علم و علما  کی شان و فضیلت کے بارے میں بہت سی آیات و احادیث وارد ہوئی ہے ، آئیے سب سے پہلے عالم کی تعریف جانتے ہیں۔عالم کی تعریف: عقائد سے پورے طور پر آگاہ ہو اور مستقل ہو اور اپنی ضروریات کو کتاب سے نکال سکے بغیر کسی کی مدد کے۔( ملفوظات اعلی حضرت، حصہ اول ،ص 58) اللہ پاک نے قرآن پاک میں عالم کی شان بیان کرتے ہوئے پارہ 23 سورۃُ الزمر کی آیت نمبر 9 میں ارشاد فرمایا:قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمہ کنزالعرفان: تم فرماؤ علم والے اور بے علم والے برابر ہیں؟۔(پ 23 ،الزمر : 09)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے علما کی شان اس طرح بیان فرمائی کہ اپنی گواہی کو اور علماء کی گواہی کو کافی فرما دیا پارہ 13 سورۃ الرعد کی آیت نمبر 43 میں ارشاد ہوتا ہے:قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠(۴۳)ترجَمۂ ترجمہ کنزالعرفان: تم فرماؤ: میرے اور تمہارے درمیان اللہ کافی گواہ ہے اور ہر وہ آدمی گواہ ہے جس کے پاس کتاب کا علم ہے۔(پ13، الرعد : 43) صراط الجنان میں مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک نے علماء کی گواہی اپنے ساتھ بیان فرمائی اس سے علم کی افضیلت معلوم ہوئی۔

اسی طرح اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بکثرت احادیث میں علم اور علماکی شان بیان کی گئی ہے آئیے اس ضمن میں پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنئے:۔

(1) ستر(70) صدیقین کا ثواب:حدیث میں آیا ہے جو شخص ایک علم کا باب دوسرے کو سکھانے کے لیے سیکھے اس کو 70 صدیقوں کا اجر دیا جائے گا۔( الترغیب و الترہیب،کتاب العلم، التغیب فی العلم......الخ،1/68، حدیث: 119)

(2) شہداء کا خون اور علما کی سیاہی:امام ذہبی نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت کے دن علماء کی دواتوں کی سیاہی اور شہداء کا خون تولہ جائے گا علماء کی دواتوں کی سیاہی شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی۔( جامع بیان العلم و فضلہ، باب تفضیل العلماءعلی الشہداء، ص 48، حدیث:139)

(3) سب سے بڑے سخی:امام بیہقی روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں اللہ پاک بڑا جواد(سب سے بڑا نوازنے والا) ہے اور میں سب آدمیوں میں سخی ہوں اور میرے بعد ان میں بڑا سخی وہ ہے جس نے کوئی علم سیکھا پھر اس کو پھیلا دیا۔( شعب الایمان، باب فی نشر العم ،2/281، حدیث 1767،باختصار)

(4) علم کے ذریعے بخشش: حدیث میں آیا ہے کہ جب اللہ پاک قیامت کے دن اپنی کرسی پر بندوں کے درمیان فیصلہ فرمانے کے لیے بیٹھے گا (جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہوگا) تو علما سے فرمائے گا: میں نے اپنا علم تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کوئی پروا نہیں۔( المعجم الکبیر،2/84، حدیث:1381)

(5) ایک اور حدیث میں ہے جس کے راوی حضرت ابن عباس رضی اللہُ عنہ ہے فرماتے ہے کہ اللہ کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: رات میں ایک گھڑی علم کا پرھنا پوری رات جاگنے سے بہتر ہے۔( مشکاۃ المصابیح ،ص 36)

حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ مشکاۃ المصابیح کی شرح مرقات میں فرماتے ہیں اس حدیث شریف کا مطلب یہ ہے کہ ایک گھنٹہ آپس میں عالم کی تکرار کرنا، استاد سے پڑھنا، شاگرد کو پڑھانا، کتاب کی تصنیف کرنا، یا کتب کا مطالعہ کرنا، رات بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔(مرقاۃ شرح مشکاۃ ،1/ 251) اللہ پاک ہمیں علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


دراصل اللہ پاک نے جنسِ انسان میں سے سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔ پھر اس کے بعد  کثیر مخلوق کو پیدا فرمایا ۔اس کے بعد پھر ان کی رہنمائی کے لیے اپنے انبیاء ورسول کوبھیجاجنہوں نے آکر ان کو اللہ پاک کی واحدانیت کے بارے میں بتایاا ور ان کو حق کا راستہ دکھایا ۔اور یہ سلسلہ چلتے چلتے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ تک پہنچا اور نبوت کے سلسلہ میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یہ سب سے آخری نبی ہیں ۔اور ان کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا ہے ۔تو پھر اس کے بعد لوگوں کو اللہ پاک کی واحدانیت اور لوگوں کو حق کا راستہ دکھانے کےلیے یہ حق علما کو حاصل ہوا۔ جیسے کہ حضور علیہ السلام کی حدیث مبارکہ میں ہے۔(اَلْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنّْبِیَاءِ) کہ جو علماء ہے وہ انبیاء کے وارث ہیں ۔اس حدیث مبارکہ سے علما کی شان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ کہ جو کام اللہ پاک نے اپنی انبیاء و رسولوں کو دیا وہی کا م بعد میں علماء کو انبیاء کی وراثت میں حاصل ہوا۔

اسی طرح علما کی شان کے بارے میں اللہ پاک نے قران مجید میں فرمایا :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28) حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: 28، ص977)

(1) ترمذی کی حدیث میں ہے۔ تحقیق اللہ پاک اور اس کے فرشتے اور سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلی سمندر میں یہ سب درود بھیجتے ہیں علم سکھانے والوں پر جو لوگوں کو بھلائی سکھاتے ہیں ۔(ترمذی کتاب العلم،ص 313تا314 ،حدیث: 2694)

(2) ذہبی نے روایت کیا کہ رسول اﷲ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ قیامت کے دن علماء کی دواتوں کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا روشنائی (یعنی سیاہی)شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی ۔(فیضان علم و علما ،ص14)

(3) حضرت سیدنا ابو ذر رضی اللہُ عنہ کی حدیث میں ہے کہ عالم کی مجلس میں حاضر ہونا ہزار رکعت نماز ،ہزار بیماروں کی عیادت اور ہزار جنازوں پر حاضر ہونے سے بہتر ہے ۔کسی نے عرض کیا ۔یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور قراءت قرآن (یعنی کیا عالم کی مجلس میں حاضر ہونا قراءت قرآن سےبھی افضل ہے )فرمایا !کیا قرآ ن بغیر علم کے نفع بخشتا ہے ۔(قوت القلوب ، باب ذکر الفرق بین علماء الدنیاء الخ،1/257)

(4) حضرت سیدنا امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت کیا کہ عالم کو ایک نظر دیکھنا سال بھر کی نماز و روزہ سے افضل ہے ۔(فیضان علم و علما ،ص15)

(5) امام محی السُّنّہ بغوی رحمتہ اللہ علیہ معالم التنزیل میں لکھتے ہیں کہ،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا !ایک عالم شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے ۔(فیضان علم و علما ،ص18)


جس طرح چاند، سورج سے روشنی لے کر رات میں سارے عالَم(دنیا) کو روشن کرتا ہے ایسے ہی عالِم نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے علم کا فیض حاصل کر کے علم دین سے دنیا کو معطَّر و معنبَّر کرتا ہے۔ عالِم جہالت کے طوفان میں لوگوں کی ڈوبتی ہوئی کشتی کو نکال کر کنارے پر لگادیتا ہے۔ علما کی بہت بڑی شان ہے جس کو خود رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بیان فرمایا ہے۔ آئیے سنتے ہیں:

(1) پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِى عَلَى اَدْنَاكُمْ کہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم میں سے کمتر پر۔ (مشکوٰۃ المصابيح، 1/ 62، کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث: 212، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت)

اس حدیث پاک کے تحت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عالم کو عابد پر دینی فضیلت حاصل ہے نہ کہ دنیوی اگرچہ ان دونوں فضیلتوں میں بہت فرق ہے جیسے بادشاہ کو عوام پر سلطنت کی فضیلت حاصل ہوتی ہے، مالدار کو فقیر پر مال کی، طاقتور کو کمزور پر قوت کی، حسین کو بدشکل پر خوبصورتی کی فضیلت حاصل ہوتی ہے مگر یہ فضیلتیں دنیوی اور ختم ہوجانے والی ہیں، نبی کو مخلوق پر دینی فضیلت حاصل ہے جو ہمیشہ قائم رہے گی ایسے ہی عالم کو جاہل پر۔ (مرآۃ المناجیح، 1/ 195، کتاب العلم، بتغير مطبوعہ: قادری پبلشرز)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن علماء کی دَواتوں (Inkpot) کی سیاہی اور شہیدوں کا خون تولا جائے گا تو علماء کی دواتوں کی شہیدوں کے خون پر غالب آجائے گی۔ (فیضان علم و علما، ص 14،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

(3) حضرت ابن عبّاس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: فَقِيْهٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدٍ کہ ایک فقیہ( دین کی صحیح سمجھ رکھنے والا) شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ (مشکوٰۃ المصابيح، 1/ 63، کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث:217، مطبوعہ: دار الکتب العلمیہ بیروت) والد اعلی حضرت مولانا نقی علی خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس کی وجہ یہ بیان فرماتے ہیں کہ عابد اپنے نفس کو دوزخ سے بچاتا ہے اور عالِم عالَم(بہت سے لوگوں) کو ہدایت فرماتا ہے اور شیطان کے مکر و فریب سے آگاہ کرتا ہے۔ (فیضان علم و علما، ص 18، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)

(4) رحمت عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ العُلَمَاءَ وَرَثَةُ الاَنْبِيَاءِ کہ بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں(مشکوٰۃ المصابيح، الحدیث: 212)۔اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی نبی کی مالی میراث نہ بٹی ان کا چھوڑا ہوا مال دین کے لیے وقف ہوتا ہے اور قیامت تک علما ان کے وارث ہیں۔ اسی لیے علماء کو وارثین انبیاء کہا جاتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح،1/ 194،مطبوعہ: قادری پبلشرز)

(5) اللہ پاک  کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: صُبْح کر اس حالت میں کہ تو عالم ہے یا علم سیکھتا ہے یا عالم کی باتیں سنتا ہے یا ادنی درجہ یہ کہ عالم سے مَحبت رکھتا ہے اور پانچواں نہ ہونا کہ ہلاک ہو جائے گا۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت، ص 58)

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَۙ-وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىٕمًۢا بِالْقِسْطِؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ نے گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور عالموں نے انصاف سے قائم ہو کر ۔(پ3،اٰل عمران: 18)

اس آیت میں فرمایا گیا کہ اللہ پاک اور فرشتے اور اہلِ علم یعنی انبیاء علیہمُ الصَّلٰوۃُ والسّلام اور اولیاء رحمۃُ اللہِ علیہم نے گواہی دی کہ اللہ پاک کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہلِ علم بڑی عزت والے ہیں کہ ربِّ کریم  نے انہیں اپنی توحید کا گواہ اپنے ساتھ بنایا،لیکن علماء دین سے مراد علماء ربانی ہیں یعنی صحیحُ العقیدہ اور صالحین علماء ۔ علماء ربانی وہ ہیں جو خود اللہ پاک والے ہیں اور لوگوں کو اللہ پاک والا بناتے ہیں ، جن کی صحبت سے خدا  کی کامل محبت نصیب ہوتی ہے، جس عالم کی صحبت سے اللہ پاک کے خوف اور حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت میں کمی آئے وہ عالم نہیں ، ظالم ہے۔ ( سراط الجنان تحت سورہ آل عمران آیت 18)

علم والے بہت مرتبے والے ہیں  کہ اللہ پاک نے اپنی خَشیَت اور خوف کو ان میں  مُنْحَصَر فرمایا چنانچہ اللہ پاک ارشا فرماتا ہے: اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں : صحیح معنوں  میں  فقیہ وہ شخص ہے جو لوگوں  کو اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور اللہ پاک کی نافرمانی پر انہیں  جَری نہ کرے، اللہ پاک کے عذاب سے انہیں  بے خوف نہ کر دے اور قرآن کے بغیر کوئی چیز اسے اپنی طرف راغب نہ کر سکے۔(قرطبی، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 7 / 250، الجزء الرابع عشر)

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے فرمایا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ مخلوق میں  سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جَبَرُوت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔( مدارک، فاطر، تحت الآیۃ: 28، ص977، خازن، فاطر، تحت الآیۃ: 28، 3 / 534، ملتقطاً)

بکثرت اَحادیث میں  علماء کے فضائل بیان کئے گئے ہیں  ،ان میں  سے 5اَحادیث یہاں  ذکر کی جاتی ہیں ، چنانچہ(1)حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ و پرہیز گاری (میں ) ہے۔(معجم الاوسط، باب العین، 3 / 92، حدیث: 3960)

(2)حضرت ابو درداء رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے چودھویں  رات کے چاند کی تمام ستاروں  پر فضیلت ہے۔( ابو داؤد، کتاب العلم، باب الحث علی طلب العلم، 3 / 444، حدیث: 3641)

(3) حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں ،حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں  دو آدمیوں  کا ذکر کیا گیا،ان میں  سے ایک عالِم تھا اور دوسرا عبادت گزار،توحضورِ اَقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عبادت گزار پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنیٰ پر ہے، پھرسرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا’’اللہ پاک اس کے فرشتے، آسمانوں  اور زمین کی مخلوق حتّٰی کہ چیونٹیاں  اپنے سوراخوں  میں  اور مچھلیاں  لوگوں  کو (دین کا) علم سکھانے والے پر درود بھیجتے ہیں۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4 / 313، الحدیث: 2694)

(4) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ  سے روایت ہے، حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:تم جنت میں  داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں  کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔(شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717)

(5)حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: روز قیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہداء کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی۔( مسند الفردوس، 5/ 486، حدیث: 488)

اللہ پاک ہمیں  علمِ دین سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


عالم کا معنی ہے جاننے والا ۔اسلامی کے فرائض واجبات۔ عقاہد اور اس کے علاوہ اسلام کی ضروریات کا علم رکھنے والے کو عالم کہا جاتا ہے ۔اللہ پاک نے عالم کی بہت زیادہ فضیلت رکھی ہے یہاں تک کہ عالم کی اتنی فضیلت رکھی ہے کہ بروز محشر وہ لوگوں کی شفاعت کریں گا ان لوگوں کی بھی کہ جن لوگوں نے اس عالم کو وضو کے لیے پانی دیا ہوگا ۔چنانچہ اسی ضمن میں حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چند احادیث مبارکہ عالم کی فضیلت میں آپ کے گوش گزار کرتا ہوں۔

(1)ترمذی نے روایت کیا ہے کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمىوں کا ذکر ہوا اىک عابد دوسرا عالم، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2) حدیث شریف میں ہے کہ جب پروردگار قیامت کے دن اپنی کرسی پر واسطہ فیصلہ کے ( فیصلہ فرمانے کے لیے ) بیٹھے گا ( جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے) علما سے فرمائے گا :خلاصہ معنی یہ ہے کہ میں نے اپنا علم و حلم(نرمی ) تم کو صرف اسی ارادے سے عنایت کیا کہ تم کو بخش دوں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔ (المعجم الکبیر حدیث: 1371)

(3) اسی طرح پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علما کے شان کو بیان فرمایا :خدائے پاک قىامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بِہِشْت(جنت) مىں جاؤ۔ علما عرض کرىں گے : الٰہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کى اور جہاد کىا۔حکم ہوگا : تم مىرے نزدىک بعض فرشتوں کى مانند ہو، شفاعت کرو کہ تمہارى شفاعت قبول ہو۔ پس (علماپہلے) شفاعت کرىں گے پھر بِہِشْت (جنت) مىں جاوىں گے۔( احیاء علوم الدین، کتاب العلم، الباب الاول فی فضل العلم…الخ، 1/ 26)

(4) بخاری اور ترمذی نے بسند صحیح روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:من یرید اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین ۔ ترجمہ اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے ۔(بخاری کتاب العلم باب العلم قبل الاول والعمل، 1/41)اشباہ النظاہر میں لکھا ہے کہ کوئی آدمی اپنے انجام سے واقف نہیں ہوتا سوا فقیہ کے کیونکہ وہ باخبر مخبر صادق یعنی سچی خبر دینے والے نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتانے سے جانتا ہے کہ اس کے ساتھ خدائے پاک نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔

(5) ابو داؤد نے سیدنا ابو درداء سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو شخص طلب علم میں ( یعنی کسی ایک ) راہ چلے اللہ پاک اس کو بہشت کی راہوں میں سے ایک راہ چلا دے اور بے شک فرشتے اپنے بازو طالب علم کے رضا مندی کے واسطے بچھاتے ہیں اور بے شک اور عالم کے لیے استغفار کرتے ہیں سب زمین والے اور سب آسمان والے یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اور بے شک فضل عالم کا عابد پر ایسا ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی بزرگی سب ستاروں پر اور بے شک علما وارث انبیاء کے ہیں اور بے شک پیغمبروں نے درہم و دینار میراث نہ چھوڑی بلکہ علم کو میراث چھوڑا ہے پس جو علم حاصل کریں اس نے بڑا حصہ حاصل کیا۔ (ابو داؤد،کتاب العلم باب الحث علی طلب العلم ،حدیث: 3641)

بے شک عالم کی بہت زیادہ فضیلت ہے اللہ پاک نے خود علم والوں کی مدح فرمائی ۔اللہ پاک نے پارہ 3آل عمران میں ارشاد فرمایا: قُلْ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًۢا بَیْنِیْ وَ بَیْنَكُمْۙ-وَ مَنْ عِنْدَهٗ عِلْمُ الْكِتٰبِ۠(۴۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ اللہ گواہ کافی ہے مجھ میں اور تم میں اور وہ جسے کتاب کا علم ہے۔(پ13، الرعد : 43)چناچہ ہمیں چاہیے کہ علم والوں کی یعنی عالموں کی خدمت کریں ان کی صحبت صالح اختیار کریں کیونکہ کیا پتہ کل بروز قیامت اللہ پاک کے کرم سے یہ ہماری شفاعت کریں۔

اللہ پاک ہمیں ان کی خدمت اور ان سے برکت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ (پ 23 ،زمر : 09)اس آیت میں استفہام(سوال) ”نفی“کے معنی میں ہے۔ یعنی علم والے اور بے علم برابر نہیں ہیں۔ کیونکہ علم والے انبیاء ورسل کے وارث ہیں اور انبیاء ورسل سے وراثت میں مال و دولت نہیں بلکہ علم ملا ہے ۔اسی لئے جس طرح انبیاءورسل تمام مخلوقات میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں اسی طرح ان کی وراثت یعنی علم بھی سب سے زیادہ عظمت والا ہے۔

جو شخص عبادات و ریاضات میں مشغول رہتا ہو تو اس کا علم صرف اپنی عبادات تک محدود رہتا ہے، جتنی عبادت کرتا ہوگا صرف اسی کا علم رکھتا ہوگا۔ اسی کے مقابل ایک عالمِ دین ممکن ہے کہ عبادات کم کرتا ہو لیکن وہ نہ صرف اپنی بلکہ اپنے معاشرے کی اصلاح کا ذمہ لئے ہوئے ہوتا ہے۔ ایک عابد خود تیر کر کنارے تک پہنچتا ہے جبکہ عالم دین اپنے ساتھ کئی ڈوبتوں کو بھی پار لگاتا ہے۔ عابد آگ سے صرف اپنی کملی بچاتا ہے جبکہ عالم لوگوں کی جان بھی بچاتا ہے۔یہی وجہ ہی کہ احادیثِ مبارکہ میں عالم کی عابد پر فضیلت کا بیان کثرت سے ملتا ہے۔ اسی موقع کے اعتبار سے علماء کے فضائل پر پانچ فرامینِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کئے جاتے ہیں:

(1)تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت میرے ادنی صحابی پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

(2)رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے چودھویں کے چاند کی تمام ستاروں پر ۔ (سنن ابوداود، کتاب العلم، باب الحث علی الطلب العلم،4/444،حدیث :3641)

(3) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک کی کوئی عبادت ایسی نہیں کی گئی جو دین کی سمجھ بوجھ حاصل کرنے سے افضل ہو اور ایک فقیہ شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔ ہر چیز کا ایک ستون ہوتا ہے اور اس دین کا ستون فقہ ہے۔( المعجم الاوسط،4/337، حدیث:6166)

(4) فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : مومن عالم مومن عابد پر 70درَجے زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔( جامع بیان العلم وفضلہ،حدیث:84، ص36)

(5) حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: (قیامت کے دن) عالم اور عبادت گزار کو لایا جائے گا اور عبادت گزار سے کہا جائے گا:تم جنت میں داخل ہو جاؤ جبکہ عالم سے کہا جائے گا کہ تم ٹھہرو اور لوگوں کی شفاعت کرو کیونکہ تم نے ان کے اَخلاق کو سنوارا ہے۔( شعب الایمان، السابع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی فضل العلم وشرفہ، 2 / 268، حدیث: 1717)

ان احادیث مبارکہ سے یہ بات روز روشن کی طرح بالکل واضح ہورہی ہے کہ علمِ دین حاصل کرنا اور سکھانا باقی تمام تر نفلی عبادات سے افضل و اعلیٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علما کو عابد پر نہیں بلکہ عابدوں پر کئی درجات فضیلت حاصل ہے ۔ یہاں تک کہ بروزِ محشر انبیاءورسل کے ساتھ شفاعتِ امت کا حق بھی حاصل ہوگا کہ جس کی چاہیں گے بخشش کروائیں گے گویا کہ عالمِ دین پر اللہ پاک کا خاص کرم دنیا میں بھی ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا ۔

اللہ پاک ہمیں علم سیکھنے، سمجھنے، دوسروں کو سکھانے اور اس پر عمل پیرا ہونے اور کروانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


1۔ترمذی نے روایت کیا کہ رسول اللہ کے سامنے دو  آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم ترجمہ: بزرگی (فضیلت)عالم کی عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے کمتر پر۔ (ترمذی کتاب العلم۔ باب ماجاءفی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4/313 ،حدیث: 2694)

2۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اکرموا العلماء فانھم ورثۃ الانبیاء فمن اکرمھم فقد اکرم اللہ ورسولہ ترجمہ عالموں کی عزت کرو اس لئے کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں ۔ تو جس نے انکی عزت کی تحقیق اس نے اللہ و رسول کی عزت کی۔ (کنز العمال ،10/78)

3۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اول من یشفع یوم القیامۃ الانبیاء ثم العلماء ثم الشھداء ترجمہ:قیامت والے دن سب سے پہلے انبیاء شفاعت فرمائیں گے پھر علماء پھر شہداء ۔( تفسیر کبیر ،1/86)

4۔امام ذہبى نے رواىت کىا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : قىامت کے دن علما کى دَواتوں کى سىاہى اور شہىدوں کا خون تولا جائے گا رُوشنائی (سیاہی) ان کى دواتوں کى شہىدوں کے خون پر غالب آئے گى۔( فیضان علم و علما،ص14)

5۔اورمَعالِمُ التَّنزىل مىں لکھا ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا : جو شخص طلبِ علم مىں سفر کرتا ہے فرشتے اپنے بازؤوں سے اُس پر ساىہ کرتے ہىں اور مچھلىاں درىا مىں اور آسمان وزمىن اس کے حق مىں دعا کرتے ہىں۔(ابوداود، کتاب العلم، باب فی کتاب العلم، 3/ 445، حدیث : 3641، بتغیر)


دینِ اسلام میں حصولِ علم کی بہت تاکید کی گئی ہے اور علم و اہلِ علم کی متعدد فضیلتیں بیان کی گئی ہیں اور مسلمانوں کو علم کے حصول پر ابھارا گیا ہے۔ اور جس طرح علم کی اہمیت و فضیلت مسلّمہ ہے، اُسی طرح اِس نعمتِ عظیم کے حامل افراد کی فضیلت سے بھی انکار ممکن نہیں۔ علمائے دین وارثِ علم رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں یہ اپنے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے مخلوق میں سے بہترین  ٹھہرے اور وحی الہی کے چشمے سے سیراب ہوکر صحرائے عرب سے نکلےاور اس کائناتِ ارضی کے گوشہ گوشہ میں دولت علم سے انسانوں کی جھولیوں میں دین اسلام کی خیرات ڈال دی وہ جہالت کے پردوں کو ہٹاتے گئے اور ظلمات کو نور سے اڑاتے گئے اسی تہذیب کے مشعل برادر علمائے ربانی کی انتھک کوشش اور محنت تھی کہ یہ آفاق کے ہر ہر گوشہ میں کلام الہی اور سرکار دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین سناکر بنی آدم کو کفر اور جہالت کے اندھیروں سے نکال کر ایمان کی چاشنی سے متعارف کروا کے علم دین کی روشنی عطا کی اور سرور دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتیں سکھا کر انسان کو زندگی گزارنے کی راہ دکھائی۔یہی علمائے اسلام ہیں جنکے فضائل پر مبنی فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کتب احادیث میں علیحدہ ایک عنوان کی شکل اختیار کرگئے۔

(1) روزقیامت علماء کے قلم کی سیاہی اور شہداء کے خون کو تولا جائے گا تو علماء کے قلم کی سیاہی شہید کے خون سے زیادہ وزنی ہو جائے گی ۔(اخرجہ الدیلمی فی مسند الفردوس 486/5 حدیث 488)

(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر ہوا ایک عابد اور دوسرا عالم آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فضل العالم علی العابد کفضلی علی ادناکم.ترجمہ:عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے. جیسے میری فضیلت تمہارے کم تر پر۔(ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ، 4/313،حدیث: 2694)

(3) علماء نبیوں کے وارث ہیں ۔ آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں ۔اور جب علماء انتقال کر جاتے ہیں تو مچھلیاں پانی میں قیامت تک ان کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہیں۔ (کنز العمال،10/77)

(4) خدائے تعالی قیامت کے دن عابدوں اور مجاہدوں کو حکم دے گا بہشت (جنت) میں جاؤ۔ علماء عرض کریں گے:الہی!انہوں نے ہمارے بتلانے سے عبادت کی اور جہاد کیا۔ حکم ہو گا: تم میرے نزدیک بعض فرشتوں کی مانند ہو ، شفاعت کرو کہ تمہاری شفاعت قبول ہو۔ پس (علماء پہلے شفاعت کریں گے پھر بہشت (جنت میں جاویں گے)۔(احياء علوم الدين، كتاب العلم ، الباب الاول في فضل العلم... الخ، 1/ 22)

(5) علمائے حق زمین میں ان ستاروں کی طرح ہیں جن کے ذریعے بحر و بر کے اندھیروں میں راہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ جب ستارے غروب ہو جائیں گے تو یقیناً ان (ستاروں) سے راہنمائی حاصل کرنے والے بھٹک جائیں گے۔ (یعنی علماء حق نہیں ہوں گے تو عوام گمراہ ہو جائیں گے)۔(اخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/ 157، حدیث: 12621)


علم وہ نور ہے جس سے جہالت کے اندھیرے مٹتے اور مردہ فکر کو جِلا ملتی ہے۔علم ہی نے علما کو جہلا پر بلندی عطا کی، اور انہیں انبیاء کرام علیہم السلام کا وارث و جانشین بنایا۔ علمائے حق کی رفعت شان کا عالم یہ ہے کہ لوگ جنت میں بھی ان کے محتاج ہوں ہے۔ سرکار دو جہاں، عالمِ ما کان و ما یکون صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے علماء کرام کے متعدد فضائل بیان فرمائے۔چند فرامین ملاحظہ ہوں:

(1) ابو امامہ باهِلی رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں دوشخصوں کا ذکر ہوا جن میں سے ایک عابد دوسرا عالم ہے۔ تو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ عالم کی عابد پر فضیلت ایسی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ادنی پر۔ پھر فرمایا: اﷲ اور اس کے فرشتے اور آسمان و زمین والے حتی کے چیونٹیاں اپنے سوارخوں میں اور مچھلیاں(پانی میں)صلوٰۃ بھیجتے ہیں لوگوں کو علم دین سکھانے والے پر۔(سنن الترمذی،کتاب العلم،باب ما جاء فی فضل الفقہ علی العبادۃ 5/ 50 ،حدیث: 2685 )مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : یہ تشبیہ بیان نوعیت کے لئے ہے نہ کہ بیان مقدار کے لئے، یعنی جس قسم کی بزرگی مجھ کو تمام مسلمانوں پر حاصل ہے اس قسم کی بزرگی عالم کو عابد پر، اگرچہ ان دونوں بزرگیوں میں کروڑ ہا فرق ہیں۔(مراٰۃ المناجیح ، 1 / 195 ملتقطاً)

(2)ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ایک فقیہ، شیطان پر ہزار عابدوں سے زیادہ بھاری ہے۔(سنن ابن ماجہ،المقدمۃ،باب:فضل العلماء و الحث علی طلب العلم، 1/ 81، حدیث: 222 )

(3) ابو موسیٰ اشعری رضى اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ پاک قیامت کے روز اپنے بندوں کو اٹھائے گا پھر علما کو ان سے الگ کرکے فرمائے گا: اے علما کے گروہ! میں نے تمہیں اپنا علم اس لیے نہیں دیا تھا کہ تمہیں عذاب دوں۔ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔)المعجم الاوسط ،4 / 302 ،حدیث :4264 (

(4)جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عالم اور عابد کو (روز قیامت) اٹھایا جائے گا۔ عابد سے کہا جائے گا: تُو جنت میں داخل ہو جا اور عالم سے کہا جائے گا: تُو ٹھہر جا یہاں تک کہ لوگوں کی اچھی تربیت کے بدلے اُن کی شفاعت کرلے۔ (شعب الایمان ، 2 / 268 ،حدیث: 1717 )

(5)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علما کی مثال یہ ہے جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر کی تاریکیوں میں راستہ کا پتا چلتا ہے اور اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔(مسند للامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک، 4/314،حدیث:12600 )

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں علم حاصل کرنے کا ذوق و شوق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن و حدیث میں علماءکرام کی بہت شان بیان کی گئی ہے۔ان کی فضیلت کے لیے  تو ایک فرمان باری تعالی ہی کافی ہے جس میں اللہ پاک نے فرمایا:اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28) مگر تحصیل برکت کے لیے 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھیے اور جھومیے کہ علما کی کیسی شان ہے:۔

(1) مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِيیعنی جس سے اللہ تعالی نے بھلائی کا ارادہ کیا اسے دین کی سمجھ عطا کردی، اور میں تقسیم کرنے والا ہوں(علم کو)اور اللہ پاک عطا کرنے والا ہے (علم کی سمجھ کو)۔(مشکاة المصابیح،کتاب العلم،حدیث:189، مطبوعہ مکتبہ اسلامی کتب خانہ) (2) علما انبیاء کے وارث ہیں۔(احیاء العلوم،1/45) (3)زمین و آسمان کی تمام مخلوق عالم کے لیے استغفار کرتی ہے۔(احیاء العلوم،1/45) (4) دو خصلتیں کسی منافق میں جمع نہیں ہوتی:حسن اخلاق،فہمِ دین یعنی دین کی سمجھ بوجھ(احیاء العلوم،1/46) (5) علم اسلام کی زندگی ہے(فضائل علم و علما،ص26)

اللہ پاک ہمیں علما کی عزت و تکریم کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علم ایک انتہائی بیش بہا دولت اور عظیم نعمت ہے۔ دین اسلام نے علم کو انتہائی عظیم مقام و مرتبہ عطا کیا ہے۔ کیونکہ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو کامیاب اور اس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیتی ہے ۔علم سے مراد وہ علم ہے جو قرآن و حدیث سے حاصل ہو کہ یہی وہ علم ہے جس سے دنیا و آخرت سنور جاتی ہے اور یہی علم نجات دلانے والی ہے ۔

اللہ پاک نے قرآن مجید میں علم دین حاصل کرنے والوں کی بزرگی اور فضیلت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْۙ-وَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍؕ ترجمۂ کنزالایمان: اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا۔(پ 28، مجادلہ : 11)

علمائےکرام کی افضلیت : علمائے کرام کے مقام ومرتبہ کو حدیث شریف میں بھی بیان گیا ہے۔ چنانچہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا گیا ایک ان میں سے عابد) یعنی عبادت گزار ( تھا دوسرا عالم ) یعنی علم رکھنے والا (تھا، تو سرکار اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: فَضۡلُ الۡعَالِمِ عَلَى الۡعَابِدِ کَفَضۡلِىۡ عَلٰى اَدۡنَاکُمۡ (ترجمہ)بزرگى(فضیلت)عالم کى عابد پر اىسى ہے جىسے میری فضىلت تمہارے کمتر پر۔( ترمذی، کتاب العلم، باب ماجاء فی فضل الفقہ علی العبادة، 4/ 313، حدیث : 2694)

عالم دین عبادت گزار سے بھی زیادہ بلند مقام رکھتا ہے۔ اس کے مقام و مرتبہ کے سامنے راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والے اور دن کو روزہ رکھنے والے عبادت گزار کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ عبادت گزار صرف اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاتا ہے اور عالمِ دین نہ صرف اپنے آپ کو جہنم سے بچاتا ہے، بلکہ اپنے ساتھ دوسرے بہت سے لوگوں کو بھی جہنم سے بچا کر جنت کے راستے پر چلاتا ہے۔

حضرت سیدنا مولا علی مشکل کشا کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ عالم روزہ دار شب بیدار ( یعنی عالم دن رات عبادت کرنے والے ) مجاہد سے افضل ہے ۔(فیضان علم و علما، ص 21 )

شہدا کا خون اور علما کی سیاہی:رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: عالموں کی دواتوں کی روشنائی قیامت کے دن شہیدوں کے خون سے تولی جائے گی اور اس پر غالب ہوجائے گی ۔( فیضان علم و علما، ص 14 )

علماء کرام کی مثال جیسے آسمان میں ستارے: حدیث شریف میں فرمایا گیا ہے کہ : علما کی مثال یہ ہے کہ جیسے آسمان میں ستارے جن سے خشکی اور سمندر میں راستہ کا پتہ چلتا ہے اگر ستارے مٹ جائیں تو راستہ چلنے والے بھٹک جائیں گے۔ ( جنتی زیور، ص 457 )

علماء کرام وارثین انبیاء علیہم السلام ہیں:علماء کرام کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ علماء کرام انبیاء عظام علیہم السلام کے وارث ہوتے ہیں۔

ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو علم کی راہ میں چلتا ہے تو اللہ پاک اس کی وجہ سے جنت کی راہ آسان کر دیتا ہے۔ طالب علم سے خوش ہو کر فرشتے اس کے لیے اپنا پر بچھا دیتے ہیں۔ علم حاصل کرنے والے کے لیے زمین و آسمان کی سبھی چیزیں دعاء خیر کرتی ہیں حتی کہ پانی میں موجود مچھلیاں بھی۔

عبادت گزار پر عالم کی فضیلت ویسے ہی ہے جیسے چاند کی فضیلت سبھی ستاروں پر ہے۔ علماء کرام انبیاء عظام کے وارثین ہیں۔ انبیاء کرام نے درہم و دینار وراثت میں نہیں چھوڑے بلکہ انہوں نے وراثت میں علم دین کو چھوڑا ہے، جس نے اس ورثہ کو پالیا ، اس نے پورا حصہ پایا ۔ (سنن ابوداود کتاب العلم باب الحث علی طلب العلم ،3/444،حدیث: 3641)

عالم کے لیے ساری کائنات دعا گو رہتی ہے: اس حدیث پاک کے تحت مراٰۃ المناجیح میں ہے: علمائے دین کے لئے چاند سورج تارے اور آسمانی فرشتے ایسے ہی زمین کے ذرے ،سبزیوں کے پتے اور بعض جن و انس اور تمام دریائی جانور مچھلیاں وغیرہ دعائے مغفرت کرتے ہیں۔کیونکہ علمائے دین کی وجہ سے دین باقی ہے اور دین کی بقا سے عالَم قائم ہے۔ علما کی کی برکتوں سے بارشیں ہوتی ہیں اور مخلوق کو رزق ملتا ہے۔ ( مراٰۃ المناجیح ، 1 / 194 )

علماء کرام سے محبت کرنے کا حکم:علمائے کرام کی محبت ان کی صحبت ، ان سے تعلق رکھنا ہماری دینی و دنیاوی زندگی کے لیے مفید ہے ، ان کی معیت سے علم اور آداب و اخلاق سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : عالم دین بنو، یا طالب علم بنو، یا عالم دین کی بات سننے والا بنو، یا اس سے محبت کرنے والا بنو اور پانچواں مت بنو کہ ہلاک ہو جاؤ گے ۔( فضائل علم و علما ، ص 82 )

علمائے کرام کی عظمت و رفعت کا خیال رکھیں اور ان کی برائی کرکے اپنے انجام کو خراب نہ کریں۔ علمائے کرام اللہ پاک کے محبوب بندے ہوتے ہیں۔ اللہ پاک انہیں اپنے دین کے لیے چنتا ہے لہذا، ان کی برائی انتہائی سنگین جرم اور گناہ کا باعث ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم علمائے کرام کا احترام کریں۔

اللہ پاک ہمیں علماء کرام کی عزت وتکریم کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


طلوعِ اسلام سے قبل جہالت کے سبب لوگ مختلف امراض کا شکار تھے۔ مثلاً بت پرستی ،شراب نوشی،قتل و غارت وغیرہ وغیرہ۔ طلوع اسلام سے نہ صرف جہالت کا خاتمہ ہوا بلکہ ان امراض کا بھی تدارک ہوا۔ اسلام نے پہلا پیغام ہی علم کے حوالے سے دیا جس کے الفاظ یہ ہیں:اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا(پ 30،العلق:01)اگر اللہ پاک کے نزدیک علم سے بہتر کوئی چیز ہوتی تو آدم علیہ السلام کو فرشتوں کے مقابل میں دی جاتی۔اللہ پاک نے علم والوں کی قرآن پاک میں یہ شان بیان فرمائی :اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔(پ 22،فاطر:28)

دوسرے مقام پر علما کی یہ شان فرمائی :قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-اِنَّمَا یَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۠(۹)ترجمۂ کنز العرفان: تم فرماؤ: کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں ؟ عقل والے ہی نصیحت مانتے ہیں۔(پ 23 ،الزمر : 09)

1۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :عالم اور عابد کے درمیان 100درَجے ہیں اور ہر دو درَجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنی مسافت سدھایا ہوا عمدہ گھوڑا 70سال تک دوڑ کر طے کرتا ہے۔(جامع بیان العلم وفضلہ، باب تفضیل العلم علی العبادۃ، ص 43،حدیث:118)

2۔حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن مبارَک رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا کہ انسان کون ہیں ؟ فرمایا: علما۔ پھر پوچھاگیا: بادشاہ کون ہیں ؟فرمایا: پرہیزگار۔ پھر پوچھا گیا: گھٹیا لوگ کون ہیں ؟ فرمایا: جو دین کے بدلے دنیا حاصل کرتے ہیں ۔

3۔حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ نے غیر عالم کو انسانوں میں شمار نہ کیا کیونکہ علم ہی وہ خصوصیت ہے جس کی وجہ سے انسان تمام جانوروں سے ممتاز ہوتے ہیں ۔ پس انسان اس وصف کے ذریعے انسان ہے۔ جس کے باعث اسے عزت حاصل ہوتی ہے۔امام غزالی لکھتے ہیں عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ عالم باعمل کو ملکوت آسمان (آسمان کی سلطنت)میں عظیم شخص کہا جاتا ہے۔(فضل العلم والعلماء)

4۔حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک عالم دین کے لیے زمین و آسمان کی چیزیں اور مچھلیاں پانی میں دعائے مغفرت کرتی ہیں اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسی چودھویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔(مشکوٰۃ کتاب العلم الفصل الثانی، حدیث :210 )ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ عالموں کے لیے مچھلیوں کی دعائے مغفرت کو اس لیے خاص کیا کہ پانی جو مچھلیوں کی زندگی کا باعث ہے وہ علما کی برکت سے نازل ہوتا ہے۔(مرقاۃ شرح مشکاۃ ،1/230)

5۔حضرت علی سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: علما زمین کا چراغ ہیں اور انبیاء کے جانشین ہیں اور میرے اور دیگر انبیاء کے وارث ہیں۔(کنزالعمال، 10/77)

اسی طرح دوسری روایت میں فرمایا :علما نبیوں کے وارث ہیں اور آسمان والے ان سے محبت کرتے ہیں۔ جب علما انتقال فرماتے ہیں تو قیامت تک مچھلیاں ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتی ہیں (ایضاً)

اللہ پاک ہمیں علمائے حق کا فیض عطا فرمائے اور ان کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم