا ہےوہ ہمیں اس بابرکت شہر میں بار بار ہرسال آنا نصیب فرمائے، اپنے مرشدِ کریم کے ساتھ حجِ بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے اور
وہاں خوب خوب عبادت کرنے،ڈھیروں نیکیاں کمانے کی سعادت نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی
الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ
مکرمہ کی مختصر فضیلت:
مکہ مکرمہ
سعودی عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت ہونے کے باوجود تمام شہروں کا اصل یعنی ام
القریٰ ہے، یہی وہ مقدس ترین شہر ہے، جہاں سے روحِ زمین کا آغاز ہوا تھا اور فرشتے
اسی مبارک شہر میں عبادت کیا کرتے تھے، مکہ مکرمہ وہ بابرکت و بلند مرتبہ شہرہے جس کی عظمت کا خیال نہ صرف مسلمان، بلکہ
کفارِ مکہ بھی کرتے تھے اور کیوں نہ ہوں، ایسے مبارک شہر کی عظمت کہ اس میں
خدا کی عظیم نشانیاں، پیغمبرِ محمد صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت، خانہ کعبہ کی تعمیر کی نشانیاں، جنت
المعلی،جنتی پتھر، آبِ زم زم کا کنواں،انبیائے کرام علیہم الصلوۃ
و السلام
کے مزارات اور بے شمار نشانیاں اس شہر مبارک میں موجود ہیں، جو مسلمانوں کے ایمان
کو تروتازہ و خشوع خضوع کردے، اس شہر مبارک کی فضیلت کے بارے میں اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں قسم کھا کر ارشاد فرماتا ہے:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اِس شہر میں تشریف
فرما ہو۔
(پ30،سورہ بلد:1)
شہر مکہ مکرمہ کی فضیلت کے بارے میں کچھ مختصر تذکرہ
پیش کیا گیاکہ یہ کتنی اہمیت و عظمت کا
حامل شہر ہے، اب شہر مبارک کی مختصر تاریخ پیشِ خدمت ہے:
مختصر
تاریخ شہر مکہ مکرمہ:مکہ کاتاریخی خط :
حجاز میں سعودی
عرب کے صوبہ مکہ کا دارالحکومت اور مذہبِ اسلام کا پُر امن و مقدس ترین شہر ہے، مکہ جدہ سے 73 کلومیٹر دور فاران میں
سطحِ سمندر سے 277 میٹر بلندی پر واقع ہے، یہ بحیرہ احمر سے 80 کلومیٹر کے فاصلے
پر ہے اور ایک روایت کے مطابق فاران مکہ شریف کا نام،جہاں حضرت ہاجرہ رضی
اللہ عنہا
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ٹھہرے
تھے۔
فاران وہی خط
ہےجو آج سے کچھ سال پہلے حجاز کے نام سے مشہور تھا اور آج سعودی عرب کے نام سے
مشہور ہے،اس طرح مکہ شریف کی تاریخ کا آغاز فاران سے ہوتا ہے۔حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے قبل ہی مکہ عبادت اور کاروبار کا
مرکز تھا، جبکہ جنوبی عرب سے شمال میں رومی و بازنطینی سلطنتوں کے لئے زمینی راستے
پر تھا، جبکہ ہندوستان کے مصالحہ جات بحیرہ عرب اور اور بحیرہ ہند کے راستے سے یہیں
سے گزرتے تھے، 570 یا 571ء میں یمن کا فرمانرواابرہہ 60 ہزار فوج اور تیرہ ہاتھی،
بعض روایتوں کے مطابق نو ہاتھی لے کر مکہ
پر حملہ آور ہوا، لیکن خدا کا کرم دیکھئے
کہ ابابیل پرندوں کے ذریعے ان کو شکست ہوئی اور ان کا پورا واقعہ سورہ فیل میں بیان
فرمایا۔یہ وہی سال تھا، جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیدائش
ہوئی، آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر وحی
نازل ہوئی اور آپ نے اپنی زندگی مبارک کا بیشتر حصّہ یہی مقدس شہر میں گزارا،
خلافتِ اسلامیہ کے عروج پر پہنچنے کے بعد مکہ مکرمہ مسلم دنیا کے معروف علمائےکرام
اور دانشوروں کا مسکن بن گیا، جو زیادہ سے
زیادہ کعبۃ الحرام کے قریب رہنا چاہتے تھے۔
مکہ کبھی بھی
ملتِ اسلامیہ و خلافتِ راشدہ کے زمانے میں دارالخلافہ نہیں رہا، اسلام کا پہلا
دارالخلافہ مدینہ ہی رہا ، مکہ صدیوں تک ہاشمی شرفا کی گورنری میں رہا، جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہتے تھے۔
1926ء میں
سعودیوں نے شریف مکہ کی حکومت ختم کرکے اس کو سعودی عرب میں شامل کرلیا، مکہ مکرمہ
کے شہر کی زیارت اور اس میں موجود خانہ کعبہ کا طواف کرنا، ہر مسلمان کا مقصد اور خواہش
ہے، آئیے! حضورِ اقدس، نور عظمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ارشاد
کردہ مقدس ترین حدیثوں سے مکہ مکرمہ کی فضیلت پڑھئے۔
مکہ
مکرمہ کی فضیلت پر دس احادیث:
1۔بخاری شریف
میں ہے:جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی
عمر ِمبارک سات سال یا تیرہ سال یا اس سے کچھ زائد ہوئی تو حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کو بیٹے کی قربانی پیش کرنے کا حکم ہوا، اب بھی حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے اپنے ربّ کے حضور سر تسلیم خم کیا اور مکہ مکرمہ تشریف لائے اور بیٹے کی قربانی
پیش کرنا چاہی، مگر اللہ پاک نے جنت سے مینڈھا بھیجا،اسے حضرت اسماعیل علیہ
السلام
کے فدیہ میں قربان کیا گیا،اس کے بعد اللہ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ
السلام
کو کعبہ شریف تعمیر کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ
السلام
اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
مل کر کعبہ شریف کو دوبارہ سے تعمیر کیا۔( بخاری، احادیث الانبیاء، صفحہ
858 تا 860، حدیث 336 خلاصہ)
2۔صحابی ابنِ
صحابی حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ
عنہ
سے مروی ہے: بنی اسرائیل کی طرف تشریف لانے والے ایک ہزار انبیائے کرام علیہم
السلام
حج کے لئے مکہ مکرمہ تشریف لائے اور یہ سبدو طویکے مقام پر اپنی نعلین شریف یعنی
مبارک جوتے اتار کر مکہ مکرمہ میں داخل ہوا
کرتے تھے۔(سبل
الہدیٰ، جلد1، صفحہ 209 تا211 خلاصہ)
3۔حضرت عبد
اللہ بن عدی ابن الحمیرا رضی اللہ
عنہ
فرماتے ہیں، انہوں نے حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اس وقت
فرماتے ہوئے سنا، جب آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہجرت
کے لئے مکہ مکرمہ سے روانہ ہوئے فرمایا: اے زمینِ مکہ! اللہ پاک کی قسم! تو اللہ
پاک کی بہتر زمین ہے اور مجھے بہت محبوب ہے، اگر مجھے نکالا نہ جاتا تو میں کبھی
نہیں نکلتا۔(شفاء،
ص74،مشکوۃ، صفحہ 238، ابن ماجہ، صفحہ 224)
4۔مسند احمد
بن حنبل میں حضرت ابنِ عباس رضی اللہ
عنہما
سے روایت ہے، حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتحِ مکہ
کے دن ارشاد فرمایا:زمین و آسمان کی تخلیق کے دن سے ہی یہ شہر حرمت والا ہے، قیامت
تک اس کی حرمت باقی ہے،دوسری روایت میں ہے:حضور سید عالم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس کا کاٹنا نہ توڑا جائے گا، گھاس نہ
کاٹی جائے، شکار نہ بھگایا جائے۔(شفاء، جلد 1، صفحہ 67)
یعنی سرزمینِ
مکہ مکرمہ وہ مقدس ترین شہرو زمین ہے، اس میں کسی کا خون بہا سکتے ہیں، نہ کسی کو
کاٹا جاسکتا ہے،حتی کہ گھاس پھوس ہی کیوں نہ ہو۔
5۔ حضرت عبداللہ
بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا:جو مکہ میں
فوت ہوا، گویا آسمانِ اول پر اسے موت آئی۔(شفاء،
ج1، ص85)
6۔زرقانی شریف
میں روایت ہے، حضور سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خواب دیکھا
کہ آپ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم انتہائی
خوش اسلوبی کے ساتھ مکہ مکرمہ داخل ہوئے۔(زرقانی، جلد 2، صفحہ 180)
7۔مکہ مکرمہ کی
ایک فضیلت خانہ کعبہ سے بھی ہے کہ یہ
مسلمانوں کا قبلہ اول اور اللہ پاک کا سب سے پہلا گھر ہے، چنانچہ حدیث ِمبارکہ میں
ہے،حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ
فرماتے ہیں :میں نے نبی ِاکرم، نور ِمجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے
ہوئے سنا:جو خانہ کعبہ کے قصدیعنی(ارادے) سے آیا اور
اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو قدم اٹھاتا
رکھتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے اس کے لئے
نیکیاں لکھتا ہے اور خطا مٹاتا اور درجات بلند فرماتا ہے، یہاں تک کہ خانہ کعبہ کے
پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی،پھر سر منڈایا،بال کتروائے
تو گناہوں سے بالکل ایسے نکل گیا، جیسے اس دن کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(شعب
الایمان، جلد 3، صفحہ 478، حدیث 4115)
8۔حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:جو مکہ مکرمہ کے
قبرستان میں دفن کیا گیا، وہ قیامت کو امن سے اٹھے گا۔(شفاء العزام،
جلد 1، صفحہ 284)
9۔حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:حضور
اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ سے مخاطب ہوکر فرمایا: اے سرزمینِ مکہ! تو کس قدر پیارا شہر ہے، مجھے کس
قدر محبوب ہے۔(مشکوۃ
شریف، کتاب الشفاء، جلد1، صفحہ 85)
10۔حضرت محمد
بن قیس بن مخرم رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں :حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا: جسے سرزمینِ مکہ یا مکہ مکرمہ جاتے راستے میں موت آئی، وہ قیامت کے دن امن
والوں میں ہوگا۔(شفاء
العزم، جلد 1، صفحہ 85،العقد الثمین، جلد1، صفحہ 45)
سبحان اللہ
سبحان اللہ!!کیا رونق و مزاج ہیں مکہ کےکہ ہر مسلمان کے دل کا نور ہے۔اللہ کریم ہم
اور آپ سب کو زیارتِ مکہ، طوافِ مکہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
مقدس
شہر مکہ:
مکہ مکرمہ
متبرک اور معزز نام ہے، اس قابل صد تعظیم وتکریم شہر کا ہے، جس پر دنیا جہاں کی
عظمتیں اور نعمتیں قربان، جن کے چشمہ فیض سے عالم مستفیض ہو رہا ہے، جو خطہ مقدسہ
اس کرہ ارضی کے وجود کا مؤجب اور باعث تخلیق بنا، جو اپنی لطافت، نظافت، شرافت،
عظمت ،جلالت و شرف و مجد میں یگانہ روزگار ہے اور جس کی توصیف و تحمید سے قرآنِ مجید
،احادیثِ نبوی اور تاریخِ عالم کے اوراق مزیّن و معمور ہیں ۔
قرآنِ مجید میں
اس سر زمین کو بکہ اور مکہ جیسے ذی شان ناموں سے یاد کیا گیا ہے، بکہ اور مکہ حقیقت
میں ایک ہی لفظ ہے۔اس پیارے شہر کو بکہ اس لئے کہا جاتا ہے کیوں کہ اس جگہ بڑے بڑے
جابر اور ظالم لوگوں کی گردنیں جھک جاتی ہیں اور تکبر اور بڑائی کرنے والا یہاں
آکر پست ہو جاتا ہے، اس وجہ سے اسے بکہ کہا جاتا ہے اور اس بنا پر بھی کہ زائرین
اور طواف کرنے والوں کا یہاں ہر گھڑی جھمگھٹا رہتا ہے، مطاف کا ہر وقت کچھا کھچ
بھرا رہتا ہے اور اس کےگلی کوچے بھی لوگوں کے جمِ غفیر سے معمور رہتے ہیں۔(تفسیر
کبیر ،ج 3، ص 8)
مکہ
مکرمہ کی آبادی:
حضرت ابرہیم علیہ
السلام
کو وحی ذریعے اللہ پاک نے اس زمین کے خطے پر جانے کا حکم ارشاد فرمایا، حضرت ابراہیم
علیہ السلام، حضرت ہاجرہ
اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو
مکہ لے کر آئے اور انہیں بیت اللہ کی جگہ کے پاس ایک گھنے درخت کے نیچے بٹھا دیا،
یہ درخت مسجد کے اوپر والی جانب میں اسی جگہ تھا، جہاں زم زم ہے، ان دونوں میں سے
نہ کوئی مکہ میں رہتا تھا نہ ہی وہاں پانی تھا، حضرت ابراہیم علیہ
السلام
نے انہیں وہاں بٹھا کر ان پاس کھجوروں کی ایک تھیلی اور پانی کی ایک مشک رکھ دی
اور روانہ ہو گئے، اللہ پاک کے حکم سے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا
حضرت اسماعیل علیہ السلام کے
ساتھ وہاں صبر و استقامت اور ہمت سے رک گئیں اور اللہ پاک کے حکم پر سر تسلیم خم
کر دیا، حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں
سے زم زم جاری ہوا، یوں یہ ارضِ مقدسہ آباد ہوتی چلی گئی ۔(سیرت الانبیاء
،ص308)
فضائل
مکہ مکرمہ:
مالکِ بحروبر صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہ
ہو گا۔(مسند
احمد بن حنبل ،ج 10،ص 85،حدیث 2610)
نبیِّ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر
کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے ۔(اخبار مکہ، ج 2، ص 311، حدیث
1565)
حضرت سعید بن جبیر رضی
اللہ عنہ
نے فرمایا:جو ایک دن مکہ میں بیمار ہو جائے، اللہ پاک اس کے لئے اسے اس نیک عمل کا
ثواب عطا فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ مسافر ہو تو اسے
دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(اخبار مکہ، ج 2 ،ص 311 ،حدیث 1565)
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے حج یا عمرہ کرنے کی نیت کی
تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین( مکہ و مدینہ) میں موت آگئی تو اللہ پاک بروزِ قیامت اسے اس طرح
اٹھائے گا کہ نہ اس پر حساب ہو گا نہ عذاب، ایک دوسری روایت ہے، وہ بروزِ قیامت
امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔(مصنف عبد الرزاق، ج 9،ص 184،حدیث 17479)
آمنہ کے مکان پر روزوشب بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
مکہ میں ایک نیکی
ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔
نبی رحمت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتح مکہ کے دن خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا:اے
لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے،جس دن آسمان و زمین پیدا کئے،
لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام (حرمت والا) ہے۔( ابن
ماجہ، ج 3، ص 519، حدیث 3109)
حضرت عبداللہ بن عدی رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے، میں نے حضور انور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام
ِحزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی
ساری زمین سے بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔
خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا
جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج3، ص 518، حدیث 3108)
حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں
ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔ (جمع الجامع، ج 4، ص 382، حدیث 12589)
(عاشقان رسول کی130 احکامات مع مکے مدینے کی زیارتیں)
نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مکہ میں ہی پیدا ہوئے ۔
میقات کے باہر
سے آنے والے بغیر احرام مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے اور یہی مکہ میں خانہ کعبہ،مقام
ِ ابراہیم، حجرِاسود، بئرِزم زم، میدانِ عرفات و مزدلفہ، صفاو مروہ ہیں۔
حرم ہے اسے ساحت ِہر دو عالم جو
دل ہو چکا ہے شکارِ مدینہ (ذوقِ نعت)
اللہ پاک اس
مقام ِمقدسہ کا ادب واحترام کرنے اور اس متبرک مقام کی زیارت کا شرف عطا فرمائے۔
آمین
بجاہ النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ
بھی پیارا تو میٹھا مدینہ
فضائلِ
مکہ مکرمہ:
قرآنِ کریم میں
متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ اوّل،سورۂ بقرہ آیت
نمبر 126 میں ہے:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے میرے ربّ میرے شہر کو امن والا کر
دے۔
احادیث
کی روشنی میں:
1۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مکہ میں رمضان گزارنا غیرمکہ میں ہزار
مضان سے افضل ہے۔
(جمع
الجوامع، جلد 4، صفحہ372،حدیث12589)
شرحِ
حدیث:
حضرت علامہ
عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ
پاک کے تحت لکھتے ہیں:مکۃالمکرمہ میں رہ کر رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا،غیر مکہ
کے ہزار رمضان المبارک کے روزوں سے افضل ہے، کیونکہ اللہ پاک نے اس مکہ کو اپنے
گھر کے لئے منتخب فرمایا ہے، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو
امن والا حرم بنایا اور اس کو بہت سی خصوصیات سے نوازا۔(فیض القدیر،
جلد 4، صفحہ 51، تحت الحدیث)
2۔حضرت عبداللہ
بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے مروی ہے، میں نے حضور اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقامِ
حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین
زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں
مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ
نکلتا۔(ابن
ماجہ، ج 3، ص 518)
3۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:(فتحِ مکہ کے دن خطبہ دیا اور)اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے
اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس نے آسمان و زمین پیدا کئے گئے، لہٰذا یہ قیامت تک
اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام یعنی(حرمت والا) ہے۔(ابن
ماجہ، ج 3، ص 519)
4۔مالکِ
بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوگا۔(مسند احمد بن
حنبل، جلد 10، صفحہ 85)
5۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر
کرے ،جہنم کی آگ سے دور ہو جاتی ہے۔(اخبار مکہ، جلد 2، صفحہ 311 )اللہ
پاک ہمیں بھی مکہ مکرمہ کی گرمی میں صبر کرنا نصیب فرمائے۔ آمین
6۔حدیث ِپاک میں
ہے:کعبہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ دیکھنا
عبادت ہے۔(فردوس
الاخبار، جلد 1، حدیث2791)
7۔ایک اور روایت
میں ہے:زمزم کی طرف دیکھنا عبادت ہے۔(اخبار مکہ للفاکھی، جلد 2، صفحہ 14)
8۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور
اسی حالت میں اسے حرمین میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے
گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔(مصنف عبد الرزاق، جلد 9، صفحہ 174)
9۔ایک اور روایت
میں ہے:وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔
10۔مکہ مکرمہ
کی ایک فضیلت یہ بھی ہے،حضور اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ میں پیدا ہوئے۔(تفسیر نعیمی، جلد 4، صفحہ 30/31)
مکہ مکرمہ نہایت
برکت اور صاحب اعظم شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور
اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔قرآنِ کریم میں
بھی متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان ہے۔پارہ
30، سورۂ بلد کی پہلی آیت میں ہے:لا اقسم بھذا البلد۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر
کی قسم، یعنی
(مکہ مکرمہ کی)۔
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش)
پیاری بہنو!آئیے
! مکہ مکرمہ کے چند فضائل پڑھئے:
1۔حضور اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا، غیر مکہ
میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔( جمع الجوامع، ج 4، ص 372، حدیث
12589)
2۔مالکِ بحروبر،قاسمِ
کوثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔ (مسند احمد بن
حنبل، ج10، ص 85، حدیث 26109)
3۔حضرت صفیہ
بنتِ شیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:نبیِ
رحمت، شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فتحِ مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و زمین پیدا
کیا، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت
والا)ہے۔(ابن
ماجہ، ج3، ص 519، حدیث 3109)
4۔نبی ِّکریم،
رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔(اخبار
مکہ، ج 2، ص311، حدیث 1565)
5۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور
اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ
حساب ہوگا نہ عذاب۔ایک دوسری روایت میں ہے: وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں
اٹھایا جائے گا۔(عاشقان
رسول کی حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں، ص194)
آمنہ کے مکاں پہ روز و شب بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
6۔حضرت عبداللہ بن عدی رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے، میں نے حضور تاجدارِ رسالت صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقامِ حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے
تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی
قسم! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج
3، ص 518، حدیث 3108)
میں مکے میں جا کر کروں گا طواف اور نصیب آب زمزم مجھے
ہوگا پینا(وسائل بخشش)
7۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے ابو
القاسم محمد رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو خانہ کعبہ کے قصد(یعنی ارادے) سے آیا
اور اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے اس
کےلئے نیکی لکھتا ہے اور خطا مٹاتا ہے اور درجہ بلند فرماتا ہے، یہاں تک کہ جب
کعبہ معظمہ کے پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھرسر
منڈایا یا بال کتروائے تو گناہوں سے ایسا نکل گیا، جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا
ہوا۔(شعب
الایمان، ج3، ص 478، حدیث 4115)
پاک گھر کے طواف والوں پر بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل
بخشش)
8۔رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو بیت اللہ کے طواف کے سات پھیرے
کرے اور اس میں کوئی لغو یعنی بیہودہ بات نہ کرے، تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔(المعجم الکبیر،
ج20، ص360، حدیث 845)
9۔جس نے مکہ
مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور روزہ رکھا اور رات میں جتنا میسر آیا، قیام کیا تو
اللہ پاک اس کے لئے اور جگہ کے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھے گا اور ہر دن ایک غلام
آزاد کرنے کا ثواب اور ہر رات ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر روز جہاد میں
گھوڑے پر سوار کر دینے کا ثواب اور ہر دن میں نیکی اور ہر رات میں نیکی لکھے گا۔(ابن
ماجہ، ج 3، ص 523، حدیث 3117)
10۔حدیثِ پاک
میں ہے:کعبہ معظمہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ
دیکھنا عبادت ہے۔ (اخبار
مکہ لکفاکھی، ج 2، ص 14، حدیث 1105)اللہ کریم ہمیں با ادب حاضریِ مکہ کی
توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مکہ وہ شہر ہے
جس کی تعریف میں قرآنِ مجید رطب اللسان ہے، یہ اپنے اندر آثارِ انبیائےکرام رکھتا
ہے، اسے محبوبِ خدا،سرورِ انبیا صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام علیہم
الرضوان
کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے، یہ مبارک
شہر جو سب شہروں سے افضل ہے ، کئی خصوصیات و فضائل رکھتا ہے، مکہ کے فضائل بیان
کرنے سے قبل اس کی مختصر تاریخ جانتی ہیں:
بلدِ حرام مکہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ لفظ مکہ یا مک یا مکک سے
مشتق ہے اور مَک جذب کرنے اور دھکیلنے کو کہتے ہیں، اسی لئے اس شہر میں لوگ چلنے
اور طواف کرنے میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔(تاریخ
العروس،6/462، شفاء العرام1/154)
ولادتِ
مکہ مکرمہ:
مکہ
کا وجود کس طرح عمل میں آیا؟ اس پر مفسرین کے مختلف اقوال ملتے ہیں:
1۔حضرت عبداللہ
بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:دنیا
کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے مکہ مکرمہ بنایا گیا،
جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں، پھراس کے نیچے زمین پھیلا دی گئی۔(مصنف
عبد الرزاق، تفسیر طبری1/547)
تفسیر ِ کبیر میں ایک روایت ہےکہ مکہ مکرمہ روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے
اور یہ زمین کی ناف ہے،اس لئے اسے ام القریٰ بھی کہا جاتا ہے اور یہ بیت المعمور کا سایہ
ہے۔(معجم
البلدان7/256، تفسیر کبیر3/9)
اس کے علاوہ
بھی قول ملتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ سرزمین دنیا کی تمام زمینوں سے
باعتبارِ پیدائش قدیم ہے۔
نام مکہ:
انگریزی زبان
میں Mecca
کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی
مقام کے لئے استعمال ہوتا ہے، 1980ءکی دہائی میں حکومتِ سعودی عرب نے شہر کا انگریزی
نام Mecca
سے بدل Makkah
کر دیا، اس مقدس شہر اور عظیم شہر کے بہت سے نام ہیں، جو تقریبا 50 ہیں۔(شفاء
الغرام، معجم البلدان)
قرآنِ مجید میں
اس عظیم شہرکو مختلف مقامات پر مختلف ناموں
سے ذکر فرمایا ہے،جیسے مکہ،بکہ،البلد، القریہ،اُم القریٰ،معاد،اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:لا اقسم بہذا البلدمیں
اس بلد کی قسم اٹھاتا ہوں۔(سورۃ البلد، آیت نمبر1)
اسی طرح سورہ
فتح:24 میں مکہ کا ذکر آیا:وہوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ۔اللہ
نے وادیِ مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے۔
بکہ کا ذکر اس آیت میں ملتا ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ
وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ ۔ ترجمہ:لوگوں کے لئے عبادت کی غرض سے
بنایا جانے والا پہلا گھر بکہ میں ہے، جو تمام دنیا کے لیے برکت اور ہدایت والا
ہے۔(سورہ
ٔال عمران، آیت نمبر 96)
مکہ
اور بکہ کےدرمیان فرق:
حضرت علی رضی
اللہ عنہ
سے منقول ہے:بکہ صرف بیت اللہ شریف ہے اور اس کے ماسوائے پورا شہر مکہ ہے، بکہ ہی وہ مقام ہے جہاں طواف کیا جا سکتا ہے، یہی
وجہ ہے کہ طواف صرف حرم کے اندر ہی جائز
ہے، باہر نہیں، کیونکہ باہر کا حصہ مکہ میں شمار ہوتا ہے، یہی قول امام مالک، امام
ابراہیم نخعی، امام عطیہ اور امام مقاتل رحمۃُ
اللہِ علیہم
کا ہے۔(معجم
البلدان8/134، ابن کثیر1/383، تفسیر طبری4/6)الغرض مکہ
مکرمہ کے اور بھی کئی نام ہیں، جیسے نسَّاسَہٗ، حَاطِمہٗ، حرم، صلاح، با سہٗ،
راس،و غیرہ
مکہ
مکرمہ کی ابتدائی آبادی:
اس لق و دق
صحرا کو گلِ گلزار اور چمن دار بنانے والے پہلے انسان حضرت اسماعیل علیہ
السلام
اور حضرت ہاجرہ رضی اللہُ
عنہا
ہیں،جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حکمِ
الٰہی سے اس بے آب و گیاہ ریگستان اور نا ہموار ٹیلہ میں تھوڑا سا پانی اور مشکیزہ
بھر کر پانی دے کر اللہ پاک کے حکم سے
چھوڑ آئے، بیابان ٹیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا، وہی
ہے، جو مکہ شریف میں ہے جو تمام لوگوں کے
لئے بابرکت اور رحمت والا ہے۔(ال عمران:96)
اس آیت سے
معلوم ہوا!حضرت اسماعیل علیہ السلام نے
سب سے پہلے اس مقدس شہر کو آباد کیا،البتہ اطراف واکناف میں قبیلہ جرہم آباد تھا،
جسے بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا
رشتہ ازدواج قائم ہوا۔(ماخوذ
تاریخ مکہ مکرمہ)
فضائلِ
مکہ احادیث کی روشنی میں:
کعبہ کی زمین(باستثنائے
مرقد ِمبارک رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)دنیاو مافیہا سے افضل ہے، جو کعبہ کے
اندر داخل ہوتا ہے، وہ اللہ پاک کی رحمت میں داخل ہوتا ہے اور جو اندر جا کر باہر
آتا ہے، وہ اللہ پاک کی مغفرت لئے ہوئے آتا ہے، اس جگہ کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی
گنا افضل ہے،اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کو جو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ عطا فرمایا،
سب کعبہ کی برکت سے عطا فرمایا، فرمانِ باری ہے:وَمَنْ
دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِناً۔جو اس (حرم) میں داخل ہو
جائے امن والا ہے۔
حضور نبی کریم
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
فرمانِ معظم ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیِر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔اللہ
پاک نے شہر ِمکہ کو یہ خصوصیت بیت اللہ کی وجہ سے دی اور اس شہر مکہ کو اپنے گھر
کے لئے منتخب کر کے اس شہر کی عظمت بڑھا دی۔
2۔ پیارے آقا علیہ
السلام
نے فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔(مسند احمد بن
حنبل، حدیث نمبر 26106)
3۔جو دن کے
کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔
4۔حضرت سعد رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو فرماتے ہوئے سنا :تم میں سے کسی کو یہ جائز نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار
اٹھائے پھرے۔(مسلم
شریف)
5۔شہرِ ِ مکہ
کی خصوصیت و فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
مکہ معظمہ سے فرمایا:تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے، اگر میری
قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔(ترمذی)
6۔حضرت عیاش
بن ابو ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
ارشاد فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس حرمت کی پوری تعظیم کرتی
رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، حالات ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ)
معلوم ہوا !
انسان کی بقا، اتحاد، عزت و وقار مکہ سے وابستہ ہے، اس کی تعظیم مسلمانوں میں کم
ہوگی تو امت افتاد و پریشانی میں گرفتار
ہو جائے گی۔
7۔مسلم و بخاری
کی حدیثِ مبارکہ میں ہے:حج و عمرہ ایک ساتھ کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقرو گناہوں کو مٹاتے ہیں، جیسا
کہ بھٹی سونے، لو ہے اور چاندی سے زنگ ختم کرتی ہے۔
8۔مکہ کی عظمت
اور فضائل کا اندازہ اس سے کریں کہ آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مقدس شہر سے نقل مکانی سے منع فرمایا۔
حضرت ابنِ عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا: ہجرت باقی نہ رہی، لیکن جہاد اور نیت ہے۔(بخاری18/3)
9۔حضرت انس بن
مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:گھر میں آدمی کی نماز ایک نماز کا ثواب رکھتی ہے، محلہ کی مسجد میں نماز
پڑھنے کا ثواب 25 نمازوں کے برابر ہے، جو جامع مسجد میں نماز پڑھے، اسے پانچ سو
نمازوں کا ثواب ملے گا اور جو مسجد اقصیٰ اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی میں نماز
پڑھے، اسے پچاس ہزار کا ثواب ملے گا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ
نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(ابن ماجہ)
10۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس نے بیت اللہ کی زیارت کی، پھر یہاں سے کسی سے جھگڑا، بدزبانی، فساد نہ کیا
تو گناہوں سے اس طرح ہو جاتا ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے، گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔(بخاری)
شہرِ مکہ کی
فضیلت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے: فتحِ مکہ کے دن حضور علیہ السلام نے
فرمایا:اس شہر کو اللہ پاک نے اس دن حرمت
عطا فرمائی، جس دن زمین آسمان کو پیدا فرمایا، یہ اللہ پاک کی حرمت کے باعث تا قیامت
حرام ہے ۔(بخاری)
الغرض کوئی
انسان جس سے محبت کرتا ہے، اس سے پہچانا جاتا ہے،جس طرح انسان نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کرتا ہے، وہ عام انسان نہیں رہتا، بلکہ
وقت کا غوث، قطب ،ابدال بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے مکہ مکرمہ کو عظمت، حرمت اور امان
سب کچھ کعبۃ اللہ، بیت اللہ کی برکت سے ملا ہے ۔
مکہ مکرمہ وہ
مبارک جگہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس میں رہنے کی خواہش فرمائی، مکہ مکرمہ کی رہائش مستحب ہے، کیونکہ اِس میں نیکیاں
اور اطاعتیں بڑھتی ہیں، سلف و خلف آئمہ میں
سے بے شمار حضرات نے مکہ مکرمہ کی رہائش اختیار کی، مکہ مکرمہ میں رہائش کی سب سے
بڑی دلیل یہ ہےکہ رسول الله صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے اس میں رہائش فرمائی اور حضرت بلال رضی
اللہ عنہ
نے اپنے اشعار میں مکہ مکرمہ دوبارہ جانے کی تمنا کی تھی۔(صحیح بخاری،
حدیث نمبر : 3926)
کعبۃ الله
قابلِ احترام گھر ہے، جو مسجد حرام کے درمیان
واقع ہے۔اب مکہ مکرمہ کے 10 فضائل حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں پیش کئے جاتے ہیں:
1۔رسول الله صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اللہ پاک کی
قسم !توالله پاک کی زمین بہترین جگہ ہے اور اللہ پاک کو محبوب ترین ہے، اگر مجھے تجھ سے زبردستی نکالا نہ جاتا تو میں
کبھی نہ نکلتا۔(جامع
ترمذی ، حدیث نمبر 3925)
2 ۔حضرت کعب
بن احبار رحمۃُ
اللہِ علیہ نے
فرمایا:اللہ پاک نے شہروں کو چنا تو سب سے زیادہ بلد حرام کو پسند فرمایا۔ (شعب
الایمان، بیہقی ، حدیث : 3740)
3۔عبدالله بن
عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کی
حدیث ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کو مکہ مکرمہ میں اونٹنی پر سوار حزوره(یہ وہ بازار ہے جو مکہ میں سیدہ
ام ہانی رضی
الله عنہا
کے گھر کے باہر تھا جو کہ بعد میں مسجد ِحرام کی توسیع میں شامل ہو گیا) مقام
پر یہ فرماتے سنا :اللہ پاک کی قسم! تو
اللہ پاک کی زمین میں بہترین جگہ ہےاور
الله پاک کے ہاں محبوب ترین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں
کبھی نہ نکلتا۔(مسند
احمد 4/305)
4۔حضرت جابر رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:میری اس مسجد میں ایک نماز دیگر مساجد میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے، البتہ
مسجد حرام کی ایک نمازایک لاکھ نمازوں سے
بھی بڑھ کر ہے۔(مسند
احمد : 3/ 343، 397)
5۔حضرت عبد
الله بن زبیر رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:کعبہ کو بیتِ عتیق اس لئے کہا گیا ہے، کوئی کافر بادشاہ اس پر قابض نہیں
ہوا۔ (جامع
ترمذی، حدیث نمبر : 3170)
6۔حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا
فرماتی ہیں،میں نے نبی ِّکریم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
سے پوچھا: کیا وجہ ہےکہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا لگایا گیا ہے؟ تو آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تیری قوم (قریش) کا
مقصد یہ تھا کہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔(صحیح
بخاری ، حدیث نمبر : 1584)
7۔ بہت سی
احادیث میں یہ مضمون آیا ہے:قربِ قیامت کعبہ کو شہید کر دیا جائے گا، چنانچہ حضرت ابو
ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:چھوٹی چھوٹی ٹیڑھی پنڈلیوں والا ایک حبشی کعبہ کی عمارت ڈھائے گا۔( صحیح
بخاری ، حدیث نمبر 1591)
8۔حضرت ابنِ
عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول
الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:گویا کہ میں اُس کالے ٹیڑھی پنڈلیوں
والے شخص کو دیکھ رہا ہوں، جو کعبہ کے ایک ایک پتھر اکھاڑ دے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث نمبر :1595)
9۔نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا:ایک لشکر کعبہ پر حملہ کرنے آئے گا تو ان
سب کو مقامِ بیداء پر دھنسا دیا جائے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث 2117)
10۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے، میں نے گزارش کی: اللہ پاک کے رسول! میں بھی کعبہ میں داخل ہونا چاہتی
ہوں تو رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:حجر (حطیم)
میں
داخل ہو جاؤ، یہ بیت اللہ ہی کا حصّہ ہے۔(سنن نسائی ، حدیث نمبر : 2914)
واہ! کیا شان
ہے مکہ مکرمہ کی! الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس مقدس شہر، مقدس جگہوں میں حاضری کے
شرف سے نوازے، اس کا ادب اور احترام کرنے کی توفیق سے نوازے اور ڈھیروں نیکیاں
اکٹھی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین