محمد اسماعیل عطاری بن محمد شاہد عطاری(درجہ خامسہ جامعۃ
المدینہ فیضانِ بخاری کھارادر کراچی ، پاکستان)

خیانت ایک مذموم صفت ہے۔ اللہ
پاک فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ
لِنَبِیٍّ اَنْ یَّغُلَّؕ-وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ
الْقِیٰمَةِۚ-ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا
یُظْلَمُوْنَ(۱۶۱) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور کسی نبی کا خیانت کرنا ممکن ہی نہیں
اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی
ہوگی پھر ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں
کیا جائے گا۔(پ4 ، آل عمران : 161)
اس آیت میں خیانت کی
مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز
کے ساتھ پیش کیا جائے گا۔
احادیث میں بھی خیانت کی
بہت مذمت بیان کی گئی ہے چنانچہ
(1) سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جہنمیوں
میں ایسے شخص کو بھی شمار فرمایا جس کی خواہش اور طمع اگرچہ کم ہی ہو مگر وہ اسے خیانت
کا مرتکب کر دے۔ (مسلم، کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا واہلہا، باب الصفات التی یعرف بہا
فی الدنیا اہل الجنۃ واہل النار، ص1532، حدیث: 2865)
(2)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں
اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں۔ (مسند امام احمد، مسند المکثرین
من الصحابۃ، مسند انس بن مالک بن النضر، 4 / 271، حدیث: 12386)
(3) حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولِ
اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے
مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث
ابی امامۃ الباہلی، 8 / 276، حدیث: 22232)
(4) حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو
وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ،
3/ 93، حدیث: 2716)
(5) حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت
ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : وہ شخص ملعون ہے جو
اپنے مسلمان بھائی کو نقصان پہنچائے یا اس کے ساتھ دھوکہ کرے ۔(تاریخ بغداد، محمد
بن احمد بن محمد بن جابر۔۔۔ الخ، 1/ 360)
اللہ پاک ہمیں خیانت جیسی
مذموم صفت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
محمد عمر رضا عطّاری بن شفیق شہزاد (جامعۃُ المدینہ فیضان
فاروق اعظم سادھو کی لاہور، پاکستان)

خیانت
کی تعریف: اجازت شرعیہ کے بغیر کسی
کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات ،ص 175)
(1) حدیث مبارک: نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد حقیقت بنیاد ہے: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں
پائی جائیں وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو (1) جب بات کرے
تو جھوٹ بولے (2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3) جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت
کرے (مسلم، کتاب الایمان، ص 50 ،حدیث : 107)
(2) حدیث مبارک : روایت ہے حضرت ابن عمر سے
فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ نہ بغیر پاکی
کے نماز قبول اور نہ خیانت کے مال سے صدقہ و خیرات قبول ہے۔(مراۃ المناجیح)
(3) روایت ہے حضرت ابوہریرہ
سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عرض کرتے تھے الٰہی میں بھوک سے تیری
پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بری بستر کی ساتھی ہے اور خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ
یہ بدترین مشیر کار ہے ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد : 4)
(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جب تم شخص کو پاؤ کہ وہ اللہ پاک کی راہ میں خیانت کرے تو اس کا سامان جلا دو اور
اسے مارو۔( مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح، حدیث : 3633)
(5) فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ مؤمن
تمام خصلتوں پر پیدا کیا جا سکتا ہے سواء خیانت اور جھوٹ کے ۔( مراۃ المناجیح شرح
مشکوۃ المصابیح، جلد، 6 حدیث : 4860)
ان تمام روایات سے سبق
ملا کہ خیانت سے بچنا چاہیے کیونکہ ہر مسلمان پر امانت داری واجب اور خیانت کرنا
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ خیانت کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ ان شاء
الله
الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں
خیانت اور تمام گنا ہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
خالد حسین عطاری مدنی(مدرس جامعۃُ المدینہ فیضانِ ابو
عطار ماڈل کالونی کراچی، پاکستان)

وعدہ خلافی ،جھوٹ بولنا
،گالی دینا ،کسی کی بے عزتی کرنا، ناپ تول میں کمی اس طرح کی دیگر کئی ایسی برائیاں
جس کی وجہ سے حقوقُ اللہ یا حق العبد پامال ہوتے ہوں قراٰن و حدیث میں ان سب کے
متعلق تعلیمات دی گئی ہیں ان سے بچنے کا حکم اور انکی مذمت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان
ان سے بچیں۔ انہی برائیوں میں سے ایک برائی خیانت بھی ہے خیانت امانت کی ضد ہے۔
خیانت
