مسلمانوں کو دھوکہ دینا سخت قابل نفرت عمل ہے۔ دھوکے (یعنی مکر و فریب) کی قراٰن مجید میں اور احادیث مبارکہ میں مذمت کی گئی ہے چنانچہ اللہ پاک قراٰن مجید میں کفار کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے : اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسادے یا انہیں وہاں سے عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر نہ ہو ۔(پ14 ،النحل: 45)

دھوکا دینے والا ملعون ہے: فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: ملعون (لعنت کیا گیا ) ہے وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔ (سنن ترمذی، جلد 3، حديث: 1948)

دھوکا دہی کی تعریف: برائی کو دل میں چھپا کہ اچھائی ظاہر کرنا دھوکا ہے۔ (تفسیر نعیمی، پا1، البقرة، 1/164،تحت الآيۃ: 9) دھوکا دہی کی چند مثالیں: کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا ، اصل بنا کر نقل دے دینا ، خریدار سے چھپا کر صحیح چیز کے ساتھ کچھ خراب چیز بھی ڈال دینا جیسا کہ بعض پھل فروش ایسا کرتے ہیں، غلط بیانی کر کے کسی سے مال بٹورنا جیسا کہ پیشہ ور بھکاریوں کا طریقہ ہے۔

دھوکا دہی کے متعلق مختلف احکام: (1): مسلمانوں کے ساتھ مَکر یعنی دھوکا بازی قطعاً حرام اور گناہ ہے جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے۔ (2) : مکر و فریب اور ڈرا دھمکا کر کسی سے مال لینا قطعی حرام ہے۔

دھوکے کی مذمت پر 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(1) جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: يا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے (تری والے غلے کو) اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، پھر فرمایا: جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(صحیح مسلم)

(2) جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں: الله پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، حديث :101،ص 55) علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : کسی چیز کی (اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔ (فيض القدير، 6/ 240 ، تحت الحديث: 8879)

(3) مکرو فریب کرنے والا ملعون ہے: حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائیے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(ترمذی، 3/378،حدیث:1948)

(4) دھوکہ ہی دھوکہ ہوگا: ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عنقریب لوگوں پر ایسے سال آئیں گے کہ جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہوگا، جس میں جھوٹے کو سچا اور سچے کو چھوٹا بنا کر پیش کیا جائے گا، خیانت کرنے والے کو امانت دار اور امانت دار کو خائن سمجھا جائے گا اور رُوَیبضہ خوب بولے گا۔ عرض کی گئی: رُوَیبضہ کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: لوگوں کے اہم معاملات میں مداخلت کرنے والا حقیر اور کمینہ شخص۔ (ابن ماجہ ، ج4/ 377، حدیث: 4036)

(5) پاکیزہ ترین کمائی کونسی ہے؟: رسول اکرم نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پاکیزہ ترین کمائی کے بارے میں پوچھا گیا تو ارشاد ہوا: ہر وہ تجارت جس میں دھوکا نہ ہو اور اپنے ہاتھ کی کمائی ۔(لمسندامام احمد ، 6/112،حدیث :17266)

دنیا کی زندگی دھوکا نہ دے: ایک دھوکا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ انسان اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے مقصد حیات کو بھول جانا اور دنیا کی رنگینیوں میں پڑ جانا، آخرت کو بھی فراموش کر دینا اور دنیا میں جوا، سود اور حرام کے کاموں میں لگ جانا اور ہر برائی والا کام کرنا۔ یہ انسان کا اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ چنانچہ الله پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاٙ ترجمہ ٔکنز الایمان: تو ہر گز تمہیں دھوکا نہ دے دنیا کی زندگی۔ (پ 22، الفاطر :5)

حكايت: عجیب انداز میں نفس کے دھوکے کی گرفت:

حضرت سید ابو محمد مُرتَعِش رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے بہت سے حج کئے اور ان میں سے اکثر سفر کسی قسم کا زادِ راہ لئے بغیر کئے ۔پھر مجھ پر آشکار ہوا کہ یہ سب تو میرے نفس کا دھوکہ تھا کیونکہ ایک مرتبہ میری ماں نے مجھے گھڑے میں پانی بھر کر لانے کا حکم دیا تو میرے نفس پر ان کا حکم گراں گزرا ، چنانچہ میں نے سمجھ لیا کہ سفرِ حج میں میرے نفس نے میری موافقت فقط اپنی لذت کے لئے کی اور مجھے دھوکے میں رکھا کیونکہ اگر میرا نفس فناء ہو چکا ہوتا تو آج ایک حقِ شرعی پورا کرنا اسے بے حد دشوار کیوں محسوس ہوتا ؟(الرسالۃ القشیریۃ ،ص135)

