کسی بھی معاشرے کی تکمیل اس میں رہنے والے عمدہ لوگوں سے ہوتی ہے ،معاشرے میں رہائش پذیر لوگ جتنے عمدہ اخلاق کے مالک ہوں ، صدق و صفا ، دیانتداری ، حیا ،اخلاص وغیرہ سے مزین ہوں تو معاشرہ اتنی ہی تیزی سے ترقی کرتا چلا جاتا ہے ، اور اگر معاشرے میں رہنے والے بری خصلت مثلاً فحاشی، عریانی ، زنا، چوری چکاری ، جھوٹ، ملاوٹ، دھوکا دہی، میں مشغول ہوں ،تو ایسے لوگ معاشرے کے زوال کا باعث بنتے ہیں ، ہم اپنے معاشرے کی اگر بات کریں ،تو لاتعداد جرائم سے دوچار ہے ، ان میں ایک سنگین برائی وہ غدر ، دھوکہ ، اور لوگوں کو بے وقوف بنانا ہے ۔ دھوکے کی تعریف یہ ہے : وہ کام کہ جس کے کرنے والے کا باطنی ارادہ اس کے ظاہر کے خلاف ہو ۔ ( فیض القدیر ، 6/ 258،تحت الحدیث: 9233) خرید و فروخت میں دھوکہ تو جزوِ لازم بنتا جا رہا ہے ، اس کو یوں سمجھیں کہ جس طرح جنگ کے دوران دو سپاہی تلوار لیے ایک دوسرے کے سامنے آتے ہیں ، دونوں موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں کہ کوئی لمحہ ایسا آے کہ میں دوسرے پر غلبہ پا لوں اور اس کو قتل کر دوں ایسا ہی معاملہ آج کل گاہک اور تاجر کا ہے ، ہر ایک اس سوچ میں مگن ہوتا ہے ، کوئی تو موقع ایسا ملے میں سامنے والے کو بیوقوف بنا لوں ،اسے دھوکا دے کر اپنے مال کو بڑھانے میں کامیابی حاصل کر لوں ، ہمارے معاشرے میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً (1) بعض سنار سونا چاندی کو خرید کر اس میں کھوٹ ملا دیتے ہیں اور سارے کو سونا ظاہر کر کے بیچتے ہیں۔ (2) بعض تاجر اپنی دکان کو اس قدر روشن کرتے ہیں کہ بھدی چیز بھی بھلی نظر آتی ہے خریدنے کے بعد گھر جاکر اس چیز کو دیکھا جائے تو چیز میں دکھائی گئی صورت باقی نہیں رہتی۔

یاد رکھئے دینِ اسلام سختی سے ایسی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں کثیر مقامات پر اس کی مذمت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ چناچہ

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے ہمیں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب قول النبی من غشنا فلیس منا ،حدیث 283، ص :695)

(2) آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : کسی کے لیے عیب بیان کیے بغیر کوئی چیز بیچنا جائز نہیں ، اور جو عیب کو جانتا ہو اس کے لیے عیب بیان نہ کرنا جائز نہیں۔(مسند امام احمد بن حنبل ، حدیث واثلہ بن الاسقع، 5/ 421، حدیث: 16013)

(3) حضور سے مروی ہے فرمایا : جس نے عیب والی چیز بیچی اور عیب بیان نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ کی ناراضی میں رہتا ہے یا فرشتے اس پر ہمیشہ لعنت بھیجتے رہتے ہیں۔(سنن ابنِ ماجہ ، ابوب التجارت ، من باع عیبا فلیبینہ، حدیث: 2247، ص 2611)

(4) آقائے نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مومن ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ ہیں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام دور دراز ہوں اور فاجر لوگ ایک دوسرے سے دھوکا اور خیانت کرتے ہیں اگرچہ ان کے گھر اور اجسام قریب قریب ہوں۔(الترغیب والترہیب کتاب البیوع وغیرہا ،2/368، حدیث:2750 )

(5) ایک اور مقام پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: بے شک جو امانت دار نہیں اس کا دین نہیں۔( مسند البزار، مسند علی بن ابی طالب،3/61، حدیث: 819)

ذرا سوچئے کس قدر دھوکا کی مذمت کو بیان کیا گیا ہے ایک مسلمان کی کبھی یہ شان نہیں ہو سکتی کہ اپنے ہی مسلمان بھائی کو دھوکا دے ، اس کو نقصان پہنچائے، مومن تو وہ ہوتا ہے جو اپنے لیے پسند کرے وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے ۔اپنے اندر خیر خواہی کا جذبہ بیدار کیجیے ، انشاء اللہ اس سے مال میں برکت بھی ہو گی اور گناہ سے بچنا بھی نصیب ہوگا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دھوکے کے فریب سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