شہاب الدین عطّاری
(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ ٹاؤن شپ لاہور ، پاکستان)
رب تعالیٰ اپنے محبوب بندوں کو ان کے دین کے مطابق آزمائش میں مبتلا فرماتا
ہے اور یہ آزمائش ناراضی نہیں بلکہ اللہ پاک کی بارگاہ میں عزت و قرب اور بلندیِ
درجات کی دلیل ہوتی ہے۔ رب تعالیٰ کے سب سے محبوب و مقربین بندے چونکہ انبیائے کرام
علیہمُ
السّلام
ہوتے ہیں اس لئے ان پر آزمائش بھی سب سے زیادہ
آتی ہے۔ پھر توفیقِ الٰہی سے حضراتِ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کا ان آزمائشوں
پر صبر و رضا کا دامن تھامنا تمام بنی نوع انسان کو زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ ان مبارک ہستیوں کی زندگیاں ہوتی ہی کامل اُسوۂ حسنہ ہیں۔ قراٰنِ
مجید میں جن کی آزمائش کے واقعات بیان کئے گئے ہیں ان میں سے ایک حضرت ایوب
علیہ
السّلام بھی
ہیں۔
آپ کا نامِ مبارک ”ایوب“ ہے اور آپ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی آل پاک سے ہیں۔ آپ کو
اللہ پاک نے تمام انواع و اقسام کے کثیر اموال سے جن میں باندی، غلام، مویشی دیگر جانور اور وسیع و
عریض زمین کے علاوہ کئی بیویاں اور کثیر اولاد سے نوازا تھا۔(دیکھئے:سیرت
الانبیاء، ص477)
آپ کا ذکرِ خیر قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر کیا
گیا ہے، آپ
کو اللہ پاک نے بے شمار نعمتوں، احسانات اور اوصافِ حمیدہ سے نوازا ہے۔ آئیے قراٰنِ مجید فرقانِ حمید کی روشنی میں آپ کی قراٰنی
صفات کے بارے میں جانتے ہیں:
(1)مصائب و آلام پر بے حد صبر کرنے والے: ﴿اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-﴾
ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک ہم نے اسے صابر پایا۔(پ 23،
صٓ: 44)
آپ علیہ
السّلام کی
آزمائش جس قدر شدید ہوتی گئی، صبر و استقامت میں بھی اسی قدر اضافہ ہوتا گیا۔ مفتی
قاسم صاحب لکھتے ہیں: جب آپ کے تمام اموال ختم
ہو گئے، مویشی و چوپائے سب مر گئے، آپ بھی شدید مرض میں مبتلا کئے گئے، سب
ختم ہو جانے کے بعد بھی آپ کا مقدس طرزِ عمل یہ تھا کہ جب کوئی آپ کو ان چیزوں کے ہلاک
ہونے کی خبر دیتا تو آپ اللہ پاک کی حمد بجا لاتے اور فرماتے تھے: میرا کیا ہے! جس
کا تھا اس نے لے لیا، جب تک اس نے مجھے دے رکھا تھا میرے پاس تھا، جب اس نے چاہا لے لیا، اس کا شکر ادا
ہو ہی نہیں سکتا اور میں اس کی مرضی پر راضی ہوں۔ (دیکھئے: سیرت الانبیاء، ص479، 480)
(2)بہت ہی اچھے بندے: ﴿نِعْمَ
الْعَبْدُؕ-﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: کیا اچھا بندہ۔(پ23، صٓ: 44) سیرت الانبیاء میں ہے کہ آپ
مسکینوں پر رحم کرتے، یتیموں کی کفالت فرماتے، بیواؤں کی امداد کرتے مہمانوں کے
ساتھ عزت و تکریم اور خندہ پیشانی سے پیش آتے تھے۔ (سیرت الانبیاء، ص 478)
(3)بہت رجوع لانے والے: ﴿ اِنَّهٗۤ
اَوَّابٌ(۴۴)﴾ ترجَمۂ کنزُ الایمان: بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔(پ 23، صٓ: 44) اللہ اکبر! آپ کے
مبارک اوصاف میں اللہ پاک نے واضح فرمایا کہ ہم نے اسے صابر پایا۔ اعلیٰ حضرت امامِ
اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: حضرت ایوب علیہ السّلام
کتنے عرصہ تک مصیبت میں مبتلا رہے اور صبر بھی کیسا جمیل فرمایا! جب اس سے نجات
ملی عرض کیا: الٰہی! میں نے کیسا صبر کیا؟ ارشاد ہوا: اور توفیق کس گھر سے لایا؟
حضرت ایوب علیہ الصّلوٰۃ والسّلام نے عرض کیا: بے شک اگر تو توفیق نہ عطا فرماتا
تو میں صبر کہاں سے کرتا ؟(ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 460)
معلوم ہوا کہ اللہ پاک کی توفیق سے ہی سارے کام بنتے ہیں۔ ہمیں بھی چاہئے کہ آزمائش آ جانے پر رب تعالیٰ
کی نعمتوں کو یاد کریں، اس کی حمد بجا لائیں، ناشکری کے الفاظ نہ لائیں
بلکہ شکر ادا کریں کہ ضرور اس میں ہمارے لئے بہتری کا سامان ہو گا۔ ہمارے واویلا اور
شور کرنے سے آزمائش ختم نہیں ہو گی بلکہ بارگاہِ الٰہی میں رجوع کرنے سے کام بنے
گا۔ بس اللہ پاک اپنے فضل و کرم سے ہمیں توفیق
عطا فرمائے۔ ان مبارک ہستیوں کی سیرت
کے مطالعہ سے بھی صبر کا درس ملتا ہے، انسان قدرتی طور پر طاقت محسوس کرتا
ہے۔ اس لئے ان کی سیرت کو خوب پڑھنا چاہئے۔ انبیائے کرام کی سیرت کے متعلق مزید جاننے کیلئے
مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”سیرت الانبیاء“ کا مطالعہ کیجئے۔