میری قسمت سے الٰہی پائیں یہ رنگِ قبول                        پھول کچھ میں نے چنے ہیں ان کے دامن کے لیے

پیاری اسلامی بہنو! والدین کی خدمت انسان کا سب سے بڑا جہاد ہے بلکہ ان کی خوشنودی سے اللہ کی خوشنودی ہے جیسا کہ اللہ کے آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے: اللہ کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی باپ کی ناراضگی میں ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

ایک دوسرے مقام پر والدین کے بارے میں جب حضور اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے ؟ تو یوں ارشاد فرمایا: جنت اور دوزخ وہی دونوں ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662)یعنی ماں باپ کا اولاد پر بہت حق ہے ان کے ساتھ نیکی کرنا اور دکھ نہ پہنچانا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا دخولِ بہشت کا ذریعہ ہے۔ تو انہیں تکلیف پہنچانا، رنج و غم دینا اور نافرمانی و بد سلوکی کرنا دوزخ میں جانے کا موجب ہے۔

مشغول جو رہتا ہے ماں باپ کی خدمت میں اللہ کی رحمت سے جاتا ہے وہ جنت میں

ماں باپ کو ایذاءجو دیتا ہے شرارت سے جاتا ہے وہ دوزخ میں اعمال کی شامت سے

پیاری اسلامی بہنو! والدین کی عزت و احترام دینی اور دنیاوی بہتری کا سبب ہوتی ہے، خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے سروں پر والدین کا سایہ ہے اور سعادت مند ہے وہ اولاد جو ہر حال میں اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک رکھتی ہے اور ان کا احترام کرتی ہے۔

اللہ کی ہدایت ماں باپ کی ہے خدمت دونوں جہاں کی عزت ماں باپ کی ہےخدمت

توحید و عبادت کے بعد اطاعت و خدمت والدین واجب ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کے وجود میں آنے کا سبب تو اللہ تعالی کی حقیقی ذات ہے کہ اس نے اس کو پیدا کیا اور ظاہری سبب والدین ہیں۔ پس اللہ تعالی عبادت کے لائق ہوا اور اس کے بعد والدین احسان و شکر اور فرمانبرداری کے مستحق ہوئے، اسی بات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ والدین کی نافرمانی ہے۔

خدا کے بعد کرو شکر ماں باپ کا لوگو زبان سےاف نہ کہو چاہے لاکھ ہوگلہ لوگو

ایک روایت میں ہے: جو شخص اپنے والدین کی طرف ایک نظر محبت سے دیکھتا ہے تو اس کو حج مقبول کا ثواب ملتا ہے، صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا: اگر دن میں سو مرتبہ دیکھے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اللہ بزرگ و برتر ہے اور پاک تر ہے۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اللہ تعالی کے خلقت میں سے کسی کا احسان اس قدر نہیں جس قدر والدین کا احسان اولادپر ہوتا ہے، پھر اولاد کو والدین کا اتنا شکر ادا کرنا چاہیے اور اس قدر اطاعت اور فرمانبرداری بجالانی چاہیے کہ ساری خلقت میں سے کسی کی نہیں کرنی چاہیے۔

اولاد والدین کے جسم کا ایک ٹکڑا ہوتے ہیں اس لحاظ سے والدین اولاد کے ساتھ از حد محبت اور شفقت کرتے ہیں اپنی زندگی اولاد پر چھڑکتے ہیں ہر طرح کی نیکی اور بھلائی اولاد کو پہنچاتے ہیں تمام عمر ان کے لیے کماتے ہیں اور آخر ساری کمائی اور جائیداد خوشی سے ان کیلئے چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔

باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک ماں دعا ہے جو سدا سایہ فگن رہتی ہے

پس اللہ تعالی کے ارشاد کے مطابق نیکی کا بدلہ بجز نیکی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟

سوچیں غور کریں! کہ والدین جو نیکی اولاد کے ساتھ کرتے ہیں کیا کوئی اور بھی ایسی نیکی کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔ تو پھر اولاد کو بھی والدین کے ساتھ، بے مثال نیکی، خیر خواہی، محبت، احسان اور فرمانبرداری کرنا ضروری ہے اپنی جان، اولاد، مال ماں باپ پر قربان کر دینا چاہیے اگر اولاد والدین کی خدمت اور فرمانبرداری نہ کرے گی تو اللہ تعالی کی نافرمان اور گنہگار ہو کر مرے گی۔ معاذ اللہ

اللہ ہمیں اپنے والدین کا مطیع و فرماں بردار بنائے،ہمیں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک،دل کا چین اور صدقہ جاریہ بنائے،ان کاہر وہ حکم جو خلافِ شرع نہ ہو فورا بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔

مطیع اپنے ماں باپ کا کر میں ان کا ہر اک حکم لاؤں بجا یاالہی

آمین یارب العالمین

بلاشبہ ماں باپ اللہ کی بڑی نعمت ہیں، والدین اولاد کی زندگی کا بہت بڑا سہارا ہوتےہیں، یہی وہ ہستیاں ہیں جو ہر دکھ، تکلیف،مصیبت، پریشانی اور غم میں اولاد کیساتھ ہوتے ہیں، اللہ نے والدین کو بڑا مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے، والدین کے مقام و مرتبے اور عزت و عظمت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ قرآن پاک میں اللہ نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ احسان و بھلائی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 تا 25 میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز العرفان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنااور ان کےلیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو ان دونوں پر رحم فرما جیساان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا، تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اگر تم لائق ہوئے تو بیشک وہ توبہ کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔

ہمیں چاہئے کہ اپنےوالدین کی قدر کریں،ان کے احسانات کو یاد رکھیں،ان کی خلاف مزاج باتوں سے درگزر کریں، ان کا ہر طرح سے خیال رکھیں،ان سے اچھا سلوک کریں،ان کی جائز ضروریات پوری کریں،ان کا ہر جائز حکم مانیں،بالخصوص جب والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے ہوں، یاد رکھیں بڑھاپے اور بیماریوں کے باعث ماں باپ کے اندرخواہ کتنا ہی چڑ چڑا پن آجائے،بلاوجہ لڑیں،چاہے کتنا ہی جھگڑیں اور پریشان کریں لیکن ہمیں صبر،صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجالانا ضروری ہے۔

جی ہاں!یہی مقامِ امتحان ہے،ماں باپ سے بدتمیزی کرنا اوران کو جھاڑنا وغیرہ تو دور کی بات ہے ان کے آگےاف تک نہیں کرنا چاہئے،ورنہ بازی ہاتھ سے نکل سکتی اور دونوں جہاں کی تباہی مقدّر بن سکتی ہےکہ والدین کا دل دکھانے والا انسان اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتاہے اور آخرت کے عذاب کابھی حق دار ہوتا ہے۔

یہ بات یا د رکھیں کہ اگر ماں باپ کسی ناجائز بات کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانیں اگر ناجائز باتوں میں ان کی پیروی کریں گے توگنہگار ہوں گے، مثلاً ماں باپ جھوٹ بولنے کا حکم دیں یا نماز قضا کرنےکا کہیں تو ان کی یہ باتیں ہرگز نہ مانیں، چاہے وہ کتنے ہی ناراض ہوں،آ پ نافرمان نہیں ٹھہریں گے، ہاں اگر مان لیں گے تو خدائے حنّان ومنّان کے ضرور نافرمان قرار پائیں گے۔اسی طرح اگر ماں باپ میں باہم طلاق ہوگئی تو ماں حکم دے کہ اپنے والد سے مت ملنا تویہ حکم نہ مانے، والد سے ملنا بھی ہوگا اور اس کی خدمت بھی کرنی ہوگی کہ ان کی آپس میں اگرچہ جدائی ہوچکی مگر اولاد کا رشتہ جوں کا توں(پہلے کی طرح)باقی ہے، اولاد پر دونوں کے حقوق برقرارہیں۔

جس طرح قرآنی آیات میں والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے،اسی طرحاحادیث مبارکہ میں بھی والدین کے ساتھ احسان وبھلائی کرنے اور ادب واحترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیاہے لہٰذا والدین کو راضی کرنےکی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی رضا میں اللہ کی رضا اور ان کی ناراضی میں اللہ کی ناراضی ہے۔

والدین کی دعائیں اولادکےحق میں مقبول ہوتی ہیں،بس انہیں خوش رکھئے،خوب خدمت کر کے ان کی دعائیں لیجئے، ان کی خوشی ایمان کی سلامتی اور ان کی ناراضی ایمانکی بربادی کا باعث ہو سکتی ہے، یاد رکھیں ماں باپ کی اطاعت کرنے والے ہمیشہ شاد و آباد رہتے ہیں، یہ دنیا میں جہاں بھی رہیں اپنے والدین کی دعاؤں کا فیض اٹھاتے ہیں۔

ماں باپ ہمیشہ اولاد کے حق میں اچھا ہی سوچتے ہیں،اپنی لاڈلی اولاد کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر بعض اوقات حالات اجازت نہیں دیتے، کسی کا بوڑھا باپ آرام کرنے کے بجائے مزدوری کرکے اپنے گھر کا گزر بسر چلا رہا ہوتا ہے، ماں بیچاری کئی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود، اپنی ادویات بھی پوری نہیں کرسکتی بلکہ آرام کو قربان کرکے کام کاج میں مصروف رہتی ہے، لیکن نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ ہم کس طرف چل پڑے ہیں، ہماری سوچ ہی بدل گئی، ہمارے دل سے ماں باپ کی قدر و منزلت ہی جا رہی ہے، ایسی دوستی،ایسی بیٹھک پر تف ہے جو ہمیں ماں باپ کے قدموں سے دور کر دے۔

