شناور غنی بغدادی(درجہ سادسہ
مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضان مدینہ فیصل آباد، پاکستان)
معزز قارئینِ کرام ! مالِ حرام آفت ہے اور آہ! اب وہ دور
آچکا ہے کہ معاشرے سے حلال و حرام کی تَمیز ختم ہو گئی ہے، انسان مال کی محبت میں
اندھا ہوچکا ہے، اسے بس مال چاہئے۔ چاہے جیسے آئے۔ یہ بات ذہن نشین رکھیے کہ مالِ
حرام میں کوئی بھلائی نہیں، بلکہ اس میں بربادی ہی بربادی ہے، مالِ حرام سے کیا
گیا صدقہ نہ قبول ہوتا ہے اور نہ ہی اس میں برکت ہوتی ہے اور چھوڑ کر مرے تو عذابِ
جہنم کا سبب بنتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ مالِ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ جب لقمۂ
حرام پیٹ میں پہنچتا ہے تو اس سے بننے والا خون انسان کو مزید برائیوں پر ابھارتا
ہے ۔یوں وہ برائیوں کے دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اپنی عاقبت برباد کر
بیٹھتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس مال حلال میں برکت ہی برکت ہے اور نہ صرف اخروی فوائد
بلکہ بہت سے دنیاوی فوائد بھی حاصل ہوتے ہیں اور طلبِ حلال مسلمان پر فرض ہے جیسا
کہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: حلال کا طلب کرنا ہر
مسلمان پر فر ض ہے۔(رواہ الطبرانی فی الاوسط بلفظ طلب الحلال واجب
،6/231،حدیث:8610) لہذا ایک مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ مال حلال ہی
استعمال کرے اور مالِ حرام سے بچتا رہے۔نیز حرام کی کمائی سے کوسوں دُور رہنے میں
ہی بھلائی ہے کیونکہ اس میں ہرگز ہرگز ہرگز برکت نہیں ہو سکتی۔ کیونکہ ایسا مال
اگرچہ دنیا میں بظاہر کچھ فائدہ دے بھی دے مگر آخرت میں وبالِ جان بن جائے گا
۔لہٰذا اس کی حِرْص سے بچنا لازِم ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی
ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک
زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی یہ پرواہ نہیں کریگا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے وہ
حرام ہے یا حلال۔ (صحیح البخاری،کتاب البیوع،باب من لم یبال من
حیث...الخ،2/7،حدیث:2059) ایک مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں نہ صرف حرام کمانے سے بچنا
چاہئے بلکہ حرام کھانے سے بھی بچنا چاہئے ، اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بہتری
ہے۔
آیت قراٰنی: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ
تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا
اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک
دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور
اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النسآء:29)
مالِ حرام کمانے اور کھانے کے متعلق بہت سی احادیث وارد
ہوئی ہیں جن میں مذمت اور اس کا وبال بیان کیا گیا ہے۔ آئیے مالِ حرام کمانے اور
کھانے کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کرتے ہیں تا کہ ہم اس فعلِ حرام کے
ارتکاب سے بچنے میں کامیاب ہو سکیں ۔
(1)لقمۂ حرام قبولیتِ دُعا میں رکاوٹ: لقمۂ حرام کا ایک وبال یہ بھی ہے کہ یہ دعاؤں کی قبولیت
میں رکاوٹ کا سبب بن جاتا ہے جیسا کہ حضرت سَیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے
مروی ہے کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ایک شخص کا ذکر کيا جو طويل سفر کرتا ہے، جس کے بال پریشان اور بدن غبار آلود ہے
اور اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر يا ربّ! يا ربّ! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا
حرام ہو، پینا حرام ، لباس حرام، اور غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسندامام احمد ، مسند ابی ھریرہ ،3 /220،حدیث:8356)
(2)چالیس
دن تک قبولیت سے محروم: ایک مرتبہ حضرت سیدنا سعد بن
ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی : یا رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم! کیا وجہ ہے کہ میں دعا کرتا ہوں لیکن قبول نہیں ہوتی ؟ سرکارِ
دوعالَم، نورِ مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اے سعد ! حرام
سے بچو! کیونکہ جس کے پیٹ میں حرام کا لقمہ پڑ گیا وہ چالیس دن تک قبولیت سے محروم
ہو گیا۔(تنبیہ الغافلین،باب الدعا،ص217)
(3)جنت میں داخل نہیں ہوگا: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ وہ گوشت جنت میں داخل نہیں ہو گا جو حرام
غذا سے بنا ہو گا۔ اور ہر وہ گوشت جو حرام غذا سے بنا ہو جہنم اس کا زیادہ حق دار
ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب البیوع، باب الکسب وطلب الحلال،الفصل الثانی،
2/131،حدیث:2772)
(4) آگ کا توشہ: حضرت سیِّدُنا عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،
قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعث ِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: بندہ مالِ حرام میں سے جو بھی کمائے
اور اسے خیرات کرے تو وہ قبول نہیں ہوتا اور اسے خرچ کرے تو اس میں برکت نہیں ہوتی
اور اسے اپنے بعد والوں کے لئے چھوڑے تو وہ اس کے لئے آگ کا توشہ ہوگا۔ (المسند
للامام احمد بن حنبل ،مسند عبداللہ بن مسعود،2/33،حدیث: 3672،بتغیرٍقلیل)
(5)حرام کے ایک درہم کا اثر: حضرت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: جس
نے 10 درہم کا کپڑا خریدا اور اس میں ایک درہم حرام کا تھا تو جب تک وہ لباس اس کے
بدن پر رہے گا اللہ پاک اس کی کوئی نماز قبول نہیں فرمائے گا۔ پھر آپ رضی اللہ عنہ
نے اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال کر ارشاد فرمایا: اگر میں نے یہ بات تاجدارِ رسالت،
شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے نہ سنی ہو تو میرے کان بہرے ہو
جائیں۔(المسند للامام احمد بن حنبل،2/416،حدیث: 5736)
(6)تنگ دستی کی وجہ سے بھی حرام نہ کمائیے: حضرت سیِّدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں
کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے : اے
لوگو! تم میں سے ہرگز کوئی موت کا شکار نہ ہو گا جب تک کہ وہ اپنا مکمل رزق نہ پا
لے لہٰذا تم رزق کے متعلق تنگ دل نہ ہو اور اللہ پاک سے ڈرو اور عمدہ طریقے سے رزق
طلب کرو، اور اللہ پاک کی حلال کردہ چیزیں لے لو اور حرام کردہ چھوڑ
دو۔(المستدرک،کتاب الرقاق، باب الحسب المال والکرم التقوی،5/464، حدیث:7994)
(7)مالِ حرام سے
کیا گیا صدقہ مقبول نہیں:امام احمد عبداﷲ بن مسعود
رضی اللہ عنہ سے راوی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو
بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو
اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے
(یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ پاک برائی
سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو محو فرماتا ہے(مٹاتا ہے)بے شک خبیث
کو خبیث نہیں مٹاتا۔(المسند للإمام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن
مسعود،2/33،حدیث:3672)
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! احادیث کریمہ میں اس کے علاوہ
بھی کئی نقصانات اور وبال بیان کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ و رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رضا حلال کمانے اور حلال کھانے میں ہے اور کسبِ
حرام اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ناراضی کا سبب ہے۔ اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں طلب و کسب حرام سے بچنے اور حلال کمانے اور کھانے کی توفیق عطا
فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
مدنی مشورہ:حلال و حرام کے متعلق مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالہ "
حلال طریقے سے کمانے کے50 مدنی پھول" اور "سود اور اس کا علاج" کا
مطالعہ مفید ہے۔
حافظ محمد حنین قادری (درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان اوکاڑوی کراچی ، پاکستان)
حرام مال کی تعریف: جو مالِ حرام کے ذریعے سے حاصل کیا جائے وہ حرام مال ہے۔
حرام مال کی مثالیں : غصب، چوری، ڈاکہ، رشوت، اور جوئے کے ذریعے سے حاصل کیا ہوا مال، سود ، بھتہ
خوری اور ہراساں (خوفزدہ) کرکے وصول کیا ہوا مال، ناچ گانا ، زنا اور شراب کی
کمائی ،داڑھی منڈانا وغیرہ حرام کاموں کی اجرت وغیرہ ۔
حرام مال کے متعلق مختلف احکام : (1) حرام ذریعے سے مال حاصل کرنا گناہ اور جہنم میں لے
جانے والا کام ہے (2) جس کا لینا حرام دینا بھی حرام ہے۔ (مثلاً سود لینا اور دینا
دونوں حرام ہے، رشوت لینا اور دینا دونوں حرام ہے) (3) مالِ حرام میں سے کوئی پیسہ
اپنے کھانے، پہننے یا کسی اور مصرف (کام) میں لگانا حرام ہے۔( ظاہری گناہوں کی
معلومات،ص 99)
حرام مال کے گناہ میں مبتلا ہونے کے بعض اسباب: علمِ دین کی کمی ( کہ خرید و فروخت کے شرعی احکام نہ
جاننے کے سبب ایک تعداد ہے جو نہ چاہتے ہوئے بھی حرام میں جا پڑتی ہے) ، مال و
دولت کی حرص،راتوں رات امیر بننے کی خواہش ، مفت خوری کی عادت اور کام کاج سے دور
بھاگنا ، بری صحبت (جیسے جوا کھیلنے والوں کے پاس اٹھنے بیٹھنے والا خود بھی جوا
کھیلنے میں مبتلا ہو جاتا ہے)۔
حرام کے ذریعے مال
کمانے کی مذمت: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بندہ
حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر
صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہوگا اور اگر اُس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر
جائے گا تو وہ اس کیلئے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک برائی کو برائی
سے نہیں مٹاتا ، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/ 505 ،
حدیث : 3744)
حرام کھانے کی مذمت: رسولِ انور صاحب کوثر صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: عذاب کے
مستحق لوگوں کے گھروں پر ہر دن اور ہر رات ایک فرشتہ ندا دیتا ہے:جس نے حرام کھا
یا اس کا نہ کوئی نفل قبول ہے نہ فرض۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے حرام کمانا اور
کھانا کس قدر اللہ اور اس کے محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
نافرمانی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں حرام کمانے اور کھانے کی کس قدر مذمت بیان کی
گئی۔ تو میرے پیارے اسلامی بھائیو! ہر گز حرام سے بچئے اس سے بچے رہنے کیلئے ہردم
دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ رہئے، خوف خدا رکھئے۔ اور قبر و آخرت کو یاد
کرتے رہئے انشاء الله حرام کمانے اور کھانے سے بچنے میں آسانی ہوگی۔ اللہ کریم
ہمیں حرام کمانے اور کھانے ان دونوں مہلکات سے محفوظ فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
دانش تیمور عطّاری (درجۂ
رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ سخی سرور،ضلع ڈیرہ غازی خان ، پاکستان)
ہمارے دینِ اسلام میں جہاں کسبِ حلال
کے فضائل بیان کئے گئے ہیں وہیں حرام کمانے
اور کھانے کی مذمت بھی بیان کی گئی، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ﴾ ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ
کھاؤ۔(پ5، النسآء:29)
اس سے مراد وہ
طریقہ ہے جس سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے جیسے سود، چوری اور جوئے کے ذریعے
مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وَکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل
کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل
اور حرام ہے، یوں ہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ اور نافرمانی
میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا
بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبا لینا، ڈاکا زنی، بھتا خوری اور پر چیاں
بھیج کر ہراساں کرکے مال وصول کرنا بھی اسی میں شامل
ہے۔(دیکھئے: صراط الجنان، 2/182)
حرام کمانا اور کھانا اللہ پاک کی
بارگاہ میں سخت نا پسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں
اسی ضمن میں 4 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھئے:
(1)حرام
مال کا صدقہ قبول نہیں: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے اگر اس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے
تو اس کیلئے اس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان
ہے۔ (مسند احمد، 2/33، حديث:3672)
(2)چالیس
دن کے عمل قبول نہیں:اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں
میری جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے
عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا
بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم اوسط، 5/34، حدیث: 6495)
(3)جنت میں داخلے سے
محرومی: جس جسم نے حرام سے پرورش پائی وہ جنت ميں داخل نہ ہو گا(یعنی ابتداءً داخل
نہ ہوگا)۔(مسندابی یعلیٰ، 5/57، حدیث:79)
(4)حرام کھانے پینے والے
کی دعا قبول نہیں ہوتی: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر
کیا جو طویل سفر کرتا ہے، جس کے بال بکھرے ہوئے اور بدن غبار آلود ہے (یعنی
اس کی حالت ایسی ہے کہ جو دعا کرے وہ قبول ہو)اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا
کر یارب! یارب! کہتا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام، غذا حرام، پھر اس کی دعا کیسے قبول ہوگی۔(مسلم،
ص393، حدیث:2346)
اللہ پاک ہمیں حرام کما نے،کھانے اور
پہننے سے بچائے اور رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
علی اکبر (درجہ رابعہ جامعۃُ
المدينہ فیضان فاروق اعظم سادھو کی لاہور ، پاکستان)
جس طرح اولیا، انبیا اور خاص طور پر حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی صفات کو بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک نے مؤمنوں کی صفات
کو بھی بیان فرمایا ہے، اور پھر ان لوگوں کو جنتُ الفردوس کا وارث قرار دیا گیا۔
اور جن لوگوں میں یہ صفات پائی جائے گی وہ لوگ جنتُ الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے۔
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مجھ پر دس آیات نازل ہوئی
ہیں۔ جس نے ان میں مذکورہ باتوں کو اپنا یا وہ جنت میں داخل ہوگا۔
(1)خشوع و خضوع کرنے والے: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے
والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)
(2) فضول بات سے منہ پھیرنے والے :اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3)
(3)زکوة دینے والے :اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
(4)شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)
(5)امانتوں اور وعدے کی رعایت کرنے والے : اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا:
﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ
وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدے کی رعایت کرنے
والے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 8)
(6)نمازوں کی حفاظت کرنے والے:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ الَّذِیْنَ
هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے
ہیں۔( پ18، المؤمنون: 9)
(7)خرچ
کرنے میں اعتدال فرمانے والے:اللہ پاک نے
ارشاد فرمایا: ﴿وَ
الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ
بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ لوگ کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ حد سے بڑھتے ہیں اور
نہ تنگی کرتے ہیں اور ان دونوں کے درمیان اعتدال سے رہتے ہیں ۔ (پ19،الفرقان:67)
(8)و دوسرے معبود کو نہیں پوجتے:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ
لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ ﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود
کی عبادت نہیں کرتے۔ (پ: 19،الفرقان : 68)
(9) رات عبادت میں گزارنا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ
لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنے رب کے لیے سجدے اور قیام کی حالت میں رات
گزارتے ہیں ۔ (پ 19 ،الفرقان :64)
(10) ناحق قتل نہ کرنا : اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ﴿وَ لَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ
الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰهُ ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اس جان کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے اللہ نے حرام
فرمایا ہے ۔ (پ 19 ، الفرقان : 68)
محمد مدثر عطاری (درجہ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
الله پاک نے عالم کو پیدا فرمایا اور اس میں ہر طرح کی
مخلوق کو پیدا فرمایا اور انسان کو پیدا فرمایا اور ان میں بعض کو ایمان کی دولت
سے نوازا اور بعض کو ایمان کی دولت سے محروم رکھا۔ ان میں بعض کو اچھے اخلاق اور
اچھے اوصاف اور اعلی صفات عطا فرمائی اور ان کو تمام انسانوں میں ممتاز فرمایا اور
ان کی صفات کو قراٰنِ پاک میں یوں ذکر فرمایا ۔
مؤمنین کی صفات ملاحظہ فرمائیں:
(1) اللہ قراٰنِ پاک میں ارشا د ہے : ﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ (پ18،المؤمنون: 1) اس آیت میں ایمان والوں
کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے
اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہرنا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔
(2) ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2)
