صور پر ایمان

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت فیاض عطاریہ مدنیہ،  ناظم آباد کراچی

جب قیامت کی تمام نشانیاں پوری ہو جائیں گی تو اللہ پاک کے حکم سے صور پھونکا جائے گا، صور حق ہے اور اس پر ایمان رکھنا لازم ہے، قرآنِ پاک کی کئی آیات میں صور پھونکے جانے کا تذکرہ موجود ہے۔ مثلاً وَ نُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ مَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُ١ؕ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰى فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ0(پ24،الزمر:68)ترجمہ:اور صُور میں پھونک ماری جائے گی تو جتنے آسمانوں میں ہیں اور جتنے زمین میں ہیں سب بیہوش ہو جائیں گے مگر جسے اللہ چاہے پھر اس میں دوسری بار پھونک ماری جائے گی تواسی وقت وہ دیکھتے ہوئے کھڑے ہوجائیں گے۔

صور کیا ہے؟

فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: صور ایک سینگ ہے جس میں پھونکا جائے گا۔([i]) ایک روایت میں ہے کہ صور کا دائرہ زمین و آسمان کی چوڑائی جیسا ہے۔ (2)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صور سینگ کے اس بگل کا نام ہے جو قیامت میں پھونکا جائے گا۔ اس صور کی بڑائی اس کی آواز کی ہیبت ہمارے خیال و وہم سے ورا ہے۔ آج ایٹم بم اور چیخنے والے بم کی آواز ہی لوگوں کو مار دیتی ہے، بستیوں میں زلزلے ڈال دیتی ہے، وہ تو صور ہے۔(3)

صور کون پھونکے گا؟

امام قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :امام ترمذی اور دیگر محدثین رحمۃ اللہ علیہم کی روایت کردہ اَحادیث سے پتا چلتا ہے کہ صاحبِ صور صرف حضرت اسرافیل علیہ السلام ہیں اور وہی اکیلے صور پھونکیں گے جبکہ ابنِ ماجہ کی ایک روایت کے مطابق حضرت اِسرافیل علیہ السلام کےساتھ صور پھونکنے میں ایک اور فرشتہ بھی شریک ہو گا۔ (4) نیز یہ بھی مروی ہے کہ جب حضرت اسرافیل علیہ السّلام صور پھونکیں گے اس وقت جبریل و میکائیل بھی ان کے پاس موجود ہوں گے۔ چنانچہ ایسی ہی ایک روایت کی شرح میں حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جس وقت حضرت اسرافیل صور پھونکیں گے اس وقت جبریل آپ کے داہنے ہاتھ کی طرف ہوں گے اور میکائیل بائیں طرف، اس حالت میں آپ صور پھونکیں گے اس کی وجہ رب کریم ہی جانے۔(5)

صور کب پھونکا جائے گا؟

صور قیامت کی تمام نشانیوں میں سب سے آخری نشانی ہے، اس کے فوراً بعد قیامت قائم ہو جائے گی، لہٰذا اس کا یقینی علم تو اللہ پاک کو ہی ہے کہ صور کب پھونکا جائے گا، بہرحال اتنا یاد رکھنا چاہئے کہ ایک روایت میں ہے: صور پھونکنے والا فرشتہ بگل منہ میں لے چکا ہے، اپنے سر کو جھکا چکا ہے اور کان لگا کر اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ کب اسے حکم ہو اور وہ صور پھونکے۔ (6)البتہ! یہ کس دن پھونکا جائے گا، اس کے متعلق غیب جاننے والے ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ تمہارے دنوں میں سب سے افضل دن جمعہ ہے، اسی دن حضرت آدم پیدا ہوئے ، اِسی میں ان کی روحِ مبارکہ قبض کی گئی، اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن ہلاکت طاری ہوگی۔(7)

پہلا صور پھونکنے کے وقت کیا ہو گا؟

لوگ اپنے کام کاج میں مصروف ہوں گے کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کو صور پھو نکنے کا حکم ہو گا، شروع میں اس کی آواز بہت باریک ہو گی، پھر بہت بلند ہوتی جائے گی، لوگ کان لگا کر سنیں گے اور بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے اور مر جائیں گے، یہاں تک کہ ہر شے فنا ہو جائے گی، اُس وقت سوا اُس واحدِ حقیقی کے کوئی نہ ہو گا، وہ فرمائے گا:لِمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَؕ (پ24، المؤمن:16) ترجمہ: آج کس کی بادشاہی ہے؟ کہاں ہیں جبارین و متکبرین؟ مگر ہے کون جو جواب دے! پھر خود ہی فرمائے گا: لِلّٰهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ0(پ 24، المؤمن:16)ترجمہ: ایک اللہ کی جو سب پر غا لب ہے۔(8)

کیا صور پھونکے جانے کے بعد بھی کوئی زندہ رہےگا؟

پہلی مرتبہ صور پھونکنے کے بعد جسے اللہ پاک چاہے گا اسے موت نہ آئے گی۔ اس کے متعلق یہ چار اقوال مروی ہیں:

1-حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہما کے نزدیک جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل علیہم السلام کے علاوہ تمام آسمان اور زمین والے مر جائیں گے۔(9) اس کی وضاحت احیاء العلوم میں کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ صور پھونکے جانے کے بعد اللہ پاک کے حکم سے حضرت جبریل، میکائیل، اسرافیل اور عزرائیل زندہ رہیں گے پھر اللہ پاک کے حکم سے حضرت عزرائیل یعنی ملک الموت علیہ السّلام پہلے جبریل کی روح قبض کریں گے پھر میکائیل کی اور پھر اسرافیل کی، اس کے بعد اللہ پاک عزرائیل کو مرنے کا حکم فرمائے گا تو وہ بھی مر جائیں گے۔ (10)

2-تفسیر قرطبی میں ہے کہ پہلے نفخہ سے جن لوگوں کو موت نہ آئے گی، ان سے مراد وہ شہدا ہیں جو اپنی تلواریں لٹکائے عرش کے گرد حاضر ہوں گے۔(11)

3-حضرت کعب احبار رحمۃُ اللہِ علیہ کے قول کے مطابق پہلے صور کے بعد جنہیں موت نہ آئے گی ان کی تعداد 12 ہے: 8 عرش اٹھانے والے فرشتے، جبریل، میکائیل، اسرافیل اور ملک الموت علیہم السلام۔ جبکہ حضرت ضحاک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ان سے مراد رضوانِ جنت، حورِ عین، نگرانِ دوزخ حضرت مالک علیہ السلام اور عذاب کے وہ فرشتے ہیں جو جہنم پر مامور ہیں۔(12)

4-حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق اس وقت جنہیں موت نہ آئے گی وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں، چونکہ آپ (کوہِ طور پر) بے ہوش ہو چکے ہیں اس لئے( پہلی مرتبہ صور پھونکنے سے) آپ دوبارہ بے ہوش نہ ہوں گے ۔(13)

صور کتنی بار پھونکا جائے گا؟

صور کتنی مرتبہ پھونکا جائے گا، اس میں اختلاف ہے یعنی چار مرتبہ ، تین مرتبہ یا دو مرتبہ؟ زیادہ تر علما کا اس پر اتفاق ہے کہ صور صرف دو مرتبہ پھونکا جائے گا۔ جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہِ علیہ دو سے زائد مرتبہ صور پھونکنے کا قول رکھنے والوں کے جواب میں فرماتے ہیں کہ صور صرف دو مرتبہ پھونکا جائے گا، البتہ! ان دونوں کے درمیان سننے والوں کے اعتبار سے کچھ فرق ہو گا یعنی پہلی بار جب صور پھونکا جائے گا تو اس سے ہر زندہ شخص مر جائے گا ، مگر جن کو اللہ پاک نے موت سے مستثنیٰ کر لیا ہے وہ صرف بے ہوش ہو جائیں گے اور جب دوسری بار صور پھونکا جائے گا تو جو مر گئے تھے وہ زندہ ہو جائیں گے اور جو بےہوش ہوئے تھے وہ ہوش میں آ جائیں گے۔(14)

دوسرا صور کب پھونکا جائے گا؟

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ان دونوں نفخوں میں 40 سال کا فاصلہ ہو گا کہ اگر سورج ہوتا اور دن رات نکلتے تو 40 سال کی مدت ہوتی ۔(15)

دوسری بار صور پھونکنے کے بعد کیا ہو گا؟

اﷲ پاک جب چاہے گا حضرت اسرافیل کو زندہ فرمائے گا اور صور کو پیدا کر کے دوبارہ پھونکنے کا حکم دے گا، صور پھونکتے ہی تمام اوّلین و آخرین، ملائکہ و اِنس و جن و حیوانات موجود ہو جائیں گے۔(16) سب سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قبرِ مبارک سے یوں برآمد ہوں گے کہ سیدھے ہاتھ میں حضرت صدیقِ اکبر کا ہاتھ اور بائیں ہاتھ میں حضرت فاروقِ اعظم رضی اﷲ عنہما کا ہاتھ ہو گا۔(17)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i]ترمذی،5/ 165،حدیث:3255 2مسند اسحاق ،1 /75 ، حدیث : 10 ملتقطاً 3مراۃ المناجیح،7/354 ماخوذاً 4التذکرة،ص176 5مراۃ المناجیح،7/362 6سنن کبری للنسائی،6/ 316،حدیث:11082 7ابوداود، 1/391، حدیث: 1047 8ترمذی،5/88،حدیث:3712ماخوذاً 9تفسیر خازن، المومنون، 3 / 332 0احیاء العلوم ، 5/270 Aتفسیر قرطبی،8 /203 Bتفسیر قرطبی،8 /203 Cتفسیر کبیر،9/476 Dفتح الباری، 7/369 Eمراۃ المناجیح،7/354 Fبہارِ شریعت، 1/ 128 Gترمذی،5 /88،حدیث:3712ماخوذاً


حضور کی والدہ ماجدہ

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حمل کی تکلیف:

بی بی آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: میں نے زمانہ حمل میں کسی طرح کی تکلیف اٹھائی نہ کوئی بوجھ محسوس کیا۔([i]) سیرت حلبیہ میں آپ رضی اللہُ عنہا کا یہ قول مروی ہے کہ مجھے حمل سے پیدائش تک کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ (2) مگر مواہب اللدنیہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ فرمانِ عالیشان مروی ہے کہ میری والدہ نے دیگر عورتوں کی طرح حمل کا بوجھ محسوس کیا اور اپنی سہیلیوں سے اس کا تذکرہ بھی کیا، پھر میری والدہ نے ایک خواب دیکھا کہ ان کے بطن اطہر میں جو کچھ ہے وہ نور ہے۔ دورانِ حمل چونکہ بوجھ محسوس کرنے اور نہ کرنے دونوں طرح کی روایات مروی ہیں، لہٰذا علمائے کرام نے ان روایات میں یوں تطبیق دی ہے کہ ابتدائی حالت میں بوجھ تھا، پھر کچھ وقت گزرنے کے بعد یہ کیفیت بھی ختم ہو گئی۔(3)

دورانِ حمل کے عجائبات:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی والدہ ماجدہ کے بطن اطہر میں پورے نو مہینے تشریف فرما رہے ۔ اس دوران حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کے سر یا پیٹ میں کوئی درد اور کسی قسم کی تکلیف نہ ہوئی، بلکہ حاملہ عورتوں کو جو تکالیف ہوتی ہیں آپ ان سے بھی محفوظ رہیں۔(4)

امام ابو نعیم اصفہانی رحمۃُ اللہِ علیہ نے نقل کیا ہے کہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جب میں چھ ماہ کی حاملہ تھی تو کوئی میرے خواب میں آیا اور کہنے لگا: اے آمنہ! آپ کو تمام جہاں سے بہتر ہستی کی ماں بننے کا شرف ملنے والا ہے، لہٰذا جب یہ ہستی دنیا میں تشریف لائے تو اس کا نام محمد رکھئے گا اور اپنے معاملے (یعنی آپ جو انوار و تجلیات وغیرہ دیکھیں، ان ) کوکسی پر ظاہر مت کیجئے گا۔ (5) ایک روایت میں ہے کہ سیدہ آمنہ نے خواب دیکھا کہ کوئی انہیں کہہ رہا ہے کہ آپ تمام مخلوقِ خدا سے بہتر اور تمام جہانوں کے سردار کی ماں بننے والی ہیں ۔لہٰذا جب وہ پیدا ہوں توان کا نام محمد اور احمد رکھئے گا، نیز ان کے گلے میں یہ تعویز ڈال دیجئے گا۔ چنانچہ جب آپ بیدار ہوئیں تو اپنے سر کے قریب سنہری حروف سے لکھی ہوئی ايك تحریر موجود پائی۔ (اس تحریر کا مفہوم کچھ یوں ہے)میں پناہ مانگتی ہوں اللہ وحدہ لاشریک کی ہر حاسد کے شر سے، ہر بھٹکی مخلوق سے، کھڑی ہو یا بیٹھی ہو، جو سیدھی راہ سے ہٹی ہوئی اور فساد کیلئے کوشاں ہے۔ نیز پناہ مانگتی ہوں ہر پھونکنے اور گرہ لگانے والے سے اور مردود مخلوق سے جو لوگوں کی گزرگاہوں پر گھات لگائے بیٹھتی ہے۔ میں اس بچے کو خدائے بر ترکی پناہ میں دیتی ہوں اور اسی کے ظاہری و باطنی دست قدرت کے حوالے کرتی ہوں کہ اللہ پاک کا دست قدرت ہی تمام مخلوق پر غالب ہے اور اللہ پاک نے انہیں اپنے حجاب میں لے رکھا ہے ، لہٰذا کوئی بھی انہیں تا ابد کسی حال میں نقصان نہ پہنچا پائے گا۔(6) یہ روایت اگرچہ الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ سیرت کی کئی کتب میں موجود ہے، مگر شرف مصطفیٰ نامی کتاب میں اس کے بعد یہ اضافہ بھی موجود ہے کہ سیدہ آمنہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں میں نے اس خواب اور تعویز کا ذکر چند عورتوں سے کیا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ (یہ کوئی آسیب ہے، لہٰذا ) اپنے گلے اور بازو پر لوہے کی کوئی چیز باندھ لوں، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا مگر چند ہی دنوں میں وہ لوہے کی چیز خود بخود ٹوٹ گئی اور میں جب بھی اسے باندھتی ایسا ہی ہوتا، لہٰذا میں نے باندھنا ہی چھوڑ دیا۔(7)

نور سے سارا جہان منور ہو گیا:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ابھی اپنی والدہ ماجدہ کے شکم میں ہی تھے کہ ایک بار ان سے ایسا نور نکلا جس سے سارا جہان منور ہو گیا اور انہوں نے بصرے کے محلات دیکھے۔ بصرہ شام کی جانب ایک شہر کا نام ہے، اسی قسم کا ایک واقعہ ولادت کے وقت میں بھی منقول ہے۔(8)چنانچہ علامہ سید احمد بن زینی دحلان مکی اپنی کتاب السیرۃ النبویہ میں ان دونوں واقعات میں فرق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت آمنہ نے جو نور حمل مبارک کے وقت دیکھا تھا وہ خواب میں تھا اور جو ولادت باعث ہزار سعادت کے وقت دیکھا تھا وہ عالم بیداری میں تھا۔(9)

ابن رجب حنبلی فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادت کے وقت نور کے ظہور سے اس طرف اشارہ ہے کہ آپ ایسا نور لے کر آئے ہیں جس کے ذریعے تمام اہل زمین کو ہدایت کی دولت نصیب ہو گی اور شرک کی تاریکی دور ہو گی۔ جیسا کہ ارشادِ خداوندی ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِيْنٌۙ0 يَّهْدِيْ بِهِ اللّٰهُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَهٗ سُبُلَ السَّلٰمِ وَ يُخْرِجُهُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَى النُّوْرِ بِاِذْنِهٖ وَ يَهْدِيْهِمْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ0(10)(پ6،المائدہ: 15، 16)ترجمہ کنز العرفان:بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آ گیا اور ایک روشن کتاب۔ اللہ اس کے ذریعے اسے سلامتی کے راستوں کی ہدایت دیتا ہے جو اللہ کی مرضی کا تابع ہو جائے اور انہیں اپنے حکم سے تاریکیوں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے اور انہیں سیدھی راہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔

جہاں تک حضور کی ولادت کے وقت نور سے بُصریٰ کے محلات روشن ہونے کا تعلق ہے تو وہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ملک شام نور نبوت کے ساتھ خاص ہو گا کیونکہ وہ آپ کی بادشاہت والے ملک کا شہر ہے جیسا کہ حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: سابقہ کتب میں یہ لکھا ہوا ہے:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں، ان کی جائے پیدائش مکہ، ہجرت کا مقام مدینہ منورہ اور بادشاہت ملکِ شام میں ہوگی۔ چنانچہ مکہ مکرمہ سے نبوت محمدی کی ابتدا ہوئی اور آپ کی بادشاہت ملک شام تک پہنچی اوراسی لیے آپ کو معراج کی شب ملک شام کی جانب بیت المقدس تک سیر کرائی گئی جیسا کہ آپ سے قبل حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بھی ملک شام کی طرف ہجرت فرمائی تھی ۔(11)

پیدائش سے پہلے ربیع الاول کی ہر رات بشارت:

علامہ ابن جوزی فرماتے ہیں: ربیع الاول کی پہلی رات سیدہ آمنہ کو سرور و مسرت حاصل ہوئی۔ دوسری رات آرزو پانے کی بشارت دی گئی۔ تیسری رات میں کہا گیا کہ آپ اس ہستی کی ماں بننے والی ہیں جو ہماری حمد وشکر بجا لائے گی۔ چوتھی رات میں آپ نے آسمانوں سے فرشتوں کی تسبیح کی آواز سنیں۔ پانچویں رات حضرت ابراہیم کو خوش خبری دیتے ہوئے سنا کہ اے آمنہ! مدح وعزت کے مالک کی ماں بننے کا شرف پانے پر خوش ہو جاؤ۔ چھٹی رات میں فرحت و برکت مکمل ہو گئی۔ ساتویں رات میں نور چمکا اور مدہم نہیں ہوا۔ آٹھویں رات میں فرشتوں نے سیدہ آمنہ کے گرد طواف کیا۔ نویں رات میں سیدہ آمنہ کی سعادت و غنا ظاہر ہوئی۔ دسویں رات میں فرشتوں نے شکر و ثنا کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا ورد کیا۔ گیارہویں رات میں سیدہ آمنہ سے مشقت و تھکاوٹ دور ہوگئی ۔(12)

آسمان و زمین سے ندا کا آنا:

سیدہ آمنہ فرماتی ہیں کہ حمل کے ہر ماہ میں آسمان و زمین کے درمیان یہ آواز سنا کرتی کہ آپ کو مبارک ہو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے کہ ابو القاسم دنیا میں جلوہ افروز ہونے والے ہیں جو صاحب خیر و برکت ہیں۔(13)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i] خصائص الکبری للسیوطی مترجم، ص 140 2 سیرت حلبیہ، 1/ 69 3 مواہب اللدنیہ، 1/ 62 4 مواہب اللدنیہ ، 1/ 63 5 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 362، حدیث: 555 6 دلائل النبوۃ لابی نعیم، ص 77، حدیث: 78 7 شرف المصطفیٰ، 1/ 351، حدیث: 97 8 مدارج النبوت مترجم، 2/ 28 9 السیرۃ النبویۃ، 1/ 45 0 لطائف المعارف، ص 173 A لطائف المعارف، ص 174 B مولد العروس اردو، ص 73 C مدارج النبوت مترجم، 2/ 28


از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حضرت یوسف علیہ السّلام اللہ پاک کے بہت ہی پیارے نبی ہیں، آپ کے والد ، دادا اور پردادا سب نبی تھے، آپ پر بھی اپنے والد کی طرح بہت سی آزمائشیں آئیں لیکن اللہ پاک نے آپ کو تمام امتحانات میں شاندار کامیابی عطا فرمائی۔ قرآنِ کریم میں آپ کے نام کی پوری سورت نازل فرمائی جس میں آپ کے مختلف واقعات کو اَحْسَنَ الْقَصَص سے تعبیر فرمایا اور سب سے پہلا قصّہ خواب والی بات سے شروع ہوا۔ اس سورت میں ذکر کیا گیا ہے کہ کس طرح آپ پر بڑی بڑی مصیبتیں آئیں لیکن آپ نے اللہ پاک کی کرم نوازی و حکمتِ عملی سے ان تمام چیزوں میں کامیابی پائی اور سرخرو ہوئے، آپ کی زندگی کے ان واقعات کو پڑھ کر لوگوں کو احساسِ کمتری سے نجات اور انقلاب کا جذبہ ہی نہیں ملتا، بلکہ نئی بلندیوں اور عروج تک پہنچنے کا حوصلہ بھی ملتا ہے اور مایوسیاں دور ہوتی ہیں۔ چنانچہ ذیل میں آپ سے منسوب معجزات کے علاوہ چند ایسی باتیں بھی نقل کی جائیں گی جو عجائب و غرائب سے تعلق رکھتی ہیں:

جس کنویں میں آپ کو ڈالا گیا، اس سے متعلق تین عجائبات:

1-حضرت یوسف علیہ السّلام کے بچپن میں آپ کے بھائیوں نے حسد کی وجہ سے آپ کو گھر سے دور لے جا کر جس کنویں میں ڈالا تھا، اس وقت اس کنویں کا پانی کھارا تھا، لیکن آپ کی برکت سے وہ کھارا پانی میٹھا ہو گیا۔([1])

2-جب آپ علیہ السّلام کنویں سے باہر جانے لگے تو کنویں کی دیواریں آپ کی جُدائی میں رونے لگیں۔(2)

3-اسی کنویں میں ایک اژدھے نے آپ کو تکلیف پہنچانا و ڈرانا چاہا تو حضرت جبریل علیہ السّلام نے اسے ایسا دھکا دیا کہ اس کی تمام نسل بہرہ ہو گئی۔(3)

حسن بےمثال کے عجائبات:

اللہ پاک نے حضرت یوسف علیہ السّلام کو بلاشبہ حسنِ بے مثال عطا فرمایا تھا جس کی تصدیق ہمارے آقا صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے بھی ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ معراج کی شب تیسرے آسمان میں جب میں نے حضرت یوسف کو دیکھا تو ان کے حُسن نے مجھے حیران کر دیا، وہ اپنے حُسن کے سبب (واقعی) لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے۔(4)

حضرت یوسف علیہ السّلام کے حسن سے متعلق کئی عجیب و غریب باتیں منقول ہیں۔ مثلاً

1-ایک مرتبہ اللہ پاک نے جب آپ کے حسن حقیقی سے پردہ اٹھایا تو لوگ دیدار کے لئے بے قرار ہو کر دوڑ پڑے اور اس ازدحام میں 25000 مردو عورت ہلاک ہوگئے اور آپ کے حسن کی تاب نہ لاکر مزید 5000 مرد اور 360 عورتوں نے دم توڑ دیا۔(5)

2-ایک بار آپ کے زمانے میں لوگ قحط میں مبتلا ہو گئے اور بھوک سے حالت انتہائی تشویش ناک ہو گئی تو لوگوں نے آپ سے شکایت و فریاد کی، لہٰذا آپ نے بارگاہِ خداوندی میں لوگوں پر رحم کی دعا کی تو اللہ پاک نے فرمایا: میں تمہارا جمال لوگوں کے لئے غذا بنا دوں گا۔ چنانچہ آپ نے لوگوں کو جمع کیا اور انہیں اپنا چہرہ دکھایا تو لوگوں کی بھوک جاتی رہی اور باقی 40 دن بھی لوگوں نے اسی طرح گزارے۔(6)

3-ایک مرتبہ ایک مادر زاد اندھا لڑکا آپ کی خدمت میں پیش کیا گیا تاکہ آپ اس کی آنکھیں ٹھیک کر دیں۔ چنانچہ آپ نے اپنا نورانی چہرہ جب اس لڑکے کی طرف کیا اور آپ کے چہرے کی روشنی اور شعاعیں اس پر پڑیں تو اللہ پاک نے اسے آنکھیں عطا فرما دیں۔(7)

4-در منثور میں ہے کہ آپ علیہ السّلام جب مصر کی گلیوں میں چلتے تو آپ کے چہرے کی چمک دیواروں پر اس طرح پڑتی جس طرح پانی اور سورج کی چمک دیواروں پر پڑتی ہے۔(8)

حسن یوسف دم عیسی ید بیضا داری آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری

گناہ سے بچنے پر دو عجائبات کا ظہور:

1-عزیزِ مصر کی بیوی نے آپ کو اپنے محل کے انتہائی اندرونی کمرے میں دعوتِ گناہ دینے سے پہلے تمام دروازوں پر تالے لگا دئیے تا کہ آپ بھاگ نہ سکیں۔ مگر اللہ پاک کی شان کہ جب آپ دوڑ کر دروازے کے پاس پہنچتے تو تالے خود بخود ٹوٹ کر گرتے چلے گئے۔(9)

2-حضرت یوسف علیہ السَّلام کے پیچھے بھاگتے ہوئے جب عزیزِ مصر کی بیوی بھی محل سے باہر نکلی تو اچانک سامنے اپنے شوہر کو دیکھ کر حضرت یوسف پر غلط ارادے کا الزام لگا دیا، مگر جب حضرت یوسف علیہ السَّلام نے اس الزام کو رد کرتے ہوئے حقیقت بیان کی تو عزیز مصر نے آپ سے دلیل طلب کی، اس پر آپ نے فرمایا: اس گھر میں زلیخا کے ماموں کا 4 ماہ کا ایک بچہ ہے، اس سے پوچھ لیں۔ عزیز ِمصر نے حیرانی کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا: اللہ پاک اس بات پر قادر ہے کہ اس کو بولنے کی قوت دے اور میری بے گناہی ثابت کر دے۔ چنانچہ اس بچے سے پوچھا گیا تو اس نے اللہ پاک کی قدرت سے یوں کلام کیا: اگر اِن کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو تو عورت سچی ہے، لیکن اگر پیچھے سے پھٹا ہے تو عورت جھوٹی ہے۔ یعنی اگر حضرت یوسف آگے بڑھے اور زلیخا نے ان کو ہٹایا تو کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہو گا اور اگر وہ اس سے بھاگ رہے تھے اور زلیخا پیچھے سے پکڑ رہی تھی تو کرتا پیچھے سے پھٹا ہوا ہو گا۔(10)

خوابوں کی درست تعبیر:

اللہ پاک نے بطورِ معجزہ آپ کو خوابوں کی درست تعبیر کا علم ہی عطا نہ فرمایا بلکہ آپ خواب دیکھنے والے کو اس کا خواب تک بتا دیا کرتے تھے کہ تم نے یہ خواب دیکھا ہے اور اس کی تعبیر یہ ہے۔ جیسا کہ شاہِ مصر کے سامنے جب آپ نے اس کا خواب اور اس کی تعبیر بیان کی تو وہ بولا: خواب کا عجیب ہونا تو اپنی جگہ لیکن آپ کا اس طرح بیان فرما دینا اس سے بھی زیادہ عجیب تر ہے۔(11)

بابرکت قمیص:

حضرت یوسف علیہ السّلام کی جدائی پر چونکہ حضرت یعقوب علیہ السّلام روتے رہتے تھے، لہذا ان کی بینائی چلی گئی ، جب یہ بات حضرت یوسف کو معلوم ہوئی تو آپ نے اپنی قمیص دے کر بھیجی اور کہا کہ یہ ان کے چہرے پر ڈال دینا اللہ کے حکم سے ان کی آنکھیں روشن ہو جائیں گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، یہ مکمل واقعہ سورہ یوسف میں مذکور ہے۔(12)

دعائے یوسفی کی برکتیں:

1-ایک دن حضرت یوسف علیہ السّلام کا گزر زلیخا کے پاس سے ہوا تو وہ بولیں: سب تعریفیں اس خدا کے لیے جس نے ایک غلام کو اپنی عبادت کے بدلے بادشاہ بنا دیا اور بادشاہ کو اس کی نافرمانی کے بدلے غلام بنا دیا۔ تو حضرت یوسف علیہ السّلام نے ان کے لئے دعا کی تو ان کا بڑھاپا جوانی میں بدل گیا۔ (13)

2-جس شخص نے آپ علیہ السّلام کو کنویں سے نکال کر عزیزِ مصر کو بیچا تھا، اسے جب بعد میں آپ کی حقیقت معلوم ہوئی تو وہ شرمندہ ہوا اور معافی مانگی تو آپ نے اس کو معاف کر دیا اور اس کے لئے دعا فرمائی جس کی برکت سے اللہ پاک نے اسے لگاتار 12مرتبہ جڑواں بیٹے عطا فرمائے۔(14)

70 زبانوں میں کلام:

جب آپ عزیز مصر کے پاس آئے تو اس نے آپ سے 70 زبانوں میں گفتگو کی اور آپ نے ہر زبان میں اس کو جواب دیا، اس پر وہ بہت حیران ہوا کہ آپ نے صرف 30 سال کی عمر میں اتنی زبانیں کیسے سیکھ لیں، یقیناً یہ بھی آپ کا عظیم معجزہ ہے۔(15)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] تفسیر معالم التنزیل، 2/350 2تفسیر معالم التنزیل، 2/350 3تفسیر روح البیان، 4/224 4تاریخ ابن عساکر، 35/146، حدیث: 7132 5تفسیر بحر المحبۃ، ص 61 تا 63 6قصص الانبیاء، ص 183 7قصص الانبیاء، ص 183 8 تفسیر درّ منثور، 4/532 9تفسیر روح البیان، 4/240 0 الکامل فی التاریخ، 1/108 Aسیرت الانبیاء،ص446 Bسیرت الانبیاء،ص 464 ملخصاً Cتفسیر قرطبی، 5/150 ملخصاً Dتفسیر در منثور، 4/517 Eقصص الانبیاء لابن کثیر، ص 288 


شرح سلامِ رضا

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت اشرف عطاریہ مدنیہ  ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان) گوجرہ منڈی بہاؤ الدین

(29)

سببِ ہر سبب منتہائے طلب

عِلّتِ جملہ علّت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

سبب: وسیلہ۔منتہا:منزل مقصود۔ طلب: تلاش ۔علت:باعث۔جملہ: تمام۔

مفہومِ شعر:

ہر وجود کا سبب اور ہر طلب کی انتہا حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات ہے۔اس کائنات کو معرضِ وجود میں لانے کا سبب جو ذات بنی اس پہ لاکھوں سلام۔

شرح:سببِ ہر سبب/علتِ جملہ علت:

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بلاشبہ ہر شے کے وجود کا سبب ہیں، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف وحی فرمائی: اے عیسیٰ! محمدِ عربی(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)پر ایمان لاؤ اور اپنی اُمّت میں سے ان کا زمانہ پانے والوں کو بھی ان پر ایمان لانے کا حکم دو۔ اگر وہ نہ ہوتے تو میں نہ آدم کو پیدا کرتا اور نہ جنت و دوزخ بناتا۔([1]) ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریلِ امین علیہ السلام بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے :آپ کا رب ارشاد فرماتا ہے:بے شک میں نے دنیا اور دنیا والوں کو اس لئے پیدا فرمایا ہے تاکہ اے محبوب! میرے نزدیک تمہاری جو قدر و منزلت ہے وہ انہیں بتاؤں اور اگر تم نہ ہوتے تو میں دنیا کو  پیدا نہ فرماتا۔ (2)

منتہائے طلب:

اس کائنات کو پیدا کرنے کی وجہ حضور ہیں تو معرفتِ الٰہی کو پانے اور منزلِ مقصود تک پہنچنے کا ذریعہ بھی آپ ہی ہیں۔قرآنِ پاک میں ہے:قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِيْ۠ يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ0 (پ3، الِ عمرٰن:31) ترجمہ: اے حبیب! فرما دو کہ اے لوگو! اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

معلوم ہوا!نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت ہی ایسی چیز ہے جس کے ذریعے اللہ پاک کی محبت کو پایا جا سکتا ہے اور آپ کی محبت گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ہے ۔

(30)

مصدرِ مظہریّت پہ اظہر درود

مظہرِ مصدریّت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

مصدر: اصل۔ مظہریّت: ظہور ہونا۔ اَظہر: روشن۔ مظہر: جائے ظہور۔ مصدریّت: صادر ہونا۔

مفہومِ شعر:

دُرود ہو اس ذات پر جو اللہ پاک کے نور کے ظہور کا سرچشمہ ہے اور لاکھوں سلام اس پر جس کے نور کا ظہور اللہ پاک کی ربوبیت کا ظہور ہے۔

شرح:

اللہ پاک فرماتا ہے:لَولَاکَ لَمَا اَظْہَرْتُ الرَّبُوبِیَّۃ اگر محمد نہ ہوتے تو میں اپنے رب ہونے کو ظاہر نہ کرتا۔ (3) حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی :یا رسولَ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں! مجھے بتائیے کہ اللہ پاک نے سب سے پہلے کس چیز کو پیدا فرمایا؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اے جابر! بے شک اللہ پاک نے تمام اشیا سے پہلے تیرے نبی کا نور پیدا فرمایا، پھر یہ نور اللہ پاک کی مشیت کے موافق جہاں چاہا سیر کرتا رہا۔ اس وقت لوح تھی نہ قلم ، جنت تھی نہ دوزخ، فرشتے تھے نہ آسمان و زمین، سورج تھا نہ چاند، جن تھے نہ انسان ۔(4)

(31)

جس کے جلوے سے مُرجھائی کلیاں کھلیں

اس گلِ پاک مَنبت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

جلوہ: دیدار، جھلک۔ مُرجھائی: سوکھی۔

گل: پھول۔ مَنبت: اگا ہوا۔

مفہومِ شعر:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دیدار سے دلوں کی مرجھائی کلیاں کھلتی ہیں۔ اس خوبصورت پھول کی تازہ اُٹھان پر لاکھوں سلام۔

شرح:

ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک نے حسن و جمال کی لازوال دولت عطا فرمائی۔اس کائنات کا سارا حسن نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسن و جمال کا صدقہ ہے۔ جو ایک بار نبیِّ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت کر لیتا وہ آپ کا دیوانہ ہو جاتا، آپ کے چہرے کی زیارت سے غمزدوں کے غم دور ہو جاتے، آپ کے دیدار سے دلوں کی مرجھائی کلیاں کھل اٹھتی ہیں، صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ٹکٹکی باندھ کر آپ کے مبارک چہرے کی زیارت کرتے رہتے اور آپ کے جلووں سے لطف اندوز ہوتے کیونکہ اللہ پاک نے آپ کو بے مثال حسن و جمال عطا فرمایا ۔ جیسا کہ ایک روایت میں ہے کہ ایک صحابی حضور کو یوں دیکھ رہے تھے کہ نظر ہٹاتے ہی نہیں تھے۔ چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب ان سے اس کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے عرض کی:بِاَبِي اَنْتَ وَاُمِّي اَتَمَتَّعُ مِنَ النَّظَرِ اِلَيْكَ یعنی میرے ماں باپ آپ پر قربان! میں آپ کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہوتا ہوں۔(5)

حُسنِ یوسف پہ کٹیں مِصْر میں اَنگشتِ زَناں

سَر کٹاتے ہیں تِرے نام پہ مردانِ عرب

(32)

قدِ بے سایہ کے سایۂ مرحمت

ظلِّ ممدودِ رافت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:

مرحمت:رحمت و کرم۔ ظل: سایہ۔ ممدود: دائمی۔ رافت: مہربانی۔

مفہومِ شعر:

لاکھوں درود اور سلام ہوں اس ذات پر کہ جس کے جسم کا سایہ نہ تھا، البتہ! اس کے رحم و کرم کا سایہ ساری دنیا پر پھیلا ہوا ہے۔

شرح:قدِ بے سایہ:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسن و جمال کی لطافت کا یہ عالم ہے کہ آپ کے جسم مبارک کا سایہ نہ تھا۔ جس کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام ابنِ سبع رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نور تھے، اس لئے جب آپ دھوپ یا چاندنی میں چلتے تو آپ کا سایہ نظر نہ آتا ۔ اس قول کی شاہد وہ حدیث ہے جس میں حضور کی اس دعا کا ذکر ہے جس میں آپ نے فرمایا: وَاجْعَلْنِیْ نُوْرًا یعنی یا اللہ! مجھ کو سراپا نور بنا دے۔ ظاہر ہے کہ جب آپ سراپا نور تھے تو پھر آپ کا سایہ کہاں سے پڑتا!(6)

