مقولہ(کہاوت) ہے کہ انسان خطا کا پتلا ہے۔ انسان جتنی بھی کوشش کرلے کہیں نہ کہیں غلطی ہوجاتی ہے۔ اب یہ بات ضروری نہیں کہ خود کو معلوم بھی ہو کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ اس لیے دوسروں کو چاہیے کہ اس شخص کی غلطی اس کو بتا کر اس انداز سے اُس کی اصلاح کریں کہ اُسے برا بھی نہ لگے اور بات وہیں پر ٹھیک ہوجائے۔ لیکن اصلاح کرنے میں انداز ایسا ہوجاتا ہے کہ معاملہ ٹھیک ہونے کے بجائے مزید بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے اصلاح کرتے ہوئے ان چند باتوں ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے۔

اصلاح کرنے میں بات کرنے کا انداز نرم ہونا چاہیے کیونکہ نرمی سے گفتگو کرنے سے سامنے والا بات کو لے گا، جبکہ سختی سے سمجھانے میں وہ بات لے گا کیا، اُلٹا سمجھانے والے کی "اصلاح" کردیگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ معلوم بھی ہو کہ آیا جو مجھے اُس کی خطا لگ رہی ہے وہ حقیقت میں خطا ہے بھی یا نہیں؟ ایسے ہی موقع اور جگہ کو بھی دیکھنا ہوگا کہ کس موقع پر سمجھانا ہے کونسی جگہ پر سمجھانا ہے۔ کیونکہ غلط موقع پر یا سب کے سامنے اصلاح کرنے لگ گئے تو معاملہ بہت خراب ہوسکتا ہے۔

یہ بات بہت ہی اچھے انداز میں سورة النحل آیت نمبر 125 کے تحت تفسیر صراط الجنان میں مفتی قاسم صاحب نے ارشاد فرمائی ہے :

   امربالمعروف کے لیے پانچ چیزوں  کی ضرورت ہے۔ ( ۱) علم:   کیونکہ جسے علم نہ ہو وہ اس کام کو اچھی طرح انجام نہیں  دے سکتا۔ ( ۲) اس سے مقصود رضائے الٰہی اور دینِ اسلام کی سربلندی ہو۔ (  ٣) جس کو حکم دیتا ہے اس کے ساتھ شفقت و مہربانی کرے اور نرمی کے ساتھ کہے۔ ( ۴)   حکم کرنے والا صابر اور بُردبار ہو۔ ( ۵)    حکم کرنے والا خود اس بات پر عامل ہو، ورنہ قرآن کے اس حکم کا مِصداق بن جائے گا، "کیوں کہتے ہو وہ جس کو تم خود نہیں   کرتے" الله عزوجل کے نزدیک ناخوشی کی بات ہے یہ کہ ایسی بات کہو، جس کو خود نہ کرو۔ اور یہ بھی قرآنِ مجید میں فرمایا کہ ’’کیا لوگوں  کو تم اچھی بات کا حکم کرتے ہو اور خودا پنے کو بھولے ہوئے ہو"۔  

یہ حقیقت ہے کہ اکثریت کو اصلاح کرنا نہیں آتا۔ نہیں تو معاشرہ جہاں ہے وہاں نہ ہوتا۔ دوسروں کی اصلاح کرنے کا جذبہ تو بہت سوں کو ہوتا ہے لیکن اپنی اصلاح کرنے کا جذبہ نہیں ہے۔ دوسروں کی اصلاح بعد میں کریں پہلے خود کو سدھار لیں ہو سکتا ہے آپ کو سدھرتا دیکھ کر دوسرے بھی سدھر جائیں اور ایسا ہوا بھی ہے۔ بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ڈاکوؤں کے سردار نے توبہ کی تو اس کے ساتھیوں نے بھی توبہ کرلی۔ بادشاہ اسلام لایا ےتو پوری رعایا مسلمان ہوگئی۔ معاشرہ فرد سے بنتا ہے اس لیے دوسروں کی اصلاح میں پہلے اپنی اصلاح ہے۔ اپنے آپ کو سدھاریں اور معاشرہ بھی خود بخود صحیح ہو جائے گا۔