بلاشبہ
ماں باپ اللہ کی بڑی نعمت ہیں، والدین اولاد کی زندگی کا بہت بڑا سہارا ہوتےہیں، یہی
وہ ہستیاں ہیں جو ہر دکھ، تکلیف،مصیبت، پریشانی اور غم میں اولاد کیساتھ ہوتے ہیں،
اللہ نے والدین کو بڑا مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے، والدین
کے مقام و مرتبے اور عزت و عظمت کا اندازہ اس بات سے کیجئے کہ قرآن پاک میں اللہ
نے اپنی عبادت کا حکم فرمانے کے بعد والدین کے ساتھ احسان و بھلائی کرنے کا حکم
ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ پارہ 15 سورۂ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23 تا 25 میں فرمانِ
باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنز العرفان: اور تمہارے رب نے حکم
فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ
اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں
تو ان سے اف تک نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے خوبصورت، نرم بات کہنااور
ان کےلیے نرم دلی سے عاجزی کا بازو جھکا کر رکھ اور دعا کر کہ اے میرے رب! تو ان
دونوں پر رحم فرما جیساان دونوں نے مجھے بچپن میں پالا،
تمہارا رب خوب جانتا ہے جو تمہارے دلوں میں ہے اگر تم لائق ہوئے تو بیشک وہ توبہ
کرنے والوں کو بخشنے والا ہے۔
ہمیں چاہئے کہ
اپنےوالدین کی قدر کریں،ان کے احسانات کو یاد رکھیں،ان کی خلاف مزاج باتوں سے
درگزر کریں، ان کا ہر طرح سے خیال رکھیں،ان سے اچھا سلوک کریں،ان کی جائز ضروریات
پوری کریں،ان کا ہر جائز حکم مانیں،بالخصوص جب والدین بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ چکے
ہوں، یاد رکھیں بڑھاپے اور بیماریوں کے باعث ماں باپ کے اندرخواہ کتنا ہی چڑ چڑا پن
آجائے،بلاوجہ لڑیں،چاہے کتنا ہی جھگڑیں اور پریشان کریں لیکن ہمیں صبر،صبر اور صبر
ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجالانا ضروری ہے۔
جی ہاں!یہی مقامِ امتحان ہے،ماں باپ سے بدتمیزی
کرنا اوران کو جھاڑنا وغیرہ تو دور کی بات ہے ان کے آگےاف تک نہیں کرنا چاہئے،ورنہ
بازی ہاتھ سے نکل سکتی اور دونوں جہاں کی تباہی مقدّر بن سکتی ہےکہ والدین کا دل
دکھانے والا انسان اس دنیا میں بھی ذلیل وخوار ہوتاہے اور آخرت کے عذاب کابھی حق
دار ہوتا ہے۔
یہ بات یا د رکھیں کہ اگر
ماں
باپ کسی ناجائز بات کا حکم دیں تو ان کی بات نہ مانیں اگر ناجائز باتوں میں ان کی
پیروی کریں گے توگنہگار ہوں گے، مثلاً ماں باپ جھوٹ بولنے کا حکم دیں یا نماز قضا
کرنےکا کہیں تو ان کی یہ باتیں ہرگز نہ مانیں، چاہے وہ کتنے ہی ناراض ہوں،آ پ
نافرمان نہیں ٹھہریں گے، ہاں اگر مان لیں گے تو خدائے حنّان ومنّان کے ضرور
نافرمان قرار پائیں گے۔اسی طرح اگر ماں باپ
میں باہم طلاق ہوگئی تو ماں حکم
دے کہ اپنے والد سے مت ملنا تویہ حکم نہ مانے، والد سے ملنا بھی ہوگا اور اس کی
خدمت بھی کرنی ہوگی کہ ان کی آپس میں
اگرچہ جدائی ہوچکی مگر اولاد کا رشتہ جوں کا توں(پہلے کی طرح)باقی ہے، اولاد پر
دونوں کے حقوق برقرارہیں۔
جس طرح قرآنی آیات میں والدین کے ساتھ
اچھا سلوک کرنے کی تاکید کی گئی ہے،اسی طرحاحادیث مبارکہ میں بھی والدین کے ساتھ
احسان وبھلائی کرنے اور ادب واحترام کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا گیاہے
لہٰذا والدین کو راضی کرنےکی ہرممکن کوشش کرنی چاہیے کہ ان کی رضا
میں اللہ کی رضا اور ان کی ناراضی
میں اللہ کی ناراضی ہے۔
والدین کی دعائیں اولادکےحق میں مقبول
ہوتی ہیں،بس انہیں خوش رکھئے،خوب خدمت کر کے ان کی دعائیں لیجئے، ان کی خوشی ایمان
کی سلامتی اور ان کی ناراضی ایمانکی بربادی کا باعث ہو سکتی ہے، یاد رکھیں ماں باپ کی اطاعت کرنے
والے ہمیشہ شاد و آباد رہتے ہیں، یہ دنیا میں جہاں بھی رہیں اپنے والدین کی دعاؤں
کا فیض اٹھاتے ہیں۔
ماں باپ ہمیشہ اولاد کے حق میں اچھا ہی سوچتے
ہیں،اپنی لاڈلی اولاد کیلئے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں مگر بعض اوقات حالات اجازت
نہیں دیتے، کسی کا بوڑھا باپ آرام کرنے کے بجائے مزدوری کرکے اپنے گھر کا گزر
بسر چلا رہا ہوتا ہے، ماں بیچاری کئی بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود، اپنی
ادویات بھی پوری نہیں کرسکتی بلکہ آرام کو قربان کرکے کام کاج میں مصروف رہتی
ہے، لیکن نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ ہم
کس طرف چل پڑے ہیں، ہماری سوچ ہی بدل گئی، ہمارے دل سے ماں باپ کی قدر و منزلت ہی
جا رہی ہے، ایسی دوستی،ایسی بیٹھک پر تف ہے جو ہمیں ماں باپ کے قدموں سے دور کر
دے۔
یقین مانئے والدین کے حقوق بہت زیادہ ہیں اور
ان سے بر ی الذمّہ ہونا ممکن ہی نہیں چنانچہ ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ رسالت
میں عرض کی: ایک راہ میں ایسے گرم پتّھر تھے کہ اگر گوشت کاٹکڑا ان پر ڈالا جاتا
تو کباب ہوجاتا! میں اپنی ماں کوگردن پر سوار کر کے چھ میل تک لے گیاہوں، کیا میں
ماں کےحقوق سے فارغ ہوگیا ہوں؟ سرکار نامدار ﷺ نے فرمایا: تیرے پیدا ہونے میں درد
کے جس قدر جھٹکے اس نے اٹھائے ہیں شاید یہ ان میں سے ایک جھٹکے کا بدلہ ہوسکے۔ (معجم
صغیر، 1/92، حدیث:257)