دھوکے سے بچنے کا درس : پیارے پیارے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا دھوکا چاہے انسان دنیا کے دھوکے کی زندگی سے کھائے یا وہ نفس کا دھوکا ہو یا وہ خرید و فرخت والے معاملے میں اعلی و عمدہ چیز کا گھٹیا و کم تر کے بدلے بیچنا ہو۔ ہر طرح کا دھوکا بڑا ہے اور خرید و فرخت والے معاملے میں دھوکا دہی دینا تو لڑائی اور جھگڑے کا سبب بھی بن سکتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ ہر طرح کے دھوکے کو چھوڑ دیا جائے کیونکہ دھوکا دینا شیطانی کام ہے اور دھوکا دینے کیلئے جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ اور اللہ پاک قراٰن میں فرماتا ہے: لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ(۶۱) ترجمۂ کنزالعرفان: جھوٹوں پر اللہ کی لعنت۔(پ3،آلِ عمرٰن:61) اور دھوکا دینے والا قیامت کے دن بھی رسوا اور ذلیل و خوار ہوگا حدیث مبارکہ ہے: ہر دھوکا دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا (صحیح بخاری، حدیث: 6966) الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے دھوکے سے بچائے۔ اٰمین بجاہ خاتم النبین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔


پیارے قارئین (Readers) ! اللہ پاک کا بہت بڑا احسان ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور صرف مسلمان ہی جنت میں جائیں گے ۔ ہمیں چاہیے کہ الله پاک کا شکر ادا کریں اور نیک کام کریں ۔ یاد رکھیں نیکیاں ایمان کو مضبوط کرتی جبکہ گناہ ایمان کو برباد کرتے بلکہ کفر تک پہنچا دیتے ہیں۔

ایک بہت بڑا گناہ جو اللہ پاک کو ناپسند ہونے کے ساتھ لوگوں کو بھی ناپسند ہے، جسکی وجہ سے لوگ دور ہو جاتے ہیں اور برا بھلا کہتے ہیں یہاں تک کہ رشتہ داری بھی باز اوقات ختم کر دیتے ہیں وہ دھوکہ بازی فریب کاری ہے۔

دھوکا کسے کہتے ہیں؟: علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے کسی چیزی اصلی حالت original arts) کو پوشیدہ (چھپا ) ہوا رکھنا دھوکا ہے ۔ (فیض القدیر ، ج ، ص 24 الحديث 22099 متعلق)

دھوکہ کی مثالیں : (1)فروٹ منڈی میں بیچنے والا اوپر اچھا مال اور نیچے خراب مال رکھتے ہیں۔(2) نوکری حاصل کرنے کے لئے جعلی سرٹیفکیٹ بنانا یا بنوانا۔ حقیقت کو چھپاکر ، اچھائی ظاہر کرنا ۔ اللہ پاک کی پناہ !

(1) جن سے ہم محبت کرتے ہیں، آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: وہ ہم میں سے نہیں جو دھوکا دے۔(مسلم ،کتاب الایمان ،حدیث :283 )

الله اکبر ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اگر قیامت کے دن ہمیں ایسے گروپ سے نکال دیا تو ہم کیا کریں گے!

(2) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دھوکہ کتنا ناپسند تھا حدیثِ پاک سے اندازہ لگائیے۔ فرمایا: ملعون ہے وہ شخص جس نے کسی مؤمن کو نقصان پہنچایا یا دھوکا دیا۔ ( ترمذی ، کتاب البر، 2 /378 ،حدیث: 1948 )

یاد رکھیئے اللہ پاک کو دھوکا نہیں دیا جا سکتا۔ ضرور دھوکا دینے والے جیسا کریں گے ویسا بھریں گے ۔

(3 ) فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو مسلمان کو ضرر پہنچائے اللہ (پاک) ضرور اس کو ضرر پہنچائے گا اور جو مسلمانوں کو مشقت میں ڈالے اللہ (پاک) اُس کو مشقت میں ڈالے گا۔ ( سنن ترمذی ، کتاب البر والصلۃ،3/378، حدیث:1947)

(4)فرمان آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: جو ہمارے ساتھ دھوکہ کرے وہ ہم میں سے نہیں اور مکر و دھوکا بازی جہنم میں ہے۔ ( کنز العمال، کتاب الاخلاق،حدیث : 7821)

(5) امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)

پیارے قارئین اپنی روزمرہ کو دیکھیں اور اگر کوئی دھوکے کی صورت ہو تو فوراً توبہ کریں اور دھوکا دینا چھوڑ دیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ عادت یا بری صحبت کی وجہ سے اس کا احساس نہیں ہوتا، اس لیے اپنی صحبت (Gathering ) اچھی کر لیں۔ دعوت اسلامی کے دینی ماحول کو اختیار کریں ان شاء الله خوف خدا و عشق مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملیں گے۔


اللہ پاک نے انصاف کے ساتھ تولنے کا حکم دیا ہے:وَ اَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَ لَا تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔ (پ 27، الرحمن 9:)

(1) حضرت سیدنا عبد الله بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے : جس نے ہم سے دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں اور مکر اور دھوکا جہنم میں ہے۔(المعجم الکبیر، حدیث : 10234)