یقین مانئے والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور ان سے بر ی الذمّہ ہونا ممکن ہی نہیں چنانچہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا ان پر ڈالا جاتا تو کباب ہوجاتا! میں اپنی ماں کوگردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے گیاہوں، کیا میں ماں کےحقوق سے فارغ ہوگیا ہوں؟ سرکار نامدار ﷺ نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں درد کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔ (معجم صغیر، 1/92، حدیث:257)


اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے۔ جن میں سے سب سے بڑی نعمت ہمارے والدین ہیں، والدین وہ ہستیاں ہیں جو انسان کی پیدائش کا ذریعہ بنتے ہیں۔ والدین بچوں کی پرورش کے لئے زمانے کی کئی سختیاں برداشت کرتے ہیں تاکہ ان کی اولاد بہتر سے بہترین زندگی گزار سکے۔ والدین کی عظمت و اہمیت اور مقام و مرتبے کو سمجھنے کے لئے آئیے! والدین کی فرماں برداری اور نافرمانی پر مشتمل 5 فرامین مصطفے ﷺ پڑھتے ہیں:

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: ماں باپ کا نافرمان، دیوث اور مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (معجم اوسط، 2/43، حدیث: 2443)

2۔ ماں باپ کی نافرمانی کے علاوہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ میں سے جسے چاہے معاف فرمادے گا جبکہ ماں باپ کی نافرمانی کی سزا انسان کو موت سے پہلے زندگی میں ہی مل جائے گی۔ (شعب الایمان، 6/197، حدیث: 7890)

3۔ جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے ماں باپ کا فرما نبردار ہے اس کیلئے صبح ہی کو جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لئے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے ایک شخص نے عرض کی: اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں، فرمایا: اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، 6/206، حدیث: 7916)

4۔ ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک سے یہ بات ہے کہ اولاد ان کے انتقال کے بعد ان کے لئے دعائے مغفرت کرے۔(ابو داود، 4/434، حدیث: 5142 مفہوماً)

5۔ ایک شخص نے سرکار دو عالم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: میری اچھی خدمت کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں عرض کی گئی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حديث: 5971)

اس حدیث میں ماں کے تین درجے بیان فرمائے گئے ایک یہ کہ اس نے کمزوری پر کمزوری برداشت کی، دوسرا یہ کہ اس نے بچے کو پیٹ میں رکھا، تیسرا یہ کہ اسے دودھ پلایا۔ لہٰذا اولاد پر والدین کا ادب و احترام شرعاً لازم ہے بغیر کسی شرعی وجہ کے والدین کی نافرمانی کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، ہاں اگر وہ شریعت کے خلاف کوئی حکم دیں تو اس میں ان کی اطاعت نہ کی جائے آج کے اس پر فتن دور میں اچھی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے اولاد والدین کا مقام و مرتبے سے نہ آشنا ہوتی جا رہی ہے۔ آج کل بہت کم ہی ایسے لوگ ہیں جو ماں باپ کے فرمانبردار ہیں۔ اولاد جب تک ماں باپ کو راضی نہ کرے گی اس کا کوئی نیک کام ہرگز قبول نہ ہوگا۔ جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو حسن سلوک کے زیادہ طلبگار ہو جاتے ہیں ایسے وقت میں بلکہ ہر وقت میں ان کی خدمت کیجئے اور ان کا ادب و احترام کیجئے۔

اللہ ہمیں والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پیارے قارئین! قرآن وحدیث میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی خصوصی تاکید کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر اپنی توحید وعبادت کا حکم دینے کے ساتھ والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کا حکم دیا ہے، جس سے والدین کی اطاعت ان کی خدمت اور ان کے ادب واحترام کی اہمیت واضح ہوجا تی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ حضور ﷺ سے سوال کیا گیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ فرمایا: وقت پر نماز پڑھنا، کہا گیا: پھر کون سا؟ فرمایا: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ (بخاری، 4/589، حدیث: 7534)

2۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے ؟ فرمایا: وہی تیری جنت اور تیری دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662)

3۔ اس کی ناک خاك آلود ہو، اس کی ناک مٹی میں مل جائے! عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! كس کی؟ فرمایا: جو اپنے والدین یا ان میں کسی ایک كو بڑھاپے میں پائے اور (ان کی خدمت کر کے) جنت میں داخل نہ ہو سکے۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)


اللہ تعالیٰ معبود حقیقی و بر حق کی فرمانبرداری اور اطاعت و عبادت کے بعد کچھ حقوق العباد بندوں کے بھی ہیں۔ بندوں کے حقوق میں سب سے پہلے ماں باپ کا درجہ ہے۔ اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کے بعد والدین کی اطاعت بھی اسی طرح واجب و ضروری ہے جس طرح اطاعتِ خالق۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے والدین کا فرمانبردار ہے اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہیں تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ (شعب الایمان، 6/206، حدیث: 7916)

اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: اَنِ اشْكُرْ لِیْ وَ لِوَالِدَیْكَؕ-اِلَیَّ الْمَصِیْرُ(۱۴) (پ 21، لقمٰن: 14) ترجمہ: میرا اور اپنے والدین کا شکر ادا کرو کہ آخر میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے۔ الله تعالیٰ کی عبادت و شکر گزاری کے ساتھ والدین کی اطاعت و رضا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کےساتھ والدین کی اطاعت اور ان کے ساتھ احسان و نیکی کو لازم فرما دیا ہے۔

احادیث کی روشنی میں:

1۔ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرو تاکہ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ نیکی کرے۔

2۔ ایک شخص دربار رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: یا رسول اللہ! والدین کا اولاد پر کیا حق ہے؟ تو ارشاد فرمایا: اگر والدین کی اطاعت کرے تو جنت کا حقدار ہے اور اگر ان کی نافرمانی کرے تو تیرے لئے دوزخ کی آگ کا عذاب ہے۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662)

3۔ نبی کریم ﷺ نے والدین کی اطاعت و رضا پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالی کی رضا والدین کی رضا ہے اور والدین کی ناراضگی میں رب تعالیٰ کی ناراضگی ہے یعنی ماں باپ خوش ہوں تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو جاتا ہے اور جب ماں باپ کو خفا رکھا جائے تو الله تعالیٰ بھی ناراض ہو جاتا ہے۔ (مواعظ رضویہ، ص 111)

4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ ایک شخص نےرسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کی: یارسول اللہ! لوگوں میں میرے اچھے برتاؤ کا زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نےعرض کی: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ارشادفرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کی: پھر کون؟ ارشادفرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث: 5971)

5۔ ابی اسید ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم لوگ رسول الله ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! میرے والدین مرچکے ہیں اب بھی ان کے ساتھ احسان کا کوئی طریقہ باقی ہے؟ فرمایا: ان کے لیے دعا واستغفار کرنا اور جو انہوں نے عہد کیا ہے اس کو پورا کرنا اور جس رشتہ والے کے ساتھ انہیں کی وجہ سے سلوک کیا جا سکتا ہو اس کے ساتھ سلوک کرنا اور ان کے دوستوں کی عزت کرنا۔ (ابو داود، 4/434، حدیث: 5142)

6۔نبی اکرم نور مجسم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب اولاداپنے والدین کی طرف نظررحمت کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور کا ثواب لکھتا ہے لوگوں نے کہا: اگر چہ دن میں سو مرتبہ نظر کرے؟ فرمایا: ہاں! الله بڑا ہے اور اطیب ہے یعنی اسے سب کچھ قدرت ہے وہ اس سے پاک ہے کہ اس کو اس کے دینے سے عاجز کہا جائے۔ (شعب الایمان، 6/186، حدیث: 7859)


ماں باپ کا مقام اور ان کی شان و عظمت کس قدربلند ہےاس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں جہاں اپنی عبادت کا حکم ارشاد فرمایا ہے وہیں والدین کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

پارہ 1 سورۂ بقرہ کی آیت نمبر83 کے تحت ہے: والدین کے ساتھ احسان کے طریقے جو مروی ہیں وہ یہ ہیں:

(1) تہ دل(یعنی سچّے دل)سے ان کے ساتھ محبّت رکھے۔

(2) رفتار و گفتار میں نشست و برخاست(اٹھنے بیٹھنے)میں ادب لازم جانے۔

(3) ان کی شان میں تعظیم کے لفظ کہے۔

(4) ان کو راضی کرنے کی سعی(کوشش)کرتا رہے۔

(5) اپنے نفیس(عمدہ) مال کو ان سے نہ بچائے۔

(6) ان کے مرنے کے بعد ان کی وصیّتیں جاری کرے۔(یعنی ان کی وصیتوں پر عمل کرے)۔

(7) ان کے لئے فاتحہ،صدقات،تلاوت قرآن سے ایصال ثواب کرے۔

(8) اللہ کریم سے ان کی مغفرت کی دعا کرے۔

(9) ہفتہ وار ان کی قبر کی زیارت کرے۔

(10) والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو بڑی نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور عقیدۂ حقّہ(درست عقائد)کی طرف لانے کی کوشش کرے۔الغرض اگر ساری زندگی والدین کی خدمت کی جائے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں اتر سکتا۔ (خزائن العرفان، ص 28)

جس طرح قرآن پاک میں والدین کی تعظیم و توقیر کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کئی مقامات پر والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کا حکم اور ان کی شان وعظمت کو بیان فرمایا گیا ہے۔

آئیے!بطور ترغیب 5 فرامین مصطفٰے ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور(یعنی مقبول حج)کا ثواب لکھتاہے۔صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:اگرچہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے! فرمایا: ہاں،اللہ پاک سب سے بڑا ہے اور اطیب (یعنی سب سے زیادہ پاک)ہے۔ (شعب الایمان،6/186، حدیث: 7856) یعنی اسے سب کچھ قدرت ہے، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس (ثواب) کے دینےسے عاجز کہا جائے۔ (بہار شریعت،3/554، حصہ: 16)

2۔ جس نے اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری کی حالت میں صبح کی تو اس کے لئے جنّت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لئے جہنّم کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ایک شخص نے عرض کی: اگرچہ وہ ظلم کریں؟ارشاد فرمایا:اگرچہ ظلم کریں،اگرچہ ظلم کریں،اگرچہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، 6/206، حدیث:7916)

3۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ! والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: وہی تیری جنّت اور تیری دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662)

4۔ ایک شخص نے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: میری اچھی خدمت کاسب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ارشاد فرمایا:تمہاری ماں،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

5۔ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5972)

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ ان سے ادب واحترام سے پیش آئیں ان پر اپنا مال خرچ کریں اور انکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی تلاش کریں۔


 والدین اللہ تعالی کی عطا کردہ عظیم نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت ہیں۔ جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہو سکتا۔ اولاد پر والدین کے جو حقوق ہیں اسلام نے ان کو واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ اگر ہم قران و حدیث کا مطالعہ کریں تو والدین کے حقوق کی اہمیت کا صحیح طور پر پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالی نے کتنے خوبصورت انداز میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

اللہ تعالی نے اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد اس کے ساتھ ہی ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا، اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالی کی تخلیق اور ایجاد ہے جبکہ ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں اس لیے اللہ تعالی نے پہلے انسانی وجود کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دیا پھر اس کے ساتھ ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا۔ آیت کا معنی یہ ہے کہ تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ تم اپنے والدین کے ساتھ انتہائی اچھے طریقے سے نیک سلوک کرو کیونکہ جس طرح والدین کا تم پر احسان بہت عظیم ہے تو تم پر لازم ہے کہ تم بھی ان کے ساتھ اسی طرح نیک سلوک کرو۔ (تفسیر کبیر، 7/ 323)

اسی مناسبت سے ترغیب کے لیے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور ان کے حقوق کے متعلق چند احادیث یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی یا رسول اللہ ! سب سے زیادہ حسن سلوک (یعنی احسان) کا مستحق کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں، انہوں نے پوچھا، پھر کون ؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ انہوں نے پوچھا: پھر کون ؟حضور اقدس ﷺ نے پھر ماں کو بتایا۔ انہوں نے پھر پوچھا، کہ پھر کون ؟ارشاد فرمایا: تمہارا والد۔ (بخاری، 4/93، حدیث: 5971)

2۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: پروردگار کی خوشنودی باپ کی خوشنودی میں ہے اور پروردگار کی ناخوشی باپ کی ناراضگی میں ہے ۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

3۔ تین شخص جنت میں نہ جائیں گے: (1) ماں باپ کا نافرمان (2) دیوث (3) مردوں کی وضع بنانے والی عورت۔ (مستدرک، 1/252، حدیث: 2654)

4۔ سب گناہوں کی سزا قیامت میں ملے گی لیکن ماں باپ کے نافرمان کو اللہ پاک دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔ (مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

5۔ ارشاد فرمایا: یہ بات کبیرہ گناہوں میں سے ہے کہ آدمی اپنے والدین کو گالی دے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی: یا رسول اللہ! کیا کوئی شخص اپنے ماں باپ کو گالی دیتا ہے ؟ارشاد فرمایا: ہاں اس کی صورت یہ ہے کہ یہ دوسرے کے باپ کو گالی دیتا ہے وہ اس کے باپ کو گالی دیتا ہے اور یہ دوسرے کی ماں کو گالی دیتا ہے اور وہ اس کی ماں کو گالی دیتا ہے۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5973)


والدین کے ساتھ حسن سلوک اور معروف میں ان کی اطاعت و فرماں برداری ایک اہم فریضہ ہے، آپ پر اپنی والدہ کے حق کی رعایت کرنا واجب ہے آپ انہیں ہمیشہ خوش رکھنے کی کوشش کریں اور معروف میں ان کی نافرمانی ہرگز نہ کریں، آپ کی مشغولیات اگر واقعی بہت زیادہ اہم ہیں اور آپ کی والدہ کی فرمائش سے متصادم ہیں تو پھر آپ پہلے انہیں آگاہ کر دیں اور ان سے معذرت کرنے کے بعد ہی اپنا کام انجام دیں۔

احادیث مبارکہ:

1۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ سے دریافت کیا کہ اللہ پاک کو کون سا عمل زیادہ محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا: نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔ عرض کیا: اس کے بعد کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے؟ فرمایا: والدین کی فرمانبرداری۔ (بخاری، 4/589، حدیث: 7534)

2۔ باپ جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے۔ چنانچہ تمہیں اختیار ہے خواہ (اس کی نافرمانی کرکے اور دل دکھا کے) اس دروازہ کو ضائع کردو یا (اس کی فرمانبرداری اور اس کو راضی رکھ کر) اس دروازہ کی حفاظت کرو۔ (ترمذی، 3/359، حدیث: 1906)

3۔ وہ شخص ذلیل و خوار ہو۔ عرض کیا: یا رسول اللہ ! کون ذلیل و خوار ہو ؟ ارشاد فرمایا: وہ شخص جو اپنے ماں باپ میں سے کسی ایک یا دونوں کو بڑھاپے کی حالت میں پائے پھر(ان کی خدمت کے ذریعہ) جنت میں داخل نہ ہو۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

4۔ حضرت ابو اسید الساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے کہ بنی سلمہ کا ایک شخص حاضر ہوا اور پوچھنے لگا کہ یارسول اللہ! والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی نیکی ہے جو میں ان کے لئے کرسکوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ ہاں کیوں نہیں۔ تم ان کے لئے دعائیں کرو،ان کے لئے بخشش طلب کرو، انہوں نے جو وعدے کسی سے کر رکھے تھے انہیں پورا کرو۔ ان کے عزیز و اقارب سے اسی طرح صلہ رحمی اور حسن سلوک کرو جس طرح وہ اپنی زندگی میں ان کے ساتھ کیا کرتے تھے اور ان کے دوستوں کے ساتھ عزت و اکرام کے ساتھ پیش آؤ۔ (ابو داود، 4/434، حدیث: 5142)

5۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کے ساتھ شرک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔ (بخاری، 4/295، حدیث: 6675)

اللہ پاک ہمیں والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی بے ادبی سے بچائے۔ آمین


اللہ نے قرآن مجید میں اپنی عبادت و بندگی کے متصل بعد انسان کو والدین کے لیے حسن سلوک کا حکم دیا ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ ہر چیز کا خالق و مالک تو رب کائنات ہے جس نے زمین بنائی ہوا، پانی، سورج، چاند، ستارے وغیرہ پیدا کئے آسمان سے بارش برسائی اور پھر انسان کی ضروریات زندگی زمین سے وابستہ کر دی اور انسان کی پیدائش اور پرورش کا ظاہری سبب اسکے والدین کو بنایا۔ دین اسلام میں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی شدید تاکید کی گئی ہے اور ان سے بد سلوکی کرنے سے منع کیا گیا ہے اولاد پر والدین کا حق اتنا بڑا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حق کے ساتھ والدین کا حق فرمایا ہے، اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا (پ 5، النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین سے اچھا سلوک کرو۔

احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:

(1)حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ کو کون سا عمل محبوب ہے؟ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بروقت نماز ادا کرنا۔ میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ ارشاد فرمایا: والدین سے نیکی کرنا۔ میں نے عرض کیا پھر کونسا؟ ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ (بخاری، 4/589، حدیث: 7534)

(2)حضرت عبداللہ ابن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص آپکی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ ﷺ سے جہاد کی اجازت طلب کی تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟اس شخص نے عرض کیا جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا پھر انکی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5972)

(3) حضرت معاویہ بن جاہمہ کا بیان ہے کہ حضرت جاہمہ حضور نبی اکرم ﷺ کے پاس آئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ ﷺ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں، آپ سے مشورہ لینے آیا ہوں، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟انہوں نے کہا: جی ہاں۔تو فرمایا ماں کی خدمت میں لگے رہو کیونکہ جنت اسکے قدموں کے پاس ہے۔ (مسند امام احمد، 5/290، حدیث: 15538)

(4) نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اس شخص کی ناک خاک میں ملے، اس شخص کی ناک خاک میں ملے، اس شخص کی ناک خاک میں ملے(تین مرتبہ ارشاد فرمایا)پوچھا گیا: اے اللہ کے رسول ﷺ کس کی ناک خاک میں میں ملے؟تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے ماں باپ دونوں کویا ان میں سے کسی ایک کو بحالت بڑھاپا پایا اور پھر جنت میں داخل نہ ہو سکا، یعنی ان کی خدمت کر کے یا انہیں راضی رکھ کر جنت کا حق دار نہ بن سکا۔ (مسلم، ص 1060، حدیث: 6510)

(5) جس کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کی عمر لمبی کر دی جائے(برکت والی)اور اس کے رزق میں اضافہ کر دیا جائے تو والدین سے اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (الترغیب و الترہیب، 3/255، حدیث: 3798)


جن خوش نصیبوں کے ماں باپ زندہ ہیں انکو چاہیے کہ روزانہ انکے ہاتھ پاؤں چوما کریں والدین کی تعظیم کا بڑا درجہ ہے۔والدین کی خدمت بہت بڑی سعادت ہے اگر ان کا دل خوش ہو جائے اور وہ دعا کر دیں تو بیڑا پار ہو جاتا ہے۔فرمان رسول ﷺ ہے کہ جس نے اپنی والدہ کا پاؤں چوما تو ایسا ہے جیسے جنت کی چوکھٹ کو بوسہ دیا۔ (در مختار، 9/606)

منقول ہے کہ ایک شخص کو اسکی ماں نے آواز دی لیکن اس نے جواب نہ دیا اس پر اسکی ماں نے اسے بدعا دی تو وہ گونگا ہو گیا۔ (بر الوالدین، ص89)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے ماں باپ کا فرمانبردار ہے، اس کے لیے صبح کو ہی جنت کے دروازے کھول جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہی ہوتو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ پاک کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے صبح ہی کو جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور(ماں باپ میں سے) ایک ہو توایک دروازہ کھلتا ہے۔ ایک شخص نے عرض کی اگر چہ ماں باپ اس پر ظلم کریں۔ فرمایا اگر چہ ظلم کریں، اگر چہ ظلم کریں، اگر چہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، 6/206، حدیث: 7916)

