تاریخ
کے اوراق :
فتحِ مکہ:ہجرت
کے آٹھویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا
کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، اس فتح کا پسِ منظر و سبب کیا تھا اور کیا نتائج
رونما ہوئے، اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیئے۔
رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ کے وہ
لوگ جو آپ کو صادق و امین، محترم، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل
جانتے تھے، یک لخت آپ کے مخالف ہوگئے، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے
میں اپنی سرداریاں کھو جانے کا ڈر ہوا، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسول ِخدا
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
پکار پر لبیک کہہ دیں تو 14 صدیاں بعد تو کیا، قیامت تک صحابی رسول کے عظیم لقب سے
جانے جائیں گے، ہر کلمہ گو انہیں رضی اللہ
عنہم
کہہ کر یاد کرے گا۔
بہر کیف یہ ان
کے نصیب میں ہی نہ تھا، جن کے مقدر میں تھا، انہوں نے لبیک کہا اور پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں
اٹھائیں، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا، جب کفارِمکہ کا ظلم و ستم حد سے
تجاوز کر گیا اور اللہ پاک نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ
ہجرت کر گئے، لیکن افسوس! کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ رہے اور مسلمانوں کو پے در پے
اذیت دیتے رہے، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا، مسلمان مکہ مکرمہ میں بیت
اللہ شریف کی زیارت کیلئے بے قرار تھے، چنانچہ رسولِ کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 1400 صحابہ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔کفارِ مکہ نے پھر
جفا کاری سےکام لیا اور مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا، بالآخر
طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا، جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔
10 رمضان
المبارک 8 ہجری کو نبی اکرم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوگئے، مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو ہتھیار ڈال دے ، اُس کیلئے امان ہے، جو دروازہ
بندکرے ، اس کے لئے امان ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے ، اُس کیلئے امان ہے۔
پھر
آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
کعبہ مقدسہ کو بتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے اور باہر تشریف
لا کر خطبہ ارشاد فرمایا۔
مکہ
مکرمہ کے فضائل تاریخ:
الحمد
لله مکہ مکرمہ نہایت با برکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی
تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو
بھی عبادت ہے، اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجیئے، تاکہ دل میں
ا س کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔
وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا
مدینہ
مكۃ
المكرمہ امن والا شہر ہے:
قرآن ِکریم میں
متعدد مقامات پر مکۃ المکرمہ کا بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ اول سورۃ البقرہ آیت
نمبر 126 میں ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ
اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ
کنز الایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ
1، سورہ بقرہ، آیت 126)
پارہ 30 سورۃ
البلد کی پہلی آیت میں ہے :لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ
کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)۔(خزائن
العرفان، ص1104)
مکۃ
المکرمہ کے دس حروف کی نسبت سے مکے کے دس نام :
اے
عاشقانِ رسول!مکۃ المکرمہ کے بہت سے نام کتابوں میں درج ذیل ہیں، ان میں سے 10 یہ
ہیں۔
(1)البلد(2)البلدالامین(3)البلدہ(4)القریہ(3)القادسیہ(5)البیت
العتیق(1)معاد(8)بکہ(9)الرَّاسُ (10) اُم القری۔ (العقد الثمنين
فی تاريخ البلدالامین، ج1،ص204)
کفارِ قریش سے
ارشاد فرمایا : بولو تم کو کچھ معلوم ہے ؟ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟
کفار آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے:اَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْم۔آپ
کرم والے بھائی اور کرم والےبھائی کے بیٹے ہیں،نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا:لا تثریب علیکم
الیوم فااذھبوا انتم الطلقاء۔آج تم پر کوئی الزام نہیں،جاؤ تم آزاد
ہو۔
بالکل غیر
متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اس
عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آکر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی
بیعت کرنے لگے۔
فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے، اللہ
پاک اپنے حبیب فاتحِ مکہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
کے حسنِ اخلاق کے صدقے ہمیں بھی با اخلاق بنائے اور دنیا و آخرت میں اس خلق عظیم
والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا
سایہ رحمت عطا فرمائے۔آمین
احادیثِ فضائلِ مکہ:
رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی
اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ
قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اُس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب، ایک دوسری روایت میں ہے:بعث نمن الاٰمنین
یوم القیامۃ یعنی
وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا
جائے گا۔
میں مکے میں جاکر کروں گا طواف اور نصیب آبِ زم زم مجھے
ہو گا پینا
الله پاک ہمیں
بار بار ہزار بار پیارے مکے اور میٹھے مدینے کی حاضری نصیب فرمائے۔(آمین)
مکہ مَکٌ سے
بنا ہے، مکہ کا معنی ہلاکت اور سر کچل ڈالنا، کیونکہ اللہ پاک نے کئی بار مکہ معظمہ کے دشمنوں کو ہلاک کیا،
اس لئے اسے مکہ کہتے ہیں، مکہ حجاز کا مشہور شہر ہے، جو مشرق میں جبل ِابو قبیس اور مغرب میں جبلِ قعیقعان کے درمیان واقع
ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت
اسماعیل علیہ السلام اور ان کی
والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو
مکہ مکرمہ میں لاکر شہرِ مکہ آباد کیا، شہرِ مکہ میں آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آبائی وطن اور وحی کے نازل ہونے کی جگہ ہے، مکہ
مکرمہ کے فضائل کی طرح اس کے نام بھی متعدد ہیں:
1۔البلد الامین 2۔القادسیہ 3۔البیت العتیق
4۔معاد 5۔بکہ 6۔ام القری 7۔الراس 8۔القریہ
فضائل
مکہ:
1۔حرم ہونا، پیارے
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و
زمین پیدا کئے، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام ہے۔(ابن
ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3109)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس
شہر پاک کا حرم شریف ہونا صرف اسلام میں نہیں، بلکہ بڑا پرانا مسئلہ ہے، ہر دین میں
یہ جگہ محترم ہے۔(مرآۃ
المناجیح، جلد 4، صفحہ 221)
2۔بہترین زمین:
نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی
ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔(ابن
ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3108)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے
ہیں:جمہور علما کے نزدیک مکہ معظمہ شہر مدینہ سے افضل اور حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو زیادہ پیارا ہے۔(مرآۃ المناجیح،
جلد 4، صفحہ 225)
3۔حرم شریف کی
بے حرمتی مؤجب ہلاکت:نبی کریم صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس کی حرمت کی پوری تعظیم کرتی
رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، ہلاک ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ،
جلد 3، صفحہ 519، ح3110)
4۔ہتھیار
اٹھانا منع ہے: رسول اللہ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نے فرمایا:تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مسلم
شریف، جلد 1، صفحہ 506، ح3307)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ
معظمہ میں کھلے ہتھیار اٹھائے پھر نا کہ مسلمان مرعوب ہوں،حرام ہے، غلاف میں ڈھکے
ہوئے ہتھیار اپنی حفاظت کے لئے اٹھانا درست ہے۔(مرآۃ المناجیح،
جلد 4، صفحہ 223)
5۔حساب سے امن:مصطفے
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی
اور اسی حالت میں سے حرمین(مکہ مدینہ) میں موت آگئی
تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا، نہ عذاب۔(مصنف
عبدالرزاق، جلد 9، صفحہ 174، ح17479)
6۔قیامت کے خوف سے امن:فرمانِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو حرمین میں سے کسی ایک میں مرے گا، اللہ پاک اسے
اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے دن امن والوں سے ہوگا۔(مشکوۃ المصابیح،
جلد 1، صفحہ 241، ح2632)
مفتی احمد یار
خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حرمین
میں مرنے والا قیامت کی بڑی گھبراہٹ جسے فزع اکبر کہتے ہیں، اس سے محفوظ رہے گا،
مگر یہ فوائد فقط مسلمانوں کے لئے ہیں۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ
246)
7۔رمضانِ مکہ
مکرمہ:نبی رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع
الجوامع، جلد 4، صفحہ 372، ح12579)
حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس افضلیت کی وجہ تحریر فرماتے
ہیں:اللہ پاک نے مکے کو اپنے گھر کے لئے
منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم
بنایا۔(فیض
القدیر، جلد 4، صفحہ 51)
8۔جہنم کی آگ
سے دوری: حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی
ہے۔(اخبار
مکہ، جلد 2، صفحہ 311، ح1565)
9۔دگنا اجر:
آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:جو ایک دن مکے میں بیمار ہوجائے، اللہ پاک اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا
فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ (بیمار)
مسافر ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(مرجع الی السابق)
10۔دجال سے
حفاظت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔
(مسند
احمد بن حنبل، جلد 10، صفحہ 85، ح26106)
اے اللہ پاک
ہمیں مقبول حج و عمرہ کی سعادت عطا فرما۔آمین
مکہ مکرمہ نہایت
فضیلت و عظمت والا شہر ہے۔ اسی مبارک شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ کعبہ معظمہ، صفا مروہ، منیٰ،
مزدلفہ، عرفات، غارِ حرا، غارِ ثور جیسے بابرکت مقامات بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔
مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجۃ الحرام کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان حج
کیلئے آتے ہیں۔
(سیرتِ مصطفیٰ ، ص41 ملتقطا)
جب حضرت ابراہیم
علیہ
السلام
اللہ پاک کے حکم سے اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور
بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کو اس سرزمین
میں،جہاں اب مکہ مکرمہ ہے، چھوڑ کر تشریف لے گئے تو اس وقت یہاں نہ کوئی آبادی تھی،
نہ کوئی چشمہ، نہ پانی۔ جب ان کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور پیاس کی شدت ہوئی
اور صاحب زادے کا حلق شریف بھی پیاس سے خشک ہوگیا تو آپ پانی کی جستجو یا آبادی کی
تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان سات بار دوڑیں اور اللہ پاک کے حکم سے اس خشک زمین
میں ایک چشمہ(زم
زم)
نمودار ہوا۔ بعد ازاں جُرْہَم نامی ایک قبیلے نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرندہ دیکھا
تو انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا! جستجو کی تو دیکھا کہ زم زم شریف میں
پانی ہے !یہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا سے وہاں بسنے
کی اجازت چاہی،انہوں نے اس شرط پر اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہوگا۔چنانچہ
وہ لوگ وہاں بسے اور اس طرح شہرِ مکہ میں آبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ (تفسیر
صراط الجنان، ابرٰھیم، تحت الآیۃ:37 ملتقطا)
احادیثِ
مبارکہ کی روشنی میں اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرمائیے تاکہ دل میں
اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو:
1:”اے لوگو!
اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنادیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہٰذا
یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت
والا)ہے۔“
(ابن
ماجہ،3/519،حدیث:3109)
2:”یہ امت ہمیشہ
خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حُرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع
کر دیں گے ہلاک ہو جائیں گے۔“(ابن ماجہ، 3/519، حدیث :3110)
3:”تم میں سے
کسی کیلئے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔“ (مسلم،1/506،حدیث:3307)
4:”اللہ پاک کی
قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں
مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ
نکلتا۔“
(ابن
ماجہ،3/518، حدیث:3108)
شارحِ بخاری
مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ
اللہِ علیہ
اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت تک مدینۂ طیبہ
حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے
مشرف نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے افضل تھا مگر جب حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینۂ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔ (نزہۃ
القاری،2/711)
راجح یہی ہے کہ مکہ عمومی طور پر مدینہ سے
افضل ہے۔
کیونکر نہ ہو مکے سے سوا شانِ مدینہ وہ جبکہ ہوا مسکنِ سلطانِ مدینہ
مکے کو شرف ہے تو مدینے کے سبب سے اس واسطے مکہ بھی ہے
قربانِ مدینہ
5:”مکے میں
رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔“
(جمع
الجوامع،4/372،حدیث:12589)
6:”مکے اور مدینے
میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔“(مسند امام احمد،10/85،حدیث:26106)
7:”جو دن کے
کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہوجاتی ہے۔“
(اخبار
مکہ،2/311،حدیث:1556)
8:”جو ایک دن
مکے میں بیمار ہوجائے اللہ پاک اس کیلئے اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا فرماتا ہے جو
وہ سات سال سے کررہا ہوتا ہے(لیکن بیماری کی وجہ سے نہ کرسکتا ہو)اور
اگر وہ(بیمار)مسافر
ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔“ (اخبار مکہ ،2/311،حدیث:1556)
9:”جس کی حج یا
عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی
تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔“
(مصنف
عبدالرزاق، ٩ /174،حدیث:17479)
10:”جو حرمین(یعنی
مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے حرم)میں سے کسی ایک میں مرے گا وہ قیامت کے
دن امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔“ (جواہر البحار،4/29)
اللہ پاک ہمیں
مکہ مکرمہ کی باادب باذوق حاضری نصیب فرمائے اور مقبول حج و عمرے کی سعادت سے مشرف
فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلم
حدیثِ پاک میں ہے: کعبہ
معظمہ بیت المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، 2/427،حدیث:3366)
ارشاد
باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا
گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے۔(آل
عمران:96)حضرت
عبداللہ بن عباس رضی
اللہ عنہما
سے روایت ہے: دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے
مکہ مکرمہ بنایا گیا، جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں،پھر زمین اس کے نیچے
سے پھیلا دی گئی۔(مصنف
عبد الرزاق5/ 92-تفسیر طبری1/547) تفسیر کبیر میں ہے: مکہ مکرمہ
روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے، اس لئے اسے ام القریٰ بھی
کہتے ہیں اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے۔ (معجم البلدان7/256، تفسیر
کبیر3/9)قرآن
پاک میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان آیا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض
کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت
126)مکہ
مکرمہ میں مسجد الحرام کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد
فرمایا:اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں بھی ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔(
بقرہ: 144)اور
اس میں موجود مقام ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا: ترجمۂ
کنزالعرفان:اور (اے
مسلمانو)
تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(البقرہ: 125)اور
لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:ترجمہ کنزالعرفان:اور اللہ
کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(آل
عمران:97)اور
خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:ترجمہ ٔکنزالعرفان:اور یاد کرو جب ہم نے اس
گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔(بقرہ:125)پارہ 30، سورۃ البلد کی
پہلی آیت میں ارشاد فرمایا:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)(خزائن
العرفان، صفحہ1104)حضور نبی کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ
میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع الجوامع،جلد 4، صفحہ 472، حدیث12589)مالکِ
بحروبر، قاسمِ کوثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:یعنی مکے اور مدینے میں دجّال نہیں ہو سکے گا۔( مسند احمد بن حنبل جلد
10، صفحہ 85، حدیث26106)حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو
دیکھا کہ آپ مقام حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں
بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین
میں سے مجھے زیادہ پیاری ہے،اللہ پاک کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جات تو
میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ،3/518، حدیث3108) شارح بخاری مفتی شریف
الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت نزہۃالقاری
میں لکھتے ہیں :یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت مدینہ طیبہ حضور اقدس صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے مشرف نہیں ہوا تھا،اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے
افضل تھا، مگر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ
طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔(نزھۃ القاری، جلد 2، صفحہ 711)حضرت
عبداللہ رضی
اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے
فرمایا:اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔(تالی تلخیص2:365، رقم
221)حضرت
انس بن مالک
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور نبی
اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مسجد اقصی اور میری مسجد میں نماز
پڑھے، اسے پانچ ہزار نمازوں کا اور مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ نمازوں
کا ثواب ملتا ہے۔بیشک یہاں سے کوئی محروم نہیں لوٹتا، مگر یہ بھی یاد رہے! وہاں
ایک گناہ بھی ایک لاکھ گناہ ہے۔اللہ پاک ہم سب کو فرض علوم سیکھ کر میٹھا میٹھا
مکہ اور مدینہ کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریمصلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
2 جولائی 2022ء بروز ہفتہ شعبہ مدنی قافلہ دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتما م پاکستان کے
شہر اسلام آبا دمیں ایک تربیتی نشست کا
انعقاد کیا گیا جس میں مدرسۃ المدینہ
اسلام آباد اور راولپنڈی ڈویژن کے ناظمین نے شرکت کی۔
اس تربیتی نشست میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نعمان
عطاری نے دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے 3 دن، 12 دن، ایک ماہ اور 12
ماہ کے مدنی قافلے میں سفر کرنےکا ذہن دیاجس ناظمین نے اپنے آپ کو ملک و بیرونِ
ملک مدنی قافلے میں سفر کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:بدر منیر عطاری شعبہ مدنی قافلہ سوشل میڈیا پنجاب، کانٹینٹ:غیاث
الدین عطاری)
شعبہ رابطہ بالعلماء دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے
دنوں سرکاری ڈویژن گوجرانوالہ کے ذمہ دار
محمد ظہیر عباس عطاری مدنی کی صاحبزادہ
پروفیسر سیّد ریاض حسین شاہ صاحب (شیخ الحدیث مانچسٹر مسلم
کالج یوکے، مہتمم الجامعۃالاسلامیہ اسرار
العلوم باگڑیانوالہ ضلع گجرات) سے
ملاقات ہوئی۔
اس موقع پر ذمہ دار نے انہیں دعوتِ
اسلامی کے بیرون ممالک میں ہونے والے دینی کاموں کے حوالے سے آگاہ کیا اور مدنی
مرکز فیضانِ مدینہ گوجرانوالہ کا وزٹ کرنے کی دعوت دی نیز ماہنامہ فیضان مدینہ تحفے میں پیش کیا۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے تحت ہالہ ناکہ قادر ایونیو میں قائم مدرسۃ المدینہ برائے نابینا افراد میں مدنی
قافلہ سفر پر روانہ ہوا جس میں صوبائی ذمہ دار اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ عابد حسین
عطاری، ڈویژن ذمہ دار اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ وقار حسین عطاری سمیت اسپیشل پرسنز نے شرکت کی۔
اس مدنی قافلے میں اسپیشل پرسنز نے دیگر اسلامی بھائیوں کے ہمراہ علاقے میں دکان دکان جاکر عاشقانِ رسول کو نیکی
کی دعوت پیش کی نیز اسپیشل پرسنز کی تربیت کے لئے عملی طور پر نماز کی مشق کروائی۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ،
کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
یوں تو مدینہ
منورہ کو تمام شہروں پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی
عزت و عظمت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃ الرسول ہے، ہجرت گاہِ کو نین ہے اور اسے رسولِ
کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے
نسبت حاصل ہے اور اسی مقدس شہر میں حضور آرام فرما ہیں۔
ہم
کو پیارا ہے مدینہ اس لئے کہ رہتے ہیں اس
میں شاہِ بحرو بر میٹھا مدینہ مرحبا
یثرب
سے مدینہ:
مدینہ منورہ
کا پرانا نام یثرب تھا جو ثَبَرَّب،ثَرَابَ اور اَثْرَبَ سے
بنا ہے،یہاں کی آب وہوا ایسی تھی کہ اگر تندرست آئے تو بیمار ہو جاتا تھا، لیکن جب
اس جگہ کو سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی
قدم بوسی کا شرف ملا تو یہ مدینہ منورہ بن گیا، اب یہاں کی مٹی میں بھی الله پاک نے شفا رکھ دی۔چنانچہ فرمانِ مصطفٰے ہے:اس
ذات کی قسم!جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،بیشک خاکِ مدینہ ہر بیماری سے شفا
ہے۔
(الترغيب
والترهيب، ج 2، ص 122، حدیث 1885)
جن
کے آنے سے یثرب مدینہ بنا اُس
قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
شہر
نبوی کے 10 فضائل حدیث کی روشنی میں:
1۔پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جو شخص مدینے میں رہائش اختیار کرے
گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اُس کی گواہی دوں گا اور
اس کی شفاعت کروں گا۔(مشكاۃ المصابیح، حدیث 2755)
2۔اس محبوب
شہر کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمیوں
دعا فرماتے:اے اللہ پاک! ہمارے لئے مدینہ کو اتنا ہی محبوب کردے، جتنا مکہ کو کیا
تھا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔(بخاری شریف، ج1، میں 253)
3۔سرکارِ مدینہ
صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان
ہے:المدينۃ
معلقۃ بالجنۃ۔یعنی
مدینہ منورہ جنت میں داخل ہے۔(کتاب البلدان، ص23)
4۔مدینہ طیبہ
کے پھل بھی باعثِ شفا ہیں،حضور سیّد العالمین صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جو شخص سات عدد عجوہ کھجور نہار
منہ کھائے، اس پر زہر اور جادو اثر نہ کرے گا۔(جذب القلوب،
ص31)
5۔حضرت انس رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے
دعافرمائی:اے اللہ پاک! مکہ معظمہ کی بنسبت مدینہ طیبہ میں دو چند (دو
گنی)
برکت عطا فرما۔(بخاری
شریف، ج 1، ص 253)
6۔حضور علیہ
الصلوۃ والسلام
نے فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی،اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی،
کتاب الحج ، حدیث 2669)
7۔حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں
مرے تو مد ینے ہی میں مرے،کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،کتاب
المناقب، باب فی فضل المدینہ، حدیث 3943)
8۔فرمانِ مصطفٰے:خاکِ
مدینہ میں جذام سے شفا ہے۔(جامع صغیر، حدیث 5754)
9۔سرکار علیہ
الصلوۃ والسلام
مدینہ کا گرد و غبار اپنے چہرہ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم
الرضوان
کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے: خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب
القلوب، ص 22)
10۔پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:خاکِ مدینہ جذام(کوڑھ)کو
اچھا کر دیتی ہے۔(جامع
صغیر، ص355)
نہ
ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اُٹھا
لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے
مدینے شریف کا
ذکرِ خیر ہوتے ہی عاشقانِ رسول، مدینے کے عاشقوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھتے، چہرے
پر مسکراہٹ آجاتی ہے،جس پیارے آقا صلی اللہُ علیہ
واٰلہٖ وسلمسے
ہم بے پناہ محبت کرتے ہیں، خود وہ آقا کریم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے سے بہت محبت کرتے ہیں، لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا
یہ ہے کہ مدینے کے کوچہ وبازار، گلشن و صحرا ، درو دیوار ، اس کے پھول حتٰی کہ
کانٹے کی محبت بھی دل میں بسائے رکھیں۔ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے دل وجان کو
سکون دیتا ہے، مدینے کے عشاق اس کی جدائی میں تڑپتے اور اشک بہاتے ہیں۔ الله پاک
ہمیں بھی مدینے کی محبت اور اس کی جدائی میں تڑپنا نصیب فرمائے۔اللہ پاک ہمیں مدینہ
طیبہ میں ایمان کے ساتھ موت اور بقیع مبارک میں خیر کے ساتھ مدفن نصیب فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
ہے
یہی عطار کی حاجت مدینے میں مرے ہو
عنایت سیدا ، یا غوثِ اعظم دستگیر
اللہ پاک نے
اس کائنات رنگ و بُو میں بعض انسانوں کو دوسروں سے
افضل و برتر بنایا ہے،ایسے ہی انبیاعلیہم السلام کو دوسرے
تمام انسانوں پر فضیلت بخشی اور پھر انسانوں میں سے علما، صلحا، اتقیا، عابدین اور
زاہدین کو بقیہ تمام لوگوں پر فضیلت بخشی۔لیکن فضیلت و برتری ایک ایسی چیز ہے جس
کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں،بلکہ نوعِ انسان سے متجاوز ہوکر حیوانات،نباتات،مقاماتِ
امکنہ تک پہنچتا ہے،ایسے ہی اللہ پاک نے مقامات و امکنہ میں سے بعض مخصوص و مقدس
مقامات کو دوسرے بعض پر فوقیت بخشی ہے، ان مقدس مقامات میں سے ایک دار ہجرتِ نبی بھی
ہے۔یہ مبارک زمین بہت سے فضائل و مناقب کی حامل ہے، حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ سے اتنی محبت تھی کہ مدینہ کو قابلِ
احترام قرار دے دیا۔
حضرت سعد سے روایت
ہے،انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
ارشاد ہے:میں حرم قرار دیتا ہوں اس علاقے کوجو مدینہ کی دو پہاڑوں کے درمیان ہے،
کہ اس کے خار دار درختوں کو کاٹا جائے یا اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔(مصنف
ابن ابی شیبہ، باب مساحۃ حرم المدینہ7/295)
مدینہ میں
مرنے والوں کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
بشارت دی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ
جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب
الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)
طیبہ
میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی
سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے
حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام
راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619،
حدیث 1880)
نبیِّ مکرم، نورِ
مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا
فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی
ہے نہ کوئی راستہ، مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔
(مسلم
شریف ، ص 714، حدیث 1378)
اللہ پاک نے
اس کا نام طابہ رکھا۔روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی
مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں۔ بعض علمانے 100
تحریر کئے ہیں۔
حضور صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے واپس آتے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر زیادتی
ِشوق سے اپنی سواری تیز کردیتے۔
حضور صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمیہاں
کاگردوغبار اپنے چہرہ ٔانور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم
الرضوان کو
بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب
القلوب ،صفحہ22)
مسجدِ نبوی میں
ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر
ہے۔(ابن
ماجہ، ج 2، ص 176، حدیث 1413)
قیامت کے قریب تمام اہلِ ایمان دنیا کے گوشے
گوشے سے سمٹ کر مدینہ آ جائیں گے۔روایت ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہسے،فرماتے
ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایمان
سمٹ کر اس طرح مدینہ آ جائے گا جس طرح سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(بخاری،
باب الایمان بارز الی المدینہ1/252)
مدینہ
منورہ کے 10 فضائل احادیث کی روشنی میں از بنت فخر الدین، رحیم یارخان
مدینہ منورہ
کے فضائل و برکات کے کیا کہنے!سبحن اللہ !یہ تو محبوبِ خدا، محمد ِ مصطفٰے صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا شہر ہے، یہ شہر ایسا شہر ہے جو ہمیشہ آباد رہے
گا، کبھی بھی ویران نہ ہو گا، اگر کوئی قوم یا جماعت اسے چھوڑ جائے تو دوسری جماعت
اسے آباد کرے گی، بہت سے عاشقِ مدینہ ایسے ہیں، جو یہاں آباد ہونے کی آرزو کرتے ہیں
اور کتنے ہی ایسے ہیں، جن کے سینے میں وہاں کی تڑپ ہے۔
آرزو
ہے سینے میں گھر بنے مدینے میں ہو
کرم جو بندے پر بندہ پروری ہو گی
یثرب
سے مدینہ نام ہونے کی وجہ:
نبیِّ پاک ،
رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنےفرمایا:میں
اس مدینہ کے گوشوں کو حرم بناتا ہوں، تب سے یہ سرزمین حرمِ مدینہ بن گئی، جو پہلے
عظمت والی نہ تھی، بلکہ لوگ اس سے گھبراتے تھے، یہ وباؤں کی جگہ تھی، اس جگہ پر
وباؤں کی کثرت کی وجہ سے اس کا نام بھی یثرب (یعنی بلاؤں
کا گھر)تھا،
مگر اب اسے یثرب کہنا سخت منع ہے، جو بھی اسے ایک بار یثرب کہے تو وہ توبہ کرے اور
بطورِ کفارہ اسے دس بار مدینہ کہنا چاہئے۔
مدینہ
منورہ کے نام:
مدینہ منورہ
کے سو سے بھی زیادہ نام ہیں: طیبہ، طابہ، بطحا، مدینہ اور ابطح وغیرہ، لوحِ محفوظ
میں مدینہ منورہ کا نام طابہ، طیبہ ہے۔ نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:اللہ پاک نے مدینہ منورہ کا نام طابہ رکھا، جس کے معنی پاک و صاف اور
خوشبودار جگہ۔ اس مقدس شہر کو اللہ پاک نے کفر و شرک سے پاک کیا اور یہاں کے رہنے
والوں کے اخلاق و عادات بھی بہت اعلیٰٰ ہیں۔ مدینہ منورہ تمام شہروں سے افضل ہے۔
اس شہر کے لئے نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یہ دعا بھی فرمائی:یا اللہ پاک! ہمیں مدینہ ایسا
پیارا کردے، جیسا مکہ تھا یا اس سے بھی زیادہ پیارا اور اسے صحت بخش اور یہاں برکت
دے اور یہاں کے بخار کو حجفہ میں منتقل کر دے۔چنانچہ نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکی
تمام دعائیں قبول ہوئیں، چنانچہ آج ہر مسلمان کو مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کے مقابلے
میں زیادہ پیارا ہے اور مدینہ کی آب و ہوا صحت بخش ہے، حتی کہ وہاں کی خاک ”خاکِ
شفا “کہلاتی ہے، وہاں کی روزی میں برکت ہے۔
احادیث
کی روشنی میں شہرِ نبی کے دس فضائل:
پیاری
بہنو! آئیے!حدیث کی روشنی میں شہرِ نبی کے فضائل ملاحظہ کیجئے:
1۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،رسول
اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مدینہ کی تکلیف اور شدت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے ، قیامت کے دن
میں اس کا شفیع ہوں گا۔(مسلم شریف ، ص 716، حدیث 1378)
2۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،
رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کاحکم ہوا،جو
تمام بستیوں کو کھا جائےگی(سب پر غالب آئے گی) لوگ
اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے(یہ بستی) لوگوں کو اس
طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری،ص
617، حدیث 1379)
3۔رسول اللہ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ کے راستوں پر فرشتے پہرا دیتے ہیں،
اس میں نہ دجال آئے گا نہ ہی طاعون۔(مسلم
شریف ، ص 716، حدیث 1379)
4۔حضرت سعد رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے، اگر جانتے۔مدینہ کو جو بطورِ اعراض چھوڑے،اللہ
پاک اس کے بدلے میں اسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر
جو ثابت قدم رہے روزِ قیامت میں اس کا شفیع یاشہید ہوں گا۔(مسلم شریف ،
ص 809، حدیث 1363)
5۔حضرت ابنِ
عمر رضی اللہ عنہماسے مروی
ہے،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ
جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا ۔(جامع ترمذی،
ج 5، ص 483، حدیث 3943)
6۔حضرت انس رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے، نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے
تو اپنی سواری کو تیز فرما دیتے، اگر گھوڑے پر ہوتے تو ایڑی لگا دیتے، اس کی محبت
کی وجہ سے۔(مراۃ
المناجیح، جلد 4،ص255، حدیث2622)یعنی آپ صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ اتنا پیارا تھا کہ ہر سفر سے واپسی میں یوں
تو معمولی رفتار پر جانور چلاتے، مگر مدینہ پاک کو دیکھتے ہی وہاں جلد پہنچ جانے
کے لئے سواری تیز فرمادیتے تھے۔
7۔حضرت ابوبکرہ رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے ، نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ میں مسیح دجال کا رعب نہ آ سکے گا،
اس دن مدینے کے سات دروازے ہوں گے اور ہر دروازے پر دو فرشتے۔(مراۃ
المناجیح، جلد 4،ص260، حدیث2631)
8۔حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،نبیِّ
پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اسلام کی بستیوں سے آخری بستی پر جو ویران
ہو گی،وہ مدینہ پاک ہے۔(مرآۃ
المناجیح، جلد 4،ص209، حدیث2629، ترمذی شریف)
اس حدیث میں دو باتیں بیان ہوئی ہیں:ایک یہ کہ قربِ
قیامت بڑی بڑی بستیاں ویران ہوجائیں گی، مگر مدینہ منورہ آباد رہے گا، دوسری یہ کہ
عالم کی آبادی مدینہ پاک کی آبادی سے وابستہ ہے، جب یہ اجڑ گیا تو دنیا اجڑ جائے گی،
قیامت آجائے گی۔
9۔حضرت سعد رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے ، نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو اہلِ مدینہ والوں کے ساتھ برائی کا
ارادہ کرے گا، اللہ پاک اسے آگ میں اس طرح پگھلائے گا، جیسے سیسہ یا اس طرح جیسے پانی میں نمک گھلتا ہے۔(مسلم شریف ، ص 710، حدیث 1363)
10۔حضرت انس رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے ،نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے سامنے احد چمکا تو فرمایا:یہ پہاڑ ہم سے محبت
کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔یقیناً حضر ت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو
حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں ۔(مرآۃ
المناجیح، جلد 4،ص255، حدیث2623)
اے عاشقانِ مدینہ!ہمیں
مدینے کی محبت کو اپنے سینوں میں بسانا چاہئے،عشقِ مدینہ میں ڈوب کر مدینے جانے کی
آرزو کرنی چاہئے اور جس کو مدینے کی حاضری کی سعادت نصیب ہو تو اسے چاہئے کہ وہاں
کا ادب کرے، مدینے کی گلیوں میں تھوکنے اور کچرا وغیرہ ڈالنے سے گریز کریں۔اللہ
پاک ہم سب کو مدینے کی حاضری نصیب فرمائے اور وہاں کی چیزوں کا ادب کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین
پچھلے دنوں اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی
کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے سندھ لطیف
آباد نمبر 8 میں قائم سحر شکیل ویلفیئر فاؤنڈیشن کا وزٹ کیا جہاں انہوں نے اسٹاف سے ملاقات کی۔
اس دوران وقار حسین عطاری (حیدر آباد ڈویژن ذمہ دار) اور شرافت
علی عطاری (صوبائی ذمہ دار برائےنابینا افراد) نے
اسٹاف کو اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ دعوت
اسلامی کا تعارف پیش کیا اور جامعۃ المدینہ برائے نابینا کے داخلوں کے حوالے سے
مشاورت کی نیز انہیں 12 دینی کاموں میں شرکت کرنے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں
کا اظہار کیا۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری
اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)
مدینہ پاک یہ
تو وہ شہر ہے، جس کو ربّ کریم نے محبوب صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے لئے پسند فرمایا، اس کی فضیلت کے لئے اتنا ہی کافی
ہے کہ پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اس
مبارک شہر میں مزارہے۔
یثرب
سے مدینہ:
ہمارے پیارے
نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی کیا
شان ہے کہ جس چیز کو آپ نواز دیں، وہ چیز شرف و بزرگی والی ہو جاتی ہے،اسی طرح مدینہ
پاک بھی نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اس
کی طرف ہجرت سے قبل یہ یثرب کہلاتا تھا، لیکن جب نبیِّ پاک صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلماس
کی طرف ہجرت کر کے تشریف لائے، آپ صلی اللہُ
علیہ واٰلہٖ وسلمکے
قدم مبارک اس میں پڑے، جب سے یہ مدینہ بن گیا اور جو مدینہ کو یثرب کہے، اس پر
توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔(مسند امام
احمد، مسندالکونین، ح40914)
جب
سے قدم پڑے ہیں رسالتِ مآب کے جنت
بنا ہوا ہے مدینہ حضور کا
1۔دعائے
مصطفٰے:
جب آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہجرت کر کے مدینہ میں تشریف لائے اور یہاں کی آب و
ہوا صحابہ کرام علیہم الرضوان کو
ناموافق ہوئی کہ پیشتر یہاں وبائی بیماریاں بکثرت ہوتیں تو اس وقت نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کے لئے دعا فرمائی:یا اللہ پاک! تو مدینہ کو
ہمارا محبوب بنا دےجیسے ہم کو مکہ محبوب ہے، بلکہ اس سے زیادہ اور اس کی آب و ہوا
کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار
کو منتقل کرکے حجفہ میں بھیج دے۔(صحیح مسلم، کتاب الحج، باب سکنی المدینہ۔الخ،ص715،
ح1374)
2۔اور ایک حدیث
میں ہے:نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے
دعا فرمائی:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں،اس سے دوگنی برکتیں مدینہ
میں نازل فرما۔(بخاری،
کتاب فضائل المدینہ11، باب1/625، ح1885)
3۔حرم
اور امن کا گہوارہ:
پیارے نبی صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنے دستِ اقدس سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے
فرمایا:بے شک یہ حرم ہے اور امن کا گہوارہ ہے۔(معجم الکبیر،
باب السین،سیرین عمرو عن سہل بن حنیف،6/92،ح5611)
4۔شفاعتِ
مصطفٰے:
رسولِ اکرم صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینہ کی تکلیف اور شدت پر میری
امت میں سے جو کوئی صبر کرے،قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(صحیح
مسلم، باب الحج، الترغیب فی سکنی المدینہ۔الخ،ص716، ح1378)
5۔فرشتوں
کا پہرہ:
پیارے آقا صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کے راستوں پر فرشتے(پہرہ
دیتے ہیں)اس
میں نہ دجال آئے نہ طاعون ۔(صحیح مسلم، باب الحج، باب میانۃ المدینہ
من الدخول الطاعون۔الخ،ص716، ح1379)
6۔جنت
کے باغوں میں سے ایک باغ :
فرمانِ مصطفٰے:میرے
گھر اور میرے منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
(بخاری،
کتاب فضل الصلاۃ فی مسجدمکۃ المدینہ، باب فضل ما بین القبر والمنبر1/452، ح1195)
سبحان اللہ!یہ
جگہ مدینہ پاک میں ہے۔
7۔مدینے
کا نام طابہ:
نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ
رکھا ہے۔(مسلم،
کتاب الحج، باب المدینہ تنفی شرارہا، ص717، ح491(1385)
8۔لوگوں
کو پاک صاف کرنے والی بستی:
نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت)
کاحکم ہوا،جو تمام بستیوں کو کھا جائےگی(سب پر غالب آئے گی)لوگ
اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے،(یہ بستی) لوگوں کو اس
طرح پاک وصاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری،
کتاب فضائل المدینہ، باب فضل المدینہ،ج 1،ص 617، حدیث 1871)
9۔حرم
قرار دیا گیا:
نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ منورہ کو دونوں پتھریلے کناروں کے
درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرام قرار دیا گیا ہے۔(بخاری، کتاب
فضائل المدینہ، باب حرم المدینہ، 1/616، ح1869)
10۔مدینے
پاک میں مرنے کی فضیلت:
نبیِّ پاک صلی
اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جس کو مدینے میں موت آ سکے، اسے مدینے ہی
میں مرنا چاہئے، کیونکہ میں یہاں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا ۔(ترمذی،
کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، ج 5، ص 483، حدیث 3943)
سبحن اللہ!کیا
بات ہے مدینے کی!اتنی فضیلتوں والا شہر ہے، اسی لئے تو عاشقانِ رسول،غمِ مدینہ
میں آنسو بہاتے، تڑپتے اور اس میں مرنے کی دعا کرتے ہیں۔اللہ پاک ہمیں بھی مدینہ
پاک کی بار بار حاضری اور مدینہ پاک میں شہادت والی موت عطا فرمائے۔آمین