مقولہ(کہاوت) ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ انسان جتنی بھی کوشش کرلے کہیں نہ کہیں غلطی ہوجاتی ہے۔ اب یہ بات ضروری نہیں کہ خود کو معلوم بھی ہو کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس لیے دوسروں کو چاہیے کہ اس شخص کی غلطی اس کو بتا کر اس انداز سے اُس کی اصلاح کریں کہ اُسے برا بھی نہ لگے اور بات وہیں پر ٹھیک ہوجائے۔ لیکن اصلاح کرنے میں انداز ایسا ہوجاتا ہے کہ معاملہ ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے اصلاح کرتے ہوئے ان چند باتوں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔

اصلاح کرنے میں بات کرنے کا انداز نرم ہونا چاہیے کیونکہ نرمی سے گفتگو کرنے سے سامنے والا بات کو لے گا، جبکہ سختی سے سمجھانے میں وہ بات لے گا کیا، اُلٹا سمجھانے والے کی "اصلاح" کردیگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معلوم بھی ہو کہ آیا جو مجھے اُس کی خطا لگ رہی ہے وہ حقیقت میں خطا ہے بھی یا نہیں؟ ایسے ہی موقع اور جگہ کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کس موقع پر سمجھانا ہے کونسی جگہ پر سمجھانا ہے۔ کیونکہ غلط موقع پر یا سب کے سامنے اصلاح کرنے لگ گئے تو معاملہ بہت خراب ہوسکتا ہے۔

یہ بات بہت ہی اچھے انداز میں سورة النحل آیت نمبر 125 کے تحت تفسیر صراط الجنان میں مفتی قاسم صاحب نے ارشاد فرمائی ہے :

   امربالمعروف کے لیے پانچ چیزوں  کی ضرورت ہے۔ ( ۱) علم:   کیونکہ جسے علم نہ ہو وہ اس کام کو اچھی طرح انجام نہیں  دے سکتا۔ ( ۲) اس سے مقصود رضائے الٰہی اور دینِ اسلام کی سربلندی ہو۔ (  ٣) جس کو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کرے اور نرمی کے ساتھ کہے۔ ( ۴)   حکم کرنے والا صابر اور بُردبار ہو۔ ( ۵)    حکم کرنے والا خود اس بات پر عامل ہو، ورنہ قرآن کے اس حکم کا مِصداق بن جائے گا، "کیوں کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہیں   کرتے" الله عزوجل کے نزدیک ناخوشی کی بات ہے یہ کہ ایسی بات کہو، جس کو خود نہ کرو۔ اور یہ بھی قرآنِ مجید میں فرمایا کہ ’’کیا لوگوں  کو تم اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور خودا پنے کو بھولے ہوئے ہو"۔  

یہ حقیقت ہے کہ اکثریت کو اصلاح کرنا نہیں آتا۔ نہیں تو معاشرہ جہاں ہے وہاں نہ ہوتا۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کا جذبہ تو بہت سوں کو ہوتا ہے لیکن اپنی اصلاح کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔ دوسروں کی اصلاح بعد میں کریں پہلے خود کو سدھار لیں ہو سکتا ہے آپ کو سدھرتا دیکھ کر دوسرے بھی سدھر جائیں اور ایسا ہوا بھی ہے۔ بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے سردار نے توبہ کی تو اس کے ساتھیوں نے بھی توبہ کرلی۔ بادشاہ اسلام لایا ےتو پوری رعایا مسلمان ہوگئی۔ معاشرہ فرد سے بنتا ہے اس لیے دوسروں کی اصلاح میں پہلے اپنی اصلاح ہے۔ اپنے آپ کو سدھاریں اور معاشرہ بھی خود بخود صحیح ہو جائے گا۔ 


اصلاح کرنے مىں ہمىں سب سے پہلے اپنے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا تصور جمانا چاہىے کہ وہ جب تبلىغ فرماتے تو ان کا انداز تبلىغ کىسا ہوتا تھا۔

کوئی جتنا چاہىے بُر انداز اختىار کرتا مگر مىرے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک ماتھے پر کبھى غصے کى وجہ سے کوئى بَل نہ آتا آپ ہمىشہ نرمى ، اخلاص اور اللہ کى رضا کے لىے تبلىغ دىن کىا کرتے۔

مدىنہ۱: امىر اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ہمارى تربىت فرماتے ہوئے ارشاد فرماتے ہىں کہ ہمارا کام ہے اخلاص کے ساتھ احسن انداز مىں دوسروں کو نىکى کى دعوت دىنا ہے انہىں عمل کى توفىق دىنا والا تو رب تعالىٰ ہے اگر آپ کسى کو نىکى کى دعوت پىش کرىں تو مدنى انعامات پر عمل کرنے کى اور اجتماع مىں شرکت کرنے کى دعوت دىنى چاہىے لىکن وہ تىار نہ ہوں تو ہر گز دل چھوٹا نہىں کرنا چاہىے نہ سامنے والے کے بارے مىں اپنے دل پر بات لائىے کہ بہت ڈھىٹ ہے ، ٹس سے مس نہىں ہوتا، اس کا دل پتھر سے بھى زىادہ سخت ہے وغىرہ وغىرہ ، اس سے اپنے اخلاص کى کمى تصور کرنا چاہىے اور رضائے الہٰى کے لىے کوشش جارى رکھنى چاہىے دل سوزى کے ساتھ رب تعالىٰ کى بارگاہ مىں دعا بھى کرتے رہىے کہ اے اللہ عزوجل! مىرى زبان مىں تاثىر عطا فرما اور مىرى نىکى کى دعوت مىں پائى جانے والى خامىوں کو دور فرما کر لوگوں کو قبول کرنے کى توفىق عطا فرما آپ کا ىہ کڑھنا اور دل سوزى کے ساتھ دعا کرتے رہنا اىک نہ اىک دن ضرور رنگ لائے گا اور آپ اپنى آنکھوں سے مدنى نتائج دىکھىں گے۔

مدىنہ۲: ہمارے بزرگانِ دىن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم مخلص ہونے کے ساتھ ساتھ علم و عمل اور حسن اخلاق کے پىکر بھى ہوا کرتے تھے ان کى زبان مىں اىسى تاثىر ہوتى کہ جس کو اپنى نىکى کى دعوت دىتے ان کى بات تاثىر کا تىر بن کر سامنے والے کے دل مىں پىوست ہوجاتى ىہى وجہ ہے کہ ہمارے بزرگانِ دىن کى مساعى جمىلہ کوششوں سے کفار کلمہ پڑھ کر دائرہ اسلام مىں داخل ہوگئے۔

جس وقت سنتوں کا مىں کرنے لگوں بیاں

اىسا اثر ہو پىدا جو دل کو ہلا سکے

مىرى زبان مىں وہ اثر دے خدائے پاک

جو مصطفے کے عشق مىں سب کو رلا سکے

مدىنہ۳: نىکى کى دعوت دىتے ہوئے اپنا انداز احسن اور مىٹھا رکھنا چاہىے اور ہرگز غصہ نہىں کرنا چاہىے، اس ضمن مىں ایک حکاىات نکل کرتى ہوں چنانچہ خراسان کے اىک بزرگ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کو خواب مىں حکم ہوا تاتارى قوم مىں اسلام کى دعوت پىش کرو، اس وقت ہلاکو خان کا بىٹا تگورمار خان بر سر اقتدار تھا وہ بزرگ سفر کرکے تگو مار خان کے پاس تشرىف لے گئے سنتوں کے پىکر بارىش مبلغ کو دىکھ کر اسے مستى سوجى اور کہنے لگا، مىاں ىہ تو بتاؤ تمہارى داڑھى کے بال اچھے ىا مىرے کتے کى دم ؟

با ت اگرچہ غصہ دلانے والى تھى مگر چونکہ وہ اىک سمجھدار مبلغ تھے لہذا نہاىت ہى نرمى سے فرمانے لگے، مىں بھى اپنے خالق و مالک کا کتا ہوں اگر جانثارى اور وفادارى سے اسے خوش کرنے مىں کامىاب ہوجاؤں تو مىں اچھا ورنہ آپ کے کتے کى دم مجھ سے اچھى جب کہ وہ آپ کا فرمانبردار اور وفادار ہو۔

جب تگومار نے ىہ خوشبودار مىٹھا جواب سنا تو نرمى سے بولا آپ مىرے مہمان ہىں مىرے ہى ىہاں قىام فرمائىے، آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اسے شفت سے نىکى کى دعوت پىش کرتے آپ کى سعى پىہم نے تگودار کے دل مىں مدنى انقلاب برپا کردىا۔ وہى تگودار جو کل تک اسلام کو صفحہ ہستى سے مٹانے کے درپے تھا آج اسلام کا شىدائى بن گىا تگودار سمىت پورى تاتارى قوم کے مسلمان ہوگىا اس کا اسلامی نام احمد ہے۔

ہے فلاں و کامرانى نرمى و آسانى مىں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں

مدىنہ ۴: اس حکاىت سے معلوم ہوا کہ نىکى کى دعو ت پىش کرتے وقت کوئى کتنا ہى غصہ دلائے مگر ہر گز اسے ہم نے جھاڑنا نہىں ہے اور اپنى زبان کو قابو مىں رکھنا ہے اورنىکى کى دعوت نرمى اور شفقت سے پىش کرنى ہے۔

مدىنہ۵: اگر آپ چاہتے ہىں کہ آپ کى زبان مىں تاثىر پىدا ہو تو اس کے لىے اپنى زبان کو غىبت ، جھوٹ چغلى وغىرہ کے گناہوں سے پاک رکھتے ہوئے ذکر اللہ کى کثرت کرنى چاہىے۔

مدینہ۶: نىکى کى دعوت دىتے وقت ىا اصلاح کرتے وقت اخلاص کو پىش نظر رکھنا چاہىے اور رىا سے ہمىشہ بچنے کى کوشش بلکہ بچنا لازم ہے۔رىا کارى سے بچنے کا ذہن بنانے اور اس کا جذبہ بڑھانے کى نىت سے اس ضمن مىں اىک آىت پىش کرتى ہوں۔

تَرجَمۂ کنز الایمان: جو دنىا کى زندگى اور آرائش چاہتا ہو ہم اس مىں ان کا پورا پھل دے دیں گے اور اس مىں کمى نہ دیں۔

مدىنہ۷: ىقىنا دنىا کو آخرت پر ترجىح دىنے والے رىا کار کے عمل ضائع ہوجاتے ہىں۔

اللہ ہمىں اصلاح کرتے وقت اخلاص اور اپنى رضا کا طالب بنا اوراصلاح کرتے وقت اپنى رحمت سے ہمارى زبان مىں تاثىر پىدا فرما ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


مىٹھے مىٹھے اسلامى بھائىو!

کسى کى اصلاح کرنا نہاىت ہى عمدہ کام ہے لىکن اصلاح کرتے وقت اس بات کا ضرور خىال رکھا جائے کہ اگلے شخص کى عزت نفس مجروح نہ ہو کىونکہ

ہے فلاں و کامرانى نرمى و آسانى مىں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں

آئىے! ہم اس سوال ( اصلاح کرنے کا انداز کىسا ہونا چاہىے) کو سىرت مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جھلک مىں ملاحظہ کرتے ہىں،

چنانچہ حضرت سىدنا انس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں کہ اىک مرتبہ ہم نور کے پىکر تمام نبىوں کے سرور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ مسجد مىں موجود تھے کہ اىک اعرابى ( ىعنى دىہاتى ) آىا اور مسجد مىں کھڑے ہو کر پىشاب کرنا شروع کردىا۔جناب رسالت مآب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اصحاب نے اسے پکارا ،ٹھہرو ٹھہرو۔ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا کہ اسے نہ روکو چھوڑ دو،صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان خاموش ہوگئےحتى کہ اس نے پىشاب کرلىا۔ پھر مبلغ اعظم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسے بلا کر ( نرمى و شفقت) سے فرماىا، ىہ مساجد پىشاب اور گندگى کے لىے نہىں ىہ تو صرف اللہ عَزَّ وَجَلَّکے ذکر نماز اور تلاوت قرآن کے لىے ہے۔پھر آپ نےکسى کو پانى لانے کا حکم دىا اوروہ پانى کا ڈول اس ( ىعنى پىشاب کى جگہ) پر بہا دىا۔

(صحىح مسلم ص ۱۶۴، حدىث ۲۸۵ ، ماخوز از نىکى کى دعوت )

مفسر شہىر حکىم الامت مفتى احمد ىا ر خان نعىمى اس حدىث پاک کى شرح کرتے ہوئے آخر مىں فرماتے ہىں کہ اس مىں مبلغىن کو طرىقہ تبلىغ کى تعلىم ہے، کہ تبلىغ اخلاق اور نرمى سے ہونى چاہے۔

پىارے اسلامى بھائىو! دىکھا آپ نے کہ اصلاح کرنے کا انداز کىسا ہونا چاہىے۔ ىقىنا اصلاح کرنے کا انداز اىسا ہونا چاہىے کہ جس سے اگلا بندہ سمجھ بھى جائے اور اس کى عزت نفس بھى محفوظ رہے اور ہم سے بدظن بھى نہ ہو اللہ پاک ہمىں اچھے انداز مىں اصلاح کرنے کى توفىق عطا فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


جب کسى شخص مىں کوئى دىنى خرابى دىکھىں تو اس کے جاہ مرتبے کا لحاظ کىے بغىر اصلاح کرنى چاہىے اور اصلاح کا انداز اىسا ہو کہ کسى شخص کى اصلاح پوشىدہ (تنہائى)مىں نرمى کے ساتھ سمجھاتے ہوئے مخلصانہ انداز مىں کرىں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتى ہىں کہ جس نے اپنے بھائى کو اعلانىہ نصىحت کى اس نے اسے عىب لگاىا اور جس نے چپکے سے کى تو اس نے اسے زىنت بخشى ۔

البتہ کسى کو پوشىدہ نصىحت نفع نہ دے تو پھر اعلانىہ نصىحت اس انداز مىں کرے کہ کسى کو معلوم نہ ہو کہ کس کے بارے مىں بات ہورہى ہے، اىسا انداز اختىار نہىں کرنا چاہىے جس سے معلوم ہوجائے کہ کس کے بارے مىں بات کى جارہى ہے، ىعنى انکھوں سے اس طرح دىکھنا کہ معلوم ہوجائے ىا نام لىنا کہ اس سے بجائے اصلاح کے دل آزارى ہو سکتى ہے ،حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب کسى کى بات پہنچتى جو ناگوار گزرتى تو اس کا پردہ رکھتے اور اس کى اصلاح کا حسن انداز ىہ ہوتا کہ ارشاد فرماتے کہ لوگوں کو کىا ہوگىا جو اىسى بات کہتے ہىں۔(۲)

کسى کى اصلاح کى کوشش کے دوران خود کو گناہ سے بچانا چاہىے :

مثلا اگر کسى کو بار بار ترغىب دلانے پر بھى نماز نہىں پڑھتا تو اب اس کى دوسروں کے سامنے غىبتىں کرکے گناہ گار نہ بنىں، بلکہ اس سے اجتناب کرىں کہ حضرت عمر بن عبدالعزىز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں کہ جس شخص کى اصلاح ظلم کىے بغىر نہىں ہوسکتى چاہىے اس کى اصلاح نہ ہو مگر مىں اپنا دىن برباد کرکے لوگوں کى اصلاح کے درپے نہىں ہوں گا(۳)

اور اگر کسى حاکم مىں خلاف شرع کوئى بات موجود ہو تو اس کى اطاعت کرتے ہوئے اس کے سامنے برائى کا ذکر کرتے ہوئے ىوں کہنا چاہىے کہ جن باتوں مىں آپ کو مجھ پر اقتدا و اختىار حاصل ہے، مىں ان مىں آپ کا فرمانبردار ہوں لىکن مىں آپ کے کردار مىں کچھ اىسى چىزىں دىکھ رہا ہوں جو شرىعت کے موافق نہىں۔(۴)

آخر مىں اللہ تعالىٰ سے دعا ہے کہ ہمىں لوگوں کى درست انداز سے اصلاح کرنے کى توفىق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

۱۔(غىبت کى تباہ کارىاں ص ۱۴۰)

۲۔ (سنن ابوداؤد ج ۴، ص ۳۲۹، حدىث ۴۔۔)

(۳) ۔ عمر بن عبدالعزىز کى ۴۲۵ حکاىات ص ۴۸۹)

(۴) (مختصرا امام اعظم کى وصىتىں ، ص ۱۸)


کسى نے کىا خوب کہا ہے:نصىحت کرنے کا مقصد دستک دىنا ہے نہ کہ دروازہ توڑنا۔

قرآن پاک نے ہمىں مسلمانوں کى اصلاح کرنے کى ترغىب اراد فرمائى گئى ہے

چنانچہ ارشاد فرماىا:

وَّ ذَكِّرْ فَاِنَّ الذِّكْرٰى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَ(۵۵)

تَرجَمۂ کنز الایمان:اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دىتا ہے۔(پارہ ۲۷، الذرىات آىت ۵۵)

اور ساتھ ہى اصلاح کا طرىقہ بھى سمجھادىا ، چنانچہ ارشاد فرماىا:

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ

تَرجَمۂ کنز الایمان: اپنے ر ب کى راہ کى طرف بلاؤ پکى تدبىر اور اچھى نصىحت کے ساتھ

(پارہ ۱۴،النحل آىت ۱۳۵)

اصلاح کرنے والے کو درجِ ذىل امور پىش نظر رکھنے چاہىے۔

۱۔ اصلاح کرنے سے مقصود رضائے الہى عزوجل ہو کسى دنىوى مال و جاہ کى طلب نہ ہو۔

مىرا ہر عمل تىرے واسطے ہو

کر اخلاص اىسا عطا ىا الہى

۲۔ حسنِ اخلاق ، سرکارِ مدىنہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشا دفرماىا: تم لوگوں کو اپنے اموال سے خوش نہىں کرسکتے لىکن تمہارى خندہ پىشانى اور خوش اخلاقى انہىں خوش کرسکتى ہے۔(المستدرک الحاکم ، کتاب العلم، الحدىث ۴۳۵، ج۱، ص ۳۲۱)

۳۔ نرمى ،تاجدار رسالت صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم نے ارشاد فرماىا:اللہ عزوجل ہر معاملے مىں نرمى کو ہى پسند فرماتا ہے۔(صحىح البخارى، کتاب الادب، باب الرفق، فى الامر کلہ، الحدىث ، ج ۴، ص ۱۰۴)

ہے فلاح و کامرانى نرمى و آسانى مىں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں

۴۔ تحمل و بردبارى،کہ اگر سامنے والے کى طرف سے کسى نامناسب ردعمل کا مظاہرہ ہو تو صبر کرے اور انتقامى کارروائى نہ کرے۔

۵۔ تنہائى مىں اصلاح کرنا،کہا جاتا ہے کہ جس نے کسى کى اکىلے مىں اصلاح کى اس نے اسے سنوار دىا اور جس نے کسى کى سب کے سامنے اصلاح کى اس نے اسے بگاڑ دىا۔

۶۔ حکمت عملى،موقع محل کے مطابق اصلاح کى صورت بنائى جائے، نىز سامنے والے کى نفسىات کو بھى پىش نظر رکھا جائے۔

۷۔خود با عمل ہونا، باعمل پُر تاثىر ہوتا ہے لہذا اصلاح کرنے والے کو خود بھى باعمل ہونا چاہىے ورنہ قرآن پاک کے اس فرمان کا مصداق بن جائے گا کہ کىوں کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہىں کرتے۔

۸۔بے جا تنقىد سے بچنا ، جس کى اصلاح کى جائے اس پر بے جا تنقىد اور طنز بازى نہ کى جائے اىسا کرنے سے اس کے دل مىں آپ کے لىے نفرت پىدا ہوجائے گى۔

۹۔ مثالوں سے سمجھانا ،موقع کى مناسبت سے مثالىں دے کر سمجھا نا بھى مفىد ہے۔انسانى فطرت ہے کہ جو بات مثال کے ذرىعے سمجھائى جائے وہ جلدى سمجھ آجاتى ہے۔

۱۰۔ دُعا،نىک نىتى کے ساتھ دعا بھى کرتا رہے کہ حدىث مبارکہ مىں ہےکہ دعا مسلمانوں کا ہتھىار ہے اوردىن کا ستون اور آشمان و زمىن کا نور ۔(المستدرک، حدىث ۱۸۵۵، ج۲، ص۱۶۲)

بزرگانِ دىن کا انداز اصلاح:

امام شافعى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ بغداد کے کسى علاقے سے گزررہے تھے انہوں نے اىک نوجوان کو دىکھا جو اچھے طرىقے سے وضو نہ کررہا تھا تو بڑے پىار بھرے انداز مىں اس سے فرماىا: اے نوجوان وضو ٹھىک سے کىجئے، اللہ عزوجل دنىا و آخرت مىں آپ پر احسان فرمائے۔ وہ نوجوان آپ کے اندازِ اصلاح سے بے حد متاثر ہوا اور وضو کے بعداور آپ کى خدمت مىں حاضر ہو کر مزىد نصىحتوں کا طالب بھى ہوا۔( ماخوذ از نىکى کى دعوت ص ۳۸۵)

جب نىکى کى دعوت دوں ، سے دل سے کرم ىارب

زبان مىں دے اثر کردے عطا زور قلم ىارب


ارشادخداوندى ہے :

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

تَرجَمۂ کنز الایمان :تم بہترہو ان سب امتوں مىں جو لوگوں پر ظاہر ہوئىں بھلائى کا حکم دىتے ہو، برائى سے منع کرتے ہو، اور اللہ عزوجل پر اىمان رکھتے ہو۔(پارہ ۴، سورہ ال عمران آىت ۱۱۰)

الحدىث : قىامت کے دن سب نبىوں سے زىادہ مىرى امت ہوگى۔(مسلم ،صفحہ ۱۲۸، حدىث نمبر۳۳۱)

مفسر شہىر حکىم الامت اس حدىث کے تحت فرماتے ہىں کہ جنتىوں کى 120 صفىں ہوں گى جس مىں سے 80 صفىں حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى امت کى ہوں گى اور باقى 40 صفوں مىں سارے نبىوں کى امتىں (علیہ السلام)۔مفتى احمد ىار خان علیہ الرحمہ الحنان اىک اور جگہ لکھتے ہىں ، جىسے حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نبىوں کے سردار ہىں، اىسے ہى حضور صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم کى امت سارى امتوں کى سردار ہے۔اللہ رب العالمىن کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمىں انسان بناىا اور مسلمان اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى امت مىں پىدا فرماىا، اللہ عزوجل نے اس امت کو دنىا و آخرت مىں رفعت و منزلت ، شان و عظمت اور سعادت و شرافت عناىت فرمائى ہے اس کا اىک سبب اس امت کا

(ىعنى نىکى کا حکم کرنے اور برائى سے منع کرنے) کے فرىضے خو ادا کرنا بھى ہے۔

ہر مسلمان اپنى اپنى جگہ مبلغ ہے خواہ وہ کسى بھى شعبے سے تعلق رکھتا ہو، ىعنى وہ عالم ہو ىا متعلم (ىعنى طالبِ علم) امام مسجد ہو ىا مؤذن، پىر ہو ىا مرىد، تاجر ہو ىا گاہک، سىٹ ہو ىا ملازم، افسر ہو ىا مزدور، حاکم ہو ىا محکوم، الغرض جہاں جہاں وہ رہتا ہو کام کاج کرتا ہو رضائے الٰہى کے لىے اچھى نىتوں کے ساتھ اپنى صلاحىت کے مطابق اپنے گردو پىش کے ماحول کو سنتوں کے سانچے مىں ڈھالنے کے لىے کوشاں ( ىعنى کوشش کرنے والا) رہے اور اصلاح کا کا م جارى رکھے۔

اصلاح کے ىے تىن چىزىں ضرورى ہىں۔

۱۔نرمى

۲۔حکمتِ عملى

۳۔ صبر، کىونکہ اگر غلطى کرنے والے کى اصلاح غصے ىا نفرت سے کرىں گے تو اسے برا لگے گا اور اصلاح بھى نہىں ہوگى۔

٠ىہ بھى نہىں ہونا چاہىے کہ اسے اس کے اپنے حال پر چھوڑ دىا جائے ، پڑھے گا تو پڑھ لے گا نہىں تو نہ پڑھے۔نہىں اىسا نہىں ہونا چاہىے نىکى کى دعوت سنتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اس لىے اسے کرنا ضرورى ہے۔

٠اصلاح کوئى کھىل (GAME) نہىں کہ اور ختم ہوجائىں گے تو اصلاح کا وقت ختم ہوجائے ، کوئى بھى بات کسى بھى وقت اصلاح کا سبب بن سکتى ہے۔

کوشش جارى رکھنى چاہىے ہاں مگر زبردستى بھى نہىں کرنى چاہىے کہ ہم کسى کو مار مار مار مسلمان نہىں کرسکتے، مگر نرمى سے سمجھانے مىں کوئى حرج نہىں، نرمى پر بہت سارى احادىث ہىں۔

جىسا کہ اىک مرتبہ اىک دىہاتى نے مسجد مىں آکر پىشاب کردىا صحابہ کرام جلال مىں آگئے مگر سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہىں روک لىا اور پھر پانى منگوا کر پىشاب کو صاف کرواىا اور پھر اسے نرمى سے سمجھاىا کىونکہ وہ اعرابى دىہاتى تھااسے اس بارے مىں معلوم نہ تھا کہ مسجد اس چىز کے لىے نہىں ہے۔

اسى طرح اىک مرتبہ بارگاہِ نبوى مىں حاضر ہوا عرض کىا اے اللہ کے رسول! تمہىں تو اللہ نے بہت دىا ہے تم مجھے دو مىرے اونٹوں کو لادو اور بھى بہت سارے مطالبے کىے، سرکار علیہ السَّلام نے سارے مطالبے پورے کىے ، فرماىا کىا مىں تىرے ساتھ کوئى بھلائى کى ، کہتا ہے آپنے تو مىرے ساتھ کوئى بھلائى نہىں کى، صحابہ کرام بڑھے ، سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روک لىا اس آدمى کو اندر لے کے گئے، اس کى ذہن سازى کى سمجھاىا پھر اسے عطا کىا پھر فرماىا کىا مىں نے تىرے ساتھ کوئى بھلائى کى، اب تو اس نے خوبصورت جملے ادا کىے کہ اللہ آ پ کو جزا دے آپ کو خوب نوازے اور بھى بہت سارے، ىہ سب کچھ صرف سرکار کے نرمى و محبت والے لہجے کى وجہ سے ہوا۔

نرمى، محبت، صبر، پىار، حکمتِ عملى اپنائىں، استاد کے لىے بھى سختى کہىں کہىں مىں اکثر نرمى کا حکم دىا گىا ہے، نرمى (Politnese) پر بہت سارى احادىثِ مبارکہ مروى ہىں۔

من ضَحِکَ ضُحِکَ مطلب کہ جو ہنستا ہے ہنساىا جاتا ہے کہ آج ہم کسى کى ہنسى اڑا رہے ہىں کل کوئى ہمارا مذاق اڑائے گا۔

مسلمان کے عىب چھپانے پر بھى بہت سارى احادىث ہىں کہ جو دنىا مىں کسى کے عىب ظاہر کرے اللہ اس کے عىب قىامت کے دن سب پر کھولے گا، بعض اوقات دنىا مىں بھى عىب کھل جاتے ہىں اور وہ بے ابرو ہوجاتا ہے۔

اس لىے اصلاح اکىلے مىں کرنى چاہىے جىسا کہ حدىث مبارکہ سے بھى ثابت ہوا۔

حضرت ام دردا رء رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتى ہىں کہ جس نے کسى کے عىب کى چپکے سے اصلاح کى اس نے تو اسے سدھارا مگر جس نے سب کے سامنے اصلاح کى اس نے اسے بگاڑا۔

سمجھنے والے کے لىے :

اگر کوئى شخص کسى کو آکر کہے کہ تجھے ىہ بىمارى ہے، ہے تىرے کپڑوں پر ىہ کىڑا چل رہا ہے، جو اسے معلو م نہ ہو تو سمجھنے والا اسے کىا کہے گا، اپنا خىر خواہ ىا بدخواہ اس سے ناراض ہوگا ىا خوش، جب ىہ جسمانى نقصان کے بتانے والے سے ناراض نہىں ہوتا تو اگر کوئى سمجھانے کى کوشش کرتا ہے تو اسے اچھى نىت کے ساتھ اچھے انداز سے سمجھائے۔

خلاصہ : اس بات کا خىال رکھا جائے کہ سمجھانے والے کا طرىقہ بہترىن ہو سامنے والے کے لىے قابلِ قبول ہو اس کے دل مىں اترنے والا ہو نا کہ اىسا طرىقہ جو کہ سامنے والا بجائے سمجھنے کے ناراض ہو بدظن ہو اور ہم سے دور ہوجائے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا انداز احادىث مىں ایک نہىں سىنکڑوں حتى کہ سوال کرنے والے ىا غلط کام کرنے والوں نے کس حد تک برا کىا مگر سرکار علیہ السَّلام کا سمجھانے کا انداز اس قدر د ل نشىن اور پىارا تھا کہ وہ جو گناہ کا مرتکب انسان تھا وہ دل و جان سے اس بات کو سمجھ کر گىا۔ انداز ہو تو اىسا۔



قرآن پاک نے جہاں اپنى اصلاح کرنے کا حکم دىا وہىں اپنے گھر والوں کى اصلاح کرنے کا حکم ارشاد فرماىا ہے، چنانچہ ا رشادِ ربانى ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ

تَرجَمۂ کنز الایمان:اے اىمان والو! اپنى جانوں اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا اىندھن آدمى اور پتھر ہىں۔(پ۲۸، التحریم:۶)

اصلاح تو کرنى ہے پر سوال پىدا ہوا کہ اصلاح کا انداز کىسا ہونا چاہىے؟کہ اصلاح کا رگر بھى ہو اور موثر بھى۔

اس کے لىے سب سے اہم بات اپنا کردار پاکىزہ رکھنا ، اگر آپ باعمل حسن اخلاق اور اعلىٰ کردار کے مالک ہوں گے تو اِنْ شَآءَ اللہ !آپ کى بات جلد موثر ہوگى اس طرح آپ اصلاح مىں کامىاب ہوں گے۔

نرمى کو لازم کرلىں ، جس طرح سونا نرم ہو کر زىور بنتا ہے نرمى کى بدولت انسان کے اندر رحمت، شفقت شائستگى ، مہربان آسانى کے پھول کھلتے ہىں ۔مومن کا دل نرم ہوتا ہے تو وہ دنىا و آخرت کى بھلائىاں پالىتا ہے، نرمى سے اصلاح آسان ہوجاتى ہے دل مىں بھى اثر کرتى ہے۔

ہے فلاح و کامرانى نرمى و آسانى مىں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں

اىنٹ کا جواب پتھر سے نہ دىں ،آپ نے کسى کى اصلاح کى تو اس نے آپ کى بات قبول کرنے کے بجائے آپ کو برا بھلا کہا تو صبر صبر صبر کىجئے ثواب ِ آخرت کے حق دار بنىں۔ وہ لوگ بڑے خوش نصىب ہىں جو اىنٹ کا جواب پتھر سے دىنے کے بجائے ظلم کرنے والوں کو معاف کردىتے اور برائى کو بھلائى سے ٹالتے ہىں

(جنتى محل کا سودا، ص ۳۵)

دل کى اصلاح کرىں ، ىقىن جانىے اگر آ پ کسى کى اصلاح کرنا چاہتے ہىں تو اپنے اس پر خود عمل کرىں پھر دوسروں پر اگر وہ آپ کا دل قبول کرىں تو دوسروں کى اصلاح کرىں دل کى اصلاح سب سے مشکل کام ہے کىونکہ باعمل کى بات دل سے نکلتى ہے اور دل تک پہنچتی ہے جبکہ بے عمل زبان سے بولتا ہے اس کى بات منہ سے نکلتى ہےکان تک پہنچتى ہے، اثر نہىں کرتى چنانچہ ارشاد سىدنا باىزىد بسطامى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ ہے کہ مىں نے اپنے دل زبان اور نفس کى اصلاح کے لىے دس دس سال صرف کىے اب مىں مجھے سب سے زىادہ مشکل دل کى اصلاح معلوم ہوئى ۔

(منہاج العابدىن ص ۹۸)

منقول ہے کہ اعلىٰ حضرت سے کسى نے بىان پر اصرار کىا تو آپ نے بطورِ عاجزى فرماىا : مىں ابھى اپنے نفس کو وعظ نہىں کہہ پاىا دوسروں کو وعظ کے کىا لائق ہوں۔ (فىضانِ امىر اہلسنت ص ۷۵)

لوگوں کى سمجھ کے مطابق کلام ، لوگوں سے ان کى سمجھ کے مطابق کلام کرىں تاکہ ان کى سمجھ مىں بھى آئىں اگر آپ اىسا کلام کرىں گے جو ان کى سمجھ سے بالاتر ہوگا تو وہ آپ سے دور بھاگىں گے، اصلاح کے انداز مىں ىہ بھى شامل ہے کہ لوگوں کو ان کى سمجھ کے مطابق کلام کرىں، مشہور مقولہ ہے: کلمو ا الناس على قدر عقولہمیعنی کہ لوگوں سے ان کى عقلوں کے مطابق کلام کرو۔

کوفہ مىں اىک شخص ا مىر المومنىن حضرت عثمانِ غنى رضی اللہ تعالٰی عنہ کى شان مىں بکواس کرتا تھا اس کو ىہودى کہتا، امام اعظم اس شخص کے پاس تشرىف لائے اصلاح فرمائى اس طرح کہ آپ کى بىٹى کے لىے رشتہ لاىا ہوں، لڑکا متقى عبادت گزار خوفِ خدا والا ہے ىہ سن کر وہ شخص بولا: اىسا داماد تو ہمارے لىے سعادت مندہے، امام اعظم نے فرماىا اس مىں اىک عیب ہے وہ ىہودى ہے ،اس پر وہ شخص غضب ناک ہوا امام اعظم نے نرمى اختىار فرمائى اوراصلاحى جملہ ارشاد فرماىا آپ خود اپنى بىٹى ىہودى کے نکاح مىں دىنے کے لىے راضى نہىں تو اللہ کے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یکے بعد دىگرے دو شہزادىاں کسى ىہودى کے نکاح مىں کىسے دے دىں گے ىہ سن کر اس کى عقل ٹھکانے لگى اس نے آئندہ جامع القرآن حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ کى مخالفت نہ کى ۔(المناقب الکردرى، ج ۱، ص ۱۶۱)


اصلاح کرنے سے پہلے اصلاح کرنے والے کو اخلاص، اچھے اخلاق اور اعلىٰ کردار کا مالک ہونا ضرورى ہے۔حضرت اسامہ  رضی اللہ تعالٰی عنہ رواىت کرتے ہىں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرماىا کہ آدمى کو امر بالمعروف اور نہى عن المنکر پہنچانا لائق نہىں، جب تک وہ تىن فضىلتىں نہ رکھتا ہو ، جس بات کا حکم کرتا ہے اس کا عالم ہو، جس برى بات سے منع کرتا ہو اس کو اچھى طرح جانتا ہو اور جو کچھ کہے وہ نرمى اور آہستگى سے کہے، چوتھى شرط ىہ ہے کہ وہ صابر، حلىم، بردبار، متواضع، نفسانى خواہشات کا روکنے والا صاحبِ حوصلہ اور نرم مزاج ہو۔(غنىة الطالبىن ص ۱۰۹)

آىتِ قرآنى سے اصلاح کرنے کا انداز :

اُدْعُ اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-

تَرجَمۂ کنز الایمان :اپنے رب کى طرف بلاؤ پکى تدبىر اور اچھى نصىحت سے اور ان سے اس طرىقہ پر بحث کرو جو سب سے بہتر ہو۔(پ۱۴، النحل: ۱۲۵)

اصلاح نرمى، پىار سے کرنى چاہىے، اىسا طرىقہ ہونا چاہىے جو قابلِ قبول ہو اور دل مىں اتر جانے والا ہو، لوگوں نے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر کتنے ظلم کىے اور کس کس طرح آپ کو ستاىا، لىکن آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اخلاقِ کرىمہ کى وہ مثال قائم کى جو آج تک کہىں سے بھى نہىں ملى ، آپ کے اخلاق کى وجہ سے لوگ جوق در جوق اسلام مىں داخل ہوگئے۔

دوسروں کى اصلاح سے پہلے بندہ اپنى اصلاح کرے، اپنے نفس کى اصلاح بہت ضرورى ہے، اپنے نفس کى اصلاح کرنے کے بارے مىں امام غزالى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے چار طرىقے بىان کىے ہىں:

۱۔ کسى اچھے صالح مرد کى صحبت اختىار کرے، ىعنى کسى عمدہ اخلاق والے کے پاس اٹھنا بىٹھنا اختىار کرے۔

۲۔ گھروں مىں نىکى کى دعوت عام کرے، ىعنى نىکى کى مجالس اختىار کرے۔

۳۔لوگوں کو دىکھتا رہے اور غور کرے کہ جو برائى ان مىں ہے وہ مىرے اندر تو نہىں اگر ہے تو اس کو دور کرنے کى کوشش کرے۔

۴۔ اپنے دشمن کى باتوں کو سنے ، اگر آپ کے دشمن نے آپ کى برائى بىان کى ہے تو اس کو اپنے اندر تلاش کرو، اگر ہے تو اس کو دور کرو اور اگر نہىں ہے تو اللہ کا شکر ادا کرو۔(احىا العلوم جلد۲)

اصلاح کرنے کے انداز مىں سب سے بہتر انداز وہ خلوت اور علىحدگى ہے، جو نصىحت تنہائى مىں کى جاتى ہے وہ دل پر زىادہ اثر کرتى ہے ، حضرت ابودردا ء رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہىں کہ جو آدمى لوگوں کے روبرو اپنے بھائى کو نصىحت کرتا ہے وہ اس کا عىب بىان کرتا ہے اور جو کسى کو تنہائى مىں نصىحت کرتا ہے وہ اس کو آراستہ کرتا ہے۔(غنىۃ الطالبىن)

اصلاح کرنے سے پہلے ىہ سوچنا ہوگا کہ آىا ىہ مىرى ذمہ دارى ہے ىا منوانا ہے، ذمہ دارى آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى تھى لىکن منوانا نہىں کىونکہ تبلىغ کے معنى پہچانا ہے نہ کہ منوانا ہے۔(سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اندازِ تبلىغ، ملفوظاتِ امىر اہلسنت)

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کے ڈىروں پر جا کر تبلىغ فرماتے مگر کوئى آپ کے تعاون کرنے مىں آگے نہ بڑھتا، آپ کے بے مثال حسن اخلاق، بے انتہا صبر و تحمل، حد درجہ عفو و درگزر اور جہد مسلسل وسعى پىہم کا ىہ اثر تھا کہ آخر کار عرب قبائل گروہ درگروہ حلقہ اسلام مىں داخل ہونے لگے ۔(سىرتِ رسول عربى ص ۹۷،۹۹)

اصلاح کرنے والے کے لىے مندرجہ ذىل صفات سے متصف ہونا ضرورى ہے:

۱۔ اىما ن محکم و ىقىن کامل

۲۔علم ِ دىن

۳۔عمل صالح

۴۔اخلاص و رضائے الٰہى

۵۔ اللہ عزوجل پر توکل

۶۔ اخلاق و کردار

۷،۔ صبر و تحمل، عفو و درگزر

۸۔ حکمت و حسن تدبىر

۹۔امربالمعروف و نہى عن المنکر

۱۰۔رحمتِ الٰہى سے پر امىد

(ملفوظاتِ امىر اہلسنت، قسط ۸)

آخر مىں اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ اللہ تعالىٰ ہمىں بھى احسن طرىقے سے اصلاح کرنے کى توفىق عطا فرمائے سب سے پہلے اپنى اور پھر دوسرے لوگوں کى۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صلوا على الحبىب صلى اللہ علىٰ محمد


فرضى حکاىت:

اىک دفعہ عائشہ اپنے کسى رشتہ دار کے گھر گئى وہاں محفلِ ذکر و نعت کى ترکىب تھى مگر اسے اس محفل مىں اىک لڑکى (فضىلت) ملى جو بہت اچھى تھى مگر اس محفل مىں اس نے بے ۔۔۔۔۔کىا ہوا تھا تو عائشہ نے بڑے پىارسے بات کا آغاز کىا،

عائشہ : السلام علىکم !

فضىلت :وعلىکم السلام !

عائشہ :کىسى ہىں آپ ؟

فضىلت :مىں ٹھىک آپ کىسى ہىں؟

عائشہ :اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ! اگر آپ برا نہ مانو تو اىک بات عرض کرنى ہے، اگر ممکن ہو تو مجھے اپنا کچھ وقت دے دىں گى ؟

فضىلت :ہاں ضرور ۔

عائشہ : اللہ پاک نے ہمىں عمدہ مخلوق مىں رکھا ىہ اس کا کرم بجا کرم ہے پر سوچنے کى بات ہے کہ ہم دنىا مىں مشغول ہو کر اس کا حق ادا کررہے ہىں کىونکہ سمندر تو بہت بڑا ہوتا ہے مگر جتنا ہاتھ اتنا پانى ہے اسى طرح خدا کى نعمتىں لا محدود ہىں اور ہم اتنا پاتے ہىں جتنا اىمان ہوگا۔

فضىلت :جى ہاں! بالکل آپ کى بات برحق ہے ۔

عائشہ :اب ہم حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى محفل مىں شرىک ہىں ان کا فىض لىنے کے لىے ۔

اور ىہ بات حق اور سچ بھى ہے حضور نے ہمىں سادگى کا حکم دىا ہے اور اس طرح زندگى گزارنى چاہىے۔

فضىلت :جى جى مىں بھى نىت کرتى ہوں کہ اب سے سادہ زندگى گزاروں گى ۔

عائشہ :جى وہ کہتے ہىں نہ کہ حقىقت تک تم آجاؤ معرفت تک تمہىں خدا خود لے جائے گا۔اور اگر آ پ کو مىرى کوئى بات برى لگے تو معذرت !

فضىلت :نہىں نہىں آپ نے مىرى رہنمائى کى ہے Thanks۔

عائشہ :اىک اوربات آپ Thanks کى بجائے جَزَاکَ اللہُ خیراً کہا کرىں اس مىں دو فائدے ہىں کہ شکرىہ بھى ادا اور دعا بھى اس پر دونوں مسکرائے۔

اس حکاىت سے معلوم ہوا کہ کسى کى اصلاح اىسے کرىں کہ آگے بندے کى دل آزارى نہ ہو بلکہ بات اثر کرے اور وہ عمل بھى کرے مسکراتے چہرے سے بات کرىں، حتى الامکان۔

کسى بزرگ کى حکاىت و رواىات بھى ذکر کرنى چاہىے اگر کوئى قران کى دلىل ہو وہ بھى پىش کرىں اور اىسى باتىں کرىں بندے کا دھىان آپ کى بات پر ہو، اور وہ راہِ حق پر آجائے۔


جس نے سب کے سامنے کسى کى اصلاح کى تو اس نے اسے ضائع کردىا اور جس نے تنہائى مىں اصلاح کى تو اس نے اسے سنوارا۔

عام طور پر اکثر والدىن واساتذہ کى عادت ہوتى ہے کہ بچے کو سب کے سامنے ڈانٹتے/جھاڑتے رہتے ہىں، اس طرح بچہ اپنى عزتِ نفس کے مجروح ہونے پر ڈھىٹ ہوجاتا ہے، اور اس پر نصىحت اثر نہىں کرتى۔

بعضوں کا خىال ہوتاہے کہ بچے کو اگر ڈانٹىں گے اور مارىں گے نہىں تو ان مىں سدھار کىسے آئے گا؟ ىعنى ان کے نزدىک اصلاح صرف ڈانٹ اور مار کے ذرىعے ہى ممکن ہے، ان کى خدمت مىں عرض ہے کہ کائنات کے سب سے بڑے مبلغ حضور پرنور شافع ىوم النشور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگوں کو نرمى کے ذرىعے سدھارا۔

بے جا سختى اور مار دھاڑ سے بچے کى شخصىت متاثر ہوجاتى ہے پھر ىا تو وہ ڈھىٹ اور سرکش ہوجاتا ہے اور اس کے اعصاب پر ہر وقت خوف طارى رہتا ہے کہ اگر ىوں ہوگىا تو مار پڑے گى، اگر ىہ کام درست انداز پر نہ کرسکا تو مار پڑے گى۔

دانشوروں کا کہنا ہے کہ : نرمى اور محبت سے جس قدر اصلاح کى جاسکتى ہے وہ مار دھاڑ سے ممکن نہىں اور جب اصلاح کرنے کا ارادہ کرىں تو پہلے اس کى اىک آدھ خوبى کا تذکرہ کرىں پھر ىوں بولىں کہ آپ ىوں کرلىں تو زىادہ اچھا ہوجائے گا۔ جىسے:

کسى بچے سے ىوں کہىں: بىٹا! آپ ماشا اللہ بہت ذہىن ہىں، آپ کى ذہانت مجھے خوشى دىتى ہے جب کوئى مجھے کہتا ہے کہ آپ کا بىٹا تو بہت ذہىن ہے۔ لىکن اگر آپ اپنے کپڑے بھى صاف ستھرے رکھا کرىں تو کىا ہى بات ہے۔

ان شا اللہ عَزَّ وَجَلَّ بچہ نرمى ومحبت بھرے لہجے سے متاثر ہوگا اور اس کے بہترىن نتائج سامنے آئىں گے۔ ان شا اللہ عَزَّ وَجَلَّ


اصلاح کرنا  بھی ایک فن ہے جو تجربات کی بھٹی میں پکنے اور حکمت عملی اپنانے سے آسکتا ہے

منقول ہے کہ مامون الرشید کو کسی نے نصیحت کی اور سختی سے پیش آیا تو وہ بولا" اے شخص نرمی اختیار کر کہ اللہ پاک نے تم سے بہتر یعنی حضرت موسی کلیم اللہ علی نبینا علیہ الصلوۃ السلامکو مجھ سے بد تر یعنی فرعون کے پاس بھیجا تو نرمی سے پیش آنے کا حکم دیا "چناچہ ارشاد فرمایا:

تَرجَمۂ کنز الایمان: "تو اس سے نرم بات کہنا اس امید پر کہ وہ دھیان کرے یا کچھ ڈرے (پ16 ،طہ آیت نمبر 44 )

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی میں

صحابی کی انفرادی کوشش مطبوعہ مکتبۃ المدینہ صفہ نمبر 73 میں اصلاح کرنے کا انداز کیسا ہونا چاہیے اس ضمن میں کچھ نکات مندرجہ ذیل ہیں

1۔ کسی کی اصلاح کی جائے تو اسکے نفس پر گراں گذرتی ہے اس لئے اصلاح کرنے والے کو چاہیے انتھائی نرم اور مختصر الفاظ میں سمجھائیں۔

2۔ جس وقت آپ کو غصہ آرہا ہو اس وقت کسی کی اصلاح نہ کیجئے پہلے غصے پر قابو پائیں پھر اصلاح کریں کیونکہ ہوسکتا ہے آپ غصے میں ضرورت سے زیادہ بول پڑیں ۔

3۔جس کسی کی اصلاح کرنی ہو پہلے اس کے اندر کسی خوبی کو تلاش کریں ایسا نہیں کہ کوئی شخص صرف اور صرف برائیوں کا مجموعہ ہو۔ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی اچھائی موجود ہوتی ہے پھر اصلاح کرنے سے پہلے اس کی اچھائی ذکر کریں اسطرح سامنے والے کے دل میں آپ کے لئے گنجائش پیدا ہوگی اب اگر آپ اس کی اصلاح کرنے کریں گے تو دل میں قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو چکی ہوگی۔

4۔ جسکی اصلاح مقصود ہو اس کا موڈ دیکھ لیجئے بعض مواقع اصلاح کرنے کے لئے نہیں ہوتے اور بعض اوقات طبیعت میں قبول کرنے کی صلاحیت میں نہیں ہوتی مثلا سامنے والا ابھی غصے کی کیفیت میں ہے یا چڑ چڑے پن کا شکار یا اردگرد کا ماحول ایسا نہیں کہ آپ اصلاح کر سکیں۔

5۔ اصلاح تنہائی میں کرنی چاہیے۔

6۔ جائز تعریف کرنے کے بعد اصلاح کریں اور آخر میں دعاؤں سے بھی نوازیں ۔


قرآن مجىد فرقانِ حمىد مىں اللہ پاک کا ارشاد ہے:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ

تَرجَمۂ کنز الایمان: تم بہتر ہو ان سب امتوں مىں جو لوگوں مىں ظاہر ہوئى بھلائى کا حکم دىتے ہو اور برائى سے منع کرتے ہو۔(پ۴، آل عمران:۱۱۰)

حضرت سىدنا موسىٰ علیہ السَّلام نے اللہ عزوجل کى بارگاہ مىں عرض کىا :

ىا اللہ! جو اپنے بھائى کو بلائے اور اسے نىکى کا حکم کرے اور برائى سے روکے اس کى جزا کىا ہے، فرماىا مىں اس کى ہر بات پر اىک سال کى عبادت کا ثواب لکھتا ہوں اور اسے جہنم کى سزا دىتے مجھے حىا آتى ہے۔

حدىث پاک مىں ارشاد ہوتا ہے، نىکى کى طرف راہنمائى کرنے والا نىکى کرنے والے کى طرح ہوتا ہے۔( نىک بننے اور بنانے کے طرىقہ)

درجِ بالا آىتِ قرآنى اور حدىث پاک مىں ہم نے نىکى کى دعوت کے فضائل سنے۔

کسى کى اصلاح کرنا اس کى برى عادتوں کو چھڑا کر اچھے راستے پر گامزن کرنا بھى نىکى کى دعوت ہے۔

لىکن کسى کى اصلاح کرنا کسى کو نىکى کى دعوت پىش کرنا ہو تو انداز ہمىشہ نرمى والا اختىار کرىں۔

۱۔جارحانہ انداز سے بچىں ، کسى کو سختى سے سمجھانے کى مثال اىسے ہے جىسے آپ جس برتن مىں کچھ ڈالنا چاہىں تو پہلے ہى اس کے پىندے مىں سوراخ کردىں۔

۲۔ہے فلا ح و کامرانى نرمى و آسانى مىں

ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں

۳۔اصلاح کرتے ہوئے انداز گفتگو سادہ اور دلچسپ ہونا چاہىے ، ضرورتا دورانِ گفتگو مسکراتے رہىں۔

۴۔ بے جاتنقىد، تذلىل ىا حوصلہ شکنى سے بچتے رہىے ، بے مقصدگفتگو سے بچئے۔

۵۔ اصلاح کرتے وقت دوسروں کو نصىحت کرنے کى بجائے ىہ تصور کرىں کہ خود اپنے آپ کو سمجھارہا ہے۔

۶۔کسى کى اصلاح کرتے ہوئے کسى معىن شخص کى غىبت ىا کسى بھى سىاسى اور غىر سىاسى جماعت پر تنقىدغىبت اور مَعَاذَ اللہ !بہتان سے بچا جائے۔

۷۔ جس کى اصلاح کررہے ہىں اس کى اچھائىوں پر اس کى حوصلہ افزائى کى جائے۔اور احسن انداز مىں بر ائىاں چھوڑنے کا ذہن دىا جائے۔

۸۔ ىاد رہے کہ ہمارا کام کرکے دکھانا نہىں فقط کوشش کىے جانا ہے، کامىابى دىنے والى ذات ربِ کائنات عزوجل کى ہے۔

۹۔ہمارا کام منوانا نہىں بس نىکى کى دعوت دىنا ہے، اللہ عزوجل جسے چاہے ہداىت عطا فرمائے۔

۱۰۔ جس کى اصلاح کررہے ہىں اس کى برائىوں کو بلاوجہ شرعى دوسروں کے سامنے بىان کرنا گناہ ہے، جتنا ہوسکے مسلمان کے عىوب پر پردہ ڈالنے کى کوشش کى جائے۔

۱۱۔مذاق مسخرى، طنز بازى، دل آزارى سے بچتے رہىے۔

اللہ عزوجل ہمىں اپنى اور سارى دنىا کے لوگوں کى اصلاح کا جذبہ نصىب فرمائے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم