محمد صابر عطاری(درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان فتح
شاہ ولی ہبلی کرناٹک، ہند)
خوف ِ خدا
اور فکر ِآخرت رکھنے والے مسلمان کے لئے چاہئے کہ وہ خیانت نہ کرے لیکن نہایت
افسوس ہے کہ مسلمانوں میں اکثر مالی معاملات کے حکمِ قراٰنی میں بھی بڑی کوتاہیاں واقع
ہو رہی ہیں ،خیانت کرنا آج مختلف صورتوں میں مسلمانوں کے اندر بھی پایا جارہا ہے
بسبب لا علمی کہ اور ایسا بد ترین گناہ ہے کہ اس کو منافق کی علامت قرار دیا گیا
ہے ۔
اجازت شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت
کہلاتا ہے۔ )عمدةالقاری ، کتاب الایمان ،باب علامات المنافق (
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ وَ
تَخُوْنُوْۤا اَمٰنٰتِكُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۲۷) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو اللہ و رسول سے دغانہ کرو اور نہ اپنی
امانتوں میں دانستہ خیانت۔(پ9، الانفال : 27)
عام طور پر خیانت کا مفہوم مالی امانت کے ساتھ خاص سمجھا
جاتا ہے کہ کسی کے پاس مال امانت رکھوایا پھر اس نے واپس کرنے سے انکار کردیا تو
کہا جاتا ہے کہ اس نے خیانت کی ، یقینا ً یہ بھی خیانت ہی ہے لیکن خیانت کا شرعی
مفہوم بڑا وسیع ہے چنانچہ حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان لکھتے
ہیں: خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔(مراٰۃ
المناجیح،1/212)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: کوئی آدمی ستّر برس تک جنتیوں جیسے عمل
کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں خیانت کر بیٹھتا ہے تو اس کا خاتمہ بُرے عمل پر
ہوتا ہے اور وہ جہنم میں داخل ہوجاتا ہے اور کوئی شخص ستّر برس تک جہنمیوں جیسے
عمل کرتا رہتا ہے پھر اپنی وصیت میں انصاف سے کام لیتا ہے تو اس کاخاتمہ اچھے عمل
پر ہوتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہوجاتا ہے۔ (ابن ماجہ،کتاب الوصایا،باب الحیف فی
الوصیّۃ،3 / 305،حدیث: 2704)
حضرت سمرہ بن جندب
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا:جو خیانت کرنے والے کی پردہ پوشی کرے تو وہ بھی اس ہی کی طرح ہے۔ (ابو
داؤد، کتاب الجہاد، باب النہی عن الستر علی من غلّ، 3 / 93، حدیث: 2716)