قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے اپنے معزز و مکرم انبیاء کرام علیہم السلام کا کئی مقامات پر تذکرہ فرمایا ہے اور ان کی شان و عظمت اور صفات کمالیہ کا اظہار فرمایا ہے ۔ لیکن یادرہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ نہیں فرمایا بلکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ انہی میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں کہ جن کا قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے 4 بار ذکر خیر فرمایا ہے ۔ سورۃ النساء،آیت:163 ، سورۂ انعام،آیت:85 ، سورۃ الانبیاء،آیت:83٫84 ، سورۂ ص،آیت:41 تا 44 ۔

آئیے سب سے پہلے حضرت ایوب علیہ السلام کا تعارف جانتے ہیں :

نام و نسب : آپ علیہ السلام کا نام پاک ”ایوب“ ہے اور نسب نامہ سے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے: ایوب بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام (سیرت انبیاء ،ص:477) والدہ محترمہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔ زوجہ کا نام ”رحمت“ ہے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے افرائیم کی شہزادی تھیں۔

حلیہ مبارک : آپ علیہ السلام کے بال گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکھیں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی، سینہ چوڑا، پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا۔ (سیرت انبیاء،ص:477)

مال و دولت کی فراوانی : علماء تفسیر و تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال تھے جن میں باندی، غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران تک وسیع اراضی شامل ہے۔ یو نہی آپ علیہ السلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی تھی۔ (سیرت انبیاء،ص:477)

معزز قارئین کرام ! آئیے اب قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں حضرت ایوب علیہ السلام کے اوصاف ملاحظہ کرتے ہیں :

حضرت ایوب علیہ السلام کے قرآنی اوصاف : آپ علیہ السلام انتہائی عمدہ اوصاف کے مالک تھے ، جیسے

(1 تا 3) مصائب پر بہت صابر ، بہت ہی اچھے بندے اور اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع لانے والے :ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (پ:23،ص:44)ترجمہ کنز العرفان : بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

دیکھا آپ نے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے اوصاف حمیدہ کو اللہ تبارک و تعالی نے کس خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ محترم قارئین کرام ! معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک کے برگزیدہ ہستیوں کا یہ انداز ہے تو ہمیں تو بدجہ اولی اس انداز کو اپنانا چاہیے ۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی اللہ جلا و علا کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں صبر کا دامن تھامے رہیں اور ہر حال میں شکر الہی بجالاتے رہیں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں کثرت سے توبہ و استغفار کی عادت بنائیں تا کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے ۔

مجھے ایسے عمل کی دے توفیق

کہ ہو راضی تری رضا یارب

(4) قبولیت دعا : اللہ جلا و علا نے حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک عرصہ تک آزمائش میں مبتلا فرمایا اور آزمائش میں ثابت قدم رہنے کے بعد آپ علیہ السلام کی دعا کو قبول بھی فرمایا ۔ ارشاد باری تعالی ہے: فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(پ:17، انبیاء:84) ترجمہ کنز العرفان: تو ہم نے اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔

معلوم ہوا کہ اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں اور مایوس نہ ہوں بلکہ پر امید رہیں کہ اللہ کریم ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے گا ۔

یاد رہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلاء کئے جانے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں ،ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالی نے کسی خطا کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں مبتلا نہیں کیا بلکہ آپ علیہ السلام کے درجات (مزید) بلند کرنے کیلئے آزمائش میں مبتلا کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: 41، ص:1023)

ویسے تو حضرت ایوب علیہ السلام کے بارے میں کئی واقعات مذکور ہیں جن کی اس مختصر میں گنجائش نہیں ، لیکن حصول برکت کیلئے آئیے حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ رضی اللہ عنھا کا ایک واقعہ سنتے ہیں ؛

حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت الہی: بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے گئیں تو دیر سے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس پر آپ علیہ السلام نے قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔جب حضرت ایوب علیہ السلام صحت یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ علیہ السلام انہیں جھاڑو مار دیں اور اپنی قسم نہ توڑیں ،چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام نے سَو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔( بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: 44، 5 / 49، جلالین، ص، تحت الآیۃ: 44،ص383، ملتقطاً)

فرمانِ باری تعالی ہے : وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔

حضرت ایوب علیہ السلام کے قسم کھانے کا ایک سبب اوپر بیان ہوا اور دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام اللہ تعالی کے پیارے نبی ہیں کہ آزمائش وابتلاء کے دور میں آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم السلام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں نے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب علیہ السلام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کر لائی ہیں ،اس پر آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں گا۔( فتاوی رضویہ، رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، 13 / 526) آگے کی تفصیل وہی ہے جو اوپر بیان ہوئی۔

حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرین نے حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت اورتخفیف کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بیماری کے زمانہ میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو ا س کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔ (سیرت انبیاء ،ص:483,484)

وفات : حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں: آزمائش ختم ہونے کے بعد حضرت ایوب علیہ السلام نے ستر سال نعمت وراحت میں زندگی بسر کی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیرا ر ہے۔ آپ کی اولاد اور قوم بھی اسی دین پر کار بند رہی یہاں تک کہ حضرت ایوب علیہ السلام کی وفات سے کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنا دین بدل دیا۔ (سیرت انبیاء،ص:484)

بعض علماء کے نزدیک 93 سال کی عمر میں اور بعض کے نزدیک ان سے زیادہ برس کی عمر میں حضرت ایوب علیہ السلام نے وفات پائی۔ (البدایہ والنہایہ ،قصۃ ایوب علیہ السلام ، 312/1)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے صدقے مصائب پر صبر کرنے والوں ، ہر حال میں شکر ادا کرنے والوں اور اپنی طرف رجوع لانے والوں میں شامل فرمائے اور اپنی رضا پر راضی رہنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم

مُشکِلوں میں دے صبر کی توفیق

اپنے غم میں فَقَط گُھلا یارب


آپ علیہ السلام حضرت اسحاق کے بیٹے عیص کی نسل میں سے ہیں اور والدہ ماجدہ کا تعلق حضرت لوط علیہ السلام کے خاندان سے ہے۔ آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے مال مویشی، چوپائے غلام ، کھیت وغیرہا وسیع عریض زمین کے علاؤہ کئی بیویاں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا ۔ ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے بھی آپ یاد الٰہی میں مشغول رہے نعمتوں پر شکر کرتے رہے ،دنیا کی دولت زیب و زینت انہیں یاد الٰہی سے غافل نہ کرسکی۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر آزمائش آنا شروع ہوئی مگر آپ صبر سے برداشت کرتے رہے ،یہاں تک کے تمام اموال اولاد ختم ہو گی ،لیکن آپ کا صبر اور بڑھتا گیا کم نا ہوا یہاں تک کے آپ کا صبر ضرب المثال بن گیا، بالآخر آپ نے بارگاہ الہٰی میں دعا کی تو آزمائش ختم ہو گی ، صبر شکر کے صلہ میں شفا کی نعمت ملی اور اللہ تعالیٰ نے پہلے سے زیادہ مال و اولاد عطا فرما دیئے۔ قرآن مجید میں جن کی آزمائش کا واقع بیان کیا گیا ہے ان میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السلام بھی ہیں ۔

آئیے قرآن مجید کی روشنی میں آپ علیہ السلام کی قرآنی صفات کا مطالعہ کرتے ہیں:

مصیبت میں صبر کرنے والے : اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ ترجمہ کنزالایمان: بے شک ہم نے اسے صابر پایا (پارہ 23، سورة ص، آیت نمبر 44)

بہت اچھے بندے: نِعْمَ الْعَبْدُ ترجمہ کنزالایمان: کیا اچھا بندہ ( پارہ 23 ، صورة ص ، آیت نمبر 44) آپ علیہ السلام مسکینوں پر رحم کرتے ، یتیموں کی کفالت فرماتے ، بیواؤں کی امداد کرتے مہمانوں کے ساتھ عزت وتکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے ۔ اللہ عزوجل کی فرمانبرداری و اطاعت بجا لاتے تھے۔ ( سیرت الانبیاء ، صفحہ نمبر 478)

بہت رجوع لانے والے : اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ ترجمہ کنزالایمان:بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔( پارہ 23 ، سورة ص، آیت نمبر 44)

پتا چلا کے سارے کام اللہ عزوجل کی توفیق سے ہی بنتے ہیں ۔ ہمیں بھی چاہیے کے جب بھی کسی قسم کی مصیبت آ جائے ۔ صبر صبر اور صبر کرنا چاہیے ۔ جب بھی کوئی مصیبت یا پریشانی آئے تو شکوہ شکایات کے بجائے صبر سے کام لیں اور اللہ عزوجل کی نعمتوں کو یاد کریں۔

کریم مالک سے دعا ہے کہ اللہ عزوجل و حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کے صدقے ہمیں بھی خوب صبر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم ۔


پیارے پیارے اسلامی بھائیوں انبیاء کرام اللہ پاک کے وہ خاص بندے ہیں جنہوں نے دین کی تبلیغ کرنے کے لیے بہت سی انذ یتے اور تکلیفیں جھیلی اور ان پر صبر و تحمل بھی کیا اور ایسا صبر جس کے قائم مقام کسی نے صبر نہیں کیا حضرت ایوب علیہ السلام نے بھی بہت سی تکلیفیں چھیلی اور ان پر صبر کیا آپ علیہ السلام حضرت اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔ آئیے آپ علیہ السلام کا تذکرہ خیر پڑھتے ہیں :

(1) ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں: وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (84)الانعام ۔  ترجمۂ کنز العرفان : اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو(ہدایت عطا فرمائی) اور ایسا ہی ہم نیک لوگوں کو بدلہ دیتے ہیں۔

(2) یہ ہمارے خاص بندے ہیں : كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ(85) الانعام  ترجمۂ کنز العرفان: یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں ۔

(3) تو رحم والا ہے: وَ اَیُّوْبَ اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَ اَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ الانبیا (83)  ترجمۂ کنز العرفان:اور ایوب کو (یاد کرو) جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ بیشک مجھے تکلیف پہنچی ہے اور تو سب رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔

(4)زمین پر اپنا پاوں ماریں: اُرْكُضْ بِرِجْلِكَۚ-هٰذَا مُغْتَسَلٌۢ بَارِدٌ وَّ شَرَابٌ(ص آیت42)  ترجمۂ کنز العرفان: ۔ (ہم نے فرمایا:) زمین پر اپنا پاؤں مارو۔یہ نہانے اور پینے کیلئے پانی کا ٹھنڈا چشمہ ہے۔

(5) آپ علیہ السلام کو صبر کرنے والا پایا : وَ خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْؕ-اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ( ص آیت44)  ترجمۂ کنز العرفان اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔ بے شک ہم نے اسے صبر کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

اللہ تعالی ہمیں انبیاء کرام علیہ الصلوۃ والسلام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔امین 

رب تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو ان کے دین کے مطابق آزمائش میں مبتلا فرماتا ہے اور یہ آزمائش ناراضی نہیں بلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں عزت و قرب اور بلندیِ درجات کی دلیل ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ کے سب سے محبوب و مقربین بندے چونکہ انبیائے کرام علیہمُ السّلام ہوتے ہیں اس لئے ان پر آزمائش بھی سب سے زیادہ آتی ہے۔ پھر توفیقِ الٰہی سے حضراتِ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کا ان آزمائشوں پر صبر و رضا کا دامن تھامنا تمام بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ان مبارک ہستیوں کی زندگیاں ہوتی ہی کامل اُسوۂ حسنہ ہیں۔ قراٰنِ مجید میں جن کی آزمائش کے واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک حضرت ایوب علیہ السّلام بھی ہیں۔

آپ کا نامِ مبارک ”ایوب“ ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی آل پاک سے ہیں۔ آپ کو اللہ پاک نے تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال سے جن میں باندی، غلام، مویشی دیگر جانور اور وسیع و عریض زمین کے علاوہ کئی بیویاں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا۔(دیکھئے:سیرت الانبیاء، ص477)

آپ کا ذکرِ خیر قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر کیا گیا ہے، آپ کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں، احسانات اور اوصافِ حمیدہ سے نوازا ہے۔ آئیے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید کی روشنی میں آپ کی قراٰنی صفات کے بارے میں جانتے ہیں:

(1)مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے: ﴿اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے اسے صابر پایا۔(پ 23، صٓ: 44)

آپ علیہ السّلام کی آزمائش جس قدر شدید ہوتی گئی، صبر و استقامت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔ مفتی قاسم صاحب لکھتے ہیں: جب آپ کے تمام اموال ختم ہو گئے، مویشی و چوپائے سب مر گئے، آپ بھی شدید مرض میں مبتلا کئے گئے، سب ختم ہو جانے کے بعد بھی آپ کا مقدس طرزِ عمل یہ تھا کہ جب کوئی آپ کو ان چیزوں کے ہلاک ہونے کی خبر دیتا تو آپ اللہ پاک کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے: میرا کیا ہے! جس کا تھا اس نے لے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا، اس کا شکر ادا ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں۔ (دیکھئے: سیرت الانبیاء، ص479، 480)

(2)بہت ہی اچھے بندے: ﴿نِعْمَ الْعَبْدُؕ- ترجَمۂ کنزُ الایمان: کیا اچھا بندہ۔(پ23، صٓ: 44) سیرت الانبیاء میں ہے کہ آپ مسکینوں پر رحم کرتے، یتیموں کی کفالت فرماتے، بیواؤں کی امداد کرتے مہمانوں کے ساتھ عزت و تکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص 478)

(3)بہت رجوع لانے والے: ﴿ اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ(۴۴) ترجَمۂ کنزُ الایمان: بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔(پ 23، صٓ: 44) اللہ اکبر! آپ کے مبارک اوصاف میں اللہ پاک نے واضح فرمایا کہ ہم نے اسے صابر پایا۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام کتنے عرصہ تک مصیبت میں مبتلا رہے اور صبر بھی کیسا جمیل فرمایا! جب اس سے نجات ملی عرض کیا: الٰہی! میں نے کیسا صبر کیا؟ ارشاد ہوا: اور توفیق کس گھر سے لایا؟ حضرت ایوب علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے عرض کیا: بے شک اگر تو توفیق نہ عطا فرماتا تو میں صبر کہاں سے کرتا ؟(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 460)

معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی توفیق سے ہی سارے کام بنتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ آزمائش آ جانے پر رب تعالیٰ کی نعمتوں کو یاد کریں، اس کی حمد بجا لائیں، ناشکری کے الفاظ نہ لائیں بلکہ شکر ادا کریں کہ ضرور اس میں ہمارے لئے بہتری کا سامان ہو گا۔ ہمارے واویلا اور شور کرنے سے آزمائش ختم نہیں ہو گی بلکہ بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنے سے کام بنے گا۔ بس اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ہمیں توفیق عطا فرمائے۔ ان مبارک ہستیوں کی سیرت کے مطالعہ سے بھی صبر کا درس ملتا ہے، انسان قدرتی طور پر طاقت محسوس کرتا ہے۔ اس لئے ان کی سیرت کو خوب پڑھنا چاہئے۔ انبیائے کرام کی سیرت کے متعلق مزید جاننے کیلئے مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”سیرت الانبیاء“ کا مطالعہ کیجئے۔

اللہ پاک ان اچھے اوصاف پر ہمیں بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم