دعوت  اسلامی کے شعبہ روحانی علاج للبنات کے زیر اہتمام ملک و بیرون ملک میں روحانی علاج کے بستے لگائے جاتے ہیں جن سے پریشان حال دکھیارے مسلمان اپنی پریشانیوں کے حل کے لئے تعویذات عطاریہ حاصل کرتے ہیں۔

اس سلسلے میں اگست2022ء کی اجمالی کارکردگی ملاحظہ ہو:

پاکستان میں لگنے وا لے بستوں کی تعداد:171

بیرون ملک لگنے والے بستوں کی تعداد:8

دیئے گئے ماہانہ تعویذات عطاریہ کی تعداد:64 ہزار 754

پاکستان میں ہونے والے روحانی علاج کورسز کی تعداد:2

ماہانہ دعائے شفاء اجتماعات کی تعداد:47

دعوتِ اسلامی کےتحت  10ستمبر 2022ء بروز ہفتہ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں آن لائن مدنی مشورے کا انعقاد ہوا جس میں پاک سطح ادارتی و غیر ادارتی شعبہ ذمہ داراسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

نگران پاکستان اسلامی بہن نے” شکریہ امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ‘‘ کے موضوع پر بیان کیا۔ بعدازاں اسلامی بہنوں کی متفرق انفرادی اور سافٹ ویئر کارکردگیوں کا جائزہ لیا اور سابقہ کارکردگی سے تقابل کیا نیز رسالہ کارکردگی میں اضافے کا ذہن بھی دیا۔

علاوہ ازیں پاک سطح شعبہ ذمہ دار ، صوبہ نگران اور صوبہ سطح شعبہ ذمہ داران کے 6سے 8 ماہ کے سفر شیڈول کا جائزہ لیا نیز اسلامی بہنوں کی طرف سے کئے گئے سوالات کےجوابات دیئے۔ بروقت مدنی مشورے لینے کی ترغیب دلائی اور ماہانہ سیکھنے سیکھانے کے دینی حلقے کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئے تقرری مکمل کرنے پر نکات بتائے۔ 


دعوتِ اسلامی کےتحت    9ستمبر 2022ء بروز جمعہ پاکستان کے شہر راولپنڈی میں صوبہ بلوچستان کی ڈویژنز قلات ، سبی اور مکران میں الگ الگ آن لائن مدنی مشورے ہوئے جن میں صوبہ، ڈویژن، ڈسٹرکٹ نگران اسلامی بہنوں سمیت معلمات و مبلغات نے شرکت کی ۔

نگران پاکستان مشاورت اسلامی بہن نے ماہانہ مدنی مشورے کے مدنی پھول بیان کئے ۔ ساتھ ساتھ آٹھ دینی کام کارکردگی کا تقابل کرتے ہوئے اضافے پر حوصلہ افزائی کی جبکہ اسلامی بہنوں کو تقرریاں مکمل کرنے اور دینی کام کرنے کے اہداف بھی دیئے ۔


دعوتِ اسلامی کی جانب سے 14 ستمبر 2022ء  کو نیو کراچی مبارک مسجد میں کفن دفن اجتماع کا انعقاد ہوا جس میں نیوکراچی مبارک مسجد کے امامت کورس کے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

رکن مجلس کفن دفن عزیر عطاری نے غسل میت کی فضیلت اور نمازِ جنازہ کی اہمیت بتاتے ہوئے غسل میت دینے اور کفن پہنانے کا طریقہ بتایا ۔ آخر میں حاضرین کو فکر آخرت کا ذہن دیتے ہوئے 12 دینی کاموں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائی جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہا کیا۔(رپورٹ: رکن مجلس کفن دفن عزیر عطاری ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


گزشتہ  روز 14 ستمبر 2022ء کو دعوت اسلامی کے تحت کوئٹہ فیضان اسلامک اسکول سسٹم کیمپس میں سبی شہر کے نگران غلام حیدر عطاری نے وزٹ کیا۔

اس موقع پر سبی شہر کے نگران غلام حیدر عطاری نے انتظامی معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے مزید بہتری کے حوالے سے مدنی پھولوں سے نوازا نیز بلوچستان بھر میں دارالمدینہ اور فیضان اسلامک اسکول سسٹم کے کیمپسز کھولنے پر مشاورت کی۔ اس کے ساتھ ساتھ دیگر ذمہ داران کے اسکول میں وزٹ رکھنے کے متعلق جدول پر تبادلہ خیال ہوا۔ (رپورٹ: ایڈمنسٹریٹرفیضان اسکول کوئٹہ سجاد احمد مدنی ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوت اسلامی کے تحت گزشتہ روز  مدینہ کالونی اوکاڑہ میں امیر اہل سنت دامت برکاتہم عالیہ کی والدہ محترمہ کے عرس کے سلسلے میں ایصال ثواب اجتماع ہوا جس میں مقامی عاشقان رسول نے شرکت کی۔

اجتماع کا آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول ﷺ سے ہوا۔صوبائی ذمہ دار (شعبہ محبتیں بڑھاؤ) سید حسین عطاری نے سنتوں بھرا بیان کیا اور نیکی کی دعوت پیش کرتے ہوئے شرکائے اجتماع کو ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے نیز ہفتہ وار مدنی مذاکرہ سننے کی دعوت دی جس پر انہوں نے اچھے جذبات کا اظہار کیا۔ بعد میں پرانے اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ بھی ہوا انھوں نے 12 دینی کاموں میں حصہ لینے کی نیتیں بھی پیش کیں ۔(رپورٹ: لیاقت علی عطاری ڈویژن ذمہ دار ساہیوال شعبہ محبت بڑھائیں، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ  کے زیر اہتمام شاہ جمال لاہور میں اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت سیکھنے سیکھانےکا حلقہ ہوا جس میں لاہور ڈویژن ذمہ دار اور احمد اویس عطاری اسپیشل ایجوکیشن ذمہ دار کی خصوصی شرکت ہوئی۔

لاہور ڈویژن ذمہ دار محمد علی عطاری نے اسپیشل پرسنز کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے انہیں مدنی قافلے میں سفر کرنے کا ذہن دیا اورداتا صاحب کے عرس کے موقع پر اسپیشل پرسنز کے لئے اجتماع منعقد کرنے کے حوالے سے تبادلۂ خیال کیا نیز اس کی بھر پور تیاری کی ترغیب دلائی۔(رپورٹ: محمد سمیر ہاشمی عطاری ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں لاہور عزیز بھٹی ٹاؤن میں جاری  اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے تحت جزء وقتی سائن لینگوئج کورس میں تربیتی سیشن کا انعقاد ہوا جس میں شرکائے کورس نے شرکت کی۔

ڈویژن ذمہ دار محمد علی عطاری نے شرکائےکورس کی تنظیمی کے اعتبار سے تربیت کرتے ہوئے انہیں اسپیشل پرسنز میں دینی کام کرنے کے حوالے سے ذہن دیا اور اس سے متعلق مدنی پھول بتائے ۔ بعدازاں دعا اور ملاقات کا سلسلہ ہوا۔ (رپورٹ: محمد سمیر ہاشمی عطاری ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


مقالے کی PDF کے لئے ڈاؤن لوڈ پر کلک کریں Download PDF

امام المحدثین کی سندسنن ابوداؤد

حافظ الحدیث حضرت سیّدنا امام ابو داؤد سلیمان بن اَشْعَث ازدی سجستانی بصری (ولادت 202ھ، وفات16شوال 275ھ)رحمۃ اللہ علیہ نے 241ھ سے قبل کتاب السنن (المعروف سنن ابو داؤد) کے نام سے احادیثِ احکام کا پہلامجموعہ تیار کیا،جو فقہامیں بالخصوص اورعوام میں بالعموم مقبول ہے،آپ نے پانچ لاکھ احادیث کے اپنے ذخیرہ سے پانچ ہزار دوسو چوہتر (5274) احادیث کا انتخاب کرکے اسے تیارکیاہے۔ ([1])مراسیل کے علاوہ اس کے سترہ (17) اجزاء ہیں،امام ابوسلیمان خطابی([2]) رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ احکام دین پر مشتمل ایسی کتاب پہلے تصنیف نہیں کی گئی، لوگوں میں اسے قبولیت عامہ سے نوازاگیا ہے، اہل عراق و مصر، بلادمغرب اوردنیابھرکے لوگ اس پر اعتماد کرتے ہیں۔ ([3])سنن ابوداؤد صحاح ستہ میں سے ایک اور دورۂ حدیث شریف کا اہم جزہے۔

امام المحدثین حضرت علامہ مفتی سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ(ولادت1273ھ مطابق 1856ھ،وفات 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20اکتوبر 1935ء) نے 1295ھ مطابق 1878ء میں افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری رحمۃ اللہ علیہ سے دورۂ حدیث کرکے اسانیداحادیث بشمول سنن ابوداؤدکی اجازت حاصل کی۔([4]) انھوں نے علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی سے اورانھوں نےسراج الہند علامہ شاہ عبدالعزیزمحدث دہلوی سے،اسی طرح امام المحدثین مفتی سیدمحمددیدارعلی شاہ صاحب نے ذوالحجہ 1337ھ کو اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ سے جملہ اجازات و اسانید حاصل کیں([5])اوراعلیٰ حضرت نے اپنے مرشد حضرت شاہ آل رسول مارہروی سے اور انھوں نے سراج الہندعلامہ شاہ عبدالعزیز سے اورسراج الہند تحریر فرماتے ہیں :

(میرے والدگرامی علامہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے ) حضرت شیخ ابو طاہر (سے،انھوں ) نے اسے (یعنی اجازت ِسندسنن ابوداؤد کو) شیخ حسن عجیمی)[6]( سے حاصل کیا اور انہوں نے شیخ عیسیٰ مغربی سےاور انہوں نے شیخ شہاب الدین احمد بن محمد خفاجی سے اور انہوں نے بدرالدین حسن کرخی سے ، جو اپنے وقت کے مستند تھے اور انہوں نے حافظ ابوالفضل جلال الدین سیوطی سے اور انہوں نے شیخ محمد بن مقبل حلبی سے اور انہوں نے شیخ صلاح بن ابی عمر المقدسی سے اور انہوں نے ابوالحسن فخرالدین علی بن محمد بن احمد ابن البخاری سے اور انہوں نے مسند الوقت ابو حفص عمر بن محمد بن طبرز د بغدادی سے اور انہوں نے دو شیخوں بزرگوار ابراہیم بن محمد بن منصور الکرخی اور ابوالفتح مفلح([7])بن احمد بن محمد الدومی سے (جو منسوب تھے طرف دومۃ الجندل سے اور وہ شام و عراق کے درمیان ایک موضع بطور حد فاصل کے واقع ہے) اور ان ہر دو شیوخ نے حافظ ابو بکر احمد بن علی بن ثابت خطیب بغدادی مؤلف تاریخ بغداد([8])سے، جن کی علم حدیث میں بے شمار تصانیف ہیں، انہوں نے ابو عمر قاسم بن جعفر بن عبد الواحد ہاشمی سے اور انہوں نے ابو علی محمد بن احمد لولوی سے اور انہوں نے صاحبِ کتاب علامہ ابوداؤد سلیمان بن اشعث سجستانی سے(اجازت ِسندسنن ابوداؤدحاصل کی ([9])

سند ِسنن ابوداؤد کےرواۃ و شیوخ کا مختصرتعارف

امام المحدثین مفتی سیدمحمد دیدارعلی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کی سند ِسنن ابوداؤد بطریق ِعلامہ احمدعلی سہارنپوری اوربطریق امام احمدرضا 25واسطوں سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتی ہے، ذیل میں ان تمام محدثین کا مختصرتعارف بیان کیا جاتاہے،بعض سطحوں میں ایک سے زیادہ بھی شیوخ ہیں ان کا بھی تعارف بھی بیان کردیا گیا ہےمگرانہیں نمبرشمارنہیں دیاگیا بلکہ اسٹارلگادیا گیا ہے :

۞امامُ الْمُحدِّثین حضرت مولانا سیِّد محمد دِیدار علی شاہ مَشْہدی نقشبندی قادِری مُحدِّث اَلْوَری رحمۃ اللہ علیہ، جَیِّد عالِم، اُستاذُالعُلَما، مفتیِ اسلام اور اکابرین اہل سنّت سے تھے۔آپ 1273ھ مطابق 1856ھ کو اَلْوَر (راجِسْتھان، ہِند )میں پیدا ہوئے اور لاہورمیں 22رجب المرجب 1354ھ مطابق 20،اکتوبر1935ء کو (بروزپیر)نمازعصرکے سجدے میں وصال فرمایا، جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ لاہورسے متصل جگہ میں تدفین کی گئی۔ دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہور([10]) اور فتاویٰ دِیداریہ([11]) آپ کی یادگار ہیں۔( [12])

(1)افضل المحدثین علامہ احمدعلی سہارنپوری کی ولادت1225ھ مطابق 1810کو ہوئی اور 6 جمادَی الاُولیٰ 1297ھ مطابق 16اپریل 1880ء کوتقریباً بہتر(72) سال کی عمر میں داعیِ اجل کو لبیک کہا۔ آپ اپنے آبائی قبرستان متصل عید گاہ سہارنپور میں سپردِ خاک کئے گئے۔آپ حافظِ قرآن، عالمِ اجل، استاذُالاساتذہ، مُحدّثِ کبیر اور کثیرالفیض شخصیت کےمالک تھے، اشاعتِ احادیث میں آپ کی کوشش آبِ زرسےلکھنےکےقابل ہے، آپ نےصحاح ستہ اوردیگرکتب احادیث کی تدریس، اشاعت، حواشی اوردرستیٔ متن میں جو کوششیں کیں وہ مثالی ہیں ۔([13])

(2)علامہ شاہ محمد اسحاق دہلوی مہاجر مکی کی پیدائش ذوالحجہ 1197ھ مطابق 1782ھ کو دہلی میں ہوئی ،یہ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کےنواسے ،شاگرد اورجانشین تھے، پہلے دہلی پھرمکہ شریف میں تدریس کرتے رہے، وفات رجب 1262ھ کو مکہ شریف میں ہوئی اورجنت المعلیٰ میں دفن کئے گئے ۔ ([14])

(3)اعلیٰ حضرت، مجددِدین وملّت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 10شوال 1272ھ مطابق6جون 1856ءکو بریلی شریف(یو۔پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340ھ مطابق28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجعِ خاص و عام ہے۔آپ حافظِ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر، فقیہ اسلام، مُحدّثِ وقت،مصلحِ امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریباً ایک ہزار کتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاوالمحدثین، شیخ الاسلام والمسلمین، مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن([15])،فتاویٰ رضویہ([16])، جدّ الممتارعلی ردالمحتار( [17]) اور حدائقِ بخشش([18]) آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔([19])

(4)خاتِمُ الاکابِر ،قدوۃ العافین حضرت علامہ شاہ آلِ رسول مار ہَروی رحمۃ اللہ علیہ عالمِ باعمل،صاحبِ وَرَع وتقوی اورسلسلہ قادریہ برکاتیہ رضویہ کے شیخِ طریقت ہیں۔ آپ کی ولادت 1209ھ کو خانقاہ برکاتیہ مار ہرہ شریف (ضلع ایٹہ،یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 18ذوالحجہ1296ھ کو وصال فرمایا،تدفین دلان شرقی گنبددرگاہ حضرت شاہ برکت اللہ([20])رحمۃ اللہ علیہ میں بالین مزارحضرت سیدشاہ حمزہ([21]) میں ہوئی ۔ آپ ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد حضرت سید شاہ آل احمد اچھے میاں مارہروی ([22])رحمۃ اللہ علیہ کے ارشاد پر سراج الہند حضرت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمۃاﷲ علیہ کے درسِ حدیث میں شریک ہوئے۔ صحاحِ ستہ کا دورہ کرنے کے بعد حضرت محدث دہلوی قدس سرہ سے علویہ منامیہ کی اجازت اور احادیث و مصافحات کی اجازتیں پائیں،فقہ میں آپ نے دوکتب مختصرتاریخ اور خطبہ جمعہ تحریرفرمائیں ۔([23])

(5) سِراجُ الہند حضرت شاہ عبد العزیز محدّثِ دہلوی رحمۃ اللہ علیہ علوم و فُنون کے جامع، استاذُ العلماء و المحدثین، مُفَسِّرِ قراٰن، مصنّف اور مفتیِ اسلام تھے، تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ( [24])آپ کی مشہور کُتُب ہیں۔ 1159ہجری میں پیدا ہوئے اور 7 شوال 1239ہجری میں وِصال فرمایا، مزار مبارک درگاہ حضرت شاہ وَلِیُّ اللہ مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہند میں ہے۔([25])

(6)محدث ہندحضرت شاہ ولی اللہ احمدمحدث دہلوی فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 4شوال 1110ھ کو ہوئی اوریہیں29محرم 1176ھ مطابق 1762ء وصال فرمایا،تدفین مہندیاں، میردرد روڈ، نئی دہلی ہندمیں ہوئی،جو درگاہ شاہ ولی اللہ کے نام سے مشہور ہے، آپ نے اپنے والدگرامی حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی([26]) رحمۃ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کی، حفظ قرآن کی بھی سعادت پائی، اپنے والد سے بیعت ہوئے اور خلافت بھی ملی،والد کی رحلت کے بعد ان کی جگہ درس وتدریس اور وعظ و ارشاد میں مشغول ہو گئے۔ 1143ھ میں حج بیت اللہ سے سرفراز ہوئے اور وہاں کے مشائخ سے اسناد حدیث و اجازات حاصل کیں۔ 1145ھ کو دہلی واپس آئے،آپ بہترین مصنف تھے، مشہورکتب میں فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن فارسی، الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،مؤطاامام ملک کی دو شروحات المصفیٰ فارسی،المسوّی عربی، حجۃ اللہ البالغہ فارسی، ازالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء فارسی، الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ فارسی، انسان العين فی مشايخ الحرمين اورالارشادالی مہمات الاسناد عربی)[27] (مشہورکتب ہیں۔([28])

(7) حضرت شیخ جمال الدین ابوطاہرمحمدبن ابراہیم کورانی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت مدینہ شریف میں 1081ھ مطابق 1670ء کو ہوئی اوریہیں 1145ھ مطابق 1733ء کو وصال فرمایا اورجنت البقیع میں دفن کئے گئے،آپ جیدعالم دین،محدث ومسند،مفتی ٔ شافعیہ مدینہ منورہ،علامہ شیخ ابراہیم کردی آپ کے والدصاحب اورشیخ احمدقشاشی([29])نانامحترم تھے۔ والدصاحب کے علاوہ،مفتی شافعیہ مدینہ منورہ شیخ سیدمحمدبن عبدالرسول برزنجی([30])، شیخ عبداللہ بن سالم([31] )اور شیخ حسن بن علی عُجَیْمی سے اجازات حاصل کیں کئی کتب بھی لکھیں،جو،اَب تک مطبوع نہیں ہوسکیں، مکتبہ حرم مکی میں آپ کی ثبت کا مخطوط پانچ اوراق میں محفوظ ہے ۔([32])

(8)عالمِ کبیر، مسند العصرحضرت سیّدُنا شیخ ابو الاسرار حسن بن علی عُجَیْمی حنفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاول 1049ھ مکۂ مکرمہ میں ہوئی۔ 3شوَّالُ المکرَّم 1113ھ کو وصال طائف (عرب شریف) میں فرمایا، تدفین احاطۂ مزار حضرت سیّدُنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما میں ہوئی۔ آپ عالم اسلام کے سوسے زائدعلماوصوفیا کے شاگرد، حافظ قراٰن، محدثِ شہیر،فقیہ حنفی،صوفیِ کامل،مسندِ حجاز،استاذالاساتذہ، اور 60 سے زائد کتب کے مصنف تھے،آپ نے طویل عرصہ مسجدحرم،مسجدنبوی اورمسجدعبداللہ بن عباس (طائف) میں تدریس کی خدمات سرانجام دیں۔([33])

(9) مسندالعصرحضرت شیخ ابومہدی عیسی بن محمد جعفری ہاشمی ثعلبی مالکی کی ولادت 1020ھ کو زواوۃ (الجزائر، افریقہ)میں ہوئی اور وصال مکہ شریف میں24 رجب 1080ھ میں ہوا،آپ محدث،مسند،مرشد،فقیہ مالکی،مدرس حرم مکی،امام الحرمین،عالم مغریبین ومشرقین،زہدوتقویٰ کے مالک اورصاحب تصنیف تھے،كنز الروایۃ المجموع فی درر المجاز و يواقیت المسموع([34]) آپ کی یادگارتصنیف ہے۔ ([35])

(10)قاضی علّامہ شہابُ الدّین احمد بن محمد خَفَاجی مصری حنفی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 977ھ سَرْیَاقَوْس (نزد قاہرہ) مصرمیں ہوئی۔12 رَمَضان المبارک1069 ھ کو مصر میں وصال فرمایا۔آپ حنفی عالمِ دین،صاحبِ دیوان شاعر،بہترین ادیب،قاضی القُضاۃ اور درجن سے زائدکتب کے مصنّف ہیں۔آپ کی کتاب نسیمُ الرّیاض فی شرح الشفاء للقاضی عیاض([36]) کو شہرت حاصل ہوئی۔ ([37])

(11)شیخ بدرالدین حسن کرخی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے امام جلالُ الدین ابوالفضل عبدالرحمن سیوطی شافعی سے علم حاصل کیا ،زندگی بھرحدیث پاک کی درس وتدریس میں مصروف رہے حتی کہ مصرکے مسندالمعمر،محدث وقت اورعلامہ دہرقرارپائے ، غالباًآپ کی پیدائش نویں ہجری کے آخرمیں اور وفات دسویں صدی کے آخرمیں ہوئی ، مزید معلومات نہ مل سکیں ۔

(12) مُصَنِّف ِ کُتُبِ کثیرہ، امام جلالُ الدین ابوالفضل عبدالرحمن سیوطی شافعی رَحْمَۃاللہ عَلَیْہ عالم اکبر،مُحدّثِ کبیر، مجددالعصر،عاشقِ رسول اورصوفی باصفا تھے۔ 600سے زائد کتب تصنیف فرمائیں ۔ جن میں تفسیر دُرِّمنثور([38])، اَلْبُدورُ السّافرة اور شرح الصدور([39]) وغیرہ مشہور ہیں۔ مصر کے شہر قاہرہ کے محلہ سیّوط میں 849ھ میں پیدا ہوئے اور یہیں 19جمادی الاولیٰ911ھ میں وصال فرمایا، آپ کا مزار مَرجعِ خلائق ہے۔([40])

(13)شمس الملّت والدین حضرت شیخ ابوعبداللہ محمدبن الحاج مقبل حلبی کی ولادت حلب دمشق میں 779ھ میں ہوئی،آپ نے یہیں پرورش پائی،یہاں کے علماسے خوب استفادہ کیا،خصوصا علامہ صلاح الدین محمد مقدسی صالحیرحمۃ اللہ علیہ سے درس حدیث لیا ،ان کی علم دین سے لگن اورمحنت نے انہیں طلبہ علم دین کا مرجع بنادیا ہے،طویل عرصہ تک آپ تدریس حدیث میں مصروف رہے، رجب 870ھ کو حلب شام میں آپ نے وصال فرمایا ۔ ([41])

(14) حضرت شیخ ابوعبداللہ صلاح الدین محمد بن احمد بن ابراہیم مقدسی صالحی کی ولادت 684ھ اوروفات24شوال 780ھ میں ہوئی، اکابرین اہل سنت سے علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کی اوراسنادوجازات حاصل کیں،حصول علم کے بعد آپ اپنے دادا حضرت ابوعمرکے مدرسے کی مسندپر بیٹھے اورایک زمانہ درس وتدریس میں مشغول ہوگئے یہاں تک مسندالعصرکے لقب سے ملقب ہوئے،آپ وہ ہستی ہیں جنہوں نے امام ابن بخاری فخرالدین علی بن احمد مقدسی رحمۃ اللہ علیہ سے احادیث کی اجازت خاصہ حاصل کی، یوں آپ کی یہ سندسماع متصل بشرط صحیح نوواسطوں سے نبی کریم سے مل جاتی ہے،کئی خوش نصیبوں بالخصوص اہل مصرنے آپ کی خدمت میں حاضرہوکریہ سند حاصل کی ۔([42])

(15) محدث اسلام، ابن بخاری حضرت امام فخرالدین ابوالحسن علی بن احمدمقدسی صالحی حنبلی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 595ھ کو ایک علمی گھرانے میں ہوئی، اورآپ نے ربیع الآخر690ھ میں وصال فرمایا، عالم وفقیہ، فاضل وادیب ،صاحب وقاروہیبت،تقوی وورع کے پیکر اورعلم وعقل میں کامل تھے،محدثین میں آپ بہت مکرم ومحترم تھے،آپ کو مسند العالم کہاجاتاہے،عرصہ دارازتک خدمت قرآن وسنت میں مصروف رہے، شام، مصر اور عراق کے محدثین نے آپ سے استفادہ کیا۔ )[43](

(16) مُسنِدُ الوقت حضرت شیخ ابن طبَرْزَدابوحفص عمربن محمد دارقزی بغدادی ذوالحجہ 516ھ میں پیداہوئے اور87سال کی عمرمیں 9رجب 607ھ میں وصال فرمایا ،آپ نے اپنے بڑے بھائی اوردیگراساتذہ سے علم دین حاصل کیا اورزندگی بھرحدیث پاک کی ترویج واشاعت میں مصروف رہے،عراق وشام کے محدث وشیخ الحدیث قرارپائے،آپ خوش اخلاق وظریف الطبع تھے،آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادکثیرہے ۔([44])

(17) حضرت شیخ ابوبدرابرہیم بن محمد کرخی مسندالحدیث،عالم وفقیہ ،نیک اورثقہ راوی حدیث تھے ،آپ نےدیگراساتذہ کے علاوہ مشہورفقیہ ابواسحاق شیرازی([45])سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اورحضرت امام ابوبکرخطیب بغدادی سے حدیث کی سماعت کی، آپ کی ولادت تقریبا 450ھ اوروفات 29ربیع الاول 539ھ کو بغدادمیں ہوئی ۔([46])

(18) حضرت شیخ جلیل ابوالفتح مفلِح بن احمد دُومی بغدادی کی ولادت 457ھ کو اور وصال12محرم 537ھ میں ہوا،آپ کاتعلق دومۃ الجندل (منطقۃ الجوف،عرب) سے تھا، آپ محدث کبیر،صدوق اورحسن الحدیث تھے،کرخ کے فقہاسے آپ کی مشاورت ہوتی تھی ۔ آپ سے استفادہ کرنے والوں کی تعدادکثیرہے۔([47])

(19) خطیبِ بغدادی حضرت شیخ ابوبکر احمد بن علی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 392ھ موضع غزیہ حجاز کے ایک علمی گھرانے میں ہوئی اور 7ذوالحجہ463ھ کو وصال فرمایا، تدفین بغداد کے قبرستان بابِ حرب(مقبرہ قریش) میں حضرت بشر حافی( [48])رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں ہوئی۔ آپ محدثِ وقت، مؤرخِ اسلام، مفتیِ زمانہ، مدرس جامعُ المنصور، اچّھے قاری، فصیح الالفاظ اور ماہرِ ادب تھے، بعض اوقات شعر بھی کہا کرتے تھے۔ آپ کی تصانیف میں تاریخِ بغداد آپ کی شہرت کا سبب ہے۔([49])

(20) حضرت شیخ ابو عمر قاسم بن جعفرہاشمی عباسی بصری کی ولادت رجب 322ھ اور وصال 19ذیقعدہ 414ھ میں ہوا،آپ امام، فقیہ، امین وثقہ راوی حدیث،مسندالعراق اور بصرہ کے قاضی تھے۔([50])

(21) حضرت امام ابوعلی محمدبن احمدلؤلؤی بصری نے ابتدائی تعلیم مختلف علماء سے حاصل کرنے کے بعد امام ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی کی صحبت اختیار کی اوربیس سال آپ کی خدمت میں رہے حتّٰی کہ آپ کو وَرَّاق ابوداؤد کہاجانے لگا،ہندوحجاز،مشرق و مغرب بلکہ اکثرممالک میں آپ کی راویت کردہ سنن ابواؤد معروف ہے۔آپ سے محدثین کی ایک جماعت نے سندحدیث حاصل کی۔آپ کا وصال 333ھ میں ہوا ۔([51])

(22) حافظ الحدیث حضرت سیّدنا امام ابو داؤد سلیمان بن اَشْعَث ازدی سجستانی بصری، محدّث، فقیہ،صوفی،متقی و زاہِد اور استاذُ المحدّثین تھے۔ 202 ہجری کو سجستان (صوبہ سیستان) ایران میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم کے بعد علم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے، اس کے لیے خراسان،عراق،شام،مصراورحجازمقدس کے سفرفرمائے اور 300سے زائدمحدثین سے اکتساب فیض کیا، بصرہ کے امیر نے آپ کے لیےبصرہ میں ایک عظیم الشان مدرسہ قائم کیا،جس میں دیگرطلبہ کے ہمراہ اس کےبچے بھی پڑھتے تھے، 16شوال 275ہجری کو بصرہ (عراق) میں وِصال فرمایا، آپ کو امیرُ المؤمنین فی الحدیث حضرتِ سیّدنا سفیان ثَوْری([52])رحمۃُ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ صِحاح ستّہ میں شامل سُننِ ابی داؤد آپ کی 22کتب میں سے ایک ہے جوآپ کی عالمگیر شہرت کا سبب ہے۔ ([53])

۞ سنن ابوداؤد شریف میں ہرحدیث پاک سند کے ساتھ ہے، پہلی سند کے روایوں کا مختصر تعارف ملاحظہ کیجئے:

(23)شیخ الاسلام حضرت ابوعبدالرحمن عبداللہ بن مسلمہ بن قعنب حارثی مدنی بصری کی ولادت 130ھ میں اوروصال6 محرم 221ھ کو مکہ شریف کے اطراف میں ہوا،آپ ایک عرصے تک مدینہ شریف میں امام مالک کی صحبت میں رہے،آپ شیخ الاسلام،حافظ الحدیث، عالم وفاضل، عابدوزاہد،مستجاب الدعوات اورراویت حدیث کے اعتبارسے حجت و ثقہ تھے، امام محمد بن اسماعیل بخاری([54])،امام مسلم بن حجاج نیشاپوری([55]) اورامام ابوداؤدسلیمان بن اشعث سجستانی وغیرہ اکابرین آپ کے شاگردتھے ۔ آپ طویل عرصہ بصرہ پھرمکہ شریف میں ترویج حدیث میں مصروف رہے ۔([56])

(24)محدث کبیرحضرت ابومحمدعبدالعزیزبن محمد دراوردی مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے خاندان کا تعلق خراسان کے علاقے دراوردسے ہے پھریہ خاندان مدینہ شریف حاضرہو اوروہیں سکونت اختیارکرلی ، حضرت عبدالعزیزکی پیدائش مدینہ منورہ میں ہوئی، انھوں نے مدینہ شریف میں علم دین حاصل کیا اوراحادیث مبارکہ سماعت کیں ، انہیں حضرت امام جعفر صادق([57]) کی صحبت بھی نصیب ہوئی،آپ سے خلق کثیرنے احادیث مبارکہ سماعت کیں جن میں حضرت سفیان ثوریجیسے اکابرین اسلام بھی ہیں،آپ کا وصال 187ھ کو مدینہ منورہ میں ہوا۔آپ محدث وقت،فقیہ زمانہ،ثقہ وحجت روای حدیث اور کثیرالحدیث تھے۔([58])

(25)حضرت امام ابوالحسن محمد بن عمرو بن علقمہ لیثی رحمۃ اللہ علیہ مشہورروای حدیث ہیں،آپ مدینہ شریف کے رہنے والے تھے بصرہ میں بھی مقیم رہے،آپ محدث مدینہ و عراق اورکثیرالحدیث تھے،آپ روایت کے اعتبارسے صدوق حسن الحدیث کے درجے پر فائزتھے،آپ نے مدینہ شریف میں 144یا 145ھ میں وصال فرمایا،حضرت سفیان بن عیینہ([59]) جیسے محدثین آپ کے شاگردتھے ۔([60])

(26)فقیہ مدینہ حضرت ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن زہری قرشی رحمۃ اللہ علیہ عشرہ مبشرہ جلیل القدرصحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف([61]) رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے، حسن ظاہری وباطنی سے مالامال،مشہورفقیہ مدینہ،مجتہد،تابعی بزرگ،عالی مرتبت اورامام الوقت تھے۔عظیم المرتبت صحابہ کرام کی صحبت اورسماعت حدیث نے آپ کو امام حدیث بنادیا،فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن عباس([62]) کی طویل صحبت کی وجہ سے آپ عظیم فقیہ بن گئےاورفقہائے سبعہ میں شمارہونے لگے،آپ بڑے ائمہ تابعین میں کثیرالعلم،جیدعالم دین،ثقہ راوی حدیث اورکثیرالحدیث تھے،آپ کچھ عرصہ مدینہ شریف کے قاضی بھی رہے۔آپ کی ولادت تقریبا 20ھ اور73سال کی عمرمیں وصال 104ھ کو مدینہ منورہ میں ہوا۔([63])

(27)حضرت مغیرہ بن شعبہ ثقفی رضی اللہ عنہ کی ولات طائف کے قبیلہ ثقیف میں ہوئی، آپ بڑے سر،طویل قد،بھورے بال اور مضبوط جسم کے مالک تھے،آپ کا شمار عرب کے ذہین ترین افرادمیں ہوتاہے، 5ھ غزوہ خندق میں مدینہ شریف میں حاضر ہوکر مسلمان ہوئے،یہیں سکونت اخیتارکی اور علم حدیث کے حصول میں مصروف رہے، دربار نبوی سے آپ کو ابوعیسی اوربعدمیں دربارفاروقی سے ابوعبداللہ کنیت عطاہوئی،آپ بیعت رضوان میں شامل تھے، بعدفتح مکہ طائف کے بت لات کوگرانے کی مہم میں شریک ہوئے، نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تدفین میں شریک تھے،خلافت صدیقی وفاروقی کی کئی مہمات میں اہم خدمات سرانجام دیں،کئی مرتبہ اسلامی لشکرکی جانب سے سفیربن کر ایرانیوں کے درباروں میں جاکربے باکی سے گفتگوکی، یہ یک بعددیگرے بحرین،بصرہ اور کوفہ کے گورنربنائے گئے،بنیادی طورپر آپ مجاہدوسپاہی، سپہ سالارومدبراوربہترین منتظم تھے مگرآپ کا علمی مقام بھی بہت بلندہے ،آپ سے 133احادیث مبارکہ مروی ہیں، آپ کا وصال سترسال کی عمرمیں شعبان 50ھ میں ہوا ۔([64])

۞ ہمارے پیارے آقاحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت 12ربیع الاول مطابق 20اپریل 571ء کو وادی بطحا مکہ شریف کے معززترین قبیلے قریش میں ہوئی اور 12ربیع الاول 11ھ مطابق 12 جون 632ء کو مدینہ منورہ میں وصال ظاہری فرمایا۔آپ وجہ ٔ تخلیق کائنات،محبوب خدا،امام المرسلین، خاتم النبیین اورکائنات کی مؤثرترین شخصیت کے مالک تھے،آپ نے 40 سال کی عمرمیں اعلان نبوت فرمایا ،13سال مکہ شریف اور10سال مدینہ شریف میں دین اسلام کی دعوت دی،اللہ پاک نے آپ پر عظیم کتاب قرآن کریم نازل فرمایا ۔اللہ پاک کے آپ پر بے شمار دُرُوداورسلام ہوں ۔([65])

حواشی



[1]... سنن ابوداؤد،1/22

[2] ... حضرت ابوسلیمان حَمدبن محمد بستی خطابی شافعی کی پیدائش 319ھ بست(صوبہ ہلمند،افغانستان)میں ہوئی اوریہیں 16ربیع الاخر388ھ کو وصال فرمایا،آپ محدث العصر، فقیہ شافعی، عالم کبیر،عابدوزاہداورمصنف کتب تھے،حصول علم دین کے لیےحجازمقدس،بغداد،بصرہ،خراسان،نیشاپور اوربلاد ما وراء النهرکے اسفارکئے ،ایک درجن سے زائدکتب میں شرح صحیح بخاری اعلام السنن ،شرح سنن ابوداؤد معالم السنن اورغریب الحدیث مشہورہیں ۔(معالم السنن،1/13تا21،الامام الخطابی ومنھجہ فی العقیدہ،25تا28)

[3]... سنن ابوداؤد،1/23

[4]... مہرِمنیرسوانحِ حیات ، ص، 84 ،تذکرۂ محدثِ سُورتی ،ص، 26

[5] ... مقدمہ مِیزانُ الادیان بتفسیرالقرآن،ص،80

[6] ... مقدمہ میزان الادیان میں یہاں عجمی لکھا تھا جو کہ کتابت کی غلطی ہے ،درست عجیمی ہے اس لیے درست کردیا ہے ۔

[7] ... شیخ ابوالفتح کا اسم گرامی مفلح ہے مگرمیزان الادیان میں ملفح لکھاہے جوکاتب کی غلطی ہے اس لیے اسے دُرست کردیا ہے ۔

[8] ...تاریخ بغدادکا دوسرانام مدینۃ السلام ہے،اس کا موضوع تذکرہ اعلام اورجرح وتعدیل ہے اس میں علامہ خطیب بغدادی نے 7831علما،مفکرین،شخصیات اورحکومتی عہدہ داران کا تذکرہ فرمایا ہے ۔یہ کتب علمامیں معروف ہے ۔

[9]... تفسیرمیزان الادیان ،1/ 75

[10] ... امام المحدثین نے دارُالعُلُوم حِزْبُ الْاَحْناف لاہورکو 1924ء میں مسجدوزیرخا ں اندرون دہلی گیٹ میں شروع فرمایا ،پھر یہ جامع مسجدحنفیہ محمدی محلہ اندرون دہلی گیٹ منتقل کردیا گیا ،جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے آپ کے صاحبزادےمفتی اعظم پاکستان مفتی شاہ ابوالبرکات سیداحمدرضوی صاحب نے اس کی وسیع وعریض عمارت بیرون بھاٹی گیٹ گنج بخش روڈ پر بنائی ،جو، اب بھی قائم ہے ۔

[11] ...فتاویٰ دیداریہ کے مرتب مفتی محمد علیم الدین نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ ہیں ، اس میں 344فتاویٰ ہیں، 87فتاویٰ کے علاوہ تمام فتاویٰ مفتی سیددیدارعلی شاہ صاحب کے تحریرکردہ ہیں،اسے مکتبۃ العصرکریالہ جی ٹی روڈ گجرات پاکستان نے 2005ء کو بہت خوبصورت کاغذپر شائع کیا ہے،اس کے کل صفحات 864ہیں ۔

[12] ... فتاویٰ دیداریہ، ص2،ہفتہ واراخبارالفقیہ ، 21تا28،اکتوبر1935ء، ص23

[13]... حدائقِ حنفیہ،ص،510۔صحیح البخاری مع الحواشی النافعۃ،مقدمہ،1/37

[14]... حیات شاہ اسحاق محدث دہلوی،18،33،77

[15] ... کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا قرآن کریم کا بہترین،تفسیری اردوترجمہ ہے، جسے مقبولیت عامہ حاصل ہے اس پر صدرالافاضل علامہ سیدمحمد نعیم الدین مرادآبادی نے خزائن العرفان فی تفسیرالقراٰن اورحکیم الامت مفتی احمدیارخان نعیمی نے نورالعرفان علی کنزالایمان کے نام سے تفسیری حواشی لکھا ہیں ۔

[16]... اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی کثیرعلوم میں دسترس تھی ،اس پر آپ کی تقریبا ایک ہزارکتب ورسائل شاہدہیں ،مگرآپ کا میلان فتاویٰ نویسی کی جانب زیادہ تھا آپ کے جو فتاویٰ محفوظ کئے جاسکے انہیں العطایا النبویہ فی الفتاویٰ الرضویہ کے نام سے جمع کیا گیا ،پہلی جلدتو آپ کی حیات میں ہی شائع ہوگئی تھی،یک بعددیگرےاس کی بارہ جلدیں شائع ہوئیں،1988ء میں مفتی اعظم پاکستان،استاذالعلمامفتی عبدالقیوم ہزاروی (بانی رضا فاؤنڈیشن جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور)نے اس کی تخریج وترجمہ کا کام شروع کیا ،جس کی تکمیل 2005ء کو 33جلدوں کی صورت میں ہوئی ،جس کے صفحات 21 ہزار،9سو70ہیں ۔(فتاویٰ رضویہ ،30/5،10)

[17]... جدالممتارعلی ردالمحتار،اعلیٰ حضرت کا فقہِ حنفی کی مستندکتاب ردالمحتارالمعروف فتاویٰ شامی پر عربی حاشیہ ہے جس پر دعوت اسلامی کے تحقیقی وعلمی شعبے المدینۃ العلمیہ نے کام کیا اور2006ء کو اسے 7 جلدوں میں مکتبۃ المدینہ کراچی سے شائع کروایا ہے ،2022ء میں اس کی اشاعت دارالکتب العلمیہ بیروت سےبھی ہوئی ہے۔

[18] ... حدائق بخشش اعلیٰ حضرت کا نعتیہ دیوان ہے جسے مختلف مطابع نے شائع کیا ہے،المدینۃ العلمیہ (دعوت اسلامی)نے اسے 2012ء میں 446صفحات پرشائع کیا ہے ،اب تک اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔

[19]...حیاتِ اعلیٰ حضرت،ص، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،ص،282، 301

[20] ... سلطانُ العاشقین، حضرت سیّد شاہ بَرَکَتُ اللہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت1070ھ کو بلگرام (اودھ، یوپی) ہند میں ہوئی۔ 10 محرَّمُ الحرام 1142ھ کو مارہرہ مطہرہ (ضلع ایٹہ، یوپی) ہند میں وصال فرمایا۔ آپ عالمِ باعمل، شیخ المشائخ، مصنفِ کتب، صاحبِ دیوان شاعر، عوام و خواص کے مرجع اور بانیِ خانقاہ برکاتیہ ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص12تا17)

[21] ... زبدۃ الواصلین، حضرت سیّد شاہ حمزہ مارہروی علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 1131ھ مارہرہ شریف (یوپی) ہند میں ہوئی اور یہیں 14 محرَّمُ الحرام 1198ھ کو وصال فرمایا، آپ کا مزار ”درگاہ شاہ بَرَکَتُ اللہ“ کے دالان میں شرقی گنبد میں ہے۔ آپ عالمِ باعمل، عظیم شیخِ طریقت، کئی کتب کے مصنف اور مارہرہ شریف کی وسیع لائبریری کے بانی ہیں۔(تاریخ خاندان برکات، ص20تا23)

[22] ... شمس مارَہرہ، غوثِ زماں، حضرت سیّد شاہ ابوالفضل آلِ احمد اچھے میاں مارَہروی قادری علیہ رحمۃ اللہ الوَالی کی ولادت 1160ھ کو مارَہرہ مطہرہ (ضلع ایٹایوپی) ہند میں ہوئی، وصال 17 ربیع ُالاوّل 1235ھ کو یہیں فرمایا۔ آپ جَیِّد عالمِ دین، واعِظ، مصنّف اور شیخِ طریقت تھے، آدابُ السالکین اور آئینِ احمدی جیسی کتب آپ کی یادگار ہیں۔ آپ سلسلہ قادریہ رضویہ کے 36ویں شیخِ طریقت ہیں۔ (احوال و آثارِ شاہ آل ِاحمد اچھے میاں مارہروی، ص26)

[23]... تاریخ خاندان برکات، ص37تا46،مشائخ مارہرہ کی علمی خدمات ،221

[24] ...آپ کی یہ چاروں تصانیف تفسیرِ عزیزی، بُستانُ المُحدّثین، تحفۂ اِثنا عشریہ اورعاجلہ نافعہ فارسی میں ہیں، تحفہ اثنا عشریہ کو بہت شہرت حاصل ہوئی، اس کا موضوع ردرفض ہے،تفسیرعزیزی کا نام تفسیرفتح العزیزہے،جو چارجلدوں پر مشتمل ہے،بستا ن المحدثین میں محدثین کے مختصرحالات دیئے گئے ہیں جبکہ آپ کا رسالہ عاجلہ نافعہ فن حدیث پرہے جس میں آپ نے اپنی اسنادواجازات کو بھی ذکرفرمایا ہے،اس کے 26صفحات ہیں۔

[25]... الاعلام للزرکلی، 4/ 14۔ اردو دائرہ معارفِ اسلامیہ، 11/634

[26] ... حضرت مولاناشاہ عبدالرحیم دہلوی کی ولادت 1054ھ میں پھلت (ضلع مظفرنگر،یوپی،ہند)میں ہوئی اوروصال 12صفر1131ھ کودہلی میں فرمایا ،آپ جیدعالم دین ، ظاہر ی و باطنی علوم سے آگاہ، صوفی بزرگ اورمحدث وقت تھے،علم فقہ میں بھی عبوررکھتے تھے، فتاوی عالمگیری کی تدوین میں بھی شامل رہے،کئی سلاسل کے بزرگوں سے روحانی فیضان حاصل کیا،سلسلہ قادریہ،سلسلہ نقشبندیہ،سلسلہ ابوالعلائیہ، سلسلہ چشتیہ اورسلسلہ قادریہ قابل ذکر ہیں۔( انفانس العارفین ،21،22،198)

[27]...ان چارکتب فتح الرحمن فی ترجمہ القرآن،الفوز الکبیرفی اصول التفسیر،مؤطاامام ملک کی دوشروحات المصفیٰ،المسوّی، کا موضوع نام سے واضح ہے،آپ نے اپنی تصنیف حجۃ اللہ البالغہ میں احکام اسلام کی حکمتوں اورمصلحتوں کوتفصیل کے ساتھ بیان کیاہے ،اس میں شخصی اوراجتماعی مسائل کو بھی زیرِ بحث لایا گیاہے،کتاب ازالۃ الخفاء ردرفض پرہے،آپ کے رسالے الانتباہ فی سلاسل اولیاء اللہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ عقائدومعمولاتِ اہل سنت پر کاربند تھے،آپ کی آخری دونوں تصانیف آپ کی اسنادواجازات اورآپ کے مشائخ کے تذکرے پرمشتمل ہیں ۔

[28]... الفوزالکبیر،7،8،شاہ ولی اللہ محدث کے عرب مشائخ ،23

[29] ... قطب زماں ،حضرت سیدصفی الدین احمدقشاشی بن محمدبن عبدالنبی یونس قدسی مدنی حسینی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت12ربیع الاول 991ھ مطابق1583ء کو مدینہ منورہ میں ہوئی،آپ حافظ قرآن، شافعی عالم دین،عرب وعجم کے تقریباً سوعلماومشائخ سے مستفیض،سلسلہ نقشبندیہ کے شیخ طریقت، 70کے قریب کتب کے مصنف،نظریہ وحدۃ الوجودکے قائل وداعی تھے۔آپ نے 19ذوالحجہ 1071ھ مطابق 1661ء کو مدینہ شریف میں وصال فرمایااورجنت البقیع میں مدفون ہوئے،تصانیف میں روضۂ اقدس کی زیارت کے لیے سفرِ مدینہ کے اثبات پرکتاب ’’الدرۃ الثمینۃ فیمالزائرالنبی الی المدینۃ‘‘آپ کی پہچان ہے۔( الامم لایقا ظ الھمم ،125تا127،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،8تا10،42)

[30] ...مُجدّدِوقت حضرت سیّد محمدبن عبدالرسول بَرْزَنْجی مَدَنی شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت شہرزُور (صوبہ سلیمانیہ، عراق) 1040 ھ میں ہوئی اور یکم محرم 1103 ھ کو مدینۂ منوّرہ میں وصال فرمایا اور جنّتُ البقیع میں دفن ہوئے۔آپ حافظِ قراٰن، جامعِ معقول ومنقول، علامۂ حجاز، مفتیِ شافعیہ، 90کتب کے مصنّف، ولیِ کامل اور مدینہ شریف کے خاندانِ بَرْزَنجی کے جدِّ امجدہیں۔ (الاشاعۃ لاشراط الساعۃ، ص13، تاریخ الدولۃ المکیۃ، ص59)

[31] ... خاتم المحدثین حضرت امام عبداللہ بن سالم بصری شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1049ھ کو مکہ میں ہوئی اوریہیں 4 رجب 1134ھ کو وصال فرمایا،جنۃ المعلی میں دفن کئے گئے،بصرہ میں نشوونما پائی،پھرمکہ شریف میں آکر مقیم ہوگئے،آپ مسجدحرام شریف میں طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے،زندگی بھریہ معمول رہا،کثیر علمانے آپ سے استفادہ کیا،آپ جیدعالم دین،محدث وحافظ الحدیث اورمسند الحجازتھے، کئی کتب تصنیف فرمائیں جن میں سے ضیاء الساری فی مسالک ابواب البخاری یادگار ہے۔(مختصر نشر النور، ص290تا292، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے عرب مشائخ،18تا20)

[32]... اعلام الزرکلی،304/5، سلک الدرر،24/4

[33]... (مختصرنشرالنور ،167 تا173 ،مکہ مکرمہ کے عجیمی علماء،ص6تا54)

[34] ... علامہ شيخ عيسى بن محمد الثعالبی الجزائری کی تصنیف كنز الرواة المجموع من درر المجاز و يواقيت المسموع زیورطباعت سے آراستہ ہوچکی ہے ،اس کا موضوع حدیث اوردیگرعلوم کی اسانیدہے ۔

[35]... الاعلام للزرکلی،5/108،مختصرنشرالنور،383تا385، خلاصۃ الاثر فی اعيان القرن الحادی عشر،3/337

[36] ... قاضی علّامہ شہابُ الدّین احمد خَفَاجی مصری حنفی کی کتاب نسیم الریاض علامہ قاضی عیاض بن موسی مغربی کی مشہورزمانہ کتاب الشفاء بتعریف حقوق المصطفی کی مفصل شرح ہے،دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے چھ جلدوں میں شائع کیا ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی مطابع سے اس کی اشاعت ہوئی ہے ،اردومیں اس کاترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔

[37]... خلاصۃ الاثر، 1/331،343، معجم المؤلفین، 1/286، حدائق الحنفیہ، ص436، فہرس الفہارس، 1/377

[38] ...علامہ جلال الدین عبدالرحمن سیوطی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن کریم کی تفسیربنام الدر المنثور فی التفسير بالمأثورتحریرفرمائی جس میں آیات کی تفسیراحادیث مبارکہ اورآثارصحابہ سے بیان کی،اس میں دس ہزارسے زائداحادیث کو جمع فرمایا ،دارالکتب العلمیہ بیروت نے اسے سات جلدوں میں شائع کیا ہے ،اس کا اردوترجمہ بھی ہوچکا ہے ۔

[39] ... شرح الصدوراورا لْبُدورُ السّافرة اوردونوں آخرت کے بارے میں ہیں شرح الصدورمیں موت اورقبرکے بارے میں قراٰنی آیات،احادیث مبارکہ اورحالات وواقعات بیان کئے گئے ہیں اورالبدورالسافرہ میں آخرت کے بارے میں تفصیل سے کلا م ہے ،دونوں کے اردوتراجم ہوچکے ہیں مکتبۃ المدینہ کراچی نے شرح الصدورمترجم 587صفحات پراور البدورالسافرہ کااردوترجمہ بنام احوال آخرت شائع کیا ہے ۔

[40]... النور السافر،1/90 تا 93

[41]... الضوء اللامع لاهل القرن التاسع،10/53

[42]... الدررالکامنہ،3/304،رقم:817

[43] ... شذرات الذهب 7/ 723، تاریخ الاسلام الذہبی، 51/422۔

[44] ... اعلام زرکلی،5/61، سير اعلام النبلاء، 21/507۔

[45] ... شیخ الاسلام حضرت ابواسحاق ابراہیم فیروزآبادی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 393 ھ کو فیروزآباد(صوبہ فارس) ایران میں ہوئی اور21جمادی الاخریٰ 476 ھ کو بغداد میں وصال فرمایا، تدفین باب ابرز بغدادعراق میں ہوئی۔آپ فقہ شافعی کے مجتہد،امیرُالمؤمنین فی الفقہ، مصنف کتب کثیرہ، اخلاقِ حسنہ سے متصف، فصاحت وبلاغت کے جامع اورمدرس مدرسہ نظامیہ بغداد تھے۔ النكت فی المسائل المختلف آپ کی علمی یادگارہے۔(سیر اعلام النبلاء، 14/7تا12)

[46]... سیراعلام النبلاء،20/79، العبر فی خبر من غبر، 2/455۔

[47]... سير اعلام النبلاء ، 20 /165، شذرات الذهب، 6 / 190۔

[48] ... ولیِ شہیر حضرتِ سیِّدُنا بِشر حافِی علیہ رحمۃ اللہ الکافی کی ولادت 150ھ میں ”مرو“ خُراسان (ایران) میں ہوئی۔ 13ربیعُ الاوّل 227ھ کو بغداد میں وِصال فرمایا، مَزار شریف مَقْبَرَۂ قُریش (کاظمیہ شمالی بغداد) عِراق میں ہے۔ آپ عابد و زاہد، مُحِبِِّ عُلما و اولیا، بُلند دَرَجات کے مالِک اور اَکابِر اولیا سے ہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی، 5/540،544، الوافی بالوفیات، 10/92،91، المعارف، ص 228)

[49]... ( تاریخ بغداد،1/4تا21)

[50]... ( تاريخ بغداد، 12 / 446 ، سیر اعلام النبلاء،17/226)

[51]... سیراعلام النبلاء،15/307

[52] ... امیرُالمؤمنین فی الحدیث حضرت سیّدُنا سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت98ھ میں کوفہ (عراق) میں ہوئی اورشعبانُ المعظم161ھ میں وصال فرمایا۔مزاربنی کُلیب قبرستان بصرہ میں ہے۔آپ عظیم فقیہ، محدث، زاہد، ولیِ کامل اوراستاذِ محدثین و فقہا تھے۔(سیراعلام النبلاء، 7/229،279، طبقات ابن سعد، 6/350)

[53]... سیر اعلام النبلاء، 13/203

[54] ... امیرالمؤمنین فی الحدیث حضرتِ سیّدنا محمد بن اسماعیل بخاری علیہ رحمۃ اللہ القَوی کی ولادت 194ھ کو بخارا میں ہوئی اور وصال یکم شوال 256ھ میں فرمایا، مزار خرتنگ (نزدسمرقند) ازبکستان میں ہے۔آپ امام المحدثین والمسلمین، زہد و تقویٰ کے جامع اور قراٰنِ کریم کے بعدصحیح ترین کتاب ’’بخاری شریف‘‘کے مؤلف ہیں۔ (المنتظم، 12/133، سیراعلام النبلاء، 10/319،277)

[55] ... امامُ المسلمین حضرتِ امام مُسلم بن حَجّاج رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 206ھ میں نیشا پور (خُراسَان) میں ہوئی۔ 24رجب 261ھ کووِصال فرمایا، مزارمبارک نیشا پور میں ہے۔ غیر معمولی ذہانت کے مالک، حافظُ الحدیث، اِمامُ المُحَدِّثین اور عظیم شخصیت کے مالک تھے، اپنی تصنیف”صحیح مسلم“ کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل ہوئی۔ (جامع الاصول، 1/124، محدثین عظام حیات وخدمات، ص 323 تا 332)

[57] ... امامُ الوقت حضرت امام جعفر صادِق رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت 80ھ کو مدینہ منورہ میں ہوئی اور یہیں 15رجب 148ھ کو وِصال فرمایا، جنّتُ البقیع میں دفن کئے گئے،آپ خاندانِ اہلِ بیت کے چشم و چراغ، جلیلُ القدر تابعی، محدِّث و فقیہ، علّامۂ دَہر، استاذِامام اعظم اور سلسلۂ قادِریہ کےچھٹے شیخِ طریقت ہیں۔( سیراعلام النبلاء، 6/438، 447، شواہد النبوۃ، ص245)

[58]... سیراعلام النبلا جلد 8ص 366 ، طبقات ابن سعد: 5 / 424

[59] ...حجۃ الاسلام،امام الحرم حضرت امام ابومحمد سفیان بن عیینہ کوفی مکی رحمۃ اللہ علیہ کی پیدائش 107ھ کوکوفہ میں ہوئی اوریکم رجب 198ھ مطابق 814ء میں مکہ معظمہ میں وفات پائی اور کوہ حجون کے پاس مدفون ہوئے،آپ نے کثیرتابعین کی صحبت پائی،آپ تبع تابعی، عالم الحجاز،ثقہ روای حدیث،وسیع العلم،صاحب تقوی وورع اورعمربھردرس وتدریس میں مصروف رہنے والی شخصیت تھے ،ترتیب وتدوین حدیث میں آپ سرفہرست ہیں۔ ( سير اعلام النبلا ، 8 / 454، تاریخ بغداد،9/183، تذکرۃ الحفاظ، للذھبی،1/193)

[60]... سیراعلام النبلا،6/136

[61] ... حضرت عبدالرحمن بن عوف قرشی زہری رضی اللہ عنہ کی ولادت عام الفیل کے دس سال بعدمکہ مکرمہ میں ہوئی اور 31یا 32ھ میں وصال فرمایا ،تدفین جنۃ البقیع میں ہوئی ،آپ جلیل لقدرصحابی ،حسن ظاہری وباطنی سے متصف ،خوش بخت ونیک خصلت ،دعائے مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی برکت سے مال داراورعشرہ مبشرہ صحابہ سےتھے ،آپ کی شان میں دوفرامین مصطفی(صلی اللہ علیہ والہ وسلم ):عبدالرحمن بن عوف جنتی ہیں اورجنت میں ان کے رفیق حضرت عیسی علیہ السلام ہوں گے، عبدالرحمن بن عوف مسلمان شرفا کے سردارہیں ۔( اصابہ ،8/203،الریاض النضرہ،2/306، 1/35 )

[62] ... ترجمان القرآن، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی ولادت نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے چچاجان حضرت عباس بن عبدالمطلب کے ہاں ہجرت سے تین سال قبل مکہ میں ہوئی اورآپ نے 67ھ کو طائف میں وصال فرمایا ،مزارمبارک مسجدعبداللہ بن عباس طائف کے قریب ایک احاطے میں ہے ، نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے لیے علم وحکمت،فقہ دین اور تاویل کتاب مبین کی دعافرمائی،آپ علم تفسیر، حدیث ،فقہ،شعر،علم وارثت وغیرہ میں کامل دسترس رکھتے تھے،آپ کے القابات بحرالعلوم، امام المفسرین، ربانیِ امت، اجمل الناس،افصح الناس اوراعلم الناس ہیں۔ (تنویرالمقیاس،ص7تا32)

[63]... سیراعلام النبلا جلد 4ص 287 

[64]...اسد الغابہ:4/406، تہذیب الکمال:385، استیعاب:1/258، ابن سعد:2/77،78،سیراعلام النبلا، 3/22

[65]... ( مدارج النبوت ،2/14،آخری نبی کی پیاری سیرت ، 143تا145)


قرآن و سنت کی تعلیمات کو دنیا بھر میں منظم انداز میں عام کرنے والی عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام آج رات دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائیگا جن میں مبلغین دعوت اسلامی اور اراکین شوریٰ سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔ان اجتماعات میں نعت رسول مقبول، ذِکرُ اللہ اور رقت انگیز دعاؤں کا سلسلہ بھی ہوگا۔

تفصیلات کے مطابق سبحانی مسجد اورنگی ٹاؤن کراچی میں مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی محمد امین عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے جسے مدنی چینل پر براہ راست نشر کیا جائیگا۔

اس کے علاوہ مدنی مرکز فیضان مدینہ گلشن اقبال ٹاؤن خان پور میں نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ گلیانہ (کھاریاں) میں رکن شوریٰ حاجی مولانا محمد اسد عطاری مدنی، مدنی مرکز فیضان مدینہ محبوب ٹاؤن اوکاڑہ میں رکن شوریٰ حاجی محمد منصور عطاری اور مدنی مرکز فیضان مدینہ شاہ جہانگیر روڈ، گجرات میں نگران شعبہ پروفیشنلز ڈیپارٹمنٹ محمد ثوبان عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقان رسول سے اپنے اپنے علاقے میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


13ستمبر2022ء کو انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن،  جامعۃ المدینہ، فیضان مدینہ کراچی میں تقریبِ تقسیمِ اسناد کا انعقاد کیا گیا۔

اس تقریب میں 23اگست تا 05ستمبر2022ء تک ہونے والے 12 دن کے ” تحقیقی مقالہ نگاری و مضمون نویسی کورس“ میں شرکت کرنے والے طلبہ کرام کو ”مقالہ نگاری کورس“ کی اسناد دی گئیں۔

تقسیم اسناد کے بعد شیخ الحدیث مفتی محمد حسان عطاری مدنی حفظلہ اللہ نے مقالہ نگاری کورس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ انٹرنیشنل لیول کا کورس تھا جو کہ طلبہ کرام کو بالکل فری کروایا گیا جبکہ دنیا بھر میں ایسے کورسز کی بھاری فیسیں ادا کرنی پڑتی ہیں۔

تقریب کے آخر میں مفتی محمد حسان صاحب نے مقالہ نگاری کورس کے ٹرینر و لیکچرار، اسلامک اسکالر و رائٹر مولانا راشد علی عطاری مدنی کو انسٹیٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن، جامعۃ المدینہ، فیضان مدینہ کراچی کی جانب سے اعزاری شیلڈ پیش کی اور حوصلہ افزائی بھی فرمائی۔

واضح رہے کہ ” تحقیقی مقالہ نگاری و مضمون نویسی کورس“ میں کتاب، مقالہ، مضمون، آرٹیکل اور دیگر کثیر تحریری کاموں میں معاونت کرنے والے 100 سے زائد اہم نکات پر تفصیلی گفتگو ہوئی نیز ساتھ ہی 14 اہم تحریری پروجیکٹس کے آسان عملی منصوبے بھی پیش کیے گئے۔

سکھائے گئے اہم ترین نکات میں سے چند بنیادی نکات یہ ہیں:

٭تحریر و تصنیف کی اہمیت و ضرورت ٭تحریر و تصنیف میں حائل رکاوٹیں اور ان کا حل ٭مقالہ نگاری میں معاون اہم امور کی نشاندہی ٭تحقیق و تصنیف کی 20 اصناف اور اسالیب کا تعارف و پہچان ٭ذاتی مواد بینک بنانے کا طریقہ اور فوائد و ضرورت ٭موضوع و عنوان میں فرق ٭انتخاب موضوع اور فن عنوان سازی ٭انتخاب موضوع میں معاون ذرائع ٭تحقیقی مقالہ کے عنوان کے انتخاب میں کی جانے والی غلطیاں ٭مقالہ نگاری کے مراحل اور مشمولات ٭ابتدائیہ اور اس کی اقسام ٭مضمون کے مشمولات کا خاکہ بنانا ٭اختتامیہ کی تعریف اور اقسام ٭املاء و عبارت کی درستی اور غلطیوں اصلاح ٭جمع و نقلِ مواد کی دیانت ٭رموز و اوقاف کا درست اور برمحل استعمال ٭کتب، سافٹ وئیرز، انٹرنیٹ اور اور دیگر ذرائع سے مواد لینے کا اختیار کہاں تک ہے اور طریقہ ٭منقولی و غیرمنقولی مواد کی تقسیم اور طریقہ استعمال ٭موضوع کے مطابق مضمون یا کتاب کی تقسیم کاری کیسے کریں ٭ابواب و فصول کیسے بنائیں ٭فن تخریج حدیث ٭تخریج کا تعارف اور فن تخریج ٭حدیث کے مصادرِ اصلیہ و فرعیہ کا تعارف و فرق ٭کتبِ حدیث کی اقسام اور تخریج میں مدارج کتب ٭کتابوں کے ذریعے حدیثیں تلاش کرنے کے 5 اہم طریقے ٭سافٹ وئیرز کے ذریعے حدیثیں تلاش کرنے کے4 اہم طریقے ٭مقالہ کی خاکہ سازی ٭مقدمہ کی تفصیل اور اس کے مشمولات ٭جمع مواد کے ذرائع اور طریقے ٭منقولی مواد جمع کرنے اور استعمال کرنے کا طریقہ اور غیرمنقولی یعنی استنباطی، تجزیاتی کلام اور تمہیدات، ترغیبات اور ترہیبات کے استعمال کرنے کا طریقہ ٭مقالے کا خاتمہ اور فہارس ٭نتائج البحث کیسے لکھیں؟ ٭سفارشات کیا اور کیسی ہونی چاہئیں؟ ٭آیات، احادیث، اماکن، موضوعات اور مصادر و مراجع بنانے کی فہارس بنانے کا طریقہ ٭لکھنے سے پہلے کرنے والے20 اہم ترین کام جن سے کئی دنوں کی محنت بچ جائے ٭مصنف و محقق بننے کے سفر میں درپیش 56 اہم ترین مراحل سے آگاہی اور عملی صورت کی تجاویز


عشقِ رسول لازوال اور بہت بڑی نعمت ہے،جن کےدل محبّتِ رسول سےسرشار ہوتے ہیں ان کی روح بھی اس کی مِٹھاس کومَحسُوس کرتی ہے،ان کی زِنْدَگیاں جہاں اس پاکیزہ مَحبَّت سےسنورتی ہیں وہیں یہ مَحبَّت تاریکی میں اُمِّید کا چراغ بن کر انہیں راہِ حَق سے بھٹکنے سےبھی بچاتی ہے،محبت طبیعت کا کسی لذیذ شے کی طرف مائل ہوجانے کو کہتےہیں اور جب یہ میلان مضبوط اورشدید ہوجائے تو اسے”عشق“ کہتے ہیں۔ (احیاء العلوم، 5/6)یادرکھئے!اس دنیا میں کئی خوش نصیب ہستیاں ایسی گزری ہیں جن کی زندگیاں عشقِ رسول کا نمونہ تھیں،ان خوش نصیب ہستیوں میں 13 ویں صدی کے آخر میں ہند کےشہر بریلی میں پیدا ہونے والے ایک عاشقِ رسول جوسر سے پاؤں تک عشقِ رسول کا نمونہ تھے،اس خوش نصیب عاشقِ رسول کانام احمدرضاتھا،اس بات میں شک نہیں کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان اپنے وقت کے بہت بڑے عاشقِ رسول تھے،اعلیٰ حضرت کی پوری زندگی عشقِ رسول میں گزری ہے۔آپ گفتگو فرماتے تو الفاظ کی صورت میں عشقِ رسول کےجام پلاتے،آپ قلم اُٹھاتےتوتحریرکی صورت میں عشقِ رسول کوفروغ دیتےنظرآتےگویا کہ آپ کی زندگی کاایک ایک لمحہ عشقِ رسول کےجام پینےاور پِلانے میں صرف ہوا ہے۔ آپ کی شاعری آپ کےعشقِ رسول کاصحیح پتہ دیتی ہے،آپ اپنے عشقِ رسول کا اظہار بھی شعر میں یو ں ظاہر کرتے ہیں :

اِنہیں جانا اِنہیں مانا نہ رکھا غیر سےکام

لِلّٰہِ الحمد میں دُنیا سے مسلمان گیا

آپ کاعشقِ رسول اس درجۂ کمال پرتھا کہ آج سو سال سےز یادہ عرصہ گزرنے کے باوجودبھی اعلیٰ حضرت کے لکھے ہوئے اشعار جہاں پڑھےجائیں سننے والےاپنے دلوں میں عشقِ رسول کی تڑپ کو مزید بڑھتا ہوامحسوس کرتے ہیں۔ ان کے دل جھوم اٹھتے ہیں اور بِلا اختیار زبان سے سبحان اللہ کی صدائیں نکلتی نظر آتی ہیں۔آپ نے اپنے نعتیہ دیوان حدائقِ بخشش میں کئی مناظرِ قدرت کوعشقِ رسول میں ڈوب کر عشقی رنگ میں سمجھایا ہے۔ ان مناظر میں سے ایک سورج بھی ہے۔ یہ سورج ہے جو تمام جہاں کو اپنے نور سے روشن کررہا ہے، یہی سورج ہےجو ہزاروں سال سےدنیا کوجگمگا رہا ہےمگراس کانورکم نہیں ہورہا۔ یہی سورج ہےجوہر روز آ کر نور کی خیرات بانٹتاہے۔ یہی سورج ہے کہ جس کے طلوع وغروب ہونے سےدنیا کانظام چل رہا ہے،اس سورج کو کائنات کےمناظرمیں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔امام احمدرضاخان کی عشق کی کتاب میں اس سورج کی حقیقت کیاہے،ملاحظہ کیجئے: چنانچہ

میرے امام اعلیٰ حضرت لکھتے ہیں:

جس کو قُرصِ مہر سمجھا ہے جہاں اے مُنْعِمُو!

اُن کے خوانِ جُود سے ہے ایک نانِ سوختہ

(حدائقِ بخشش،ص136)

امام عشق و محبت اعلیٰ حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ اےتاجدارو! اے بادشاہو!سارا جہاں جسےسورج کی ٹکیا کہتا ہے،لوگ جسےآفتاب کہہ کر پکارتے ہیں، جسے سورج کا نام دیا جاتا ہے۔یہی سورج اوریہی آفتاب، جانِ عالم، نورِ مجسم کے دستر خوان کی جلی ہوئی روٹی ہے، ذرا سوچوکہ جس کریم آقا،مدینے والےمصطفےٰ ﷺ کے دسترخوان کی جلی ہوئی روٹی سے کائنات کا گزارہ ہو رہا ہے تو ان کے دستر خوان کی وہ روٹیاں جوجلن سےمحفوظ ہیں، ان کا کیا حال ہوگا اور جس محبوب کی جلی ہوئی روٹی کی طرف دیکھنے سے آنکھیں چُنْدِھیا جاتی ہیں، اس کے اپنے چہرۂ مبارک کے انوار کا عالم کیا ہوگا؟ ۔کسی شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے:

قدموں میں جبیں کو رہنے دو چہرے کا تصوّر مشکل ہے

جب چاندسے بڑھ کر ایڑی ہے تو رُخسار کا عالَم کیا ہوگا

چاند اور تخیلاتِ رضا

عاشق مزاج شاعراپنےمحبوب کےحُسن کو ،محبوب کی خوبصورتی کو،محبوب کی دلکشی کواور محبوب کی رنگت کو چاند سےتشبیہ دیتے ہیں مگر جس طرح اعلیٰ حضرت نے چاند کو نعتِ محبوب کے لئے استعمال کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ چنانچہ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

برقِ اَنگُشْتِ نبی چمکی تھی اُس پر ایک بار آج تک ہے سِینۂ مہ میں نشان ِ سوختہ

(حدائقِ بخشش، ص136)

اعلیٰ حضرت اس شعر میں فرماتےکہ نبی کریم کےمبارک ہاتھ کی نورانی انگلی ایک مرتبہ چمک کر چاند پر پڑی مگر آج تک چاند کے سینے میں جلن کا نشان موجود ہے۔

پھر ایک اور شعر میں چاندکو یہ داغ مٹانےکاطریقہ بھی بتاتے ہیں،چنانچہ” قصیدۂ معراج“ میں فرماتے ہیں:

سِتَم کِیا کیسی مَت کٹی تھی قمر! وہ خاک اُن کے رہ گُزر کی

اُٹھا نہ لایا کہ مَلتے مَلتے یہ داغ سب دیکھتا مٹے تھے

(حدائقِ بخشش، ص232)

یعنی اے چاند تمہاری عقل کو کیا ہوا کہ اتنا بڑا ستم کر بیٹھے، جب معراج کی رات آقا کریم،رسولِ عظیم ﷺ آسمانوں کی سیر کے لئے تشریف لائے تھے تو ان کے رہ گزر کی خاک لے جاتے اور اپنے داغوں پر ملتے رہتے۔ تمہارا اس خا ک کو ملنا تھا کہ تمہارے سارے داغ ختم ہو جاتے۔

ایک اور جگہ اعلیٰ حضرت اس چاند کو رسولِ کریمﷺ کے بچپنے کا کھلونا قرار دیتےہیں جس میں اس حدیثِ پاک کی طرف اشارہ ہےکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےعرض کی:یارسول اللہﷺ!مجھے تو آپ کی علاماتِ نبوت نے دِینِ اِسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی۔میں نےدیکھا کہ آپ گہوارے(پنگھوڑے)میں چاند سےباتیں کرتےاور اپنی اُنگلی سےجس طرف اشارہ فرماتے چانداُسی طرف جھک جاتا۔(جمع الجوامع، 3/212، حدیث:8361)اس روا یت کو پڑھ کر بریلی کے امام اعلیٰ حضرت نے قلم اٹھا یا اور اپنےعشق کو اس شعر میں یوں بیان کیا:

چاند جھک جاتا جِدھر اُنگلی اٹھاتے مَہد میں

کیا ہی چلتا تھا اشاروں پر کھلونا نور کا

(حدائقِ بخشش، ص249)

ایک اور مقام پر اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

ماہِ مدینہ اپنی تجلّی عطا کرے!

یہ ڈھلتی چاندنی تو پہر دو پہر کی ہے

(حدائقِ بخشش، ص202)

یعنی ایک آسمانوں کا چاند ہےاور ایک مدینےکا چاند ہے۔آسمانوں کا چاند بھی روشنی بکھیرتا ہے مدینے کا چاند بھی نور کی خیرات بانٹتا ہے، آسمانوں کا چاند جو روشنی دیتا ہے وہ ایک دو پہر تک کے لئے ہوتی ہے جبکہ مدینے کا چاند اگر نور کی جھلک بھی عطا فرما دےتو دنیا و آخرت دونوں روشن ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے ایک اور مقام پر نور کی خیرات لینے کے لئے عرض کرتےہیں:

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے

مِرا دِل بھی چمکا دے چمکانے والے

(حدائقِ بخشش، ص158)

چودھویں کا چاند اور طیبہ کا چاند

حدیثِ پاک میں ہےصحابی رسول،حضرت جابر بن سَمُرہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ میں نےرسول الله کو چاندنی رات میں سُرخ(دھاری دار) حُلّہ پہنے ہوئےدیکھا،میں کبھی چاندکی طرف دیکھتا اورکبھی آپ کےچہرۂ اَنورکو دیکھتا،تو مجھےآپ کا چہرہ چاند سے بھی زِیادہ خُوبصُورت نظر آتا تھا ۔ (ترمذی ، ۴/۳۷۰، حدیث:2820)

امام عشق و محبت ، اعلی حضرت نے اس حدیث کو اپنے ان اشعار میں یوں بند کیا کہ

خُورشید تھاکِس زور پر

کیا بڑھ کے چمکا تھا قمر

بے پردہ جب وہ رُخ ہوا

یہ بھی نہیں وہ بھی نہیں

(حدائقِ بخشش، ص110)

یعنی اعلی حضرت اس شعرمیں فرماتے ہیں کہ عین دوپہر کے وقت سورج اپنےعروج پر ہو، پھر رات ہو جائے اور چاند اپنے جوبن پرآجائے، ایسے میں جانِ عالَم کا رُخِ انور پردے سے باہرآئے تو سورج بھی شرما جائے گا، چاند بھی آنکھیں چُرائے گا اور منہ چھپائے گا کیونکہ جیسے میرے سرکار ہیں ایسا نہیں کوئی۔

حضورنبی کریم ﷺ کو اللہ عزوجل نے بے مثل و مثال بنایا ہے آپ جیسا نہ آپ سے پہلے کوئی ہوا اور نہ قیامت تک ہو گا، بلکے انسان تو انسان اللہ کریم کے فرشتوں کا بھی یہی کہنا ہے جسے امام عشق و محبت نے اپنے ان اشعار میں بیا ن فرمایا:

یہی بولے سدرہ والے

چمن جہاں کے تھالے

سبھی میں نے چھان ڈالے

تیرے پائے کا نہ پیایا

تجھے یک نے یک بنایا

یعنی سدرۃ المنتہی کے تمام فرشتے بمع تمام فرشتوں کے سردار سیدنا جبریل امین علیہ السلام بیک زبان ہو کر عرض کرتے ہیں کہ ہم نے پورے جہان کوچھان ڈالالیکن آپ جیسا کوئی نہیں پایا،اس شعر میں اس حدیث مبارکہ کی طرف اشارہ ہے کہ سیدنا جبریل امین حضور کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں :قلبت مشارق الا رض و مغاربھافلم اجد رجلا افضل من محمد۔گویا جبریل امین عرض کرتے ہیں میں نے سارا جہان پھرا ہے ،بڑے بڑے حسین دیکھے لیکن آپ جیسا حسین و افضل کوئی نہیں دیکھا۔(معجم اوسط،4/ 373 ،حدیث:6285)

اے عاشقانِ اعلیٰ حضرت!ان اشعار کو پڑھ کر یوں لگتاہے واقعی اعلیٰ حضرت سچے عاشقِ رسول تھے، بلکہ عاشقانِ رسول کے قافلے کے سپاہ سالار تھے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کےجام پلاتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی عشقِ رسول کو فروغ دیتے رہے، اعلیٰ حضرت ساری زندگی اُمّت کو عشقِ رسول کا درس دیتے رہے اور یہ اسی عشقِ رسول کا صلہ تھا کہ نبی کریم،رؤف رحیم نے اپنے اس عاشقِ صادق کو حالتِ بیداری میں اپنا رخِ والضحی دیکھاکر اپنی زیارت سے مشرف فرمایا۔ یادرکھئے! عشقِ رسول صر ف نعرے لگانے سے یا محبت رسول کے دعوے کرنے سے نہیں بلکے اپنے کردار کو فرامینِ مصطفےٰ اور سنت ِمصطفےٰ کے سانچے میں ڈھالنے سے نصیب ہوگا۔ آئیے ! عر سِ ا علی حضرت کے موقع پر یہ نیت کرتے ہیں کہ کہ ہم بھی اپنے ظاہرو باطن کو سنّتِ رسول کے سانچے میں ڈھالیں گے ۔ان شاء اللہ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اعلیٰ حضرت کے طفیل حقیقی عشقِ رسول عطا فرمائے۔آمین

از:مولانا عبدالجبار عطاری مدنی

المدینۃ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر)

دعوت اسلامی