(3) ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)
(4) اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
(5) الله پاک قراٰن
میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5)
(6) الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)
(7) الله پاک فرماتا
ہے:
﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،
المؤمنون: 9)
(8) الله پاک فرماتا
ہے: ﴿وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَى الْاَرْضِ هَوْنًا﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور رحمٰن کے وہ بندے جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔(پ19،الفرقان:63)
(9) اللہ پاک قراٰن
پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ وَّ اِذَا خَاطَبَهُمُ
الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا(۶۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب جاہل ان سے بات کرتے
ہیں تو کہتے ہیں بس سلام۔(پ19،الفرقان:63)
(10)اللہ پاک
قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿وَ الَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّ
قِیَامًا(۶۴)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو رات کاٹتے ہیں اپنے رب کے لیے
سجدے اور قیام میں ۔(پ19،الفرقان:64)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان صفات پر پورا اترنے کی توفیق
عطا فرمائیں، اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم
غلام مصطفیٰ(درجہ خامسہ جامعۃُ
المدینہ فیضان حسن جمال مصطفی لانڈھی کراچی، پاکستان)
الله پاک کا کروڑ ہا کروڑ احسان کہ اُس نے ہمیں مسلمان
گھرانے میں پیدا فرما کر ایمان جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرمایا۔ آئیے پہلے ہم یہ
جان لیتے ہیں کہ مؤمن کسے کہتے ہیں؟ اصطلاح شریعت میں جو شخص سچے دل سے ان سب
باتوں کی تصدیق کرلے اسے مؤمن کہتے ہیں۔ لیکن یہ بھی یاد رہے کہ آخرت کی کامیابی
کا مدار صرف مؤمن ہونے پر نہیں بلکہ در حقیقت کامیاب وہی مؤمن ہوگا جو اُن اوصاف
کو اپنائے گا جن کے اپنانے کا اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم
دیا ہے۔ لہذا ایک مردِ مؤمن میں جو صفات ہونی چاہیے اُن میں سے چند صفات یہاں ذکر
کی جا رہی ہیں۔
(1) مؤمنوں کی نماز : الله پاک مؤمنوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے : ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ
کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2)
(2) لغو باتوں سے اعراض کرنا : دوسرا وصف مؤمنوں کا یہ بھی قراٰن میں مذکور ہے: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3)
(3) عصمت کی حفاظت : ﴿وَ الَّذِیْنَ
هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ ترجمۂ
کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5) اس آیت میں کامیابی حاصل کرنے والے اہل ایمان کا ایک اور
وصف بیان کیا جا رہا ہے چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا
کے اسباب و لوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔( صراط
الجنان )
(4) امانتوں اور وعدوں کی رعایت : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ
عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں اللہ پاک نے فلاح پانے والے مؤمنین کے مزید دو
اوصاف بیان فرمائے کہ اگر ان کے پاس کونسی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں
خیانت نہیں کرتے اور جس سے وہ وعدہ کرتے ہیں اُسے پورا کرتے ہیں۔( صراط الجنان )
(5) نمازوں کی حفاظت : ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،
المؤمنون: 9)اس آیت میں بتایا جا رہا ہے کہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے
والے مؤمن وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں، اور انہیں ان کے وقتوں میں ،
ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سنن و
نوافل سب کی نگہبانی کرتے ہیں۔ (خازن، المؤمنون ، آیت 9)
اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک ہمیں کامل مؤمن
بنائے اور جن اوصاف کو اپنانے کا اللہ اور رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ہمیں حکم دیا اور ترغیب فرمائی۔ اُن کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا و
آخرت میں کامیابی و کامرانی ہمارا مقدر فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ
الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
عثمان غنی انصاری(درجہ ثانیہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
ایمان کی کاملیت اور دنیا و آخرت میں فلاح کی ضمانت محض
مسلمان ہونا ہی نہیں بلکہ اپنے اندر وہ تمام صفات پیدا کرنا ہے جو اللہ کے نیک اور
پسندیدہ بندوں میں ہوتی ہیں ۔
اللہ پاک نے دنیا میں دو طرح کے انسان پیدا فرمائے ہیں
مؤمن اور کافر۔ اور مؤمنوں میں بھی کامل مؤمن وہ ہے جو اللہ اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بتائے
ہوئے راستے پر چلتے ہیں اور جو نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے سب سے بڑھ کر محبت کرتے ہیں اور یہی لوگ مراد
کو پہنچنے والے ہیں۔
مؤمن ہی مراد کو پہنچتے ہیں : الله پاک قراٰن میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے۔ (پ18،المؤمنون: 1) اس آیت میں ایمان والوں
کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے
اور ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو کر ہرنا پسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔
مؤمن مسلمان ہی اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں:﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2) {خٰشِعُوْنَ: خشوع و خضوع کرنے والے۔} ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ
نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے
اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔( مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 2 ، ص751) حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے
ہیں ،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ’’اے بیٹے!نماز میں اِدھر اُدھر دیکھنے سے بچو کیونکہ
نماز میں اِدھراُدھر توجہ ہلاکت ہے۔
لہٰذا ہر مسلمان
مرد و عورت کو چاہئے کہ وہ پوری توجہ اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرے اور اللہ
پاک کی عبادت اس طرح کرے جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔
مؤمن مرد ہی بیہودہ بات سے بچتے ہیں ۔ الله پاک ارشاد فرماتا ہے : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3) فلاح پانے والے
مؤمنوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ہر لہو و باطل سے بچتے رہتے ہیں۔
لَغْو سے کیا مراد ہے؟: علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں ’’لغو سے مراد ہر وہ قول، فعل
اور ناپسندیدہ یا مباح کام ہے جس کا مسلمان کو دینی یا دُنْیَوی کوئی فائدہ نہ ہو
جیسے مذاق مَسخری،بیہودہ گفتگو، کھیل کود، فضول کاموں میں وقت ضائع کرنا، شہوات
پوری کرنے میں ہی لگے رہنا وغیرہ وہ تمام کام جن سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے۔
زبان کی حفاظت کرنے سے انسان دنیا کی آفات سے محفوظ رہتا
ہے، چنانچہ حضرت سفیان ثوری رحمۃُ اللہِ علیہ
فرماتے ہیں :زبان سے ایسی بات نہ نکالوجسے سن کر لوگ تمہارے دانت توڑ دیں ۔ اور
ایک بزرگ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں
:اپنی زبان کو بے لگام نہ چھوڑو تاکہ یہ تمہیں کسی فساد میں مبتلانہ کر دے۔
مردِ مؤمن اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔ قراٰنِ پاک میں ارشاد ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت
کرنے والے ہیں ۔ مگر اپنی بیویوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں پس
بیشک ان پر کوئی ملامت نہیں۔ (پ18،المؤمنون:6،5) اس آیت
سے کامیابی حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کا وصف بیان کیا گیا ہے، چنانچہ ا س آیت
اور ا س کے بعد والی آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ایمان والے زنا اور زنا کے اَسباب و
لَوازمات وغیرہ حرام کاموں سے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں البتہ اگر وہ اپنی
بیویوں اور شرعی باندیوں کے ساتھ جائز طریقے سے صحبت کریں تو اس میں ان پر کوئی
ملامت نہیں ۔
شرمگاہ کی حفاظت کرنے کی فضیلت: حدیث پاک میں زبان اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں سے
بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا :جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن ہو جائے جو اس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے
یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں کے درمیان میں ہے یعنی شرمگاہ کا، میں
اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔
مؤمن اپنی امانتوں میں خیانت نہیں کرتے۔ جیسا کہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ
وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہل ایمان کے دو صف بیان
کئے گئے کے ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت نہیں کرتے
اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی
ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا
لازم ہے۔
6 چیزوں کی ضمانت دینے پر جنت کی ضمانت : حضرت عبادہ بن
صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: (1)
بات کرو تو سچ بات کرو (2) وعدہ کرو تو پورا کرو (3) تمہارے پاس امانت رکھی جائے
تو ادا کرو (4) اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو 5(5)اپنی نگاہوں کو پست کرو (6) اپنے
ہاتھوں کو روکو۔
محمد عبید رضا خان(درجہ خامسہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
الحمد لله ربُّ العالمین الله پاک کا شکر ہے کہ اللہ پاک نے
مسلمان پیدا کیا اور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کا امتی بنایا۔ نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انسانوں کو بڑا عروج سے نوازا اور لوگوں کو
ایمان کی دعوت دی۔ اور لوگ ایمان لائے اور مئومن ہو گیا اور مئومن وہ جو اللہ پاک
کے وعدے کی پاس داری کرتا ہے اور نبی پاک صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت و طریقت پر عمل کرتا ہے اور سنتوں پر عمل
کرتا ہے۔ اور بات کرتے ہیں تو سچ بولتے ہیں۔ اور صبر کرتے ہیں۔ مؤمن کی صفات
قراٰنِ پاک کی روشنی میں ملاحظہ ہو:
اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی
کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) اور جگہ ارشاد
فرماتا ہے : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ هُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُوْنَۙ(۵۷)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک وہ جو اپنے رب کے ڈر سے خوفزدہ
ہیں ۔ (پ18،ا لمؤمنون:57)ایک اور جگہ
ارشاد فر ما یا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّهِمْ یُؤْمِنُوْنَۙ(۵۸) ﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنے رب کی آیتوں پر
ایمان لاتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:) ایک جگہ اور ارشاد فرمایا: ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،المؤمنون: 5) ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8)
مئومن وہ جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے اور نبیوں کی اطاعت کرتا
ہے اور اولیا سے عقیدت و محبت کرتا ہے اور اللہ کا حکم بجا لاتا ہے اور اس کے نبیوں
کا حکم مانتا ہے اور بات کرنے میں ادب و لحاظ کرتا ہے اور اپنے فرض کی حفاظت کرتا
ہے اور وعدوں کی پاسداری کرتا ہے اور بھی مؤمن کی صفات ہے اور میں اپنے مقالہ کا
اختتام اس بات سے کرتا ہوں کہ مئومن وہ اللہ اور اس کے رسولوں کی اطاعت و
فرمانبرداری کرتا ہے ۔
حافظ عبدالسبحان عطاری(درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا تا کہ وہ اللہ پاک کے
احکامات کی پیروی کرے تو اس کی ابتدا حضرت آدم علیہ السّلام سے ہوئی اور حضرت آدم
علیہ السّلام سے انسانی نسل شروع ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السّلام تو اللہ پاک کے سچے
نبی ہیں اور رب کے احکامات کی پیروی کرنے والے ہیں ۔ لیکن ان کی اولاد میں دو گروہ
بن گئے ۔ کچھ رب کے احکامات کو ماننے والے اور کچھ رب کی وحدانیت اور احکامات سے
منہ پھیرنے اور انکار کرنے والے تو جو لوگ احکام بجا لائے ان کو مؤمن اور جو
انکار کر بیٹھے انہیں کافر کہتے ہیں۔ یہاں پر کچھ ایسی صفات جو کہ مؤمنوں کو
کافروں سے ممتاز کر دیتی ہیں وہ بیان کئے جائیں گے۔
مؤمن اپنی نماز میں خشوع و خضوع رکھتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2) اس آیت کے تحت معنی قاسم صاحب دامت برکاتھم العالیہ تفسیر صراط
الجنان میں ارشاد فرماتے ہیں کہ نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی
بھی،ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز
سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ
اٹھائے، کوئی عَبث و بیکار کام نہ کرے، کوئی کپڑا شانوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس
کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں اور آپس میں ملے ہوئے نہ ہوں ، انگلیاں نہ چٹخائے اور اس
قسم کی حرکات سے باز رہے۔ باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت پیش ِنظر ہو،
دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اورنماز میں دل لگا ہو۔
نماز کے دوران آسمان کی طرف نظریں اٹھانے،اِدھر اُدھر
دیکھنے اور یہاں وہاں توجہ کرنے سے متعلق ایک حدیث پاک ملاحظہ ہوں ،
حضرت انس بن مالک رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور اقدس صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کا کیا حال ہے جو
اپنی نماز میں نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں !پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس میں بہت سختی کی اور ارشاد
فرمایا’’یہ لوگ اس سے باز آ جائیں ورنہ ان کی نظریں چھین لی جائیں گی۔
مؤمن اپنے وعدوں اور اپنی امانتوں کی حفاظت
کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ : ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:8) اس آیت میں فلاح حاصل کرنے والے اہلِ ایمان کے مزید دو وصف
بیان کئے گئے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو وہ اس میں خیانت
نہیں کرتے اور جس سے وعدہ کرتے ہیں اسے پورا کرتے ہیں ۔
یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ پاک کی ہوں یا
مخلوق کی اور اسی طرح عہد خدا کے ساتھ ہوں یا مخلوق کے ساتھ، سب کی وفا لازم ہے۔
اور اسی کے متعلق
ایک حدیثِ پاک ملاحظہ فرمائیے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میرے لیے چھ چیزوں
کے ضامن ہوجاؤ، میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔ (1)بات بولو تو سچ بولو۔ (2)وعدہ
کرو تو پورا کرو۔ (3)تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو اور(4) اپنی شرمگاہوں کی
حفاظت کرو اور (5)اپنی نگاہوں کو پَست کرو اور (6)اپنے ہاتھوں کو روکو۔( مستدرک،
کتاب الحدود، ستّ یدخل بہا الرجل الجنّۃ، 5 / 513، حدیث: 8130)
مؤمن ہی جنت الفردوس کے وارث اور اس میں ہمیشہ
رہنے والے ہیں ۔ اللہ پاک کا فرمان ہے: ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ
رہیں گے۔(
پ18، المؤمنون:11،10) اس آیت اور اس کے بعد والی
آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جن ایمان والوں میں ما قبل آیات میں مذکور اَوصاف پائے
جاتے ہیں یہی لوگ کافروں کے جنتی مقامات کے وارث ہوں گے۔یہ فردوس کی میراث پائیں گے
اوروہ جنت الفردوس میں ہمیشہ رہیں گے،نہ انہیں اس میں سے نکالا جائے گا اور نہ ہی
وہاں انہیں موت آئے گی۔
یاد رہے کہ فردوس سب سے اعلیٰ جنت ہے اور اسی کا سوال کرنے
کی حدیث پاک میں ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا ’’جنت میں سو درجے ہیں ،دو درجوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی آسمان اور
زمین کے درمیان ہے۔ فردوس سب سے اعلیٰ اور درمیانی جنت ہے اورا س سے اوپر رحمٰن عَزَّوَجَلَّ
کا عرش ہے اور اس سے جنت کی نہریں نکلتی ہیں ۔جب تم اللہ پاک سے سوال کرو تو جنت
الفردوس کا سوال کرو۔( ترمذی، کتاب صفۃ الجنّۃ، باب ما جاء فی صفۃ درجات الجنّۃ، 4 / 238، حدیث: 2538) لہٰذا ہر مسلمان کو
چاہئے کہ وہ جب اللہ تعالیٰ سے جنت کی دعا مانگے تو جنت الفردوس کی ہی دعا مانگے،
اگر اللہ پاک نے اپنے فضل و کرم سے یہ دعا قبول فرما لی تو آخرت میں ملنے والی یہ
سب سے عظیم نعمت ہو گی۔
اے اللہ ! ہمیں فردوس
کی میراث پانے والوں اور اس کی عظیم الشان نعمتوں سے لطف اندوز ہونے والوں میں سے
بنا دے اور جہنم کی طرف لے جانے والے تمام اَسباب سے ہماری حفاظت فرما،اٰمین۔
حافظ محمد شجاعت قادری(درجہ
ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ حسن و جمالِ مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
اس دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک نیک اور دوسرا بد
نیک۔ مرد وہ ہوتا ہے جو اللہ کا پسندیدہ بندہ ہوتا ہے اور اسے مردِ مؤمن بھی کہتے
ہیں۔ الله پاک نے ان مردِ مؤمن کی قراٰنِ کریم میں بہت سی صفات بیان کی ہیں جس میں
سے چند یہ ہیں:
بغیر دیکھے ایمان لانا : اللہ کریم کا فرمان ہے: ﴿الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ
بِالْغَیْبِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: وہ لوگ جو بغیر دیکھے ایمان لاتے ہیں
اور نماز قائم کرتے ہیں اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے کچھ(ہماری راہ میں) خرچ
کرتے ہیں۔(پ1،البقرۃ:3) تفسیر: {اَلَّذِیْنَ
یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ: وہ لوگ جو بغیر
دیکھے ایمان لاتے ہیں۔}یہاں سے لے کر ’’اَلْمُفْلِحُوْنَ‘‘تک کی 3 آیات مخلص مومنین کے بارے میں ہیں جو ظاہری او
رباطنی دونوں طرح سے ایمان والے ہیں ، اس کے بعد دو آیتیں ان لوگوں کے بارے میں
ہیں جو ظاہری اور باطنی دونوں طرح سے کافر ہیں اور اس کے بعد 13 آیتیں منافقین کے بارے میں ہیں جو کہ باطن میں کافر ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے
ہیں۔ آیت کے اس حصے میں متقی لوگوں کا ایک وصف بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ بغیر
دیکھے ایمان لاتے ہیں۔ یعنی وہ ان تمام چیزوں پر ایمان لاتے ہیں جو ان کی نگاہوں
سے پوشیدہ ہیں اور نبیٔ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ان کے بارے میں خبر دی ہے جیسے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ
کیا جانا، قیامت کا قائم ہونا، اعمال کا حساب ہونا اور جنت و جہنم وغیرہ۔ ایک قول
یہ بھی ہے کہ یہاں غیب سے قلب یعنی دل مراد ہے، اس صورت میں آیت کے معنی یہ ہوں
گے کہ وہ دل سے ایمان لاتے ہیں۔
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: جو اپنی نماز میں گِڑ گڑاتے ہیں
(پ18،المؤمنون:2)تفسیر: یہاں سے ایمان والوں کے چند اَوصاف ذکر فرمائے گئے ہیں ،
چنانچہ ان کا پہلا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایمان والے خشوع و خضوع کے
ساتھ نماز ادا کرتے ہیں ، اس وقت ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا خوف ہوتا ہے اور
ان کے اَعضا ساکن ہوتے ہیں ۔
ایک اور جگہ ارشاد ہوا : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون:3) تفسیر: فلاح پانے والے مومنوں کا دوسرا وصف بیان کیا گیا
کہ وہ ہر لَہْوو باطل سے بچے رہتے ہیں ۔
اللہ پاک ایک اور جگہ ارشاد فرماتا ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
تفسیر : اس آیت میں کامیابی پانے والے اہلِ ایمان کا تیسرا
وصف بیان کیا گیا کہ وہ پابندی کے ساتھ اور ہمیشہ اپنے مالوں پر فرض ہونے والی
زکوٰۃ دیتے ہیں ۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں مذکور لفظ ’’زکاۃ‘‘ کا ایک معنی’’
تَزکیہ ِ نفس‘‘ بھی کیا ہے یعنی ایمان والے اپنے نفس کو دنیا کی محبت وغیرہ مذموم
صفات سے پاک کرنے کا کام کرتے ہیں ۔
میری اللہ سے دعا
ہے کہ اللہ پاک ہم میں بھی یہ صفات ڈالے اور ہمارا خاتمہ ایمان پر نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد جمیل عطاری(درجہ ثالثہ
جامعۃُ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور، پاکستان)
الله نے مخلوق کو پیدا فرمایا پھر ان کی ہدایت و رہنمائی کے
لئے انبیا و رسل کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتب بھی نازل فرمائی پھر ان رسولوں،
کتابوں اور اللہ پر ایمان لانے یا نہ لانے کا شعور بھی عطا فرمایا۔ تو بعض نے
انکار کیا اور کافر ٹھہرے اور بہت سے وہ لوگ ہیں جنہوں نے ایمان قبول کیا مسلمان
ہو گئے پھر ان کی خوبیوں کو الله پاک نے قراٰنِ پاک کے اندر یوں ذکر فرمایا :
(1) ایمان والے کامیاب ہوگئے: الله پاک نے ایمان والوں کا وصف بیان فرمایا : ﴿قَدْ اَفْلَحَ
الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔(پ18، المؤمنون:1) اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ کے
فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہو کر ہر
ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے ۔
(2) خشوع و خضوع کرنا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ
فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ
کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں۔
(پ18،المؤمنون:2)ایمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس وقت ان کے
دلوں میں اللہ پاک کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضاء ساکن ہوتے ہیں ۔
(3)
فضول باتوں سے بچنا: ﴿ وَ الَّذِیْنَ هُمْ
عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف
اِلتفات نہیں کرتے۔(پ18، المؤمنون:3) فلاح پانے والے
مؤمنوں کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ ہر لہو و باطل سے بچتے رہتے ہیں۔ (خازن )
(4) زکوٰۃ دینا:﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ
لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرنے والے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
(5)نماز قائم کرنا: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالعِرفان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ (پ18،
المؤمنون: 9)
یعنی کامیابی حاصل کرنے والے وہ مومن ہیں جو اپنی نمازوں کی
حفاطت کرتے ہیں اور انہیں اُن کے وقتوں میں ، ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی
سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و واجبات اور سُنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں ۔(
خازن، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9 ، 3/ 321، مدارک، المؤمنون، تحت الآیۃ: 9، ص752، ملتقطاً)
(6)آخرت پر یقین رکھنا :﴿ وَ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ یُوْقِنُوْنَؕ(۴) ﴾، اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں ) یعنی متقی لوگ قیامت پر اور
جو کچھ اس میں جزا و حساب وغیرہ ہے سب پر ایسا یقین رکھتے ہیں کہ اس میں انہیں ذرا
بھی شک و شبہ نہیں ہے۔
(7)جنت کی میراث پانے والے : ﴿اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْوٰرِثُوْنَۙ(۱۰) الَّذِیْنَ
یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَؕ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۱۱)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: یہی لوگ وارث ہیں ۔ کہ فردوس کی میراث پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ
رہیں گے۔(
پ18، المؤمنون:11،10)
(8) فردوس کے باغات کی مہمانی : ﴿اِنَّ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ
نُزُلًاۙ(۱۰۷) ﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک جو لوگ ایمان لائے اور اچھے
اعمال کئے ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغات ہیں ۔
(9)جنت میں ہمیشہ رہنا : ﴿ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا
لَا یَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلًا(۱۰۸)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، ان سے کوئی دوسری جگہ بدلنا
نہ چاہیں گے۔(پ16،الکھف:108)
(10) اللہ کا فرقان عطا کرنا:﴿ یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانًا وَّ
یُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ یَغْفِرْ لَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ ذُو الْفَضْلِ
الْعَظِیْمِ(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے
تو تمہیں حق و باطل میں فرق کر دینے والا نور عطا فرما دے گا اور تمہارے گناہ مٹا
دے گا اور تمہاری مغفرت فرما دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔ (پ9، الانفال:29)
تفسیر: ایمان والوں کے لیے ایک یہ بھی انعام ہےکہ اسے فُرقان عطا
فرمائے گا۔ یعنی اللہ پاک اس کے دل کو ایسا نور اور توفیق عطا کرے گا جس سے وہ حق
و باطل کے درمیان فرق کر لیا کرے۔(خازن، الانفال، تحت الآیۃ: 29 ، 2/ 191)
اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ پاک یہ ساری خوبیاں
ہم میں بھی پیدا فرمائے اور ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن
بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد اویس منظور عطاری(درجہ
رابعہ، جامعۃُ المدینہ فیضان عبد اللہ شاہ غازی کلفٹن کراچی)
قراٰنِ پاک میں اللہ پاک نے مؤمن لوگوں کی بہت سی صفات و
خوبیاں بیاں کی ہیں اور متعدد جگہوں پر ان کا ذکرِ خیر اچھے الفاظ میں فرمایا ہے ۔
اللہ پاک نے جن صفات کے ساتھ مؤمنوں کو متصف فرمایا ہے ۔ان میں سے چند درج ذیل
ہیں:
(1) نماز میں خشوع و خضوع اختیار کرنے والے: اللہ پاک ایسوں کا ذکر کرتے ہوئے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید
میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)﴾ترجمۂ کنزُالعِرفان: جو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے
والے ہیں۔ (پ18،المؤمنون:2) اور نماز میں گڑگڑانا اور خشوع پیدا کرنا اسی وقت
ہوگا جب بندہ ظاہری طور پر ساکن ہوگا کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ایک مرد کو نماز میں داڑھی کے ساتھ کھیلتے ہوئے دیکھا تو حضور نے فرمایا کہ اگر
اس کے دل میں خشوع ہوتا تو اس کے اعضاء میں بھی خشوع ہوتا ۔ (تفسیر در منثور )
(2) حلال طریقوں کے علاوہ اپنی شرم گاہ کی حفاظت
کرنے والے: ایسی قابل قدر شخصیات کا بھی اللہ پاک نے قراٰن میں ذکر
فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے : ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ
حٰفِظُوْنَۙ(۵) اِلَّا عَلٰۤى
اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَۚ(۶) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے
ہیں ۔ مگر اپنی بیبیوں یا شرعی باندیوں پر جو ان کے ہاتھ کی مِلک ہیں کہ ان پر
کوئی ملامت نہیں ۔ (پ18،المؤمنون:6،5) حدیث پاک میں زبان
اور شرمگاہ کو حرام اور ممنوع کاموں سے بچانے پر جنت کا وعدہ کیا گیا ہے، چنانچہ
صحیح بخاری میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہُ
عنہ سے روایت ہے، رسول کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو شخص میرے لیے اس چیز کا ضامن
ہو جائے جو اس کے جبڑوں کے درمیان میں ہے یعنی زبان کا اور اس کا جو اس کے دونوں پاؤں
کے درمیان میں ہے یعنی شرمگاہ کا، میں اس کے لیے جنت کا ضامن ہوں ۔( بخاری، کتاب
الرقاق، باب حفظ اللسان، 4/ 240، حدیث: 6474)
(3)زکوۃ ادا کرنے والے : ایمان والوں کی ایک صفت اللہ پاک نے زکوٰۃ دینے والا بھی بیان فرمائی ہے۔
چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے ۔ ﴿وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں ۔(پ18، المؤمنون: 4)
اور زکوة نہ دینے کی وعید بھی احادیث میں مذکور ہے کہ حضرت
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کا خزانہ قیامت کے دن
گنجا سانپ ہوگا جس سے اس کا مالک بھاگے گا اور مال اسے ڈھونڈے گا حتی کہ اس کی
انگلیوں کو لقمہ کرے گا ۔ (مشکوۃ المصابیح )
(4)نمازوں کی نگہبانی کرنے والے: نمازیوں کو بھی اللہ پاک مؤمنوں کی صف میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿
وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹)﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی
کرتے ہیں ۔ (پ18، المؤمنون: 9) یعنی نجات و
کامیابی حاصل کرنے والے مؤمنین وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں
ان کے وقتوں میں ان کے شرائط و آداب کے ساتھ پابندی سے ادا کرتے ہیں اور فرائض و
واجبات اور سنن و نوافل سب کی نگہبانی رکھتے ہیں۔
الله پاک سے دعا ہے
کہ ہمیں یہ تمام صفات اپنے اندر پیدا کرنے اور ان کے ذریعے دین و دنیا کی بھلائی
تلاش کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم