فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے:نیت المؤمن خیر من
عملہ
میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یا الٰہی !
پیاری اسلامی بہنو! فرض روزوں کے علاوہ
نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہیے کہ اس میں بےشمار دینی و دنیوی فوائد ہیں۔ ثواب
تو اتنا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ بس روزے ہی رکھتی ہی چلی جائیں۔مزید دینی فوائد میں
ایمان کی حفاظت،جہنم سے نجات اور جنت کا حصول شامل ہیں اور جہاں تک دنیوی فوائد کا
تعلق ہےتو روزے میں دن کے اندر کھانے پینے میں صرف ہونے والے وقت اور اخراجات کی
بچت، پیٹ کی اصلاح اور بہت سارے امراض سے حفاظت کا سامان ہے۔اور تمام فوائد کی اصل
یہ ہے کہ اس سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے۔اللہ پاک پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر
35 میں ارشاد فرماتا ہے: ️ ترجمۂ کنزالایمان:اور روزے والے اور روزے والیاں اور
اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے
والے اور یاد کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔پارہ
22سورۃالاحزاب آیت نمبر 35،اسی طرح پارہ 29 سورۃ الحاقہ آیت نمبر 24 میں ارشادِ
باری ہے: ️ ترجمۂ کنزالایمان :کھاؤ اور پیو رچتا ہوا صلہ اس کا جو تم نے گزرے
دنوں میں آگے بھیجا۔
اس آیت کے تحت حضرت وکیع رحمۃ اللہ علیہ فرمائے ہیں: اس آیتِ کریمہ میں گزرے ہوئے دنوں
سے مراد روزوں کے دن ہیں کہ لوگ ان میں کھانا پینا چھوڑ دیتے ہیں۔(المتحر
الرابح فی ثواب العمل الصالح ص 335 دار حضر بیروت )
تاجدارِ رسالت صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے ثواب کی امید
رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال(کا
فاصلہ)دور
فرما دے گا۔(کنز
العمال ج8 ص 255 حدیث نمبر 24148)
اسی طرح ایک اور جگہ پیارے آقا صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اگر کسی نے ایک دن
نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے جب بھی اس کے ثواب پورانہ ہوگا اس
کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔ (ابو یعلیٰ ج5ص353حدیث 6104)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ
سے روایت ہے:نبی کریم،رؤف رحیم،محبوبِ ربِّ کریم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ رحمت نشان ہے:جو اللہ پاک کی
رضا کے لیے ایک دن کا روزہ رکھتا ہے اللہ پاک اسے جہنم سے اتنا دور کر دیتا ہے
جتنا فاصلہ ایک کوا بچپن سے بوڑھا ہو کر مرنے تک مسلسل اڑتے ہوئے طے کرسکتا ہے۔(مسند
امام احمد بن حنبل ج3ص619حدیث 10810)
حضرت انس رضی اللہ عنہ
نے فرمایا:قیامت کے دن روزے دار قبروں سے نکلیں گے تو وہ روزے کی بو سے پہچانے جائیں
گے اور پانی کے کوزے جن پر مشک سے مہر ہوگی انہیں کہا جائے گا: کھاؤ !کل تم بھوکے
تھے۔پیو! کل تم پیاسے تھے۔آرام کرو! کل تم تھکے ہوئے تھے ۔پس وہ کھائیں گے اور
آرام کریں گے حالانکہ لوگ حساب کی مشقت اور پیاس میں مبتلا ہوں گے ۔(کنزالعمال ج
8 ص 313 حدیث 23639 والتدوین فی اخبار قزوین ج2ص326 )
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہ عنہا
سے روایت ہے،سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو روزے کی حالت میں مرا ،اللہ پاک قیامت
تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔ (الفردوس
بماثور الخطاب ج 3 ص 504 حدیث 5557 )
سبحان اللہ! خوش نصیب ہے وہ مسلمان جسے
روزے کی حالت میں موت آئے بلکہ کسی بھی نیک
کام کے دوران موت آنا نہایت ہی اچھی علامت
ہے مثلاً باوضو یا دورانِ نماز مرنا ،سفر ِمدینہ کے دوران بلکہ مدینۂ منورہ ️میں
روح قبض ہونا ،دورانِ حج مکۂ مکرمہ ،منٰی ، مزدلفہ یا عرفات شریف میں فوتگی،دعوتِ
اسلامی کے سنتوں کے تربیت کے قافلے میں عاشقانِ رسول کے ہمراہ سنتوں بھرے سفر کے
دوران اس دنیا سے رخصت ہونا ،یہ سب ایسی عظیم سعادتیں ہیں جو صرف خوش نصیبوں کو ہی حاصل ہوتی ہیں ۔
دورِ حاضر کی عظیم علمی و روحانی شخصیت
کروڑوں دلوں کی دھڑکن میرے مرشدِ کریم ،امیر ِاہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کو بھی نفل
روزوں سے بے انتہا محبت ہے۔آپ نے ہماری تربیت کے لئے مرتب کردہ نیک اعمال کے رسالے
میں نفل روزوں سے متعلق باقاعدہ ایک سوال شامل کیا ہے : کیا آپ نے اس ہفتے پیر شریف
کا (یا رہ
جانے کی صورت میں کسی بھی دن )روزہ رکھا ؟
آئیے! ہم بھی ہاتھوں ہاتھ نیت کرتی ہیں
کہ ان شاء اللہ ہم بھی نفل روزے رکھیں گی
اور انبیا و اولیا کی سنت ادا کریں گی۔ان شاءاللہ
آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک
ہمیں بھی اخلاص کے ساتھ خوب نفل روزوں کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہماری تمام کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں
قبولیت کا درجہ عطا فرما کر ہمیں بے حساب مغفرت و بخشش کی بھیک سے نوازے ۔آمین یا
رب العلمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم
نفل
روزوں کے دینی و دنیوی فوائد
پیاری پیاری ا سلامی بہنو!فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی عادت بنانی
چاہئے کہ اس میں بے شمار دینی و دنیاوی فوائد ہیں،دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت،جہنم
سے نجات اور جنت کا حصول شامل ہیں اور جہاں تک دنیوی فوائد کا تعلق ہے تو روزے میں
دن کے اندر کھانے پینے میں صَرف ہونے والے وقت اور اخراجات کی بچت،پیٹ کی اصلاح
اور بہت سارے امراض سے حفاظت کا سامان ہے
اور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ اس سےاللہ پاک راضی ہوتا ہے۔
روزہ
داروں کے لئے بخشش کی بشارت
اللہ پاک پارہ 22، سورۂ احزاب کی آیت
نمبر 35 میں ارشاد فرماتا ہے:وَالصّٰٓئِمِیۡنَ وَالصّٰٓئِمٰتِ
وَالْحٰفِظِیۡنَ فُرُوۡجَہُمْ وَالْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیۡنَ اللہ کَثِیۡرًا وَّ
الذّٰکِرٰتِ ۙ اَعَدَّ اللہُ لَہُمۡ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۵﴾۔ترجمۂ کنزالایمان:اور روزے والے اور
روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو
بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں، ان سب کے لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر
رکھا ہے۔
نفلی
روزوں کے 3 فضائل
1۔40
سال کا فاصلہ دوزخ سے دوری
تاجدارِ رسالت،شفیعِ روزِ قیامت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ ڈھارس نشان ہے:جس نے
ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال (کا فاصلہ) دور فرما دے گا۔(کنزالعمال، جلد 8، صفحہ 255، حدیث،24149)
2۔قیامت
میں روزہ دار کھائیں گے
حضرت عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :(قیامت میں) دسترخوان بچھائے جائیں گے،سب سے
پہلے روزے دار ان پر سے کھائیں گے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، ج 2، صفحہ 424،
حدیث10)
3۔روزہ
رکھنے کی حالت میں مرنے کی فضیلت
اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو روزے کی حالت میں مرا،اللہ پاک قیامت
تک کیلئے اس کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔(الفر دوس بماثورالخطاب، جلد 3، صفحہ 504، حدیث 5557)
نفل
روزوں کے بارے میں چھ مدنی پھول:
1۔ماں
باپ اگر بیٹے کو نفل روزے سے اس لئے منع کریں کہ بیماری کا اندیشہ ہے تو والدین کی
اطاعت کرے۔(ردالمختار، جلد3، صفحہ 417)
2۔شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی نفل روزہ نہیں رکھ سکتی۔(در مختار مع رد المختار، جلد 3، صفحہ 415)
3۔نفل
روزہ قصداً شروع کرنے سے پورا کرنا واجب
ہو جاتا ہے، اگر توڑے گا تو قضا واجب ہوگی۔(در مختار، جلد 3، صفحہ 411)
4۔والدین کی ناراضی کے سبب عصر سے پہلے تک نفل روزہ توڑ سکتا ہے، بعدِ عصر نہیں۔(در مختار مع رد المختار، جلد 3، صفحہ 414)
5۔اس
طرح نیت کی کہ کہیں دعوت ہوئی تو روزہ نہیں اور نہ ہوئی تو ہے، یہ نیت ٹھیک نہیں، بہرحال روزہ دار نہیں۔(عالمگیری، جلد 1، صفحہ 190)
6۔سارا
سال روزے رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے۔(در مختار، جلد 3، صفحہ 337)
یا ربِّ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !ہمیں زندگی،صحت اور فرصت کو غنیمت جانتے ہوئے خوب
خوب نفل روزے رکھنے کی سعادت عطا فرما، انہیں قبول بھی کر اور ہماری اور ہمارے میٹھے
محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ساری امت کی مغفرت فرما۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
ہمیں فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہئے کہ اس میں بے
شمار دینی اور دنیوی فوائد ہیں۔
اللہ پاک کے پیارے نبی، مکی مدنی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عافیت نشان ہے:جس نے
رضائے الٰہی کے لئے ایک دن کا نفل روزہ
رکھا تو اللہ پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان ایک تیز رفتار سوار کی 50 سالہ مسافت
کا فاصلہ فرما دے گا۔(کنزالعمال،
جلد 8، صفحہ 255، حدیث،24149)
اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور
زمین بھر سونا اسے دیا جائے، جب بھی اس کا
ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی
کے دن ملے گا۔(المسند ابی یعلی، جلد 5، صفحہ 353، حدیث 6104)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو روزے کی حالت میں
مرا،اللہ پاک قیامت تک کے لئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔(الفر دوس بماثورالخطاب، جلد 3، صفحہ 504، حدیث 5557)
پھر فضیلت والے دنوں میں روزہ رکھنا
زیادہ افضل ہے، سال میں رمضان المبارک کے
بعد عرفہ یعنی (9 ذی الحجہ کا دن،دسویں محرم
کادن، ذوالحجہ کے پہلے دس دن، محرم الحرام کے پہلے دس دن اور حرمت والے مہینے
روزوں کے لئے عمدہ دن ہیں)۔
حدیثِ پاک میں ہے:رمضان المبارک کے بعد افضل روزے محرم کے ہیں۔(کتاب الصیام،باب فضل صوم المحرم،حدیث
2756، صفحہ 866)
نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:بہترین روزے میرے
بھائی حضرت داؤد علیہ
السلام کے روزے ہیں۔(جامع ترمذی، ابواب الصوم، حدیث 770، صفحہ 1723)
آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس فرمان میں اس طرف اشارہ ہے کہ مجھ پر دنیا
اور زمین کے خزانوں کی کنجیاں پیش کی گئیں، لیکن میں نے انہیں لینے سے انکار کر دیا اور میں
نے کہا:میں ایک دن بھوکا رہوں گا اور ایک دن کھاؤں گا، جب میں کھاؤں گا تو تیری حمد بیان کروں گا اور
جب بھوکا ہوں گا، تیری بارگاہ میں التجا
کروں گا۔(جامع ترمذی، حدیث 2347، ص1887 تا 1888)اللہ پاک ہمیں بھی نفل روزے رکھنے کی سعادت نصیب
فرمائے۔آمین
پیاری اسلامی بہنو!اللہ
پاک کا قرب حاصل کرنے کے لئے سب سے بڑا ذریعہ
فرائض کی ادائیگی ہے۔فرائض کی ادائیگی اللہ پاک کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔لیکن اللہ
پاک نے اپنے بندوں پر شفقت و رحمت کرتے ہوئے نفل عبادات کی ترغیب بھی دلائی ہے تاکہ
بندے اللہ پاک کا قرب حاصل کرسکیں۔جس طرح نمازیں فرض ہیں اور کچھ نفل اسی طرح کچھ روزے
فرض ہیں اور کچھ نفل۔نفل روزوں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رسولِ
اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو آدمی رمضان کے روزے رکھے پھر
اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ عمل پوری زندگی روزے رکھنے کی مانند ہے۔(صحیح
مسلم)
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جس نے اللہ پاک کی راہ میں ایک دن
کا(نفل)روزہ
رکھا،اللہ پاک اس کے چہرے کو جہنم سے ستر(70) سال
کی مسافت پر کر دیتا ہے۔(صحیح بخاری)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی
ہیں:میں نے آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شعبان کے مہینے سے زیادہ نفل روزے رکھتے
ہوئے کسی مہینے میں نہیں دیکھا کہ اس کی بہت فضیلت ہے۔(صحیح بخاری)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سوال کیا گیا: سب سے افضل نفل روزے
کون سے ماہ میں ہیں؟ فرمایا: شعبان میں۔
حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو شخص ماہِ شعبان کے تین روزے
رکھتا ہے اور پھر مجھ پر دُرود و سلام بھیجتا ہے تو اللہ پاک اس کے تمام گزشتہ گناہ
معاف فرما دیتا ہے اور اس کے رزق میں برکت عطا فرماتا ہے۔
وہ مسلمان جسے خیر اور بھلائی کے کاموں
میں رغبت ہے اسے علم ہونا چاہیے کہ اللہ پاک
کے لئے نفل روزے رکھنے کی کتنی بڑی فضیلت ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں آتا ہے:حضرت ابو
قتادہ رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے یوم ِ عاشورا(10
محرم)
کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: یہ گزشتہ سال کے گناہوں کا
کفارہ بن جاتا ہے۔(صحیح مسلم)
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:نو(9)ذوالحج
کو روزہ رکھیں کہ مجھے اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ اس دن کا روزہ گزشتہ(گزرے
ہوئے)سال
کا اور آئندہ(آنے
والے)سال
کے گناہوں کا کفارہ ہے۔(حدیث: صحیح مسلم)
حدیث میں آتا ہے:حضرت ابو قتادہ رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہم لوگوں کو حکم فرماتے تھے کہ ایامِ بیض
یعنی ہر مہینے کی تیرھویں، چودھویں،پندرھویں کو روزہ رکھا کریں اور فرماتے تھے کہ مہینے
کے ان تین دنوں کے روزے رکھنا اجروثواب کے لحاظ سے عمر بھر روزہ رکھنے کے برابر ہے۔(ابوداؤدونسائی)
اس کے علاوہ نوافل کے بے شمار فضائل ہیں۔اللہ
پاک ہمیں خصوصاً فرائض ادا کرنے اور نفل عبادات کا اہتمام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
بجاہ النبی الامین صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
اسلام نے فرض روزوں کے علاوہ مختلف ایام
کے نفل روزوں کی بھی ترغیب دی ہے۔ کیونکہ روزہ تزکیۂ نفس کا بہترین ذریعہ ہے یہی
وجہ ہے کہ نبی امی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زندگی کا معمول تھاکہ وہ فرض روزوں کے علاوہ نفل
روزوں کا بھی بطورخاص اہتمام فرمایا کرتے تھے۔
نفل روزوں
کی فضیلت احادیث کی روشنی میں
1. عن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول
الله صلى الله علیه و آله و سلم :ما من عبد يصوم يوما في سبيل الله إلا باعد اللہ بذلک اليوم ،وجهه عن النار سبعين خريفا۔متفق عليه واللفظ لمسلم
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ
سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:
جو شخص بھی ایک دن اللہ پاک کی رضا کے لئے روزہ رکھے تو اللہ پاک اس ایک دن کے
بدلے اس کے چہرے کو آگ سے ستر سال کی مسافت تک دور کر دیتا ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ
ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ (أخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب الجھاد
و اسیر، باب فضل الصوم فی سبيل الله، رقم 2840 دارالکتب العلمیہ-ومسلم فی الصحيح،
کتاب الصیام، باب فضل الصيام فی سبيل الله ،رقم: 2711 ،دارالکتب العلمیہ)
2. عن عبدا
لله قال: قال لنا رسول اللہ صلى الله عليہ و آلہ و سلم :يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ،مَنِ اسْتَطَاعَ
مِنْكُمُ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ،
وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ متفق عليه، واللفظ
لمسلم
حضرت عبد الله بن مسعود رضی
اللہ عنہ
سے مروی ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہمیں فرمایا: اے نوجوانو! تم میں سے جو
عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہو تو وہ ضرور نکاح کرے، کیونکہ یہ نگاہ کو
جھکانا اور شرمگاہ کی حفاظت کرتا ہے، اور جو نکاح کی طاقت نہ رکھے تو اس کے لیے
ضرور ی ہے کہ وہ روزے رکھے، بے شک یہ روزہ اس کے لیے ڈھال ہے۔ یہ حدیث متفق علیہ
ہے اور مذکورہ الفاظ میں مسلم کے ہیں۔ (2: أخرجہ البخاری فی صحيح،
کتاب النکاح، باب من لم يستطع اباء نسیم،رقم : 1905 دارالکتب العلمیہ ومسلم فی الصحیح،
کتاب النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ ،رقم
3398 دار الکتب العلمیہ)
3. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ البَاهِلِيِّ،
عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ صَامَ يَوْمًا فِي سَبِيلِ
اللَّهِ جَعَلَ اللَّهُ بَيْنَهُ وَبَيْنَ النَّارِ خَنْدَقًا كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ
وَالأَرْضِ۔رواه الترمذي
حضرت ابو امامہ باہلی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے:حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص الله پاک
کی راہ میں ایک دن روزہ رکھے تو اللہ پاک اس کے اور جہنم کے در میان زمین و آسمان
کے درمیان فاصلے جتنی خندق بنادیتا ہے۔ (اخرجہ الترمذي فی السنن، کتاب
فضائل الجھاد، باب ما جاء فی فضل الصوم فی سبيل الله، رقم :1624 دارالکتب العلمیہ)
4. عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله
عليه و سلم قال : من صام يوما ابتغاء وجه الله تعالى بعده الله عز و جل من جهنم كبعد
غراب طار وهو فرخ حتى مات هرما ۔( اخرجہ احمد
بن حنبل فی المسند، 2 : 526، رقم :10820)
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے:رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو شخص اللہ پاک کی رضا کے
لئے ایک دن روزہ رکھے تواللہ پاک اسے جہنم سے اس قدر دور کر دیتا ہے ، جیسے کوئی
کوّاجب آڑا تو بچہ تھا اور وہ مسلسل اڑتارہا یہاں تک کہ بڑھاپے کے عالم میں اسے
موت آگئی۔
سال بھر میں رکھے جانے والے چند روزے
چونکہ اسلامی ماہ کا پہلا مہینا محرم
ہے لہٰذا محرم کے نفل روزوں کے فضائل احادیث کی روشنی میں ملاحظہ فرمائیں:عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ
رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
أَفْضَلُ الصِّيَامِ، بَعْدَ رَمَضَانَ، شَهْرُ اللهِ الْمُحَرَّمُ، وَأَفْضَلُ الصَّلَاةِ،
بَعْدَ الْفَرِيضَةِ، صَلَاةُ اللَّيْلِ( مسلم،رقم 2755 دار الکتب
العلمیہ)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی: کہا:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ
پاک کے مہینے محرم کے ہیں اور فرض نماز کے بعد سب سے افضل نماز رات کی نماز ہے۔
بالخصوص یوم ِعاشورا(دس
محرم ) کار
وزہ ر کھناچاہیے کہ اس دن کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہوں کی معافی ہے۔
صِيَامُ يَوْمِ عَاشُورَاءَ، أَحْتَسِبُ عَلَى اللهِ أَنْ يُكَفِّرَ
السَّنَةَ الَّتِي قَبْلَهُ ( مسلم، دارالکتب العلیہ ،رقم۔ 2746)مجھے
اللہ پاک پر گمان ہے کہ عاشورا کار وز ہ ا یک سال قبل کے گناہ مٹادیتا ہے۔
عَنْ قَتَادَةَ بْنِ النُّعْمَانِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:مَنْ صَامَ يَوْمَ عَرَفَةَ غُفِرَ
لَهُ سَنَةٌ أَمَامَهُ، وَسَنَةٌ بَعْدَهُ۔(سنن
ابن ماجہ دار الکتب العلمیہ الرقم 1731)
حضرت قتادہ بن نعمان رضی
اللہ عنہ
کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے سنا: جس نے عرفہ کے دن روزہ
رکھا تو اس کے ایک سال کے اگلے اور ایک سال کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں۔
بہتر یہ ہے کہ عاشورا کے روزے کے ساتھ
9محرم کا روزہ یا 11 محرم کاروزہ رکھنا چاہیے۔صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا۔(ابن
خزیمة، الصحيح، 3 : 290، رقم: 2095، بیروت: المکتب الاسلامی)عاشوراکاروز
ہ ر کھو اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کرو۔ ایک دن پہلے اور ایک دن بعد اس کے ساتھ
روز ہ ر کھو۔
ہر ماہ تین روزے رکھنا یہ بھی سنت ہے۔
امیرِ اہلسنت دامت
برکاتہم العالیہ فیضانِ رمضان میں فرماتے ہیں:ہر اسلامی ماہ یعنی
سن ہجری کے مہینے میں کم از کم تین روزے ہر اسلائی بھائی اور اسلائی بہن کورکھ ہی
لینے چاہئیں۔ اس کے بے شمار دنیوی اور اخروی فوائد ہیں۔ بہتر یہ ہے کہ یہ روزے ایام
بیض یعنی چاند کی 14،13 اور 15تاریخ کور کھے جائیں۔
عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رضى الله عنه قَالَ أَوْصَانِى خَلِيلِى صلى الله عليه وسلم بِثَلاَثٍ صِيَامِ ثَلاَثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ
شَهْرٍ ، وَرَكْعَتَىِ الضُّحَى ، وَأَنْ أُوتِرَ قَبْلَ أَنْ أَنَامَ(اخرجہ البخاری فی الصحيح، کتاب الصوم، باب صیام
ایام البیض ثلاث عشرة و أربع عشرة و خمس عشرة، 2 / 699، رقم :1880، ومسلم فی
الصحيح، کتاب صلاة المسافرین و قصرھا، باب استحباب صلاة الضحی و ان اقلہار کعتان و
اكملہا ثمان رکعات و او سطہا اربع رکعات اوست والحث على المحافظۃ عليہا، 1 / 499،
رقم : 721)
حضرت ابو ہریرہ رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،انہوں نے کہا: میرے خلیل حضور صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے تین چیزوں کی وصیت فرمائی: ہر
مہینے میں تین روزے رکھنا، چاشت کی دو رکعتیں ادا کرنا اور سونے سے پہلے وتر پڑھ لینا۔یہ
حدیث متفق علیہ ہے۔
ثَلَاثٌ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ، وَرَمَضَانُ إِلٰى رَمَضَانَ، فَهٰذَا
صِيَامُ الدَّهْرِ كُلِّهٖ۔ ( مسلم، الصحيح، کتاب الصیام، باب
استحباب صیام ثلاثۃ ایام
من كل شہر، 2 : 819، رقم: 1162)
ہر ماہ تین دن کے روزے رکھنا اور ایک
رمضان کے بعد دوسرے رمضان کے روزے رکھنا یہ تمام عمر کے روزوں کے مترادف ہے۔
عَنْ حَفْصَةَ قَالَتْ أَرْبَعٌ لَمْ يَكُنْ يَدَعُهُنَّ النَّبِيُّ
صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صِيَامَ عَاشُورَاءَ وَالْعَشْرَ وَثَلَاثَةَ أَيَّامٍ
مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ الْغَدَاةِ(نسائی،دار
الكتب العلمیہ،رقم 2418) ام المومنین حضرت سید ہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے:
الله پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم چار چیزیں نہیں چھوڑتے تھے:عاشورا کا روزہ،عشرۂ
ذی الحجہ کے روزے،ہر مہینے میں تین دن کے روزے اور فجر (کے فرض)
سے پہلے دو رکعتیں(یعنی دو سنتیں) ۔حدیثِ پاک
کے اس حصے عشرۂ ذی الحجہ کے روزے سے مراد ذُوالْحِجَّہ کے ابتدائی 9 دنوں کے روزے
ہیں ،ورنہ دس ذُوالْحِجَّہ کو روزہ رکھنا حرام ہے ۔ (ماخوذاز مراة
المناجیح ،ج۳ص۱۹۵)
عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ صِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ صِيَامُ الدَّهْرِ
وَأَيَّامُ الْبِيضِ صَبِيحَةَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ وَأَرْبَعَ عَشْرَةَ وَخَمْسَ عَشْرَةَ
۔(سنن
نسائی کی دارالکتب العلمیہ،رقم 2422) حضرت جریر بن عبد الله رضی اللہ
عنہ
سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :ہر مہینے تین روزے رکھنا (
ثواب کے لحاظ سے ) زمانے بھر کے روزوں کے برابر ہے۔ اور ایامِ بیض (
چپکتی راتوں والے دن) تیرہ، چودہ اور پندرہ ہیں۔
عشرہ ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں میں روز ہ ر کھنایہ
بھی مستحب اور نہایت اجر و ثواب کا کام ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:مَا مِنْ أَيَّامٍ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ أَنْ يُتَعَبَّدَ لَهُ فِيهَا
مِنْ عَشْرِ ذِي الحِجَّةِ، يَعْدِلُ صِيَامُ كُلِّ يَوْمٍ مِنْهَا بِصِيَامِ سَنَةٍ،
وَقِيَامُ كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْهَا بِقِيَامِ لَيْلَةِ القَدْرِ(جامع
ترمذی دار الکتب العلمیہ،ر قم758) نبی اکرم صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ذی الحجہ کے ابتدائی دس
دنوں سے بڑھ کر کوئی دن ایسا نہیں جس کی عبادت اللہ پاک کو زیادہ محبوب ہو،ان ایام میں سے ہر دن کا
روزہ سال بھر کے روزوں کے برابر ہے اور ان کی ہر رات کا قیام لیلۃالقدر کے قیام کے
برابر ہے۔
شوال کے چھ روزے رکھنا مستحب ہے ۔احادیثِ مبارکہ میں
اس کی فضیلت واردہوئی ہے۔
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ قَالَ:قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ فَذَلِكَ
صِيَامُ الدَّهْر۔(جامع ترمذی دارالکتب العلمیہ الرقم
759)
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھے
پھر اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی )روزے رکھے تو یہی
صوم الدهر ہے۔
اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا
اور زمین بھر اُسے سونا دیا جائے، جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا۔ اس کا ثواب تو
قیامت ہی کے دن ملے گا۔‘‘ مسند أبي یعلی ‘‘ ، مسند أبي ہریرۃ،
الحدیث : ۶۱۰۴ ، ج ۵ ، ص ۳۵۳
محترم قارئین! ہمیں فرض روزوں کے علاوہ
نفل روزوں کی بھی عادت بنانی چاہئے کہ اس کے فضائل اور ثواب بے شمار ہیں۔
حدیثِ پاک میں ہے:روزہ دار کا ہر بال
اس کیلئے تسبیح کرتا ہے،بروزِ قیامت عرش کے نیچے روزےداروں کیلئے موتیوں اور جواہر
سے جَڑا ہوا سونے کا ایسا دسترخوان بچھایا جائے گا جو احاطۂ دنیا کے برابر ہوگا،
اس پر قسم قسم کے جنتی کھانے، مشروب اور پھل فروٹ ہوں گے، وہ کھائیں پئیں گے اور
عیش و عشرت میں ہوں گے حالانکہ لوگ سخت حساب میں ہوں گے۔الفردوس
بمأثور الخطاب، ج ۵، ص ۴٩٠، حدیث ٨٨۵٣
یوں تو پانچ ممنوع ایام (عید
الفطر،عید الاضحی اور گیارہ، بارہ، تیرہ ذی الحجہ، ان پانچ دنوں) کے
علاوہ سارا ہی سال نفل روزے رکھے جاسکتے ہیں البتہ فضیلت والے دنوں میں روزوں کا
مستحب ہونا مؤکد ہے اور فضیلت والے دنوں میں بعض سال میں ایک بار، بعض ہر مہینے
میں اور بعض ہر ہفتے میں پائے جاتے ہیں۔
سال میں ایک بار آنے والے افضل ایام
رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ
سال میں عرفہ(نویں
ذوالحجہ کا دن، غیر حاجی کیلئے)، دسویں محرم کا دن، ذوالحجہ کے
ابتدائی نو دن،محرم الحرام کے ابتدائی دس دن اور عزت والے مہینے(ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم
اور رجب کے) روزوں
کیلئے عمدہ مہینے اور فضیلت والے اوقات ہیں۔احیاء علوم
الدین، ج ١، ص ٧٢٠ نیز مروی ہے :نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم شعبان میں بکثرت روزے رکھتے تھے حتی کہ گمان
ہوتا کہ یہ ماہِ رمضان ہے۔صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب صوم
شعبان، الحدیث ١٩٦٩_١٩٧٠، ج ١، ص ٦۴٨، دون بعض الالفاظ
ہر مہینے میں آنے والے افضل ایام
مہینے کے اول، درمیان اور آخر ہیں اور
درمیان میں ایامِ بیض یعنی چاند کی 13، 14 اور 15 تاریخ ہے۔احیاء
علوم الدین، ج ١، ص ٧٢٢
حدیثِ پاک میں ہے:ہر مہینے میں تین دن کے روزے ایسے
ہیں جیسے دہر (یعنی
ہمیشہ)
کے روزے۔صحیح
البخاری، ج ١، ص ٦۴٩، حدیث ١٩٧۵
ہر ہفتے میں آنے والے افضل ایام
حدیثِ پاک میں فرمایا:پیر اور جمعرات کو اعمال پیش
ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔سنن
الترمذی، ج٢، ص ١٨٧، حدیث ٧۴٧ اور فرمایا:جو بدھ اور جمعرات کو روزے
رکھے اس کیلئے جہنم سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔
المسند ابی یعلی، ج ۵، ص ١١۵، حدیث
۵٦١٠
نیز فرمایا:جس نے بدھ، جمعرات و جمعہ
کا روزہ رکھا الله پاک اس کیلئے جنت میں ایک مکان بنائے گا جس کا باہر کا حصہ اندر
سے دکھائی دے گا اور اندر کا باہر سے۔مجمع الزوائد، ج ٣، ص ۴۵٢، حدیث
۵٢٠۴
سب سے افضل روزے
حدیثِ مبارکہ ہے:سب سے افضل روزے میرے بھائی حضرت
داؤد علیہ
السلام
کے روزے ہیں، وہ ایک دن روزہ رکھتے اور ایک دن افطار کرتے تھے۔صحیح
مسلم، کتاب الصیام، باب النہی عن صوم الدہر لمن تضر بہ۔۔۔الخ، الحدیث ١١۵٩، ص ۵٨٨(یعنی
ایک دن چھوڑ کر ایک دن روزہ رکھتے۔)
اللہ پاک ہمیں زندگی، صحت اور فرصت کو
غنیمت جانتے ہوئے خوب خوب نفلی روزے رکھنے کی سعادت عطا فرمائے!(آمین
بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم )
نفل روزوں کے فضائل از
بنت شفیق احمد خان عطاریہ جامعہ للبنات تاجپورہ لاہور
فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی
عادت بنانی چاہیےکہ اس میں بے شمار دینی و دنیوی فوائد ہیں اور ثواب تو اتناہے کہ
جی چاہتا ہے بس روزے ہی رکھتی چلی جائیں۔مزید فوائد میں ایمان کی حفاظت، جہنم
سےنجات اور جنت کا حصول وغیرہ شامل ہیں۔
1۔شوال کے شش روزے حضرت ابو ایوب انصاری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے:شفیعِ اُمّت، نبی رحمت صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو رمضان المبارک کے روزے
رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو ساری عمر کے روزوں کی طرح ہوگا۔
(مرآۃ المناجیح ج3)
2۔جنت کا انوکھا درخت
حضرت قیس بن زید جُہَنّی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے،اللہ پاک کےپیارے محبوب صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ جنت نشان ہے: جس نے ایک نفل
روزہ رکھا اللہ پاک اس کےلیے جنت میں ایک درخت لگائےگا جس کا پھل انار سے چھوٹا
اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا،اللہ پاک بروزِ قیامت
روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھائے گا۔(المعحم الکبیر ج18، ص366،
ح935.. مدنی پنج سورہ ص294)
3۔جہنم سے دوری
حضرت ابو سعید خدری رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے: رسولِ کریم، آمنہ کے گلشن کے
مہکتے پھول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
کا فرمانِ عافیت نشان ہے:جو اللہ پاک کی راہ میں ایک دن کا روزہ رکھے تو اللہ پاک
اسے آگ سے ستر(70)سال
کی راہ دور رکھے گا۔(مرآۃ المناجیح ج3،ص201، ح1955)یہاں
روزے سے مراد نفل روزہ ہے۔اس لیے صاحبِ مشکوۃ یہ حدیث نفل روزے کے باب میں لائے ہیں
یعنی بندہِ مومن اگر نفل روزہ رکھے اور اللہ پاک رحیم و غفور اس کو اپنے کرم سے
قبول کرے تو دوزخ میں جانا تو کیا وہ دوزخ کے قریب بھی نہ ہوگا اور وہاں کی ہوا بھی
نہ پائے گا۔
4۔نوسو(900)
سال کی عبادت کا ثواب
ایک روایت میں ہے: جو آدمی حرمت والےمہینے
میں تین دنوں جمعرات،جمعہ اور ہفتے کا روزہ رکھتا ہے اللہ پاک اس کےلیے ہر دن کے
بدلے نو سو سال کی عبادت( کا ثواب) لکھتا ہے۔یہاں
حرمت والے مہینوں سے مرادیہ چار مہینے ہیں:1...ذوالقعدۃ الحرام، 2... ذوالحجۃ
الحرام، 3... محرم الحرام، 4...رجب المرجب۔ (احیاء العلوم
الدین، ص721)
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:روزہ دار کا ہر بال اس
کے لئے تسبیح کرتا ہے، بروزِ قیامت عرش کے
نیچے روزہ داروں کے لئے موتیوں اور جَواہر سے جَڑا ہوا سونے کا ایسا دستر خوان
بچھایا جائے گا، جو اِحاطۂ دنیا کے برابر
ہوگا، اس پر قسم قسم کے جنتی کھانے، مشروب اور پھل فروٹ ہوں گے،وہ کھائیں پئیں گے اور عیش و
عشرت میں ہوں گے،حالانکہ لوگ سخت حساب میں ہوں گے۔
(الفر دوس بماثورالخطاب، جلد 5، صفحہ 490، حدیث 8853، مدنی پنج سورہ، صفحہ 297)
سبحان اللہ!میرے ربّ کی نعمتوں کی کیا بات ہے! ذرا سوچئے! اللہ پاک کتنا
مہربان ہے کہ چھوٹے چھوٹے اعمال پر بڑے بڑے ثوابوں کے وعدے فرماتا یعنی ربِّ کائنات اپنی رضا کے لئے کئے جانے والے
اعمال پر بہت خوش ہوتا ہے۔
یہ بات غور طلب ہے کہ وہ ماں جس کا بیٹا ناراض ہو کر کھانا نہ کھائے تو وہ کتنی منتیں سماجتیں کر کے اولاد کو راضی کرتی ہے
اور یہ تو انسان کی محبت کا معاملہ ہے، سوچیں!جب کوئی بندہ مؤمن اپنے ربّ کریم کی
رضا کے لئے صبحِ صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا پیاسا رہتا ہے تو کریم ربّ کو اپنے
بندے پر کتنا پیار آتا ہوگا، پھر اس کی
رحمت بندہ مؤمن کو ابدی نعمتوں کی طرف لے جاتی ہے، ہم یہاں اپنے ربّ کی مزید رحمتوں کا ذکر کئے دیتی
ہیں:
دوزخ
سے دوری
میرے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جس نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل
روزہ رکھا،اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس سال(کا فاصلہ) دور فرما دے گا۔(کنزالعمال، جلد 8، صفحہ 255، حدیث،24149، مدنی پنج سورہ، صفحہ295)
ڈھیروں ڈھیر ثواب
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے، جب
بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا،اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔(المسند ابی یعلی، جلد 5، صفحہ 353، حدیث 6104، مدنی پنج سورہ، صفحہ295)
گناہ مٹتے ہیں
روایت ہے:جس سے ہو سکے ہر مہینے میں تین روزے رکھے کہ ہر روزہ دس گناہ مٹاتا
اور گناہ سے ایسا پاک کر دیتا ہے جیسا پانی
کپڑے کو۔(المعجم الکبیر، جلد 25، صفحہ 35، حدیث 60، مدنی پنج سورہ، صفحہ 303)
جنت
کا داخلہ
روایت ہے:جس نے رمضان، شوال، بدھ اور جمعرات کا روزہ رکھا تو وہ داخلِ جنت
ہوگا۔(السنن الکبری النسائی، جلد 2، صفحہ 147، حدیث 2778، مدنی پنج سورہ، صفحہ 307)
محبوب
صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ راوی،رسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:پیر اور جمعرات کو اَعمال
پیش ہوتے ہیں تو میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اُس وقت پیش ہو کہ میں روزہ دار
ہوں۔(سنن ترمذی، جلد 2، صفحہ 187، حدیث 747،مدنی پنج سورہ، صفحہ304)
اللہ اکبر! گناہوں سے معصوم آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شان دیکھئے! واہ وا! کیا انداز ہے تبلیغ کا!فرمایا:میں پسند کرتا
ہوں یعنی میرے عاشق وہ کریں گے جس کو میں پسند کرتا ہوں۔ ارے یہی تو انداز ہوتا ہے محبوبوں کا، وہ تو اپنے دیوانوں کو یہی کہتے ہیں :مجھے یہ
پسند ہے! کہ دیکھو! دیوانہ ہے نا، بس اب ضرور کرے گا ، اِسے اور کچھ کہنے کی ضرورت
ہی نہیں۔
بات یہیں پر ختم نہیں، اب مُحب(محبت کرنے والے) کی باری ہے، دیکھیں کہ وہ کتنا کچھ کر کے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پسند کے کام کرتا ہے، ویسے یہ عشق کی بات ہے اور اِسے عاشق ہی سمجھ
سکتا ہے اور یہ اشارہ عُشاق کے لئے کافی وافی ہے۔
درودِ
پاک کی فضیلت
فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:قیامت کے روز اللہ پاک کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں
ہوگا،تین شخص عرشِ الٰہی کے سائے میں ہوں گے، عرض کی گئی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! وہ کون لوگ ہوں گے؟ارشاد فرمایا:1۔وہ
شخص جو میرے امتی کی پریشانی دور کرے، 2۔
میری سنت کو زندہ کرنے والا، 3۔مجھ پر کثرت سے درود شریف پڑھنے والا۔
نفل
روزوں کے دینی اور دنیاوی فوائد
فرض روزوں کے علاوہ نفل روزوں کی بھی
عادت بنائیں، دینی فوائد میں ایمان کی حفاظت، دوزخ سے نجات اور جنت کا حصول ہے۔دنیوی فوائد کا
تعلق ہے تو دن کے اندر کھانے پینے میں صَرف ہونے والے وقت اور اخراجات کی بچت، پیٹ کی اصلاح اور بہت سارے امراض سے حفاظت کا
سامان ہے اور تمام فوائد کی اصل یہ ہے کہ روزے دار سے اللہ پاک راضی ہوتا ہے۔
نفلی
روزوں کے فضائل پر 5 فرامینِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
1۔جنت
کا انوکھا درخت
جس نے ایک نفل روزہ رکھا، اللہ پاک
اس کے لئے جنت میں ایک درخت لگائے گا، جس
کا پھل انار سے چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا، وہ شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائقہ ہو گا، اللہ پاک بروزِ قیامت روزہ دار کو اس درخت کا
پھل کھلائے گا۔(معجم کبیر، جلد 18، صفحہ 366، حدیث930)
2۔40
سال کا فاصلہ دوزخ سے دوری
جس نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک نفل روزہ رکھا،اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس
سال کی مسافت کے برابر دور فرما دے گا۔(جمع الجوامع، جلد 7، صفحہ 190، حدیث،2225)
3۔زمین
بھر سونے سے بھی زیادہ ثواب
اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا
اور زمین بھر سونا اسے دیا جائے، جب بھی
اس کا ثواب پورا نہ ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت
ہی کے دن ملے گا۔(
ابو یعلی، جلد 5، صفحہ 353، حدیث 6104)
4۔دوزخ
سے بہت زیادہ دوری
جس نے ایک دن کا نفل روزہ رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ سے اتنا دور کر دے گا، جتنا زمین و آسمان کا درمیانی
فاصلہ ہو۔(مجمع الزوائد، جلد 3، صفحہ 445، حدیث،5187)
5۔کوا
بچپن تا بڑھاپا اُڑتا رہے یہاں تک کہ
جس نے ایک دن کا نفل روزہ اللہ پاک
کی رضا حاصل کرنےکے لئے رکھا ، اللہ پاک
اسے دوزخ سے اتنا دور کر دے گا، جتنا کہ ایک
کوا جو اپنے بچپن سے اُڑنا شروع کرے یہاں
تک کہ بوڑھا ہو کر مرنے جائے۔(ابو یعلی، جلد 1، صفحہ 383، حدیث 917)
عاشورا کے روزوں کے فضائل
حضور اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:رمضان کے بعد محرم کا روزہ افضل ہے،
محرم کے ہر دن کا روزہ ایک مہینے کے روزوں کے برابر ہے۔(مسلم، حدیث 1163، صفحہ 591)
حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان ہے:مجھے اللہ پاک پر گمان ہے کہ عاشورا کا روزہ ایک سال قبل کے گناہ مٹا دیتا ہے۔
ر جب
المرجب میں روزہ رکھنے کے فضائل
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جنت میں ایک نہر
ہے،جسے رجب کہا جاتا ہے، وہ دودھ سے بھی زیادہ سفید اور شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے،
تو جو کوئی رجب کا ایک روزہ رکھے گا، اللہ پاک اسے اس نہر سے پلائے گا۔(شعب الایمان، ج3، حدیث 3800، صفحہ 367)
حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ نقل کرتے ہیں:نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے: ماہِ رجب حُرمت والے
مہینوں میں سے ہے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں، اگر کوئی شخص رجب میں ایک روزہ رکھے اور اُسے
پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ روزہ اور وہ (روزے والا دن) اس بندے کے لئے اللہ پاک سے مغفرت طلب کریں گے اور
عرض کریں گے:یا اللہ پاک!اس بندےکو بخش دے۔(ما ثبت بالسنۃ، ص234، فضائل شہر رجب للخلال، ص56)
نوٹ:معلوم
ہوا !روزے کا مقصودِ اصلی تقویٰ و پرہیز گاری اور اپنے اعضائے بدن کو گناہوں سے
بچانا ہے، اگر روزہ رکھنے کے باوجود
نافرمانیوں کا سلسلہ جاری رہا تو بڑی محرومی کی بات ہے۔
60
مہینوں کے روزوں کا ثواب
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جو کوئی ستائیسویں رجب کا روزہ رکھے تو اللہ پاک
اس کے لئے ساٹھ مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھے گا۔(فضائل شہر رجب، ص10)
نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:رجب میں ایک دن اور رات ہے، جو اس دن روزہ رکھے اور رات کو قیام(عبادت) کرے تو گویا اس نے سو سال کے روزے رکھے اور یہ رجب کی
ستائیسویں رات ہے۔(شعب
الایمان، ج3، ص374، حدیث3811)
شش
عید کے روزوں کے فضائل
فرامینِ
مصطفےصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
1۔
جس نے رمضان کے روزے رکھے، پھر چھ دن شوال میں رکھے تو گناہوں سے ایسے نکل گیا، جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔(مجمع الزوائد، ج3، ص425، حدیث5102)
2۔جس
نے رمضان کے روزے رکھے،پھر ان کے بعد شوال میں رکھے تو ایسا ہے جیسے دَہر کا(یعنی عمر بھر کے لئے) روزہ رکھا۔(مسلم، صفحہ 592، حدیث 1163)
بدھ
اور جمعرات کے روزوں کے فضائل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ:جو بدھ اور
جمعرات کے روزے رکھے، اس کے لئے دوزخ سےآزادی لکھ دی جاتی ہے۔(ابو یعلی، ج5، ص115، حدیث561)
فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے رمضان،شوال،بدھ اور
جمعرات کا روزہ رکھا تو وہ داخلِ جنت ہو
گا۔(السنن الکبری للنسائی، ج2، ص147،
حدیث2778)
بدھ،
جمعرات اور جمعہ کے روزوں کے فضائل
فرمانِ مصطفے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے بدھ ، جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھا، اللہ پاک اس کے لئے جنت میں ایک
مکان بنائے گا، جس کے باہر کا حصّہ اندر
سے دکھائی دے گا اور اندر کا باہر سے۔(معجم الاوسط، جلد
1، صفحہ 87، حدیث 253)
جس نے بدھ،جمعرات اور جمعہ کا روزہ رکھا تو اللہ پاک اس کے لئے جنت میں موتی
اور یاقوت و زبرجد کا محل بنائے گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ نمبر 397، حدیث 283)
دعا:آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ
اللہ پاک ہمیں زیادہ سے زیادہ نفل عبادت کرنے کی اور نفل روزے رکھنے کی توفیق عطا
فرمائے اور اللہ پاک ہمیں مدینے پاک کی با ادب حاضری کی سعادت نصیب فرمائے۔آمین
فرض روزوں کے علاوہ ہمیں نفل روزوں کی بھی عادت بنانی
چاہئے کہ اس میں بے شمار فوائد ہیں اور ثواب تو اتنا ہے کہ جی چاہتا ہے بس روزے رکھتے ہی چلے جائیں۔
روزہ
داروں کے لئے بخشش کی بشارت
اللہ پاک پارہ 22، سورۂ احزاب کی آیت نمبر 35 میں ارشاد فرماتا
ہے:ترجمۂ
کنزالایمان: اور روزے والے اور روزے والیاں اور اپنی پارسائی نگاہ رکھنے والے اور
نگاہ رکھنے والیاں اور اللہ کو بہت یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں یا ان سب کے
لئے اللہ نے بخشش اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔
حضرت قیس بن زیدجُہنّی رضی
اللہ عنہ
سے روایت ہے:اللہ پاک کے محبوب، دانائے غیوب، منزہ عن العیوب صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ جنت نشان ہے:جس نے ایک
نفل روزہ رکھا، اللہ پاک اس کے لئے جنت
میں ایک درخت لگائے گا، جس کا پھل انار سے
چھوٹا اور سیب سے بڑا ہوگا،شہد جیسا میٹھا اور خوش ذائقہ ہوگا، اللہ پاک بروزِ قیامت
روزہ دار کو اس درخت کا پھل کھلائے گا۔
(طبرانی کبیر 18، ص
66، حدیث 935)
اللہ پاک کے پیارے نبی، مکی مدنی صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عافیت نشان ہے:جس نے
رضائے الٰہی کیلئے ایک دن کا نفل روزہ رکھا تو اللہ پاک اس کے اور دوزخ کے درمیان
ایک تیز رفتار سوار کی 50 سالہ مسافت کا فاصلہ فرما دے گا۔(کنز
العمال، ج 8، ص 255، حدیث 24149)
حضرت انس رضی اللہ عنہ
نے فرمایا:قیامت کے دن روزے دار قبروں سے نکلیں گے تو روزے کی بو سے پہچانے جائیں
گے اور پانی کے کُوزے جن پر مشک سے مہر ہو
گی، انہیں کہا جائے گا: کھاؤ! کل تم بھوکے تھے۔ پیو! کل تم پیاسے تھے۔ آرام
کرو! کل تم تھکے ہوئے تھے۔ وہ کھائیں گے
اور آرام کریں گے، حالانکہ لوگ حساب کی
مشقت اور پیاس میں مبتلا ہوں گے۔(کنزالعمال، جلد 8، صفحہ 313، حدیث 23639، والتدوین فی اخبار قزوین)
اللہ پاک کے پیارے حبیب، حبیبِ
لبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
کا فرمانِ رغبت نشان ہے:اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا تو زمین بھر سونا اسے دیا
جائے، جب بھی اس کا ثواب پورا نہ
ہوگا، اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے
گا۔(ابو
یعلیٰ، ج5، ص 353، حدیث 6104)اللہ پاک ہمیں بھی نفل روزوں کی کثرت کرنے کی توفیق
عطا فرمائے۔آمین
روزہ ایک دینی
عبادت ہے،جس کا مقصد تقویٰ اور پرہیزگاری کا حصول ہے۔روزہ رکھنے کے دینی و دنیوی
بے شمار فوائد و ثمرات ہیں ـ دینی لحاظ سے دیکھا جائے تو روزہ تقویٰ حاصل کرنے کا
ذریعہ،جہنم سے نجات کا سبب اور جنت کے حصول کا راستہ ہے جبکہ دنیوی اعتبار سے
دیکھیں تو آج سائنسی تحقیقات سے یہ بات ثابت ہے کہ روزے سے جسمانی کھچاؤ،ذہنی
ڈپریشن اور نفسیاتی امراض کا خاتمہ ہوتا ہے نیز دل،جگر،معدے اور اعصاب کے امراض سے
بھی بچت ہوتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ فائدہ ہے کہ روزے سے اللہ پاک کی رضا حاصل
ہوتی ہے۔
· نفل روزوں کے فضائل
احادیثِ مبارکہ میں نفل روزوں کے بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں:
v فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جس نے ثواب کی امید رکھتے ہوئے ایک
نفل روزہ رکھا اللہ پاک اسے دوزخ سے چالیس
سال (کا فاصلہ) دور فرما دے گا۔ (کنز العمال،ج 8،ص 255،حدیث 24148)
v اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :اگر کسی نے ایک دن نفل روزہ رکھا اور زمین بھر سونااسے دیا
جائے جب بھی اس کا ثواب پورا نہ ہوگا اس کا ثواب تو قیامت ہی کے دن ملے گا۔ (المسند ابی
یعلی،ج 5،ص 353،حدیث 6104)
v حضرت ابو امامہ رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں:میں نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !مجھے کوئی عمل بتائیے۔ارشاد فرمایا:روزے رکھا کرو کیونکہ اس جیسا کوئی عمل
نہیں۔ میں نے پھر عرض کی: مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا: روزے رکھا کرو کیونکہ اس
جیسا کوئی عمل نہیں۔میں نے پھر عرض کی:مجھے کوئی عمل بتائیے۔فرمایا:روزے رکھا کرو
کیونکہ اس کا کوئی مثل نہیں۔(سنن النسائی
،کتاب الصیام، باب فضل الصیام،ج 4،ص 166)
v حضرت ابو درداء رضی اللہ
عنہ نے فرمایا:روزہ دار کا ہر بال اس کے لئے تسبیح کرتا
ہے،بروزِ قیامت عرش کے نیچے روزے داروں کے لئے موتیوں اور جواہرسے جڑا ہوا سونے کا
ایسا دسترخوان بچھایا جائے گا جو احاطۂ دنیا کے برابر ہوگا،اس پر قسم قسم کے جنتی
کھانے، مشروب اور پھل فروٹ ہوں گے وہ کھائیں پئیں گے اور عیش و عشرت میں ہوں گے حالانکہ
لوگ سخت حساب میں ہوں گے۔
( الفردوس بماثور الخطاب ، ج 5،ص
490، حدیث 8853)
v ام المؤمنین حضرت عائشہ
صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے،رسولِ
اکرم صلی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو روزے کی حالت میں مرا،اللہ پاک قیامت تک
کیلئے اس کے حساب میں روزے لکھ دے گا۔( الفردوس بماثور
الخطاب ، ج 3، ص 504،حدیث 5557)
v حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:میں
نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ پاک فرماتا ہے:ابنِ آدم کا
ہر عمل اپنے لیے ہے سوائے روزہ کے کہ روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا میں خود ہی ہوں ( پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:) اس ذات کی قسم!
جس کے قبضۂ قدرت میں محمد (صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ پاک کے نزدیک مشک
کی خوشبو سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے۔ (مسلم،مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ ،کتاب الصیام،باب فضل
الصیام،ج1،ص424،حدیث 2704)
روزہ بہت عظیم عبادت ہے ۔قرآن ِمجید
اور احادیثِ طیبہ میں روزے کا بڑا تذکرہ ملتا ہے اور بطورِ خاص نفل روزے رکھنا کا
۔ فرائض تو بالعموم مسلمانوں پر روزہ فرض ہی ہے۔جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ
عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ
تَتَّقُوۡنَ﴿۱۸۳﴾ۙ ۔(البقرة:
183) ترجمۂ کنزالعرفان: اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے
گئے جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔
رمضان کے روزوں کا الگ معاملہ ہے کہ وہ فرض ہیں۔ لیکن اس کے علاوہ نفل روزوں کی شریعتِ
مطہرہ میں بہت ترغیب دلائی گئی۔روزہ وہ عبادت ہےجس سے انسان کے بدن کی
سلامتی ہے، اس کے بدن کی صحت و تندرستی
روزے میں رکھی گئی ہے۔ اور ایک روحانی برکتیں بھی اسے نصیب ہوں گی۔
روزہ رکھنے سے دنیاوی فوائد بھی حاصل
ہوتے ہیں۔ اس کی صحت میں مزید اچھائیاں آ جاتی ہیں، اس کی تندرستی اسے نصیب ہو جاتی
ہے اور باطنی فوائد بھی ہیں کہ انسان متقی
بنتا ہے ،پرہیزگار بنتا ہے، اس کی توجہ اللہ پاک کی طرف رہتی ہے کہ میں روزے سے
ہوں ،وہ دن بھر برائیوں سے بھی بچ جاتا ہے۔
نفل روزے رکھنا یہ بہت بڑا اجر وعظیم والا کام ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا گیا:یا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! مجھے کوئی عمل بتائیے۔ ارشاد فرمایا:
روزے رکھا کرو اس جیسا کوئی عمل نہیں۔پھر عرض کی گئی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !مجھے
کوئی عمل بتائیے۔ فرمایا: روزے رکھا کرو اس جیسا کوئی عمل نہیں۔ تیسری بار پوچھا گیا:
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! مجھے کوئی عمل بتایئے۔ فرمایا: روزے رکھا کرو
اس کی مثل کوئی عمل نہیں ہے۔(فیضانِ رمضان ص ۳۲۸۔
الاح الحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج ۵ ص
۱۷۹)روزے کو آپ صلی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بہت محبوب رکھتے تھےاور آپ کی عادت ِمبارکہ
میں یہ چیز بکثرت شامل تھی، اسی وجہ سے ہر
مہینے کے اعتبار سے کچھ نہ کچھ روزوں کی فضیلتوں کو بیان کیا گیا۔پیر شریف کے روزے
کی فضیلت کو الگ بیان کیا گیا چنانچہ پوچھا گیا :یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !آپ پیر کو روزہ رکھتے ہیں !تو اللہ
پاک کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اسی دن میں پیدا ہوا ہوں اور اسی
دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے۔ (صبحِ بہارا ں ص 21۔مسلم ص ۵۹۱ حدیث ۱۹۸)
گویا کہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ہر
ہر مہینے میں روزوں کے فضائل بیان کر کے یہ
ارشاد فرما دیا ہے کہ ہر مہینے کہ کچھ نہ کچھ ایام
ایسے ہوں کہ جن میں انسان روزے کی عبادت ادا کر کے اللہ پاک کا قرب حاصل کر لے۔