واقعی وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے جو ماں باپ کو خوش رکھتا ہے، جو بدنصیب ماں باپ کو ناراض کرتا ہے اس کے لیے بربادی ہے۔

دل دکھانا چھوڑ دے ماں باپ کا ورنہ اس میں خسارہ ہے آپ کا

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: تین شخص جنت میں نہیں جائیں گے: ماں باپ کو ستانے والا، دیوث اور مردانی وضع بنانے والی عورت۔ (مستدرک، 1/252، حدیث: 2654)

جب ماں باپ کے نافرمان کو دفن کیا جاتا ہے تو قبر اسے دباتی ہے یہاں تک کہ اسکی پسلیاں ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتی ہیں۔ حضور ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: معراج کی رات میں نے کچھ لوگ دیکھے جو آگ کی شاخوں سے لٹکے ہوئے تھے تو میں نے پوچھا اے جبرئیل!یہ کون لوگ ہیں عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا میں اپنے باپوں اور ماؤں کو برا بھلا کہتے تھے۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر، 2/139)

فرمان رسول ﷺ ہے کہ جو اپنے ماں باپ دونوں یا ایک کی قبر پر ہر جمعہ کے دن زیارت کیلئے حاضر ہو اللہ پاک اس کے گناہ بخش دے گا اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنے والا لکھ دیا جائے گا۔ (نوادر الاصول، ص 97)

آقاﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: ماں باپ تیری دوزخ اور جنت ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662) ایک اور مقام پر فرمایا: سب گناہوں کی سزا اللہ پاک چاہے تو قیامت تک اٹھا رکھتا ہے مگر ماں باپ کی نافرمانی کی سزا جیتے جی پہنچاتا ہے۔ (مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

اگر ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک ناراض ہے تو اسے ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر اور رو رو کر معافی تلافی کی ترکیب فرما لیجیئے گا، انکے جائز مطالبات پورے کر دیجیے کہ اسی میں دونوں جہانوں کی بھلائی ہے۔ اللہ پاک ہم سب کو والدین کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


اللہ پاک نے قرآن پاک کے کئی مقامات میں والدین کی اہمیت و مرتبے کو اجاگر کیا ہے۔ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔اللہ اکبر! ہمیں تو والدین کو اف تک کہنے سے منع کیا جا رہا ہے جبکہ آج کل کی نادان اولاد کے نزدیک والدین کو اولڈ ہاؤس میں چھوڑ کر آنا کوئی برائی ہی نہیں!

احادیث مبارکہ میں بھی والدین کی قدر و اہمیت بیان کی گئی ہے، چنانچہ

حضور اقدس ﷺ کا فرمان عالی شان ہے: جس شخص سے اس کے والدین راضی ہوں اللہ پاک اس سے راضی ہے اور جس سے اس کے والدین ناراض ہوں اس سے اللہ پاک بھی ناراض ہے۔ (ترمذی، 3/360، حدیث: 1907)

حدیث مبارکہ میں تو ماں باپ کو جنت دوزخ سے تعبیر کیا گیا اللہ پاک کے نبی ﷺ سے ایک شخص نے پوچھا: یا سول اللہ! ماں باپ کا اولاد پر کیا حق ہے؟ اللہ کے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: ماں باپ تیری جنت اور دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662) یعنی ان کے ساتھ نیک سلوک کر کے تم جنت کے مستحق ہو گے اور ان کے حقوق کو پامال کر کے تم جہنم کا ایندھن بنو گے۔

ایک اور مقام پر ارشا د فرمایا: سب گناہوں کی سزا قیامت میں ملے گی لیکن ماں باپ کے نافرمان کو اللہ پاک دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے۔ (مستدرک، 5/216، حدیث: 7345)

حدیث پاک کا مضمون ہے: جو بچہ اپنے ماں باپ کو محبت کی نگاہ سے دیکھے اللہ پاک اسے مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔

اللہ اکبر! ذرا سوچئے کہ محبت سے دیکھنے کا یہ اجر ہے تو خدمت کرنے کا عالم کیا ہوگا! ایک صحابی رسول نے عرض کی: حضور اگر کوئی دن میں سو بار دیکھے؟ آقا ﷺ فرماتے ہیں: کوئی سو بار بھی دیکھے تو اسے اللہ پاک مقبول حج کا ثواب عطا فرمائے گا۔ (شعب الایمان، 6/186، حدیث: 7859)

والدین کی خدمت سے ہی دونوں جہاں کی بھلائی،سعادت اور عظمت حاصل ہوتی ہے اور آدمی دونوں جہاں کی آفتوں سے محفوظ رہتا ہے، چنانچہ

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو آدمی چاہتا ہے کہ اس کی عمر دراز کی جائے اور اس کی روزی میں کشادگی ہو اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرے اور صلہ رحمی کرے۔ (الترغیب و الترہیب، 3/255، حدیث: 3798)

ماں باپ کا ادب و احترام کیجئے اور کوئی بھی ایسی بات یا حرکت نہ کیجئے جو ان کے احترام کے خلاف ہو۔

حدیث مبارکہ میں ہے جس نے اس حال میں صبح کی کہ اپنے ماں باپ کا فرمانبردار ہے اس کے لیے صبح ہی کو جنت کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہی ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں شام کی کہ ماں باپ کے بارے میں اللہ پاک کی نافرمانی کرتا ہے اس کے لیے جہنم کے دو دروازے کھل جاتے ہیں اور ماں باپ میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے ایک شخص نے عرض کی اگرچہ ماں باپ اس پر ظلم کریں فرمایا: اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں اگرچہ ظلم کریں(شعب الایمان، 6/206، حدیث: 7916)

معلوم ہوا کہ والدین کی فرمانبرداری جنت میں جانے کا ذریعہ ہے اور والدین کی نافرمانی جہنم میں جانے کا راستہ ہے۔ بے شک تمام نیک اعمال سے بڑھ کر نیک عمل یہ ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اپنی والدین کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


والد ین کے حق کو اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اپنی بندگی اورا طا عت کے فوراً بعد ذکر فرمایا، یہ اس بات کی طرف اشا رہ ہے کہ رشتوں میں سب سے بڑا حق والدین کا ہے۔

والدین سے حسن سلوک کا حکم: اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ، اگر وہ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ جائیں، چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اور ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو) ان سے کبھی ہوں بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اور ان سے خوب ادب سے بات کر نا، اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں دعا کر تے رہنا: اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما، جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا ہے (صرف ظاہر داری نہیں، دل سے ان کا احترام کرنا) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جانتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی خطائیں بکثرت معاف کرنے والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ پاک نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے کہ میرے علاوہ کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا، اس کے بعد فرمایا کہ: اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ۔

اس کے علاوہ بے شمار احادیث میں والدین کی فرمانبرداری کرنے اور نہ فرمانی سے بچنے کا بیان آیا ہے یقینا جو والدین کی فرمانبرداری کرتا ہے دنیا و آخرت میں سرخرو ہوتا ہے اور والدین کا بے ادب سوائے رسوائی کے کچھ بھی حاصل نہیں کر پاتا۔

حضرت عمرو بن میمون رحمۃ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے لیے گئے تو انہوں نے عرش کے سائے تلے ایک شخص کو دیکھا، اس کی حالت اتنی اچھی تھی کہ خود موسیٰ علیہ السلام کو اس آدمی پر رشک آگیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے اس آدمی کے بارے میں پوچھا: اے اللہ! تیرے اس بندے کا نام کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تمہیں اس شخص کے تین عمل بتاتا ہوں: پہلا یہ کہ میں نے اپنے فضل وکرم سے لوگوں کو جو نعمتیں عطا کی ہیں، یہ ان پر حسد نہیں کر تا تھا۔ دوسرا یہ کہ یہ شخص والدین کی نافرمانی نہیں کرتا تھا۔ تیسرا یہ شخص چغل خوری نہیں کر تا تھا۔ (مکارم اخلاق، ص 183، حدیث: 257)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اجرو ثواب میں زیادہ تیز رفتار بھلائی (والدین کے ساتھ حسن سلوک والی) نیکی اور صلہ رحمی ہے اور سزا میں تیز رفتاری برائی سرکشی (ظلم و زیادتی اور بدکاری) اور قطع رحمی ہے۔

یعنی سب سے جلد جس خیر و بھلائی کا فائدہ اور ثواب آدمی کو ملتا ہے وہ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور صلہ رحمی و الا خیر ہے۔ ہر انسان کو ایک دن ضرور مرنا ہے۔ زندگی اور موت گرچہ انسان کے اختیار میں نہیں، پھر بھی کون شخص ہے جو اس دنیا میں طویل زندگی کا خواہشمند نہیں؟ اسی طرح کون ہے جو رزق کی وسعت اور مال و دولت کی فراوانی نہیں چاہتا؟ احادیثِ رسول میں یہ صراحت موجود ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک عمر اور روزی میں کشادگی کا باعث ہے۔

حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تقدیر کو کوئی چیز نہیں بدلتی سوائے دعاکے، عمر میں اضافہ نہیں ہوتا مگر (والدین کے ساتھ )حسن سلوک والی نیکی سے اور بے شک کبھی آدمی گناہ کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے روزی سے محروم کردیا جاتاہے۔ (ترغیب و ترہیب، 2/316، حدیث: 17)

اللہ کریم ہمارے والدین کا سایہ صحت و عافیت کے ساتھ ہمیشہ سلامت رکھے اور جن کے والدین اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں ان سب کی بے حساب بخشش فرمائے۔ آمین