تمام تعریفیں اللہ پاک کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا خالق ہے جس نے تمام جہانوں کو پیدا فرمایا پھر اس نے انسانوں کی راہنمائی کے لیے اپنے خاص بندوں یعنی انبیا اور مرسلین کو مبعوث فرمایا جنہوں نے لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے اور اس کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو جن بدبخت لوگوں نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعوت کو جھٹلایا وہ کافر ہوئے اور ان کی اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مذمت بیان کی اور جن خوش نصیب لوگوں نے انبیائے کرام علیہم السّلام کی دعوتِ حق کو قبول کیا اور اللہ پاک اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آئے وہ مؤمن کہلائے اور ان کے اوصاف کو اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بیان کیا۔ اللہ پاک نے سورۃُ المؤمنون میں مؤمنین کے جو اوصاف ذکر کیے ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔

(1) ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) یہاں پر ایمان والوں کا ایک وصف یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ وہ اپنی نماز خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں ۔

نماز میں ظاہری و باطنی خشوع: نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش ِنظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(صاوی، المؤمنون)

(2) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) یہاں پر ایمان والوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا کہ ایمان والے فضول باتوں سے منہ پھیرنے والے ہیں۔

لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو جیسے مذاق مَسخری، بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ مسلمان کو اپنی آخرت کی بہتری کے لئے نیک اعمال کرنے میں مصروف رہنا چاہئے یا وہ اپنی زندگی بسر کرنے کے لئے بقدرِ ضرورت (حلال) مال کمانے کی کوشش میں لگا رہے۔( صاوی، المؤمنون)

(3) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( مدارک )

(5،4) ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا چوتھا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی ملامت نہیں۔(صراط الجنان)

اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مؤمنین کی صفات ذکر فرمانے کے بعد ان کے لیے انعامات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱) ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔( پ18، المؤمنون:11،10)خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور اَوصاف پائے جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔ یہ فردوس کی میراث پائیں گے اور وہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے، نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی وہاں انہیں موت آئے گی۔(صراط الجنان)

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں۔ بھی اپنے اندر ان صفات کو پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دنیا میں بھی ایمان پر استقامت عطا فرمائے اور دنیا سے ایمان سلامت لے کر جانا نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ رب العزت نے جب انسان کو عالَمِ ارواح سے عالَمِ دنیا میں لانے کا ارادہ فرمایا تو اپنی نوری مخلوق (فرشتوں) کے سامنے خطاب فرمایا: میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ اس پر ان فرمانبرداروں نے عرض کی "کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرے" تو خالقِ کائنات جو کہ عالِم الغیب و الشھادہ ہے اس نے فرمایا: "مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔" کیونکہ خلیفہ بنانے میں خالقِ کائنات کی بہت سی حکمتیں ہیں انہیں میں سے انبیا و رسل ہوں گے انہیں میں سے علما ہوں گے صلحا ہوں گے اور نیک نمازی پرہیزگار عبادت گزار مؤمنین ہوں گے کہ جب وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر تہجد کے سجدیں کرینگے تو ربُّ العالمین جل و علا فرشتوں کے سامنے فخر فرمائے گا۔

قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ کے نیک متقی مؤمنین کی پروردگار عالم نے بہت سی صفات بیان فرمائی ہیں ہم ان میں سے کچھ رقم کرتے ہیں۔

حقیقی کامیابی: انسان کامیابی کے لئے دن رات جدوجہد کرتا ہے محنت مزدوری کرتا ہے مشقت اٹھاتا ہے مگر حقیقی کامیابی کیا ہے؟ اور کون کامیاب ہیں؟ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس سے پتہ چلا کہ کافر بظاہر دنیاوی زندگی میں کامیاب نظر بھی آئیں، لیکن حقیقتاً کامیاب مؤمن ہے، کیونکہ اس کے پاس ایمان جیسی انمول دولت ہے۔

مؤمن نمازوں کی حفاظت کرنے والا، زکوٰۃ ادا کرنے والا، امانت دار، عہد پورا کرنے والا، فضولیات سے بچنے والا، شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿ الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون:2تا5)

﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔ اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 8، 9)

عظیم الشّان عبادت: ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا اور آخری وصف نمازوں کی حفاظت کرنا ذکر کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نماز بڑی عظیم الشان عبادت ہے اور دین میں اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے، لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ پانچوں نمازیں پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ (تفسیر صراط الجنان سورۃالمؤمنون ،تحت الآیۃ9)

جنتُ الفردوس کے وارث: جنتوں میں سب سے اعلی جنت "جنت الفردوس" ہے اور اس کے وارث مؤمنین ہیں۔ چنانچہ اللہ کریم نے مؤمنین کی دس حسین صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان:یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون: 11)

نیکی کا حکم دینے والے برائی سے روکنے والے نیکیوں میں جلدی کرنے والے: ربُّ العالمین ارشاد فرماتا ہے: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۱۴)ترجمۂ کنزالایمان: اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لاتے ہیں اور بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک کاموں پر دوڑتے ہیں اور یہ لوگ لائق ہیں۔(پ4،آلِ عمرٰن:114)

معلوم ہوا کہ اللہ کے خاص بندے نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نیکیوں میں جلدی کرنے والے ہوتے ہیں، بلکہ یہ تو اتنا خوبصورت پیارا اور عمدہ کام ہے کہ اللہ کریم نے جب اس امت کی افضلیت کی وجہ کو بیان فرمایا تو ارشاد فرمایا: ﴿كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِترجمۂ کنزُالعِرفان: (اے مسلمانو!) تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے ظاہر کی گئی، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔(پ4، ،آلِ عمرٰن : 110﴾

مؤمن اور کامل مؤمن میں فرق: یاد رہے! اللہ پاک نے جس طرح عام مؤمنین کی صفات کو بیان فرمایا ہے اسی طرح کامل مؤمنین کی صفات کو بھی بیان فرمایا ہے اور یہ دونوں ایک نہیں، کیونکہ ہر کامل مؤمن، مؤمن ہے لیکن ہر مؤمن کامل ہو! یہ ضروری نہیں۔

کامل مؤمن ترجیح اللہ و رسول اور دین کو دیتا ہے: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم ایسے لوگوں کو نہیں پاؤ گے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں کہ وہ ان لوگوں سے دوستی کریں جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا ان کے بیٹے یا ان کے بھائی یا ان کے خاندان والے ہوں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور وہ انہیں اُن باغوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ،یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ (پ28، المجادلۃ:22)

اعلی حضرت، عظیم البرکت، عظیم المرتبت، پروانہ شمع رسالت، الشاہ الحافظ الحاج امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے فرمان کا خلاصہ ہے: جس کے دل میں اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تعلق تمام تعلقات پر غالب ہو اللہ و رسول کے مُحِبُّوں سے محبت رکھے اگرچہ اپنے دشمن ہوں اور اللہ و رسول کے دشمنوں سے دشمنی رکھے اگرچہ اپنے جگر پارے ہوں جو کچھ دے اللہ کے لیے دے جو کچھ روکے اللہ کے لیے روکے تو اس کا ایمان کامل ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں:جس نے اللہ کے لیے محبت کی اور اللہ کے لیے عداوت رکھی اور اللہ کے لیے دیا اور اللہ کے لیے روکا تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا۔(فتاویٰ رضویہ،29/254)

پیارے اسلامی بھائیو! کافروں سے محبت کرنا، ان سے دوستی کرنا، انہیں اپنا دوست و خیر خواہ سمجھنا مسلمان کی ہلاکت و شامت ہے قراٰنِ مجید میں جگہ جگہ کافروں سے دوستی کرنے کی مذمت فرمائی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْكٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰهِ فِیْ شَیْءٍ ترجمۂ کنزُالعِرفان: مسلمان مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا دوست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے گاتو اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔(پ3، آل عمرٰن:28)

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ تُلْقُوْنَ اِلَیْهِمْ بِالْمَوَدَّةِ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِمَا جَآءَكُمْ مِّنَ الْحَقِّۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ ،تم انہیں دوستی کی وجہ سے خبریں پہنچاتے ہو حالانکہ یقیناً وہ اس حق کے منکر ہیں جو تمہارے پاس آیا۔ (پ8،الممتحنہ:1)

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَهُوْدَ وَ النَّصٰرٰۤى اَوْلِیَآءَ ﳕ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاِنَّهٗ مِنْهُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! یہود و نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ ، وہ (صرف) آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں اور تم میں جو کوئی ان سے دوستی رکھے گا تو وہ انہیں میں سے ہے بیشک اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا۔ (پ6،المائدۃ:51)

اور یاد رہے کہ سورہ کافرون میں جن کافروں کو مخاطب کیا گیا: ﴿قُلْ یٰۤاَیُّهَا الْكٰفِرُوْنَۙ(۱) لَاۤ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: تم فرماؤ! اے کافرو!۔میں ان کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو ۔(پ30،الکافرون:2،1)اس سے مراد تمام کافر ہیں چاہے وہ ہندوستان کا کافر ہو یا یورپ کا یا پاکستان کا، کیونکہ " المسلم ملۃ واحدۃ و الکفر ملۃ واحدۃ" مسلمان جس زمین پر بھی رہے وہ ایک ملت ہے، اور کافر جس دھرتی پر رہے ایک ملت ہے۔

صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا انداز کیسا تھا؟؟ خالقِ کائنات نے بیان فرمایا: ﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمۂ کنزُالعِرفان: محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ، آپس میں نرم دل ہیں۔(پ26،الفتح:29 )

پتا چلا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کافروں سے دوستی تو در کنار ان پر سخت تھے، اور صحابہ کرام تو ایمان کا مدار ہیں۔

اللہ پاک ہمیں مؤمنین کی تمام صفات کو اپنانے بالخصوص اپنی نمازوں کی حفاظت کرنے، زکوٰۃ ادا کرنے امانت دار، وعدے کو پورا کرنے، مسلمانوں سے دوستی کرنے، کفار کی دوستی و محبت جیسی شنیع برائی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 11 نومبر 2023ء بمطابق 27 ربیع الاٰخر 1445ھ کی شب عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں ہفتہ وار مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

شیخ طریقت امیر اہلسنت علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے عاشقانِ رسول کی جانب سے ہونے والے سوالات کے حکمت بھرے جوابات ارشاد فرمائیں۔

مدنی مذاکرے چند مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:

سوال: حافظ کی فضیلت زیادہ ہے یاعالم کی؟

جواب: عالم کی فضیلت زیادہ ہے ،بروزِ قیامت عالم کو روک لیا جائے گا،وہ لوگوں کی شفاعت کریں گے، ان کی سفارش سے لوگوں کو جنت میں داخل کیا جائے گا۔

سوال:کیا آبِ زم زم کا پانی کہنا درست ہے؟

جواب:آب زم زم کا معنی ہے زم زم کا پانی۔آبِ زم زم کا پانی میں لفظ" پانی" زائدہے۔ اسی طرح شب ِبراءت کی رات میں لفظ "رات" زیادہ ہے اور "برائے مہربانی کرکے" میں لفظ" کرکے" زیادہ ہے۔

سوال : "محمد" نام رکھنے کی کیا فضیلت ہے؟

جواب : حدیث پاک ہے :جس کے یہاں لڑکا پیدا ہو اور وہ میری مَحَبَّت اور میرے نام سے بَرَکت حاصِل کرنے کیلئے اس کا نام محمد رکھےتو وہ اور اُس کا لڑکا دونوں جنّت میں جائیں گے۔ (کنزالعمال،جز:15،ج 8،ص174، حدیث: 45215 ) امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کو نقل کرکے فرماتے ہیں: فقیر غفراﷲ تعالیٰ نے اپنے سب بیٹوں بھتیجوں کاعقیقے میں صرف محمدنام رکھا پھرنامِ اَقْدس کے حفظِ آداب اور باہم تَمَیُّز (یعنی آپس میں پہچان) کے  لئے عُرف جُدا مقرر کئے۔بِحَمْدِللہ فقیرکے 5 محمد اب موجود ہیں اور 5 سے زائد اپنی راہ گئے (یعنی انتقال کرگئے)۔ (فتاویٰ رضویہ،ج24،ص689)

سوال: رزق میں برکت کا نسخہ بتادیجئے؟

جواب: فجرکی نمازمسجدمیں پڑھ کر امام صاحب ،مؤذن اورخادم کوکچھ رقم پیش کردیں،آپ کے محلے میں جو ساداتِ کرام ہیں ،آپ کے رشتے داروں میں جو غریب ہیں انہیں صدقہ دیں ۔ بقر عید سے پہلے کسی غریب کے گھرقربانی کے لیےبکرااوراس کے ذبح کے اخراجات دے دیں ۔وہ اوران کے بچے دعائیں دیں ، رزق میں برکت ہوگی ۔ ان شاۤء اللہُ الکریم

سوال: سب سے افضل صدقہ کون ساہے؟

جواب: آپ کا اپناعزیز،رشتہ دارجو حق دارہے اورآپ سے ناراض ہے تو اسے صدقہ دیناافضل ہے ۔جس کو صدقہ دیں ،چھپاکر دیں ،اسے کوئی کام بھی نہ بولیں تاکہ اسے یہ نہ لگے کہ مجھے رقم دی ہے تو اب کام بھی بول دیا ہے۔

سوال:کیابددعا بھی قبول ہوتی ہے؟

جواب:جی ہاں! مظلوم انسان اگرچہ وہ کافرہوبلکہ جانورکی بددعا بھی قبول ہوتی ہے، البتہ مُوذی (تکلیف دینے والے)کیڑوں مکوڑوں وغیرہ کو تکلیف سے بچنے کے لیے مارسکتے ہیں، مگرمارنے میں جتنی تکلیف دینا ضروری ہوصرف اسی کی اجازت ہے بِلاوجہ تکلیف نہیں دے سکتے ۔

سوال : امام اعظم کون تھے؟

جواب : امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃ اللہ علیہ قرآن وحدیث کے بہت بڑے امام وعالم تھے ۔یہ تابعی بزرگ تھے(یعنی آپ نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی زیارت و صحبت کا شرف پایا ہے) ۔ان کے پیروکار حنفی کہلاتے ہیں۔

سوال: جب دل غمگین ہو تو کیا بات یادکریں کہ دل کو سکون نصیب ہوجائے؟

جواب: سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جب کبھی غمگین ہوتے تو یہ دعاپڑھا کرتے تھے :يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْثُ ۔ترجمہ: اے ہمیشہ زندہ رہنے والےاوراے تمام مخلوق کو قائم رکھنے والے، میں تیری رحمت کا طلبگار ہوں۔ (سنن ترمذی ،رقم الحدیث: 3534 ) دُرُودشریف میں دکھوں کا علاج ہے ۔اکثررنج وغم گناہوں کی وجہ سے آتے ہیں اوردُرُودشریف پڑھنے سے گناہ معاف ہوتے ہیں ۔یہ پڑھنے سے سکون ملے گا۔ ان شاء اللہ الکریم

سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” فیضانِ جمُادَی الاُولیٰ و جُمادَی الاُخْریٰ“ پڑھنے یاسُننے والوں کوامیراہل سنت دامت برکاتہم العالیہ نے کیا دُعا دی ؟

جواب: یاربَّ المصطفٰے! جو کوئی 14 صفحات کا رسالہ ” فیضانِ جمُادَی الاُولیٰ و جُمادَی الاُخْریٰ“پڑھ یا سُن لے، اُسے اسلامی مہینوں کا ادب نصیب فرمااور اُس کی ماں باپ سمیت بے حساب مغفرت فرما۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


دنیا میں تقریباً اٹھارہ ہزار مخلوقات ہیں ۔جس میں جن و انس بھی شامل ہیں اللہ پاک نے سب کو اپنی عبادت کے لئے پیدا فرمایا اور  اللہ پاک نے زمین میں اپنا خلیفہ آدم علیہ السّلام کو بنایا اور آپ سے ہی نسل انسان کا آغاز کیا اور اسی طرح سب سے پہلے آپ علیہ السّلام کو نبوت سے نوازا اور آپ کے بعد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے اور اللہ کا پیغام لوگوں تک عام کیا اسی طرح سب سے آخر میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مبعوث فرمایا ۔ پس جو شخص اللہ پاک کو خالق اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو آخری نبی تسلیم کرتا اور اسلام کے بنیادی عقائد کو تسلیم کرتا ہے وہ مؤمن ہے۔ آپ کو مؤمن کا علم ہو گیا ہے مگر ہمارا موضوع ہے مؤمن کی صفات چلیے! ہم مؤمن کے اوصاف قراٰنِ کریم سے معلوم کرتے ہیں ۔

قراٰن سے مؤمنوں کے چند اوصاف ملاحظہ کیجئے:

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

مفسرین نے اس آیت کے تحت مؤمنوں کے تین اوصاف بیان فرمائے ہیں ۔ پہلا وصف یہ ہے کہ جب اللہ کو یاد کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں ۔اللہ پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔ پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیائے کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ پاک سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر، الانفال، تحت الآیۃ: 2 ، 5 / 450 ملتقطاً)

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خوف خدا : حضرت حسن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے ایک مرتبہ درخت پر پرندے کو بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا: اے پرندے! تیرے لئے کتنی بھلائی ہے کہ تو پھل کھاتا اور درخت پر بیٹھتا ہے کاش! میں بھی ایک پھل ہوتا جسے پرندے کھا لیتے۔ (کتاب الزہد لابن مبارک، باب تعظیم ذکر اللہ ، ص81، حدیث: 240)

دوسرا وصف: اللہ پاک کی آیات سن کر اُن کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے ۔ یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

تیسرا وصف : وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ (خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 2 ، 2/ 176)

اسی طرح قراٰن میں اللہ پاک مؤمنوں کے مزید اوصاف بیان فرماتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، یعنی جب وہ نماز ادا کرتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔(مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2، ص751)

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) اس آیت کے تحت اللہ مؤمنوں کا وصف بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ مؤمن فضول باتیں یعنی جن کا کوئی فائدہ نہیں ان سے دوری اختیار کرتے ہیں ۔

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیت کے تحت اللہ پاک فرماتا ہے کہ مؤمنوں کا وصف یہ بھی ہے کہ وہ لوگ اللہ کی راہ میں زکوٰۃ دیتے ہیں۔ یعنی زکوٰۃ والوں کا وصف اللہ قراٰن میں بیان فرما رہا ہے۔ مگر افسوس! آج کا مسلمان اس وصف سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ مال کی محبت نے اسے اندھا کر دیا ہے لہٰذا اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو زکوٰۃ ادا کرنے کی سعادت بخشے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔

افسوس آج ہم نہ امانت میں ایمانداری کرتے ہیں اور نہ ہی وعدوں کو پورا کرتے ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 9)جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔( خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9 ، 3 / 321، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9، ص752، ملتقطاً)

ذرا سوچیے! اور اپنا جائزہ کریں کہ کیا اللہ نے مؤمنوں کے جو اوصاف قراٰنِ کریم میں ارشاد فرمائے ہیں ہمارے اندر وہ اوصاف ہیں کیا؟ کیا ہمارے اندر خوف خدا ہے کیا؟ کیا ہم نمازیں پڑھتے ہیں کیا؟ کیا ہم لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ؟ وغیرہ ۔میری دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو قراٰنِ کریم کے مطابق زندگی ڈھالنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں مؤمنوں میں شامل فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اہلِ ایمان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّهٗ حَیٰوةً طَیِّبَةًۚ-وَ لَنَجْزِیَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۷) ترجمۂ کنزالایمان: جو اچھا کام کرے مرد ہو یا عورت اور ہو مسلمان تو ضرور ہم اسے اچھی زندگی جِلائیں گے اور ضرور انہیں ان کا نیگ دیں گے جو ان کے سب سے بہتر کام کے لائق ہو۔ (پ 14 ، النحل: 97 ) اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ جو مرد یا عورت نیک عمل کرے اور وہ مسلمان ہو تو ہم ضرور اسے دنیا میں حلال رزق اور قناعت عطا فرما کر اور آخرت میں جنت کی نعمتیں دے کر پاکیزہ زندگی دیں گے۔ بعض علما نے فرمایا کہ اچھی زندگی سے عبادت کی لذت مراد ہے ۔

حکمت :مؤمن اگرچہ فقیر بھی ہو اُس کی زندگانی دولت مند کافر کے عیش سے بہتر اور پاکیزہ ہے کیونکہ مؤمن جانتا ہے کہ اس کی روزی اللہ پاک کی طرف سے ہے جو اُس نے مقدر کیا اس پر راضی ہوتا ہے اور مؤمن کا دل حرص کی پریشانیوں سے محفوظ اور آرام میں رہتا ہے اور کافر جو اللہ پاک پر نظر نہیں رکھتا وہ حریص رہتا ہے اور ہمیشہ رنج ، مشقت اور تحصیلِ مال کی فکر میں پریشان رہتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ نیک اعمال پر ثواب ملنے کے لئے مسلمان ہونا شرط ہے ، کافر کے تمام نیک اعمال بیکار ہیں ۔(تفسیرِ خازن،سورة النحل، تحت الآیۃ: 97 ، 3 / 141-142، ملخصاً)

انسان و مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا سب سے پہلا تعلّق اپنے ربّ کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق و مالک و رازق ہے قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر اللہ پاک پر ایمان رکھنے والے مؤمنین کے اوصاف و کمالات بیان کئے گئے ہیں ۔

آیئے! اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰنِ مجید میں مؤمن مرد کے جو اوصاف و کمالات بیان کئے ہیں ان میں سے کچھ کا مطالعہ کرتے ہیں:

(1) نماز تو مسلمان کے لئے معراج ہے قراٰنِ مجید میں کثیر مقامات پر اللہ پاک نے ایمان والوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیا ہے اور مسلمان ، مؤمن مرد وقت پر پابندی اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے ۔

چنانچہ اللہ پاک قراٰنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔( تفسیرِ مدارک،سورة المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ، ص751)

نماز میں ظاہری و باطنی خشوع: نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیشِ نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(تفسيرِ صاوی، سورة المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ،4 / 1352)

(2) مؤمن مرد فرض ہونے کی صورت میں زکوٰۃ بھی ادا کرتا ہے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں بھی کئی مقامات پر ارشاد فرمایا ہے کہ زکوٰۃ دو ، اور مؤمن مرد اللہ پاک کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے زکوٰۃ بھی دیتا ہے اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں بھی فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4) اس آیتِ مبارکہ میں مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ایک وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’ تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں۔( البحر المحیط ، سورة المؤمنون ، تحت الآیۃ : 4 ، 6 / 366)

(3) مؤمن مرد کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اللہ پاک کے دیئے ہوئے مال میں سے اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس کا ذکر بھی اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا کہ: ﴿وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں اٹھائیں۔ (پ1،البقرۃ:3)اس آیتِ کریمہ میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا ہے کہ وہ اللہ پاک کے دیئے ہوئے رزق میں کچھ اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ راہِ خدا میں خرچ کرنے سے یا زکوٰۃ مراد ہے جیسے کئی جگہوں پر نماز کے ساتھ زکوٰۃ ہی کا تذکرہ ہے یا اس سے مراد تمام قسم کے صدقات ہیں جیسے غریبوں ، مسکینوں ، یتیموں ، طلبہ ، علماء اور مساجد و مدارس وغیرہا کو دینا نیز اولیائے کرام یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے جو خرچ کیا جاتا ہے وہ بھی اس میں داخل ہے کہ وہ سب صدقاتِ نافلہ ہیں۔

(4) مؤمن مرد کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جب مؤمن مرد کے سامنے اللہ پاک کا نام لیا جائے تو ربّ کریم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے ، وہ گناہ کرنے سے باز آ جاتا ہے ، اللہ پاک کی نافرمانیاں کرنے سے رک جاتا ہے اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔ (پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ایک وصف یہ بیان کیا گیا ہے کہ  جب اللہ پاک کویاد کیا جائے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں۔

  اللہ پاک کا خوف دو طرح کا ہوتا ہے: (1) عذاب کے خوف سے گناہوں کو ترک کر دینا۔ (2)اللہ پاک کے جلال، اس کی عظمت اور اس کی بے نیازی سے ڈرنا۔  پہلی قسم کا خوف عام مسلمانوں میں سے پرہیز گاروں کو ہوتا ہے اور دوسری قسم کا خوف اَنبیاء و مُرسَلین، اولیاء کاملین اور مُقَرَّب فرشتوں کو ہوتا ہے اور جس کا اللہ پاک سے جتنا زیادہ قرب ہوتا ہے اسے اتنا ہی زیادہ خوف ہوتا ہے۔ (تفسیرِ کبیر،سورة الانفال، تحت الآیۃ: 2،  5/ 450 ملتقطاً)

(5) مؤمن مرد کی صفات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ جب اس کے سامنے قراٰنِ پاک کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو اس کا اپنے رب پر بھروسہ اور ایمان مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ اس کا ذکر بھی اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔(پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

(6) مؤمن مرد کے اوصاف میں سے ہے کہ وہ تمام امور اللہ پاک کے سپرد کر دیتا ہے۔ اس کا ذکر اللہ کریم قراٰنِ مجید میں یوں فرماتا ہے کہ: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2) اس آیتِ کریمہ میں ہے کہ وہ  اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتے ہیں ، اس کے علاوہ کسی سے امید رکھتے ہیں اور نہ کسی سے ڈرتے ہیں۔ ( تفسیرِ خازن، سورة الانفال، تحت الآیۃ: 2،  2 / 176)

توکل کا حقیقی معنی: امام فخر الدین رازی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: ’’توکل کا یہ معنی نہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور اپنی کوششوں کو مُہمَل چھوڑ دے جیسا کہ بعض جاہل کہتے ہیں بلکہ توکل یہ ہے کہ انسان ظاہری اسباب کو اختیار کرے لیکن دل سے ان اَسباب پر بھروسہ نہ کرے بلکہ اللہ پاک کی نصرت ،اس کی تائید اور اس کی حمایت پر بھروسہ کرے ۔  (تفسیر کبیر،سورة اٰل عمران، تحت الآیۃ: 159 ، 3/ 410) 

(7) مؤمن مرد کی صفات میں سے ہے کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ ترجمۂ کنزالایمان: وہ جو نماز قائم رکھیں ۔ (پ21، لقمٰن: 4) اس آیتِ کریمہ میں مؤمن مرد کا وصف بیان کیا گیا کہ وہ نماز قائم کرتے ہیں۔ نماز قائم کرنے سے مراد یہ ہے کہ نماز کے ظاہری اور باطنی حقوق ادا کرتے ہوئے نماز پڑھی جائے۔ نماز کے ظاہری حقوق یہ ہیں کہ ہمیشہ، ٹھیک وقت پر پابندی کے ساتھ نماز پڑھی جائے اور نماز کے فرائض، سنن اور مستحبات کا خیال رکھا جائے اور تمام مفسدات و مکروہات سے بچا جائے جبکہ باطنی حقوق یہ ہیں کہ آدمی دل کوغیرُ اللہ  کے  خیال سے فارغ کرکے ظاہر و باطن کے ساتھ بارگاہِ حق میں متوجہ ہو اور بارگاہِ الٰہی میں عرض و نیاز اور مناجات میں محو ہو جائے۔( تفسیرِ بیضاوی،سورة البقرۃ، تحت الآیۃ: 3 ، 1/ 115-117)

(8) مؤمن مرد کی صفات میں سے ہے کہ وہ زمین پر اطمینان سے چلتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:63)اس آیت میں بیان ہوا کہ کامل ایمان والوں کا اپنے نفس کے ساتھ معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اطمینان اور وقار کے ساتھ، عاجزانہ شان سے زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔ مُتکبرانہ طریقے پر جوتے کھٹکھٹاتے، پاؤں زور سے مارتے اور اتراتے ہوئے نہیں چلتے۔( تفسیرِ مدارک،سورة الفرقان، تحت الآیۃ: 63، ص809، ملخصاً)

(9) مؤمن مرد کی صفات میں سے ہے کہ یہ دوسروں کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں اس کا ذکر اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ : ﴿ وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں ’’بس سلام‘‘۔(پ19،الفرقان:63)اس آیتِ کریمہ میں   یہ بیان ہوا کہ کامل ایمان والے دوسروں  کے ساتھ کیسے پیش آتے ہیں ، چنانچہ ارشاد فرمایا کہ جب جاہل ان سے بات کرتے ہیں  اور کوئی ناگوار کلمہ یا بے ہودہ یا ادب و تہذیب کے خلاف بات کہتے ہیں  تو کہتے ہیں  ’’بس سلام‘‘ اس سے مراد مُتارَکَت کا سلام ہے اور معنی یہ ہے کہ جاہلوں  کے ساتھ جھگڑا کرنے سے اِعراض کرتے ہیں  یا اس کے یہ معنی ہیں  کہ ایسی بات کہتے ہیں  جو درست ہو اور اس میں  ایذا اور گناہ سے سالم رہیں ۔(تفسیرِ ابو سعود، سورة الفرقان، تحت الآیۃ: 63 ، 4 / 148)

(10) مؤمن مرد کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اسراف نہیں کرتے اور نہ ہی تنگی کرتے ہیں۔ اس کا ذکر اللہ پاک نے اپنے پاک کلام قراٰنِ مجید میں یوں فرمایا ہے کہ: ﴿وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)


سب سے پہلے مؤمن کی تعریف ذکر کرتا ہوں: چنانچہ مردِ مؤمن ، امامِ اہلسنت ،اعلی حضرت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں:محمد رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہر بات میں سچا جانے ،حضور کی حقانیت کو صدق دل سے ماننا ایمان ہے جو اس کا مقر ہو(اقرار کرے) اسے مسلمان جانیں گے جبکہ اس کے کسی قول یا فعل یا حال میں اللہ و رسول (عزوجل و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کا انکار یا تکذیب یا توہین نہ پائی جائے ۔(فتاویٰ رضویہ ،29/ 254)

بنیادی طور پر صرف دو ہی گروہ ہیں: (1) اہلِ حق یعنی مسلمان(2)اہل باطل یعنی کافر

اللہ پاک نے اپنے فضل خاص کے ساتھ مؤمنوں سے جنت کا وعدہ فرمایا جبکہ کافروں کو ذلت و رسوائی کے عذاب کی وعیدیں سنائیں ۔چونکہ قراٰنِ مجید ، برھانِ عظیم میں مسلمانوں کیلئے کامل رہنمائی موجود ہے تو قراٰنِ مجید میں اللہ پاک نے مؤمنین کے کئی اوصاف بیان کئے تاکہ ان اوصاف کو حاصل کر کے مردِ مؤمن کامل مؤمن بن جائے اور دوسرا ان اوصاف کے ذکر کرنے میں ان لوگوں کی مدح سرائی بھی ہے جو ان اوصاف سے متصف ہیں ۔ ان میں سے کچھ اوصاف ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

قراٰنِ مجید پارہ 2 سورہ بقرہ آیت نمبر 165 میں ارشاد ہوتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)اس آیت سے معلوم ہوا کہ سچے مؤمن کا یہ وصف ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتا وہ ہر چیز میں رب کی رضا کا طالب ہوتا ہے اسکی گفتار اس کا کردار، اس کی ہر چیز رب تعالیٰ کی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہے ۔

شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال نے کہا

ہر لحظہ ہے مؤمن کی نئی شان، نئی آن

گفتار میں، کردار میں، اﷲ کی برہان!

قراٰنِ مجید پارہ 10 سورۃُ التوبہ آیت نمبر 71 میں ارشادِ باری ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ-اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور اللہ و رسول کا حکم مانیں یہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم کرے گا بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ10،التوبۃ:71)آیت مذکورہ میں مؤمنوں کے چند اوصاف ذکر کئے گئے : (1)سب مؤمن ایک دوسرے کے دوست ہیں ،ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہیں ۔(2)کامل مسلمان بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں ۔(3)تیسری نشانی کامل مؤمنوں کی یہ ہے کہ وہ نماز کے پابند ہیں ۔(4)زکوٰۃ ادا کرتے ہیں ۔(5)اور ان کا ایک بلند ترین وصف یہ بھی ہے کہ وہ ہر حال میں ہر مسئلے میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی کرتے ہیں ۔

قراٰنِ کریم پارہ 11 سورہ توبہ آیت نمبر 124 میں ارشادِ رب کریم ہے :﴿وَ اِذَا مَاۤ اُنْزِلَتْ سُوْرَةٌ فَمِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّكُمْ زَادَتْهُ هٰذِهٖۤ اِیْمَانًاۚ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ هُمْ یَسْتَبْشِرُوْنَ(۱۲۴) ترجمۂ کنزالایمان: اور جب کوئی سورت اترتی ہے تو ان میں کوئی کہنے لگتا ہے کہ اس نے تم میں کس کے ایمان کو ترقی دی تو وہ جو ایمان والے ہیں ان کے ایمان کو اس نے ترقی دی اور وہ خوشیاں منارہے ہیں۔ (پ11،التوبۃ:124) اس آیت میں مؤمنوں کا یہ وصف ذکر کیا گیا کہ وہ آیتوں کے اترنے سے خوشیاں مناتے ہیں کیونکہ اس طرح ان کا ایمان مزید مضبوط ہوتا ہے اور آخرت میں انکا اجرو ثواب زیادہ ہو جاتا ہے جبکہ منافقین آیتوں کا مذاق اڑاتے ہیں اور عذابِ نار کے حقدار بن جاتے ہیں ۔

قراٰنِ کریم کے پارہ 26 سورہ حجرات آیت نمبر 15 میں ارشادِ ربانی ہے:﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں ۔ ( پ 26، الحجرات: 15)اس آیت میں کامل مؤمنوں کے دو اوصاف مذکور ہیں : (1)وہ اللہ و رسول (جل جلالہ و صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)پر بغیر کسی شک و شبہ کے ایمان لاتے ہیں ۔(2)وہ اللہ کی راہ میں اپنی مالوں اور جانوں کے ذریعے جہاد کرتے ہیں۔

جہاد اسلام کا ایک اہم رکن ہے ۔ جہاد کو قراٰنِ مجید پارہ نمبر 4 میں مؤمن اور منافق کے درمیان پہچان کا ذریعہ قرار دیا گیا اور احادیث میں بھی اس کے کثرت سے فضائل ہیں ۔ ہیں ان میں سے ایک حدیث بطور برکت ذکر کرتا ہوں :

تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے :یہ دین قائم رہے گا اس پر مسلمانوں کی ایک جماعت جہاد کرتی رہے گی حتی کہ قیامت قائم ہوجائے گی۔ (مشکاۃ المصابیح ،کتاب الجہاد ، الفصل الاول ، حدیث:3801)

اہم مدنی پھول :قارئینِ کرام اس مضمون میں ذکر کردہ تمام اوصاف ہمارے لئے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں ہمیں چاہیے کہ دیکھیں کہ ہم میں یہ اوصاف پائے جاتے ہیں یا نہیں اگر یہ اوصاف موجود ہیں تو اللہ پاک کا شکر ادا کریں اور اگر نہیں پائے جاتے تو پھر ان اوصاف سے ہمیں خود کو آراستہ کرنا چاہیے تاکہ ہم دنیا و آخرت کی کامیابی سے سرفراز ہو جائیں

اللہ پاک ہمیں نبی کریم خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے عمل کی توفیق عطا فرمائے اور اخلاص کی نعمت سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسان کو پیدا فرمایا اور اپنی عبادت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا جن لوگوں نے اس کا حکم مانا وہ کامیاب ہو گئے جنہوں نے نافرمانی کی وہ ہمیشہ کے عذاب کے حقدار ٹھہرے ۔

کامیاب کون لوگ ہیں؟: اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اللہ پاک نے مؤمنین کو کامیاب گروہ فرمایا ساتھ ہی قراٰنِ پاک میں مؤمنین کی کئی صفات کو بھی بیان فرمایا ہے ۔ آئیے ان صفات کو عمل کی نیت سے پڑھتے ہیں:

( 1)اللہ پاک سے محبت کرنے والا : ایک بندۂ مؤمن تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ پاک سے محبت کرتا ہے۔ محبتِ الہٰی میں جینا اور محبتِ الہٰی میں مرنا اس کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم و گداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہِ نیاز میں سر بَسجود ہونا، یادِ الہٰی میں رونا، رضائے الہٰی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے یہ سب وہ اللہ کے لئے کرتا ہے۔ چنانچہ اللہ جل شانہ کا فرمان ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165)

( 2)خوف خدا : ایک مردِ مؤمن کی یہ نمایاں صفت ہوتی ہے وہ اپنے خالق و مالک عزوجل سے ڈرنے والا ہوتا ہے اس کا دل خوفِ خدا سے لبریز ہوتا ہے اس خوف کہ وجہ سے وہ گناہ کے قریب بھی نہیں جاتا ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں۔ (پ9،الانفال:2)

( 3)قراٰن سن کر مؤمن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے: مؤمن کامل جب قراٰنِ پاک کی تلاوت کو سنتا ہے یا پڑھتا ہے تو اس کے ایمان میں اور اضافہ ہوتا ہے ۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے ۔(پ9،الانفال:2) یاد رہے یہاں ایمان میں زیادتی سے ایمان کی مقدار میں زیادتی مراد نہیں بلکہ اس سے مراد ایمان کی کیفیت میں زیادتی ہے۔

( 4)اپنے رب پر بھروسہ کرنے والا : ایک مؤمن کامل اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتا ہے۔ یعنی وہ اپنے تمام کام اللہ پاک کے سپرد کر دیتا ہے ، اس کے علاوہ کسی سے امید نہیں رکھتا اور نہ کسی سے ڈرتا ہے

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

( 5)نماز میں خشوع و خضوع کرنے والا: کامل ایمان والا خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے ، اس وقت اس کے دل میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور اس کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔ وہ اللہ کے خیال کے علاوہ کسی کا خیال دل میں نہیں لاتا۔ چنانچہ ارشاد ربُّ العالمین ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں (پ18،المؤمنون:2) اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز میں خشوع وخضوع کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں ،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے بیٹے! نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ نماز میں اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔ (ترمذی، 2/ 102، حدیث: 589)

( 6)فضول گوئی سے بچنے والا : جہاں ایک مؤمن کامل ہر اس بات سے بچتا ہے جس میں گناہ ہوتا ہے ساتھ ہی وہ ایسی باتوں سے بھی بچتا ہے جن میں نہ گناہ اور نہ ثواب ہوتا ہے یعنی فضول باتوں سے اور لغویات سے اجتناب کرنے والا ہوتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

( 7)زکوٰۃ ادا کرنے والا : ایک نیک مسلمان جہاں تمام احکام الہیہ کو بجا لانے والا ہوتا ہے وہیں اسلام کے اہم ترین رکن زکوٰۃ کو بھی ادا کرتا ہے کیونکہ اس کے پیش نظر زکوٰۃ نہ دینے کا انجام اور اس سے بڑھ کر اپنے رب کریم کی رضا ہوتی ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

( 9)شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا : مردِ مؤمن اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے یعنی زنا اور زنا کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے وہ اگر اپنی بیوی اور شرعی باندی پر جائز طریقے سے صحبت کرے تو اس میں اس پر کوئی حرج نہیں۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

( 11،10) امانت اور وعدے کی رعایت کرنے والا : مؤمن کامل کا نمایاں وصف امین یعنی امانت دار ہونا بھی ہے وہ کبھی امانت میں خیانت نہیں کرتا، چاہے امانتیں اللہ پاک کی ہوں یا مخلوق کی، مال کی امانت ہو یا کسی کے راز کی، وہ ہر حال میں اس وصف سے موصوف ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ وعدے کو بھی پورا کرنے والا ہوتا ہے وہ کبھی وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں کو روکو۔ ( مستدرک،5 / 513، حدیث: 8130)

اللہ پاک ہمیں ان اوصاف کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں کامل مؤمن بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مؤمن عربی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں ایک معنی ہے "ایمان والا ، تصدیق کننده" (فیروز الغات ، نور الغات)

اور ایمان کے معنی ہیں " محکم یقین اور عقیدہ۔

اس طرح مردِ مؤمن سے مراد ہوا اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر محکم یقین رکھنے والا۔

مردِ مؤمن صفات کا مجمع ہوتا ہے۔ وہ محض احکامِ الہی سن کر خاموشی اختیار نہیں کرتا بلکہ دل و جان سے ان پر عمل کرتا ہے۔ اللہ پاک نے قراٰنِ حکیم میں مردِ مؤمن کی بہت ساری صفات کا ذکر کیا ہے جن میں سے چند ایک کا ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں ۔

(1)سب سے زیادہ اللہ سے محبت: ارشاد باری تعالیٰ ہے﴿وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ-﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں ۔ (پ2، البقرۃ:165) اللہ پاک نے فرمایا کہ مردِ مؤمن کو اللہ کے ساتھ سب سے زیادہ محبت ہوتی ہے ۔ یعنی عزیز وا قارب، مال و اولاد جان و عزت سے محبت تو ہوتی ہے مگر محبوب حقیقی کی محبت سب محبتوں پر غالب ہوتی ہے۔ اگر دنیاوی محبتیں اللہ کے احکام کی اطاعت میں رکاوٹ ہوں تو مردِ مؤمن ان محبتوں اور رکا وٹوں کو پاش پاش کر دیتا ہے اور محبوب حقیقی جو اس کے دل میں بسا ہے جس کا جمال اسے چہار سو نظر آتا ہے، اس کی بات مانتا ہے ۔یہی محبت کا تقاضہ ہے۔( تغیر ضیاء القراٰن ص :113)

(2) رضائے الہی کے لیے جان بھی قربان: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کوئی آدمی اپنی جان بیچتا ہے اللہ کی مرضی چاہنے میں اور اللہ بندوں پر مہربان ہے۔ (پ2،البقرۃ: 207)

در اصل مؤمن اپنے محبوب حقیقی یعنی اللہ سے عشق کرتا ہے اور عاشق تو محبوب کے لیے بلا خوف و خطر جان قربان کر دیتا ہے ۔ اقبال فرماتے ہیں:

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق

عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

(3) باطل سے شکست نہیں کھانا : ترجمۂ کنزالایمان: اور نہ سستی کرو اور نہ غم کھاؤ تمہیں غالب آؤ گے اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ4،اٰلِ عمرٰن:139)

غزوہ احد میں جو کچھ ہوا ممکن تھا کہ مسلمان ہمت ہار جاتے۔ اس لیے اللہ پاک نے فرمایا گھبراؤ نہیں تم ہی غالب ہوگئے اگر تم سچے مؤمن ہو۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس کے بعد صحابہ کرام کو بھی باطل سے شکست نہیں ہوئی ۔ (ضیاء القراٰن، اٰل عمرٰن:139)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ سچے مؤمن کی یہ صفت ہے کہ وہ باطل سے کبھی شکست نہیں کھاتا۔ آج اگر مسلمان دنیا میں کمزور ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ مؤمنین کی کمی ہے اگر ہم آج بھی اپنے اند مردِ مؤمن کی صفات پیدا کر لیں تو ہمارا مقابلہ کوئی نہیں کر سکے گا میں یہ پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔

فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو

اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندرا قطار اب بھی

(4) اللہ پاک کا ارشاد ہے : ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کو یاد کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

اس آیت میں بھی مردِ مؤمن کی تین صفات بیان کی گئی ہیں۔

ہمارا مضمون پڑھنا صرف پڑھنے لکھنے کی حد تک نہیں۔ ہونا چاہیے بلکہ دل و جان سے اس پر عمل کی کوشش بھی کیجیے۔ کیوں کہ اس وقت ملتِ اسلامیہ کو مردِ مؤمن کی اشد ضرورت ہے تاکہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے۔


الله پاک کا لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں مؤمن گھرانے میں پیدا کیا۔ اللہ پاک نے قراٰن میں مؤمن کی صفات کو کئی جگہوں پر ذکر کیا ۔ جس میں سے دس صفات آپ ملاحظہ فرمائے۔

مؤمن کی صفات :اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں ارشاد فرمایا : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مؤمن ہے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ اور انہیں ان کے وقتوں میں ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنت و نوافل سب کی حفاظت کرتے ہیں۔ (تفسیر خازن) (1) ایمان والوں کا پہلا وصف خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا بیان کیا گیا۔ (2) ایمان والوں کو ایک اور وصف بیان کیا گیا کہ وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں لہذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ پانچوں نماز کو پابندی کے ساتھ اور ان کے تمام حقوق کی رعایت کرتے ہوئے ادا کرے ۔ (3) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کے عذاب سے خوفزدہ ہیں ۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ مؤمن نیکی کے باوجود اللہ سے ڈرتا ہے جبکہ منافق گناہ کے باوجود بے خوف رہتا ہے۔ (4) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان لاتے ہیں اور اس کی تمام کتابوں کو مانتے ہیں۔(5) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ عرب کے مشرکوں کی طرح اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہیں کرتے ۔ ( تفسیر خازن) (6) اللہ نے قراٰن میں مؤمن کا ایک وصف یہ بھی بیان فرمایا کہ مؤمن کامیاب ہو گئے۔ اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گی کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہر نا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔ ( تفسیر کبیر) (7)مؤمن کا ایک وصف اور بیان کیا گیا کہ وہ ہر لہو و باطل سے بچے رہتے ہیں۔ (تفسیر خازن) (8) مؤمن کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ مالوں پر فرض ہونے والی زکوٰة دیتے ہیں۔ (9) مؤمنین کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ (10)مؤمنین کا ایک وصف یہ بھی بیان کیا گیا کہ وہ اپنی امانتوں اور اپنے بعد کی رعایت کرتے ہیں۔ حقیقی مؤمن وہ شخص ہے جس میں یہ اوصاف پائے جائے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی ان اوصاف پر عمل کرنے اور حقیقی مؤمن بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین 


انسان کی پہچان اس کی دولت، شہرت یا حسب و نسب سے نہیں ہوتی بلکہ اس کی صفات اور عادات سے ہوتی ہے۔ بری صفات انسان کی شخصیت کو بری طرح متاثر کرتی ہے، جبکہ اچھی صفات انسان کی شخصیت میں نکھار پیدا کرتی ہیں اور اچھی صفات ہی کی بدولت انسان اشرف المخلوقات کہلاتا ہے۔

اللہ پاک نے قراٰنِ کریم میں مؤمن مردوں کی صفات کا ذکر فرمایا ہے اور ان صفات کے حامل مؤمنین کو کامیاب فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک سورۂ مؤمنون میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1)

پھر اللہ پاک نے کامیاب مؤمنین کی صفات بیان کی کہ ان صفات کی وجہ سے مؤمنین کامیاب ہیں۔

(1) مؤمنین کی ایک صفت یہ ہے کہ وہ خشوع اور خضوع سے نماز ادا کرتے ہیں اور اپنی توجہ اپنے رب کی طرف رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2)مؤمنین لغو اور فضول باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور اللہ کا ذکر کرتے ہیں یا خاموش رہتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)

(3) مؤمنین اپنے مال سے فرض زکوٰة ادا کرتے ہیں اور اپنے مال کو پاک کرتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(4) مؤمنین اپنی بیویوں کے سوا کسی غیر عورت کی طرف نہیں جاتے اور اپنے آپ کو زنا سے محفوظ رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5)

(5) مؤمنین اپنے پاس رکھوائی گئی امانات کی حفاظت کرتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)

(6) مؤمنین اپنی نماز کی حفاظت کرتے ہیں اور نماز قضا نہیں کرتے۔ نماز کو اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں اور نماز کی شرائط و فرائض کا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ (پ18، المؤمنون: 9)

(7) مؤمنین کے سامنے جب اللہ پاک کا ذکر ہوتا ہے تو وہ اللہ کی بے نیازی اور عذاب سے ڈر جاتے ہیں۔ اور جب ان کے سامنے اللہ پاک کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کا ایمان اور اللہ پاک پر بھروسہ بڑھ جاتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ کویاد کیا جائے توان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کی تلاوت کی جاتی ہے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوجاتا ہے اور وہ اپنے رب پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔(پ9،الانفال:2)

(8) مؤمن دوسرے مؤمنین کا بھی خیال دکھتا ہے۔ اپنی آخرت اچھی کرنے کے ساتھ دوسروں کی آخرت اچھی کرنے کے لیے انہیں نیکی کی دعوت دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکاة ادا کرتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍۘ-یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗؕ- ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے منع کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانتے ہیں ۔(پ10،التوبہ:71)

ان صفات کے حامل مؤمنین کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہی لوگ وارث ہیں ۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔(پ18، المؤمنون:10تا11)

سورةُ الانفال میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہی سچے مسلمان ہیں ، ان کے لیے ان کے رب کے پاس درجات اور مغفرت اور عزت والا رزق ہے۔ (پ9،الانفال: 4)

سورۂ توبہ میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ سَیَرْحَمُهُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ(۷۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ وہ ہیں جن پر عنقریب اللہ رحم فرمائے گا۔ بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے۔(پ10،التوبہ:71)

اللہ پاک مؤمنین سے راضی ہو گیا اور ان سے جنت کا وعدہ فرمایا ہے: ﴿وَعَدَ اللّٰهُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَ مَسٰكِنَ طَیِّبَةً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍؕ-وَ رِضْوَانٌ مِّنَ اللّٰهِ اَكْبَرُؕ-ذٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ۠(۷۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللہ نے مسلمان مردوں اور مسلمان عورتوں سے جنتوں کا وعدہ فرمایا ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں ، ان میں ہمیشہ رہیں گے اور عدن کے باغات میں پاکیزہ رہائشوں کا (وعدہ فرمایا ہے) اور اللہ کی رضا سب سے بڑی چیز ہے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔(پ10،التوبۃ:72)

مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں ان صفات کو اپنانا چاہئے اور اللہ پاک کو راضی کرنا چاہیے تاکہ ہم اللہ پاک کی جنت کے وارث بن سکیں۔

جہاں تمام ہے میراث مردِ مؤمن کی

مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک


الله پاک نے قراٰن میں مؤمنین کی صفات کو جابجا بیان فرمایا ہے۔ اس بات سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مؤمن اللہ پاک کے نزدیک کس قدر قابلِ شرف ہے۔ کہ اللہ پاک نے مؤمن کی صفات کو قراٰن میں بھی بیان فرما ہے۔ آپ کے سامنے ان میں سے ہم کچھ بیان کریں گے ۔ ملاحظہ کیجیے:

(١)نماز میں خشوع خضوع پیدا کرنے والے: ایمان والے خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(2) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے: مؤمنین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور وہ بے حیائی سے بچا کرتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)

(3)بیہودہ باتوں سے بچنے والے: مؤمنین کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ بیہودہ باتوں سے بچا کر تے ہیں جیسا کہ رب کریم ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(4)زکوٰۃ دینے والے: مؤمنین کی ایک صفت ت یہ بھی ھیکہ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جیسا کہ میرے پیارے رب کا فرمان عظیم ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)

(5)غیب پر ایمان لانے والے: مردِ مؤمن کی ایک صفت یہ بھی ھیکہ وہ غیب پر ایمان لاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں ۔(پ1، البقرۃ:3)

نوٹ: غیب سے مراد امام نسفی رحمۃُ اللہ علیہ کا قول: تفسیر مدارک میں غیب سے مراد قلب کے ہے آپ فرماتے ہیں مؤمن وہ ہے جو دل سے ایمان لائے۔

الله پاک ہمیں بھی ان صفات کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انسان و مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے رب کریم سے ہے کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے قراٰنِ پاک میں کئی مقامات پر اللہ کریم پر ایمان رکھنے والے مؤمن کے اوصاف کا بیان ہے آئیے قراٰنِ پاک کی جن ایات میں مردِ مؤمن کی شان بیان کی گئی، ان کا مطالعہ کرتے ہیں :

(1) مسلمان کے سامنے اللہ کریم کا نام لیا جائے تو رب عظیم کے جلال و ہیبت سے اس کا دل ڈر جاتا ہے اور جب اس کے سامنے اپنے رب پر بھروسا اور ایمان مزید مضبوط ہو جاتا ہے۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ یَتَوَكَّلُوْنَۚۖ(۲) ترجمۂ کنزالایمان: ایمان والے وہی ہیں کہ جب اللہ یاد کیا جائے ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان پر اس کی آیتیں پڑھی جائیں ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں۔(پ9،الانفال:2)

(2) مؤمن اللہ کریم کی بارگاہ میں بہت توبہ و استغفار کرنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان خدا وندی ہے: ﴿اَلتَّآىٕبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآىٕحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ ترجمۂ کنزالایمان: توبہ والے عبادت والے سراہنے والے روزے والے رکوع والے سجدہ والے ۔ (پ 11،التوبۃ : 112)

(3 ) مؤمن کو جب اللہ کریم اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا حکم سنایا جاتا ہے تو فوراً مانتا ہے۔ ﴿اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(۵۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے جب اللہ اور رسول کی طرف بلائے جائیں کہ رسول ان میں فیصلہ فرمائے تو عرض کریں ہم نے سُنا اور حکم مانا اور یہی لوگ مراد کو پہنچے۔ (پ 18،النور: 51)

(4) نماز مؤمن کی معراج ہے مؤمن وقت پر اور خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والا ہوتا ہے اللہ پاک کا ارشاد : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)

(5)مؤمن فرض روزوں کی پابندی کرنے والا ہوتا ہے اللہ پاک کا فرمان ہے : ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ(۱۸۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔(پ2،البقرۃ:183)

(6) مؤمن وہ اللہ کریم کے دیئے ہوئے مال و رزق سے اسی کی راہ میں خرچ کرتا ہے اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَؕ(۳) ترجمۂ کنزالعرفان: اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔ (پ1، البقرۃ: 3)

(7) مؤمن فضولیات اور بیہودہ باتوں اور کاموں سے دور رہنے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ فرمان خدا وندی ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)

(8) مؤمن بھلائی اور نیکی کے کاموں کی طرف جلدی بڑھنے والا ہوتا ہے ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿ اُولٰٓىٕكَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ هُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَ(۶۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یہ لوگ بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی بھلائیوں کی طرف سبقت لے جانے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:61)

(9) مؤمن اپنے بھائی کی پیٹھ پیچھے برائی نہیں کرتا ۔ قراٰنِ مجید میں ہے:﴿ وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ ترجَمۂ کنزالایمان: اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو۔ ( پ26،الحجرات: 12 )

(10) مؤمن زکوة فرض ہونے کی صورت میں ادا کرتا ہے ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:4)

اللہ پاک ہمیں بھی مؤمن کی صفات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم