ابتدائے عالم سے لے کر انتہائے عالم تک اس دنیا میں بہت چیزوں کو ایک دوسرے کا سبب بنانا۔ اور وہ اسباب کبھی فائدہ مند ہوتے ہیں تو کبھی نقصان دہ بہر حال ہر کوئی کسی نا کسی کا سبب ضرور ہے۔ جیسے بارش کو سبزہ اگانے کا سبب گاڑیوں، پیسوں کو ہماری ضروریات پوری کرنے کا سبب بنایا لیکن یہ پیسہ اور اس کے ذریعہ جو اشياءخوردنوش کھا رہے ہیں حلال ہے یا حرام اس کی قدرت ہم انسانوں کردی ، بعض لوگ کم کماتے اور کم کھاتے ہیں۔ لیکن حق حلال کھاتے ہیں لیکن بعض لوگ پیسے اور کھانے کی حوص میں یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ حلال طریقہ سے کمایا یا حرام طریقہ سے؟ کیا اس کا کھانا ہمارے لئے حلال ہے یا حرام؟؟ اسی لئے اللہ پاک نے قراٰنِ مجید میں مال سے بے رغبتی اور احادیثِ مبارکہ میں حرام کھانے اور حرام کمانے کی مذمت بیان کی ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:﴿ كَلَّا لَوْ تَعْلَمُوْنَ عِلْمَ الْیَقِیْنِؕ(۵)﴾ترجَمۂ کنزُالایمان: ہاں ہاں اگر یقین کا جاننا جانتے تو مال کی محبّت نہ رکھتے ۔( پ30 ، التکاثر:5)

تفسير :اے لوگوں! ہاں ہاں اب نزع کے وقت کثرت مال کی حرص اور اولاد پر فخر و غرور کرنے کے برے نتیجے کو جلد جان جاؤ گے پھر یقیناً تم قبروں میں جان جاؤ گے اگر تم مال کی حرص کا انجام یقینی طور پر جانتے تو تم مال کی حرص میں مبتلا ہو کر آخرت سے غافل نہ ہوتے ۔ (تفسیر صراط الجنان پ30 سورة التكاثر )

دیکھا آپ نے اللہ پاک نے مال کے حریص کے بارے میں کیا فرمایا۔ حرام مال کمانے اور کھانے کی ابتدا حرص سے ہی ہوتی ہے اور احادیث میں بھی حرام مال کھانے اور کمانے کی مذمت پڑھ لیجئے۔

حدیث اول : حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔(انوار حدیث، ص 294)

اللہ اکبر! دیکھا آپ نے حرام کھانے کی کیا سزا بیان ہوئی کتنی بڑی محرومی کی بات ہے ۔

حدیث ثانی: حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ نے کہا کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کہ کوئی اس بات کی پرواہ نہیں کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا وہ حلال ہے یا حرام ۔(انوار حدیث ،ص 294)

سبحان الله! دیکھا آپ نے چودہ سو سال پہلے ہی رسولُ الله (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نے اس کی پیشن گوئی فرمادی تھی۔

حدیث ثالث: حضرت مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کسی شخص نے کبھی کوئی کھانا اس سے اچھا نہ کھایا کہ انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کمائے اللہ کے نبی حضرت داؤد (علیہ السّلام) اپنے ہاتھوں کے عمل سے کھاتے ۔(مراةالمناجيج ، 4/252)

ہاتھوں سے مراد پوری ذات ہے چاہے ہاتھوں سے کمائے یا پاؤں یا آنکھ غرض یہ کہ اپنی قوت سے حلال روزی کمائے۔(مراةالمناجيح، 4/252)

حدیث رابع :حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولُ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا(پیدا) ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے(پیدا)ہو وہ آگ سے بہت قریب ہے۔ (مراةالمناجيح، 4/259)

گوشت سے مراد خود گوشت والا ہے اور اُگنے سے۔ مراد پرورش پایا یعنی جو شخص حرام کھا کر پلا وہ جنت میں بھلا کیسے جائے گا اُلخ۔(مراۃالمناجیح ، 4/ 260)

دیکھا آپ نے حرام کمانے اور کھانے کے متعلق کتنی سخت مذمتیں بیان ہوئیں ہیں اگر ہم کوئی آن لائن کاروبار یا کام یا کوئی بھی ملازمت کرتے ہو خود غور کریں کہ یہ کام جو کر رہا ہو حلال ہے یا حرام اگر نہیں معلوم ہوتا تو علما سے پوچھیں۔ اللہ پاک ہم سب کو حلال طریقہ سے کمانے اور کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاه النبی الكريم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے انسانوں کو بالعموم اور مسلمانوں کو بالخصوص رزقِ حلال و حرام میں تمیز کرنے کا حکم دیا ہے، رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز،روزہ و دیگر فرائض پر عمل پیرا ہونا۔مگر قابلِ تعجب یہ بات ہے کہ مسلم معاشرے میں بھی کم ہی لوگ ہیں جو حلال و حرام کی تمیز کرتے ہیں، بلکہ اس حیرت میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے جب مسلم سوسائٹی کے نوجوان یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ چیز حرام کیوں ہے؟ اس کے استعمال میں حرج کیا ہے؟ حالانکہ یہ بات مسلمان کی شان سے بعید ہے کہ وہ اللہ پاک کے نازل کردہ قانون کو ماننے کے بعد ایسے سوالات اٹھائے۔!

اللہ پاک نے پارہ 2 سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 168میں انسانیت کو یوں خطاب فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ 2، البقرة: 168)

اسی طرح اللہ پاک نے سورہ بقرہ ہی کی آیت نمبر 172 میں خاص طور پر ایمان والو سے یوں خطاب فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَ اشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِیَّاهُ تَعْبُدُوْنَ(۱۷۲)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو کھاؤ ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں اور اللہ کا احسان مانو اگر تم اسی کو پوجتے ہو۔ (پ،2 ، البقرۃ:172)

اور سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 88 میں بھی رب تعالیٰ نے ایمان والوں کو حلال و پاکیزہ رزق کھانے کی یوں تلقین کی چنانچہ اللہ پاک نے ایمان والوں سے فرمایا:﴿وَ كُلُوْا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ حَلٰلًا طَیِّبًا۪-وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اَنْتُمْ بِهٖ مُؤْمِنُوْنَ(۸۸)﴾ترجمہ کنزالایمان: اور کھاؤ جو کچھ تمہیں اللہ نے روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمہیں ایمان ہے۔

مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ رزقِ حلال و طیب کھانے سے نیکیوں اور عمل صالح کی توفیق ملتی ہے، گویا کہ رزق حرام سے بچنے والے انسان کیلئے نیک اعمال کرنے آسان ہو جاتے ہیں،رزقِ حلال سے تقوی و طہارت کا حصول ہوتا ہے اور رزقِ حلال وہ عظیم دولت ہے کہ جس کو یہ حاصل ہو جائے اُسے اور کچھ نہ ملے تو کوئی پرواہ نہیں، یعنی انسان رزقِ حلال کی برکت سے نقصان سے محفوظ ہو جاتا ہے۔چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیرے اندر یہ چار باتیں ہوں تو دنیا تجھ سے فوت بھی ہو جائے تو تجھے کوئی نقصان نہیں، ایک امانت کی حفاظت، دوسری بات میں سچائی، تیسری اچھے اخلاق اور چوتھی کھانے میں پاکیزگی(یعنی رزقِ حلال)(مسند احمد 6652،  مستدرک ،349/4) اور دوسری روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا جس آدمی نے حلال مال کمایا، پھر اس کو اپنی ذات پر(خرچ کیا) یا دوسری اللہ پاک کی مخلوق کو کھلایا، یا ( اس مال میں سے) کپڑا پہنایا تو اُس کیلئے یہ چیز پاکیزگی و طہارت کا ذریعہ بنے گی۔(صحیح ابن حبان،10/48،مستدرک،4/144)

رزقِ حرام کمانے کی حرمت و نحوست : رزق حرام کمانا اسلام میں سخت ناجائز اور اس سے حاصل ہونے والی ہر چیز منحوس ہے، چنانچہ قراٰنِ مجید میں سورہ نساء کی آیت نمبر29 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو ۔(پ5، النسآء:29)

اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر 188 میں بھی اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے کہ: ﴿وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِهَاۤ اِلَى الْحُكَّامِ لِتَاْكُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۠(۱۸۸) ﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ مال ناجائز طور پر کھالو جان بوجھ کر۔(پ2،البقرۃ:188)

اسی طرح اللہ پاک نے سورۃُ البقرۃ کی آیت نمبر 267 میں خبیث اور مالِ حرام کے خرچ کرنے سے منع فرمایا کیونکہ مالِ حرام خبیث مال ہوتا ہے اور ناپاک ہوتا ہے۔ چنانچہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ۪-وَ لَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْهُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْهِ اِلَّاۤ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْهِؕ-وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ(۲۶۷)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو اپنی پاک کمائیوں میں سے کچھ دو اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لئے زمین سے نکالا اور خاص ناقص کا ارادہ نہ کرو کہ دو تو اس میں سے اور تمہیں ملے تو نہ لوگے جب تک اس میں چشم پوشی نہ کرو اور جان رکھو کہ اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے۔(پ3،البقرۃ:267)

آئیے حرام مال کی مذمت احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں:

حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص حرام مال حاصل کرے گا اور اس سے(اپنی ضرورت میں) خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہیں ہو گی، اور اگر اس مال سے صدقہ دے گا تو (عنداللہ) قبول نہیں کیا جائے گا اور ترکہ میں اس  مال کو چھوڑ کر مرے گا تو وہ (مال) اس کیلئے جہنم کا توشہ  ہو گا۔(مسند احمد،3672)

اسی طرح ایک حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ بغیر پاکیزگی کے نماز قبول نہیں ہوتی، اور حرام مال سے صدقہ قبول نہیں ہوتا۔(مسلم شریف 535)

ایک اور حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمانِ عالیشان ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس ہر اللہ پاک نے حرام کی ہے۔(مسند احمد،7482)

اللہ اکبر ! حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  مٹی سے پیٹ بھر لینے کو رزقِ حرام سے پیٹ بھرنے پر ترجیح دے رہے ہیں ،معلوم ہوا کہ رزق حرام سے بچنا مسلمان کیلئے ضروری امر ہے۔

حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنت میں وہ گوشت اور خون داخل نہیں ہو گا جو حرام سے پلا ہو، اس کیلئے تو دوزخ ہی مناسب ہے۔(ترمذی شریف 614)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن بندے کے قدم ( اپنی جگہ سے) نہیں ہٹ سکتے، جب تک چار چیزوں کے متعلق پوچھ گچھ نہ ہو جائے(1) عمر کہاں گنوائی؟(2) جوانی کہاں برباد کی؟(3) مال کو کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟(4) جو علم سیکھا تھا اس پرکیا  عمل کیا؟ (شعب الایمان: 1785)

رزقِ حرام مقدار میں زیادہ ہونے کے باوجود بھی با برکت نہیں ہوتا، بعض دفعہ اس مالِ حرام کی  وجہ سے اللہ پاک اس شخص کو ایسی بیماریوں  ،پریشانیوں یا ایسی مصیبتوں میں مبتلا کر دیتا ہے کہ وہی اللہ پاک کی نافرمانی (ظلم و زیادتی) سے کمایا ہوا مال تباہی وبربادی کا سبب بن جاتا ہے۔


اللہ پاک نے شریعتِ محمدیہ کو ایسا کامل و اکمل بنایا کہ ہر قسم کی عبادات (خواہ انفرادی ہوں یا اجتماعی) اور معاملات (معاشی ہوں یا معاشرتی سیاسی ہوں یا سماجی) کو نہایت احسن انداز سے بیان فرمایا۔ انہیں احکام میں سے کسبِ معاش کے احکام ہیں کہ انسان اپنے آپ کو اور گھر والوں کو بندوں سے بے نیاز رکھنے کیلئے خوب محنت کرکے کماتا ہے۔ کوئی تجارت کرتا ہے تو کوئی کسی کے ہاں ملازمت اختیار کرتا ہے اگر کسب کرنے والوں کو حلال و حرام کے احکام معلوم ہوں گے تو حلال کمانے، خود کھانے اور اپنے بچوں کو کھلانے میں کامیاب ہو گا ورنہ اگر احکام معلوم نہ ہوں گے تو اس کے اپنے گمان کے مطابق تو اسکی کمائی حلال ہوگی لیکن درحقیقت وہ اپنے پیٹ کو حرام سے پر کر رہا ہوگا تو شارع علیہ السّلام نے جہاں کسبِ حلال کے فضائل و برکات کو بیان کیا وہیں کسبِ حرام کی وعیدات اور برائیوں کو بیان کیا ۔حرام کمانے اور کھانے کی وعیدات پر مشتمل احادیثِ مبارکہ ملاحظہ ہوں۔

(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ،2/33، حدیث:3672 )

(2)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے ،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: دنیا میٹھی اور سرسبز ہے، جس نے اس میں حلال طریقے سے مال کمایا اور اسے وہاں خرچ کیا جہاں خرچ کرنے کا حق تھا تو اللہ پاک اسے(آخرت میں ) ثواب عطا فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا اور جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔(صراط الجنان،1/268 )

(3)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(4) تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث:6495)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 65(1015))

حرام کمانے اور کھانے کے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جیسے حرام کے مال میں برکت نہیں ہوتی، حرام کھانے والے کی دعا مقبول نہیں ہوتی، حرام کھانے والے کو سکون حاصل نہیں ہوتا، حرام کی کمائی کفایت نہیں کرتی وغیرھا۔ اللہ پاک ہمیں حرام کمانے اور کھانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے تمام انسانوں کو رزقِ حلال و حرام میں فرق کرنے کا حکم دیا ہے، رزقِ حلال کمانا اور رزقِ حرام سے اجتناب کرنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ نماز، روزہ و دیگر فرائض پر عمل کرنا ضروری ہے مگر اسلامی معاشرے میں ایسے بہت ہی کم لوگ ہیں جو حلال و حرام کی تمیز کرتے ہیں۔ اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا : ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں ۔ (پ18،المؤمنون:51)

رزقِ حلال کھانے اور نیک اعمال کرنے کا حکم تمام رسولوں کو دیا گیا ۔ حکم ذکر کرنے کا ایک مقصد یہ ہے کہ رزقِ حلال اور نیک اعمال کی عظمت و اہمیت اُجاگر ہو۔ جیسے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاقِ حسنہ اور عبادت و ریاضت کے واقعات بیان کئے جائیں تو لوگوں کو بہت ترغیب ملتی ہے۔ اسی طرح رزقِ حلال کمانے اور کھانے کو بیان کرنے سے حرام سے بچنے کی ترغیب ملتی ہے چنانچہ اسی آیت کے تحت نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا جو اپنے رسولوں کو حکم ارشاد فرمایا تھا ۔

حرام کمانا اور کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جن میں سے بعض کا ذکر کیا جائے گا ۔

(1) صدقہ مقبول نہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2 / 33، حدیث: 3672)

( 2)جنت حرام ہے : حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔ (کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3) کوئی عمل قبول نہیں : حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا: یارسولُ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، دعا فرمائیے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے سعد! رضی اللہُ عنہ،اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5 / 34، حدیث: 6495)

(4) دعا قبول نہیں : حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔ (مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

(5) جہنم کے قریب :حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : ہر وہ جسم جو حرام سے پلا بڑھا تو آگ اس سے بہت قریب ہوگی۔(شعب الایمان، التاسع والثلاثون من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی طیب المطعم والملبس،5/ 56،حدیث:5759)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی ہی کمائے اور حلال روزی ہی کھائے۔ اللہ پاک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


ہم اپنے ذاتی معاملات میں تو بہت زیادہ محتاط ہوتے ہیں جب تک دل مطمئن نہ ہو جائے کوئی قدم نہیں اٹھاتے مگر افسوس جب بات آتی ہے حلال اور پاکیزہ روزی کمانے کی اور حرام سے بچنے کی تو اس قدر بے احتیاطیاں کی جاتی کے دل خون کے آنسو روتا ہے قراٰنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں کئی مقامات پر حرام کھانے اور کمانے کی مذمت بیان کی گئی ہے۔

(1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک پاک ہے اور پاک چیز کے سوا اور کسی چیز کو قبول نہیں فرماتا اور اللہ پاک نے مسلمانوں کو وہی حکم دیا ہے جو رسولوں کو حکم دیا تھا اور فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الرُّسُلُ كُلُوْا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوْا صَالِحًاؕ-اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌؕ(۵۱)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے رسولو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو، بیشک میں تمہارے کاموں کو جانتا ہوں۔ (پ18،المؤمنون:51)

اور فرمایا: ﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ﴾ ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو! ہماری دی ہوئی ستھری چیزیں کھاؤ ۔ (پ،2 ، البقرۃ:172)

پھر نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال غبار آلود ہیں وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہتا ہے یا رب! یا رب اور اس کا کھانا پینا حرام ہو اس کا لباس حرام ہو اس کی غذا حرام ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو گی۔ (تفسیر صراط الجنان، سورہ مؤمنون : 51)

(1)حرام کھانے کمانے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی: چنانچہ اعلیٰ حضرت کے والد گرامی حضرت علامہ مولانا مفتی نقی علی خان رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کھانے پینے لباس و کسب میں حرام سے احتیاط کرے کہ حرام خور و حرام کار(یعنی حرام کھانے والے اور حرام کام کرنے والے) کی دعا اکثر رد ہوتی ہے۔(فضائل دعا، ص 60)

(2) منہ میں مٹی ڈال لے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اپنے منہ میں مٹی ڈال لے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے منہ میں ایسی چیز ڈالے جسے اللہ پاک نے حرام کر دیا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان سورہ مؤمنون : 51)

(3) چالیس دن تک عمل قبول نہیں ہوتا: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہُ عنہ نے عرض کیا یا رسولُ اللہ! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دعا فرمائیے کہ اللہ پاک مجھے مُستجَابُ الدَّعْوات کردے یعنی میری ہر دعا قبول ہو۔ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے سعد رضی اللہُ عنہ اپنی خوراک پاک کرو، مستجاب الدعوات ہوجاؤ گے۔ اس ذات پاک کی قسم جس کے دستِ قدرت میں محمد مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جان ہے آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(تفسیر صراط الجنان سورہ بقرہ : 168)

(4) ذلت اور حقارت کا گھر کس کے لیے: حدیث پاک میں ہے اللہ پاک کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کردے گا اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مال میں خیانت کرنے والے کئی لوگوں کے لئے قیامت کے دن جہنم ہوگی۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: كُلَّمَا خَبَتْ زِدْنٰهُمْ سَعِیْرًا ترجمۂ کنزُالعِرفان: جب کبھی بجھنے لگے گی تو ہم اسے اور بھڑکا دیں گے۔(بنی اسرائیل 97) (تفسیر صراط الجنان سورہ بقرہ : 168)

(5) نہ کوئی فرض قبول ہو نہ نفل: حدیث پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہر دن اور رات میں بیت المقدس کی چھت پر اعلان کرتا ہے جس نے حرام کھایا تو اللہ پاک نہ تو اس کا کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ ہی کوئی نفل۔(اتحاف السادہ، 6/ 452)

ان احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ حلال روزی کمائے حلال روزی سے ہی کھائے اور حرام کھانے اور حرام کمانے سے بچے اللہ پاک ہمیں حلال کھانے اور حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حرام کھانے اور کمانے سے بچنے کا حکم دیا ہے احادیث طیبہ میں بھی حرام کھانے اور کمانے کے بارے میں کئی وعیدات وارد ہوئی ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ لوگوں میں ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان پرواہ نہ کرے گا کہاں سے لیا حلال سے یا حرام سے۔

اس حدیث کی شرح میں ائمہ کرام، مفتیان کرام، لکھتے ہیں: یعنی آخر زمانہ میں لوگ دین سے بے پرواہ ہوجائیں گے،پیٹ کی فکر میں ہر طرح پھنس جائیں گے، آمدنی بڑھانے مال جمع کرنے کی فکر کریں گے، ہر حرام و حلال لینے پر دلیر ہوجائیں گے جیسا کہ آج کل عام حال ہے ۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ ایسا بے پرواہ آدمی کتے سے بدتر ہے کہ کتا سونگھ کر چیز منہ میں ڈالتا ہے مگر یہ بغیر تحقیق بلا سوچے سمجھے ہی چیز کھا لیتا ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد: 4 حدیث: 2761)

روایت ہے حضرت ابوبکر سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جنت میں وہ جسم نہ جائے گا جو حرام سے غذا دیا گیا۔

اس حدیث کی شرح میں علمائے کرام لکھتے ہیں: غذا سے کھانے پینے کی تمام چیزیں مراد ہیں اور جنت کے داخلے سے پہلا داخلہ یا وہاں کے اعلٰی مقام میں داخلہ مراد ہے ورنہ مسلمان خواہ کتنا ہی گنہگار ہو آخر کار جنت میں جائے گا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 4 حدیث: 2787)

روایت ہے حضرت جابر سے کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود کھانے والے، کھلانے والے لکھ سود کھانے والے کا ذکر پہلے فرمایا کہ یہی بڑا گنہگار ہے کہ سود لیتا بھی ہے اور کھاتا بھی ہے، دوسرے پر یعنی مقروض اور اس کی اولاد پر ظلم بھی کرتا ہے، اللہ کا بھی حق مارتا ہے اور بندوں کا بھی۔

یعنی اصل گناہ میں سب برابر ہیں کہ سود خوار کے ممد و معاون ہیں، گناہ پر مدد کرنا بھی گناہ ہے رب تعالٰی نے صرف سود خوار کو اعلان جنگ دیا، معلوم ہوا کہ بڑا مجرم یہ ہی ہے۔( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 4 حدیث: 2807)


حرام کھانا اور کھلانا دونوں ہی اللہ پاک کو ناپسندیدہ ہے اسی ضمن میں ایک آیت مبارکہ پیش کی جاتی ہے اور چند احادیثِ مبارکہ بھی پیش کی جاتی ہیں ۔

﴿یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ- وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا(۲۹)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناحق نہ کھاؤ مگر یہ کہ کوئی سودا تمہاری باہمی رضا مندی کا ہو اور اپنی جانیں قتل نہ کرو بیشک اللہ تم پر مہربان ہے۔(پ5، النسآء:29)

اب حرام کھانے کے متعلق چند احادیثِ مبارکہ پیش کی جاتی ہیں حرام کھانا اللہ پاک کی بارگاہ میں سخت ناپسندیدہ ہے اور احادیث میں اس کی بڑی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں ، چنانچہ

(1)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ کر مرے تو جہنم میں جانے کا سامان ہے۔ اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔(مسند امام احمد، مسند عبد اللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ، 2/ 33، حدیث: 3672)

اس حدیثِ مبارکہ میں حرام مال کو چھوڑ کر مرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا کہ وہ سامانِ جہنم ہے ہمیں خوب غور کرنا چاہیے کہ ہم کہیں کسی کا ناحق مال دبانے تو نہیں بیٹھے! یا کسی شخص کو کسی بھی طرح سے حرام تو نہیں کھلا رہے!

(2)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، سرورِکائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللہ پاک نے اُس جسم پر جنت حرام فرما دی ہے جو حرام غذا سے پلا بڑھا ہو۔(کنز العمال، کتاب البیوع، قسم الاقوال، 2/ 8، الجزء الرابع، حدیث: 9257)

(3)تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے ارشاد فرمایا: اے سعد ! اپنی غذا پاک کر لو! مُستَجابُ الدَّعْوات ہو جاؤ گے، اس ذاتِ پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی جان ہے! بندہ حرام کا لقمہ اپنے پیٹ میں ڈالتا ہے تو اس کے 40 دن کے عمل قبول نہیں ہوتے اور جس بندے کا گوشت حرام سے پلا بڑھا ہو اس کے لئے آگ زیادہ بہتر ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5/ 34، حدیث: 6495)

(4)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : سرکارِ دوعالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کا ذکر کیا جو لمبا سفر کرتا ہے، اس کے بال پَراگندہ اور بدن غبار آلود ہے اور وہ اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر یا رب! یارب! پکار رہا ہے حالانکہ اس  کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام ، اور غذا حرام ہو پھر اس کی دعا کیسے قبول ہو گی۔(مسلم، کتاب الزکاۃ، باب قبول الصدقۃ من الکسب الطیب وتربیتہا، ص506، حدیث: 1015)

یہ تمام کی تمام احادیثِ مبارکہ ہمیں حرام کے مال سے بچنے کا درس دے رہی ہیں یہاں پر ہمیں غور فکر کرنا چاہئے آج کل ہمارے معاشرے میں بے روزگاری اتنی ہوتی جا رہی ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں، آج ہمارے معاشرے میں راہزنی اتنی عروج پر جا چکی ہے جس کا کوئی حساب نہیں اور یہ احادیث جو کہ حرام مال کی مذمت پر ہے ہمیں کیا کچھ نہیں بیان کر رہی ہیں ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم نے کسی مال تو نہیں دبایا ہوا، یا کسی کی کوئی چیز تو نہیں ضبط کی ہوئی! الامان الحفیظ

میرے پیارے اسلامی بھائیوں! دیکھا آپ نے کہ آیتِ مبارکہ اور احادیثِ مبارکہ میں کس طرح کی وعیدیں آئیں ہیں ہمیں اللہ پاک سے دعا گو ہونا چاہیے کہ اللہ پاک ہم سب کو حرام کھانے اور کھلانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


علمائے کرام نے گناہ کی دو قسمیں بیان کی ہیں: (۱) ظاہری گناہ (۲) باطنی گناہ ۔

ظاہری گناہ وہ ہیں جو بندے کے ظاہری اعضاء سے وقوع پذیر ہوتے ہیں ۔ جیسے: چوری ، غیبت ، ظلم ، جھوٹ وغیرہ ۔ باطنی گناہ وہ ہیں جو بندے کے ظاہری اعضاء سے وقوع پذیر نہیں ہوتے بلکہ ان کا تعلّق باطن سے ہے ۔ جیسے: ریاکاری ، حسد ، طلبِ شہرت ، شماتت وغیرہ ۔

حرام کمانا اور کھانا بھی ایک نہایت ہی سخت کبیرہ گناہ ہے ۔حرام ذریعے سے کمانے اور کھانے میں بہت سے ظاہری گناہ شامل ہیں ۔ جیسے: ظلم ، چوری ، غصب ، سود وغیرہ ۔ حرام ذریعے سے کمانے اور کھانے کے متعلق احادیث میں بڑی مذمّت بیان ہوئی ہے ۔ عموماً "ظلم" ، "سود" اور "جھوٹ" کے ذریعے ہمارے معاشرے میں حرام مال کمایا اور کھایا جارہا ہے لہٰذا ہم اِن ( ظلم ، سود اور جھوٹ) کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت بیان کرتے ہیں:

ظلم کے ذریعے حرام کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں دو احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ظلم قیامت کے دن تاریکیاں ہے۔ یعنی ظلم کرنے والا قیامت کے دن سخت مصیبت و تاریکیوں میں گھرا ہوگا ۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مظلوم کی بد دعا سے بچ کہ وہ اللہ پاک سے اپنا حق مانگے گا اور کسی حق والے کے حق سے اللہ پاک منع نہیں کرے گا۔

سود: سود کے ذریعے حرام کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں چار احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے ، وہ چھتیس (36)مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: سود کا گناہ ستّر (70) حصّہ ہے ، اُن میں سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔

(3) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : آج رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے بیتُ المقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے ، یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے ، یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اُس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارہ والا منہ میں پتھر مارکر وہیں لوٹا دیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا ، یہ کون شخص ہے؟ کہا ، یہ شخص جو نہر میں ہے ، سود خوار ہے۔

(4) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ سود کھانے سے کوئی نہیں بچے گا اور اگر سود نہ کھائے گا تو اس کے بخارات پہنچیں گے۔

جھوٹ کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں دو احادیث مندرجہ ذیل ہیں:

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا، کیا مؤمن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر عرض کی گئی، کیا مؤمن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا، کیا مؤمن کذاب ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔

(2) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن کی طبع میں تمام خصلتیں ہوسکتی ہیں مگر خیانت اور جھوٹ۔ یعنی یہ دونوں چیزیں ایمان کے خلاف ہیں ، مؤمن کو ان سے دور رہنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ بھی ظلم اور سود کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے بارے میں کئی احادیث بیان ہوئی ہیں ۔ نیز ظلم ، سود اور جھوٹ کے علاوہ کے ذریعے بھی حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے متعلق کئی احادیث وارد ہوئی ہیں ۔

دعا ہے رب العزت سے ہمیں اور آپ کو ظلم ، سود اور اس کے علاوہ کے ذریعے حرام مال کمانے اور کھانے کی مذمّت کے متعلق معلومات حاصل کرنے اور ان سے بچ کر اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت و پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قراٰن و حدیث کا ایک حصہ امرونواہی(کونسے کام کرنے ہیں اور کونسے کاموں سے بچنا ہے) پر مشتمل ہے انہی میں سے حرام مال کمانے اور کھانے سے بھی نہ صرف منع کیا گیا ہے بلکہ کئی احادیث میں اس کی مذمت بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ

(1)روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے اس سے آگ بہت قریب ہے ۔ (مرآۃالمناجیح جلد4 ،حدیث : 2772 )

(2) ابو ہریره رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ پاک پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی قبول کرتا ہے اسی حدیث میں آگے موجود ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک ایسے شخص کا ذکر فرمایا جو پرا گندہ، گرد آلود ،بال لمبے لمبے سفر کرتا ہے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا اٹھا کر کہتا ہے اے رب! اے رب! اور اس کا کھانا حرام اور پینا حرام ،لباس حرام اور حرام کی ہی غذا پاتا ہے تو اس کی دعا کیسے قبول ہوگی ؟ (مرآت المناجیح جلد 4 )

(3) ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اللہ پاک حرام کے مال سے کوئی صدقہ قبول نہیں کرتا، اور نہ ہی بغیر وضو کے کوئی نماز۔ (سنن نسائی ،حدیث : 139)

(4) إنَّ العبدَ لَيَقذِفُ اللُّقمةَ الحرامَ في جَوفِهِ ما يُتقبَّلُ منه عملٌ أربعينَ يومًا، ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جب کوئی شخص حرام کا لقمہ پیٹ میں ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اللہ پاک اُس کا عمل قبول نہیں کرتا ۔(الموسوعۃ حدیثیہ بحوالہ المعجم الاوسط ،حدیث : 6495)

(5) يَأْتي علَى النَّاسِ زَمانٌ لا يُبالِي المَرْءُ ما أخَذَ منه؛ أمِنَ الحَلالِ أمْ مِنَ الحَرامِ ہمارے پیارے اور آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:  لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ آدمی کو اس کی پروا نہیں ہو گی، کہ روزی حلال طریقے سے کمائی ہے یا حرام سے۔(بخاری شریف ،حدیث : 2059)

خلاصہ : حرام و باطل مال کی کئی صورتیں ہیں : جس طریقہ سے مال حاصل کرنا شریعت نے حرام قرار دیا ہے وہ سب باطل و ناجائز طریقہ ہے جیسے سود، چوری، اور جوئے کے ذریعے مال حاصل کرنا، جھوٹی قسم، جھوٹی وکالت، خیانت اور غصب کے ذریعے مال حاصل کرنا اور گانے بجانے کی اجرت یہ سب باطل طریقے میں داخل اور حرام ہے۔ یونہی اپنا مال باطل طریقے سے کھانا یعنی گناہ و نافرمانی میں خرچ کرنا بھی اس میں داخل ہے۔ اسی طرح رشوت کا لین دین کرنا، ڈنڈی مار کر سودا بیچنا، ملاوٹ والا مال فروخت کرنا، قرض دبالینا، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری اور پر چیاں بھیج کر ہراساں کر کے مال وصول کرنا بھی اسی میں شامل ہے۔ (اے ایمان والو، ص 181 مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو حلال رزق کھانے اور حرام رزق سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


غذا انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہے۔ بنی نوع انسانی کی ابتدا ہی سے اس کا تعلق انسان کے ساتھ جوڑ دیا گیا تھا۔ اس کا تعلق صرف انسان کے ظاہری جسم ہی کے ساتھ نہیں بلکہ جسم روحانی کے ساتھ بھی ہے کہ جس طرح اچھی غذا کے استعمال سے انسان تندرست رہتا ہے اسی طرح اچھی غذا کا استعمال انسان کی روح کو بھی تازگی دیتا ہے اور بری غذا کا استعمال اس میں فتور پیدا کر دیتا ہے، دل سخت کر دیتا ہے، جس کے سبب عبادات میں، ریاضات میں دل مطمئن نہیں ہوتا اور عبادت کی لذت ختم ہو جاتی ہے۔ لیکن اس جسم کے لیے کون سی غذا اچھی ہے اور کون سی نہیں یقیناً اس کا علم اس جسم کے خالق و مالک حکمتوں والے خدا رحمن ہی کے پاس ہے اور اس نے اسے حلال اور حرام کے نام سے واضح فرما دیا ہے۔

جیسا کہ قراٰنِ پاک میں ہے: ﴿وَ یُحِلُّ لَهُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیْهِمُ الْخَبٰٓىٕثَ﴾ ترجمہ کنز الایمان: اور ستھری چیزیں ان کے لیے حلال فرمائے گا اور گندی چیزیں ان پر حرام کرے گا۔(پ9،الاعراف 157)

اور حضور نبی اکرم رسول محترم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: إِنَّهُ لَا يَرْبُو لَحْمٌ نَبَتَ مِنْ سُحْتٍ إِلَّا كَانَتِ النَّارُ أَوْلَى بِهِ یعنی جس گوشت نے حرام سے نشوونما پائی اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔ (ترمذی، 2/614)

حرام اور مشتبہ غذا کھانے والا بارگاہ الہی سے دھتکار دیا جاتا ہے اور اسے عبادت کی توفیق نہیں دی جاتی اور اگر اتفاقا کوئی نیک عمل کر بھی لے تو وہ قبول نہیں کیا جاتا چنانچہ حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جس شخص کے پیٹ میں حرام ہو اللہ پاک اس کی نماز قبول نہیں فرماتا۔

فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے کہ بندہ حرام ذریعے سے جو مال کمائے اگر اسے خرچ کرے گا تو اس میں برکت نہ ہوگی اور اگر صدقہ کرے گا تو وہ مقبول نہیں ہوگا اور اگر اس کو اپنی پیٹھ پیچھے چھوڑ کر مر جائے گا تو وہ اس کے لیے جہنم میں جانے کا سامان ہے، بے شک اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا ہاں نیکی سے برائی کو مٹا دیتا ہے۔ (مسند امام احمد، 2/3744)

ہمارے بزرگان دین حرام تو حرام جس چیز میں حرام ہونے کا شبہ ہو اس سے بھی کوسوں دور رہا کرتے تھے۔مروی ہے کہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے غلام نے آپ کو دودھ پیش کیا تو آپ نے نوش فرما لیا غلام نے عرض کی: میں نے جب بھی کوئی چیز آپ کو دی آپ نے اس کے بارے میں پوچھا، مگر اس دودھ کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بتاؤ یہ کہاں سے آیا ہے؟ غلام نے عرض کی: میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک شخص پر منتر پھونکا تھا، اس نے آج اس کے بدلے میں یہ دیا۔ یہ سنتے ہی حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قے کر دی اور بارگاہ الہی میں عرض کی: الہی! جو میری طاقت میں تھا میں نے کردیا، جو رگوں میں رہ گیا اسے تو معاف فرما دے۔

اللہ پاک ہمیں بھی حرام سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے نقصانات سے بھی ہم سب کو محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


رزقِ حلال اللہ پاک کی عظیم نعمت اور سبب برکت ہے۔ جبکہ حرام کھانا عذاب الہی کو دعوت دینا اور خود پر قبولیت کے دروازے بند کرنا ہے ۔ قراٰنِ کریم میں حلال کھانے کے ساتھ ساتھ حرام سے بچنے کا بھی حکم دیا گیا ہے جسے اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا ﳲ وَّ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۱۶۸)﴾ ترجمۂ کنز الایمان: اے لوگو کھاؤ جو کچھ زمین میں حلال پاکیزہ ہے اور شیطان کے قدم پر قدم نہ رکھو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ 2، البقرة: 168)

تقویٰ ولایت اور مقام صدیقیت کی بنیاد : اس کی بنیاد ہی لقمہ حلال ہے ۔ اسی لیے سلف صالحین اور اولیا و مقربین رزقِ حلال کے معاملے میں نہایت احتیاط فرماتے تھے اس کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیں ایک بار امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا غلام آپ کی خدمت میں دودھ لایا ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے پی لیا۔ غلام نے عرض کی، میں پہلے جب بھی کوئی چیز پیش کرتا تو آپ رضی اللہ عنہ اس کے بارے میں دریافت فرماتے تھے لیکن اس دودھ کے بارے میں آپ نے مجھ سے دریافت نہ فرمایا ؟ یہ سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یہ دودھ کیسا ہے؟ غلام نے جواب دیا کہ میں نے زمانہ جاہلیت میں ایک بیمار پر منتر پھونکھا تھا جس کے معاوضے میں آج اس نے دودھ دیا ہے۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر اپنے حلق میں انگلی ڈالی اور وہ دودھ اُگل دیا۔ اس کے بعد نہایت عاجزی سے دربار الہی میں عرض کیا: یا اللہ پاک جس پر میں قادر تھا وہ میں نے کر دیا اس دودھ کا تھوڑا جو رگوں میں رہ گیا ہے وہ معاف فرمادے ۔

آئیے اب حدیث پاک کی روشنی میں حرام کمانے اور کھانے کے متعلق پڑھئے۔

(1)حضور علیہ السّلام نے ارشاد فرمایا: آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتا ہے تو چالیس دن تک اس کا کوئی عمل قبول نہیں کیا جاتا اور جس بندے کا گوشت سود اور حرام خوری سے اُگا اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔

(2) حضرت عبد الله بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور علیہ السّلام نے فرمایا: جس نے دنیا میں حرام طریقے سے مال کمایا اور اسے ناحق جگہ خرچ کیا تو اللہ پاک اسے ذلت و حقارت کے گھر (یعنی جہنم) میں داخل کر دے گا۔

(3) حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا :الله پاک اس کی نماز قبول نہیں فرماتا جس کے پیٹ میں حرام لقمہ ہو۔

(4) جب حضور علیہ السّلام نے دنیا پر مر مٹنے کا ذکر کیا تو ارشاد فرمایا: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ بکھرے بال گرد آلود چہرے اور سفر کی مشقت برداشت کرنے والا شخص اپنے ہاتھ اُٹھاتا ہے اور دعا کرتا ہے اے میرے رب! اے میرے رب! اس کی دعا کیسے قبول کی جائے گی جبکہ اس کا کھانا، حرام لباس حرام اور غذا حرام ہے۔

(5) بیت المقدس پر اللہ پاک کا ایک فرشتہ ہے جو ہر رات ندا کرتا ہے کہ جس نے حرام کھایا اس کے نفل قبول ہیں نہ فرض ۔

اس کا علاج : حرام مال کھانے اور کمانے پر جو وعیدیں ہیں ان پر غور کریں یہ بات آپ کو حرام مال کمانے اور کھانے سے روکنے میں مدد دے گی۔

اللہ پاک ہمیں حرام مال کھانے اور کمانے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


﴿وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا وَ یَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَ مُسْتَوْدَعَهَاؕ-كُلٌّ فِیْ كِتٰبٍ مُّبِیْنٍ(۶)﴾ ترجمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والا کوئی ایسا نہیں جس کا رزق اللہ کے ذمۂ کرم پر نہ ہو اور جانتا ہے کہ کہاں ٹھہرے گا اور کہاں سپرد ہوگا سب کچھ ایک صاف بیان کرنے والی کتاب میں ہے۔(پ12،ھود:6)

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں اس سے یہ مراد ہے کہ جانداروں کو رزق دینا اور ان کی کفالت کرنا اللہ پاک نے اپنے ذمۂ کرم پر لازم فرما لیا ہے۔(صاوی، ہود، تحت الآیۃ: 6 ، 3 / 900، 901)

محترم ساتھیوں جب رزق کا ذمہ رب نے خود لیا ہے تو بندے کو چاہیے کہ وہ رزقِ حلال ہی کمائے لیکن افسوس کہ ہمارے معاشرے میں مال کمانے کی دھن نے نا جانے کتنے ہی لوگوں کو حرام کمانے اور کھانے پر لگا دیا ہے۔(والعیاذ باللہ)

آئیے اس موضوع پر احادیث پاک سے رہنمائی لیتے ہیں:

حرام غذا پر پلنے والا جنت میں نہیں جائے گا: روایت ہے حضرت جابر سے فرماتے ہیں فرمایا رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے: وہ گوشت جنت میں نہ جائے گا جو حرام سے اُگا ہو اور جو گوشت حرام سے اُگے اس سے آگ بہت قریب ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:4 ،حدیث:2772)

حرام کمانے والے کا صدقہ قبول نہیں: امام احمد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے راوی، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صدقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُس میں برکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنم کو جانے کا سامان ہے (یعنی مال کی تین حالتیں ہیں اور حرام مال کی تینوں حالتیں خراب) اللہ پاک برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو محو فرماتا ہے بے شک خبیث کو خبیث نہیں مٹاتا۔ (’’ المسند ‘‘ للإمام احمد بن حنبل،مسند عبد اللہ بن مسعود،2/33،حدیث: 3672)

آدمی حلال و حرام میں تمیز کرنا بھول جائے گا: صحیح بخاری شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ آدمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیا ہے، حلال سے یا حرام سے۔ (’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب البیوع،باب من لم یبال من حیث کسب المال،2/7،حدیث: 2059)

حرام کے لقمے سے مٹی اچھی ہے: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے قسم کھا کر ارشاد فرمایا کہ تم میں سے کوئی مٹی لے اور اپنے منہ میں ڈال لے، یہ اس سے بہتر ہے کہ وہ ایسی چیز اپنے منہ میں ڈالے جو اس پر اللہ پاک نے حرام کی ہے۔(مسند احمد،7482)

اپنے ہاتھ سے کمانا بہتر ہے:ص حیح بخاری شریف میں مقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے مروی، حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اُس کھانے سے بہتر کوئی کھانا نہیں جس کو کسی نے اپنے ہاتھوں سے کام کرکے حاصل کیا ہے اور بے شک اللہ کے نبی داؤد علیہ الصلاۃ والسلام اپنی دستکاری سے کھاتے تھے۔(’’ صحیح البخاري ‘‘ ،کتاب البیوع،باب کسب الرجل ۔۔۔ إلخ،2/11،حدیث: 2076)

محترم قارئین کرام! حرام کی مذمت پر آپ نے احادیث طیبہ ملاحظہ فرمائیں اور ان کے علاوہ بھی کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں تا دم حیات حلال رزق کمانے اور حرام سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم