احمد
رضا (درجہ اولی ،جامعۃ المدینہ خلفائے
راشدین بحریہ ٹاؤن راولپنڈی،پاکستان)
(1)حضرت سیدنا
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور، دو
جہاں کے تاجور سلطان بحروبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، "اللہ
تعالٰی جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا اسے دین میں سمجھ بوجھ عطا فرماتا ہے
اور میں تقسیم کرنے والا ہوں اور عطا کرنے والا اللہ پاک ہے اس امت کا معاملہ ہمیشہ درست رہے گا یہاں تک کہ
قیامت قائم ہو جائے اور اللہ پاک کا حکم آجائے۔(صحیح البخاری، کتاب العلم، باب من
یرد اللہ بہ خیر االخ،1/42، حدیث:71 (
(2) حضرت سیدنا عبداللہ بن
عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور پاک، صاحب لولاک، سیاح افلاک صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تھوڑا علم زیادہ عبادت سے بہتر ہے اور انسان کے
فقیہ ہونے کیلئے اللہ پاک کی عبادت کرنا ہی کافی ہے اور انسان کے جاہل ہونے کیلئے
اپنی رائے کو پسند کرنا ہی کافی ہے ۔(طبرانی اوسط، باب المیم ، 6/ 257،حدیث: 8698 )
(3) حضرت سیدنا خذیفہ بن
یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور پاک صاحب لولاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے بڑھ کر ہے اور تمہارے دین کا
بہتر عمل تقویٰ یعنی پرہیزگاری ہے ۔ ( طبرانی اوسط، 3/92،حدیث: 3960)
(4) حضرت سیدنا سمرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور دو جہاں کے تاجور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن علما کے سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا اور ایک اور روایت میں ہے
کہ اور علما کے سیائی شہداء کے خون پر
غالب آجائے گی۔( تاریخ بغداد،2/190)
(5) حضرت سیدنا ابو امامہ رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ نور کے پیکر تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا : قیامت کے دن عالم اور
عبادت گزار کو اٹھایا جائے گا تو عابد سے
کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہو جاؤ او جبکہ عالم سے کہاں جائے گا کہ جب تک لوگوں
کی شفاعت نہ کر لو ٹھہرے رہو۔(الترغیب والترہیب،کتاب العلم ،4/313،حدیث: 2694)
اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿شَهِدَ
اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَالْمَلٰٓىٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ
قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ-لَاۤاِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُؕ(۱۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی
معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر اس کے سوا کسی کی
عبادت نہیں عزت والا حکمت والا۔(پ3،اٰلِ عمرٰن:18)
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ کے والدِ ماجد مفتی نقی علی
خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس آىت سے تىن فضىلتىں علم کى ثابت ہوئىں:
(1)خدائے پاک نے علما کو اپنے اور فرشتوں کے ساتھ ذکر کىا اور ىہ اىسا مرتبہ ہے کہ
انتہانہىں رکھتا(2)علما کو فرشتوں کى طرح اپنی وَحْدانِیت (یعنی ایک ہونے) کا گواہ
اور اُن کى گواہى کواپنے معبود ہونے کی دلیل قراردىا(3)اُن کى گواہى فرشتوں کی
گواہی کی طرح معتبر ٹھہرائى۔(فیضان علم وعلما،ص8ملخصاً)
احادیثِ مبارَکہ میں بھی علمائے کرام کے بکثرت فضائل موجود
ہیں،ان میں سے پانچ ملاحظہ کیجئے!
(1)عالم کی عابد پر فضیلت:حضرت ابو اُمامہ رضی اللہُ عنہ
فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا
ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا: عالم کی
فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے۔(ترمذی،4/313،حدیث:2694)
(2)علما کو مرتبۂ شفاعت ملے گا:حضرت جابر بن عبد اللہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہےکہ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: قیامت کے دن عالم اور عابد (یعنی عبادت گزار) کو لایا جائے گا تو عابد سے
کہا جائےگا:تم جنّت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا تم ٹھہرو اور لوگوں
کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، 2/268،
حدیث:1717)
(3)انبیائے کرام کے وارث:حضرت ابودرداء رضی اللہُ عنہ سے
روایت ہے،رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص علم
کی طلب میں کوئی راستہ چلے گا تو اللہ پاک اسے جنّت کے راستوں میں سے ایک راستہ پر
چلائے گا اور بے شک فرشتے طالبِ علم کی خوشی کیلئے اپنے پروں کو بچھاتے ہیں اور بے
شک عالم کے لئے آسمانوں و زمین کی تمام چیزیں اور پانی کے اندر مچھلیاں مغفرت کی دعا
کرتی ہیں اور یقیناً عالم کی فضیلت عابد کے اوپر ایسی ہی ہے جیسے چودھویں رات کے
چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے اور بےشک علما انبیائے کرام علیہمُ السّلام کے
وارث ہیں اور انبیا نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہ بنایا انہوں نے صرف علم کا
وارث بنایا تو جس نے علم اختیار کیا اس نے پورا حصہ لیا۔(ابوداؤد،3/444،حدیث:3641)
(4)لوگوں میں افضل: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم کتنا اچھا شخص ہے کہ جب اس کی ضرورت پڑے تونفع دے
اور اگر اس سے بے پرواہی کی جائے تو وہ اپنے آپ کو بے نیاز رکھے۔(تاریخ ابن عساکر،
45/303)
(5)ایک عالم اور ہزار عابد:حضرت سیدنا اِبنِ عباس رضی اللہُ
عنہما سے روایت ہے، اللہ پاک کے آخرنبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:ایک فقیہ (یعنی عالم) ایک ہزار عابدوں سے زیادہ شیطان پر بھاری ہے۔(ابن
ماجہ،1/145،حدیث:222)
اللہ پاک عاشقانِ رسول علمائے کرام کے فیوض و برکات کو امت
کے لئے عام فرمائے اور ان کا سایہ ہم پر دراز فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ
النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد طاہر فاروق (فاضل جامعہ دارالعلوم نقشبندیہ
مجدیدیہ سیالکوٹ، پاکستان)
نماز کی اہمیت: باقی تمام
فرائض زمین پر فرض ہوئے نماز عرش پر بلا کر فرض کی گئی ۔جس سے معلوم ہوا کہ نماز تمام عبادتوں سے افضل ہے۔اگر اُمّتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
لئے نماز سے افضل کوئی تحفہ ہوتا تو اللہ پاک وہی دیتا۔ باقی تمام احکام حضرت جبرئیل
علیہ السلام کے واسطے فرض ہوئے، لیکن نماز معراج کی رات بلاواسطہ عطا ہوئی اور پھر
باقی ارکان ایسے ہیں جو اُمرا پر فرض ہیں غرباء پر
فرض نہیں۔ جیسے زکوۃ، حج اور روزہ، مسافر
اور بیمار پر فرض نہیں۔ لیکن نماز ہر ایک پر ہر حال میں فرض ہے۔ چاہے آدمی غریب ہو
یا امیر، مسافر ہو یا مقیم ،بیمار ہو یا تندرست، نماز کسی حالت میں معاف نہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز
بندہ وصاحب ومحتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار
میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
روزے
سال میں ایک مرتبہ، زکوٰۃ سال میں ایک مرتبہ، حج زندگی میں ایک مرتبہ، لیکن نماز،
روزہ اور وہ بھی پانچ مرتبہ معلوم ہوا کہ نماز اللہ پاک کو بہت پیاری ہے۔ پھر ہر
نماز کا وقت مقرر کیا گیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی آیت ہے: اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى
الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳)ترجَمۂ
کنزُالایمان: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پ 5،نساء:103)وقت
مغرب: غروب آفتاب سے غروب شفق تک ہے۔ آیت: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ طَرَفَیِ النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ
الَّیْلِؕترجَمۂ کنزُالایمان: اور نماز قائم رکھو
دن کے دونوں کناروں (ف۲۳۲) اور کچھ رات کے حصوں میں۔(پ12،ہود:114)
(1)نماز مغرب کی فضیلت: (1) خادمِ نبی، حضرتِ سیِّدُنااَنس رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے:جس نے مغرب کی نماز جماعت
کے ساتھ ادا کی اُس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے
)اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔ (جمع الجوامع، 7/195،حدیث: 22311)
(2) مغرب کی سنتوں کی فضیلت: حضرت مکحول سے مُرسلاً روایت کی
کہ فرماتے ہیں: جو شخص بعد مغرب کلام کرنے سے پہلے دو رکعتیں پڑھے، اُس کی نماز علیین
میں اٹھائی جاتی ہے۔(مشکاۃ المصابيح، کتاب الصلاۃ، باب السنن و فضائلھا،
1/345،حديث: 1184)
(3)حضرت حذیفہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا: مغرب کے بعد کی دونوں رکعتیں جلد پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش
ہوتی ہیں۔
(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور
ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے، تو بارہ برس کی عبادت کی برابر کی جائیں گی۔(
جامع الترمذي، أبواب الصلاۃ، باب ماجاء في فضل التطوع... إلخ، 1/439،حديث: 435)
(5) حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرکار
مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں
پڑھے، اس کے گناہ بخش ديے جائیں گے، اگرچہ سمندر کے جھاگ برابر ہوں۔(معجم اوسط ،5/255،حدیث
:7245 )
محمد عثمان (درجہ سابعہ، جامعۃ المدینہ فیضان مدینہ ،گوجرانوالہ،
پاکستان)
(1)خادمِ نبی، حضرتِ سیِّدُنااَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کا فرمانِ عالی شان ہے:جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اُس کے لیے مقبول
حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا
ہے گویا (یعنی جیسے )اس نے شبِ قدر میں قیام کیا۔ (فیضان نماز ،ص110)
(2)امام فقیہ ابواللَّیث سمر قندی رحمۃُ
اللہِ علیہ نے (تابعی بزرگ) حضرت کعبُ الاحبار رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ
اُنہوں نے فرمایا: میں نے ’’تورَیت‘‘ کے کسی مقام میں پڑھا (اللہ اک فرماتا ہے):
اے موسیٰ! مغرب کی تین رَکعت ہیں ، انہیں احمد اور اس کی اُمت پڑھے گی(تو) آسمان
کے سارے دروازے ان کے لیے کھول دوں گا، جس حاجت کاسُوال کریں گے اُسے پورا ہی کر
دوں گا۔ (فیضان نماز ،ص86)
(3)جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں
کوئی بُری بات نہ کہے، تو بارہ برس کی عبادت کے(ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔ (فیضان
نماز،ص110)
(4)جو مغرِب کے بعد چھ رَکعتیں پڑھے، اس کے گناہ بخش دیے
جائیں گے اگرچِہ سَمُندر کے جھاگ برابر ہوں ۔(فیضان نماز،ص110)
(5)حضرت سیِّدُنا عمر بن ابو خلیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ بیان کرتے ہیں :ہم نے حضرتِ سیِّدُنا عطاء
خراسانی رَحْمۃُ اللہِ علیہ کے ساتھ نماز
مغرب اداکی،نمازکے بعد جب ہم واپس ہونے لگے توآپ نے میراہاتھ پکڑ کر فرمایا: ’’مغرب
وعشا کے اس درمیانی وقت سے لوگ غافل ہیں ، یہ نمازِاَوَّابین(یعنی توبہ کرنیوالوں
کی نماز) کا وقت ہے۔ جس نے اس دوران نماز کی حالت میں قراٰنِ کریم کی تلاوت کی گویا
وہ جنت کی کیاری میں ہے۔(فیضان نماز،ص 111)
محمد
عبدالقدیر عطاری (درجہ سادسہ،جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ اوکاڑہ ،پاکستان)
نماز ہم مسلمانوں پر فرض
عین ہے (یعنی ہر مسلمان مرد و عورت دونوں پر فرض ہے) نماز ادا کرنے کی فضیلت بھی
ہے اور نماز ترک کرنے کی وعید بھی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ پاک نے سات سو سے زیادہ
مرتبہ نماز ادا کرنے کا حکم دیا ہے قرآن مجید میں جتنی بار نماز کا حکم آیا ہے کسی
اور کا نہیں آیا اور آج کل کچھ لوگ کہتے ہے کہ نماز تو دل کی ہوتی ہے ان سے سوال
کیا جائے کہ اگر نماز دل کی ہوتی ہے تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے
زیادہ قرآن مجید کو کون سمجھ سکتا ہے اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
تو خود نماز ادا کی ہے اور نماز ادا کرنے کا حکم بھی دیا ہے اگر نماز دل کی ہوتی
تو نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا نہ کرتے۔ نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نماز ادا کر کے یہ بتایا کہ نماز دل کی نہیں جسم کی ہے۔
نماز کو ادا کرنا ہر مسلمان
مرد و عورت پر فرض عین ہے۔ جو مسلمان نماز ادا نہیں کرتا وہ سخت گناہ گار ہے عذابِ
قبر کا حق دار ہے اور کوئی نماز کسی وجہ سے ادا نہ کر سکا تو بھی بعد میں پڑنی ہوگئی آج کل تو لوگ مال کمانے کے لیے تو وقت نکال لیتے ہیں میچ کھیلنا ہو یا
دیکھنا ہو وقت مل جاتا ہے بازاروں میں آنے جانے کے لئے تو وقت ہی وقت ہیں اگر
ہمارے پاس وقت نہیں تو وہ نماز کے لیے نہیں ہے وقت نہیں ہے تو فرض و واجب ادا کرنے کےلئے ہمارے پاس وقت نہیں ہے نماز ہر
حال میں ادا کرنا ضروری ہے اور ہر نماز کی الگ الگ فضیلت ہے ۔
نماز مغرب کی فضیلت کے بارے اتا ہے کہ خادم نبی
حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ
سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے کہ جس نے نماز
مغرب جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لئے ایک مقبول حج اور ایک مقبول عمرہ کا ثواب
لکھا جائے گا گویا (جیسے کہ) اس نے شب قدر میں قیام کیا یعنی شب قدر میں عبادت کی۔(جمع
الجوامع ، 8 / 195،حدیث: 22311(
اور مغرب کی نماز کی فضیلت
کے بارے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص
معرب کی نماز کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بری بات نہ کہے ،
تو بارہ برس کی عبادت کے (اجرو ثواب) برابر کی جائیں گی ۔(ترمذی
، 1/ 439 حدیث: 435(
نمازِ مغرب کے بارے میں یہ
بھی آیا ہے کہ جو ہر روز نمازِ مغرب با جماعت ادا کرے گا اس کے رزق میں برکت عطا
فرمائی جائے گئی۔ اور نماز مغرب کے بارے میں مزید نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جو نماز مغرب ادا کرنے کے بعد چھ رکعتیں پڑھے
اس کے گناہ بخش دیے جائے گے اگر چہ سمندر کی جھاگ برابر ہوں ۔(معجم
اوسط ، 5 / 255 ،حدیث :7245 (
وَعَنْ مَکْحُوْلٍ یَبْلُغُ بِہٖ اَنَّ رَسُوْلُ
اﷲِ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قَالَ مَنْ صَلَّی بَعْدَ الْمَغْرِبِ قَبْلَ
اَنْ یَتَکَلَّمَ رَکْعَتَیْنِ وَفِی رِوَایَۃٍ اَرْبَعَ رَکَعَاتٍ رُفِعَتْ صَلَا
تُہ، فِی عَلِیِّیْنَ مُرْسَلًا۔ ترجمہ:حضرت مکحول (تابعی) اس
روایت کو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچاتے ہیں (یعنی) رسول اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بطریق ارسال روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو آدمی مغرب کی (فرض یا سنت مؤ کدہ)
نماز پڑھ کر (دنیاوی) گفتگو کرنے سے پہلے دو رکعت اور ایک روایت میں ہے کہ چار
رکعت نماز پڑھے تو اس کی یہ نماز علیین میں پہنچائی جاتی ہے۔
علیین کیا ہے ؟ ساتویں
آسمان پر ایک مقام کا نام علیین ہے جہاں مؤمنین کی روحیں پہنچائی جاتی ہیں اور
جہاں ان کے عمل لکھے جاتے ہیں ۔ کاش ایسا کرم ہو ہم پر بھی کہ ہم با جماعت پانچوں
نمازیں ادا کرنے والے بن جائیں۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نماز اللہ پاک کی ایک
اعلیٰ نعمت ہے جو اس نے ہمیں عطا کی ہے یقیناً ہم سے ہر ایک کو اس کی قدر کرنی
چاہیے اور قدر اسی ہی طرح ہوگی کہ ہم اس کو بالکل صحیح انداز میں ادا کریں کیونکہ
اگر صحیح ادا نہیں کریں گیں تو یہی نماز ہمیں روز قیامت ہمارے ہی منہ پے ماری جائی گی لہٰذا اس کو بالکل صحیح
طریقے سے جس طرح اس کو ادا کرنے کا حق ہے اسی طرح پڑھنی ہے۔ نماز مغرب کی اہمیت اور فضیلت:نماز مغرب کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس کو ادا کرنے کی
بڑی برکتیں اور فضیلتیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
(1) خادم نبی حضرت سیدنا انس رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ سرکار عالی وقار مدینہ کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ ثواب لکھا جائے گا
اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے) اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (فیضانِ نماز ص: 110)
مغرب کے فرضوں کے بعد 6 نوافل
کا ثواب:دو فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : (1) جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان
کے درمیان کوئی بُری بات نہ کہے تو بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برار کی جائیں
گی
(2)جو مغرب کے بعد چھ
رکعتیں پڑھے اس کے گناہ بخش دی جائیں گی
اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برار ہوں۔ (فیضانِ نماز، ص 110)حضرت سید نا ثوبان رضی
اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ پیارے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: جو مغرب وعشا کے درمیان مسجد میں ٹھرا رہے،
نماز اور قرآن کے علاوہ کوئی بات نہ کرے تو اللہ پاک کے ذمہ کرم پرحق ہے کہ اس کے
لئے جنت میں دو محل بنائے جن میں سے ہر ایک کی مسافت
100 سال ہو گی ، دونوں کے درمیان اس کے لئے درخت لگائے گا کہ اگر اہل دنیا اس کا
چکر لگائیں تو وہ سب کا احاطہ کر لے ۔ ایک روایت میں ہے کہ جس نے مغرب و عشا کے
درمیان 10 رکعتیں پڑھیں اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک محل بنائے گا ۔
امیرالمؤمنین حضرت سید نا عمر فاروق رضی اللہُ عنہ نے عرض کی: یا رسول الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تب تو ہمارے محل
بہت زیادہ ہو جائیں گے ۔ ارشاد فرمایا: اللہ پاک سب سے زیادہ کثرت و فضل فرمانے
والا ہے ۔ یا فرمایا: سب سے زیادہ پاک ہے۔ (احیاء العلوم ، 1 /1046)
(3) ام المؤمنین حضرت سید
نا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے مروی ہے کہ میرے سرتاج ،صا حب معراج صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک کے نزدیک افضل نماز مغرب کی نماز ہے، اسے نہ تو
مسافر سے کم کیا اور نہ ہی مقیم سے ، اس کے ذریعے رات کی نماز کو شروع فرمایا اور
دن کی نماز کو ختم فرمایا تو جس شخص نے نماز مغرب پڑھی اور اس کے بعد دو رکعتیں
پڑھیں اللہ پاک اس کے لئے جنت میں دو محل بنائے گا۔ راوی کا بیان ہے کہ مجھے معلوم
نہیں کہ وہ دو محل سونے کے ہوں گے یا چاندی کے ۔ جس نے چار رکعتیں پڑھیں اللہ پاک
اس کے 20 سال کے گناہ معاف فرمائے گا۔ یا فر مایا :40 سال کے گناہ معاف فرمائے گا۔
( احیاء العلوم ،1/1045)
(4) اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا
اُمّ سلمہ اور حضرت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشادفرمایا: جس نے نمازمغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھیں تو یہ اس کے حق میں پورا سال
عبادت کرنے کے برابر ہے یا فرمایا : گویا کہ اس نے شب قدر میں نماز پڑھی۔ ( احیاء
العلوم ،1/1045)
(5) حضرت سیِّدُنا کُرْز
بن وَبَرہ رحمۃُ اللہِ علیہ جو ابدال میں سے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت
سیِّدُنا خضر علیہ السّلام سے عرض کی:’’ مجھے ایسی چیز سکھائیے جس
پر میں ہر رات عمل کیا کروں ۔‘‘ انہوں نے فرمایا: جب تم نماز مغرب پڑھ لو تو عشا کے وقت تک کسی سے کلام کئے
بغیر نماز پڑھتے رہو، جو نماز پڑھ رہے ہو اس کی طرف متوجہ رہو اور ہر دو رکعتوں پر
سلام پھیر دو۔ ہر رکعت میں ایک بار سورۂ فاتحہ، تین بار سورۂ اخلاص پڑھو۔ جب
نماز سے فارغ ہو جاؤ تو اپنے گھر کی طرف لوٹ جاؤ اور کسی سے کلام نہ کرو پھر دو
رکعتیں پڑھو، ہر رکعت میں ایک مرتبہ سورۂ فاتحہ اور سات مرتبہ سورۂ اخلاص پڑھو۔
پھر سلام پھیرنے کے بعد سجدہ کرو اور اس میں سات مرتبہ اللہ عَزَّوَجَلَّ سے استغفار کرو، پھر سات بار یہ
کہو: سُبْحٰنَ اللّٰہِ
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَلَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ اَکْبَرُ وَلَا حَوْلَ
وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْم پھر سجدے
سے سرا ٹھا کر سیدھے ہو کر بیٹھ جاؤ اور ہاتھوں کو اٹھا کر یوں دعا کرو:یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ یَا ذَا الْجَلَالِ
وَالْاِکْرَامِ یَا اِلٰہَ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَا رَحْمٰنَ
الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ وَرَحِیْمَہُمَا یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا رَبِّ یَا
اَللّٰہُ یَا اَللّٰہُ یَا اَللّٰہ پھر اسی حالت میں کھڑے ہو جاؤ کہ ہاتھ اٹھے ہوئے ہوں اور
اسی طرح دعا کرو، پھر جہاں چاہو قبلہ رخ ہو کر اپنی سیدھی کروٹ پر لیٹ جاؤ اور
حضور نبی ٔ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پردرود پاک پڑھتے پڑھتے سو جاؤ۔
حضرت سیِّدُنا کرز بن وبرہ
رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : میں نے
عرض کی: مجھے بتائیے کہ آپ نے یہ دعا کن سے سنی ہے؟ فرمایا: جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یہ دعا
سکھائی اس وقت میں وہاں حاضر تھا اور جب آپ پر یہ دعا وحی کی گئی تب بھی میں خدمت
میں حاضر تھا، یہ سب میری موجودگی میں ہوا۔لہٰذا میں نے یہ دعا اسی وقت سیکھ لی
تھی۔( احیاء العلوم ،1/1048)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ
ہمیں نمازِ مغرب کے ساتھ ساتھ باقی نمازوں کو بھی صحیح معنیٰ میں سمجھ کر پڑھنے کی
توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
محمد
طلحٰہ خان عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃ المدینہ فیضان خلفائے راشدین ، راولپنڈی،پاکستان)
مغرب کا معنی ”سورج غروب
ہونے کا وقت“ ہے۔ کیونکہ مغرب کی نماز سورج کے غروب ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے ،
اسی لیے اس نماز کو مغرب کی نماز کہا جاتا ہے ۔ (شرح مشکل الآثار للطحاوی ، 3/34
ملخّصاً)نماز مغرب کو بقیہ فرض نمازوں سے ایک انفرادیت یہ حاصل ہے کہ ہر فرض نماز
کی رکعتیں جفت(یعنی دو یا چار) ہیں ۔ لیکن اس نماز کو یہ خاصہ حاصل ہے کہ اس کی
رکعات تاک ہیں۔ تاک کا ایک معنی ”انوکھا“
بھی ہے تو مغرب کی فرض نماز کی رکعات کی تعداد تاک ہونے کی وجہ سے انوکھی ہی ہے
کہ، حضرت سیدنا داؤد علیہ السلام بوقتِ
مغرب چار رکعات پڑھنے کے لئے کھڑے ہوئے مگر درمیان میں تین رکعات پر ہی سلام پھیر
دیا تو نماز مغرب کی تین رکعات ہی مختص ہو گئیں۔ (شرح معانی الآثار، 1/226 ، حدیث :1014
ملخّصاً)مغرب کی نماز کے مختصر تعارف کے بعد اب نمازِ مغرب کی اہمیت و فضیلت پر
مشتمل پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں :
(1) حضرت سیدنا انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ
عالیشان ہے : جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج اور
عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (جمع
الجوامع ، 7/195، حدیث :22311)
(2) حضرت ابو ایوب رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
: میری امت بھلائی پر یا فرمایا فطرت پر رہے گی جب تک مغرب کو تاروں کے گتھ جانے
تک پیچھے نہ کریں(یعنی تاخیر نہ کریں)۔ (مشکوٰة المصابیح ، ج 1 ، حدیث :560)
(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ
جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اور ان کے درمیان میں کوئی بُری بات نہ کہے تو
بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔ (ترمذی، 1/439، حدیث: 435)
(4)حضور نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ :جو
مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے
برابر ہوں۔ (معجم الاوسط، 5/255،حدیث: 7254)
(5) حضرت حذیفہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں کہ : مغرب
کے بعد کی دونوں رکعتیں جلدی پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ پیش ہوتی ہیں۔(طبرانی)
مغرب کی نماز کے ساتھ
اوّابین کے 6 رکعات نوافل پڑھنے کے بھی بہت فضائل موجود ہیں ۔ مغرب کی نماز کے ساتھ ہی اوابین ادا کرنے کا آسان
طریقہ یہ ہے کہ مغرب کی تین رکعات فرض ادا کرنے کے بعد اور دو رکعت سنت اور مزید
چار رکعات نوافل پڑھ لیے جائیں تو یہ کل چھ رکعات ہوجائیں گی اور اس طرح اوّابین
کی نماز کا ثواب بھی حاصل ہو جاۓ گا اور اگر مغرب کی سات
رکعات نماز ادا کرنے کے بعد علیحدہ سے چھ رکعات نوافل اوّابین کے ادا کرے تو یہ
بدرجہ اولیٰ اچھا عمل ہے۔ اور مؤمن تو نیکیوں کا حریص ہوتا ہے۔ لہٰذا جتنی زیادہ
نیکیاں اتنا زیادہ ثواب ۔
اللہ پاک ہمیں پانچوں
نمازیں، تہجد، اشراق، چاشت، اور اوّابین پابندی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق مرحمت
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم
شاکر عطاری(درجہ اولی،جامعۃ المدینہ خلفائے راشدین ، راولپنڈی، پاکستان)
(1)خادم نبی، حضرت سیدنا انس رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے: جس نے
مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کی اس کے لیے مقبول حج و عمرہ کا ثواب لکھا جائے
گا اور وہ ایسا ہے گویا (یعنی جیسے) اس نے شب قدر میں قیام کیا۔ (جمع الجوامع ، 7 /
190 حدیث: 22311 (
( 2)فرمانِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں پڑھے اور ان کے درمیان
میں کوئی بری بات نہ کہے ، تو بارہ برس کی عبادت کے (ثواب کے) برابر کی جائیں گی۔(ترمذی
، 1 / 439 ،حدیث: 430)
جو مغرب کے بعد چھ رکعتیں
پڑھے، اس کے گناہ بخش دیے جائیں گے اگر چہ سمندر کے جاگ برابر ہوں ۔( کتاب فیضانِ نماز، ص 110)
(3)امّ المؤمنین حضرت
سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا سے روایت ہے کہ سرکار والا تبار، ہم بے کسوں کے
مددگار، شفیع روز شمار، دو عالم کے مالک و مختار حبیب پروردگار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعتیں ادا کرے گا، اللہ پاک اس کیلئے
جنت میں ایک گھر بنائے گا ۔ (سنن ابن ماجہ
کتاب اقامتہ الصلواۃ، باب ماجاء فی الصلاۃ
بین المغرب والعشا ء ، 2/150،حدیث: 1373)
(4)حضرت سیدنا حذیفہ رضی
اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں آقائے مظلوم، سرور معصوم، حسن اخلاق کے پیکر، نبیوں کے تاجور ، محبوب رب
اکبر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا، پھر میں نے آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اقتداء میں نماز مغرب ادا کی اور آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم عشا تک نماز ادا فرماتے رہے۔ ( الترغیب والترہیب، الترغیب فی الصلاۃ بین المغرب والعشاء ،1/228، حدیث 7)
(5) حضر ت اَنَس رضی اللہ عنہ ، اللہ پاک کے فرمان: تَتَجَافٰی جُنُوْبُھُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ترجمہ کنزالایمان :ان کی
کروٹیں جداہوتی ہیں خواب گاہوں سے(پ21 ،سجدہ: 16)۔کی تفسیر میں فرماتے ہیں ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو مغرب
اور عشاء کے درمیان نوافل ادا کیا کرتے ہیں۔ (سنن ابی داؤد ،کتا ب التطو ع ، باب
وقت قیام النبی من اللیل ، 2/53،حدیث: 1321)
محمد طلحہ خان عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃُ المدینہ فیضانِ خلفائے راشدین،راولپنڈی،پاکستان)
مغرب کی نماز سورج کے غروب
ہونے کے بعد ادا کی جاتی ہے،اسی لئےاس نماز کو مغرب کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل
الآثار، 3/34، حدیث:998)نمازِ مغرب کو بقیہ فرض نمازوں سے ایک انفرادیت یہ حاصل ہے
کہ ہر فرض نماز کی رکعتیں جُفت (یعنی دو یا چار) ہیں لیکن اس نماز کو یہ خاصہ حاصل
ہے کہ اس کی رکعات طاق ہیں۔طاق کا ایک معنی ”انوکھا“ بھی ہے تو نمازِ مغرب کی فرض
رکعتوں کی تعداد طاق ہونے کی وجہ سے انوکھی ہی ہے کہ حضرت سیّدُنا داؤد علیہ
السّلام بوقتِ مغرب چار رکعات پڑھنے کیلئے کھڑے ہوئے مگر درمیان میں تین رکعات پر
ہی سلام پھیر دیا تو نمازِ مغرب کی تین رکعات ہی مختص ہو گئیں۔(شرح معانی
الآثار،1/ 226، حدیث: 1014)
مغرب کی نماز کے مختصر
تعارف کے بعد اب نمازِ مغرب کی اہمیت و فضیلت پر مشتمل پانچ فرامینِ مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:
(1)سرکارِ مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: جس نے مغرب کی نماز جماعت کے ساتھ
ادا کی اس کے لئے مقبول حج اور عمرہ کا ثواب لکھا جائے گا اور وہ ایسا ہے گویا اس
نے شبِ قدر میں قیام کیا۔(جمع الجوامع،7/195،حدیث:22311)
(2)حضرت ابوایوب انصاری
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:میری امت بھلائی پر یا فرمایا فطرت پر رہے گی جب تک مغرب کو تاروں کے گتھ
جانے تک پیچھے نہ کریں(یعنی تاخیر نہ کریں)۔(ابوداؤد،1/184،حدیث:418)
(3)رسولِ کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اور ان کے درمیان
میں کوئی بُری بات نہ کہے تو یہ چھ رکعتیں بارہ سال کی عبادت کے برابر ہوں
گی۔(ترمذی،1/439،حدیث:435)
(4)حضرت سیّدُنا حذیفہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ حُضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:مغرب
کے بعد کی دو رکعتیں جلدی پڑھو کہ وہ فرض کے ساتھ اٹھائی جاتی ہیں۔(مشكاة
المصابیح،1/234حدیث:1185)
(5)حضور نبیِّ کریمصلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے فرمایا:جو مغرب کے بعد چھ رکعات پڑھے اس کے گناہ بخش
دیئے جائیں گے اگرچہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں۔(معجم اوسط، 5/255،حدیث:7245)
مغرب کی نماز کے ساتھ
اوّابین کی 6 رکعات پڑھنے کے بھی بہت فضائل موجود ہیں، اوّابین کا طریقہ بھی پڑھ
لیجئے۔ امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ کی کتاب ”فیضانِ نماز“ کے صفحہ 110پر ہے:مغرب کی تین رکعت فرض پڑھنے کے
بعد چھ رکعت ایک ہی سلام سے پڑھئے، ہر دو رکعت پرقعدہ کیجئے اور اس میں
اَلتَّحِیّات، دُرُودِ ابراہیم اور دعا پڑھئے، پہلی، تیسری اور پانچویں رکعت کی
ابتدا میں ثَنا، تَعَوُّذ و تَسمِیَہ (یعنی اَعُوْذ اور بِسْمِ اللہ) بھی
پڑھئے۔چھٹی رکعت کے قعدے کے بعد سلام پھیر دیجئے۔ پہلی دو رکعتیں سنّتِ مؤکَّدہ
ہوئیں اور باقی چار نوافِل۔ یہ ہے اوّابین (یعنی توبہ کرنے والوں) کی
نماز۔(الوظیفۃ الکریمہ، ص26ملخصاً) چاہیں تو دو دو رَکعت کر کے بھی پڑھ سکتے ہیں۔
محمد
اشفاق عطاری(درجہ ثالثہ،جامعۃُ المدینہ،فیضانِ
عطّار، نیپال گنج ، نیپال)
اللہ پاک اسے کامیابی عطا
فرماتا ہے جسے ایمان کی دولت مل جاتا ہے اور سب سے بڑی کامیابی ایمان بچا لینا ہی
ہے ۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) ترجمۂ کنزالایمان: بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے۔(پ 18، المؤمنون:1)قَدْ اَفْلَحَ:بیشک کامیاب ہوگئے۔ اس
آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے
کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد
میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت
میں داخل ہو کر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات
پاجائیں گے۔( تفسیرکبیر، المؤمنون، تحت
الآیۃ: 1، 8 / 258، روح البیان، المؤمنون، تحت الآیۃ: 1، 6 / 66، ملتقطاً)حقیقی
کامیابی حاصل کرنے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے: یاد رہے کہ ہر ایک نے موت کا
کڑوا ترین ذائقہ چکھ کر ا س دنیا سے کوچ کرنا ہے اور قیامت کے دن سب کو اپنے اعمال
کا بدلہ پانا ہے اور جسے اس دن جہنم کے دردناک عذابات سے بچا لیاگیا اور بے مثل
نعمتوں کی جگہ جنت میں داخل کر دیا گیا وہی حقیقی طور پر کامیاب ہے،
جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: كُلُّ
نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِؕ-وَ اِنَّمَا
تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَكُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِؕ-فَمَنْ
زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ
الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَؕ-ترجمۂ کنزُالعِرفان:ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے
اورقیامت کے دن تمہیں تمہارے اجر پورے
پورے دئیے جائیں گے توجسے آگ سے بچا لیا
گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا تو وہ
کامیاب ہوگیا۔(پ 4، اٰلِ عمران :185)
اور جہنم سے بچنے اور جنت میں داخلے کے لئے ایمان پر خاتمہ ضروری ہے،جیسا کہ
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:’’جس شخص کو جہنم سے بچنا اور جنت میں داخل ہونا پسند ہو تو اسے موت ضرور اس حال میں آئے کہ وہ اللہ پاک اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اور جس معاملے کو وہ اپنے لئے
پسند کرتا ہو وہی معاملہ دوسروں کے ساتھ
کرے۔( مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن
عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، 2 / 625، حدیث: 6821) اور چونکہ موت کا وقت کسی
کو معلوم نہیں اس لئے ایمان پر ثابت قدم رہنا اور اس کی حفاظت کی بھرپور کوشش کرنا
ضرور ی ہے تاکہ موت کے وقت ایمان سلامت رہے اور قیامت کے دن جنت میں داخلہ نصیب ہو۔( صراط الجنان ،پ 18، المؤمنون:1)
اور وہ شخص جو اللہ اور اس کی اطاعت کرتا ہے اور وہ کامیاب
ہے۔ اسی طرح اپنے نفس کو برائی سے روکنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ٰ ہے:
قَدْ
اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) ترجمۂ کنزالایمان:بیشک
مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا۔(پ 30،شمس:9)
بیشک جس نے نفس کو پاک کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔ اللہ پاک نے
اس سے پہلی آیات میں چند چیزوں کی
قَسمیں ذکر کر کے ا س آیت اور اس کے بعد
والی آیت میں فرمایا کہ بیشک جس نے اپنے
نفس کو برائیوں سے پاک کرلیا وہ کامیاب
ہوگیا اور بیشک جس نے اپنے نفس کو گناہوں میں چھپادیا وہ ناکام ہوگیا۔( جلالین مع
صاوی، الشّمس، تحت الآیۃ: 9-10، 6 / 2370)
اس سے معلوم ہوا کہ اپنے نفس کو برائیوں سے پاک کرنا
کامیابی حاصل کرنے کا ذریعہ اور اپنے نفس کو گناہوں میں چھپا دینا ناکامی کا سبب ہے اور نفس برائیوں سے اسی وقت پاک ہو سکتا ہے جب
اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کی جائے
اوراطاعت کرنے والوں کے بارے اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:وَ مَنْ
یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللّٰهَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْفَآىٕزُوْنَ(۵۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور
جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور اللہ سے ڈرے اوراس (کی نافرمانی) سے ڈرے
تو یہی لوگ کامیاب ہیں ۔(پ 18،نور:52)اور ارشاد فرماتا ہے: وَ مَنْ
یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی
فرمانبرداری کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔(پ
22،احزاب:71)
لہٰذا جو شخص حقیقی
کامیابی حاصل کرنا اور ناکامی سے بچنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ اللہ پاک اور اس کے
پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی اطاعت کر کے اپنے نفس کو برائیوں سے
پاک کرے۔( صراط الجنان پ30،سورہ شمس : 9)
نیکی کا حکم دینا اور
برائی سے منع کرنے والا شخص بھی کامیاب ہے۔ ارشاد باری ہے: وَ لْتَكُنْ
مِّنْكُمْ اُمَّةٌ یَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَیْرِ
وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ
عَنِ الْمُنْكَرِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۱۰۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور تم میں ایک گروہ ایسا
ہونا چاہیے کہ بھلائی کی طرف بلائیں اور اچھی بات کا حکم دیں اور بُری سے منع کریں
اور یہی لوگ مُراد کو پہنچے۔(پ 4، اٰلِ عمران :104)
یاد رہے جس آیت میں
کامیابی مراد لیا گیا ہے اس سے ’’کامل فلاح‘‘ ہے یعنی کامل کامیابی ہے اور وہ
متقین ہی کو حاصل ہے ہاں اصلِ فلاح ہر مسلمان کو حاصل ہے اگرچہ وہ کتنا ہی گناہگار
کیوں نہ ہو کیونکہ ایمان بذات ِ خود بہت بڑی کامیابی ہے جس کی برکت سے بہرحال جنت
کا داخلہ ضرور حاصل ہوگا اگرچہ عذابِ نار کے بعد ہو۔
انسان فطری طور پر جلد باز ہےجس کا ایک اثر یہ بھی
ہے کہ نفعِ عاجل کے پیشِ نظر دنیوی کاموں میں ترقی و کامیابی کو ہی سب کچھ سمجھ
رکھاہے۔جبکہ حقیقی کامیاب وہ ہے جو اس زندگی میں نیک اعمال بجا لاکر اللہ پاک و
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو راضی کرنے میں کامیاب ہوگیا ہو۔ آئیے حقیقی
فلاح و کامیابی والے 10 اعمال قراٰنِ مجید کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:
(1)نماز میں گڑگڑانا: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان:
بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔
(پ 18، مؤمنون:1، 2) (2)فضول
باتوں سے بچنا: اللہ پاک کا ارشاد ہے:﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) ﴾ترجمۂ کنز
الایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔ (پ 18، مؤمنون: 3 )
اس آیت کے تحت علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لغو سے مراد ہر وہ
قول و فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے،جس کا مسلمان کو دینی یا دنیوی کوئی فائدہ
نہ ہو۔(تفسیر صاوی، جز4، ص 1356)(3)
زکوٰۃ ادا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ﴾ترجمۂ کنز الایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18،مؤمنون:4)
(4) اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنا: اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی
حفاظت کرتے ہیں۔(پ18،مؤمنون: 5)
(5) وعدوں کو پورا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور
اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں۔(پ18،مؤمنون:8) (6) وقت پر نماز ادا کرنا:اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی
نگہبانی کرتے ہیں۔ (پ 18، مؤمنون:9)(7) طہارت حاصل کرکے نماز ادا کرنا: اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَكّٰىۙ(۱۴) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهٖ فَصَلّٰىؕ(۱۵)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچا جو
ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔ (پ30،الاعلیٰ:14، 15)
(8)نفس کو برائیوں سے پاک کرنا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَكّٰىهَاﭪ(۹) وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰىهَاؕ(۱۰) ﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بیشک مراد کو پہنچا جس نے اُسے ستھرا کیا اور نامراد
ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا۔(پ30، الشمس: 10،9) (9)اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا: فرمانِ باری
تعالیٰ ہے: ﴿ وَ تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ
الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۳۱) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اللہ کی طرف توبہ کرو اے مسلمانو سب کے سب اس امید
پر کہ تم فلاح پاؤ۔ (پ18، النور: 31) (10)اللہ پاک کی طرف وسیلہ تلاش کرنا اور اس کی راہ میں جہاد کرنا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۵) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، مائدہ:35)
وقار یونس
(درجہ رابعہ، جامعۃ المدینہ فیضان
عبد اللہ شاہ غازی کراچی، پاکستان)
کامیاب ہونا، فلاح پانا، مقصد کو حاصل کر لینا وغیرہ الفاظ
تقریباً ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔ دنیا کا کوئی انسان ہو، کسی بھی فیلڈ سے تعلق
رکھتا ہو وہ کامیاب ہونا چاہتا ہے۔ لیکن کامیاب ہونے سے کیا مراد ہے؟ اس سے عام
طور پر یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ جس کے پاس روپیہ، پیسہ، اچھی نوکری وغیرہ ہو وہی
کامیاب ہے ۔بلکہ حقیقت اس سے جدا ہے۔
اسلام ایک کامل واکمل دین ہے۔ اس نے ہمیں اس معاملے میں بھی تنہا نہیں چھوڑا بلکہ
ہمیں کامیاب بننے والے اعمال عطا فرما دئیے ہیں۔ کہ کن کن اعمال کو ہم کریں گے، تو
ہم کامیاب کہلائیں گے یا ہم کامیابی حاصل کرنے والے ہو جائیں گے۔ آئیے اس بارے میں
ہم قرآن کریم سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں۔ کیونکہ قرآن سے بڑھ کر رہنمائی کرنے والا
اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ اللہ پاک کا ارشاد فرماتا ہے:
الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِمَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ وَ مَاۤ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَۚ-وَ
بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴)
اُولٰٓىٕكَ عَلٰى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْۗ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵)ترجَمۂ کنزُالایمان: وہ جو بے دیکھے ایمان
لائیں اور نماز قائم رکھیں اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں اور وہ کہ ایمان لائیں اس پر جو اے محبوب تمہاری طرف اترا
اور جو تم سے پہلے اترااور آخرت پر یقین رکھیں وہی لوگ اپنے رب کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور وہی مراد کو
پہنچنے والے۔(پ 1،بقرہ:3تا 5)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ
ابْتَغُوْۤا اِلَیْهِ الْوَسِیْلَةَ وَ جَاهِدُوْا فِیْ سَبِیْلِهٖ لَعَلَّكُمْ
تُفْلِحُوْنَ(۳۵)ترجمۂ کنز الایمان: اے
ایمان والو اللہ سے ڈرو اور اس کی طرف وسیلہ ڈھونڈو اور اس کی راہ میں جہاد کرو اس
امید پر کہ فلاح پاؤ۔ (پ6، المآئدہ: 35)
مسلمان عورتوں کو
پردے کا حکم دینا فلاح پانے کا ذریعہ ہے۔اللہ پاک کا فضل تلاش کرنا( یعنی حلال
معاش میں مشغول ہونا، مریض کی عیادت کرنا ،جنازہ میں شرکت کرنا ،علماء کی زیارت
کرنا وغیرہ) اعمال صالحہ بجا لانا فلاح
پانے کا ذریعہ ہے۔صبر کرنا ،سرحد پر اسلامی ملک کی نگرانی کرنے والا کامیاب ہے۔ان
اعمال کے علاوہ بھی قرآن و حدیث و دیگر کتب میں کامیاب بننے اور فلاح حاصل کرنے
والے اعمال مذکور ہے۔ جن کو مطالعہ کرنے اور درس و بیان میں شرکت کرنے سے معلوم کیا
جا سکتا ہے۔
ہم اللہ پاک سے دعا
کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں در در کی ٹھوکریں کھانے سے بچائے اور صرف اپنی بارگاہ
کا محتاج رکھے اور مذکورہ و غیر مذکورہ
اعمال پر عمل کر کے کامیاب زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ سید
المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم