اللہ پاک نے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معلم بنا کر مبعوث فرمایا۔ آپ علیہ الصلوٰۃ  والسلام کی دیگر صفات جس طرح بے مثل و بے مثال ہیں اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اندازِ تعلیم و تربیت بھی بے شمار خوبیوں کا جامع ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی تربیت فرماتے ہوئے مختلف انداز اختیار فرمایا کرتے جن میں سے ایک جامع انداز چیزوں کی تعداد بیان کر کے سمجھانا بھی ہے۔اس میں طویل بیان کی بجائے چند پوائنٹس بیان کر کے اپنا مقصد بیان کر دیا جاتا ہے جس سے سننے والوں کے لیے اسے یاد رکھنا آسان ہو جاتا ہے۔یہاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تین چیزوں کے بیان سے تربیت فرمانے سے متعلق چند روایات پیش کی جا رہی ہیں:

حلاوتِ ایمان پانے کے لیے تین کام:ایمان کی لذت و حلاوت نصیب ہو جانا بہت بڑی نعمت ہے۔ اس کے حصول کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین چیزیں ارشاد فرمائیں:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین خصلتیں ایسی ہیں جس میں ہوں گی وہ ان کے سبب ایمان کی حلاوت پالے گا: (۱)جس کے نزدیک اللہ عزوجل اوراس کے رسول صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دوسروں سے زیادہ محبوب ہوں(۲)جو کسی بندے سے محبت کرے اور اس کی محبت صرف اللہ عزوجل کے لئے ہو اور (۳)وہ جو کفر میں لوٹنے کو اسی طرح ناپسند کرے جس طرح آگ میں ڈالے جانے کو ناپسند کرتا ہے۔(صحیح البخاری،کتاب الایمان،باب حلاوۃالایمان،الحدیث16،ج1،ص17)

مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث شریف کی شرح میں لکھتے ہیں:جیسےجسمانی غذاؤں میں مختلف لذتیں ہیں،ایسے ہی روحانی غذاؤں،ایمان و اعمال میں بھی مختلف مزے ہیں،اور جیسے ان غذاؤں کی لذتیں وہی محسوس کرسکتا ہےجس کے حواس ظاہری درست ہوں،ایسے ہی ان ایمانی غذاؤں کی لذتیں وہ ہی محسوس کرسکتا ہے جس کی روح درست ہو اور جیسے ظاہری حواس درست کرنے کی مختلف دوائیں ہیں،ایسے ہی ان حواس کے درست کرنے والی روحانی دوائیں ہیں۔اس حدیث میں ان ہی دواؤں کا ذکر ہے۔حضور جسمانی و روحانی حکیم مطلق ہیں۔جو ایمان کی حلاوت پالیتا ہے وہ بڑی بڑی مشقتیں خوشی سے جھیل لیتا ہے۔جاڑوں کی نماز،جہاد خنداں پیشانی سے ادا کرتا ہے،کربلا کا میدان اس حدیث کی زندہ جاوید تفسیر ہے،یہ لذت ہی ہر مشکل کو آسان کردیتی ہے،اسی سے رضا بالقضاء نصیب ہوتی ہے۔

” اس کی محبت صرف اللہ عزوجل کے لئے ہو “کے تحت لکھتے ہیں:یعنی بندوں سےمحض اس لیےمحبت کرے کہ رب راضی ہوجاوے،دنیاوی غرض اس میں شامل نہ ہو۔استاذ،شیخ،حتی کہ ماں باپ اولاد سے اس لئے محبت کرے کہ رضائے الٰہی کا ذریعہ ہیں اور سنت اسلام۔یہ محبت دائمی ہے،دنیاوی محبتیں جلد ٹوٹ جانے والی ہیں۔رب فرماتا ہے:"اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَئِذٍۭ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیۡنَ "۔(مرآۃ المناجیح ، ج1،ص30،ضیاءالقرآن پبلیکیشنز)

جنت میں داخلہ دلانے والے تین کام:ہر مسلمان چاہتا ہے کہ اسے جنت میں ابتداءً ہی داخلہ نصیب ہو جائے،آئے دیکھتے ہیں کہ اس حوالے سے کون سے تین کام ارشاد فرمائے گئے ہیں:نبی مکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا، ''تین خصلتیں جس میں ہوں گی اللہ عزوجل اس پر اپنی رحمت فرمائے گا اور اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا (۱)کمزور پر نرمی کرنا (۲)والدین کے ساتھ شفقت (۳)مملوک(غلاموں/جانوروں )کے ساتھ احسان۔ (ترمذی ،کتا ب صفۃ القیامۃ، رقم 2494 ،ص 561)

”اسے اپنی جنت میں داخل فرمائے گا “ کے تحت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:شروع سے ہی بغیر سزا دیئے،ورنہ ہر مؤمن خواہ کتنا ہی گنہگار ہو آخر جنت میں ضرور جائے گا۔مزید فرماتے ہیں: کمزور خواہ جسمانی حیثیت سے کمزور ہو یا مالی حیثیت سے یا عقل سے کمزور جیسے بچے اور دیوانے بے وقوف ان پر مہربانی کرو، یوں ہی ماں باپ کی خدمت بھی کرو اور ان کی ناراضی سے خوف بھی۔ شفقت شفق سے بنا بمعنی خوف و ڈر،شفقت اور محبت یا مہربانی کو کہتے ہیں جس میں ڈر بھی ہو،مملوک میں لونڈی غلام جانور وغیرہ سب داخل ہیں یہ الفاظ بہت ہی جامع ہیں،احسان سے مراد حقوق سے زیادہ ان پر مہربانی کرنا۔ (مرآۃ المناجیح ، ج5،ص169،ضیاءالقرآن پبلیکیشنز)

حِلم (بُردباری)،تقو یٰ اورحسنِ اخلاق ضروری ہیں:رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس آدمی میں تین خصلتیں نہ ہوں وہ مجھ سے نہیں اوراللہ پاک کاایسے آدمی سے کوئی تعلق نہیں،عرض کی گئی :وہ کیا خصلتیں ہیں؟ارشاد فرمایا:(۱) ایسا حِلم جس کے ذریعے جاہل کی جہالت کو دور کیاجائے(۲) حسنِ اخلاق جس کے ذریعے لوگوں میں اچھے طریقے سے زندگی بسر کی جائے(۳) ایسا تقویٰ جو آدمی کو گناہوں سے بچائے ۔ (المعجم الأوسط،3/ 362،حدیث:4848)

پیارے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا حِلم (بُردباری)،تقو یٰ اورحسنِ اخلاق اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پسندیدہ عادتیں ہیں، ہمیں ان کے حصول کی کوشش کرنی چاہئے ، ہمارے مَدَنی آقاصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہمیں اس کی دعا مانگنا بھی سکھائی ہے چنانچہ

حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بارگاہ الٰہی میں دعاکرتے ہوئے عرض کی:اَللّٰھُمَّ اَغْنِنِیْ بِالْعِلْمِ وَزَیِّنِّیْ بِالْحِلْمِ وَاَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ ترجمہ:اے اللہ پاک!مجھے علم کے ساتھ غنا،بُردبادی کے ساتھ زینت ،تقوی کے ساتھ عزت اور عافیت کے ساتھ زینت عطا فرما۔(کنز العمال،کتاب الاذکار، قسم الاقوال،۱/۸۱،جزء:۲،حدیث:۳۶۶۰)

صلہ رحمی اور معاف کر دینے کی فضیلت:حضرتِ سیِّدُنا ابو ہُریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے ،رسولُ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ پاک (قیامت کے دن) اُس کا حساب بَہُت آسان طریقے سے لے گا اور اُس کو اپنی رَحمت سے جنّت میں داخِل فرمائے گا۔ صحابہ کرام عَلَیہِمُ الرِّضْوان نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! وہ کون سی باتیں ہیں ؟فرمایا: {۱}جو تمہیں محروم کرے تم اُسے عطا کر واور{۲} جو تم سے قَطْعِ تعلُّق کرے(یعنی تعلُّق توڑے) تم اُس سے مِلاپ کرو (تعلق جوڑو)اور {۳} جو تم پر ظُلْم کرے تم اُس کومُعاف کردو۔ (اَلْمُعْجَمُ الْاَ وْسَط لِلطّبَرانی ج4ص18حدیث 5064دارالفکربیروت)

منافق کی علامات:

جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی کرنا اور امانت میں خیانت کرنا ایسی بری عادات ہیں کہ ایسی عادات والے کو منافق فرمایا گیا ہے، چنانچہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاارشادِ پاک ہے : تین باتیں ایسی ہیں کہ جس میں ہوں گی وہ منافق ہوگا اگرچہ نماز،رو زہ کا پابند ہی ہو: (۱)جب بات کرے تو جھوٹ بولے(۲)جب وہ وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے (۳)جب امانت اس کے سپر د کی جائے تو خیانت کرے ۔ (صحیح مسلم،کتاب الایمان ،باب بیان خصال المنافق ،رقم 59، ص 50)


رسول پاک صاحب لولاک سیاح افلاک صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نےکئی مواقوں،کئی چیزوں پر اپنے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تربیت فرمائی ھے :مثلاً،کبھی کسی قول کے ذریعے،کبھی کسی فعل کے ذریعے،کبھی تو ایسا بھی ھوا کہ،نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی کام کو خود کر کے اپنے پیارے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی تربیت فرمائی۔بہرحال میں آپ کو رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان کہ جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے 3 چیزیں بیان فرما کےسب مسلمانوں کی تربیت فرمائی

مسند امام احمد جلد 7 - باب: حضرت ابوکبشہ انماری (رضی اللہ عنہ) کی حدیثیں، حدیث نمبر: 1133:

حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ مُسْلِمٍ حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ خَبَّابٍ عَنْ سَعِيدٍ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيِّ عَنْ أَبِي كَبْشَةَ الْأَنْمَارِيِّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ ثَلَاثٌ أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ وَأُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ قَالَ فَأَمَّا الثَّلَاثُ الَّذِي أُقْسِمُ عَلَيْهِنَّ فَإِنَّهُ مَا نَقَّصَ مَالَ عَبْدٍ صَدَقَةٌ وَلَا ظُلِمَ عَبْدٌ بِمَظْلَمَةٍ فَيَصْبِرُ عَلَيْهَا إِلَّا زَادَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا عِزًّا وَلَا يَفْتَحُ عَبْدٌ بَابَ مَسْأَلَةٍ إِلَّا فَتَحَ اللَّهُ لَهُ بَابَ فَقْرٍ وَأَمَّا الَّذِي أُحَدِّثُكُمْ حَدِيثًا فَاحْفَظُوهُ فَإِنَّهُ قَالَ إِنَّمَا الدُّنْيَا لِأَرْبَعَةِ نَفَرٍ عَبْدٌ رَزَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالًا وَعِلْمًا فَهُوَ يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ وَيَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَيَعْلَمُ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِ حَقَّهُ قَالَ فَهَذَا بِأَفْضَلِ الْمَنَازِلِ قَالَ وَعَبْدٌ رَزَقَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عِلْمًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ مَالًا قَالَ فَهُوَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِي مَالٌ عَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ قَالَ فَأَجْرُهُمَا سَوَاءٌ قَالَ وَعَبْدٌ رَزَقَهُ اللَّهُ مَالًا وَلَمْ يَرْزُقْهُ عِلْمًا فَهُوَ يَخْبِطُ فِي مَالِهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ لَا يَتَّقِي فِيهِ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلَا يَصِلُ فِيهِ رَحِمَهُ وَلَا يَعْلَمُ لِلَّهِ فِيهِ حَقَّهُ فَهَذَا بِأَخْبَثِ الْمَنَازِلِ قَالَ وَعَبْدٌ لَمْ يَرْزُقْهُ اللَّهُ مَالًا وَلَا عِلْمًا فَهُوَ يَقُولُ لَوْ كَانَ لِي مَالٌ لَعَمِلْتُ بِعَمَلِ فُلَانٍ قَالَ هِيَ نِيَّتُهُ فَوِزْرُهُمَا فِيهِ سَوَاءٌ

حضرت ابو کبشہ انماری (رضی اللہ عنہ) سے مروی ہے کہ میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین چیزیں ہیں جن پر میں قسم کھا سکتا ہوں اور ایک حدیث ہے جو میں تم سے بیان کرتا ہوں، سو اسے یاد رکھو، وہ تین چیزیں جن پر میں قسم کھاتا ہوں وہ یہ ہیں کہ صدقہ کی وجہ سے کسی انسان کا مال کم نہیں ہوتا جس شخص پر کوئی ظلم کیا جائے اور وہ اس پر صبر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی عزت میں مزید اضافہ کر دے گا اور جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ کھولتا ہے اللہ اس پر فقروفاقہ کا دروازہ کھول دیتا ہے اور وہ حدیث جو میں تم سے بیان کرتا ہوں، وہ یہ ہے کہ دنیا چار قسم کے آدمیوں کی ہے، ایک وہ آدمی جسے اللہ نے مال اور علم سے نوازا ہو، وہ اپنے علم پر عمل کرتا ہو اورمال كو اس کے حقوق میں خرچ کرتا ہو، اس کا درجہ سب سے اونچا ہے، دوسرا وہ آدمی جسے اللہ نے علم عطا فرمایا ہو لیکن مال نہ دیا ہو اور وہ کہتا ہو کہ اگر میرے پاس بھی مال ہوتا تو میں بھی اس شخص کی طرح اپنے علم پر عمل کرتا، یہ دونوں اجروثواب میں برابر ہیں۔ تیسرا وہ آدمی جسے اللہ نے مال سے تو نوازا ہو لیکن علم نہ دیا ہو، وہ بدحواسی میں اسے ناحق مقام پر خرچ کرتا رہےنہ اپنے رب سے ڈرے، نہ صلہ رحمی کرے اور نہ اللہ کا حق پہچانے اس کا درجہ سب سے بدترین ہے اور چوتھا وہ آدمی جسے اللہ نے نہ مال سے نوازا ہو اور نہ ہی علم سے اور وہ یہ کہتا ہو کہ گر میرے پاس بھی اس شخص کی طرح مال ہوتا تو میں بھی اسے اس شخص کی طرح کے کاموں میں خرچ کرتا، یہ دونوں گناہ میں برابر ہیں۔( مسند امام احمد ،باب :حضرت ابو کبشہ انماری رضی اللہ عنہ کی حدیثیں ،حدیث نمبر :1133،صفحہ نمبر 3)

مذکورہ حدیث پاک کا سبب بیان کرتے ہوے 'حافظ الحدیث امام جلال الدین سیوطی شافعی رحمۃ اللہ علیہ ،اپنی کتاب (اسباب ورود الحدیث یا اللمع فی اسباب الحدیث ،متوفی911ھ)میں فرماتےہیں۔آپ نے مسند امام احمد سےنقل کیا ھے۔کہ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ایک آدمی نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو گالی دی معاذاللہ اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(بھی وہیں)تشریف فرما تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تعجب سے مسکراتے رہے۔جب اس نے زیادہ گالیاں معاذاللہ دینا شروع کر دیں تو حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کی بعض باتوں کا جواب دیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ناگوار گزرا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کر چلے گئے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملے۔عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!وہ مجھے گالیاں دے رہا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہاں تشریف فرما رہے جب میں نےاس کو جواب دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند فرمایا اور وہاں سے کھڑے ہو گئے ۔(اس میں کیا حکمت تھی؟)ارشاد فرمایاصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:اےابو بکر!تیرے ساتھ ایک فرشتہ تھا ۔جوتیری طرف سے جواب دے رہا تھا ۔جب تو نے جواب دینا چاہا تو شیطان (درمیان میں) آ گیا۔میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شیطان کے ہوتے ہوئے بیٹھنا پسند نہیں کرتا۔پھر ارشاد فرمایا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم: اے ابو بکر ! 3 چیزیں حق ہیں ۔

1۔ بندے پر جب ظلم ہو اور وہ اللہ پاک کی رضا کے لئےصبر کر کے خاموش رہےتو اللہ پاک مدد کرنے کے ساتھ ساتھ اس کو عزت عطا کرتا ہے۔

2۔ اور جب بندہ مال اس لیے کماتا ہےکہ صلہ رحمی کرے گا تو اللہ پاک اس کے مال میں اضافہ فرماتا ہے۔

3۔ جب بندہ سوال اس لیے کرتا ہےکہ اس کا حال بڑھے تو اللہ پاک اس کے مال میں کمی کرنے میں اضافہ فرماتا ہے۔( مسندامام احمد (مطبوعہ، ،جلد 7صفحہ نمبر436، مع اسباب الحدیث (مکتبہ اعلی حضرت))

حضرت علامہ مولانا عبد المصطفی شاھد محمود مدنی مدظلہ العالی نےمذکورہ کتاب امام جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ کی شرح بیان کی ہےآپ مذکورہ حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس حدیث پاک میں سوال کرنے سے ممانعت وارد ہوئی ہےاور سوال کرنے کے متعلق بیان فرماتے ہیں : کسی سے سوال کرنے کی چار قسمیں بنتی ہیں: حاشیہ بخاری شریف جلد 1 صفحہ نمبر 199، پر درج ذیل ہیں۔

1۔حرام: سوال کرنا اس بندے کے لیے حرام ہےجس کے پاس اتنا مال ہو کہ غنی ہو۔

2۔مکروہ: اس شخص کے لیے سوال کرنا مکروہ ہےجس کے پاس گزر بسر کے لیے مال ہو۔

3۔مباح:اس شخص کے لیے سوال کرنا جائز ہےجو مال نہ رکھتا ہو اور حاجت کے لیے مانگے۔

4۔واجب:جس کے پاس کھانے پینے کو کوئی چیز نہ ہو یا کوئی ایسی ضرورت لاحق ہو کہ مال نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہلاک ہو جائےتو جان بچانے کے لئے اسے سوال کرنا واجب ہے۔( حاشیہ بخاری جلد 1صفحہ 199 ،مطبوعہ،قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

اور اسی طرح صبر کرنے پر بھی بشارت سنائی گئی اورصبر کرنے کے بہت ہی فوائد ہیں اور صبر کرنے پر بے حساب اجر ملتا ہے ۔ جیسا کہ اللہ پاک اپنے پیارے کلام پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا یُوَفَّى الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَهُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ (پارہ 23 سورۃ الزمر آیت نمبر 10) ترجمۂ کنز الایمان :صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی۔

اللہ پاک ہم سب کومذکورہ حدیث پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


اللہ رب العالمین نے انسانوں کی ہدایت کے لیے انبیاء کرام علیہ السلام کو مبعوث فرمایا انہی میں سے ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم بھی ہیں جن کو اللہ رب العالمین نے کئی کمالات و معجزات سے نوازا جن میں سے حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک وصف "معلم" ہونا بھی ہے خود نبی پاک صل اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ہے (انمابعثت معلما) ترجمہ "میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں"(ابنِ ماجہ ، 1 / 150 ، حدیث : 229) معلم کا کام چونکہ تعلیم و تربیت دینا ہوتا ہے اسی لیے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ کام اتنے احسن انداز سے فرمایا کہ اس جیسی دنیا میں مثال نہیں ملتی چونکہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابہ علیھم الرضوان کی تربیت فرمانا کئی طرح سے تھا قولا، فعلا اور کبھی مخاطب سے سوال کر کے اور بھی طریقوں سے صحابہ علیھم الرضوان کی تربیت فرمائی۔ یہاں اسی مناسبت سے ایسی احادیث پیش کی جارہی ہیں کہ  جن میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے تین چیزوں کے بیان  سے صحابہ علیھم الرضوان کی تربیت فرمائی

1)( ایمان کی لذت) وَعَنْہ قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ (مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ) ترجمہ: روایت ہے اُنہی سے فرماتے ہیں فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا  الله  و رسول تمام ماسواء سےزیادہ پیارے ہوں جوبندےسےصرف  الله  کے لیے محبت کرے  جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔   (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:1 , حدیث نمبر:8)

3)(منافق کی تین علامات) عَنْ اَبِيْ هُرَيْرَةَ اَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اٰيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ اِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ وَاِذَا اُؤْتُمِنَ خَانَ. ’’وَفِیْ رِوَایَۃٍ: وَ اِنْ صَامَ وَصَلَّی وَزَعَمَ اَنَّہُ مُسْلِمٌ‘‘.ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : ’’منافق کی تین علامات(نشانیاں) ہیں : (1) جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ (2)جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرےاور(3) جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ ‘‘ایک روایت میں ہے : اگرچہ وہ روزے رکھے ، نماز پڑھےاور اپنے آپ کو مسلمان گمان کرے۔   (کتاب:فیضان ریاض الصالحین   جلد:3 , حدیث نمبر:199)

4)(میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں)عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ: اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ، فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَیَبْقٰی وَاحِدٌ، یَرْجِعُ اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُترجمہ: حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ،  گھر والے ،   مال اور اس کاعمل،  پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا  عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ ‘‘(کتاب:فیضان ریاض الصالحین   جلد:2 , حدیث نمبر:104)

5)(تین چیزوں میں دیر نہ لگاؤ) عَنْ عَلِيٍّ: أَنَّ النَّبِيَّ -صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- قَالَ:يَا عَلِيُّ، ثَلَاثٌ لَا تُؤَخِّرْهَا: الصَّلَاةُ إِذَا أَتَتْ، وَالْجِنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالأَيِّمُ إِذَا وَجَدْتَ لَهَا كُفُؤًا رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ ترجمہ: روایت ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اے علی تین چیزوں میں دیر نہ لگاؤ نمازجب آجائے اورجنازہ جب تیارہوجائے اور لڑکی جب اس کا ہم قوم مل جائے (کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:1 , حدیث نمبر:605)

6)(تین شخص مشک کے ٹیلوں پر)وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثَلَاثَةٌ عَلٰى كُثْبَانِ الْمِسْكِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: عَبَدٌ أَدّٰى حَقَّ اللّٰهِ وَحَقَّ مَوْلَاهُ، وَرَجُلٌ أَمَّ قَوْمًا وَهُمْ بِهٖ رَاضُوْنَ، وَرَجُلٌ يُنَادِيْ بِالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ كُلَّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ

ترجمہ روایت ہے حضرت ابن عمر سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے قیامت کے دن تین شخص مشک کے ٹیلوں پرہونگے ایک وہ غلام جواللہ کا حق اوراپنے مولا کا حق اداکرتا رہے اور ایک وہ شخص جوکسی قوم کی امامت کرے اور وہ اس سے راضی ہوں اورایک وہ شخص جو ہردن رات پانچ نمازوں کی اذان دے ۔(کتاب:مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح  جلد:1 , حدیث نمبر:666)


تربیت، انسانی اخلاق کو سنوارنے والی چیز ھے جس کی وجه سے انسان دوسروں کی نظروں میں معزز بن جاتا ھے۔

تربیت کا درست وقت: ویسے تو تربیت کا تعلق کسی خاص وقت سےنہیں ھوتا، لیکن خاص طور پر بچے کی تربیت بہت اھم ھوتی ھے کیونکہ بچے کا ذھن کورے کاغذ کی طرح ھوتا ھے اس پر جو بھی لکھا جائے وہ پتھر پرلکیر کا کام دیتا ھے، یعنی ابتداء ھی جو بات اس کے دل ودماغ میں ڈال دی جائے وہ مضبوط ومستحکم ھوجاتی ھے۔لہٰذا والدین کوچاھیے کہ وہ بچپن ھی سے اولاد کی تربیت پر بھر پور توجہ دیں اب آتے ھیں حضور علیه السلام کی سیرت طیبه کی طرف رسول الله صلی الله علیه وسلم بہت ھی احسن اور پیارے انداز میں تربیت فرماتے آپ کے مبارک انداز سے نور کی ایسی شعائیں جھلکتی تھیں که لوگ عش عش کر اٹھتے گویا انکے کے لئے مشعل راہ ھے آپ کی امت کیسے اندھیروں میں بھٹک رھی تھی اور آپ نے کتنے پیارے انداز میں اپنی امت کی تربیت فرما کر ان کو اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا گویا آپ کے مبارک انداز تربیت سے نا صرف آپ کی دکھیاری امت بلکه کثیر تعداد میں دشمنان اسلام کفار بھی راہ راست پر ھولئے جو اپنے جھوٹے خداؤں کو چھوڑ کر حقیقی خالق ومالک اور اسکے رسول الله صلی الله علیه وسلم پر ایمان لے آئے آپ کے مبارک انداز تربیت پر اپنے تو اپنے بیگانے بھی عش عش کر اٹھے اب آئیں اس طرف که رسول الله کس طرح تین چیزوں سے تربیت فرماتے

تین خصلتوں والا ایمان کی لذت پالے گا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا که جس میں تین خصلتیں ھوں وہ ایمان کی لذت پالے گا ۔

1 الله اور اسکا رسول تمام ماسواء سےزیادہ پیارے ھوں

2 جوبندےسےصرف الله کے لیے محبت کرے

3 کفر میں لوٹ جانا جب که رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 حدیث نمبر:8)

تین قسم کے لوگوں کے لئے دگنا ثواب :روایت ھے ابوموسیٰ اشعری سے فرماتے ھیں که فرمایا رسول الله صلی الله علیه وسلم نے تین شخص وہ ھیں جنہیں ڈبل ثواب ملتا ھے ۔

1 وہ کتابی جو اپنے نبی پربھی ایمان لائے اور محمد صلی الله علیه وسلم پر بھی

2 غلام مملوک جب الله کا حق بھی اداکرے اور اپنے مولاؤں کا بھی

3 اور وہ شخص جس کے پاس لونڈی تھی جس سےصحبت کرتا تھا اُسے اچھا ادب دیا اور اچھی طرح علم سکھایا پھر اُسے آزاد کرکے اس سے نکاح کر لیا اُس کے لیے دوھرا ثواب ھے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 حدیث نمبر:11)

تین ایسی خصلتیں جو نجات دلاتی ھیں اور تین ایسی خصلتیں جو ھلاکت میں ڈالتی ھیں: حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنه راوی ھیں که رسول الله نے فرمایا که تین خصلتیں نجات دلانے والی اور تین خصلتیں ھلاکت میں ڈالنے والی ھیں نجات دلانے والی خصلتیں یه هیں

1۔ظاھر و باطن میں الله سے ڈرنا

2۔خوشی و ناراضگی میں حق بولنا

3۔ مالداری اور فقیری میں درمیانی چال چلنا

اور ہلاکت میں ڈالنے والی خصلتیں یه ھیں: 1۔نفسانی خواھشوں کی پیروی کرنا 2۔بخیلی کی اطاعت کرنا 3۔اپنی ذات پر َگھمنڈ کرنا اور یه ان تینوں میں سب سے زیادہ سخت ھے۔(منتخب حدیثیں جلد:1 حدیث نمبر:33)

تین اعلی چیزوں میں دیر نہ کرو: حضرت علی رضی الله عنه سے مروی ھے که فرمایا نبی صلی الله علیه وسلم نے اے علی تین چیزوں میں دیر نه لگاؤ۔1۔ نمازجب آجائے۔2۔اورجنازہ جب تیارھوجائے ۔3۔اور لڑکی جب اس کا ھم قوم مل جائے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 حدیث نمبر:605)

بیان کردہ احادیث کو مد نظر رکھتے ھوئے غور و فکر کریں کے پیارے آقا کریم نے کتنے پیارے انداز میں اپنی امت کی تربیت فرمائی کسطرح تین خصلتوں والا ایمان کی لذت پا لیتا ھے فلاں تین قسم کے لوگ دگنا ثواب پاتے ھیں تین کام ھلاکت میں ڈالتے اور تین کام نجات دلاتے ھیں تین چیزوں میں دیر نا کرنا یه ھے ھمارے پیارے آقا کریم کا انداز تربیت فرمانا ھمارے لئے مشعل راہ ھیں ھمیں بھی اپنے اندر شوق و جذبه پیدا کرنا چاھئے تاکه ھمارا شمار بھی الله کے ھاں مقبول بندوں میں ھو تاکه ھماری آخرت سنور جائے آخرت سنورنے کے ساتھ دنیا خود بخود سنور جاتی ھے جو دنیا کے پیچھے لگ جاتا ھے وہ آخرت کو بھول جاتا ھے گویا دنیا ھی اس کے لئے سب کچھ ھے جبکه دنیا ایک دھوکه ھے جو فنا ھونے والی ھے اور انسان اتنا بے وقوف ھے که آخرت کو بھول کر پھر بھی دنیا کے پیچھے ھے جبکه حقیقت آشکار ھے اور یه پھر بھی دھوکے میں ھے آخرت میں نه دنیا کام آئے گی نه دنیا والے بلکه ایک ھی چیز کام آئے گی وہ ھے الله و رسول کی اطاعت ھمیں اپنے اندر جھانکنا چاھئے که کیا ھم ایسے کام تو نہیں کر رھے جو الله و رسول کی ناراضگی کا سبب بنے اور ھماری آخرت خسارے میں ھو

الله سے دعا ھے که ھمیں حضور علیه السلام کی سچی پکی محبت نصیب فرمائے انکی سیرت طیبه پر عمل پیرا ھونے کی توفیق دے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی الله علیه وسلم


قارئین کرام ۔اللہ پاک  کے نبی ، نبی مکرم ، شفیع معظم ، نور مجسم ،مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ وسلم کو کئی خصوصیات سے نوازا ۔ان ہی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ,,من جانب اللہ جوامع الکلم ،، ہے۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے۔ بعثت جوامع الکلم۔ کہ مجھے جامع کلام عطا کیا گیا۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر:2977)

قارئین کرام ، اسی واسطے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے الفاظ مختصر مگر مفھوم وسیع ، عریض اور طویل ہوتا ہے۔ ایک ایک جملہ وسیع موضوع بن سکتا ہے۔تو آپ کے سامنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی کچھ ارشادات پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں ۔ جن میں پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ثلاث، ثلاثہ ( تین چیزیں) کے ذریعے اپنی امت کی اصلاح و تربیت فرمائی ۔ جن میں ہر ایک پر عمل کر کے اپنی زندگی کو دنیا و آخرت میں فلاح و کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔

01۔ { ایمان کی مٹھاس پانے (حاصل) کرنے والے تین لوگ}وَعَنْ أَنَسٍ قالَ: قَالَ رَسُولُ الله صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ: مَنْ كَانَ اللّٰهُ وَرَسُولُهٗ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا وَمَنْ أَحَبَّ عَبْدًا لَا يُحِبُّهٗ إِلَّا لِلّٰهِ وَمَنْ يَكْرَهُ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ اللّٰهُ مِنْهُ كَمَا يُكْرَهُ أَنْ يُلْقٰى فِي النَّارِ ۔ترجمہ۔حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ۔ پیارے آقا مکی مدنی مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس میں تین خصلتیں ہوں وہ ایمان کی لذت پالے گا ۔ (01) الله و رسول تمام ماسواءسےزیادہ پیارے ہوں (02) جوبندےسےصرف الله کے لیے محبت کرے (03) جو کفر میں لوٹ جانا جب کہ رب نے اس سے بچالیا ایسا بُرا جانے جیسے آگ میں ڈالا جانا۔{صحيح البخاري،كِتَاب الْإِيمَان ،باب حَلاَوَةِ الإِيمَانِ، حدیث ، 16}

02۔ { منافق کی تین نشانیاں} عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: آيَةُ المُنَافِقِ ثَلاَثٌ: إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔ترجمہ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ وسلم روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، منافق کی تین علامتیں ہیں۔ (10) جب بات کرے جھوٹ بولے، (02) اور جب وعدہ کرے وعدہ خلافی کرے(03) اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔ {صحیح بخاری ، حدیث نمبر: 33 ،کتاب الایمان ، باب علامۃ المنافق،}

03۔ { اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تربیت کرو }نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :(( ادبوا اولادکم علی ثلاث خصال: حب نبیکم و حب اھل بیتہ و قراۃ القرآن)) یعنی اپنی اولاد کو تین خصلتیں سکھاؤ (01) اپنے نبی کی محبت (02) نبی پاک کے اہل بیت کی محبت (03) اور قرآن کی قراءت ۔ { الجامع الصغیر مع التیسیر ، ج،1،ص،53}

04۔ { تین لوگوں کا خون(قتل) حلال ہے}عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ ر سُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِیٍٔ مُّسْلِـمٍ اِلَّا بِاِحْدٰی ثَلَاثٍ اَلثَّیِّبِ الزَّانِی وَالنَّفْسِ بِالنَّفْسِ وَالتَّارِکِ لِدِیْنِہِ الْمُفَارِقِ لِلْجَمَاعَۃ۔ترجمہ ۔حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں سوائے یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ پائی جائے: (1)…شادی شدہ زانی، (2)… جان کے بدلے جان (قصاص) اور (3)… اپنے دین کوچھوڑ کرجماعت سے الگ ہونے والا۔‘‘ {بخاری، كتاب الديات،ج،4،ص،361، حدیث 6878،مسلم، کتاب القسامة، ص710، حدیث:4375}

شرحِ حدیث ۔یاد رکھئے! اسلام میں انسانی جان کی بے پناہ حرمت ہے اور کسی انسان کو قتل کرنا شدید کبیرہ گناہ ہے اور اس کی محدود صورتوں کے علاوہ کسی بھی طرح اجازت نہیں۔ (صراط الجنان،ج،5،ص،458)

قصاص میں قتل کرنا یعنی قتل کے بدلے قتل اور یہ بھی قاضی کے فیصلے کے بعد ہے ، یہ نہیں کہ بغیر قاضی کے فیصلے کے خود ہی قصاص لیتے پھریں ، اس کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں ۔ پھر قصاص میں قتل کی اجازت کے ساتھ اس کی بھی حدود و قُیود بیان فرمائی ہیں کہ قصاص میں قتل کرنے میں بھی مقتول کا وارث حد سے نہ بڑھے جیسے زمانَۂ جاہلیت میں ایک مقتول کے عِوض میں کئی کئی لوگوں کو قتل کردیا جاتا تو فرمایا گیا کہ صرف قاتل سے قصاص لیا جائے گا ، کسی اور سے نہیں۔ نیز قصاص لینے کا حق ولی کو ہے اور ولی میں وہی ترتیب ہے جو رشتے داروں کی ایک خاص قسم میں ہے اور جس کا ولی نہ ہو اس کا ولی سلطان ہے۔ پھر یہ کہ قصاص حَقُّ العبد ہے، اگر ولی چاہے تو معاف کردے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام میں انسانی جان کی کس قدر حرمت بیان کی گئی ہے اور آج ہمارے معاشرے کا حال یہ ہے کہ جس کا دل کرتا ہے وہ بندوق اٹھاتا ہے اور جس کو دل کرتا ہے قتل کردیتا ہے، کہیں سیاسی وجوہات سے، تو کہیں علاقائی اور صوبائی تَعَصُّب کی وجہ سے۔ ان میں سے کوئی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ قتل کی اجازت صرف مخصوص صورتوں میں حاکِمِ اسلام کو ہے اور کسی کو نہیں۔ {{صراط الجنان، ج، 6،ص،458ملخصا}}

دین سے نکل جانے کی صورتیں: دین سے نکل جانے کی دو صورتیں ہیں: یا تو اسلام کو چھوڑکر یہودی،عیسائی،ہندو وغیرہ دوسری ملت میں داخل ہو جائے یا کلمہ گو تو رہے مگر کوئی کفریہ عقیدہ اختیارکرے ۔(مراٰۃ المناجیح ،ج،5،ص،214)

04۔ {وہ تین لوگ جن سے قیامت کے دن اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا}عن أبي هريرة رضي الله عنه مرفوعاً: «ثلاثةٌ لا يُكلمهم الله يوم القيامة، ولا يُزَكِّيهم، ولا يَنظُر إليهم، ولهم عذابٌ أليم: شَيخٌ زَانٍ، ومَلِكٌ كذَّاب، وعَائِل مُسْتكبر». ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تین قسم کے آدمیوں سے نہ تو اللہ تعالی روزِ قیامت کلام کرے گا، نہ انہیں پاک کرے گا اورنہ ان کی طرف دیکھے گا اور انہیں درناک عذاب ہوگا:(01) بوڑھا زانی، (02) جھوٹا بادشاہ (03) اور تکبر کرنے والا مفلس“۔ {صحيح مسلم، ج، 1 ، ص، 102،حدیث نمبر،107 بيروت}

اللہ پاک ہمیں ان ارشادات کریمہ پر عمل پیرا ہونے کی توفیق رفیق عنایت فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امت سے انتہائی حساس اور محبت والا رشتہ ہے آپ اپنی امت سے بے انتہا محبت فرماتے ہیں آپ نے امت کی ہر حوالے سے تربیت فرمائی حتی کہ آپ نے استنجاء کے حوالے سے بھی غیر کا محتاج نہیں چھوڑا آپ نے اپنے اصحاب کو ہر حوالے سے تعلیم دی اس حوالے احادیث مبارکہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

1: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد کو تین چیزوں کا ادب سیکھاؤ : اپنے نبی کی محبت، اہل بیت کی محبت اور قرآن کی تلاوت کا ادب۔سیوطی، الجامع الصغیر، 1 : 25، رقم 311، دار الکتب العلمیۃ بیروت۔ لبنان

2 : ترجمہ : عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین چیزوں کو واپس نہ کیا جائے: تکیہ، تیل اور دودھ ۔امام ترمذیؒ فرماتے ہیں، کہ تیل سے مراد "خوشبو"ہے۔ (أبواب الأدب ، باب ماجاء في كراهية ردالطيب ج : 4 ص : 405 )

3 : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہےکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالی بندے کے تین قسم کے گناہ معاف نہیں کرے گا ،اُن گناہوں کے علاوہ جس قدر گناہ ہوں گے اُن کو معاف کر دے گا ،لیکن اُن تین گناہوں کو کبھی معاف نہیں فرمائے گا:

۱۔ اللہ تعالٰی کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ۔

۲۔جادو کرنا یا کروانا۔

۳۔اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ حسد کرنا۔

4 : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تین باتوں کو ناپسند فرماتا ہے : (1)قِیل و قَال (2) مال ضائع کرنا (3) کثرت سے سوال کرنا ۔

5 : مروی ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ مجھے تمہاری دنیا میں سے عورتیں، خوشبو پسند ہے، اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھ دی گئی ہے، تو ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول! مجھے بھی دنیا کی تین چیزیں پسندہیں:آپ کو دیکھتا رہنا، آپ پر خرچ کرنے کے لیے مال جمع کرنا، آپ کی قربت کے ذریعے آپ کا وسیلہ حاصل کرنا، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ نے عرض کیا:یا رسول اللہ! مجھے تین چیزیں محبوب ہیں:امر بالمعروف کرنا( نیکی کا حکم دینا)، نہی عن المنکر کرنا( برائی سے روکنا) ، اللہ تعالی کا حکم نافذ کرنا، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا : یا رسول اللہ! میرے لیے تین چیزیں محبوب بنائی گئی ہیں:بھوکے کو کھانا کھلانا، پیاسے کو سیراب کرنا،اور برہنہ کو لباس پہنانا، حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالی عنہ عرض کیا:یا رسول اللہ! میرے نزدیک تین چیزیں محبوب ہیں: موسم گرما میں روزے رکھنا، مہمان نوازی کرنا ، آپ کی حفاظت میں تلوار چلانا ۔مسند احمد، مسند أنس بن مالك، الرقم: 12292


آپ صلی اللہ علیہ  وسلم نے امت مسلمہ کی بہترین رہنمائی فرمائی جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال مسلمانوں کی زندگی کے لیے بہترین نمونہ ہے اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مسلمانوں کی تربیت کے لیے ایک بہترین خزانہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کے ذریعے امت مسلمہ کی تین چیزوں کے بارے میں بہترین رہنمائی فرمائی ہے ان میں سے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں

حدیث نمبر . . . 1 عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ: یَتْبَعُ الْمَیِّتَ ثَلَاثَۃٌ: اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَعَمَلُہُ، فَیَرْجِعُ اِثْنَانِ وَیَبْقٰی وَاحِدٌ، یَرْجِعُ اَہْلُہُ وَمَالُہُ وَیَبْقٰی عَمَلُہُ.

ترجمہ:حضرت سَیِّدُنَا انس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےفرمایا: ’’ میت کے پیچھے تین چیزیں جاتی ہیں ، گھر والے ، مال اور اس کاعمل، پس دو چیزیں یعنی اس کے گھر والے اور اس کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ایک چیز یعنی اس کا عمل اس کے ساتھ باقی رہتاہے۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین ;جلد1:حدیث نمبر :104)

حدیث نمبر . . . . . 2 وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : أَبْغَضُ النَّاسِ إِلٰى اللهِ ثَلَاثَةٌ: مُلْحِدٌ فِي الْحَرَمِ، وَمُبْتَغٍ فِي الإِسْلَامِ سُنَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ، وَمُطَّلِبٍ دَمَ امْرِئٍ بِغَيْرِ حَقِّ لِيُهْرِيقَ دَمَهُ. روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے الله کی بارگاہ میں تین شخص ناپسند ترین ہیں حرم میں بے دینی کرنے والا اسلام میں جاہلیت کے طریقے کا متلاشی مسلمان کے خون ناحق کا جویاں تاکہ اس کی خونریزی کرے۔(مرآة المناجیح شرح مشکوةالمصابیح جلد 1:حدیث نمبر ' 142)

حدیث نمبر . . . . 3 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا مَاتَ الْاِنْسَانُ اِنْقَطَعَ عَنْہُ عَمَلُہٗ اِلَّا مِنْ ثَلٰثَۃٍ اِلَّا مِنْ صَدَقَۃٍ جَارِیَۃٍ اَوْعِلْمٍ یُّنْتَفَعُ بِہٖ اَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُوْ لَہٗ۔ حضرت ابو ہریر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ہے کہ جب انسا ن مرجاتا ہے تو اس سے اس کے عمل کا ثواب کٹ جاتا ہے مگر تین عمل سے (کہ ان کا ثواب مرنے کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ) { ۱ } صدقہ جاریہ کا ثواب { ۲ } یا اس علم کاثواب جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں { ۳ } یانیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔ ( مشکاۃ المصابیح،کتاب العلم،الفصل الاوّل، الحدیث:۲۰۳، ج۱،ص۶۰)

حدیث نمبر . . . . . 4وَعَنْ مُعَاذٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:اتَّقُوْا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ: الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ. روایت ہے حضرت معاذ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین لعنتی چیزوں سے بچو،گھاٹوں،درمیانی راستہ اور سایہ میں پاخانہ کرنے سے (مرآة المناجیح شرح مشکوةالمصابیح جلد 1:حدیث نمبر' :35)

حدیث نمبر . . 5عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنِ النَّبيّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : ثَلاثٌ مَنْ كُنَّ فِيْهِ وَجَدَ بِهِنَّ حَلاوَةَ الْاِيمَانِ : اَنْ يَكُونَ اللهُ وَرَسُوْلُهُ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سَوَاهُمَا وَاَنْ يُّحِبَّ المَرْءَ لا يُحِبُّهُ اِلَّا لِلهِ وَاَنْ يَّكْرَهَ اَنْ يَّعُوْدَ فِی الْكُفْرِ بَعْدَ اَنْ اَنْقَذَهُ اللهُ مِنْهُ كَمَا يَكْرَهُ اَنْ يُّقْذَفَ فِي النَّارِ. ترجمہ : حضرتِ سَیِّدُنااَنس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ دو عالم کے مالک ومختار ، مکی مَدَنی سرکارصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا : ’’جس میں یہ تین باتیں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پالے گا : ( 1 )اللہ عَزَّوَجَل اس کارسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہوں ۔ ( 2 ) صرف رضائے الٰہی کے لئے کسی سے محبت کرے اور ( 3 ) وہ جسےاللہ عَزَّ وَجَل نے کفر سے نجات دے دی تو اسے دوبارہ اس کی طرف جاناآگ میں ڈالے جانے کی طرح نا پسند ہو ۔ ‘‘فیضان ریاض الصالحین ;جلد4:حدیث نمبر :375)


 (1)اللہ پاک کی ناراضگی کا سب: حضرت سیدنا ابو زر غفاری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ کہ حضور نبی مکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :3شخص ایسے ہیں جن سے اللہ عزو جل نہ کلام فرمائے گا نہ اللہ کی طرف نظر کرم فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات 3 بار ارشاد فرمائی تو میں نے عرض کی : وہ تو خائب و خاسر ہو گئے، یا رسول اللہ صلّی الله علیہ وسلم ، وہ کون لوگ ہیں ؟ ارشاد فرمایا : (1) - تکبیر سے اپنا تہبند لٹکاوالا(٢) احسان جتلانے والا۔(صحیح مسلم ، کتاب الإيمان، باب بیان غلظ تحريم إسبال الازار، الخ،الحدیث، ٢٩٣، ص٦٩٦)

(2)جن لوگوں سے اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا رسول اکرم، شاہ بنی آدم صلی اللہ علیہ و سلم کا فر مان عالیشان ہے، 3( قسم کے) لوگوں سے اللہ عزو جل نہ تو کلام فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک فرمائے گا بلکہ ان کے لئے درد ناک عذاب ہے : (1) جو شخص اپنا اضافی پانی مسافر سے روک لے (۲) جو شخص عصر کے بعد کسی کو مال بیچے اور اللہ عزوجل کی قسم کھائے کہ اس نے یہ چیز اتنے اتنے میں خریدی ہے۔ اور خریدار اسے سچا سمجھے حالانکہ حقیقتاً ایسا نہ ہو اور (۳)جو شخص دنیا (کی دولت)کے لئے کسی حکمران کی بیعت کرے کہ اگر وہ اسے دے تو اس کا وفادار رہے اور اگر نہ دے تو وفا نہ کرے ۔ (المرجع السابق ،الحدیث:٢٩٧)

(3)روایت ہے حضرت ابو ہریرہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم) نے کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو اس کے اعمال بھی ختم ہو جاتے ہیں ا، سوا تین اعمال کے ایک دائمی خیرات یا وہ علم جس سے نفع پہنچتا رہے یا وہ نیک بچہ جو اس کے لئے دعا خیر کرتا رہے ۔ (مراۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح باب العلم ج ۱ ح192 ص 178)

5(بحث مباحثہ اور جھگڑنے کی ممانعت) (4) اللہ کے محبوب دانا ئے عیوب منزہ عن العیوب عزوجل صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عزت نشان ہے اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرو، نہ اس سے مذاق کرو اور اس سے وعدہ کرو تو اس کی خلاف ورزی نہ کرو۔ (جامع الترمذی، ابواب البو والصلة ، باب ما جاء فى المراء الحدیث 1990،ص،1802)

(5)روایت ہےکہ یارسول اللہ صلّی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا : اللہ تعالٰی تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو نا پسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھا مے رہو۔ اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو نا پسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔ (صحیح مسلم شریف ،کتاب: فیصلوں کا بیان ،حدیث نمبر4475)


دارالمدینہ انٹرنیشنل یونیورسٹی کے پروفیسرز کے ایک وفدنے چانسلر ڈاکٹر دانش اقبال عطاری کی سربراہی میں دارالمدینہ ہیڈآفس کا مختصر دورہ کیا۔ اس دورے میں اُنھیں دارالمدینہ سے متعلق بریفنگ دی گئی  اور ادارے کے مختلف شعبوں کا دورہ کروایا گیا۔ وفد کو دارالمدینہ کے نصاب اور نظام تعلیم کی خصوصیات سےبھی آگاہ کیا گیا۔) غلام محی الدین ترک ،اردو کانٹینٹ رائیٹر(مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ دارالمدینہ ،ہیڈ آفس کراچی)


اے عاشقانِ رسول و اہلِ بیت الله رب العالمين نے حضرتِ شعیب علیہ السلام کو اہلِ مدین اور اصحابِ ایکہ کی طرف تبلیغ و نصیحت کے لیے نبی بنا کر بھیجا۔ آئیے اب ہم پہلے اہلِ مدین کو ذکر کرتے ہیں کہ جن میں آپ علیہ السلام نےوعظ و نصیحت فرمائی  قرآنِ مجید میں ارشادِ خُدا وندی ہے جو حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے نصیحت فرمائی:

وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(85) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔ (پارہ 8،سورہِ اَعراف، آیت 85)

گناہوں کی تاریکی میں پھنسے ہوئے اہلِ مدین کو راہِ نجات دِکھانےاور اُن کے اعمال و کردار کی اصلاح کے لیے الله تعالٰی نے انہی کے ہم قوم حضرتِ شعیب علیہ السلام کو منصبِ نبوت پر فائز فرماکر اُن کی طرف بھیجا. چنانچہ آپ علیہ السلام نے اس قوم کو بتوں کی پوجا چھوڑنے اور صرف عبادتِ الٰہی کرنے کی دعوت دی اور آپ علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ خریدو فروخت کے وقت ناپ تول پورا کرو اور لوگوں کو اُن کی چیزیں کم کر کے نہ دو اورکفرو گناہ کر کے زمین میں فساد برپا نہ کرو. (سیرت الانبیاء ص508)

اے عاشقانِ رسول اس مذکورہ اقوال سے معلوم ہوا کہ حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اہلِ مدین کو نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم الله رب العالمين کی عبادت کرو کہ الله تعالٰی کے سوا کوئی معبود نہیں وہی مالکِ حقیقی ہے صرف اُس کی وحدانیت کا اقرار کرو اور اس کی ہی عبادت کرو اور تم ناپ تول میں ہرگز کمی نہ کرو پورا پورا ناپ تول کرو اور لوگوں کو اُن ہی کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ.

حضرتِ شعیب علیہ السلام نے قوم کو تبلیغ و نصیحت کا سلسلہ جاری رکھا. چنانچہ دعوتِ توحید کے بعد قوم سے فرمایا اے لوگو! ناپ تول میں کمی نہ کرو تم یقیناً خوشحال نظر آرہے ہو اور خوشحال آدمی کو تو نعمت کی شُکر گزاری اور دوسروں کو اپنے مال سے فائدہ پہنچانا چاہیے نہ کہ وہ اِن کے حقوق میں کمی کر کے ناشُکری اور حق تلفی کا مرتکِب ہو.

یاد رکھو! ناپ تول میں کمی کی اس بدترین عادت سے اندیشہ ہے کہ کہیں تمہیں اس خوشحالی سے محروم نہ کر دیا جائے اور اگر تم اس سے باز نہ آئے تو ڈر ہے کہ تم پر ایسا عذاب نہ آئے جس سے کسی کی رہائی میسّر نہ ہو اور سب کے سب ہلاک ہوجاؤ.( سیرت الانبیاء ص512، 513)

جیسا کہ قرآنِ کریم میں اس مذکورہ اقوال کی طرف اشارہ ہوتا ہے کہ الله تعالٰی قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے جو آپ علیہ السلام نے اہلِ مدین کو نصیحت فرمائی: وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ(84) ترجمہ کنز الایمان: اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں خوشحال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔(پارہ 12،سورہِ ھود، آیت 84)

اسی مذکورہ آیتِ مبارکہ کے آگے الله تعالٰی کا فرمانِ عالی شان ہے جو حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم کو ارشاد فرمایا : وَ یٰقَوْمِ اَوْفُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ (85) بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ﳛ وَ مَاۤ اَنَا عَلَیْكُمْ بِحَفِیْظٍ(86) ترجمہ کنز الایمان: اور اے میری قوم ناپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں فساد مچاتے نہ پھرو۔ اللہ کا دیا جو بچ رہے وہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تمہیں یقین ہو اور میں کچھ تم پر نگہبان نہیں۔ (پارہ 12،سورہِ ھود، آیت 85،86)

مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے ناپ تول سے متعلق مزید اہلِ مدین کی نصیحت اور اصلاح فرمائی کہ انصاف کے ساتھ ناپ اور تول پورا پورا کرو اِن دونوں میں کسی بھی قسم کی کمی نہ کرو اور زمین میں فساد پھیلانے سے بچنے کی تلقین بھی فرمائی کہ زمین میں فساد نہ پھیلاتے پھرو اور اس کے بعد فرماتے ہیں کہ حرام مال چھوڑنے کے بعد جس قدر تمہارے پاس مال بچے وہی مال تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم اس پر یقین رکھتے ہو.

آئیے اب ہم أصحابِ ایکہ کو ذکر کرتے ہیں جن میں حضرتِ شعیب علیہ السلام نے تبلیغ اور وعظ و نصیحت فرمائی : حضرتِ شعیب علیہ السلام نے اصحابِ ایکہ کو جو وعظ و نصیحت، تبلیغ اور اصلاح فرمائی اُسے قرآنِ کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے : كَذَّبَ اَصْحٰبُ لْــٴَـیْكَةِ الْمُرْسَلِیْنَ(176) اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ(177)اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ(178)فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ(179)وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(180)اَوْفُوا الْكَیْلَ وَ لَا تَكُوْنُوْا مِنَ الْمُخْسِرِیْنَ(181)وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ(182)وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ(183)وَ اتَّقُوا الَّذِیْ خَلَقَكُمْ وَ الْجِبِلَّةَ الْاَوَّلِیْنَ(184)

ترجمہ کنز الایمان: ایکہ (جنگل) والوں نے رسولوں کو جھٹلایا جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔ناپ پورا کرو اور گھٹانے والوں میں نہ ہو۔ اور سیدھی ترازو سے تولو۔ اور لوگوں کی چیزیں کم کرکے نہ دو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔ اور اس سے ڈرو جس نے تم کو پیدا کیا اور اگلی مخلوق کو۔(پارہ 19،سورہِ شُعَراء، آیت 176تا184)

اس مذکورہ آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا کہ آپ علیہ السلام نے اِن سے فرمایا کہ میں امانت دار رسول ہوں تو تم میری اطاعت کرو اور الله سے ڈرو کہ الله رب العالمين کے سِوا کوئی اور معبود نہیں. اُس کی عبادت کرو اور میں اِس تبلیغ پر تم سے کچھ اُجرت نہیں لیتا کہ میرا اجر تو الله دینے والا ہے.

اے لوگو! تم ناپ تول پورا پورا کرو، بلکل صحیح ترازو سے تولو، زمین میں فساد نہ پھیلاؤ اور اُس ذات سے ڈرو جس نے تمہیں اور پہلی مخلوق کو پیدا کیا. الله رب العالمين حضرتِ شعیب علٰی نبیّناو علیہ الصلوۃ والسلام کے مزار پُر انوار پر کروڑوں رحمتوں و برکتوں کا نزول فرمائے اور آپ کے وسیلہ سے ہم سب کی بے حساب بخشش و مغفرت فرمائے( آمین ثم آمین یا رب العالمین بجاہِ خاتم النبيّين صلّى الله تعالٰی علیہ والہ واصحابہ وسلم)

رسولُ اللہ ﷺ کا تین چیزوں کے بیان سے تربیت فرمانا


انبیاء ومرسلین علیھم السلام انتہائی اعلیٰ اور  عمدہ اوصاف کے مالک تھے قرآن وحدیث میں انبیاء ومرسلین علیھم السلام کے انفرادی اور مجموعی بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں  نبی اور رسول خدا کے خاص اور معصوم بندے ہوتے ہیں، ان کی نگرانی اور تربیت خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ صغیر و کبیرہ گناہوں سے بالکل پاک ہوتے ، عالی نسب، عالی حسب (یعنی بلند سلسلہ خاندان)، انسانیت کے اعلی مرتبے پر پہنچے ہوئے، خوبصورت ، نیک سیرت ، عبادت گزار، پرہیز گار ، تمام اخلاق حسنہ سے آراستہ اور ہر قسم کی برائی سے دور رہنے والے ہوتے ہیں۔ انہیں عقل کامل عطا کی جاتی ہے جو اوروں کی عقل سے انتہائی بلند و بالا ہوتی ہے۔ کسی حکیم اور فلسفی کی عقل اور کسی سائنسدان کی فہم و فراست اس کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں پہنچ سکتی اور عقل کی ایسی بلندی کیوں نہ ہو کہ یہ خدا کے لاڈلے بندے اور اس کے محبوب ہوتے ہیں۔ ان انبیاء کرام علیہم السلام میں حضرت شعیب علیہ السلام بھی ہیں  اللہ عزوجل نے ان کا تذکرہ قرآن کریم میں کئی مقامات پر فرمایا ہے اور ان کی نصیحتوں کو بھی قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے  آپ بھی پڑھیے اور اپنے قلوب و اذہان کو معطر کیجیے

1) اللہ عزوجل کی عبادت کرو: اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 85)

2)راہ گیروں کو نہ ڈرانا :اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ لَا تَقْعُدُوْا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوْعِدُوْنَ وَ تَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِهٖ وَ تَبْغُوْنَهَا عِوَجًاۚ-وَ اذْكُرُوْۤا اِذْ كُنْتُمْ قَلِیْلًا فَكَثَّرَكُمْ۪-وَ انْظُرُوْا كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَترجمۂ کنز الایمان:اور ہر راستے پر یوں نہ بیٹھو کہ راہگیروں کو ڈراؤ اور اللہ کی راہ سے انہیں روکو جو اس پر ایمان لائے اور اس میں کجی چاہو اور یاد کرو جب تم تھوڑے تھے اس نے تمہیں بڑھادیا اور دیکھو فسادیوں کا کیسا انجام ہوا۔

ظاہر یہ ہے کہ یہ کلام بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا ہے۔ آپ اپنی قوم سے فرما رہے ہیں کہ اپنے سے پہلی امتوں کے تاریخی حالات معلوم کرنا،قوم کے بننے بگڑنے سے عبرت پکڑنا حکمِ الٰہی ہے۔ ایسے ہی بزرگانِ دین کی سوانح عمریاں اور خصوصاً حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت ِ طیبہ کا مطالعہ بہترین عبادت ہے اس سے تقویٰ، رب عَزَّوَجَلَّ کا خوف اور عبادت کا ذوق پیدا ہو تا ہے۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 86 تفسیر صراط الجنان )

3)اللہ عزوجل کا فیصلہ سب سے بہتر : اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ اٰمَنُوْا بِالَّذِیْۤ اُرْسِلْتُ بِهٖ وَ طَآىٕفَةٌ لَّمْ یُؤْمِنُوْا فَاصْبِرُوْا حَتّٰى یَحْكُمَ اللّٰهُ بَیْنَنَاۚ-وَ هُوَ خَیْرُ الْحٰكِمِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور اگر تم میں ایک گروہ اس پر ایمان لایا جو میں لے کر بھیجا گیا اور ایک گروہ نے نہ مانا تو ٹھہرے رہو یہاں تک کہ اللہ ہم میں فیصلہ کرے اور اللہ کا فیصلہ سب سے بہتر۔

{ وَ اِنْ كَانَ طَآىٕفَةٌ مِّنْكُمْ:اور اگر تم میں ایک گروہ ۔}یعنی اگر تم میری رسالت میں اختلاف کرکے دو فرقے ہوگئے کہ ایک فرقے نے مانا اور ایک منکر ہوا تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے کہ تصدیق کرنے والے ایمانداروں کو عزت دے اور ان کی مدد فرمائے اور جھٹلانے والے منکرین کو ہلاک کرے اور انہیں عذاب دے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ سب سے بہترین فیصلہ فرمانے والا ہے کیونکہ وہ حاکمِ حقیقی ہے  اس کے حکم میں نہ غلطی کا احتمال ہے نہ اس کے حکم کی کہیں اپیل ہے۔

(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 87 تفسیر صراط الجنان )

4) اللہ عزوجل سے ڈرو :اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ. اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌ  فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ. وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.  ترجمۂ کنز الایمان:جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں ۔ بیشک میں تمہارے لیے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو۔اور میں اس پر کچھ تم سے اجرت نہیں مانگتا میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔(پارہ 19 سورہ شعراء آیت 177تا 180)

5) قوم کو عذاب الٰہی سے ڈرا کر نصیحت :حضرت شعیب علیہ السلام نےارشاد فرمایا: اے میری قوم! مجھ سے تمہاری عداوت و بغض، میرے دین کی مخالفت، کفر پر اصرار ، ناپ تول میں کمی اور توبہ سے اعراض کی وجہ سے کہیں تم پر بھی ویسا ہی عذاب نازل نہ ہو جائے جیسا قوم نوح یا قوم عاد و ثمود اور قوم لوط پر نازل ہوا اور ان میں حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا زمانہ دوسروں کی بنسبت تم سے زیادہ قریب ہے، لہذا ان کے حالات سے عبرت حاصل کرو اور اس بات سے ڈرو کہ کہیں میری مخالفت کی وجہ سے تم بھی اسی طرح کے عذاب میں جس میں وہ لوگ مبتلا ہوئے۔ لہذا توبہ کرو، بیشک میرا رب اپنے ان بندوں پر بڑا مہربان ہے جو توبہ استغفار کرتے ہیں  اور وہ اہلِ ایمان سے محبت فرمانے والا ہے۔۔ اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے وَ یٰقَوْمِ لَا یَجْرِمَنَّكُمْ شِقَاقِیْۤ اَنْ یُّصِیْبَكُمْ مِّثْلُ مَاۤ اَصَابَ قَوْمَ نُوْحٍ اَوْ قَوْمَ هُوْدٍ اَوْ قَوْمَ صٰلِحٍؕ-وَ مَا قَوْمُ لُوْطٍ مِّنْكُمْ بِبَعِیْدٍ۔  وَ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوْبُوْۤا اِلَیْهِؕ-اِنَّ رَبِّیْ رَحِیْمٌ وَّدُوْدٌ ترجمہ کنزالایمان :اور اے میری قوم تمہیں میری ضد یہ نہ کموا دے کہ تم پر پڑے جو پڑا تھا نوح کی قوم یا ہود کی قوم یا صالح کی قوم پر اور لوط کی قوم تو کچھ تم سے دور نہیں۔ اور اپنے رب سے معافی چاہو پھر اس کی طرف رجوع لاؤ بیشک میرا رب مہربان محبت والا ہے۔(پارہ 12 سورہ ھود آیت 89 90 سیرت الانبیاء صفحہ 516)


جس طرح اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے تذکرے بیان فرمائے  اسی طرح اللہ عزوجل نے اپنے پیارے نبی حضرت شعیب علیہ السلام کی قرآنی نصیحتیں بیان فرمائیں.

1)ناپ تول میں کمی نہ کرو: اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-قَدْ جَآءَتْكُمْ بَیِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ فَاَوْفُوا الْكَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآءَهُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَاؕ-ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کی برادری سے شعیب کو بھیجا کہا اے میری قوم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں بے شک تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے روشن دلیل آئی تو ناپ اور تول پوری کرو اور لوگوں کی چیزیں گھٹا کر نہ دو اور زمین میں انتظام کے بعد فساد نہ پھیلاؤ یہ تمہارا بھلا ہے اگر ایمان لاؤ۔(پارہ 8 سورہ اعراف آیت 85)

2) اللہ عزوجل کے سوا کوئی معبود نہیں : وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاؕ-قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِّنْ اِلٰهٍ غَیْرُهٗؕ-وَ لَا تَنْقُصُوا الْمِكْیَالَ وَ الْمِیْزَانَ اِنِّیْۤ اَرٰىكُمْ بِخَیْرٍ وَّ اِنِّیْۤ اَخَافُ عَلَیْكُمْ عَذَابَ یَوْمٍ مُّحِیْطٍ ترجمۂ کنز الایمان:اور مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں اور ناپ اور تول میں کمی نہ کرو بیشک میں تمہیں آسودہ حال دیکھتا ہوں اور مجھے تم پر گھیر لینے والے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔(پارہ 12 سورہ ھود آیت 84)

3) کیا تم ڈرتے نہیں :اِذْ قَالَ لَهُمْ شُعَیْبٌ اَلَا تَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان :جب ان سے شعیب نے فرمایا کیا ڈرتے نہیں۔ (پارہ 19 سورہ شعراء آیت 177)

4) اللہ عزوجل سے ڈرو : فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِ ترجمہ کنزالایمان : تو اللہ سے ڈرو اور میرا حکم مانو (پارہ 19 سورہ شعراء آیت 179)

5) زمین میں فساد نہ پھیلاؤ :وَ اِلٰى مَدْیَنَ اَخَاهُمْ شُعَیْبًاۙ-فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ ارْجُوا الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ ترجمہ کنزالایمان :مدین کی طرف اُن کے ہم قوم شعیب کو بھیجا تو اس نے فرمایا اے میری قوم الله کی بندگی کرو اور پچھلے دن کی امید رکھو اور زمین میں فساد پھیلاتے نہ پھرو۔(پارہ 20 سورہ عنکبوت آیت 36 )