وعدہ خلافی ،جھوٹ بولنا ،گالی دینا ،کسی کی بے عزتی کرنا، ناپ تول میں کمی اس طرح کی دیگر کئی ایسی برائیاں جس کی وجہ سے حقوقُ اللہ یا حق العبد پامال ہوتے ہوں قراٰن و حدیث میں ان سب کے متعلق تعلیمات دی گئی ہیں ان سے بچنے کا حکم اور انکی مذمت بیان کی گئی ہے تاکہ مسلمان ان سے بچیں۔ انہی برائیوں میں سے ایک برائی خیانت بھی ہے خیانت امانت کی ضد ہے۔

خیانت کی تعریف : اجازتِ شرعیہ کے بغیر کسی کی امانت میں تصرف کرنا خیانت کہلاتا ہے۔(باطنی بیماریوں کی معلومات، ص175)

عموماً خیانت صرف مال میں سمجھی جاتی ہے حالانکہ خیانت کا مفہوم وسیع ہے۔ خیانت شریعت میں ،دین میں، وعدہ کی خلاف ورزی کرنا اسی طرح اپنے عہدہ و منصب کے اصول و ضوابط کے مطابق کام نہ کرنا بھی خیانت میں آتا ہے ۔

یہ سب قراٰن پاک میں مختلف مقامات پر بیان کیا گیا ہے اسی طرح امانت داری کا اطلاق سیاسی و انتظامی، دینی اور دنیاوی امور میں بھی ہے، ہر چھوٹا بڑا عہدہ امانت ہے ،لہذا ہر شخص کا اپنے عہدہ و منصب کے مطابق امانت داری کا خیال کرنا ضروری ہے ۔

اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : وَ مَنْ یَّغْلُلْ یَاْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جو خیانت کرے تووہ قیامت کے دن اس چیزکو لے کرآئے گا جس میں اس نے خیانت کی ہوگی ۔(پ 4 ، آل عمران :161)

اس آیت میں خیانت کی مذمت بھی بیان فرمائی کہ جو کوئی خیانت کرے گا وہ کل قیامت میں اس خیانت والی چیز کے ساتھ پیش کیا جائے گا اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲) وَ اِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّ زَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: کم تولنے والوں کے لئے خرابی ہے۔ وہ لوگ کہ جب دوسرے لوگوں سے ناپ لیں توپورا وصول کریں۔ اور جب انہیں ناپ یا تول کردیں توکم کردیں ۔ (پ30 ، المطففین ، 1تا3)

شان نزول: جب رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری ہوئی تو اس وقت یہاں کے لوگوں کا حال یہ تھا کہ وہ ناپ تول میں خیانت کرتے تھے اور خاص طور پر ابوجُہَینہ ایک ایسا شخص تھا جس نے چیزیں لینے اور دینے کے لئے دو جدا جدا پیمانے رکھے ہوئے تھے ۔ان لوگوں کے بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں ۔(صراط الجنان، جلد 10)احادیث میں بھی خیانت کی بہت مذمت بیان کی گئی ہے ، چنانچہ

خیانت کرنے والے کا کوئی ایمان نہیں: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ عالی وقار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : لَا إِیْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَۃَ لَہُ وَ لَا دِیْنَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہُ یعنی جو امانتدار نہیں اس کا کوئی ایمان نہیں اور جس میں عہد کی پابندی نہیں اس کا کوئی دین نہیں ۔(مسند امام احمد، مسند انس بن مالک ،حدیث : 13373)

مؤمن خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا: حضرت ابو امامہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ، رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا، إِلَّا الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ“ مومن ہر عادت اپنا سکتا ہے مگر جھوٹا اور خیانت کرنے والا نہیں ہو سکتا ۔ (مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی حدیث : 22170)

خیانت کرنا منافق کی نشانی ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آيةُ المُنافِقِ ثلاثٌ: إذا حدَّثَ كذَبَ، وإذا وعَدَ أخلَفَ، وإذا ائْتُمِنَ خَانَ منافق کی تین نشانیاں ہیں (1) جب بات کرے جھوٹ بولے۔ (2) جب وعدہ کرے خلاف کرے۔ (3) جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خیانت کرے ۔ (نزھۃ القاری شرح صحیح بخاری ،ص 294)

خلاصہ: جس طرح خیانت کرنے کی مذمت بیان ہوئی ہے اسی طرح خیانت سے بچنے والے کے لیے اجرو ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ۔

حضرت ثوبان رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : مَنْ فَارَقَ الرُّوحُ الْجَسَدَ وَهُوَ بَرِيءٌ مِنْ ثَلَاثٍ دَخَلَ الْجَنَّةَ : الْكِبْرِ، وَالدَّيْنِ، وَالْغُلُولِ یعنی جو شخص اس حال میں مَرا کہ وہ تین چیزوں سے بَری تھا: تکبر، خیانت اور دَین (قرض)،تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔(مسند احمد، مسندالانصار، حدیث :22434)

اللہ پاک ہمیں خیانت سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم