برھانِ ملّت کی عظمت وشان کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ اعلیٰ حضرت علیہ رحمہ کے چہیتے شاگرد اور منہ بولے بیٹے تھے۔ آپ عموماً سفید عمامہ سر پر زیب فرماتے ،چہرہ نہایت خوبصورت اور نورانی تھا ،گفتگو فرماتے تو یوں معلوم ہوتا گویا پھول جھڑ رہے ہوں گستاخانِ رسول کا معاملہ آتا تو مداہنت کو راہ نہ دیتے، مسلکِ اہلسنت و جماعت کے نہایت معتبر اور مستند ترجمان کی حیثیت رکھتے تھے۔ تحریر و تقریر اوراجلاس ومحفل ہر جگہ فکر ِرضا کے امین و پاسبان تھے۔

نام و نسب :

عبد الباقی محمد برھان الحق بن عید الاسلام مولانا عبدالسلام بن مولانا عبدالکریم یوں ۔

آپ کا سلسلہ نسب اسلام کے پہلے خلیفہ حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللّہ عنہ سے ملتا ہے یعنی آپ نسباً صدیقی ہیں ۔

القاب :

برھان الملت ، برھان الاسلام ، برھان الطب و الحمکۃ ۔

امام اہلسنت کی جانب سے عطاکردہ القاب و خطاب :

ناصر الدین المتین ، کاسر رؤس المفسرین ، قرۃ عینی و درۃ زینی ،برھان السنہ ،یا وادی و راحتہ کبدی ۔

ولادتِ باسعادت :

بروز جمعرات 21 ربیع الاوّل 1310 ھ بمطابق 1894ء بروز جمعرات کو بعد نمازِ فجر ہندوستان کے شہر جبل پور میں ہوئی، ہوا کچھ یوں کہ آپ کے دادا جان فجر کے بعد تلاوتِ قراٰنِ پاک فرما رہے تھے تو دادی جان نے ولادت کی خبر سنائی تو اس وقت آیۃ کریمہ ’’ یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا‘‘ وردِ زبان تھی سنتے ہی فرمایا برھان آگیا ۔

تعلیم و تعلّم :

1315ھ میں رسمِ بسم اللّٰہ سے تعلیم کا آغاز ہوا ، آپ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں " میری تعلیم صبح 12 بارہ بجے ظہر کے بعد عصر تک اور عشا کے بعد سے 10 بجے رات تک ہوتی تھی، عربی والد ِماجد سے اورفارسی چچا بشیر الدین صاحب سے پڑھی" 1329ھ میں آپ نے علوم ِعقلیہ و نقلیہ میں مہارت پیدا کرلی ،9 سال کی کم عمری میں پہلی بار مرتبہ بارگاہ ِعزت مآب ﷺ میں نعتِ رسول تحریر فرمائی جس مطلع کا مصرعہ یہ ہے:" نام تیرا یا نبی میرا مفرح جان ہے "

آپ نے 1329ھ کو فتوی لکھنا شروع کیا پھر 1335ھ سے دارالافتاء عیدالاسلام کی پوری ذمہ داری سنبھال لی ۔

بیعت و خلافت :

1335ھ میں ولیِ کامل، پیر ِطریقتِ، رہبرِ شریعت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے پھر 26 جمادی الثانی 1337 ھ کو جبل پور میں جلسۂ عام میں امام ِاہلسنت نے 45 علوم اور گیارہ سلاسل طریقت و احادیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔

ازواج و اولاد :

آپ کی اولاد میں 3 صاحبزادے اور 2 صاحبزادیاں تھیں :

(1)مولانا محمد انور احمد صاحب ۔

(2)مولانا مفتی محمود احمد صاحب۔

(3)مولانا محمد حامد احمد صدیقی صاحب۔

نعت گوئی :

یوں تو شاعری کی ابتداآپ نے کم عمری سے کردی تھی کما سبق جوانی میں ایسی ایسی نعتیں لکھیں جن کو بارگاہ ِامامِ علم و ادب میں قبولیت سے نوازا گیا ،تعریف و مدح کی سند جاری کی گئی، بائیس 22 سال کی عمر میں آپ کا لکھوا ہوا فارسی کلام جب بریلی شریف میں امام اہل سنت کے سامنے پڑھا گیا تو امام اہل سنت پاؤں سمیٹ کر باادب بیٹھ گئے پھر درج ذیل کلام کے اشعار پڑھے گئے:

حضور سیّد خیرُ الورٰی سلام علیک

بارگاہِ شفیعُ الورٰی سلام علیک

روم بسوئے تو بر ہر قدم کنم سجدہ

نوائے قلب شود سیدا سلام علیک الخ

کلام کے مکمل اشعار سن کراعلیٰ حضرت نے فرمایا :کہ یہ اشعار برھان میاں نے لکھے ہیں ماشاءاللہ ،بارک اللہ پھر فرمایا میں غور کررہا تھا کہ جامی کے طرز پر کس نے طبع آزمائی کی ہے، کہاں ہیں برھان میاں ۔حضرت برھان ملت دارالافتاءمیں بیٹھے تھے حکم سن کر حاضرِ بارگاہ ہوئے، سرکار ِاعلیٰ حضرت نے ارشاد فرمایا :حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللّہ عنہ نے حضور ﷺ سے نعت پیش کرنے کی اجازت چاہی حضور نے منبر پر کھڑے ہوکر سنانے کی اجازت دی، ( آپ ﷺ نے) نعت شریف کو بہت پسند فرمایا اورجسمِ اقدس پر شامی چادر تھی جوانہوں نےاتار کر حضرت حسان رضی اللّہ عنہ کے جسم پر اڑھادی، فقیر کیا حاضر کرے؟ اتنا فرما یااوراپنا عمامہ اتار کر حضرت برھانِ ملت کے جھکے ہوئے سرکو سرفراز فرما کر دعائے درازیِ عمر و ترقیِ علم و عمل و استقامت فرمائی ۔

امامِ اہلسنت کا عطاکردہ عمامہ شریف آج بھی تبرکات میں محفوظ ہے اورعید میلاد النبی و جلوس ِغوثیہ قادریہ میں تقریر کے دوران صاحب ِسجادہ اسے پہنتے ہیں۔

اشعار میں آپ کا تخلص ’’ برھان ‘‘ ہے آپ کی بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں نذرانۂ عقیدت دیوان جس کا نام ’’جذبات برھان‘‘ ہے۔

اساتذہ کرام :

امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ۔

جدِّ امجد حضرت مولانا شاہ عبدالکریم رحمۃ اللّٰہ علیہ ۔

والد ِمحترم حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

عم محترم حضرت قاری بشیر الدین رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا ظہور حسین مجددی رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا جلال میر پیشاوری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

مولانا رحم الہی رحمۃ اللّٰہ علیہ ( مدرس اول منظر الاسلام بریلی شریف )۔

صحبت امام اہلسنت :

علومِ ظاہری کے بعد باطنی علوم ( علوم شریعت و طریقت ) کے حصول کے لئے آپ بریلی شریف روانہ ہوئے اورکم وبیش 3 سال 1333ھ سے 1335ھ تک امام ِاہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کی صحبت میں رہے ۔

خاندانی امتیاز :

پروفیسر مسعود احمد صاحب جذباتِ برھان میں رقم طراز ہیں : یہ امتیاز صرف آپ کے خاندان کو حاصل ہے کہ آپ کے خاندان کے تین جلیل القدر شخصیات کو امام ِاہلسنت احمد رضا سے خلافت حاصل ہے۔

اسی طرح آپ کے خاندان کو یہ بھی امتیاز حاصل ہوا کہ امام احمد رضا کے خاندان کے باہر آپ کے پہلے خلیفہ حضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام قادری رضوی ہوئے اور حضرت مفتی محمد برھان الحق قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے جبکہ خاندان کے اندر یہ امتیاز صرف حجۃالاسلام مولانا حامد رضا خان قادری رضوی کو حاصل ہوا کہ وہ پہلے خلیفہ ہوئے اور حضرت مفتی ِاعظم ہند محمد مصطفیٰ رضا خان قادری رضوی آخری خلیفہ ہوئے ۔

مزید یہ کہ آپ کے چچا جان کو بھی فاضل ِبریلوی سے خلافت حاصل تھی بحمد اللہ خانوادہ اسلامیہ برھانیہ کو خانوادہ رضویہ سے جو قرب و فضل حاصل ہوا کسی اور خانوادے یا فرد کو حاصل نہ ہوا ۔

خلفا:

آپ کے خلفاکی فہرست طویل ہے جن میں چند مشہورخلفایہ ہیں :

حضرت مولانا مفتی محمود احمد قادری رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

حضرت مولانا محمد انور صاحب۔

تاجُ الشریعہ حضرت مولانا مفتی اختر رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ۔

توصیفِ ملت حضرت مولانا توصیف رضا خان دام ظلہ ۔

شمس العلماء حضرت مولانا مفتی نظام الدین ابن حافظ مبارک صاحب۔

حضرت مولانا مفتی نظام الدین رضوی دام ظلہ ( مفتی جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ ) ۔

حضرت مولانا شمس الھدٰی قادری رضوی دام ظلہ ( استاذ جامعہ اشرفیہ مبارک پور اعظم گڑھ )

یوں ہی آپ کے مریدین و احباب کی فہرست بہت طویل ہے ان میں سے پاکستان کا ایک بہت بڑا نام جانشینِ مفتی ِاعظم پاکستان ،مہتمم جامعہ غوثیہ رضویہ، استاذ العلماء ، فقیہُ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ابراھیم القادری دام ظلہ بھی آپ کے مریدین میں سے ہیں۔

تقرر بحیثیتِ مفتی بریلی شریف :

1339ھ کو امامِ اہلسنت نے آپ کو بریلی شریف میں مفتی ِشرح کے منصب کے لئے تقرری فرمائی، برھان ِملت ایک مقام پر فرماتے ہیں :کہ اعلیٰ حضرت کے چھوٹے صاحبزادے مولانا مصطفیٰ رضا خان اور مولانا امجد علی صاحب ہم تینوں ساتھ کھانا کھاتے اور ہمارازیادہ وقت دارالافتاء ہی میں گزرتاتھا۔

زیارتِ حرمینِ شریفین :

پہلی بار زیارتِ حرمین کے لئےحضرت عید الاسلام مولانا عبدالسلام علیہ الرحمہ کے ہمراہ تشریف لے گئے پھر دوسری بار 1376ھ زیارت کے لئے روانہ ہوئے۔

تحریکِ پاکستان :

آپ آل انڈیا سنی جمیعت العلماء کے صدر بھی رہے، 1385ھ میں مسلم متحد محاذ چھتیس گڑھ کے صدر ہوئے، 1940ھ میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد ملک کے عرض و طول میں دورے کئے جن میں سندھ ،پنجاب اورخیبر پختونخواہ میں تقاریر فرمائیں۔ تحریکِ پاکستان کے لئے سخت جدو جہد کی ،قائد اعظم محمد علی جناح نے آپ کی کوشش کو بہت سراہا اوراظہار ِتشکر کے لئے خط بھی لکھا ۔

تصانیف :

حضرت برھانِ ملت رحمۃ اللّٰہ علیہ کی تصانیف کی تعداد 26 ہے اور 9 خطبے جو ملک کی مختلف کانفرنسوں میں بحیثیت صدر و سرپرست بذاتِ خود تحریر فرمائے ۔خوش آئین بات یہ بھی ہے کہ آپ کی مطبوع و غیر مطبوع کُتُب محفوظ ہیں جن میں سے چند یہ ہیں :

( 1 ) المواھب البرہانیہ بالفتاوی السلامیہ و البرہانیہ یہ فتاوٰی 19 ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جس کے ہزاروں صفحات ہیں بعض فتاوے تو اتنے اہم ہیں اور تفصیلی ہیں کہ ایک ہی فتوٰ ےمیں ایک ضخیم کتاب تیار ہو جائے ۔

( 2 ) البرہان الاجلى فیما یجوز بی تقبیل امکان الصلحاء ۔

( 3 ) درۃ الفکر فی مسائل الصیام و عید الفطر ۔

(4 ) اجلال الیقین بتقدیس سید المرسلین ( اس کتاب پر سید اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی تقریظ بھی موجود ہے ) ۔

( 5 ) اتمام حجۃ۔

( 6 ) روح الوردہ فی نفخ سوالات ہردہ ۔

( 7 ) اسلام اور ولایتی کپڑا ۔

( 8 ) چہار فقہی فتوے ۔

( 9 ) المسلک الأظہر فی تحقیق آزر ۔

( 10 ) فقہ الہلال الشہادات رویۃ الہلال ۔

( 11 ) المعجرۃ العظمی المحمدیہ ۔

( 12 ) تعلیم الاسلام فی تمییز الاحکام ۔

( 13 ) إکرامِ امام احمد رضا۔

( 14 ) صیانۃ الصلوات عن حیل البدعات ۔

( 15 ) حیات اعلی حضرت کا ایک ورق ۔

( 16 ) سوانح امام دین مجدِّد مأہ ِحاضرہ ۔

( 17 ) إکرامات ِمجدد اعظم ۔

( 18 ) نیر جلال مجدِّد اعظم ۔

( 19 ) حالات ارتقاء عیدالسلام۔

( 20 ) مسئلہ گائے قربانی ۔

( 21 ) چاند کی شرعی حیثیت۔

( 22 ) زبدۃ الاصفیاء صدرُ الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی ۔

( 23 ) حیات حضرت مولانا عبدالکریم صاحب۔

وصال :

26 ربیع الاول 1405 ھ بمطابق 20 دسمبر 1985ء شبِ جمعہ 95 سال کی عمر میں دار ِفانی کو رخصت کرتے ہوئے داعی اجل کو لبیک کہا۔ نماز جنازہ وصیت کے مطابق حضرت مولانا مفتی محمود احمد رحمۃ اللّٰہ علیہ نے پڑھائی۔ آپ کامزارِ مبارک جبل پور شریف میں مرجعِ خلائق ہے۔

عاقبتِ برھان کی فیض رضا سے بن گئی

ہے یہی اپنا وسیلہ بس خدا کے سامنے

اللہ عزوجل ان پر کروڑوں رحمتوں کا نزول فرمائے ،آمین۔

حوالہ جات :

تذکرہ ٔبرھانِ ملت ۔برھانِ ملت سے ایک انٹرویو۔حیاتِ برھانِ ملت۔جذباتِ برھان۔

از قلم : احمد رضا مغل مدنی

(متخصص فی الحدیث ، عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی)

25 اکتوبر 2021

بمطابق 18 ربیع الاول 1442


شراب کی تباہ کاریاں

Tue, 2 Nov , 2021
3 years ago

٭شراب نَجِس(ناپاک)اور شیطانی کام ہے، اس سے بچنا فَلاح و کامیابی کی عَلامَت ہے۔ (المائدۃ: 90،ملخصاً) ٭شراب باہمی بُغْض و عَدَاوَت پیدا کرتی اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ذِکْر سے روکتی ہے۔ (المائدۃ: 91،ملخصاً) 5فرامینِ مصطفےٰﷺ:(1) ہر نشہ آور چیز شراب ہے اور ہر شراب حَرام ہے۔ (مسلم، ص 1109، الحدیث: 2003)(2)اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے شراب ،اس کے نِچوڑنے والے اور جس کیلئے نِچوڑی جائے اس پر، پینے والے اور پلانے والے پر، لانے والے اور جس کیلئے لائی جائے اس پر، بیچنے و خریدنے والے پر اور اس کی قیمت یعنی کمائی کھانے والے تمام اَفراد پر لعنت فرمائی ہے۔ (المستدرك، 5/199، الحدیث: 7310) (3)شراب کو دِیوار پر دے مارو کیونکہ یہ اس شخص کا مَشروب ہے جو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور یومِ آخِرَت پر ایمان نہیں رکھتا۔ (حلية الاولیاء،6/ 159، الحدیث:8148)(4)شرابی جب شراب پیتا ہے تو اُس وَقْت وہ مومن نہیں ہوتا۔ (مسلم، ص 48، الحدیث: 57)(5)شراب سب سے بڑا گناہ اور تمام برائیوں کی جڑہے، شراب پینے والا نماز چھوڑ دیتا ہے اور (بعض اوقات) اپنی ماں، خالہ اورپھوپھی تک سے بدکاری کا مُرْتکِب ہو جاتا ہے۔(مجمع الزوائد،5/ 104، الحدیث:8174، مفھوماً)

شراب کے 21نقصانات:شراب کی وجہ سے اِنسان کے اَخلاق تو تباہ ہوتے ہی ہیں، ساتھ میں مُعَاشَرے پر بھی اسکے گہرے اَثرات مُرَتَّب ہوتے ہیں: ٭شراب کی وجہ سے جرائم کی شرح حد سے بڑھ جاتی ہے٭شرابی کو اپنے پرائے کی تمیز نہیں رہتی ٭شرابی والدین کے بچوں پر مَنْفی اَثرات مُرَتَّب ہوتے ہیں٭شراب بندے کی عقل میں فُتور ڈال دیتی ہے ٭شراب مال کو ضائع اور برباد کرتی اور تنگدستی کا سَبَب بنتی ہے٭شراب کھانے کی لذّت اور دُرُسْت کلام سے محروم کردیتی ہے٭شراب ہر بُرائی کی کنجی ہے اور شرابی کو بَہُت سے گناہوں میں مبتلاکر دیتی ہے ٭یہ شرابی کو بدکاروں کی مجلس میں لے جاتی ہے، اپنی بد بو سے اس کے کاتِب فرشتوں کو اِیذا دیتی ہے ٭یہ شرابی پر آسمانوں کے دروازے بند کردیتی ہے،40دن تک اس کا کوئی عَمَل اوپر پہنچتا ہے نہ دُعا ٭یہ شرابی کی جان اور ایمان کو خطرے میں ڈال دیتی ہے۔ اس لئے مرتے وَقْت اِیمان چھن جانے کا خدشہ رہتا ہے ٭اِبتدا میں بدنِ اِنسانی شراب کے نقصانات کا مُقَابَلہ کر لیتا ہے اور شرابی کو خوشگوار کیفیت مل جاتی ہے مگر جلد ہی داخِلی(یعنی جسم کی اندرونی) قوّتِ برداشْتْ خَتْم ہو جاتی ہے اور مُستقِل مُضِرّ اَثَرات مُرتَّب ہونے لگتے ہیں مثلاً شراب کا سب سے زیادہ اَثَر جگر (کلیجے) پر پڑتا ہے اور وہ سُکڑنے لگتا ہے٭گُردوں پر اِضافی بوجھ پڑتا ہے جو نِڈھال ہو کر ناکارہ ہو جاتے ہیں٭شراب کی کثرت دِماغ کو مُتَوَرَّم (یعنی سُوجن میں مُبتَلا) کرتی ہے٭اَعصاب میں سَوزِش ہو جاتی ہے نتیجۃً اَعصاب کمزور اور پھر تباہ ہو جاتے ہیں٭ مِعدےمیں سُوجن ہو جاتی ہے٭ہڈّیاں نرم اور خَستہ (یعنی بَہُت ہی کمزور) ہو جاتی ہیں٭شراب جسم میں موجود وِٹامِنز کے ذخائر کو تباہ کردیتی ہے، وِٹامِن B اورC اِس کی غار تگری کا بِالخصوص نشانہ بنتے ہیں٭شراب کے ساتھ تمباکو نوشی کی جائے تو اِس کے نقصانات کئی گُنا بڑھ جاتے ہیں اور ہائی بلڈ پریشر، سٹروک اور ہارٹ اٹیک کا شدید خطرہ رہتا ہے ٭بکثرت شراب نوشی تھکن، سر درد، متلی اور شدّتِ پیاس میں مبتَلا کردیتی ہے٭ بسااَوقات بَلا نوشی سے دل کی حرکت اور عَمَلِ تَنَفُّس رُک جاتا جس سے فوری موت واقع ہوسکتی ہے۔

شرابی کی دنیا میں سزا:شراب نوشی،شرابی پر 80 کو ڑے واجِب کردیتی ہے لہٰذا اگر وہ دنیا میں اس سزا سے بچ بھی گیا تو آخِرَت میں مخلوق کے سامنے اسے کوڑے مارے جائیں گے۔

شرابی کی قَبْر میں سزا:قَبْر میں شرابی کا چہرہ قبلےسے پھِرجاتا ہے۔ (الکبائر ، شرب الخمر،ص96) اس پر دو سانپ مُقَرَّر کر دیئے جاتے ہیں جو اس کا گوشت نوچ نوچ کر کھاتے رہتے ہیں۔ (شرح الصدور، ص 172)

شرابی کی آخرت میں سزا: ٭شرابی بروزِ قِیامَت اس حال میں آئے گا کہ اس کا چہرہ سیاہ ہو گا، زبان سینے پر لٹک رہی ہو گی، تھوک بہہ رہا ہو گا اور ہر دیکھنے والا اس سے نفرت کرے گا۔(الکامل فی ضعفاء الرجال، 2/ 502) ٭آگ کی سُولی پر لٹکایا جائے گا، پیاس لگنے پر کبھی بدبودار پسینہ تو کبھی کھولتا پانی پلایا جائے گا، کھانے کو کانٹے دار درخت ہوں گے، پاؤں میں آگ کی جوتیاں پہننے کی وجہ سے دِماغ کھولنے لگے گایہاں تک کہ ناک اور کان کے راستے بہہ جائے گا۔ ٭شرابی جہنّم میں فرعون و ہامان کا پڑوسی ہو گا۔ (نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں، ص22تا 31،ملخصاً)

شراب اور دیگر گناہوں  سے بچنے اور سنّتوں بھری زِنْدَگی گزارنے کے لئے دعوتِ اِسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔


دین ِاسلام  وہ واحد مذہب ہے جس میں روحانیت کی بنیاد ایسے قوانین پر رکھی گئی ہے جو انسانی جبلّت کے موافق اور اس کی دنیوی اور اُخروی کامیابی کی ضمانت فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے ان روشن اُصولوں پر عمل پیرا ہوکرمسلمانوں نےدلوں پر حکومت کی ۔ تزکیۂ نفس اور تصفیۂ باطن کے اسلامی اصولوں کو ”تصوف“کا عنوان دیا گیااور اس کے ماہرین کو شیخ اور ولی کے معزز القاب سے جانا جانے لگا۔

ہند میں تصوف کی آمد:

جب ہندوستان میں اسلام کا نور پہنچا،مسلمان یہاں دعوت ِ دین کا جذبہ لے کر آباد ہوئے، اپنے حسن ِ اخلاق اور بلند کردار سے لوگوں کو اسلام کی جانب مائل کیاتو دیکھتے ہی دیکھتے لوگ اسلام لانے لگے پھر ایک زمانہ وہ آیا جب مسلمانوں نے یہاں تقریباًسات سو سال حکومت کی ۔زمین پر حکومت کی تاریخ کو سات سو سال کی قید میں مقید کیا جاسکتا ہے،تاریخی یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکتا ہے اورزمانے کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ذہنوں سے مٹایا جاسکتا ہےلیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ دلچسپی کی حامل ہے کہ صوفیائے کرام رحہم اللہ تعالیٰ نے اپنے اعلیٰ اوصاف اور لازوال کردار کی بنا پر دلوں پر حکومت کی لہٰذا ان صوفیاء کے اخلاص ہی کا نتیجہ ہے کہ نہ تو کبھی لوگوں کے دلوں سے محبت ِ اولیا کے آثار کو کوئی جبر مٹا سکا ہے اور نہ کوئی قہر فراموش کرواسکا ہے۔ جاگتی آنکھوں سے یہ ناقابل ِتردید حقیقت دیکھنے کے بعد یہ کہہ سکتے ہیں کہ دلوں پر آج بھی اولیائے کرام کا راج ہے ،یہ حکومت نہ تو کبھی کمزور ہوئی نہ ہی ان سرکاروں کا بول بالا ہونے سے کوئی روک سکا ہے ۔

سرزمینِ دہلی کا پس منظر

توران قوم کے راجہ نے ایک شہر آباد کیا ،اس شہر کی مٹی بہت ہی نرم تھی اس وجہ سے لوہے کی سلاخیں زمین میں مضبوطی کے ساتھ نصب ہوجاتی تھیں اس لیے اس نئے شہر کا نام”دہلی“رکھا گیا۔آٹھ تورانی راجاؤں نے اس شہر پر حکومت کی ،راجہ پتھوار کی حکومت آئی اور اس نے سلطان شہاب الدین غوری سے شکست کھائی اوریوں دہلی پر مسلمانوں کی حکومت قائم ہوگئی ۔(تاریخ فرشتہ ،۱/۱۳۸)

جب منگولوں کی وجہ سے وسط ایشیامیں ایک طوفان اٹھا ہوا تھا تو اس وقت علما و مشائخ اور شعرا و ادبا کا رُخ دہلی کی جانب ہوااوراس طرح دہلی ایک بین الاقوامی شہر بن گیا۔دہلی اپنی علمی ،سماجی،ثقافتی ، علاقائی حیثیت کی بنا پر ہمیشہ توجہات کا مرکزبنااور اپنی اسی اہمیت کی بنا پر تقریبا ہر دور ہی میں ”دارالحکومت “ رہا ہے ۔یوں تو ہندوستان کے کئی شہر وں میں بڑے بڑے جلیل القدر اور عظیم المرتبت صوفیا آرام فرماہیں ، مگردہلی کے مشائخ کی تاریخ کھنگالنے کے بعد یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صوفیائے کرام کی آمد اور سکونت کی بدولت دہلی ”دارالاولیا“ قرار پایا ۔

دارالاولیا دہلی کے نصیب کی بھی کیا بات ہے ،یہ وہ مبارک سرزمین ہے کہ جس نے سلطانُ الہند خواجہ معین الدین سیّدحسن اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہکے قدموں سے فیض پایا ہے اور خواجہ ٔ خواجگان نے یہاں پرچم ِ اسلام نصب فرمایااس سلسلے میں یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب حضرت معین الدین اجمیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ غزنی سے دہلی تشریف لائے تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے کچھ لوگوں کو شر ک میں مبتلا دیکھ کر اسلام کی دعوت دی ،زبان ِ خواجہ سے دعوتِ حق سُن کر ان کے دل حق قبول کرنے پر آمادہ ہوئے اور فوراً کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوگئے ، اس گر وہ میں ایک سردار بھی موجود تھاجسےلسانِ خواجہ سے حمید الدین کا لقب عطا ہوااور پھریہی حمید الدین ”حضرت حمید الدین دہلویرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ“کے نام سے معروف ہوئے ۔(تحفۃ الابرار،ص۹۴)

چونکہ مشائخِ کرام کا کردار خُلقِ محمدی کا آئینہ دار تھا اسی لیے لوگ ان کی جانب کھنچے چلے آتے ،لوگوں کی وارفتگی جاننے کے لیے یہ دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجیے چنانچہ جب سلطان شمس الدین التمش کے عہد میں خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نےدہلی کو اپنا مسکن بنا یا تو لوگوں کے ساتھ ساتھ بادشاہ بھی آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا گرویدہ ہو گیا ۔ جب خواجہ معین الدین رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے حضرت بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو اپنے ساتھ اجمیر لے جانا چا ہا تو اس خبر سے دہلی میں کہُرام مچ گیا اور جب آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ دہلی سے رخصت ہونے لگے توسلطان شمسُ الدین التمش سمیت تمام شہر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے پیچھے نکل کھڑا ہوا ،لوگوں کے شوق و وارفتگی کا عالَم یہ تھا کہ جہاں قطبُ الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ قدم رکھتے اس جگہ کی خاک کو تبر ک سمجھ کر اٹھا لیاجاتا ،یہ تمام صورت ِ حال دیکھ کر خواجہ غریب نواز رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے فرمایا:بختیار! تم یہیں رہو کیوں کہ مخلوق خدا تمہارے جانے سے اضطراب کا شکار ہےاورمیں ہرگزاس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ بے شماردل خراب و کباب کروں ،جاؤ! میں نے اس شہر کو تمہاری پناہ میں چھوڑا ۔ (سیر اولیا،ص۱۱۳)

چندمشائخ دہلی کے اسمائے گرامی

مشائخ کرام نے دہلی کو میدان ِ عمل بناکر خون ِ جگر سےاسلام کی آبیاری کی،اِن فلک پیما شخصیتوں میں چند کے نام ملاحظہ کیجیے :

(1)قطب الاقطاب قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(2)حضرت قاضی حمید الدین ناگوری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(3)حضرت خواجہ بد ر الدین غزنوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(4) حضرت خواجہ نجیب الدین متوکل رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(5)شیخ المشائخ حضرت نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(6)حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(7)حضرت خواجہ امیر خسرو رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(8)حضرت خواجہ شمس الدین محمد یحی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(9)حضرت خواجہ علاؤ الدین نیلی چشتی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(10)حضرت خواجہ محی الدین کاشانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(11)حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(12)حضرت مخدوم سماء الدین سہروردی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(13) حضرت خواجہ باقی باللہ نقشبندی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(14)حضرت شاہ عبدالحق محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(15)حضرت شاہ کلیم اللہ شاہ جہاں آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(16)محبّ النبی حضرت خواجہ فخرالدین دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ (17)حضرت خواجہ مرزاجان مظہر شہید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(18)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(19)حضرت شاہ محمد فرہاد دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(20)حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(21)حضرت شاہ محمد آفاق مجددی دہلوی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

(22)حضرت خواجہ ابو سعیدمجددی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ

ان کے علاوہ سینکڑوں مشائخ کرام ہیں جنہوں نے دہلی کی سرزمین کو اپنا مسکن بنایا ۔ دہلی میں آرام فرمامشائخ کرام کی حیات ِ مبارکہ کے جس گوشے کا بھی مطالعہ کیجیےان میں”ادْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ “کی عملی تفسیر ملے گی۔مشائخ دہلی کی گفتگو کو فصاحت و بلاغت کی چاشنی شگفتہ بنا دیتی، تعبیر و تمثیل کی ندرت اور ترغیب و ترہیب کی دھمک متلاشیان ِحق کے لیے رہنما بن جاتی۔ مشائخِ دہلی حق کی سربلندی کے لیے ہر دم کوشاں رہے اور اپنی پوری زندگی دعوت ِ دین میں بسر کی۔

اصلاح احوال کے سلسلے میں مشائخ دہلی کی کوششیں

مشائخ دہلی دنیاکی ہر کشش سے بے نیاز ہوکر دنیا میں رہتے ۔نفس سے ہر دم نبرد آزما رہتے ،بظاہر بے سر و سامان دِکھنے والوں کے پاس توکل کی دولت وافر مقدار میں موجود ہوتی ،جو بھی ان کے در پر حاضر ہوتا اس کے دل میں خلوص کا نور بھر دیتے ،درس و تدریس کا اہتمام ہوتا جس میں ملفوظات کے ذریعے اصلاحِ احوال کی قابل ِ قدرکوششیں کی جاتیں،ان حضرات نے اپنی زندگی کو مخلوق ِ خدا کے لیے وقف کیا ،جہاں بھی تشریف لے گئےنورِ شریعت سے جہالت کے اندھیروں کا خاتمہ کیا،ہر علاقے کے لیے مستقل بنیادوں پر تربیت کا انتظام کیااورلوگوں کو اپنا عقیدت مند پاکر دین ِ اسلام کا خادم بنادیا ۔

مشائخ ِ دہلی نے دعوت ِ دین کی بنیاد جن اصولوں پر رکھی اور دین ِ اسلام کی ترقی کے لیے جن جن شعبوں میں خصوصی توجہ دی ان کا اجمالی تذکرہ ملاحظہ کیجیے :

تدریس :

تدریس کا میدان نہایت وسیع اوراپنی افادیت کے اعتبار سے بہت ہی زیادہ اہمیت کاحامل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے تدریس پر خصوصی توجہ دی ،مشائخ کی تدریس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دہلی میں ایک ہزار مدرسے قائم ہوئے جس میں لاتعداد تشنگان ِ علم اپنی پیاس بجھانے کےلیےان کے در پر حاضری دیتے ۔(تاریخ مشائخ چشت ، ص۱۷۳)

مساجد کی تعمیر

اسلامی معاشرے میں مسجد کو خصوصی اہمیت حاصل ہے اسی لیے مشائخ کرام نے مساجد کی تعمیر اور آباد کاری پر خصوصی توجہ دی ۔

دیگر ارکان اسلام پر عمل

نماز کی طرح زکوٰۃ، روزہ اور حج بھی ارکانِ اسلام ہیں ،مشائخ نے لوگوں کو ارکان ِ اسلام کا پابند بنانے کے لیے بھی کوشش فرمائی ۔

ہر حال میں شریعت کی پیروی :

تصوف کی بنیادی روح اپنی ذات میں اطاعتِ الہی کا جذبہ پیدا کرنا ہے اور اطاعتِ الہی کے لیے ضروری ہے کہ بندہ ہر حال میں احکامِ شریعہ کو حرزِ جاں بنائے اسی لیے مشائخ کرام نے لوگوں کو شرعی احکام کا پابند بنانےکے لیےمستقل بنیادوں پر ذہن سازی کی ۔

اصلاح نیت:

دعوت ِ دین کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ”جذبہ ٔ خلوص“ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہےاور جذبہ ٔخلوص کو کسی بھی قسم کی آمیزش سے پاک رکھنے کے لیے ”اصلاحِ نیت“بہت ضروری ہے اسی لیے مشائخ کرام نے نیت کی درستی کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

استقامت :

سیدھا راستہ اپنا نا اور پھر اس پر ثابت قدم رہنااللہ عَزَّ وَجَلَّ کا خصوصی انعام ہے، مشائخ کرام نے اپنے معمولات کے ذریعے خلفا اور مریدین کو استقامت کی اہمیت ذہن نشین کروائی ۔

عفو و درگزر:

امر بالمعروف اور نھی عن المنکر وہ راہ ہے جس میں جگہ جگہ بداخلاقی کے کانٹے بچھائے جاتے ہیں اور طعن و تشنیع کے سنگریزے برسائے جاتے ہیں جس کا مقابلہ کرنے کے لیے ”عفو و درگزرکی سنت“ ہی سب سے محفوظ پناہ گا ہ ثابت ہوتی ہے،مشائخِ کرام کی دینی خدمات کا دائرہ کار جوں جوں وسیع ہوتا گیا دشمنان ِ دین اور حاسدین کی طرف سے ایذا رسانی کی ہر ممکن کوشش کی گئی مگر انہوں نے عفو و درگزر کی عظیم ُالشان مثالیں قائم فرماکر دشمن کے منصوبے خاک میں ملادیے ۔

تصنیف و تالیف:

کتاب کی اہمیت ہر دور میں مسلم رہی ہے کتاب اپنے مصنف کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھتی ہے اورصدیاں گزرنے کے بعدبھی کتاب ”مصنف کی مجلس“میں لے جاتی ہے ،مشائخِ دہلی نے تصنیف و تالیف کی جانب بھی توجہ دی اور کئی علوم پر گراں قدر کُتُب یادگار چھوڑیں ۔

مشائخِ دہلی بعض اوقات زیرِ مطالعہ کتاب کے پیچیدہ مسائل حل فرمادیتے جیساکہ سلسلۂ عالیہ قادریہ کے مشہور بزرگ حضرت سیّدابراہیم ایرجی قادری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ہر علم کی بے انتہا کتابیں مطالعہ کی تھیں اور اس کی تصحیح بھی فرمائی تھی، آپ کتابوں کے مشکل ترین مسائل کو اس طرح حل کردیتے کہ معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی آپ کے حل کردہ مشکلات کو بغیر استاد کی مدد کے بخوبی سمجھ جاتا ، آپ کے وصال کے بعد آپ کے کتب خانے سے اتنی زیادہ کتابیں برآمد ہوئیں جو ضبطِ تحریر سے باہر ہیں،ان میں سے اکثر آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تھیں۔(تذکرہ مشائخ قادریہ رضویہ، ص۲۰۸)

مشائخ دہلی کی دعوت کے اثرات

مشائخِ دہلی کی آمد اور سکونت ساکنان ِدہلی کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ، مشائخ کرام کی دعوت سے اُن کا ظاہر سُدھر ا اور اُن کے باطن کو پُر رونق بنا گیا ۔ مشائخ ِدہلی کی دعوت کے اثرات کے مختلف پہلو ملاحظہ کیجیے :

(1)علم کے اجالوں سے جہالت کی تاریکی کا خاتمہ :

انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے امتیازی مقام دلانے والا وصف” علم “ہے۔علم کا نور انسان کومعاشرے میں رہن سہن کا ڈھنگ سکھلاتا ہے،طرز ِ معاشرت میں عمدگی پیداکرنے کا سلیقہ بتا تا ہے ، بڑوں کا ادب اور چھوٹوں پر شفقت کرنے کی اچھی عادت اپنانے کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔صوفیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن جہاں بھی تشریف لے گئے علم کی شمع روشن کی اور جہالت کی تاریکی کا خاتمہ کیا ۔کبھی تو میدانِ تدریس میں اتر کر جہالت کو کیفرِ کردار تک پہنچایا اور کبھی اپنے علمی فانوس کے ذریعے کسی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے کی سعیٔ پیہم فرمائی۔

حضرت نظام الدین اولیا رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی بارگاہ میں کسی بھی قسم کا کوئی اشکال پیش ہوتا تو آپ نو رِ باطن سے اس کا شافی جواب عطا فرماتے یہی وجہ تھی کہ شہر دہلی میں جو لوگ تصوف کا انکار کرتے تھے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے تبحر علمی نے انہیں اس قدر متاثر کیا کہ وہ آپ کے حلقہ ٔ ارادت میں شامل ہوگئے۔(محبوب الہی،ص۲۲۶ملخصا)

مشائخ کرام علیہم الرحمہ کے وجودِ مسعود سے دہلی علم وعرفان کی مشکبار پُر رونق اکیڈمی بن چکا تھاجس کی بناپردہلی کو” رشک بغداد“ قرار دیا گیا ۔

(2)اخلاقی پستی کا خاتمہ

جس طرح دماغ کو معطر کرنے کے لیے ”پھو ل “میں ”خوشبو “ کا ہونا ضروری ہے بالکل اسی طرح ”علم “ کو انسانیت کے لیے قابل اِنتفاع بنانے کے لیے ” حسن اخلاق کی خوشبو“کاہوناضروری ہے کیوں کہ جس”علم“میں”بداخلاقی“ کی بو ہو اسے حاصل کرنے سے انسان پڑھا لکھا جاہل بن جاتا ہے ۔

دہلی کےمشائخ کرام نے جہاں فروغ ِ علم کے سلسلے میں کوششیں فرمائیں وہیں انسان کو عمدہ اخلاق اپنانے سے متعلق خصوصی تربیت دی اور اپنی بافیض صحبت سے معاشرے میں پیدا ہونے والی اخلاقی برائیوں کا خاتمہ فرمایا۔

(3)شیر و شکر کرنے کی کوشش:

افراد کے مجموعے کا نام معاشرہ ہے اوراس مجموعے کو توڑنے میں باہمی رنجشوں،آپس کی ناچاقیوں اور تلخیوں کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے ۔مشائخ کرام نے عمدہ نصیحت اور حسن ِ تدبیر کے ذریعے بکھرے ہوئے خاندانوں کی رہنمائی کی اور ان میں صلح جوئی کے جذبات ابھارے،عفو و درگزر اپنانے کی ترغیب دلائی اورنفرت کاخاتمہ کرکے شیر و شکر ہوکر رہنے کی عملی تربیت دی جس کی بدولت اپنے بھائی کے لیے بھلائی چاہنے کے جذبے کو فروغ ملا۔

(4)علم نافع کے فروغ کے لیے کوشش

انسان کی ہلاکت و بربادی میں”علم غیرنافع“کا کردار ہوتا ہے،اس کی بدولت معاشرے میں فساد پھیلتا ہے اوربعض اوقات فاسد نظریات کے فروغ کی وجہ سے معاشرے میں انتشار پیدا ہوتا ہے۔دہلی میں جب علم کو عروج نصیب ہوا تو اس وقت ایسے عناصر نے بھی پرورش پائی جن کا علم ”غیرِنافع“ ہونے کی وجہ سے ریت کا پہاڑ تھا اور اس غیرنافع علم کی وجہ سے غلط نظریات پھیل رہے تھے تو ایسے وقت میں مشائخ کرام ہی نے اپنی خدا داد صلاحیتوں کے بل بوتے پر ان عناصر کا سدِ باب کیا اور ان کے مہلک اثرات سے معاشرے کو محفوظ رکھنے کے لیے علم ِ نا فع کی اشاعت میں بھر پور کردارادا کیااور حق و باطل کے مابین خطِ امتیاز کھینچ کرلوگوں کو گمراہی سے بچایا۔

(5)اصلاح اعمال کے لیے کوشش

رب ِ کریم کی بارگاہ سے ایمان لانےاور عملِ صالح پر استقامت اختیار کرنے پر جنّت کی بشارت سے نوازا گیا ہے اور بے عملی پر عذابِِ نار سے ڈرایا گیا ہے لیکن جب بھی انسان بشارت و تخویف کو فراموش کرتا ہےتواس کا نامہ ٔ اعمال برائیوں سے پُر ہونے لگتا ہے اور پھر بدی کی کثافت نامۂ اعمال کی چمک دمک کو ختم کردیتی ہے ۔مشائخِ دہلی نے ”اصلاحِ اعمال “پر بھر پور تو جہ دی اور اپنی فراستِ ایمانی سے ایسے اقدامات کیے کہ جن کی بدولت لاتعداد افراد تو بہ کرکے راہ راست پر آئے ۔

(6)مفادپرست کلچر کا خاتمہ اور خیر خواہی کو فروغ

اپنا فائدہ سوچنے کی روش سے انسان کے اندر بے شمار برائیاں پیدا ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کبھی انسان حرص و لالچ کے جال میں پھنس جاتا ہے ، کبھی تکبرکا آسیب اس سے چمٹ جاتا ہے تو کبھی حسد کی آگ میں کود پڑتا ہےاور آخر کارمفادپرستی کی دیمک کے سبب معاشرتی اقدار رفتہ رفتہ کھوکھلی ہوتی ہیں۔اسی لیےمشائخِ دہلی دوسروں کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھنےاور اس کے ازالے کے لیے کوشاں رہنے کی خصوصی تربیت فرماتے جیساکہ خواجہ نظام الدین اولیاء رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ لوگوں کے دکھ درد سے حددرجہ رنجیدہ ہوتےاورخلقِ خدا کی پریشانی سے پریشان ہوجاتے، ایک دن خانقاہ میں لوگوں کا ہجوم تھا، سایہ نہ ملنے کی وجہ سے کچھ لوگ دھوپ میں بیٹھے ہوئےتھے ۔آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے جب یہ دیکھا تو لوگوں سے فرمایا:مل جل کر بیٹھ جاؤ تاکہ دوسروں کے لیے بھی جگہ نکل آئے۔دھوپ میں لوگ بیٹھے ہیں اور میں جل رہا ہوں۔(محبوب الہی،ص۲۳۶)ایک موقعے آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے ارشاد فرمایا:جو شخص میرے پاس آتا ہے اپنا حال مجھ سے بیان کرتاہے اس سے دو چند فکر و تردد اور غم و الم مجھے ہوتاہے ،بڑا سنگدل ہے وہ جس پر اپنے دینی بھائی کا غم اثر نہ کرے۔(محبوب الہی،ص۲۳۷) ایک مرتبہ یہ ارشاد فرمایا: قیامت کے بازار میں کسی سودے کی اتنی قیمت نہ ہوگی جتنی دل کا خیال رکھنےاور دل خوش کرنے کی ۔(محبوب الہی،ص۲۳۷)

مشائخ دہلی نے اپنے اپنے عہدِزریں میں مفاد پرستی کے کلچر کے خاتمے کے لیے بھر پور کوشش فرمائی اور لوگوں کہ یہ ذہن دیا کہ

1۔ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیں اور اپنے اندر ایثار کا جذبہ پیدا کریں۔2۔مخلوق پر رحم کرکے خالق کی رحمت کے حقدار بنیں۔3۔کسی کو خود سے کم تر نہ سمجھیں بلکہ عاجزی اختیار کرتے ہوئے ہر ایک کو خود سے برتر جانیں۔4۔مسلمان کی بروقت مدد کرکے اس کی قلبی طمانیت کا سبب بنیں ۔

الغرض یہ کہ مشائخ دہلی نے بھرپور کوشش فرمائی کہ مسلمان ایک دوسرے کے خیرخواہ بنیں۔

(7)عبد و معبود کے مابین تعلق اُستوار کرنے کی کوشش

مشائخ کرام مخلوق کو خالق سے جوڑتے ہیں اوراپنی دعوت کے ذریعے انسان کو مقصد ِ تخلیق”عبادت “سے آشنا کرواکر اُسےخالق ِ حقیقی کے در پر جھکا دیتے ہیں ،مشائخ دہلی نے بھی مخلوق کو خالق سے جوڑاجس کا یہ اثر ملاحظہ کرنے کے لیے خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کے عہد زریں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں مرد و عورت،غلام ونوکر سب ہی عبادت و ریاضت کے شائق نظر آتےہیں،آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کی برکت سےاس دور کے مسلمانوں کی کیفیت یہ ہوچکی تھی کہ شرم کی وجہ سے دنیوی عیش وعشرت کا تذکرہ کرنے سے بھی شرماتے تھے ۔(مراۃ الاسرار،ص۷۹۲)

جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں اگر اپنے شب و روز ان مشائخ کرام کی سیرت کےسانچے میں خود کو ڈھالنے کی کوشش کریں، اپنی داعیانہ ذمہ دار ی کو محسوس کرتے ہوئے اسلام کا پیام ِ امن دنیا کے سامنے پیش کریں،عجب نہیں کہ ایک مرتبہ پھر پرچم ِ اسلام اپنی عظمت و جلالت کے ساتھ دنیا بھر میں لہرانے لگے۔

از:مولاناناصر جمال عطاری مدنی

اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی


اخیرِ زمانہ میں پیدا ہونے والے  فتنوں اور اس سے نجات کے بیان پر مشتمل رسالہ

ایک زمانہ ایسا آئے گا

پیشکش: مرکزی مجلس شوریٰ، دعوتِ اسلامی

اِس رسالے کی چندخصوصیات:

٭دیدہ زیب ودِلکش سرورق (Title) وڈیزائننگ (Designing) ٭عصرحاضرکے تقاضوں کے پیشِ نظرجدید کمپوزنگ وفارمیشن ٭عبارت کے معانی ومفاہیم سمجھنے کیلئے ’’علاماتِ ترقیم‘‘(Punctuation Marks) کا اہتمام ٭اُردو، عربی اور فارسی عبارتوں کو مختلف رسم الخط (Fonts)میں لکھنے کا اہتمام ٭پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رکھنے کیلئے عنوانات (Headings) کا قیام ٭بعض جگہ عربی عبارات مع ترجمہ کی شمولیت ٭آیات کے ترجمہ میں کنزالایمان کی شمولیت ٭حسب ضرورت مشکل اَلفاظ پر اِعراب اور بعض پیچیدہ اَلفاظ کے تلفظ بیان کرنے کا اہتمام ٭قرآنی آیات مع ترجمہ ودیگر تمام منقولہ عبارات کے اصل کتب سے تقابل(Tally) کا اہتمام ٭آیات، اَحادیث،توضیحی عبارات، فقہی جزئیات کےحوالوں (References) کا خاص اہتمام ٭ اغلاط کوکم سے کم کرنے کیلئے پورے رسالے کی کئی بار لفظ بہ لفظ پروف ریڈنگ۔

51صفحات پر مشتمل یہ رسالہ2014ءسے لیکر6مختلف ایڈیشنز میں1لاکھ 15 ہزارکی تعداد میں پرنٹ ہو چکا ہے۔

اس رسالے کی PDF دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے مفت ڈاؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔

Download Now


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام سینٹرل افریقہ ریجن ملک کینیا میں جولائی 2021ء میں ڈیلی کلاسز ”صراط الجنان کورس“ کا آغاز کیا گیا تھاجو الحمد اللہ اکتوبر 2021ء تک جاری ہے۔ اس 20 منٹ کی کلاس میں اسلامی بہنیں بہت دلچسپی کے ساتھ شرکت کرتی ہیں۔

اس کورس میں اسلامی بہنوں کو روزانہ 3آیات کی تلاوت اور تفسیر سننے کی سعادت ملتی ہے اوراب تک تقریباً 10 پارے مکمل ہوچکے ہیں۔ دوران کورس مبلغہ دعوت اسلامی اسلامی بہنوں کو دینی کاموں میں شرکت کرنے کی ترغیب بھی دلاتی رہتی ہیں۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام  24 اکتوبر 2021ء کو بیلجیم (Belgium) کے شہر انٹورپن (Antwerpen) میں میلاد اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں کم و بیش 50 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

بیلجیم کی کابینہ نگران اسلامی بہن نے”آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی امت سے محبت“ کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے اجتماعِ پاک میں شریک اسلامی بہنوں کو اس حوالے سے اہم نکات اور حکایات پیش کئے۔ کابینہ نگران اسلامی بہن نے دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ رہنے اور دینی کاموں میں حصہ لینے، نیک اعمال پر عمل کرنے اور مدنی چینل دیکھنے کی ترغیب دلائی۔

آخر میں ذہنی آزمائش کا سلسلہ ہوا اور تحائف تقسیم کئے گئے نیز تبرکات کی زیارت بھی کرائی گئی۔


 دعوت اسلامی کے شعبہ علاقائی دورہ للبنات کے زیر اہتمام 15 اکتوبر 2021ء کو بیلجیم Belgium کے شہر برسلز Brussels اور انٹورپن Antwerpen میں بذریعہ انٹرنیٹ نیکی کی دعوت کا سلسلہ ہوا۔

کابینہ نگران اسلامی بہن نے مقامی اسلامی بہنوں کو بذریعہ اسکائپ نیکی کی دعوت پیش کی اور دعوت اسلامی کے دینی کاموں سے متعلق آگاہی فراہم کرتے ہوئے اجتماع میلاد میں شرکت کرنے کی ترغیب دلائی۔


گزشتہ دنوں دعوت اسلامی کے زیر اہتمام ناروے (Norway) کے شہر اوسلو (Oslo)میں ماہانہ دینی حلقے کا انعقاد کیا گیاجس میں کم وبیش 11 اسلامی بہنوں نے شرکت کی۔

دینی حلقے میں مدنی مذاکرے کے سوالات و جوابات کی دہرائی کا سلسلہ ہوا، فقہ کے موضوع پر اسلامی بہنوں کو نماز کے فرائض اور ان کا طریقہ سکھایا گیا اور دینی حلقے میں شریک اسلامی بہنوں کو انفرادی کوشش کرنے کا ذہن دیا گیاجس پر اسلامی بہنوں نے اپنی اچھی اچھی نیتیں پیش کیں نیز مدنی مشورے میں دینی کاموں کو مزید اچھے اندازسے کرنے کی ترغیب دلائی گئی۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام یورپین یونین ریجن کے ملک اٹلی Italy کی ڈویژن بریکسن Briksen میں بذریعہ اسکائپ ماہانہ دینی حلقے کا انعقاد کیا گیا جس میں کم و بیش 17 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

شعبہ علاقائی دورہ کی کابینہ نگران اسلامی بہن نے ”فضائل صدقات“ کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے 7 نومبر 2021ء کو ہونے والے ٹیلی تھون کے لئے بھر پور کوششیں کرنے کی ترغیب دلائی اور محفل نعت اجتماعات کے حوالے سے اسلامی بہنوں کی تربیت کی۔


دعوت اسلامی کے زیر اہتمام یورپین یونین ریجن کے ملک اٹلی Italy کی ڈویژن بریشا Brescia میں 26 اکتوبر 2021 ء کو بذریعہ اسکائپ ماہانہ دینی حلقے کا انعقاد کیا گیا جس میں کم و بیش 37 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

شعبہ علاقائی دورہ کی ریجن نگران اسلامی بہن نے اپنے شعبے کے دینی کاموں کا فالو اپ لیا اور اٹلی کی کابینہ نگران اسلامی بہن نے ترغیبی بیان کیا نیز 7 نومبر 2021 کو ہونے والے ٹیلی تھون کی ترغیب بھی دلائی۔


دعوت اسلامی کےزیراہتمام آسٹریا (Austria) کے شہر ویانا (Vienna) میں 27 اکتوبر 2021 ء کو بذریعہ اسکائپ سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں تقریبا 20 اسلامی بہنوں نے شرکت کی ۔

مبلغہ دعوت اسلامی نے ”آقا کی امت سے محبت“کے موضوع پر بیان کرتے ہوئے اجتماع میں شریک اسلامی بہنوں کو ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اپنی امت سے محبت و شفقت کے بارے میں اہم نکات بیان کیا۔


دعوت اسلامی کے شعبہ شارٹ کورسز کے تحت 28 اکتوبر 2021ء کو ساؤتھ افریقہ میں شعبہ شارٹ کورسز کی ذمہ دار اسلامی بہن کا ویلکم کابینہ اور پولکوانے کی ذمہ داراسلامی بہنوں کے ساتھ  مدنی مشورہ ہوا۔

شارٹ کورسز کی ذمہ دار اسلامی بہن نے اسلامی بہنوں سے کارکردگی کا فالو اپ کرتے ہوئے ان کی تربیت کی اور اسلامی بہنوں کو آئندہ آنے والے کورسز ”ہفتہ سنتوں بھرا اجتماع کورس “، ”احکام وراثت“کے نکات سمجھائے نیز ان کورسز کو کابینہ سطح پر کروانے کی ترغیب دلائی۔