کی تعریف : اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی
کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص175)
عموماً خیانت صرف مال میں
سمجھی جاتی ہے حالانکہ خیانت کا مفہوم وسیع ہے۔ خیانت شریعت میں ،دین میں، وعدہ کی
خلاف ورزی کرنا اسی طرح اپنے عہدہ و منصب کے اصول و ضوابط کے مطابق کام نہ کرنا بھی
خیانت میں آتا ہے ۔
یہ سب قراٰن پاک میں
مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی و انتظامی، دینی
اور دنیاوی امور میں بھی ہے، ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے ،لہذا ہر شخص کا اپنے
عہدہ و منصب کے مطابق امانت داری کا خیال کرنا ضروری ہے ۔
اللہ پاک نے ارشاد فرمایا
: وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ
بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن
اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی ۔(پ 4 ، آل عمران :161)
اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ
جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا
اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَیْلٌ
لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى
النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲) وَ
اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: کم تولنے والوں کے لئے خرابی ہے۔ وہ
لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں۔ اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں
توکم کردیں ۔ (پ30 ، المطففین ، 1تا3)
شان نزول: جب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو اس وقت یہاں کے لوگوں کا حال یہ
تھا کہ وہ ناپ تول میں خیانت کرتے تھے اور خاص طور پر ابوجُہَینہ ایک ایسا شخص تھا
جس نے چیزیں لینے اور دینے کے لئے دو جدا جدا پیمانے رکھے ہوئے تھے ۔ان لوگوں کے
بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔(صراط الجنان، جلد 10)احادیث میں بھی خیانت کی بہت
مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ
خیانت کرنے والے کا کوئی ایمان نہیں: حضرت انس رضی اللہُ عنہ
سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا
دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ یعنی جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں
عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔(مسند امام احمد، مسند انس بن مالک ،حدیث
: 13373)
مؤمن
خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا: حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا، إِلَّا
الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ“ مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا
نہیں ہو سکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی حدیث :
22170)
خیانت کرنا منافق کی نشانی ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آيةُ المُنافِقِ ثلاثٌ: إذا حدَّثَ كذَبَ، وإذا وعَدَ أخلَفَ، وإذا ائْتُمِنَ
خَانَ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔
(2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (نزھۃ
القاری شرح صحیح بخاری ،ص 294)
خلاصہ: جس طرح خیانت کرنے کی مذمت بیان ہوئی
ہے اسی طرح خیانت سے بچنے والے کے لیے اجرو ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ۔
حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ
ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ : الْكِبْرِ، وَالدَّيْنِ، وَالْغُلُولِ یعنی جو شخص اس حال میں مَرا
کہ وہ تین چیزوں سے بَری تھا: تکبر، خیانت اور دَین (قرض)،تو وہ جنت میں داخل ہو
گا۔(مسند احمد، مسندالانصار، حدیث :22434)
اللہ پاک ہمیں خیانت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین
بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین بحریہ ٹاؤن راولپنڈی، پاکستان)

خیانت امانت کی ضد ہے۔ خفیۃً
کسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے خواہ اپنا حق مارے یا اللہ ورسول کا یا اسلام کا یا
کسی بندہ کا۔(مرأة المناجیح، 4/76، حسن پبلشرز)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی بلکہ راز، عزت، مشورے
تمام میں ہوتی ہے۔(مرأة المناجیح، 1/197، حسن پبلشرز) ایک اور جگہ پر فرماتے ہیں :
خیانت کی بہت صورتیں ہیں، خیانت سے مراد مال مار لینا یا مراد ہر فسق و بدکاری ہے،
کیونکہ گناہِ کبیرہ کرنا یا گناہِ صغیرہ پر اَڑ جانا اور اسے کرتے رہنا فسق ہے اور
ہر فسق خیانت ہے کہ اس میں حقُ اللہ اور حقِ شرع کا مارنا ہے، اس لیے ہر فاسق خائن
ہے۔(مرأة المناجیح، 5/427، حسن پبلشرز)
احادیثِ کریمہ کی روشنی میں
خیانت کی مختلف صورتیں بیان ہوئیں ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں: فرمانِ مصطفٰی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو شخص اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ دے اور
جانتا ہو کہ بہتری اس کے علاوہ ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔(مرأةالمناجیح،ج 1، حدیث:224،حسن
پبلشرز)
دعائے مصطفٰی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اے اللہ ! میری آنکھ کو بددیانتی سے پاک رکھ کیونکہ تو خیانت
والی آنکھ کو جانتا ہے ۔ (مرأةالمناجیح،ج4،حدیث:2387،حسن پبلشرز)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ
اللہ علیہ اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں کہ: خیانت والی آنکھ سے مراد چور نظری
کرنے والی آنکھیں ہیں، کَن انکھیوں سے ناجائز چیزوں کو دیکھنا چور نظری ہے۔ (مرأة
المناجیح، 4/98، حسن پبلشرز)
حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی کو کام سپرد کر دیا اور اُس کی رعایا میں
اس سے بہتر موجود تھا تو اُس نے اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور
جماعت مسلمین کی خیانت کی۔( بہارِ شریعت، حصہ12 ،2/894)
رسول الله صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بری خیانت یہ ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کرے
جس میں وہ تجھے سچا سمجھتا ہو اور تو اس میں جھوٹا ہو۔(مرأةالمناجیح،ج6،حدیث: 4627،حسن
پبلشرز)
قراٰنِ کریم میں اللہ پاک
نے واضح لفظوں میں ارشاد فرما دیا کہ اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
اور بندوں کی امانتوں میں خیانت نہ کرو جیسا کہ : یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ
اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ
کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی
امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)
احادیثِ کریمہ میں بھی خیانت
کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے ، ان احادیث میں سے چند ایک مندرجہ ہیں:
دعائے مصطفٰی صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اے اللہ ! میں خیانت سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ یہ بدترین
مشیر کار(یعنی پیٹ میں خفیہ بات چھپانا) ہے۔ (مرأةالمناجیح،ج4،حدیث:2355، حسن
پبلشرز)
فرمانِ آخری نبی صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : کوئی والی جو مسلمان رعیت کا والی بنے پھر ان پر خیانت
کرتا ہوا مر جائے تو اللہ پاک اس پر جنت حرام فرما دے گا۔(مرأةالمناجیح،ج5،حدیث :3516،حسن
پبلشرز)
نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے کہ: دھاگہ اور سوئی تک ادا کرو اور خیانت سے بچو کہ یہ
خیانت قیامت کے دن خائن پر عار (رکاوٹ) ہوگی۔ (مرأةالمناجیح،ج5،حدیث: 3846، حسن
پبلشرز)
رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ: مؤمن تمام خصلتوں پر پیدا کیا جاسکتا ہے سوائے خیانت
اور جھوٹ کے۔(مرأةالمناجیح،ج6،حدیث:4642،حسن پبلشرز)
حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب کسی قوم میں خیانت ظاہر ہوجائے تو اللہ پاک ان کے
دلوں میں رعب (یعنی کم ہمتی اور دشمن کا خوف) ڈال دیتا ہے۔ (مرأةالمناجیح،ج7، حدیث:5132،حسن
پبلشرز)
اللہ پاک ہمیں ہر طرح کی
خیانت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین
محمد زبیر عطّاری (درجۂ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ
مدینہ فیضانِ عبداللہ شاہ غازی کلفٹن کراچی، پاکستان)

اجازت شرعیہ کے بغیر کسی
کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے ، پرورد گار عالم نے جو قوانین و اصول
اپنے بندوں کے لئے وضع فرمائے ہیں ان کو لفظِ امانت سے یاد کیا ہے اور متعدد
مقامات پر خیانت سے بہت سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ
تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی
امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)خیانت
کا پہلا سبب بدنیتی ہے۔ جس طرح اچھی نیت اخلاق و کردار کے لئے شفا اور اکسیر کا
درجہ رکھتی ہے اسی طرح بد نیتی کا زہر بندے کے اعمال کو بے ثمر بلکہ تباہ برباد کر
دیتا ہے ، چنانچہ ایک شخص نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں
حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت کب آئے گی
؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب امانت میں خیانت ہو تو قیامت
کا انتظار کرنا۔ اس شخص نے پوچھا امانت میں خیانت کیا ہے ؟ حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: امانت میں خیانت یہ ہے کہ معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد
کر دیئے جائیں۔ (بخاری،کتاب العلم،حدیث:59)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو
اس کے لئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان
ہے ۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے ،
بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔( مسند احمد،مسند عبداللہ بن مسعود،2/33،حدیث:3672)
تاجدار رسالت صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد اپنی غذا
پاک کر لو مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس
کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے
لئےآ گ زیادہ بہتر ہے ۔
حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اللہ پاک اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی
ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے
تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے پھر اپنی وصیت
میں اتفاق سے کام لیتا ہے تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل
ہو جاتا ہے۔
ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں
دعا گو ہیں کہ اللہ پاک ہمیں برے کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین ۔
سمیع اللہ بن محمد اقبال(درجہ رابعہ جامعۃ المدینہ
حیدرآباد فیضانِ امام احمد رضا خان، ہند)

اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرُّف کرنا خیانت
کہلاتا ہے۔(عمدةالقارى، کتاب الایمان، باب علامات المنافق، تحت الباب:24،328/1) انسان اگر
انصاف سے کام لے گا تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوگا اور وہ جنت میں داخل ہوگا اور
اگر خیانت کرے گا تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوگا اور وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ یہ
ایک ایسی بری عادت ہے کہ قراٰن و حدیث میں اس سے بچنے کا حکم اور کرنے والے کی
مذمّت کی گئی ہے۔ چنانچہ قراٰن کریم پارہ 9، سورۂ انفال کی اٰیت نمبر 27 میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ
تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی
امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)
اسی طرح احادیث میں بھی خیانت کی مذمّتیں وارد ہوئی ہیں
انہیں میں سے پانچ احادیثِ کریمہ پڑھیں اور اپنے آپ کو اس بری عادت سے بچائیں۔
)1)بغیر حساب
کتاب کے جہنم میں داخل کیا جائے گا: حضرت فُضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال
نہیں ہوگا، (اور انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کردیا جائے گا، ان میں
سے ایک) وہ عورت جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر) نے اس کی
دنیاوی ضروریات (نان نفقہ وغیرہ) پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے خیانت
کی۔(الترغیب والترہیب، کتاب البیوع وغیرہ، ترہیب العبد من الاباق من سیّدہ،3/18، حدیث:4)
(2) صدقہ قبول نہیں
ہوگا: رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
اللہ پاک بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں فرماتا اور خیانت کے مال سے صدقہ قبول
نہیں کرتا۔(مسلم، کتاب الطہارۃ، باب وجوب الطہارة للصلاة، ص140، حديث:224)
(3) منافق کی تین
باتیں: نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ارشادِ حقیقت بنیاد ہے: تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں پائی جائیں وہ
منافق ہوگا اگرچہ نماز، روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو:(1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے
(2) جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (3) جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو خیانت
کرے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب خصال المنافق، ص50، حدیث:107)
(4) مال جلا دیا اور پٹائی بھی لگائی: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے مروی
ہے کہ رسول پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، حضرت سیدنا ابوبکر صدیق اور حضرت
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے مالِ غنیمت میں خیانت کرنے والے کے مال کو جلا
دیا اور خائن کی پٹائی بھی لگائی۔(ابو داؤد، کتاب الجہاد، باب فی عقوبة الغال،3/93، حدیث:2715)
لہذا ایک کامل مؤمن ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ خیانت پیدا
کرنے والے اسباب پر غور کرے اور اس کی درستگی کے لئے کوششیں کرتا رہے۔ جیسے بد
نیّتی دھوکہ دہی بری صحبت نفسانی خواہشات کی تکمیل وغیرہ اور ان سب سے بچنے کے لئے
ان کُتُبِ اَحادیث کا مطالعہ کرے جن میں ان تمام چیزوں سے متعلق مذمّتیں بیان ہوئی
ہیں جیسے باطنی بیماریوں کے بارے میں معلومات، 76 کبیرہ گناہ وغیرہ۔
اللہ پاک ہمیں خیانت سے بچنے اور امانت داری اپنانے کی
توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ النّبیِّ الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد صابر عطاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان فتح
شاہ ولی ہبلی کرناٹک، ہند)

خوف ِ خدا
اور فکر ِآخرت رکھنے والے مسلمان کے لئے چاہئے کہ وہ خیانت نہ کرے لیکن نہایت
افسوس ہے کہ مسلمانوں میں اکثر مالی معاملات کے حکمِ قراٰنی میں بھی بڑی کوتاہیاں واقع
ہو رہی ہیں ،خیانت کرنا آج مختلف صورتوں میں مسلمانوں کے اندر بھی پایا جارہا ہے
بسبب لا علمی کہ اور ایسا بد ترین گناہ ہے کہ اس کو منافق کی علامت قرار دیا گیا
ہے ۔
اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت
کہلاتا ہے۔ )عمدةالقاری ، کتاب الایمان ،باب علامات المنافق (
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ
تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی
امانتوں میں دانستہ خیانت۔(پ9، الانفال : 27)
عام طور پر خیانت کا مفہوم مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھا
جاتا ہے کہ کسی کے پاس مال امانت رکھوایا پھر اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا تو
کہا جاتا ہے کہ اس نے خیانت کی ، یقینا ً یہ بھی خیانت ہی ہے لیکن خیانت کا شرعی
مفہوم بڑا وسیع ہے چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان لکھتے
ہیں: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ
المناجیح،1/212)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل
کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ بُرے عمل پر
ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور کوئی شخص ستّر برس تک جہنمیوں جیسے
عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں انصاف سے کام لیتا ہے تو اس کاخاتمہ اچھے عمل
پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ،کتاب الوصایا،باب الحیف فی
الوصیّۃ،3 / 305،حدیث: 2704)
حضرت سمرہ بن جندب
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو
داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ، 3 / 93، حدیث: 2716)
عبد الرحمٰن (درجہ دورة الحدیث جامعۃُ المدینہ فیضان اولیا
احمد آباد ، گجرات،ہند)

آج فی زمانہ
دیکھا جائے تو معاشرے میں باطنی بیماریوں کو بیماری نہیں سمجھا جاتا ہے ان ہی میں
سے ایک خیانت بھی ہے یہ ایک ایسا بدترین گناہ ہے کہ اس کو منافق کی علامت قرار دیا
گیا ہے حضور صلی اللہ تعالی علیہ و سلم نے منافق کی تین علامت بتائی ان میں سے ایک
خیانت بھی ہے اور اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ
تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی
امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)
خیانت کی تعریف : خیانت یہ امانت کی ضد ہے خفیہ طور پر کسی کا حق مارنا خیانت
کہلاتا ہے۔ خواہ وہ اللہ پاک کا یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا
یا اپنا یا دوسرے کا ہو۔
زیادہ تر ہم خیانت مال کے ساتھ خاص سمجھتے ہیں کہ اگر کسی
کے پاس مال رکھتے ہیں وہ دوسرے کو دیے دیں تو ہم اس کو خیانت کرنے والا کہتے ہیں
يقينًا یہ بھی خیانت ہے اور اس کے علاوہ راز کی باتوں ، عزت ، مشورہ وغیرہ میں بھی
خیانت ہوتی ہے ۔خیانت کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ حدیث پاک میں واضح طور پر بیان کی
گئی ہیں :
(1)رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب تم کسی ایسے شخص کو پاؤ جس نے مال (غنیمت
) میں خیانت کی ہو تو اس کا سامان جلا دو ۔ (ابو داؤد، حدیث: 2713)
(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: قیامت
کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت جو ہوگی وہ یہ ہے کہ مرد اپنی عورت کے پاس
جائے اور اس سے جماع کرے اور پھر اس کے راز کو ظاہر کر دے۔(مسلم شریف، حدیث: 3528
، ص 762، مكتبہ دار ابن كثير)
(3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: کہ مال
غنیمت میں خیانت کرنے والے کی خیانت کو چھپایا تو وہ گناہگار ہونے کے اعتبار سے وہ
بھی خیانت کرنے والے کی طرح ہے۔ (مشکاة المصابیح ، حدیث: 3917 )
(4) رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس
آدمی کو ہم کوئی ذمہ داری سونپیں اور اس کا وظیفہ مقرر کردیں تو اس ( وظیفہ ) کے
علاوہ جو مال لے گا وہ خیانت ہوگی ۔ ( ابوداؤد )
(5) حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: منافق کی علامتیں تین ہیں ۔ جب بات کرے جھوٹ
بولے ، جب وعدہ کرے اس کے خلاف کرے اور جب اس کو امین بنایا جائے تو خیانت کرے۔
(بخاری شریف، کتاب الایمان، مجلس برکات، ص 10)
معاشرے پر اثرات: پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اس پُر فتن دور میں کوئی باطنی گناہ
کو گناہ نہیں سمجھ رہا ہے انہی میں سے تکبّر ، جھوٹ ، چغلی، حسد ، کسی کا دل
دکھانا اور بعض صورتوں میں امانت میں خیانت کرنا وغیرہ اس سے لوگوں میں نفرت اور دوری
پیدا ہوتی ہیں ان سب بیماریوں کا ہمیں علاج کرنا چاہئے اور خیانت ایک ایسی چیز ہے
کہ جس کا خیال رکھنا انسان کے لیے ضروری اور اس سے غفلت برتنے میں دنیا و آخرت
دونوں کا نقصان ہے تو چاہئے کہ لوگوں کے اخلاق و معاملات کو درست کرنے کی کوشش کرے
اور ان کے اندر سے باطنی بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑنا ہے اس کے لئے ہمیں اچھے ماحول
اور اچھی صحبت اختیار کرنی چاہئے۔
اللہ پاک سے دعا ہے
کہ ہم سب کو باطنی بیماریوں سے محفوظ فرمائے۔(اٰمین)
شناور غنی عطّاری(درجۂ خامسہ جامعۃُ المدینہ، فیضان
امام غزالی،فیصل آباد، پاکستان)

فِی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیتِ
مجموعی عمل کمزور ہونے کی وجہ سے اَخلاقی و معاشرتی بُرائیاں اتنی عام ہوگئی ہیں
کہ لوگوں کی اکثریت ان کو بُرا سمجھنے کو بھی تیار نہیں، انہی میں سے ایک خیانت
بھی ہے۔یہ ایسا بَدترین گناہ ہے کہ اسے منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔عام طور پر خیانت کا مفہوم مالی
امانت کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے کہ کسی کے پاس مال امانت رکھوایا پھر اس نے واپس
کرنے سے انکار کردیا تو کہا جاتا ہے کہ اس نے خیانت کی، یقینا ً یہ بھی خیانت ہی
ہے لیکن خیانت کا شرعی مفہوم بڑا وسیع ہے۔چنانچہ حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان
رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ المناجیح، 1/212)
خیانت امانت کی ضِد ہے،پوشیدہ طور پرکسی کا حق مارنا خیانت کہلاتا ہے خواہ
اپنا حق مارے یا اللہ رسول کا یا اسلام کا یا کسی بندے کا!رب تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ
وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷)﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: اے ایمان
والو! اللہ اور رسول سے خیانت نہ کرو اور نہ جان بوجھ
کر اپنی امانتوں میں خیانت کرو۔(پ9،الانفال:27)
خیانت کی تعریف: اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت
میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔(باطنی
بیماریوں کی معلومات، ص175)
خیانت کا حکم: ہر مسلمان پر امانت داری واجب اور
خیانت کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات،ص 176)
جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ
قراٰنِ مجید میں خیانت کرنے سے منع کیا گیا ہے اسی طرح احادیثِ مبارکہ میں بھی
خیانت کی مذمت وارد ہوئی ہے۔ کیونکہ یہ ایک قبیح اور بُرا فعل ہے۔ اس لئے ہر
مسلمان کو اس کے ارتکاب سے بچنا چاہئے۔ خیانت کی مذمت کے متعلق 7فرامینِ مصطفٰے
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ بھی پڑھئے:
(1)منافقت کی علامت: جس میں چارعیوب ہوں وہ خالص منافق
ہے اور جس میں ان چار میں سے ایک عیب ہو تو اس میں منافقت کا عیب ہوگا جب تک کہ
اُسے چھوڑ نہ دے (ان میں سے ایک یہ بیان فرمایا:) جب
امانت دی جائے تو خیانت کرے۔(بخاری،1/25،حدیث:34)
(2)کوئی دین
نہیں:جو امانتدار
نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں۔(مسند امام احمد،4/271،حدیث:12386)
(3)مؤمن خیانت کرنے والا نہیں ہوسکتا: مؤمن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا۔ ( مسند امام
احمد،8/276،حدیث:22232)
(4)اخلاقی خیانت: اس بارے میں حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تین شخص ایسے ہیں جن کے بارے میں سوال نہیں ہوگا (اور
انہیں حساب کتاب کے بغیر ہی جہنم میں داخل کردیا جائے گا، ان میں سے ایک)وہ عورت
جس کا شوہر اس کے پاس موجود نہ تھا اور اس (کے شوہر)نے اس کی دنیاوی ضروریات (نان
نفقہ وغیرہ)پوری کیں پھر بھی عورت نے اس کے بعد اُس سے
خیانت کی۔(الترغیب والترھیب، 3/18، حدیث:4ملتقطاً)
(5)خائن کی پردہ پوشی سے
بچئے: ذہن نشین رہے کہ خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی
کرنے سے بچنا بھی ضروری ہے۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی
اس ہی کی طرح ہے۔(ابو داؤد،3/93،حدیث:2716)
(6)مشورہ دینے میں خیانت: جو اپنے بھائی کو کسی معاملے میں
مشورہ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ دُرستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اپنے بھائی سے خیانت کی۔ (ابوداؤد،3/449، حدیث: 3657)
(7)ادنیٰ چیز چھپانا بھی
خیانت:ہم تم میں سے جسے کسی کام پر عامل
بنائیں پھر وہ ہم سے سوئی یا اس سے زیادہ چھپا لے تو یہ بھی خیانت ہے جسے وہ قیامت
کے دن لائے گا۔ (مسلم،ص 787، حدیث: 4743)
خیانت کے اسباب:اس بُرے فعل میں پڑنے کے بہت سارے
اسباب ہو سکتے ہیں جن میں سے چند اسباب یہاں ذکر کئے جا رہے ہیں: (1)بدنیتی (2)دھوکا دینے کی عادت (3)بُری صحبت (4)توکل
علی الله کی کمی (5)مسلمانوں کو نقصان دینے کی عادت (6)نفسانی خواہشات کی تکمیل۔
الله پاک سے دعا ہے کہ الله پاک ہم
سب کو خیانت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے احکامات کے مطابق زندگی
گزارنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
خیانت کے بارے میں مزید معلومات
کیلئے اور درج بالا اسباب کے علاج جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب
”باطنی بیماریوں کی معلومات“ کا مطالعہ کیجئے۔ علم ِ دین کا انمول خزانہ ہاتھ آئے
گا۔ اِن شآءَ اللہ

حضرت نوح علیہ السّلام کا مختصر تعارف: حضرت نوح علیہ السّلام
کا اسمِ گرامی یشکر یا عبدُ الغفار ہے آپ دنیا میں چوتھے نبی اور پہلے رسول تھے۔ آپ
کو آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ طوفان نوح کے بعد آپ ہی سے نسل انسانی چلی۔
آپ علیہ السّلام حضرت ادریس علیہ السّلام کے پڑپوتے تھے۔ آپ کا لقب ’’نوح‘‘ اس
لئے ہو اکہ آپ کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے ، چالیس یا پچاس سال کی عمر میں
نبوت سے سرفراز فرمائے گئے۔
اللہ پاک نے قراٰن میں کئی
مقامات پر حضرت نوح علیہ الصلوۃ و السّلام کے اوصاف بیان فرمائے ہیں۔ جن میں سے
چند درج ذیل ہیں:۔
(1)شکر گزار بندہ۔ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر
گزار بندہ تھا۔(پ15، بنیٓ اسرآءیل: 3) اللہ نے آپ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ آپ
اللہ پاک کے بہت شکرگزار بندے تھے۔
تفسیر خازن میں علامہ
آلوسی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں : حضرت نوح علیہ السّلام کو بطورِ خاص شکر
گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا
لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا لاتے تھے۔( خازن، الاسراء،
تحت الآیۃ: 3، 3 / 161)
(2)امانتدار
رسول: اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷) ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک میں تمہارے
لیے ایک امانتدار رسول ہوں۔(پ19، الشعراء: 107)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر
مدارک میں ذکر ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام کی امانت داری آپ کی قوم کو اسی طرح تسلیم
تھی جیسا کہ سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امانت داری پر عرب
کو اتفاق تھا۔( مدارک، الشعراء، تحت الآیۃ: 107، ص 825)
(3)سب
سے پہلے رسول: اِنَّاۤ اَرْسَلْنَا
نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ اَنْ اَنْذِرْ قَوْمَكَ ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے نوح
کو اس کی قوم کی طرف بھیجا کہ ان کو ڈرا ۔(پ29،نوح:1)
اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر
سمر قندی میں ہے۔ حضرت نوح علیہ السّلام وہ سب سے پہلے رسول ہیں جنہوں نے کفار کو
تبلیغ کی اور سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کی قوم پر ہی دُنْیَوی عذاب آیا۔(سمر
قندی، نوح، تحت الآیۃ: 1، 3 / 406)
(4) آپ کے بعد تمام انبیا
آپ کی اولاد میں سے ہیں۔ وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ
جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بےشک ہم نے ابراہیم اور نوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد
میں نبوّت اور کتاب رکھی ۔(پ27،الحدید: 26)
اس کی تفسیر میں ابو حیان محمد بن یوسف اندلسی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں ’’ حضرت ابراہیم علیہ السّلام چونکہ حضرت نوح علیہ السّلام
کی اولاد میں سے ہیں ا س لئے شرفِ نبوت ان دونوں کی اولاد میں ہونا صادق آیا۔ (البحر
المحیط، الحدید، تحت الآیۃ:26، 8 / 226)
(5)حضرت نوح علیہ السّلام
کی عمر کا تذکرہ: وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا
نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ
عَامًاؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور
بےشک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ہزار برس رہا۔(پ20،العنکبوت
: 14)
بیشک ہم نے آپ سے پہلے
حضرت نوح علیہ السّلام کو ان کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک
ہزار (یعنی 950) سال رہے، اس پوری مدت میں انہوں نے قوم کو توحید اور ایمان کی
دعوت دینے کا عمل جاری رکھا اور ان کی طرف سے پہنچنے والی سختیوں اور ایذاؤں پر
صبر کیا۔(البحر المحیط، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 7 / 140، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 14، 3 / 447، ملتقطاً)
محمد طلحٰہ خان عطاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان
خلفائے راشدین، راولپنڈی،پاکستان پاکستان)

اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ
احسانِ اعلٰی کہ جس نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نزولِ انبیائے کرام علیہم السّلام کا
اہتمام فرمایا، اور ہر نبی پر اپنی رحمت و نوازشات کا سایہ فرماتے ہوئے
انہیں اوصافِ حمیدہ سے مزین فرمایا کہ تمام بنی نوع انسان کے لیے سر چشمۂ ہدایت ہوئے اور زندگی کو تاریکی سے
نور کی طرف لے جانے کے لیے صراطِ مستقیم ٹھہرے۔ انہیں اعلٰی حضرات میں سے ایک
حضرتِ نوح علیہ السّلام کی ذاتِ بابرکات ہے جنہیں اللہ پاک نے عظیم صفات سے نوازا
اور بنی نوع انسان کے لیے ان صفات کو سبق کا سامان فرمایا۔ قراٰنِ مجید میں اللہ
پاک نے جن صفاتِ نوح علیہ السّلام کو ذکر فرمایا۔ وہ مندرجہ ذیل ہیں:
(1)اعلٰی درجے کا کامل ایمان: حضرتِ نوح علیہ
السّلام بہت ہی اعلٰی ، پختہ و کامل ایمان کے حامل تھے۔ جیسا کہ فرمانِ باری ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا
الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک وہ ہمارے
اعلٰی درجہ کے کاملُ الایمان بندوں میں ہے۔(پ23، الصّٰٓفّٰت:81)
(2)شکر گزار : آپ علیہ السّلام انتہائی شاکر تھے کہ اللہ پاک
نے آپ علیہ السّلام کے شکر کی مثال دے کر لوگوں کو شکرِ خداوندی کا درس دیا ، جیسا
کہ ارشاد فرمایا: اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا
شَكُوْرًا (۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: بیشک وہ بڑا شکر
گزار بندہ تھا۔(پ15، بنی اسرآءیل: 3) تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ : حضرت نوح علیہ
السّلام کو بطورِ خاص شکر گزار بندہ فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ علیہ السّلام جب
کوئی چیز کھاتے ،پیتے یا لباس پہنتے تو اللہ پاک کی حمد کرتے اور ا س کا شکر بجا
لاتے تھے۔( صراط الجنان،5/419)
اس عظیم ہستی کی سیرت کے
صرف دو پہلو پر ہی نظر کی جائے تو اچھی زندگی گزارنے کا ایک اچھا نمونہ ملتا ہے کہ
انسان کامل اور مضبوط ایمان والا بنے کہ صرف زبان سے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتا نہ
پھرے بلکہ اپنے عمل کے ذریعے کامل ایمان ہونے کا ثبوت دے تاکہ اللہ پاک اسے بلند
درجہ ایمان والوں میں رکھے۔ دوسرا کامل مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ خدا کا
شکرگزار بندہ بنے۔ شکر گزاری کی فضیلت خود ربِ ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے کہ: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ ۔ ترجمۂ کنزالعرفان: اگر
تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ عطا کروں گا۔(پ13،ابراھیم:7) اور
شکر کی فضیلت بیان کرتے ہوئے حضور خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: اللہ پاک جب کسی قوم سے بھلائی کا اِرادہ فرماتا ہے توان کی عُمر
دراز کرتا ہے اور انہیں شکر کا الہام فرماتا ہے۔(فردوس الاخبار، باب الالف، 1/148،
حدیث: 954) گویا کہ بندے کا شکر گزار ہونا بھی اللہ پاک کا خاص کرم ہے اور بندہ جب
کسی نعمت پر شکر گزاری کرتا ہے تو رب کریم اسے وہ نعمت اور زیادہ عطا فرماتا ہے۔
اللہ پاک ہمیں انبیائے
کرام علیہم السّلام کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین
نعمان عطّاری (درجۂ سادسہ،جامعۃُ المدینہ مدینہ فیضانِ
مدینہ، نواب شاہ،سندھ،پاکستان)

حضرت آدم علیہ السّلام کے دنیا سے
وصالِ ظاہری فرمانے کے بعد اللہ پاک نے اپنے اُولُو الْعَزم رسولوں میں سے ایک
رسول حضرت نوح علیہ السّلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا تاکہ آپ لوگوں تک دعوت اِلَی
اللہ کا فریضہ انجام دیں۔ اللہ پاک نے حضرت نوح علیہ السّلام کو بہت سے اوصافِ
حمیدہ اور عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائیں۔ آپ علیہ
السّلام اللہ پاک کے سب سے پہلے رسول ہیں۔(مسلم، ص103، حدیث:475) اور آپ
آدمِ ثانی کے لقب سے بھی مشہور ہیں کیونکہ طوفانِ نوح میں فقط آپ علیہ السّلام کی
قوم کے کچھ لوگ باقی رہ گئے تھے جو کشتی میں سوار تھے اور انہی سے نوعِ انسان کا
سلسلہ شروع ہوا تھا۔ آپ صائمُ الدھر (یعنی عید الفطر و
عید الاضحیٰ کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھا کرتے) تھے، (سیرت الانبیاء، ص161 ملخصاً) آپ علیہ السّلام کا نام
یشکریا عبدالغفّار (صراط الجنان، 3/347) اور آپ کا مبارک لقب ”نوح“ ہے۔ یہ لقب آپ کا اس لئے رکھا گیا
کیونکہ آپ اللہ پاک کے خوف کے سبب اس کی بارگاہ میں کثرت کے ساتھ گریہ وزاری کیا
کرتے تھے۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السّلام کا قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر ذکر فرمایا ہے۔آیئے حضرت نوح علیہ السّلام کے 5 قراٰنی اوصاف پڑھتے ہیں
:
(1)دعوتِ دین پر استقامت:آپ علیہ السّلام 950 سال سے زائد اپنی قوم میں تشریف فرما رہے۔اور آپ اتنے
طویل عرصے تک اپنی قوم کو استقامت کے ساتھ دین کی دعوت دیتے رہے، اس دوران آپ نے
سخت آزمائشوں اور تکالیف کا سامنا بھی کیا۔ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا
ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖ فَلَبِثَ
فِیْهِمْ اَلْفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمْسِیْنَ عَامًاؕ-فَاَخَذَهُمُ الطُّوْفَانُ
وَهُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۴)﴾ ترجَمۂ کنز العرفان: اور بیشک ہم نے نوح کو اس
کی قوم کی طرف بھیجا تو وہ ان میں پچاس سال کم ایک ہزار سال رہے پھر اس قوم کو
طوفان نے پکڑ لیا اور وہ ظالم تھے۔ (پ20، العنکبوت:
14)آپ علیہ السّلام کا یہ وصف قراٰنِ پاک کی اس آیت سے روز ِ روشن کی طرح
عیاں ہے۔
(2)شکر گزار بندہ:اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد
فرماتا ہے: ﴿ذُرِّیَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوْحٍؕ-اِنَّهٗ كَانَ
عَبْدًا شَكُوْرًا(۳)﴾ترجَمۂ کنز الایمان: اے ان کی اولاد
جن کو ہم نے نوح کے ساتھ سوار کیا ہے بے شک وہ بڑا شکر گزار
بندہ تھا۔ (پ15،بنیٓ اسرآءِیل: 3)
(3)نبوت و کتاب:اللہ پاک نے نبوت وکتاب
آپ کی اولاد میں رکھی یعنی آپ علیہ
السّلام کے بعد دنیا میں جتنے نبی مبعوث ہوئے وہ سب آپ کی اولاد میں سے تھے اور
تمام آسمانی کتابیں بھی آپ علیہ السّلام کی اولاد میں مشہور ہستیوں کو عطا ہوئیں۔
قراٰنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا
وَّاِبْرٰهِیْمَ وَجَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور بے شک ہم
نے ابراہیم اورنوح کو بھیجا اور اُن کی اولاد میں نبوّت اور کتاب رکھی۔ (پ27،الحدید: 26)
(4)ذکرِ جمیل:آپ علیہ السّلام کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ آپ کے بعد
والوں (انبیا و رُسل و اُمم) میں آپ علیہ السّلام کا ذکرِ جمیل باقی رکھا۔ اللہ
پاک فرماتا ہے: ﴿وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ٘ۖ(۷۸)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : اور ہم نے پچھلوں میں اس
کی تعریف باقی رکھی۔ (پ23،الصّٰفّٰت:78)
(5)کامل الایمان بندے:قراٰنِ کریم میں ہے: ﴿اِنَّهٗ مِنْ
عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۱)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : بے شک وہ
ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔(پ23،الصّٰفّٰت:81)
محترم قارئین! ہمیں بھی چاہئے کہ
انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کی
مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہماری روح سے انبیائے کرام کی محبت جھلکتی نظر
آئے۔