قرآن پاک نے جہاں اپنى اصلاح کرنے کا حکم دىا وہىں
اپنے گھر والوں کى اصلاح کرنے کا حکم ارشاد فرماىا ہے، چنانچہ ا رشادِ ربانى ہے:
یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا
النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ
تَرجَمۂ کنز الایمان:اے اىمان والو! اپنى جانوں اور
اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا اىندھن آدمى اور پتھر ہىں۔(پ۲۸، التحریم:۶)
اصلاح تو کرنى ہے پر سوال پىدا ہوا کہ اصلاح کا انداز
کىسا ہونا چاہىے؟کہ اصلاح کا رگر بھى ہو اور موثر بھى۔
اس کے لىے سب سے اہم بات اپنا کردار پاکىزہ رکھنا ، اگر
آپ باعمل حسن اخلاق اور اعلىٰ کردار کے مالک ہوں گے تو اِنْ شَآءَ اللہ !آپ کى بات جلد موثر ہوگى اس طرح آپ
اصلاح مىں کامىاب ہوں گے۔
نرمى کو لازم کرلىں ، جس طرح سونا نرم ہو کر زىور
بنتا ہے نرمى کى بدولت انسان کے اندر رحمت، شفقت شائستگى ، مہربان آسانى کے پھول
کھلتے ہىں ۔مومن کا دل نرم ہوتا ہے تو وہ دنىا و آخرت کى بھلائىاں پالىتا ہے، نرمى
سے اصلاح آسان ہوجاتى ہے دل مىں بھى اثر کرتى ہے۔
ہے فلاح و کامرانى نرمى و آسانى مىں
ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانى مىں
اىنٹ کا جواب پتھر سے نہ دىں ،آپ نے کسى کى اصلاح کى
تو اس نے آپ کى بات قبول کرنے کے بجائے آپ کو برا بھلا کہا تو صبر صبر صبر کىجئے
ثواب ِ آخرت کے حق دار بنىں۔ وہ لوگ بڑے خوش نصىب ہىں جو اىنٹ کا جواب پتھر سے
دىنے کے بجائے ظلم کرنے والوں کو معاف کردىتے اور برائى کو بھلائى سے ٹالتے ہىں
(جنتى محل کا سودا، ص ۳۵)
دل کى اصلاح کرىں ، ىقىن جانىے اگر آ پ کسى کى اصلاح
کرنا چاہتے ہىں تو اپنے اس پر خود عمل کرىں پھر دوسروں پر اگر وہ آپ کا دل قبول
کرىں تو دوسروں کى اصلاح کرىں دل کى اصلاح سب سے مشکل کام ہے کىونکہ باعمل کى
بات دل سے نکلتى ہے اور دل تک پہنچتی ہے جبکہ
بے عمل زبان سے بولتا ہے اس کى بات منہ سے نکلتى ہےکان تک پہنچتى ہے، اثر نہىں
کرتى چنانچہ ارشاد سىدنا باىزىد بسطامى رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ ہے کہ مىں نے اپنے دل زبان اور نفس کى اصلاح کے
لىے دس دس سال صرف کىے اب مىں مجھے سب سے زىادہ مشکل دل کى اصلاح معلوم ہوئى ۔
(منہاج العابدىن ص ۹۸)
منقول ہے کہ اعلىٰ حضرت سے کسى نے بىان پر اصرار کىا
تو آپ نے بطورِ عاجزى فرماىا : مىں ابھى اپنے نفس کو وعظ نہىں کہہ پاىا دوسروں کو
وعظ کے کىا لائق ہوں۔ (فىضانِ امىر اہلسنت ص ۷۵)
لوگوں کى سمجھ کے مطابق کلام ، لوگوں سے ان کى سمجھ
کے مطابق کلام کرىں تاکہ ان کى سمجھ مىں بھى آئىں اگر آپ اىسا کلام کرىں گے جو ان
کى سمجھ سے بالاتر ہوگا تو وہ آپ سے دور بھاگىں گے، اصلاح کے انداز مىں ىہ بھى شامل ہے کہ لوگوں کو ان کى سمجھ کے مطابق کلام
کرىں، مشہور مقولہ ہے: کلمو ا الناس على قدر عقولہمیعنی کہ لوگوں سے ان کى عقلوں کے
مطابق کلام کرو۔
کوفہ مىں اىک شخص ا مىر المومنىن حضرت عثمانِ غنى رضی اللہ تعالٰی عنہ کى شان مىں
بکواس کرتا تھا اس کو ىہودى کہتا، امام اعظم اس شخص کے پاس تشرىف لائے اصلاح
فرمائى اس طرح کہ آپ کى بىٹى کے لىے رشتہ لاىا ہوں، لڑکا متقى عبادت گزار خوفِ خدا
والا ہے ىہ سن کر وہ شخص بولا: اىسا داماد تو ہمارے لىے سعادت مندہے، امام اعظم نے
فرماىا اس مىں اىک عیب ہے وہ ىہودى ہے ،اس پر وہ شخص غضب ناک ہوا امام اعظم نے
نرمى اختىار فرمائى اوراصلاحى جملہ ارشاد فرماىا آپ خود اپنى بىٹى ىہودى کے نکاح
مىں دىنے کے لىے راضى نہىں تو اللہ کے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم یکے بعد دىگرے دو شہزادىاں کسى ىہودى کے نکاح مىں
کىسے دے دىں گے ىہ سن کر اس کى عقل ٹھکانے لگى اس نے آئندہ جامع القرآن حضرت عثمان
رضی اللہ
تعالٰی عنہ کى مخالفت نہ کى ۔(المناقب الکردرى، ج ۱، ص ۱۶۱)