(2) حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ حضور پاک صاحب لولاک سیاح افلاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مکر دھوکا اور خیانت جہنم میں ہیں۔ ( المستدرک، حدیث: 8831)

(3) حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: دھوکے باز جنت میں داخل نہ ہوگا اور نہ ہی بخیل اور احسان جتلانے والا۔( المسند، حدیث :32 )

(4)شہنشاہ خوش خصال، پیکر حُسن و جمال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : مؤمن سیدھا سادہ کرم کرنے والا جبکہ فاسق مکار کمینہ ہے۔(جامع ترمذی، حدیث :1963)

(5) دافع رنج و ملال صاحب جود و نوال صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : پانچ قسم کے لوگ جہنمی ہے ان میں اس آدمی کا بھی ذکر ہے جو صبح شام تیرے اہل یا مال میں تجھ سے دھوکا کرتا ہے۔ ( صحیح مسلم، الحدیث: 7207 )


دھوکا ایک ایسا عیب ہے جس کی مذمت قراٰن و حدیث میں بیان کی گئی ہے چنانچہ منافقین کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)یہاں اللہ پاک نے منافقین سے متعلق فرمایا کہ وہ اللہ اور ایمان والوں کو دھوکا دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ رَبِّی َ الاَعْلٰی ہے اور منزَّہ ہے کہ اس کو کوئی دھوکا دے ۔

دھوکےکا معنی : یُخٰدِعُوْنَ خَدَع سے بنا ہے جس کا لغوی معنی "چھپانا"ہے اور اصطلاح میں " خَدَع "کے معنی دھوکہ ہیں یعنی برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا۔(تفسیر نعیمی،1/162)

پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو گیہوں (غلہ )بیچ رہا تھا ،آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو وہ مغشوش (تر،گیلا)تھا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :"لیس منا من غش" جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔(سنن ابن ماجہ ،النہی عن الغش ،ج2/ 424،حدیث: 2225،دار التاصیل)

(2) عرب کے اندر یہ دھوکا دہی موجود تھی کہ جانور بیچنے سے کچھ دن پہلے دودھ دوہنا چھوڑ دیتے تا کہ تھنوں میں دودھ زیادہ نظر آئے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرمایا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اونٹنیوں اور بکریوں میں تصریہ نہ کرو ،یعنی پہلے سے ان کا دودھ دوہنا مت چھوڑو ،جو شخص ایسا جانور خرید لے اور پہلی دفعہ دودھ دوہنے کے بعد آیندہ دودھ کم نکلے تو اسے دو اختیار ہیں :چاہے تو یہی جانور اپنے پاس رکھ لے اور چاہے تو یہ جانور واپس کر دے اور جو دودھ نکالا گیا ہے اس کے بدلے میں ایک صاع چھوہاڑے دے دے ۔(صحیح مسلم ،کتاب البیوع ،باب تحریم بیع الرجل الخ ،ص 615،حدیث: 1515،بیت الافکار)

(3) لا یدخل الجنۃ خب ،ولا بخیل ،ولا منان "حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :دھوکے باز اور بخیل اور احسان جتانے والا جنت میں نہیں داخل ہو گا ۔(سنن ترمذی ،باب ما جا ء فی البخیل ،3/ 511، حدیث: 1963،دار الغرب الاسلامی)

(4)ان رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قال "الحرب خدعۃ" رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :لڑائی دھوکہ و فریب کا نام ہے ۔(سنن ابو داؤد ،باب المکر فی الحرب ،4/ 273،حدیث: 2636،دار الرسالۃ العالمیۃ) امام خطابی فرماتے ہیں :یعنی جنگ کے دوران کفار کو دھوکا دینے جائز ہے بشرطیکہ یہ دھوکا ان سے کئے گئے کسی عہد و پیمان کے توڑنے کا سبب نہ بنے۔(سنن ابو داؤد ،باب المکر فی الحرب ،4/ 273، حدیث:2636،دار الرسالۃ العالمیۃ)

(5)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :"المؤمن غر کریم ،والفاجر خب لئیم " مومن بھولا بھالا اور سخی ہوتا ہے جب کہ منافق دھوکہ باز اور بخیل ہوتا ہے ۔(سنن ترمذی ،باب ما جا ء فی البخیل ،3/ 512، حدیث:1964،دار الغرب الاسلامی)


دھوکہ دینا ایک ایسا مذموم عمل ہے جس سے معاشرتی امن و سکون تباہ ہوتا اور لوگوں کا ایک دوسرے پر بھروسہ ختم ہو جاتا جس کی وجہ سے معاشرتی زندگی میں بہت سارے مسائل جنم لیتے ہیں۔

دھوکے کی تعریف:کسی چیز کی(اصلی)حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،6/240)مثلاً خرید و فروخت کرتے وقت گاہک کو اچھا مال دیکھا کر خراب مال دے دینا، کسی کو بیرون ملک بھیجنے کے جھانسے میں پیسے ہڑپ کر لینا، زمین کے جعلی کاغذات دیکھا کر پیسے لے کر بھاگ جانا وغیرہ

دھوکہ دینے والا ملعون: امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی مسلمان کو نقصان پہنچایا یا اسے فریب (دھوکہ) دیا تو وہ ملعون ہے۔( سنن ترمذی،کتاب البروالصلة،باب ما جاء فی الخیانة والغش، حدیث: 1941)

دھوکہ دینے والا حکمران: کریم آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: جس شخص کو اللہ پاک کسی رعایا کا حکمران بنا دے اور وہ اس حالت میں مرے کہ اپنی رعایا کے ساتھ دھوکہ دہی کرتا تھا تو اللہ پاک اس پر جنت کو حرام کر دیتا ہے۔( صحیح مسلم کتاب الایمان ، باب استحقاق الوالی الغاش لرعیتة النار حدیث: 142)

مومن کریم النفس ہوتا: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن (دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور کریم النفس ہوتا ہے جبکہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا ہے۔( ابوداؤد، كتاب الأدب، باب فى حسن العشرة حدیث: 4790)

پاکیزہ کمائی کون سی ؟:حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : کسی نے عرض کی: یا رسول اللہ !صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کون سی کمائی زیادہ پاکیزہ ہے؟ ارشاد فرمایا :آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور اچھی خریدو فروخت (یعنی جس میں خیانت اور دھوکہ وغیرہ نہ ہو)۔( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ: احمد، 1 /581، حدیث 2140)

دین کے ذریعے دنیا کمانے والے دھوکے باز: نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ ہوں گے جو دھوکہ اور فریب کے ساتھ دین کے ذریعے دنیا کمائیں گے لوگوں کو نرمی دکھانے کے لئے بھیڑ کی کھال پہنیں گے ان کی زبانیں شکر سے زیادہ میٹھی ہوں گی اور ان کے دل بھیڑیوں کے دل(کی طرح )ہوں گے اللہ پاک (ان سے ) فرمائے گا: کیا تم میرے ساتھ دھوکہ کرتے ہو یا مجھ پر جرأت کرتے ہو مجھے اپنی ہی قسم ہے کہ میں ان لوگوں پر ان ہی میں سے ضرور فتنہ بھیجوں گا جو ان میں سے سمجھ دار لوگوں کو بھی حیران اور پریشان کر دے گا۔( ترمذی، کتاب الزہد،4 / 181 الحدیث: 2412)

پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم دھوکہ دہی اور فریب سے بچ جائیں تو ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں رحم دل، نرمی کرنے والا اور خیر خواہی کا جذبہ رکھنے والا دل عطا فرمائے اور دھوکے کی نحوست سے ہمارے دامن کو محفوظ فرمائے۔ اٰمین


کھوئی ہوئی چیز وہیں سے مل جاتی ہے جہاں وہ گمُی تھی سوائے اعتبار کے کہ جس شخص کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہوجائے دوبارہ مشکل ہی سے قائم ہوتا ہے۔ اعتبار ختم ہونے میں اہم کردار" دھوکے" کا بھی ہے جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیا چیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے توحقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسا نہیں کرے گا دھوکہ دینے کی بُری عادت نے تاجر اور گاہک، مزدور اور سیٹھ ،اور کئی لوگوں کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کردیا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں دھوکہ دینا عام ہو چکا ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے دھوکہ کرنے والے کئی مرتبہ دینی معاملات میں بھی دھوکہ دینے سے گریز نہیں کرتے فی زمانہ دھوکہ دینے کی نت نئی صورتیں سامنے آتی ہیں کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے قرعہ اندازی میں انعام نکل آنےیا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورلیتا ہے توکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو دُکھ وتکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے افسوس دھوکا دینا لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہےجب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے ۔

اللہ پاک نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر9میں منافقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے ،ارشاد فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)

(1) صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ''نجش‘‘ ( فریب‘ دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا۔

(2) امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔

(3)صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا آپ نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی آپ نے فرمایا! یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آسمان سے بارش ہوئی تھی آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

(5)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن(دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور کریم النفس ہوتا ہے جبکہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا ہے۔


کسی بھی معاشرے کی تکمیل اس میں رہنے والے عمدہ لوگوں سے ہوتی ہے ،معاشرے میں رہائش پذیر لوگ جتنے عمدہ اخلاق کے مالک ہوں ، صدق و صفا ، دیانتداری ، حیا ،اخلاص وغیرہ سے مزین ہوں تو معاشرہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا چلا جاتا ہے ، اور اگر معاشرے میں رہنے والے بری خصلت مثلاً فحاشی، عریانی ، زنا، چوری چکاری ، جھوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی، میں مشغول ہوں ،تو ایسے لوگ معاشرے کے زوال کا باعث بنتے ہیں ، ہم اپنے معاشرے کی اگر بات کریں ،تو لاتعداد جرائم سے دوچار ہے ، ان میں ایک سنگین برائی وہ غدر ، دھوکہ ، اور لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے ۔ دھوکے کی تعریف یہ ہے : وہ کام کہ جس کے کرنے والے کا باطنی ارادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو ۔ ( فیض القدیر ، 6/ 258،تحت الحدیث: 9233) خرید و فروخت میں دھوکہ تو جزوِ لازم بنتا جا رہا ہے ، اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح جنگ کے دوران دو سپاہی تلوار لیے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں ، دونوں موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی لمحہ ایسا آے کہ میں دوسرے پر غلبہ پا لوں اور اس کو قتل کر دوں ایسا ہی معاملہ آج کل گاہک اور تاجر کا ہے ، ہر ایک اس سوچ میں مگن ہوتا ہے ، کوئی تو موقع ایسا ملے میں سامنے والے کو بیوقوف بنا لوں ،اسے دھوکا دے کر اپنے مال کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کر لوں ، ہمارے معاشرے میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً (1) بعض سنار سونا چاندی کو خرید کر اس میں کھوٹ ملا دیتے ہیں اور سارے کو سونا ظاہر کر کے بیچتے ہیں۔ (2) بعض تاجر اپنی دکان کو اس قدر روشن کرتے ہیں کہ بھدی چیز بھی بھلی نظر آتی ہے خریدنے کے بعد گھر جاکر اس چیز کو دیکھا جائے تو چیز میں دکھائی گئی صورت باقی نہیں رہتی۔

یاد رکھئے دینِ اسلام سختی سے ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں کثیر مقامات پر اس کی مذمت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ چناچہ

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب قول النبی من غشنا فلیس منا ،حدیث 283، ص :695)

(2) آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی کے لیے عیب بیان کیے بغیر کوئی چیز بیچنا جائز نہیں ، اور جو عیب کو جانتا ہو اس کے لیے عیب بیان نہ کرنا جائز نہیں۔(مسند امام احمد بن حنبل ، حدیث واثلہ بن الاسقع، 5/ 421، حدیث: 16013)

(3) حضور سے مروی ہے فرمایا : جس نے عیب والی چیز بیچی اور عیب بیان نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ کی ناراضی میں رہتا ہے یا فرشتے اس پر ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(سنن ابنِ ماجہ ، ابوب التجارت ، من باع عیبا فلیبینہ، حدیث: 2247، ص 2611)

(4) آقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مومن ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام دور دراز ہوں اور فاجر لوگ ایک دوسرے سے دھوکا اور خیانت کرتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام قریب قریب ہوں۔(الترغیب والترہیب کتاب البیوع وغیرہا ،2/368، حدیث:2750 )

(5) ایک اور مقام پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک جو امانت دار نہیں اس کا دین نہیں۔( مسند البزار، مسند علی بن ابی طالب،3/61، حدیث: 819)

ذرا سوچئے کس قدر دھوکا کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ایک مسلمان کی کبھی یہ شان نہیں ہو سکتی کہ اپنے ہی مسلمان بھائی کو دھوکا دے ، اس کو نقصان پہنچائے، مومن تو وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے ۔اپنے اندر خیر خواہی کا جذبہ بیدار کیجیے ، انشاء اللہ اس سے مال میں برکت بھی ہو گی اور گناہ سے بچنا بھی نصیب ہوگا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دھوکے کے فریب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔


دھوکہ بازی اسلام میں حرام اور کبیرہ گناہ ہے جس کی سزا جہنم ہے۔ اصلی چیز کو نقلی کے ساتھ بیچنا سراسر اسلام کے منافی ہے ،کسی چیز میں ملاوٹ کر کے بیچنا اور ڈھیر اس انداز سے رکھنا کہ نیچے ردی مال ہو اور اوپر خالص مال ہو ، تو ڑے اور بوری وغیرہ میں نیچے اور سائیڈوں میں اور منہ کی جانب درست مال اور درمیان میں ردی مال رکھ کر فروخت کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا۔

چیز کا عیب نہ بتانا اور غلط چیز کو صحیح ثابت کرنے کے لئے قسمیں کھا کر اعتبار دلا کر فروخت کرنا ناجائز ہے۔ قسم اٹھا کر چیز تو بک جائے گی مگر برکت اڑ جائے گی۔

(1) بخاری شریف میں ہے حضرت ابوم مرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکہ بازی سے منع فرمایا ہے ۔

(2) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ (1) دھوکہ باز (2) بخیل (3)احسان جتانے والا ۔(كنز العمال)

(3) حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ نبوی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں عرض کیا: یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے خرید و فروخت میں دھوکہ دیا گیا ۔ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس سے سودا کروا سے کہدو کہ دھوکہ بازی نہ ہو ۔

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:مسلمان عزیر اور محترم ہے مگر فاسق اور دھوکہ باز مکار اور بدبخت ہے۔

(5) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلہ کے ڈھیر کے پاس سے گزرے تو اپنا ہاتھ اس میں ڈالا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انگلیاں تر ہو گئیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا اے غلہ والو یہ کیا ہے ؟ اس نے عرض کیا یا رسول الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس پر بارش ہو گئی ہے ۔ آپ نے فرمایا تو نےاسے غلہ کے اوپر کیوں نہیں کیا تاکہ لوگ اسے دیکھتے ۔ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (بخاری شریف)

رب کریم اس مختصر مضمون کو قارئین اور ہم سب مومنین کے لئے مفید اور کارآمد بنائے، نیز دھوکہ بازی اور جہنم کے شدید ترین عذاب سے بچائے۔ اٰمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


ہمارے معاشرے میں دھوکہ دہی کا چلن عام ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھے۔ اسی طرح نکاح کے معاملات میں بھی دھوکہ دہی سے کام لیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ لڑکے کی آمدن اور کئی مرتبہ لڑکی کی عمر اور تعلیم کے حوالے سے جھوٹ سے کام لیا جاتا ہے۔

(1) صحیح بخاری میں حضرت عبد الله بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے امام مالک نے بیان کیا، ان سے نافع نے ، اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نجش (فریب ، دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا ۔ (کتاب البیوع، حدیث : 2 214 )

(2) صحیح بخاری میں ابو نعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ان سے عبداللہ بن دینار نے اور ان سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر دھوکہ دینے والے کیلئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔ (کتاب الحیل ، حدیث : 6966)

(3)صحیح بخاری میں حضرت عمرو بن خالد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے ربیعہ بن ابی عبد الرحمٰن نے بیان کیا، ان سے حنظلہ بن قیس نے بیان کیا، ان سے رافع بن خدیج نے بیان کیا کہ میرے چچا (ظہیر اور مہیر رضی اللہ عنہا) نے بیان کیا کہ وہ لوگ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں زمین کو بٹائی پر نہر (کے قریب کی پیداوار) کی شرط پر دیا کرتے۔ یا کوئی بھی ایسا خطہ ہوتا جسے مالک زمین (اپنے لیے) چھانٹ لیتا۔ اس لیے نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع فرما دیا۔ حنظلہ نے کہا کہ اس پر میں نے رافع بن خدیج سے پوچھا اگر درہم و دینار کے بدلے یہ معاملہ کیا جائے تو کیا حکم ہے ؟ انہوں نے فرمایا کہ اگر دینار و درہم کے بدلے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ اور لیث نے کہا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جس طرح کی بٹائی سے منع فرما یا تھا ، وہ ایسی صورت ہے کہ حلال و حرام کی تمیز رکھنے والا کوئی بھی شخص اسے جائز نہیں قرار دے سکتا۔ کیونکہ اس میں کھلا دھوکہ ہے۔(کتاب الحرث والمزارعۃ)

(4) ترمذی شریف میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جس نے عربوں کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں شامل نہ ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی۔( مناقب کا بیان ،حدیث:3928)

(5) ابن ماجہ میں ابو الحمراء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھا، آپ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کے پاس ایک برتن میں گیہوں تھا۔ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا ہاتھ اس گیہوں میں ڈالا پھر فرمایا: شاید تم نے دھوکہ دیا ہے جو ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ۔ (حدیث :2225 )

ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کو دین، نکاح، تجارت اور زندگی کے تمام معاملات میں سچائی اور خیر خواہی سے ہی کام کا لینا چاہیے اور دھو کے اور فریب سے ہر صورت بچنا چائیے۔


دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

کسی نے کیا خوب لکھا ہے : وقت، اعتبار اور عزت ایسے پرندے ہیں جو اُڑ جائیں تو واپس نہیں آتے، ہمارے معاشرے کی کہانی میں بھی یہ پرندے اُڑتے دکھائی دیتے ہیں، ہر بازار ہر گھر اور ہر دفتر کا حال یہ ہو گیا کہ مسلمان ،مسلمان ہی کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے دھوکہ دے رہا ہے کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے لاٹری میں انعام نکل آنے،یا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا شروع کردیتا ہے تو کہیں کوئی کسی کی زمین کے جعلی کاغذات دِکھا کر زمین کی رقم وصول کرکے رفو چکر ہوجاتا ہے اورکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے،اس طرح اعتبار کی زنجیر کو پاش پاش کر دیا جاتا ہے ۔

آج جن دوستوں، گھرانوں، تاجروں وغیرہ میں اعتبار کا رشتہ مضبوط ہے وہ سکھی اور جنہیں کسی نے دھوکا دیا ہو وہ دُکھی دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب اسلام اس کی پرزور انداز میں تردید کرتا ہے۔ دھوکا دینے والے سے اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، لہٰذا دھوکے کے متعلق 5 حدیثیں ذیل میں ذکر کرتا ہوں :-

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے فرمایا کہ مومن آدمی بھولا بھالا (دھوکہ کھانے والا) اور شریف ہوتا ہے اور فاسق انسان دھوکا باز اور کمینہ ہوتا ہے۔ (سنن ابوداؤد،جلد سوم،حدیث: 1387)

(2) اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا: جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم، ص65، حدیث:101)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا دھوکا کی بیع سے اور کنکر کی بیع سے۔(سنن ابوداؤد،جلد دوم،حدیث: 1600)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم خریدار کو دھوکا دینے کے واسطے کسی چیز کی قیمت نہ بڑھایا کرو ۔(سنن نسائی،جلد دوم،حدیث: 1152)

دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا، جب انہیں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا ہوگا ،چنانچہ حسابِ ِآخرت سے بچنے کے لئے یہیں دنیا میں سچی توبہ کرکے اپنا حساب کرلیں کہ جس جس سے رقم ہتھیائی ہے اس کو واپس کریں یا معاف کروالیں ،اگر وہ زندہ نہ ہوتو اس کے وارثوں کو ادائیگی کریں یا معاف کروا لیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجھے سچّی توبہ کی توفیق دیدے،

پئے تاجدارِ حرم یاالٰہی


اللہ تعالی قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ(۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے آدمی تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے ۔(پ30،الانفطار:6)

اس آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ا نسان! تجھے کس چیز نے اپنے کرم والے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا کہ تو نے اس کی نعمت اور کرم کے باوجود اس کا حق نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی جو تجھے عدم سے وجود میں لے کر آیا،پھر اس نے تمہارے اعضاء کو ٹھیک بنایا اور تجھے پکڑنے کے لئے ہاتھ،چلنے کے لئے پاؤں ،بولنے کے لئے زبان،دیکھنے کے لئے آنکھ اور سننے کے لئے کان عطا کئے،اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اللہ پاک کی ان کرم نوازیوں کو دیکھ کر بھی ا س کی نافرمانی سے نہیں رکے بلکہ تم انصاف کے دن کو جھٹلانے لگے اور اعمال کی جزاملنے کے دن کاانکار کرنے لگ گئے۔( جلالین، الانفطار، تحت الآیۃ: 6، ص492، ملتقطاً)

دھوکے کی تعریف : نفس کا اس بات پر ٹھہر جانا جو خواہشِ نفس کے مطابق ہو اور شیطانی شبہ اور فریب کے باعث طبیعت اس کی طرف مائل ہو دھو کا کہلاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو۔ اس نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتلا دیا۔ اس دوران آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دستِ مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں۔ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے گیلا اور تر نکلا، اس پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے دھوکا دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(ابو داؤد، جلد 3، حدیث : 57)

عقل مندوں( یعنی علم والوں) کے کھانے پینے اور سونے کی بھی کیا بات ہے ،انہیں جاہلوں کی شب بیداری اور عبادت میں محنت ومشقت کیسے دھوکا دے سکتی ہے ؟صاحب تقوی اور یقین رکھنے والے کا ذرہ برابر عمل دھوکے میں مبتلا لوگوں کے زمین بھر کے عمل سے افضل ہے ۔(الزھد للامام احمد بن حنبل ، زہدابی الدرداء،ص162،حدیث : 738)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی وہ بے وقوف ہے جو کام کرے دوزخ کی اور امید کرے جنت کی ،کہا کرے اللہ غفور الرحیم ہے باجرہ بوئے اور امید کرے گیہوں کاٹنے کی،کہا کرے اللہ غفور الرحیم ہے کاٹتے وقت اسے گندم بنا دے گا اس کا نام امید نہیں۔ عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو فرمانبردار بنائے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے اور بیوقوف وہ ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے پھر بھی اللہ پاک سے امید رکھے۔ (مرأة المناجیح،7/103)

خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کو جھوٹی امید نے سیدھے راہ نیک اعمال سے ہٹا دیا ہے جیسے جھوٹی بات گناہ ہے ایسے ہی جھوٹی آس بھی گناہ ہے ۔(احیاء العلوم، 3/1125)

مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ دھوکا تمام برائیوں کی جڑ ہے اور اسی سے ہلاکت میں ڈالنے والے تمام معاملات کی ابتدا ہوتی ہے تو ان تمام چیزوں کا جاننا ضروری ہے جو دھوکے کی طرف لے جانے والے ہیں ۔

اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھوکا دینے والے کی عزت سماج میں نہیں ہوتی ہے سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: "دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں ہے" تو اس کی عزت سماج میں کیسے ہو سکتی ہے اور ایسے لوگوں کو عوام الناس پسند نہیں کرتے ہیں

حضرت ابوہریرہ (رضى اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: نیکوکار مومن بڑا بھولا اور شریف ہوتا ہے جب کہ بدکار بڑا مکار و بخیل و کمینہ ہوتا ہے۔ (اس حدیث میں ایک لفظ غرّ ذكر ہوا جس کا معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص) (، ترمذی، ابوداؤد)

وعن أبي هريرة قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم هلك كسرى فلا يكون كسرى بعده وقيصر ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده ولتقسمن كنوزهما في سبيل اللہ وسمى الحرب خدعة ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کسریٰ ہلاک ہوگیا، اس کسری کے بعد اور کوئی کسری نہیں ہوگا اور یقیناً قیصر یعنی روم کا بادشاہ بھی ہلاک ہوگا جس کے بعد کوئی اور قیصر نہیں ہوگا، نیز ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کئے جائیں گے۔ اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب رکھا۔ (بخاری و مسلم)

دھوکے سے بچنے کا علاج :دھوکے سے بچنے کے دوعلاج ہیں:(1) ایک ایمان کی تصدیق کے ذریعے(2) دوسرا دلیل حجّت سے ۔

پہلا ایمان کی تصدیق اس طرح کرے کہ اللہ پاک کے ان تمام فرامین کو سچّا جانے جو دھوکے کی وعید کے متعلق نازل ہوئی ۔ دوسرا یہ ہے کہ انسان ان تمام خیالات کے پیچھے نہ پڑے جو شیطان کے طرف سے ہو اس لیے کہ شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے اور ہمیشہ شریعت کو پیشِ نظر رکھیں ،تو آپ دھوکا سے بچ سکتے ہیں اور دھوکا سے بچنے کے تین اسباب علمائے کرام بیان فرماتے ہیں (1)عقل (2) معرِفت (3)علم اس کی تفصیل جاننے کے لیے آپ احیاء العلوم جلد سوم کا مطالعہ فرمائیے (ص1223سے1226تک)

حاصل کلام ایک لفظوں میں یہ ہے کہ دھوکا سے وہی شخص بچ سکتا ہے جس کی عقل و ذہانت عمدہ ترین میں شمار ہوتا ہو اور شریعت کا علم رکھتا ہو۔

اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کے پاک پروردگار عالم ہم تمام مسلمانوں کو دھوکہ دہی اور مکرو فریب سے محفوظ ومامون فرمائے اور ہم تمام مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین 


ہمارے معاشرے میں دھوکا دینا عام ہوتا جا رہا ہے اور مختلف معاعملات میں لوگوں کو دھوکہ دینے میں کوئی گناہ و برائی سمجھتیں ہی نہیں ہیں لیکن مذہب اسلام میں مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکہ بازی اور دغابازی کرنے کو تو قطعاً حرام و گناہ قرار دیا گیا ہے ۔

آئیے دھوکہ دینے کے متعلق پانچ حدیث رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:

مکر و فریب کی تعریف: وہ فعل جس میں اس فعل کے کرنے والے کا باطنی ارادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو مکر کہلاتا ہے۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 163)

(1) حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: جو شخص ہمارے ساتھ دھوکہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے مکر اور فریب جہنم میں ہوں گے۔(الترغیب والترہیب، 2/428) جو لوگ تجارت کرتے ہیں اور مال میں ملاوٹ کرتے اور لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کو اس حدیث سے درس حاصل کرنا چاہیے ۔

(2) صحیح مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلہ کی ڈھیری کے پاس گزرے اس میں ہاتھ ڈال دیا ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو انگلیوں میں تری محسوس ہوئی ارشاد فرمایا: اے غلہ والے! یہ کیا ہے؟ اس پر اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! اس پر بارش کا پانی پڑگیا تھا ارشاد فرمایا کہ تونے بھیگے ہوئے کو اوپر کیوں نہیں کردیا کہ لوگ دیکھتے جو دھوکا دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم, کتاب الایمان،باب قول النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم من غشنا فلیس منا، حدیث:164 )

(3) امیر المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مؤمن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(سنن الترمذی کتاب البروالصلۃ، باب ماجاء فی الخیانۃ والغش،3/378، حدیث: 1948)

(4) حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان ایک دوسرے کے خیر خواہ ہوتے ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اگر چہ ان کے علاقے ایک دوسرے سے دور ہوں اور ان کے جسم ایک دوسرے سے الگ ہوں جبکہ فاجر لوگ ایک دوسرے کو دھوکہ دیتے ہیں ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کرتے ہیں خواہ ان کے گھر ایک دوسرے کے قریب ہوں اور ان کے جسم ایک دوسرے کے قریب ہوں ۔( الترغیب والترہیب ،2/433)

(5) امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)

ایک حدیث پاک میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں :مسلمان مسلمان کا بھائی ہے اور کسی مسلمان کے لئے اپنے بھائی کو عیب والی چیز عیب بیان کئے بغیر بیچنا جائز نہیں۔( سنن ابن ماجہ ابواب التجارات،حديث : 2246 ، ص : 2611) ہمیں چاہیے کہ اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے ہم مسلمانوں کے ساتھ خیرخواہی کریں۔

اللہ پاک ہم سب کو نیک ہدایت عطا فرمائے اور ہمیں مسلمانوں کو دھوکا دینے اور ملاوٹ کرنے سے محفوظ رکھے۔ اٰمین