آج دھوکہ دہی لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے، جب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے۔ اس میں دنیاوی اور اخروی دونوں طرح کے نقصان ہیں۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)یخادعون ’’خدع‘‘ سے مشتق ہے جس کا لغوی معنیٰ چھپانا اور اصطلاحی معنیٰ دھوکہ دینا ہے۔

( 1)پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا ۔ آپ نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی۔ آپ نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا: یارسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔( مسلم، ص64،حديث:284)

(2)امیر المؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کسی مومن کوضرر پہنچا وے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔(ترمذی کتاب الرو الصلۃباب ماجاءفی اخیانۃالغش، 2/378،حدیث:1948)

(3) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکہ دینے والوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:’’من غشنا فلیس منا‘‘ ترجمہ : جو ہمیں دھوکہ دے، وہ ہم میں سے نہیں ۔ (الصحیح لمسلم، کتاب الایمان، 1/ 70، مطبوعہ کراچی)

(4) امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)

( 5) حضرت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہیں اور مکرو دھوکہ بازی جہنم میں ہے۔ ( کنزالعمال کتاب الاخلاق من قسم الاقول المکرواخدیعۃ ،حدیث: 7821)

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃالمدینہ کی مطبوعہ 207 صفحات پر مشتمل کتاب جہنم کے خطرات صفحہ نمبر171 ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ مکر یعنی دھوکہ بازی اور دغا بازی کرنا قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ ہے جس کی سزا جہنم کا عذاب عظیم ہے۔

قراٰن و حدیث میں اللہ رب العزت اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکہ دینے کی سخت مذمت کی ہے ۔آج کے دور میں لوگ دوسروں کے خلاف سازش اور مخفی منصوبہ بندی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اس ترقی کے دور میں کسی کی مخالفت کرتے ہیں تو چھپے انداز میں۔ یہ دھوکہ بازی لوگوں کی طبیعتوں میں اتنی تیزی کے ساتھ عام ہوتی جارہی ہے کہ ان کا پورا کردار وعمل اسی سے عبارت ہوکر رہ گیا ہے۔اس بلا میں گرفتار ہونے کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ قراٰنی تعلیمات اور نبوی ارشادات پر عمل کے حوالے سے ہم کوسوں دور ہیں۔ دھوکہ دینا کئی طرح سے ہوتا ہے۔

(1) والدین اور عزیز واقارب کو دھوکہ دینا

(2) خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکہ دینا

(3) کارو بار اور منفعت کے لیے دھوکہ دہی کرنا۔

اسلام نے ان تمام صورتوں سے منع کیا ہے۔ ہمارے لیے لازم ہے کہ ہم قرآن وحدیث کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں تاکہ دونوں جہاں میں سرخرو اور تابناک ہوسکیں۔


کسی مومن کو دھوکا دینا یقیناً بارِ عذابِ نار سر اٹھانا ہے قراٰنِ پاک میں تو یہ خبیث صفت منافقین کے بارے میں بیان ہوئی ہے چنانچہ ربِّ ذوالجلال ارشاد فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)

لہذا جو لوگ اپنے مسلمان بھائی کو دھوکا دینے سے عار تک محسوس نہیں کرتے ایسوں کے لئے پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بیان کئے جا رہے ہیں جنہیں پڑھنے کے بعد عبرت حاصل کرنا چاہئے۔

(1) عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنهما، عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، أنَّهُ قالَ: «لَيْسَ مِنّا مَن غَشَّ فِي البَيْعِ والشِّراءِ» ترجمہ:ابن عمر رضی اللہ عنهما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے بیع و شراء (خرید و فروخت) میں دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔(مسند ابي حنيفۃ للحصكفي، کتاب البیوع، تراث)

(2) عَنْ عُثْمانَ بْنِ عَفّانَ، قالَ: قالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : «مَن غَشَّ العَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفاعَتِي ولَمْ تَنَلْهُ مَوَدَّتِي»ترجمہ: جس نے عرب (اہل عرب) کو دھوکا دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہ ہوگا اور اسے میری محبت نصیب نہ ہوگی۔(سنن الترمذي، 6/ 209)

(3) عَنْ أبِي هُرَيْرَةَ أنَّ رَسُولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مَرَّ عَلى صُبْرَةِ طَعامٍ فَأدْخَلَ يَدَهُ فِيها، فَنالَتْ أصابِعُهُ بَلَلًا فَقالَ: «ما هَذا يا صاحِبَ الطَّعامِ؟» قالَ أصابَتْهُ السَّماءُ يا رَسُولَ اللہ، قالَ: «أفَلا جَعَلْتَهُ فَوْقَ الطَّعامِ كَيْ يَراهُ النّاسُ، مَن غَشَّ فَلَيْسَ مِنِّي»ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلّے کے ڈھیر کے پاس سے گزرے اور آپ نے اپنا ہاتھ اس میں ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں۔ آپ نے فرمایا: اے غلے والے یہ کیا ہے؟ تو اس نے عرض کی یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اس میں بارش کا پانی پہنچ گیا ہے۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو کیا تم نے اس (تر غلے) کو اوپر نہ رکھا تاکہ لوگ اسے دیکھ لیں، "جس نے دھوکا دیا وہ مجھ سے نہیں"۔(صحیح مسلم، 1/ 99)

(4) عَنْ قَيْسِ بْنِ أبِي غَرَزَةَ قالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بِصاحِبِ طَعامٍ يَبِيعُ طَعامَهُ، فَقالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : «يا صاحِبَ الطَّعامِ، أسْفَلُ الطَّعامِ مِثْلُ أعْلاهُ؟»، فَقالَ: نَعَمْ، فَقالَ رَسُولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : «مَن غَشَّ المُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنهُمْ»ترجمہ: قیس بن ابی غرزہ سے ہے، کہتے ہیں کہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلّے والے کے پاس سے گزرے جو اپنا غلہ بیچ رہا تھا۔ تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے غلے والے! کیا غلہ (کے ڈھیر) کا نچلا اور بالائی حصہ ایک جیسا ہے؟ تو اس شخص نے کہا: ہاں، پھر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے مسلمانوں کو دھوکا دیا تو وہ ان میں سے نہیں۔(مسند أبي يعلى الموصلي، 2/ 233)

(5) عَنْ أبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ، عَنِ النَّبِيِّ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم قالَ: لاَ يَدْخُلُ الجَنَّةَ خِبٌّ ولاَ مَنّانٌ ولاَ بَخِيلٌ.ترجمہ:ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: "دھوکا دہی کرنے والا، احسان جتانے والا اور کنجوس شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا"۔(ترمذي، 3/ 408)


اللہ رب العزت کا بہت بڑا احسان ہے کی اس نے ہمیں انسان بنایا۔ انسان کے اندر کئی طرح کی صفتیں موجود ہوتی ہیں اس میں سے ایک بہت بری صفت دھوکا دہی ہے جو کہ ہمارے معاشرے میں بہت عام ہو چکی ہیں۔

دھوکہ دہی کی تعریف :برائی کو دل میں چھپا کر اچھائی ظاہر کرنا دھوکا کہلاتا ہے۔

دھوکہ دہی کی کچھ مثالیں بھی ملاحظہ ہو:(1)کسی چیز کا عیب چھپا کر اس کو بیچنا (2)اصل بتا کر نقل دے دینا (3)غلط بیانی کرکے کسی سے مال بٹورنا جیسا کی پیشہ ور بھکاریوں کا طریقہ ہے۔

کفار کے مکرو فریب کے متعلق قراٰنِ پاک میں یوں ارشاد ہوتا ہے : اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَكَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللّٰهُ بِهِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَهُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَۙ(۴۵) ترجمۂ کنزالایمان : تو کیا جو لوگ برے مکر کرتے ہیں اس سے نہیں ڈرتے کہ اللہ انہیں زمین میں دھنسادے یا انہیں وہاں سے عذاب آئے جہاں سے انہیں خبر نہ ہو ۔(پ14 ،النحل: 45)

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بھی دھوکہ دہی کی شدید مذمت فرمائی ہے۔

(1) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو دوسرے کو نقصان پہنچائے اللہ اسے نقصان پہچائے گا اور جو دوسرے کو تکلیف دے اللہ پاک اسے تکلیف دے گا۔(جامع ترمذی، حدیث: 1940)

(2) ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : وہ شخص ملعون ( یعنی اللہ کی رحمت سے دور) ہے جس نے کسی مومن کو نقصان پہنچایا یا اس کو دھوکہ دیا۔(جامع ترمذی، ص 475 ،حدیث: 1941)

(3)امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا تین شخص جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔(1)دھوکہ باز (2) احسان جتانے والا (3)بخیل۔(کنزالعمال،/3218،حدیث:7823)

(4)حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جو ہمارے ساتھ دھوکہ بازی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے اور مکر و دھوکہ بازی جہنم میں ہے۔(کنز العمال، ص 218 ،حدیث: 2821)

(5) امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جو کسی مسلمان کے ساتھ مکر کرے یا نقصان پہچائے یا دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔(کنزالعمال، ص 218 ،حدیث: 2822)

دھوکہ دینا بہت بری چیز ہے جو کہ دنیا و آخرت کے لیے نہایت ہی نقصان دہ ہے اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں میں دوسروں کو دھوکا دینے اور خود دھوکا کھانے سے بچائے۔


دھوکہ دینا خالق و مخلوق ، مومن و کافر ، نیک اور بد سب کے نزدیک ایک مذموم فعل ہے، دھوکہ دینے والے پر لوگوں کا اعتماد ایک بار ہی میں زمیں بوس ہو جاتا ہے، پھر دوبارہ دھوکہ دینے والا شخص ایڑی چوٹی کا زور لگانے کے باوجود بھی کما حقہ لوگوں کا اعتماد حاصل نہیں کر پاتا ،ہمیشہ وہ لوگوں کی نظروں میں ہوتا ہے کہ کہیں پھر سے یہ شخص ہمیں دھوکا نہ دے دے۔

دھوکہ دہی کی مذمت کے حوالے سے کثیر احادیث مبارکہ موجود ہیں ان میں سے پانچ حدیثیں ملاحظہ کیجئے :

(1) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ اس پر لعنت ہو جو کسی مسلمان کو تکلیف پہنچائے یا اسے دھوکہ دے ۔(کنز العمال ،کتاب البر ،حدیث: 7821)

(2) مدینے والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا دھوکے باز،بخیل اور احسان جتلانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (کنز العمال کتاب البر ،حدیث: 7826)

(3) پیارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے کہ جس نے ہمیں دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں،مکروفریب جہنم میں (لے جانے کا باعث) ہے۔ (کنز العمال کتاب البر ،حدیث:7824)

(4) ایک مرتبہ حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا گزر غلے کے ایک ڈھیر پر ہوا، نبی علیہ السلام نے اس میں ہاتھ ڈالا تو آپ کی انگلیاں تر ہوگئیں، فرمایا : تم نے اس سے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ اسے دیکھ لیں جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ (الزواجر عن اقتراف الکبائر مترجم،ص 348)

آج کل دکان دار اسی طرح اپنے گاہکوں کو دھوکہ دیتے ہیں کہ سڑا ہوا سامان بوری کے نیچے رکھ کر اوپر خوب سجاتے ہیں تاکہ گاہک کا دل اس طرف مائل ہوجائے یہی وجہ ہے کہ آج ہر کوئی ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھتا ہے، گاہک دکان دار کو کہیں ملاوٹی سامان یا ناپ تول میں کمی بیشی نہ کردے، دوکاندار گاہکوں کو کہیں جعلی نوٹ نہ تھما دے، مریض ڈاکٹر کو کہیں نقلی دوائی نہ دے دے، حتی کہ کچھ لوگ دینی معاملات میں بھی دھوکہ دینے لگے ہیں ۔ اللہ پاک ہم سب کو دھوکہ دہی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


دھوکا دہی لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی جب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اس میں دنیاوی اور اُخروی نقصان ہے۔اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)ترجمۂ کنز الایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1، البقرۃ:9) صِراطُ الجنان میں ہے: ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے نہ رسول پر اور نہ مومنین پر بلکہ درحقیت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں۔(صراط الجنان،1/74)

دھوکا ایسی بُری خصلت ہے جو اعتبار کو ختم کر دیتی ہے اور جب ایک مرتبہ اعتبار ختم ہوجائے تو دوبارہ مشکل سے قائم ہوتا ہے۔ جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیا چیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے تو حقیقت سامنے آنے پروہ دوبارہ ہم پر بھروسا کرنے کیلئے مشکل ہی سے تیار ہوگا۔ دھوکا دینے کی بُری عادت تاجر گاہک، سیٹھ مزدور، ڈاکٹر مریض، استاد اور شاگرد وغیرہ بہت سے طبقوں میں پائی جاتی ہے۔

آئیے دھوکے کی مذمّت پر پانچ احادیثِ مبارکہ ملاحظہ کیجئے:

(1)حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا یعنی جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم میں سے نہیں۔(مسلم،ص64،حدیث:283)

(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم غلہ کے ڈھیر پر سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس غلہ میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی، آپ علیہ السّلام نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہیں کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم،ص64، حديث: 284) علامہ عبدُالرءوف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: کسی چیز کی (اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض القدیر،6/240،تحت الحدیث:8879)

(3)حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: دھوکے باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی، 3/388، حدیث: 1970)

(4)نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن (دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور کریمُ النفس ہوتا ہے، جب کہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا ہے۔(ترمذی، 3/388، حدیث:1971)

(5)حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے (بطورِ نشانی کے) ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذر یعے وہ پہچانا جائے گا، کہا جائے گا:یہ فلاں کی دھوکے بازی ہے۔ (مسلم،ص740،حدیث:4535)

قراٰنِ کریم اور احادیثِ طیبہ میں اللہ ربُ العزت اور اس کے پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکا دینے کی سخت مذمت بیان کی ہے۔اگر ہم ان وعیدوں سے بچنا چاہتے ہیں تو قراٰن و حدیث پر عمل پیرا ہوں۔

فِی زمانہ دھوکے اور فراڈ کی نئی صورتیں سامنے آتی رہتی ہیں: جیسے خرید و فروخت میں2نمبر چیز دے دینا یا کسی کو نوکری دلانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسا دے کر مال وصول کرتے رہنا، یا ایس ایم ایس کے ذریعے قر عہ اندازی میں انعام نکل آنے یا کار، بائیک،سونا، لیپ ٹاپ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلوں بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا یا کسی کو زمین کے جعلی کاغذات دکھا کر زمین کی رقم وصول کرکے ر فو چکر ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔

دھوکا دینا بھی کئی طرح سے ہوتا ہے، مثلاً اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کی بجا آوری نہ کرنا، والدین اور عزیز و اقارب کو دھوکا دینا، خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکا دینا، کاروبار اور منفعت کے لئے دھوکا دہی کرنا وغیرہ۔ دینِ اسلام نے ان تمام صورتوں سے سختی سے منع کیا ہے اور ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم قراٰن و حدیث کی تعلیمات پرعمل کریں یہ ہماری دنیا و آخرت کے لئے فائدہ مند ہے۔

اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے ہمیں دینِ اسلام کے احکام پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دھوکا دینے سے محفوظ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم