جس نے سب کے سامنے کسى کى اصلاح کى تو اس نے اسے ضائع کردىا اور جس نے تنہائى مىں اصلاح کى تو اس نے اسے سنوارا۔

عام طور پر اکثر والدىن واساتذہ کى عادت ہوتى ہے کہ بچے کو سب کے سامنے ڈانٹتے/جھاڑتے رہتے ہىں، اس طرح بچہ اپنى عزتِ نفس کے مجروح ہونے پر ڈھىٹ ہوجاتا ہے، اور اس پر نصىحت اثر نہىں کرتى۔

بعضوں کا خىال ہوتاہے کہ بچے کو اگر ڈانٹىں گے اور مارىں گے نہىں تو ان مىں سدھار کىسے آئے گا؟ ىعنى ان کے نزدىک اصلاح صرف ڈانٹ اور مار کے ذرىعے ہى ممکن ہے، ان کى خدمت مىں عرض ہے کہ کائنات کے سب سے بڑے مبلغ حضور پرنور شافع ىوم النشور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگوں کو نرمى کے ذرىعے سدھارا۔

بے جا سختى اور مار دھاڑ سے بچے کى شخصىت متاثر ہوجاتى ہے پھر ىا تو وہ ڈھىٹ اور سرکش ہوجاتا ہے اور اس کے اعصاب پر ہر وقت خوف طارى رہتا ہے کہ اگر ىوں ہوگىا تو مار پڑے گى، اگر ىہ کام درست انداز پر نہ کرسکا تو مار پڑے گى۔

دانشوروں کا کہنا ہے کہ : نرمى اور محبت سے جس قدر اصلاح کى جاسکتى ہے وہ مار دھاڑ سے ممکن نہىں اور جب اصلاح کرنے کا ارادہ کرىں تو پہلے اس کى اىک آدھ خوبى کا تذکرہ کرىں پھر ىوں بولىں کہ آپ ىوں کرلىں تو زىادہ اچھا ہوجائے گا۔ جىسے:

کسى بچے سے ىوں کہىں: بىٹا! آپ ماشا اللہ بہت ذہىن ہىں، آپ کى ذہانت مجھے خوشى دىتى ہے جب کوئى مجھے کہتا ہے کہ آپ کا بىٹا تو بہت ذہىن ہے۔ لىکن اگر آپ اپنے کپڑے بھى صاف ستھرے رکھا کرىں تو کىا ہى بات ہے۔

ان شا اللہ عَزَّ وَجَلَّ بچہ نرمى ومحبت بھرے لہجے سے متاثر ہوگا اور اس کے بہترىن نتائج سامنے آئىں گے۔ ان شا اللہ عَزَّ وَجَلَّ