شناور غنی
بغدادی (درجۂ سابعہ مرکزی جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ فیصل آباد ، پاکستان)
قرآن کریم میں
اللہ عزوجل نے اپنے معزز و مکرم انبیاء کرام علیہم السلام کا کئی مقامات پر تذکرہ
فرمایا ہے اور ان کی شان و عظمت اور صفات کمالیہ کا اظہار فرمایا ہے ۔ لیکن یادرہے
کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ نہیں فرمایا
بلکہ بعض انبیاء کرام علیہم السلام کا تذکرہ فرمایا ہے ۔ انہی میں سے ایک حضرت ایوب
علیہ السلام بھی ہیں کہ جن کا قرآن پاک میں اللہ تبارک و تعالی نے 4 بار ذکر خیر
فرمایا ہے ۔ سورۃ النساء،آیت:163 ، سورۂ انعام،آیت:85 ، سورۃ الانبیاء،آیت:83٫84 ،
سورۂ ص،آیت:41 تا 44 ۔
آئیے سب سے
پہلے حضرت ایوب علیہ السلام کا تعارف جانتے ہیں :
نام
و نسب : آپ علیہ السلام کا نام پاک
”ایوب“ ہے اور نسب نامہ سے متعلق مختلف اقوال ہیں جن میں سے ایک قول یہ ہے: ایوب
بن اموص بن زارح بن عیص بن حضرت اسحاق علیہ السلام بن حضرت ابراہیم علیہ السلام (سیرت
انبیاء ،ص:477) والدہ محترمہ حضرت لوط علیہ السلام کی اولاد میں سے تھیں ۔ زوجہ کا
نام ”رحمت“ ہے اور یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بیٹے افرائیم کی شہزادی تھیں۔
حلیہ
مبارک : آپ علیہ السلام کے بال
گھنگریالے، خوبصورت کشادہ آنکھیں، شکل و صورت بہت حسین، گردن چھوٹی، سینہ چوڑا،
پنڈلیاں اور کلائیاں مضبوط اور قد مبارک لمبا تھا۔ (سیرت انبیاء،ص:477)
مال
و دولت کی فراوانی : علماء تفسیر و
تاریخ فرماتے ہیں : حضرت ایوب علیہ السلام کے پاس تمام انواع و اقسام کے کثیر
اموال تھے جن میں باندی، غلام، مویشی اور دیگر جانور اور ثنیہ سے لے کر حوران تک
وسیع اراضی شامل ہے۔ یو نہی آپ علیہ السلام کو کثیر اولاد بھی عطا ہوئی تھی۔ (سیرت
انبیاء،ص:477)
معزز قارئین
کرام ! آئیے اب قرآن مجید فرقان حمید کی روشنی میں حضرت ایوب علیہ السلام کے اوصاف
ملاحظہ کرتے ہیں :
حضرت
ایوب علیہ السلام کے قرآنی اوصاف : آپ
علیہ السلام انتہائی عمدہ اوصاف کے مالک تھے ، جیسے
(1
تا 3) مصائب پر بہت صابر ، بہت ہی
اچھے بندے اور اللہ کی طرف بہت زیادہ رجوع لانے والے :ارشاد باری تعالی ہے:اِنَّا
وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ (پ:23،ص:44)ترجمہ کنز العرفان : بے شک ہم نے اسے صبر
کرنے والا پایا ۔وہ کیا ہی اچھا بندہ ہے بیشک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔
دیکھا آپ نے
کہ حضرت ایوب علیہ السلام کے اوصاف حمیدہ کو اللہ تبارک و تعالی نے کس خوبصورت
انداز میں بیان فرمایا ہے ۔ محترم قارئین کرام ! معلوم ہوا کہ جب اللہ پاک کے برگزیدہ
ہستیوں کا یہ انداز ہے تو ہمیں تو بدجہ اولی اس انداز کو اپنانا چاہیے ۔ لہذا ہمیں
چاہیے کہ ہم بھی اللہ جلا و علا کی طرف سے آنے والی آزمائشوں میں صبر کا دامن
تھامے رہیں اور ہر حال میں شکر الہی بجالاتے رہیں اور اللہ عزوجل کی بارگاہ میں
کثرت سے توبہ و استغفار کی عادت بنائیں تا کہ ہمارا رب ہم سے راضی ہو جائے ۔
مجھے ایسے عمل کی دے توفیق
کہ ہو راضی تری رضا یارب
(4)
قبولیت دعا : اللہ جلا و علا نے
حضرت ایوب علیہ السلام کو ایک عرصہ تک آزمائش میں مبتلا فرمایا اور آزمائش میں
ثابت قدم رہنے کے بعد آپ علیہ السلام کی دعا کو قبول بھی فرمایا ۔ ارشاد باری تعالی
ہے: فَاسْتَجَبْنَا
لَهٗ فَكَشَفْنَا مَا بِهٖ مِنْ ضُرٍّ وَّ اٰتَیْنٰهُ اَهْلَهٗ وَ مِثْلَهُمْ
مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِكْرٰى لِلْعٰبِدِیْنَ(پ:17، انبیاء:84) ترجمہ کنز العرفان: تو ہم نے
اس کی دعا سن لی توجو اس پر تکلیف تھی وہ ہم نے دور کردی اور ہم نے اپنی طرف سے
رحمت فرماکر اور عبادت گزاروں کو نصیحت کی خاطر ایوب کو اس کے گھر والے اور ان کے
ساتھ اتنے ہی اور عطا کردئیے۔
معلوم ہوا کہ
اللہ تعالی اپنے محبوب بندوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے ۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم
بھی اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں اور مایوس نہ ہوں بلکہ پر امید رہیں کہ اللہ کریم
ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے گا ۔
یاد رہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کو آزمائش میں
مبتلاء کئے جانے کے مختلف اسباب بیان کئے گئے ہیں ،ابو البرکات عبداللہ بن احمد
نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالی نے کسی خطا کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ
السلام کو آزمائش میں مبتلا نہیں کیا بلکہ آپ علیہ السلام کے درجات (مزید) بلند
کرنے کیلئے آزمائش میں مبتلا کیا۔( مدارک، ص، تحت الآیۃ: 41، ص:1023)
ویسے تو حضرت
ایوب علیہ السلام کے بارے میں کئی واقعات مذکور ہیں جن کی اس مختصر میں گنجائش نہیں
، لیکن حصول برکت کیلئے آئیے حضرت ایوب علیہ السلام اور ان کی زوجہ محترمہ رضی
اللہ عنھا کا ایک واقعہ سنتے ہیں ؛
حضرت
ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت الہی: بیماری کے زمانہ میں حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ ایک بار کہیں کام سے
گئیں تو دیر سے آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئیں ، اس پر آپ علیہ السلام نے
قسم کھائی کہ میں تندرست ہو کر تمہیں سو کوڑے ماروں گا۔جب حضرت ایوب علیہ السلام صحت
یاب ہوئے تواللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپ علیہ السلام انہیں جھاڑو مار دیں اور
اپنی قسم نہ توڑیں ،چنانچہ حضرت ایوب علیہ السلام نے سَو تیلیوں والا ایک جھاڑو لے
کر اپنی زوجہ کو ایک ہی بار ماردیا ۔( بیضاوی، ص، تحت الآیۃ: 44، 5 / 49، جلالین،
ص، تحت الآیۃ: 44،ص383، ملتقطاً)
فرمانِ باری
تعالی ہے : وَ
خُذْ بِیَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِبْ بِّهٖ وَ لَا تَحْنَثْ ۔ ترجمہ کنز العرفان: اور (فرمایا) اپنے ہاتھ میں ایک
جھاڑو لے کر اس سے مار دو اور قسم نہ توڑو۔
حضرت ایوب علیہ
السلام کے قسم کھانے کا ایک سبب اوپر بیان ہوا اور دوسرا سبب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ
حضرت امام احمد رضاخان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضرت سیدنا ایوب علیہ السلام
اللہ تعالی کے پیارے نبی ہیں کہ آزمائش وابتلاء کے دور میں آپ کی پاکیزہ بیوی جن کا
نام رحمہ بنت آفرائیم، یا میشا بنت یوسف بن یعقوب بن اسحٰق بن ابراہیم علیہم
السلام تھا، وہ آپ کیلئے محنت ومزدوری کرکے خوراک مہیا فرماتی تھیں ، ایک دن انہوں
نے حضرت ایوب علیہ السلام کی خدمت میں زیادہ کھانا پیش کیا تو حضرت ایوب علیہ
السلام کو گمان ہوا کہ شاید وہ کسی کا مال خیانت کے ذریعہ حاصل کر لائی ہیں ،اس پر
آپ کو غصہ آیا تو آپ نے قسم کھائی کہ اس کو ایک سو چھڑی ماروں گا۔( فتاوی رضویہ،
رسالہ: الجوہر الثمین فی علل نازلۃ الیمین، 13 / 526) آگے کی تفصیل وہی ہے جو
اوپر بیان ہوئی۔
حضرت
ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر رحمت اورتخفیف کا سبب: مفسرین نے حضرت ایوب علیہ السلام کی زوجہ پر اس رحمت
اورتخفیف کا سبب یہ بیان کیا ہے کہ بیماری کے زمانہ میں انہوں نے اپنے شوہر کی بہت
اچھی طرح خدمت کی اور آپ کے شوہر آپ سے راضی ہوئے تو ا س کی برکت سے اللہ تعالیٰ
نے آپ پر یہ آسانی فرمائی۔ (سیرت انبیاء ،ص:483,484)
وفات
: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنھما فرماتے ہیں: آزمائش ختم ہونے کے بعد حضرت ایوب علیہ السلام نے ستر سال نعمت
وراحت میں زندگی بسر کی، اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شریعت پر عمل پیرا ر ہے۔
آپ کی اولاد اور قوم بھی اسی دین پر کار بند رہی یہاں تک کہ حضرت ایوب علیہ السلام
کی وفات سے کچھ عرصہ بعد انہوں نے اپنا دین بدل دیا۔ (سیرت انبیاء،ص:484)
بعض علماء کے
نزدیک 93 سال کی عمر میں اور بعض کے نزدیک ان سے زیادہ برس کی عمر میں حضرت ایوب
علیہ السلام نے وفات پائی۔ (البدایہ والنہایہ ،قصۃ ایوب علیہ السلام ، 312/1)
اللہ پاک سے
دعا ہے کہ ہمیں حضرت ایوب علیہ السلام کے صدقے مصائب پر صبر کرنے والوں ، ہر حال میں
شکر ادا کرنے والوں اور اپنی طرف رجوع لانے والوں میں شامل فرمائے اور اپنی رضا پر
راضی رہنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ
وآلہ واصحابہ وسلم
مُشکِلوں میں دے صبر کی توفیق
اپنے غم میں فَقَط گُھلا یارب