ارشادخداوندى ہے :

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

تَرجَمۂ کنز الایمان :تم بہترہو ان سب امتوں مىں جو لوگوں پر ظاہر ہوئىں بھلائى کا حکم دىتے ہو، برائى سے منع کرتے ہو، اور اللہ عزوجل پر اىمان رکھتے ہو۔(پارہ ۴، سورہ ال عمران آىت ۱۱۰)

الحدىث : قىامت کے دن سب نبىوں سے زىادہ مىرى امت ہوگى۔(مسلم ،صفحہ ۱۲۸، حدىث نمبر۳۳۱)

مفسر شہىر حکىم الامت اس حدىث کے تحت فرماتے ہىں کہ جنتىوں کى 120 صفىں ہوں گى جس مىں سے 80 صفىں حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى امت کى ہوں گى اور باقى 40 صفوں مىں سارے نبىوں کى امتىں (علیہ السلام)۔مفتى احمد ىار خان علیہ الرحمہ الحنان اىک اور جگہ لکھتے ہىں ، جىسے حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام نبىوں کے سردار ہىں، اىسے ہى حضور صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم کى امت سارى امتوں کى سردار ہے۔اللہ رب العالمىن کا کروڑ ہا کروڑ احسان ہے کہ اس نے ہمىں انسان بناىا اور مسلمان اور سب سے بڑھ کر اپنے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کى امت مىں پىدا فرماىا، اللہ عزوجل نے اس امت کو دنىا و آخرت مىں رفعت و منزلت ، شان و عظمت اور سعادت و شرافت عناىت فرمائى ہے اس کا اىک سبب اس امت کا

(ىعنى نىکى کا حکم کرنے اور برائى سے منع کرنے) کے فرىضے خو ادا کرنا بھى ہے۔

ہر مسلمان اپنى اپنى جگہ مبلغ ہے خواہ وہ کسى بھى شعبے سے تعلق رکھتا ہو، ىعنى وہ عالم ہو ىا متعلم (ىعنى طالبِ علم) امام مسجد ہو ىا مؤذن، پىر ہو ىا مرىد، تاجر ہو ىا گاہک، سىٹ ہو ىا ملازم، افسر ہو ىا مزدور، حاکم ہو ىا محکوم، الغرض جہاں جہاں وہ رہتا ہو کام کاج کرتا ہو رضائے الٰہى کے لىے اچھى نىتوں کے ساتھ اپنى صلاحىت کے مطابق اپنے گردو پىش کے ماحول کو سنتوں کے سانچے مىں ڈھالنے کے لىے کوشاں ( ىعنى کوشش کرنے والا) رہے اور اصلاح کا کا م جارى رکھے۔

اصلاح کے ىے تىن چىزىں ضرورى ہىں۔

۱۔نرمى

۲۔حکمتِ عملى

۳۔ صبر، کىونکہ اگر غلطى کرنے والے کى اصلاح غصے ىا نفرت سے کرىں گے تو اسے برا لگے گا اور اصلاح بھى نہىں ہوگى۔

٠ىہ بھى نہىں ہونا چاہىے کہ اسے اس کے اپنے حال پر چھوڑ دىا جائے ، پڑھے گا تو پڑھ لے گا نہىں تو نہ پڑھے۔نہىں اىسا نہىں ہونا چاہىے نىکى کى دعوت سنتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے اس لىے اسے کرنا ضرورى ہے۔

٠اصلاح کوئى کھىل (GAME) نہىں کہ اور ختم ہوجائىں گے تو اصلاح کا وقت ختم ہوجائے ، کوئى بھى بات کسى بھى وقت اصلاح کا سبب بن سکتى ہے۔

کوشش جارى رکھنى چاہىے ہاں مگر زبردستى بھى نہىں کرنى چاہىے کہ ہم کسى کو مار مار مار مسلمان نہىں کرسکتے، مگر نرمى سے سمجھانے مىں کوئى حرج نہىں، نرمى پر بہت سارى احادىث ہىں۔

جىسا کہ اىک مرتبہ اىک دىہاتى نے مسجد مىں آکر پىشاب کردىا صحابہ کرام جلال مىں آگئے مگر سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انہىں روک لىا اور پھر پانى منگوا کر پىشاب کو صاف کرواىا اور پھر اسے نرمى سے سمجھاىا کىونکہ وہ اعرابى دىہاتى تھااسے اس بارے مىں معلوم نہ تھا کہ مسجد اس چىز کے لىے نہىں ہے۔

اسى طرح اىک مرتبہ بارگاہِ نبوى مىں حاضر ہوا عرض کىا اے اللہ کے رسول! تمہىں تو اللہ نے بہت دىا ہے تم مجھے دو مىرے اونٹوں کو لادو اور بھى بہت سارے مطالبے کىے، سرکار علیہ السَّلام نے سارے مطالبے پورے کىے ، فرماىا کىا مىں تىرے ساتھ کوئى بھلائى کى ، کہتا ہے آپنے تو مىرے ساتھ کوئى بھلائى نہىں کى، صحابہ کرام بڑھے ، سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے روک لىا اس آدمى کو اندر لے کے گئے، اس کى ذہن سازى کى سمجھاىا پھر اسے عطا کىا پھر فرماىا کىا مىں نے تىرے ساتھ کوئى بھلائى کى، اب تو اس نے خوبصورت جملے ادا کىے کہ اللہ آ پ کو جزا دے آپ کو خوب نوازے اور بھى بہت سارے، ىہ سب کچھ صرف سرکار کے نرمى و محبت والے لہجے کى وجہ سے ہوا۔

نرمى، محبت، صبر، پىار، حکمتِ عملى اپنائىں، استاد کے لىے بھى سختى کہىں کہىں مىں اکثر نرمى کا حکم دىا گىا ہے، نرمى (Politnese) پر بہت سارى احادىثِ مبارکہ مروى ہىں۔

من ضَحِکَ ضُحِکَ مطلب کہ جو ہنستا ہے ہنساىا جاتا ہے کہ آج ہم کسى کى ہنسى اڑا رہے ہىں کل کوئى ہمارا مذاق اڑائے گا۔

مسلمان کے عىب چھپانے پر بھى بہت سارى احادىث ہىں کہ جو دنىا مىں کسى کے عىب ظاہر کرے اللہ اس کے عىب قىامت کے دن سب پر کھولے گا، بعض اوقات دنىا مىں بھى عىب کھل جاتے ہىں اور وہ بے ابرو ہوجاتا ہے۔

اس لىے اصلاح اکىلے مىں کرنى چاہىے جىسا کہ حدىث مبارکہ سے بھى ثابت ہوا۔

حضرت ام دردا رء رضی اللہ تعالٰی عنہا فرماتى ہىں کہ جس نے کسى کے عىب کى چپکے سے اصلاح کى اس نے تو اسے سدھارا مگر جس نے سب کے سامنے اصلاح کى اس نے اسے بگاڑا۔

سمجھنے والے کے لىے :

اگر کوئى شخص کسى کو آکر کہے کہ تجھے ىہ بىمارى ہے، ہے تىرے کپڑوں پر ىہ کىڑا چل رہا ہے، جو اسے معلو م نہ ہو تو سمجھنے والا اسے کىا کہے گا، اپنا خىر خواہ ىا بدخواہ اس سے ناراض ہوگا ىا خوش، جب ىہ جسمانى نقصان کے بتانے والے سے ناراض نہىں ہوتا تو اگر کوئى سمجھانے کى کوشش کرتا ہے تو اسے اچھى نىت کے ساتھ اچھے انداز سے سمجھائے۔

خلاصہ : اس بات کا خىال رکھا جائے کہ سمجھانے والے کا طرىقہ بہترىن ہو سامنے والے کے لىے قابلِ قبول ہو اس کے دل مىں اترنے والا ہو نا کہ اىسا طرىقہ جو کہ سامنے والا بجائے سمجھنے کے ناراض ہو بدظن ہو اور ہم سے دور ہوجائے۔ رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا انداز احادىث مىں ایک نہىں سىنکڑوں حتى کہ سوال کرنے والے ىا غلط کام کرنے والوں نے کس حد تک برا کىا مگر سرکار علیہ السَّلام کا سمجھانے کا انداز اس قدر د ل نشىن اور پىارا تھا کہ وہ جو گناہ کا مرتکب انسان تھا وہ دل و جان سے اس بات کو سمجھ کر گىا۔ انداز ہو تو اىسا۔