سایۂ مرحمت:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ظاہری طور پر سایہ نہ تھا، لیکن حقیقت میں تمام جہانوں کیلئے آپ سایۂ رحمت ہیں۔

ظل ممدود:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جنت میں ایک ایسا درخت ہے جس کے سائے میں سوار سو سال تک دوڑتا رہے تب بھی اسے طے نہ کر سکے گا،اگر تم چاہو تو یہ آیت پڑھ لو:وَ ظِلٍّ مَّمْدُوْدٍۙ0 (پ27،الواقعۃ:30)(ترجمہ:اور دراز سائے میں۔)(7)

یہاں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سایۂ رحمت کو ظلِّ ممدودِ رافت کہا گیا ہے۔ کیونکہ آپ کا سایۂ رحمت بھی ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لئے کہ آپ نے اپنی گنہگار اُمّت کو ہمیشہ یاد رکھا، بوقتِ پیدائش ،سفرِ معراج یہاں تک کہ قیامت کے دن بھی نہ بھولیں گے۔

لوگ کہتے ہیں کہ سایہ تیرے پیکر کا نہ تھا

میں تو کہتا ہوں جہاں بھر پہ ہے سایہ تیرا

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]مستدرک،3/ 516 ، حدیث : 4285 2خصائص ِکبریٰ ، 2 / 330ملتقطاً 3مکتوباتِ امام ربانی،2/146،مکتوب:124 4المواھب اللدنیہ،1/37 5 الشفا، 2 / 20 6شرح زرقانی،5/524-525 7بخاری،3/345، حدیث:4881


مدنی مذاکرہ

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

(1)نمک کے استعمال میں احتیاط

سوال: نمک کے استعمال میں کیا احتیاط کرنی چاہیے ؟

جواب: اللہ پاک کے فضل و کرم میں سے ایک نمک بھی ہے۔ یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔اللہ پاک کی شان ہے کہ جس نعمت کی بندے کو زیادہ ضرورت ہے وہ یا تو سستی کر دی یا بالکل ہی مفت کر دی۔ نمک سے زیادہ ہوا کی ضرورت ہے کہ اگر ہوا ایک منٹ کے لیے بند ہو جائے تو بندے ڈھیر ہونا شروع ہو جائیں، لیکن اللہ پاک نے ہوا بالکل مفت کر دی۔ نمک بھی ضروری ہے، لیکن اس کی اتنی فراوانی اور کثرت ہے کہ یہ سستا ہے۔ بہرحال ہر چیز کے اِستعمال میں اعتدال ضروری ہوتا ہے،ہر چیز کی ایک Limit(یعنی حد)ہوتی ہے،Limit (یعنی حد)سے جو بھی چیز زیادہ استعمال ہو گی تو وہ نقصان کرے گی،جیسے ہوا ضروری ہے، لیکن اگر کسی کے منہ پر پائپ رکھ کر ہوا ڈالتے رہیں تو پھر کیا ہوگا؟یہ نعمت زحمت بن جائے گی۔ اسی طرح نمک یقینا ً نعمت ہے،لیکن اس کا بے تحاشا استعمال نقصان دہ ہے۔

انسانی جسم کے لیے نمک کی جتنی ضرورت ہے تو وہ غذاؤں کے ذریعے پوری ہو جاتی ہےجیسے پھل فروٹ میں بھی نمک ہوتا ہے۔ روٹین کے کھانے کے علاوہ اضافی نمک جو لوگ کھاتے ہیں جیسے پکوڑے، سموسے، کباب اور نمکو وغیرہ توان چیزوں میں موجود نمک بدن میں نمک کی مقدار بڑھنے کا سبب بنتا ہے ۔پھر اگر کھانا پیٹ بھر کر کھاتے ہیں تو اس سے بھی نمک کی مقدار پیٹ میں زیادہ جائے گی،جس سے بلڈ پریشر ہائی ہو گا۔ اگر کسی کا بلڈ پریشر ہائی نہیں ہوتا تو اس سے وہ یہ نہ سمجھے کہ مجھے نمک سے نقصان نہیں ہو رہا۔

گردے فیل ہونے کا ایک سبب

اللہ پاک نے اعضا کو جو قوت دی ہے تو اس کی ایک حد ہے۔ نمک جب گردوں میں پہنچتا ہے تو گردے اپنی طاقت سے اس کو حل کر کے نکالتے ہیں، لیکن جب Limit (یعنی حَد) سے زیادہ نمک جاتا ہے تو گردوں کو محنت زیادہ کرنی پڑتی ہے، اب کوئی بھی چیز جب اپنی طاقت سے زیادہ محنت کرے گی تو اس کے Damage (خراب) ہونے کا امکان تو رہتا ہے۔ زیادہ نمک ہونے کی وجہ سے کچھ نہ کچھ مقدار گردے میں رُک کر اِدھر اُدھر چپک جاتی ہے اور اس سے گردے میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔

آج کل ویسے بھی سننے میں آتا رہتا ہے کہ اس کے گردے فیل ہو گئے ،اس کے گردے فیل ہو گئے۔ کثرت سے گردوں کے فیل ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ لوگ نمک زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں اور پھر پانی کم پیتے ہیں، اگر پانی زیادہ پیتے تو گردے اچھی طرح فلٹر کرتے اور نمک چپکا نہ رہ جاتا،لیکن نمک رہ جانے کے سبب پھر گردے فیل ہو جاتے ہیں۔ہم اللہ پاک سے عافیت کا سُوال کرتے ہیں۔بہرحال نمک محدود مقدار میں ہی کھائیے اور غیر ضروری نمک کے استعمال سے خود کو بچائیے۔ کھانے کے علاوہ جو دیگر اضافی چیزیں وقتا فوقتا کھاتے رہتے ہیں ان سے اگر بچیں گے تو ان شاءاللہ گردے بھی محفوظ رہیں گے، بلڈ پریشر اور کئی بیماریوں سے بھی حفاظت رہے گی۔

(2)کون سا نمک استعمال کرنا چاہیے؟

سوال:کھانے میں سمندری نمک استعمال کیا جائے یا کان کا نمک؟جو ڈیلر منافع کے لیے نمک میں ملاوٹ کر کے بیچتے ہیں ان کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب:میری ناقص معلومات کے مطابق پہاڑی نمک جسے لاہوری نمک بھی کہتے ہیں یہ زیادہ مفید ہے۔ ہم لوگ بڑا پیس لے کر اسے کوٹ کر استعمال کرتے ہیں۔ لاہوری نمک پسا ہوا بھی ملتا ہے، لیکن اس میں کنکر پتھر کا مکس ہونا ممکن ہے، اس لیے کہ ملاوٹ کرنے والے تو پانی میں بھی ملاوٹ کر کے منرل واٹر کے نام پربیچتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں سختی ہوتی ہے جس کے سبب وہاں خالص پانی دستیاب ہو جاتا ہے، لیکن کم ترقی یافتہ ممالک میں ملاوٹیں زیادہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا ملاوٹ کرنے والے نمک میں بھی پتھر وغیرہ پیس دیتے ہوں گے۔ اللہ پاک انہیں ہدایت دے کہ اتنی سستی چیز میں بھی ملاوٹ کرتے ہیں اور پیسے کھینچنے کیلئے لوگوں کی جانوں سے کھیلتے ہیں۔

نمک میں اگر ملاوٹ کو چیک کرنا چاہیں تو تھوڑا سا نمک پانی میں گھلا لیں،اگر نمک گھلنے کے بعد کچھ ذرات پانی کی تہہ میں نظر آئیں تو یہ ملاوٹ والا کچرا ہوگا جو پانی میں گھلا نہیں۔([1])

(3)کیا گرا ہوا نمک پلکوں سے اُٹھاناپڑے گا؟

سوال:اگر کوئی نمک گرادے تو بعض لوگ کہتے ہیں:”اسے قیامت کے دن پلکوں سے اُٹھانا پڑے گا“ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب:اگر کوئی نمک گرا دے تو”اسےقیامت کے دن پلکوں سے اُٹھانا پڑے گا“یوں ہی”اگر اس طرح پیشاب کرو گے تو قبر میں پیشاب آئے گا“یہ عوامی بے سر و پا(جھوٹی،بے بنیاد) باتیں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ میں بھی بچپن سے یہ باتیں سنتا آ رہا ہوں، لیکن آج تک نہ کسی کتاب میں پڑھیں اور نہ کسی عالمِ دین سے سنیں۔

عوام کو چاہیے کہ ثواب، عذاب اور قیامت کے متعلق کوئی بھی بات اپنی رائے سے بیان نہ کریں، کیونکہ ان باتوں کا تعلق انبیائے کرام علیہم ُ الصّلوٰۃ و السّلام کے بتانے سے ہے۔ لہٰذا ثواب، عذاب اور قیامت کے متعلق جو باتیں ہیں انہیں عُلمائے کِرام سے سُن کر یا پوچھ کر ہی آگے بیان کیا جائے۔(2)

(4)کیا مرچ کھانے سے زبان پتلی ہوتی ہے؟

سوال: لوگ بولتے ہیں:”مرچ کھانے سے زبان پتلی ہوتی ہے اور پڑھنا آتا ہے “ کیا یہ بات درست ہے؟

جواب:مرچی کھانے سے زبان پتلی ہوتی ہے یا پڑھنا آجاتا ہے میں نے کبھی ایسا سنا نہیں۔

ہاں! مدنی چینل پر بچوں کا سلسلہ آتا ہے،اس میں دکھایا گیا کہ ہمارے اسلامی بھائی بچوں کو کھیت میں لےگئے اور مرچیں نکال کر ان کے فوائد بیان کرنے لگے تو انہوں نے ایک فائدہ یہ بھی بتایا کہ مرچیں کھانے سے قوتِ مُدافعت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی بیماری سے مقابلہ کرنے کی قوت بڑھ جاتی ہے۔ یاد رہے ! یہ فوائد لال مرچ کے نہیں ہری مرچ کے ہیں۔نیز ہری مرچ بھی زیادہ نہ کھائی جائے کہ اس سے معدے کو نقصان ہو سکتا ہے۔(3)

(5)حضرت خضر علیہِ السّلام نبی یا ولی؟

سُوال: حضرت خضر علیہِ السّلام نبی تھے یا ولی تھے؟

جواب:سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی تحقیق یہی ہے کہ حضرت خضر علیہِ السّلام نبی ہیں(4) ۔ (5)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،2/114تا116 2ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،1/159 3ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،4/242 4فتاویٰ رضویہ،26/401 5ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،5/249


از: ام میلاد باجی نگران عالمی مجلس مشاورت دعوت اسلامی

یقیناً نکاح اسلامی شعار اور بہت ہی بابرکت عمل ہے، اس سے نہ صرف دو افراد میں محبت اور امن و سکون کی فضا قائم ہوتی ہے بلکہ دو خاندانوں کا بھی آپس میں ایک محبت بھرا تعلق قائم ہو جاتا ہے، نیز اسی نکاح کی بدولت معاشرے میں ایک اچھی فضا پیدا ہوتی ہے اور برائیوں کا قلع قمع ہوتا ہے، اس کی عظمت و افادیت اس وقت اور بڑھ جاتی ہے جب قرآن و سنت اور اسلامی اصول و قوانین کے مطابق اس کام کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ لیکن افسوس! صد افسوس! ہمارے یہاں عام طور پر دینی تعلیمات کے مطابق نکاح کی تقریب کے تمام مراحل طے نہیں ہوتے بلکہ ہماری اس مذہبی رسم میں بھی بہت سی ہندوانہ اور غیر اسلامی حرکات و خرافات شامل ہو چکی ہیں، یہی وجہ ہے کہ اب اکثر شادیاں کامیاب نہیں ہو پا رہیں اور شیطان اپنی کوششوں میں یعنی فساد برپا کرنے اور نفرتیں پھیلانے میں مکمل کامیابی حاصل کر رہا ہے، یاد رہے شیطان کبھی نہ چاہے گا کہ مسلمان اللہ پاک کے حکم کی اطاعت کریں اس کو راضی کرنے والے کام کریں اور اس کی منشا کے مطابق عمل کریں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ مسلمانوں کے اسلامی معاملات میں دخل اندازی کر کے اس میں خرابی پیدا کرے لیکن اللہ پاک کے محبوب بندے شیطان کو ناکام و نامراد کرتے ہیں اور دونوں جہانوں میں سرخرو ہو جاتے ہیں۔ یہاں شادیوں میں پائی جانے والی کچھ ایسی خرابیوں کا ذکر کیا جاتا ہے جن میں ہماری کئی خواتین مبتلا نظر آتی ہیں تاکہ ہماری مسلمان خواتین ان کو جان کر ان سے بچنے کی کوشش کریں اور اپنی اصلاح کر سکیں۔

مسلمان عورت کو شادی میں کیا نہیں کرنا چاہیے؟

مسلمان عورت کو مردوں سے اختلاط نہیں کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کو بے پردگی، بے حیائی اور بے شرمی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔مسلمان عورت کو شادی کے معاملات کی وجہ سے نمازوں سے غفلت نہیں کرنی چاہیے۔مسلمان عورت کو دوسرے مہمانوں کے ساتھ مل کر کسی اور خاتون کی غیبت اور برائی نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان عورت کو دوسری عورتوں کے کپڑوں، ان کے زیورات یا ان کی کسی اور بات پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔مسلمان عورت کو شادی کے کھانے وغیرہ میں بھی عیب نہیں نکالنا چاہیے۔مسلمان عورت کو دلہن یا دولہا یا ان میں سے کسی کے گھر والوں کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں کرنی چاہیے اور کسی سے بدگمان نہیں ہونا چاہیے۔مسلمان عورت کو وہاں پر بھی حقوق العباد میں کوتاہی نہیں کرنی چاہیے۔ مسلمان عورت کو شادی کے موقع پر بھی گانے باجے اور ڈانس وغیرہ کرنے اور دیکھنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ مسلمان عورت کو مووی اور تصویریں بنوانے سے بچنا چاہیے۔

اللہ پاک ہماری مسلمان خواتین کو زندگی کے تمام معاملات شریعت کی روشنی میں گزارنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

از: بنت اللہ بخش عطاریہ ہند

مشترکہ خاندانی نظام(Joint family system)ایک عمارت کی طرح ہوتا ہے اور عمارت کی مضبوطی، پائیداری، بقا اور خوبصورتی میں اس کے ستونوں کی مضبوطی اور باہمی ربط و تعلق کا کردار نہایت اہم ہوتا ہے، اگر ان میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہو جائے یا ان کی مناسب دیکھ بھال کا خیال نہ کیا جائے تو ان پر قائم عمارت میں بھی جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ ہونے اور دراڑیں پڑنے کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، یوں وہ عمارت زیادہ عرصے تک اپنا وجود برقرار نہیں رکھ پاتی اور بالآخر گر کر ملیا میٹ ہو جاتی ہے۔ اسی طرح مشترکہ خاندانی نظام کی عمارت کی مضبوطی و خوبصورتی بھی اس کے ستونوں یعنی ایک ہی چھت کے نیچے رہنے والوں میں اسلامی تعلیمات پر عمل، قوتِ برداشت اور معاشرتی اخلاق و آداب کی رعایت پر موقوف ہوتی ہے، جہاں ان کی رعایت نہیں کی جاتی وہاں اس پاکیزہ عمارت میں کمزوری اور دراڑیں پیدا ہو جاتی ہیں اور یوں اس پاکیزہ عمارت کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔بلاشبہ جٹھانی یعنی بڑے بھائی کی بیوی اور دیورانی یعنی چھوٹے بھائی کی بیوی بھی خاندان کے دو اہم ترین ستون ہیں، چونکہ یہ دونوں خواتین شادی کے بعد ایک نئے خاندان کا حصہ بنتی ہیں۔ لہٰذا ہونا تو یہ چاہئے کہ یہ دونوں خواتین مل جل کر خاندان کی عمارت کو مضبوط بنانے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں، مگر افسوس! اکثر گھر ان کے درمیان بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے کے سبب میدانِ جنگ بنے رہتے ہیں۔ یہاں ذیل میں چند ایسی باتیں ذکر کی جا رہی ہیں جنہیں اگر یہ دونوں مدِّ نظر رکھیں تو ان کے گھر امن کا گہوارا بن سکتے ہیں:

v جٹھانی یا دیورانی میں سے اگر کوئی گھر کے اہم افراد کا دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے تو دوسری کو چاہئے کہ وہ حسد کی آگ میں نہ جلے بلکہ وہ بھی اپنے کام میں نکھار لا کر ان افراد کا دل خوش کرنے کی بھرپور کوشش کرے۔

v دونوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کی خوبیوں کی جائز تعریف ضرور کریں کہ اس سے آپس میں محبت بڑھتی ہے، مثلاً ان میں سے جس کو اچھا کھانا پکانا آتا ہو یا اچھے کپڑے سیتی ہو یا فرائض کے ساتھ ساتھ نفل عبادات بھی بجا لاتی ہو یا دینی کاموں کی شیدائی ہو وغیرہ تو اس کی تعریف کرنے میں دوسری کو ذرا بھی ہچکچاہٹ و کنجوسی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔

v اگر جٹھانی کو دیورانی کی کوئی بات و حرکت اچھی نہ لگے تو وہ اس کے خلاف محاذ کھڑا کرے نہ کسی کے سامنے اظہار کرے اور نہ اسے جلی کٹی سنائے بلکہ اسے اپنی چھوٹی بہن سمجھ کر معاف کر کے ثوابِ آخرت کی حصہ دار بن کر نفس و شیطان کو ناکام و نامراد کر دے۔

v اسی طرح دیورانی کو جٹھانی کی کوئی بات و حرکت بری لگے تو وہ اسے ضد و انانیت کا مسئلہ بنائے نہ اسے اپنا دشمن سمجھ کر غیبت کے گناہ میں مبتلا ہو، بلکہ اسے اپنی بڑی بہن سمجھ کر غصہ پی لے اور درگزر سے کام لے۔

v ضد ی انسان ہمیشہ تنہا رہ جاتا ہے، لہٰذا جٹھانی دیورانی میں سے جس کو جو اور جتنا ملے وہ اس پر راضی رہے اور خواہ مخواہ اپنی شخصیت کو داغ دار کرے نہ بد گمانی کا شکار ہو۔ مثلاً یہ نہ سوچے کہ دوسری کو شادی پر اتنی مالیت کے زیورات پہنائے گئے، مجھے کیوں نہیں؟ اس کو گھر میں مجھ سے زیادہ جگہ کیوں دی گئی؟اس کے بچوں کا اتنا خیال رکھا جاتا ہے، لیکن میرے بچوں کو اِگنور کیا جاتا ہے! وغیرہ وغیرہ۔

v دونوں کو چاہئے کہ اگر کبھی آپس میں ” تُو تُو میں میں“ ہو جائے تو اسے بڑھاوا نہ دیں، بلکہ”رات گئی بات گئی“ کے مصداق رب کی رضا کی خاطر ایک دوسرے کو معاف کر کے معاملے کو رفع دفع کر دیں اور کوئی بھی اپنے شوہر کے سامنے دوسری کے خلاف باتیں کر کے اس کے دل میں نفرت پیدا نہ کرے، عین ممکن ہے ایسا کرنے سے بھائی بھائی کا دشمن بن جائے اور معاملہ مزید بھیانک روپ اختیار کر لے۔

v بعض خواتین میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اچھا سمجھتیں اور دوسروں کی اولاد میں نقص ڈھونڈتی رہتی ہیں بلکہ بسا اوقات منہ پر ہی اظہار بھی کر دیتی ہیں کہ تمہارا بچہ تو ایسا ہے۔ لہٰذا ان دونوں کو ایک ہی خاندان کی بہو ہونے کے ناطے ایک دوسرے کے بچوں کو اپنا ہی سمجھنا چاہئے اور خواہ مخواہ ایک دوسری کے بچوں میں عیب نہیں ڈھونڈنا چاہئے، کہ اس سے بچوں کی تربیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے اور وہ اپنی ماؤں کی باہمی ناراضی کی وجہ سے زندگی بھر کیلئے ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہیں۔

v بچے بچے ہوتے ہیں، جو لڑتے جھگڑتے ہیں پھر دوبارہ سب بھول بھال کر کھیلنے میں مشغول ہو جاتے ہیں، لہٰذا بچوں کی لڑائی کے سبب جٹھانی دیورانی کا آپس میں جھگڑنا، گالی گلوچ کرنا، رشتے ناطے توڑ لینا، خوشی غمی کے معاملات کا بائیکاٹ کر دینا، اپنے بچے کو بے قصور اور دوسری کے بچے کو قصور وار ٹھہرانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینا انتہائی درجے کی کم عقلی ہے۔ لہٰذا بچے لڑیں تو ہاتھوں ہاتھ صلح کروا دیں اور بچوں کو آئندہ ایسا نہ کرنے کی تنبیہ کر دیں، ان شاء اللہ شیطان مردود منہ کی کھائےگا۔

v جٹھانی رشتے میں دیورانی سے فائق ہوتی ہے، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ اس پر اپنی بڑائی کی دھاک بٹھائے یا اپنے احسانات جتلائے یا دھونس دھمکی کے ذریعے اپنے مطالبات منوائے یا اس کی کردار کشی کرے یا اسے نیچا دکھانے کے مواقع ڈھونڈتی رہے کہ اس طرح تو غیبتوں، چغلیوں، بہتان تراشیوں، بد گمانیوں، عیب دریوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ چل پڑتا ہے، لہٰذا جٹھانی کو چاہئے کہ وہ اپنی دیورانی کی عزتِ نفس کا خیال رکھے اور اس کی اس قدر خیر خواہی کرے کہ وہ خود کہہ اُٹھیں کہ اللہ پاک ایسی جیٹھانی ہر دیورانی کو دے۔

v دونوں کو چاہئے کہ وہ اپنے ذاتی اختلافات بھلا کر دکھ سکھ کی گھڑی میں سہیلیوں کی طرح رہیں اور بوقتِ ضرورت ایک دوسری کا سہارا بنیں، مثلاً ایک بیمار ہو تو دوسری اس کے کام بھی خوش اسلوبی سے کر دے اور کبھی بھی اپنے دل میں یہ خیال نہ آنے دے کہ جب مجھ پر آزمائش آئی تھی تو اس نے میرے ساتھ کوئی تعاون نہ کیا تھا، لہٰذا میری بلا سے وہ جئے یا مرے میں اس کے ساتھ ہرگز کوئی تعاون نہ کروں گی۔کیونکہ اگر وہ بھی اسی جیسا سلوک کرے گی تو دونوں میں فرق کیا رہے گا۔ لہٰذا گھر کو امن کا گہوارا بنانے کے لئے ضروری ہے کہ کسی ایک کے ساتھ کبھی کچھ برا ہوا ہو تو وہ درگزر سے کام لے اور اللہ پاک کی رضا کی خاطر معاف فرما دے۔اللہ پاک ہمیں اتفاق سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)

از: بنت محمد شیر اعوان عطاریہ بی ایڈ، ایم ایس سی اکنامکس گولڈ میڈلسٹ (میانوالی)

اخلاقی اقدار میں کچھ صفات کا تعلق چونکہ ہماری ذات سے اور کچھ صفات کا تعلق ہم سے جڑے لوگوں سے ہوتا ہے۔ لہذا گزشتہ قسط میں ذاتی صفات کا تذکرہ ہوا، اب دوسری قسم کی صفات پیشِ خدمت ہیں کہ جن سے دوسروں کو فائدہ پہنچتا ہے اور جو دینے کی صفات بھی کہلاتی ہیں:

1-قابل بھروسا:

کسی کے اعتماد اور بھروسے پر پورا اترنا بلاشبہ ایک انتہائی اعلیٰ صفت ہے، بچوں میں یہ صفت دیگر صفات کی طرح والدین کے رویئے اور اعتماد سے ہی پیدا ہوتی ہے۔ چنانچہ والدین کا فرض ہے کہ وہ خود کو مثالی بنائیں تا کہ بچے انہیں دیکھ کر اس عمل کو اپنائیں کہ عمل قول سے زیادہ قوی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں انہیں چاہئے کہ بچے کے ہر اس عمل کی تعریف کریں کہ جس میں اس کا قابلِ بھروسا ہونا ظاہر ہو، نیز بچوں کو یہ یقین دلائیں کہ جس طرح وہ ان پر یعنی اپنے ماں باپ پر بھروسا کرتے ہیں، اسی طرح انہیں بھی ایسا بننا چاہئے کہ لوگ ان پر بھروسا کریں اور ان کی کسی بات کو نہ جھٹلائیں۔

2-رحم دلی:

رحم دل لوگ شفقت، مہربانی اور درگزر کی صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں جو کہ نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ عملی زندگی میں بھی بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔ اللہ پاک بھی اس بندے کو پسند فرماتا ہے جو اس کی مخلوق پر رحم کرے اور درگزر سے کام لے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا، معاف کرو تمہیں معاف کیا جائے گا۔([i])

یاد رہے! رحم دلی اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھی بڑی پسند ہے۔ چنانچہ والدین کو چاہئے کہ بچوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھیں اور انہیں بھی نرمی اختیار کرنے کی تربیت دیں تا کہ وہ انسانوں بلکہ جانوروں اور چرند پرند وغیرہ ہر ایک کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ بلکہ بچوں کو جب بھی کچھ سمجھائیں تو مثال دے کر سکھائیں۔ مثلاً روزمرہ کے کاموں میں ہمیں بہت سے ایسے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جہاں رحم دلی کا مظاہرہ کیا جا سکتا ہے جیسے گھر میں ملازم سے کسی کام میں کوتاہی ہو جانے پر رحم دلی و درگزر سے کام لینا وغیرہ۔۔ اگر اس طرح کے مواقع پر بچے کے سامنے رحم دلی کا عملی مظاہرہ کیا جائے تو خود بخود آہستہ آہستہ یہ صفت ان میں منتقل ہو جائے گی۔

3-عدل و انصاف:

اخلاقی اقدار میں جتنی بھی صفات شامل ہیں ان کا ماخذ اگرچہ قرآن و سنت ہے اور اگر عملی نمونہ دیکھنا چاہیں تو ہمارے سامنے حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات مبارکہ بھی ہے۔ چنانچہ والدین کو چاہئے کہ پہلے خود سیرتِ نبوی کا پیکر بنیں اور دیگر اوصاف کی طرح بچوں کو عدل و انصاف کا عادی بنانے کے لئے خود بھی عدل و انصاف سے کام لیں، نیز بچوں، بچیوں میں امتیازی سلوک کر کے کسی قسم کا فرق نہ کیا کریں۔

4-حساسیت: یہ صفت صرف اس میں پائی جاتی ہے جو دوسروں کیلئے احساس کا جذبہ رکھتا ہو اور دوسروں کے دکھ، درد اور غم میں ان کے ساتھ شریک ہو۔

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)


[i] شعب الایمان ، 5/ 449، حدیث: 7236


از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا وہ خوش نصیب خاتون ہیں جنہیں اللہ پاک کے پیارے نبی حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا آپ کا نام راعیل ہے مگر عوام میں آپ اپنے لقب زُلیخا سے زیادہ مشہور ہیں۔ ([1])

حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا ایک مغربی بادشاہ طیموس کی انتہائی خوبصورت شہزادی تھیں۔ نو برس کی عمر میں آپ نے خواب میں پہلی بار حضرت یوسف علیہ السّلام کا دیدار کیا تو اسی وقت ان کی دیوانی ہو گئیں، پھر دوسرے سال خواب دیکھا تو حالت مزید خراب ہو گئی یہاں تک کہ تیسرے سال خواب میں جب یہ معلوم ہوا کہ آپ علیہ السّلام شاہِ مصر ہیں تو انہوں نے یہ سمجھتے ہوئے کہ چونکہ شاہِ مصر حضرت یوسف علیہ السّلام ہیں، لہٰذا شاہِ مصر سے شادی کر لی، لہٰذا حقیقت معلوم ہونے پر بے ہوش ہو گئیں، پھر آپ کو ہاتِفِ غیبی سے آواز آئی کہ جس ہستی کی آپ تمنا رکھتی ہیں اس کے شاہِ مصر بننے تک صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھیں۔(2)مگر آپ چونکہ حضرت یوسف علیہ السّلام کی حقیقت سے بخوبی آگاہ تھیں نہ ابھی تک ایمان لائی تھیں، اس لئے جب حضرت یوسف کو دیکھا تو صبر نہ کر سکیں، جس کی وجہ سے آپ کو کئی تکالیف کا سامنا بھی کرنا پڑا، یہاں تک کہ امام غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ کے بقول انہوں نے حضرت یوسف علیہ السّلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا، 70 اونٹوں کے بوجھ کے برابر جواہر اور موتی نثار کر دئیے، جب بھی کوئی یہ کہتا کہ میں نے یوسف کو دیکھا ہے تو وہ اسے بیش قیمت ہار دے دیتیں یہاں تک کہ کچھ بھی باقی نہ رہا۔(3) مگر بعد میں جب ایمان لے آئیں اور حضرت یوسف علیہ السّلام کی زوجیت میں داخل ہوئیں تو سوائے عبادت و ریاضت اور توجہ الی اللہ کے کوئی کام نہ رہا، اگر حضرت یوسف علیہ السّلام دن کو اپنے پاس بلاتے تو کہتیں رات کو آؤں گی اور رات کو بلاتے تو دن کا وعدہ کرتیں۔ آخر حضرت یوسف علیہ السّلام نے جب پوچھا کہ آپ تو میری محبت میں دیوانی تھیں! تو عرض کرنے لگیں: یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب میں محبت کی حقیقت سے واقف نہ تھی، اب چونکہ مجھے حقیقت معلوم ہو چکی ہے اس لئے اب میری محبت میں آپ کی شرکت بھی گوارا نہیں۔ اس پر جب حضرت یوسف علیہ السّلام نے فرمایا کہ مجھے اللہ پاک نے اس بات کا حکم فرمایا ہے اور یہ بھی بتایا ہے کہ آپ کے بطن سے اللہ پاک دو بیٹے پیدا کرے گا جو دونوں نبی ہوں گے تو حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا نے اللہ پاک کے حکم و حکمت کی بنا پر سر جھکا دیا۔ (4)

یاد رہے ! حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کی توبہ کا اعلان قرآنِ کریم میں کیا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے اپنے قصور کا اعتراف کر لیا تھا اور قصور کا اقرار توبہ ہی ہے۔ لہٰذا حضرت زلیخا کو برے لفظوں سے یاد کرنا حرام ہے کیونکہ وہ حضرت یوسف کی صحابیہ اور ان کی مقدس بیوی تھیں۔ اللہ پاک نے بھی ان کے قصوروں کا ذکر فرما کر ان پر غضب ظاہر نہ فرمایا کیونکہ وہ توبہ کر چکی تھیں اور توبہ کرنے والا گنہگار بالکل بے گناہ کی طرح ہوتا ہے۔(5)نیز اپنے مجازی عشق کے لئے معاذ اللہ حضرت یوسف علیہ السّلام اور زُلیخا کے قصّے کو دلیل بنانا سخت جہالت و حرام ہے، کیونکہ عشق صرف زلیخا ہی کی طرف سے تھا، حضرت یوسف کا دامن اس سے پاک تھا۔ (6)لہٰذا حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کا ذکر ہرگز ہرگز بے ادبی سے نہ کیا جائے بلکہ ہر حال میں احترام کا خیال رکھا جائے، بہت سے بے باک لوگ حضرت یوسف علیہ السّلام اور زلیخا کے واقعے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں اور معاذ اللہ ان کی شان میں بہت سی بے ادبیاں کرتے ہیں، ایسے لوگوں کو فوراً سچی توبہ کر لینی چاہیے ورنہ بربادی یقینی ہے۔

حضرت یوسف و زلیخا کا نکاح

حضرت یوسف علیہ السّلام سے حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کی شادی کا واقعہ بھی بڑا عجیب ہے، جیسا کہ دین و دنیا کی انوکھی باتیں نامی کتاب میں ہے کہ عزیزِ مصر کی موت کے بعد چونکہ حضرت زلیخا تنگ دست و محتاج ہو چکی تھیں اور آنکھوں کی بینائی بھی چلی گئی تھی تو کسی نے انہیں مشورہ دیا کہ اگر آپ حضرت یوسف جو کہ اب شاہِ مصر بھی ہیں، سے اپنا معاملہ ذکر کریں تو ہو سکتا ہے کہ وہ آپ پر رحم کریں اور آپ کی مدد فرما کر آپ کو غنی کر دیں کیونکہ آپ نے بھی ان کا خیال رکھا تھا اور ان کو عزت دی تھی۔ اس پر جب کسی نے انہیں یہ کہا: ایسا نہ کیجئے گا! ہو سکتا ہے کہ ان کو آپ کا وہ سلوک یاد آ جائے جب آپ نے ان پر الزام لگایا تو انہیں کافی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا تھا اور وہ بھی آپ کے ساتھ ویسا ہی کریں جیسا آپ کی وجہ سے ان کے ساتھ ہوا۔ تو فرمانے لگیں: میں ان کی بردباری اور کرم نوازی کو جانتی ہوں۔ چنانچہ آپ حضرت یوسف کی گزرگاہ میں ایک ٹیلے پر بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگیں۔ جب آپ قوم کے تقریباً ایک لاکھ معزز لوگوں اور وزیروں مشیروں کے ساتھ نکلے اور بی بی زلیخا نے حضرت یوسف کی خوشبو محسوس کی تو آپ کھڑی ہوئیں اور آواز دی: پاکی ہے اس کے لئے جس نے معصیت کے سبب بادشاہ کو غلام اور اطاعت کے سبب غلام کو بادشاہ بنا دیا۔ آپ نے پوچھا: تم کون ہو؟ عرض کی: میں وہی ہوں جو آپ کی خدمت خود کرتی تھی، آپ کے بالوں میں اپنے ہاتھ سے کنگھی کرتی تھی، آپ کے رہنے کی جگہ کی خود صفائی کرتی تھی۔ مجھے میرے کئے کی سزا مل چکی، میری قوت ختم ہو گئی، میرا مال ضائع ہو گیا، میری آنکھوں کی روشنی ختم ہو گئی اور میں لوگوں سے سوال کرنے پر مجبور ہو گئی ہوں ۔ پہلے مصر کے لوگ میری نعمت کو دیکھ کر رشک کرتے تھے اور اب میں اس سے محروم ہو چکی ہوں کیونکہ فساد کرنے والوں کی یہی سزا ہے ۔ یہ سن کر حضرت یوسف بہت زیادہ روئے اور حضرت زلیخا سے فرمایا: کیا تیرے دل میں میری محبت میں سے کچھ باقی ہے؟ آپ نے عرض کی: جی ہاں! اس کی قسم جس نے حضرت ابراہیم کو خلیل بنایا! مجھے آپ کی طرف دیکھنا زمین بھر سونا چاندی ملنے سے زیادہ محبوب ہے۔ آپ وہاں سے چلے گئے اور حضرت زلیخا کی طرف پیغام بھیجا: اگر تمہاری رضامندی ہو تو ہم تم سے نکاح کر لیں اور اگر تم شادی شدہ ہو تو تمہیں غنی کر دیں؟ آپ نے حضرت یوسف کے پیغام لانے والے سے کہا: میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں کیونکہ میری جوانی اور حسن و جمال کے وقت تو انہوں نے میری طرف توجہ نہیں دی اور اب جب کہ میں بوڑھی، اندھی اور فقیر ہوں تو وہ مجھے کیسے قبول کر سکتے ہیں؟ بہرحال حضرت یوسف علیہ السّلام نے ان سے نکاح کر لیا اور ان کے پاس آئے، پھر نماز پڑھی اور اللہ پاک سے اس کے اسم اعظم کے وسیلہ سے دعا کی تو اللہ پاک نے حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا کا حسن و جمال، بصارت اور جوانی لوٹا دی۔ نکاح کے وقت آپ باکرہ تھیں اور آپ سےاَفراثیم بن یوسف اور منشا بن یوسف پیدا ہوئے۔ حضرت یوسف اور حضرت زلیخا رحمۃُ اللہِ علیہا نے اسلام میں بڑی خوشگوار زندگی گزاری حتّٰی کہ موت نے آپ دونوں کے درمیان جدائی ڈالی۔(7)

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] روح البیان، 4/231 2 پردے کے بارے میں سوال جواب، ص337 3 مکاشفۃ القلوب،ص 72 4 مکاشفۃ القلوب،ص 72 5 تفسیر صراط الجنان، 4/ 575 6 پردے کے بارے میں سوال جواب، ص 321 7 دین و دنیا کی انوکھی باتیں، 1/249


بچوں کی موت پر صبر

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: ام سلمہ عطاریہ مدنیہ  ملیر کراچی

جب یومُ الحرّہ کے موقع پر اہلِ مدینہ شہید کئے جا رہے تھے تو شہیدوں میں سیدہ زینب بنتِ ابو سلمہ رضی اللہُ عنہما کے دو بیٹے بھی شامل تھے، جب ان کی لاشیں آپ کے سامنے لائی گئیں تو آپ نے صبر و تحمل سے کام لیا اور بالکل بھی واویلا نہ کیا۔([1])

مصیبت کے وقت عموماً عورتیں بے صبری سے کام لیتی ہیں۔ حالانکہ ہماری بزرگ خواتین نے سخت مشکل حالات میں بھی ہمیشہ مثالی صبر اور حوصلے کا مظاہرہ کیا کیونکہ وہ ہر حال میں اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوشنودی کو پیشِ نظر رکھتیں اور ان کی ناراضی کا سبب بننے والے کاموں سے بچتیں۔ وہ جانتی تھیں کہ یہ دنیا فانی اور جنت کی نعمتیں ابدی (یعنی ہمیشہ رہنے والی) ہیں۔ چنانچہ انہوں نے نہ صرف اپنے رشتے داروں اور بچوں کے انتقال پر صبر کیا، بلکہ کوئی حرفِ شکایت بھی زبان پر نہ لائیں۔ مگر افسوس! فی زمانہ اکثر عورتیں قریبی عزیز کے فوت ہو جانے پر زمانۂ جاہلیت کی طرح چیخ و پکار کرتی اور شکوے شکایات کرتی دکھائی دیتی ہیں اور بسا اوقات تو یہ سب دکھلاوہ ہوتا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ انہیں کوئی غم نہیں۔ نیز کبھی بےصبری کے سبب کفریہ کلمات تک بَک دئیے جاتے ہیں ۔ الامان والحفیظ۔

بلاشبہ قریبی رشتہ داروں خصوصاً اپنے بچوں کی موت پر صبر کرنا مشکل ہوتا ہے، مگر یہ ناممکن نہیں۔ چنانچہ ایسی صورت میں صبر کیا جائے اور خصوصاً زبان کو قابو میں رکھا جائے کہ بے صبری کرنے سے صبر کا اجر تو ضائع ہو سکتا ہے مگر مرنے والا پلٹ کر نہیں آسکتا۔(2) یہ بھی خیال رہے! نوحہ یعنی میّت کے اوصاف اور خوبیاں مبالغہ کے ساتھ بڑھا چڑھا کر بیان کر کے آواز سے رونا، جس کو بَین بھی کہتے ہیں بالاجماع حرام ہے۔ یونہی واویلا، گریبان پھاڑنا، منہ نوچنا، بال کھولنا، سر پر خاک ڈالنا، سینہ کوٹنا، ران پر ہاتھ مارنا یہ سب جاہلیت کے کام ہیں اور حرام۔ اسی طرح آواز سے رونا بھی منع ہے البتہ آواز بلند نہ ہو تو اس کی ممانعت نہیں۔(3)

حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:آنکھ کے آنسو اور دل کے غم کے سبب اللہ پاک عذاب نہیں فرماتا۔ بلکہ (زبان کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ) اس کے سبب عذاب یا رحم فرماتا ہے اور گھر والوں کے رونے کی وجہ سے میّت پر عذاب ہوتا ہے۔(4) یعنی جبکہ اس نے وصیّت کی ہو یا وہاں رونے کا رواج ہو اور اس نے منع نہ کیا ہو، واللہ اعلم۔ یا یہ مراد ہے کہ ان کے رونے سے اسے تکلیف ہوتی ہے کہ ایک روایت میں ہے: اے اﷲ کے بندو! اپنے مردے کو تکلیف نہ دو، جب تم رونے لگتے ہو وہ بھی روتا ہے۔(5) ہمیں چاہئے کہ ایسے مواقع پر خود بھی صبر و ہمت سے کام لیں، دیگر گھر والوں کو بھی صبر کرنے اور میت کو تکلیف نہ دینے کی ترغیب دلائیں اور زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرکے میت کو نفع پہنچائیں۔ موت تو یقیناً برحق ہے اور ایک دن ہمیں بھی اس دنیا سے جانا ہی ہے اس لئے اپنی موت کو بھی ہرگز فراموش نہ کریں اور گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کے ذریعے قبر و آخرت کی تیاری کرتی رہیں۔ نیز ابھی سے اپنا یہ ذہن بنالیں کہ اگر میرے جیتے جی گھر میں کسی کی فوتگی ہوگئی تو ان شاء اللہ میں رضائے الٰہی پر راضی رہتے ہوئے صبر کروں گی۔(6)اللہ پاک ہمیں صبر کرنے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]الاستیعاب، 4/ 411 2کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، ص492 3بہار شریعت حصہ4، ص 203 4بخاری، 1/ 441، حدیث: 1304 5معجم کبیر، 25/ 10 ، حدیث: 1 6صحابیات و صالحات اور صبر، ص 37


روٹی پکانا

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: بنت اسحاق مدنیہ عطاریہ (بی ایڈ، ایم اے اسلامیات)  ریجن ذمہ دار جامعات المدینہ گرلز حاصل پور

فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ‌كُلْ ‌مِمَّا ‌يَلِيكَ یعنی کھانا اس طرف سے کھاؤ جو تمہارے قریب ہو۔([1]) پر عمل کرتے ہوئے روٹی اس طرح نہ کھائی جائے کہ درمیانی حصہ کھا کر کنارے چھوڑ دیں، روٹی ہمیشہ ہاتھ سے توڑیں اور چھری وغیرہ سے نہ کاٹیں کہ حضور نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔(2) روٹی کے چار ٹکڑے کرنا ضروری نہیں مگر کر لیا تو حرج بھی نہیں کہ بزرگوں کا طریقہ ہے۔ نیز بائیں ہاتھ میں لے کر دائیں ہاتھ سے نوالہ توڑنا دفعِ تکبر یعنی تکبر دور کرنے کیلئے ہے۔(3) ایک ہاتھ سے روٹی توڑ کر کھانا مغروروں کا طریقہ ہے، ہاتھ بڑھا کر تھال یا سالن کے برتن کے عین بیچ میں اوپر کر کے روٹی توڑنے کی عادت بنائیے اس طرح اجزا کھانے ہی میں گریں گے ورنہ دستر خوان پر گر کر ضائع ہو سکتے ہیں۔(4)

روٹی کا احترام:

آج کل رزق کی بے قدری اور بے حرمتی سے کون سا گھر خالی ہے! بنگلے میں رہنے والے ارب پتی سے لے کر جھونپڑی میں رہنے والا مزدور تک اس بے احتیاطی کا شکار نظر آتا ہے، بالخصوص خوشی و غمی کی تقریب کے موقع پر کثیر کھانا ضائع ہوتا ہے، حالانکہ کھانے کا ادب و احترام ہمارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔ جیسا کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: ایک مرتبہ نبی پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تشریف لائے تو روٹی کا ٹکڑا پڑا دیکھا تو اسے اٹھا کر پونچھا اور کھا لیا پھر ارشاد فرمایا: عائشہ! اچھی چیز کا احترام کرو کہ یہ چیز (یعنی روٹی) جب کسی قوم سے بھاگی ہے تو لوٹ کر نہیں آئی۔(5)

آج دنیا بھر میں جہاں لاکھوں افراد غذا کی قلت کا شکار ہیں، وہیں افسوس! گھروں اور بالخصوص شادیوں وغیرہ میں ٹنوں کے حساب سے کھانا برباد ہو جاتا ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے پاس موجود خوراک کا صحیح استعمال کریں۔ چنانچہ باسی روٹی غذائیت کے اعتبار سے تازہ روٹی سے زیادہ صحت بخش تصور کی جاتی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یہ روٹی تناول فرمانا ثابت بھی ہے، جیسا کہ حضرت ام ہانی رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے گھر تشریف لائے تو میں نے آپ کے طلب فرمانے پر سوکھی ہوئی روٹی اور سرکہ پیش کیا جو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خوشی سے تناول فرمایا۔(6) چنانچہ اگر کبھی کسی بھی وجہ سے روٹیاں بچ جائیں تو انہیں ہرگز نہ پھینکیں کیونکہ روٹی سخت ہوتی ہے، خراب نہیں ہوتی، ہاں پھپھوندی لگ جائے تو خراب ہے ورنہ یہ قابل استعمال ہی ہے۔ یعنی صبح کی روٹی شام کو اور شام کی صبح کو استعمال کی جا سکتی ہے اور اسے برا بھی نہیں سمجھنا چاہئے، جیسا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بخوشی سوکھی روٹی تناول فرمائی۔ چنانچہ آپ باسی روٹی کو ذیل کے طریقوں سے بھی استعمال کے قابل بنا سکتی ہیں:

طریقہ نمبر 1:

روٹی رول کر کے چھری سے Pieces کر لیں ہلکے ہاتھ سے ان ٹکڑوں کو الگ الگ کر لیں یہ نوڈلز سے ملتی جلتی شکل میں آ جائیں گے، اسے ایک Bowl میں ڈال کر دو چمچ دیسی گھی ڈالیں، تھوڑا سا نمک ڈال کر اچھی طرح مکس کریں، اس طرح روٹیوں میں بھی مؤوسچر آجائے گا۔ ایک بڑے سائز کا آلو پتلا پتلا لمبائی میں کاٹ لیں، ایک پیاز باریک کاٹ لیں ایک ٹماٹر اور دو سبز مرچ بھی باریک کاٹ لیجیئے۔

فرائی پین میں ایک چمچ زیرہ، آدھاچمچ سرسوں کے دانے (اگر میسر ہوں تو)، پانچ عدد کڑی پتے اور ہری مرچ ڈال کر اچھی طرح بھون لیں۔ اب پیاز ڈالیں اور صرف 15 یا 20 سیکنڈ بھونیں،پھر آلو ڈال کر بھون لیں، دونوں کا کلر سنہرا ہو جائے تو چاہیں ٹماٹر کے ساتھ 2 چمچ ٹماٹر کیچپ بھی ڈال کر مکس کر دیں۔ پھر آدھا چمچ سرخ مرچ ،گرم مصالحہ اور تھوڑی سی ہلدی ڈال کر ڈھک دیں، پھر 2 ، 3 منٹ تک پکائیں، ٹماٹر کا پانی خشک ہو جائے تو مزید اتنا پانی ڈالیں کہ سوکھی روٹیاں گیلی ہو جائیں، پھر روٹیاں ڈال کر اچھے سے مکس کریں۔ گیلا پن ختم ہو جائے اور روٹیاں نوڈلز کی شکل میں کرسپی ہو جائیں تو ہرا پیاز یا ہرا دھنیہ ڈال کر کھائیں، یہ لذیذ کھانا تیار ہو جائے گا۔

طریقہ نمبر 2:

روٹی چار عدد، تیل دو کھانے کے چمچ، الائچی چند دانے، پسی چینی حسب ضرورت۔

ترکیب: روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر لیں یا انہیں کسی گرائنڈر میں موٹا موٹا پیس لیں، پھر کڑاہی میں تیل ڈال کر اس میں الائچی ڈال دیں، کچھ دیر بعد روٹیاں ڈال کر اچھی طرح تل لیں، ان کا رنگ براؤن ہو جائےتو چینی شامل کر کے دونوں کے یک جاں ہونے تک پکائیں ۔ مزیدار میٹھی چوری تیار ہے، ناشتے میں چائے یا دودھ کے ساتھ کھائیں، پراٹھے کا مزہ دے گی۔

طریقہ نمبر 3:

باسی روٹی چار عدد، چنے کی دال چار کھانے کے چمچ، مونگ، ماش اور مسور کی دالیں دو دو کھانے کے چمچ، لہسن ادرک پیسٹ دو چائے کے چمچ، بڑی پیاز ایک عدد، ہلدی ڈیڑھ چائے کا چمچ، لال مرچ ایک چائے کا چمچ یا نمک کی طرح حسب ذائقہ، گرم مصالحہ اور چکن پاؤڈر ڈیڑھ ڈیڑھ چائے کا چمچ۔

بگھار کے اجزا: باریک کٹی پیاز ایک عدد، ثابت لال مرچ چار عدد، زیرہ ایک چائے کا چمچ، تیل دو سو گرام۔

گارنش کے اجزا: کٹا ہرا دھنیا دو کھانے کے چمچ، ادرک ایک چھوٹا ٹکڑا، کٹی ہری مرچ دو عدد، لیموں دو عدد۔

ترکیب: سب سے پہلے ایک برتن میں تمام روٹیوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کے پانی میں بھگو دیں، اب تمام دالوں کو دھو کر کچھ دیر کے لیے بھگو دیں، پھر ایک برتن میں تمام دالوں کو پانی کے ساتھ چولھے پر گلنے کے لیے رکھ دیں۔ اُبال آنے پر اس میں لہسن ادرک کا پیسٹ اور پیاز کے ساتھ ہی تمام مصالحہ جات شامل کریں اور پکنے دیں۔ جب دالیں گل جائیں اور پانی خشک ہو جائے تو پانی میں بھیگی ہوئی روٹیوں کو ہاتھوں سے مل کر دالوں میں شامل کر لیں اور تھوڑا سا پانی مزید شامل کر کے دس سے بیس منٹ تک پکنے دیں۔ جب یہ تیار ہو جائے تو اس میں ہرا دھنیا، ہری مرچیں اور چکن پاؤڈر شامل کر کے اسے چولہے سے اتار لیں ۔ اب ایک فرائی پین میں تیل ڈال کر پیاز، زیرہ اور ثابت لال مرچ ڈال کر بگھار تیار کریں۔ پھر ہرا دھنیا، ہری مرچ، لیموں اور ادرک سے گارنش کریں۔ باسی روٹیوں سے بنی مزیدار ڈش تیار ہے۔

طریقہ نمبر 4:

روٹی کو شوربے میں پکا لیں یا شوربے میں توڑ کر بھگو دیں تاکہ وہ اچھی طرح گل جائے، یہ طریقہ ثرید کہلاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا محبوب ترین کھانا ثرید تھا۔(7)

بازاری کھانوں کے نقصانات

خوراک اور صحت کا آپس میں گہرا تعلق ہے، متوازن اور صحت مند غذا کے انتخاب اور استعمال سے ہی تا دیر صحت مند اور بھر پور توانا رہنا ممکن ہے لیکن مشینی دور کی مشینی غذاؤں کا استعمال بڑھتا چلا جا رہا ہے جس کے باعث مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ فی زمانہ گھریلو روٹی کی جگہ بازاری چیزوں مثلاً نان، تندوری روٹی و چپاتی، شیر مال، کلچہ، تافتان، شوارما ، پوری، گھی میں تر بہ تر پراٹھے، برگر اور پیزے وغیرہ کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جہاں اس کی وجہ لذت ہے وہیں ہماری بہو بیٹیوں کی سستی اور کاہلی بھی اس کا سبب ہے۔ کیونکہ بعض گھرانوں میں کھانا بنانا بہت مشکل اور بازاری کھانوں کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسے کھانے حد درجہ نقصان دہ ہیں۔ چنانچہ ضروری ہے کہ ہم اپنی بچیوں کی تربیت میں امور خانہ داری ، بالخصوص کچن اور اس سے متعلقہ امور کو نہ صرف شامل کریں بلکہ ان میں مہارت پیدا کریں تاکہ شادی کے بعد ان کی سستی اور کاہلی ان کے آڑے نہ آئے بلکہ وہ ایک اچھی بہو ،اچھی بیوی اور اچھی ماں ثابت ہوں، ان کی وجہ سے گھر امن کا گہوارہ بنے۔ ان کو اچھا بہترین خوش ذائقہ اور صحت سے بھر پور کھانا پکانا سکھائیں تاکہ گھر کا کوئی فرد بھی بازاری کھانوں کا رخ ہی نہ کرے۔ کیونکہ جب کھانا گھر میں بنے گا تو یقینی بات ہے کہ اس میں استعمال ہونے والی ہر چیز صاف ستھری اور خالص ہو گی اور کوئی بھی مضرِ صحت شے شامل نہ ہو گی۔ جبکہ فوڈ اسٹریٹ اور ریسٹورنٹ میں تیار شدہ کھانے بظاہر خوشبودار اور لذت سے بھرپور ہوتے ہیں لیکن انتہائی نقصان دہ بھی ہیں۔ کیونکہ یہ کھانے اکثر خوب گرم تیل میں تیار کیے جاتے ہیں اور طبّی تحقیق کے مطابق تیل کو جب خوب گرم کیا جاتا ہے تو اس میں ناخوشگوار اور نقصان دہ مادے پیدا ہو جاتے ہیں، تلنے کے لیے ڈالی جانے والی چیز بھی نمی چھوڑتی ہے جس کے سبب تیل بھی شور مچاتا ہے جو کہ کھانے کے کیمیائی اجزا کی توڑ پھوڑ کی علامت ہے جس کی وجہ سے غذائی اجزا اور وِٹامنز تباہ ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ،

تلی ہوئی چیزوں سے پیدا ہونے والی چند بیماریاں یہ ہیں:

3 وزن کا بڑھنا 3 آنتوں کی دیواروں کا متاثر ہونا 3اِجابت (پیٹ کی صفائی) میں گڑ بڑ ہونا 3پیٹ کا درد 3متلی 3قے یا 3اسہال (یعنی پانی جیسے دست) 3چربی کے مقابلے میں تلی ہوئی چیزوں کا استعمال زیادہ تیزی کے ساتھ خون میں نقصان دہ کولیسٹرول یعنی LDL بناتا اور مفید کولیسٹرول یعنی HDLکم کرتا ہے 3خون میں جمی ہوئی ٹکڑیاں بنتی ہیں3ہاضمہ خراب ہوتا ہے تو پیٹ میں ہر وقت گیس کی شکایت بھی رہتی ہے 3زیادہ گرم تیل میں ایک زہریلا مادہ ایکرولین پیدا ہو کر آنتوں میں خراش پیدا کرتا ہے جبکہ ایک اور خطرناک زہریلا مادہ فری ریڈ یکلز بھی دل کے امراض 3 کینسر 3 جوڑوں میں سوزش 3 دماغ کے امراض اور 3جلد بڑھاپا لانے کا سبب بنتا ہے۔

ڈبل روٹی کے نقصانات:

عام طور پر لوگ ناشتے میں یا روز مرہ روٹین میں کم وقت ملنے کے سبب ڈبل روٹی کا استعمال شروع کر دیتے ہیں، کیونکہ یہ تاثر عام پایا جاتا ہے کہ یہ کھانے کے لیے بہترین اور نرم غذا ہے حالانکہ حقیقت میں ایسا نہیں، کیونکہ غذائی ماہرین کے مطابق اسٹارچ اور کاربو ہائیڈرٹیس کی زیادتی کے سبب ڈبل روٹی کا مسلسل استعمال معدے اور نظام ہاضمہ کے لئے نقصان دہ ہے، اس لئے کہ ڈبل روٹی میں فائبر اور گندم میں پائی جانے والی غذائیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ہم خود یا ہمارے گھر والے متعدد بیماریوں میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں گھر میں روٹی بنانے اور گھر کی ہی بنی ہوئی روٹی کھانے کھلانے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1]بخاری، 3/ 522، حدیث: 5377 2المجروحین، 2/ 390 3فتاویٰ رضویہ، 21/ 669 4کھانے کا اسلامی طریقہ ص 7 5ابن ماجہ ،4/ 49، حدیث: 3353 6شمائل ترمذی، ص 109، حدیث: 164 ماخوذا [1]ابو داود، 3/ 492، حدیث: 3783


سالگرہ

Tue, 5 Jul , 2022
2 years ago

از: شعبہ ماہنامہ خواتین المدینۃ العلمیۃ

سالگرہ کی رسم سے پوری دنیا تقریباً متعارف ہے ، یہ رسم اگرچہ غیر مسلموں کی ایجاد ہے، لیکن اگر جائز طریقے سے منائی جائے تو شریعت میں منع نہیں یعنی کیک وغیرہ بھی کاٹ سکتی ہیں۔ کیونکہ اس موقع پر عموما ً رشتے داروں کو کھانا وغیرہ بھی کھلایا جاتا ہے جو ایک طرح سے صلہ رحمی بھی ہے جس پر ثواب ملے گا۔ یاد رہے! صلہ رحمی کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے اور اس کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ جیسا کہ فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: بیشک اللہ پاک صدقہ اور صلہ رحمی کے سبب عمر میں اضافہ کرتا، بری موت کو دور کرتا اور مکروہ وناپسندیدہ چیزوں سے بچاتا ہے۔ ([1]) البتہ! اگر اس موقع پر میوزک، گانے باجے بجائے جائیں وغیرہ تو یہ عمل اس طرح کے حرام کاموں کی وجہ سے ناجائز ہو جائے گا۔

سالگرہ پر کیک کاٹنے کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟

کیک کی تاریخ اگرچہ بہت پرانی ہے، مثلاً مصر میں کیک یہاں پر حکومت کرنے والے فراعنہ، یونانیوں، رومن اور بازنطینیوں یہاں تک کہ مسلمانوں کے دور میں بھی عید کے موقع پر ہوتا تھا، مگر سالگرہ کے موقع پر کیک کاٹنے کی ابتدا جرمنی سے ہوئی یعنی سب سے پہلے سالگرہ کا کیک جرمنی میں بنایا گیا تھا، جرمن لوگ اپنے بچوں کی سالگرہ کو کیک کے ساتھ مناتے تھے، اس جشن کو کنڈر فیسٹ کہا جاتا تھا۔ وقت کے ساتھ سالگرہ منانے کے طریقے میں بھی جدّت آتی گئی اور کیک کاٹنے کی روایت کے ساتھ ساتھ اس میں ایک اور اضافہ بھی کیا گیا جس میں سالگرہ کے وقت کیک پر موم بتیاں لگائی جانے لگیں اور کیک کاٹتے وقت ان موم بتیوں کو پھونک مار کر بجھایا جانے لگا۔ بعض کے نزدیک کیک پر موم بتیاں لگانے کا آغاز قدیم یونان سے ہوا۔ یونانی گول کیک بناتے اور اس پر موم بتیاں لگاتے تھے اور ایسا وہ اپنی چاند کی دیوی Artemis کے احترام میں کیا کرتے تھے۔ جبکہ بعض کا کہنا ہے کہ کیک پر موم بتیاں لگانے کا آغاز بھی جرمنی سے ہی ہوا جو کہ زندگی میں روشنی کی عکاسی کرتی ہیں۔ آج کیک پر موم بتیاں جلانا باقاعدہ رسم کی شکل اختیار کر گیا ہے جسے تقریباً دنیا کے ہر ملک میں اپنایا جاتا ہے۔ بہرحال سالگرہ کے موقع پر آج کل جو رسومات دیکھنے میں آ رہی ہیں، ان کا مختصر جائزہ کچھ یوں پیش کیا جا سکتا ہے:

جائز و ناجائز وغیرہ رسومات: سالگرہ پر ایسی تقاریب کا اہتمام کرنا جس میں بے پردگی و نامحرم مرد و زن کا اختلاط ہو جائز نہیں۔سالگرہ پر تحائف دینے کا سلسلہ ہوتا ہے، اگر جائز تحفہ ہے اور رضا مندی سے دیا جا رہا ہے تو درست ہے۔ البتہ! غیر محرم یعنی کزن دیور جیٹھ وغیرہ کا تحفہ دینا یا اس کا تحفہ قبول کرنے کی شریعت میں ممانعت ہے۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ محرم میں یا صفر کے مہینے میں سالگرہ نہیں کر سکتے، اس کی کوئی اصل نہیں۔ فی زمانہ سالگرہ کی مبارک باد دینے کیلئے مخصوص کارڈز وغیرہ دئیے جاتے ہیں۔ قدیم زمانے کے بعض لوگوں کا خیال تھا کہ جس کی سالگرہ ہو اس پر بد روحیں حملہ کرتی ہیں، لیکن اگر اس کے دوست اس سے ملنے آئیں اور اُسے دعائیں دیں تو وہ ان حملوں سے محفوظ رہے گا۔ جبکہ بعض کے نزدیک سالگرہ کی موم بتیوں میں ایک خاص جادو ہوتا ہے جس سے خواہشیں پوری ہو جاتی ہیں۔ حالانکہ شرعاً ان نظریات کی کوئی حیثیت نہیں۔

(یہ مضمون ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن کے جولائی 2022 کے شمارے سے لیا گیا ہے)




[1] مسند ابی یعلی، 3/398، رقم 4090