ماں باپ کا مقام اور ان کی شان و عظمت کس قدربلند ہےاس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ اللہ کریم نے قرآن پاک میں جہاں اپنی عبادت کا حکم ارشاد فرمایا ہے وہیں والدین کے ساتھ بھلائی اور احسان کرنے کا حکم بھی ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد فرمایا: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ 15، بنی اسرائیل: 23) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہوں(اف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔

پارہ 1 سورۂ بقرہ کی آیت نمبر83 کے تحت ہے: والدین کے ساتھ احسان کے طریقے جو مروی ہیں وہ یہ ہیں:

(1) تہ دل(یعنی سچّے دل)سے ان کے ساتھ محبّت رکھے۔

(2) رفتار و گفتار میں نشست و برخاست(اٹھنے بیٹھنے)میں ادب لازم جانے۔

(3) ان کی شان میں تعظیم کے لفظ کہے۔

(4) ان کو راضی کرنے کی سعی(کوشش)کرتا رہے۔

(5) اپنے نفیس(عمدہ) مال کو ان سے نہ بچائے۔

(6) ان کے مرنے کے بعد ان کی وصیّتیں جاری کرے۔(یعنی ان کی وصیتوں پر عمل کرے)۔

(7) ان کے لئے فاتحہ،صدقات،تلاوت قرآن سے ایصال ثواب کرے۔

(8) اللہ کریم سے ان کی مغفرت کی دعا کرے۔

(9) ہفتہ وار ان کی قبر کی زیارت کرے۔

(10) والدین کے ساتھ بھلائی کرنے میں یہ بھی داخل ہے کہ اگر وہ گناہوں کے عادی ہوں یا کسی بدمذہبی میں گرفتار ہوں تو ان کو بڑی نرمی کے ساتھ اصلاح و تقویٰ اور عقیدۂ حقّہ(درست عقائد)کی طرف لانے کی کوشش کرے۔الغرض اگر ساری زندگی والدین کی خدمت کی جائے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ نہیں اتر سکتا۔ (خزائن العرفان، ص 28)

جس طرح قرآن پاک میں والدین کی تعظیم و توقیر کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے اسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی کئی مقامات پر والدین کی اطاعت وفرمانبرداری کا حکم اور ان کی شان وعظمت کو بیان فرمایا گیا ہے۔

آئیے!بطور ترغیب 5 فرامین مصطفٰے ملاحظہ فرمائیں۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رحمت کی نظر کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر نظر کے بدلے حج مبرور(یعنی مقبول حج)کا ثواب لکھتاہے۔صحابۂ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:اگرچہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے! فرمایا: ہاں،اللہ پاک سب سے بڑا ہے اور اطیب (یعنی سب سے زیادہ پاک)ہے۔ (شعب الایمان،6/186، حدیث: 7856) یعنی اسے سب کچھ قدرت ہے، اس سے پاک ہے کہ اس کو اس (ثواب) کے دینےسے عاجز کہا جائے۔ (بہار شریعت،3/554، حصہ: 16)

2۔ جس نے اپنے ماں باپ کی فرمانبرداری کی حالت میں صبح کی تو اس کے لئے جنّت کے دو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے اور جس نے اس حال میں صبح کی کہ وہ اپنے والدین کا نافرمان ہو تو اس کے لئے جہنّم کے دو دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اگر والدین میں سے ایک ہو تو ایک دروازہ کھلتا ہے۔ایک شخص نے عرض کی: اگرچہ وہ ظلم کریں؟ارشاد فرمایا:اگرچہ ظلم کریں،اگرچہ ظلم کریں،اگرچہ ظلم کریں۔ (شعب الایمان، 6/206، حدیث:7916)

3۔ ایک شخص نے عرض کی: یا رسول اللہ! والدین کا اپنی اولاد پر کیا حق ہے؟ فرمایا: وہی تیری جنّت اور تیری دوزخ ہیں۔ (ابن ماجہ، 4/186، حدیث: 3662)

4۔ ایک شخص نے رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر عرض کی: میری اچھی خدمت کاسب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ ارشاد فرمایا:تمہاری ماں۔اس نے عرض کی: پھر کون ہے؟ارشاد فرمایا:تمہاری ماں،اس نے دوبارہ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ عرض کی: پھر کون ہے؟ ارشاد فرمایا: تمہارا باپ۔ (بخاری، 4/93، حدیث:5971)

5۔ ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے جہاد کیلئے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا: کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ اس شخص نے عرض کیا: جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: پھر انہی کی خدمت کر کے جہاد کر۔ (بخاری، 4/94، حدیث: 5972)

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اللہ تعالی اور رسول اللہﷺ کا حکم سمجھتے ہوئے اپنے والدین کی خدمت کرنے کو اپنا دینی و اخلاقی فریضہ سمجھیں۔ ان سے ادب واحترام سے پیش آئیں ان پر اپنا مال خرچ کریں اور انکی رضا و خوشنودی میں اللہ تعالی کی رضا و خوشنودی تلاش کریں۔