اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے ، پرورد گار عالم نے جو قوانین و اصول اپنے بندوں کے لئے وضع فرمائے ہیں ان کو لفظِ امانت سے یاد کیا ہے اور متعدد مقامات پر خیانت سے بہت سختی کے ساتھ ممانعت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغا نہ کرو اور نہ اپنی امانتوں میں دانستہ خیانت ۔(پ9، الانفال : 27)خیانت کا پہلا سبب بدنیتی ہے۔ جس طرح اچھی نیت اخلاق و کردار کے لئے شفا اور اکسیر کا درجہ رکھتی ہے اسی طرح بد نیتی کا زہر بندے کے اعمال کو بے ثمر بلکہ تباہ برباد کر دیتا ہے ، چنانچہ ایک شخص نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا: یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قیامت کب آئے گی ؟ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جب امانت میں خیانت ہو تو قیامت کا انتظار کرنا۔ اس شخص نے پوچھا امانت میں خیانت کیا ہے ؟ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: امانت میں خیانت یہ ہے کہ معاملات نا اہل لوگوں کے سپرد کر دیئے جائیں۔ (بخاری،کتاب العلم،حدیث:59)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اس کے لئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے ۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے ، بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا ۔( مسند احمد،مسند عبداللہ بن مسعود،2/33،حدیث:3672)

تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد اپنی غذا پاک کر لو مستجاب الدعوات ہو جاؤ گے اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئےآ گ زیادہ بہتر ہے ۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک اس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ برے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہو جاتا ہے پھر اپنی وصیت میں اتفاق سے کام لیتا ہے تو اس کا خاتمہ اچھے عمل پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔

ہم اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا گو ہیں کہ اللہ پاک ہمیں برے کام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین ۔