غلام نبی(درجہ دورۂ حدیث،جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ حیدرآباد پاکستان)
غلام نبی(درجہ دورۂ حدیث،جامعۃُ المدینہ فیضانِ مدینہ حیدرآباد پاکستان)
دھوکا دہی لوگوں کے درمیان
ایک عام سی چیز بن گئی جب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اس میں دنیاوی
اور اُخروی نقصان ہے۔اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹)﴾ترجمۂ کنز الایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کو اور
حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1، البقرۃ:9)
صِراطُ الجنان میں ہے: ان بے دینوں کا فریب نہ خدا پر چلے نہ رسول پر اور نہ
مومنین پر بلکہ درحقیت وہ اپنی جانوں کو فریب دے رہے ہیں اور یہ ایسے غافل ہیں کہ
انہیں اس چیز کا شعور ہی نہیں۔(صراط الجنان،1/74)
دھوکا ایسی بُری خصلت ہے جو اعتبار کو ختم کر دیتی ہے اور
جب ایک مرتبہ اعتبار ختم ہوجائے تو دوبارہ مشکل سے قائم ہوتا ہے۔ جب ہم کسی سے جان
بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیا چیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش
کریں گے تو حقیقت سامنے آنے پروہ دوبارہ ہم پر بھروسا کرنے کیلئے مشکل ہی سے تیار ہوگا۔
دھوکا دینے کی بُری عادت تاجر گاہک، سیٹھ مزدور، ڈاکٹر مریض، استاد اور شاگرد
وغیرہ بہت سے طبقوں میں پائی جاتی ہے۔
آئیے دھوکے کی مذمّت پر پانچ احادیثِ مبارکہ
ملاحظہ کیجئے:
(1)حضورِ اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَيْسَ مِنَّا یعنی جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم میں سے
نہیں۔(مسلم،ص64،حدیث:283)
(2)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم غلہ کے ڈھیر پر سے گزرے تو آپ نے اپنا ہاتھ اس غلہ میں داخل کیا تو
ہاتھ میں تری پائی، آپ علیہ السّلام نے فرمایا: یہ کیا ہے؟ اس نے عرض کی: یا رسولَ
اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آسمان سے بارش ہوئی تھی۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہیں کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے
دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں۔ (مسلم،ص64، حديث: 284) علامہ عبدُالرءوف مناوی رحمۃُ
اللہِ علیہ لکھتے ہیں: کسی چیز کی (اصلی) حالت کو پوشیدہ رکھنا دھوکا ہے۔(فیض
القدیر،6/240،تحت الحدیث:8879)
(3)حضرت ابوبکر صدیق
رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے: حُضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
دھوکے باز، احسان جتانے والا اور بخیل جنت میں داخل نہیں ہوگا۔(ترمذی، 3/388،
حدیث: 1970)
(4)نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مؤمن (دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور
کریمُ النفس ہوتا ہے، جب کہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا
ہے۔(ترمذی، 3/388، حدیث:1971)
(5)حُضورِ اکرم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قیامت کے دن ہر دھوکے باز کے لئے (بطورِ
نشانی کے) ایک جھنڈا ہوگا جس کے ذر یعے وہ پہچانا جائے گا، کہا جائے گا:یہ فلاں کی
دھوکے بازی ہے۔ (مسلم،ص740،حدیث:4535)
قراٰنِ کریم اور احادیثِ طیبہ میں اللہ ربُ العزت اور اس کے
پیارے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دھوکا دینے کی سخت مذمت بیان کی
ہے۔اگر ہم ان وعیدوں سے بچنا چاہتے ہیں تو قراٰن و حدیث پر عمل پیرا ہوں۔
فِی زمانہ دھوکے اور فراڈ کی نئی صورتیں سامنے آتی رہتی
ہیں: جیسے خرید و فروخت میں2نمبر چیز دے دینا یا کسی کو نوکری دلانے یا بیرونِ ملک
بھجوانے کا جھانسا دے کر مال وصول کرتے رہنا، یا ایس ایم ایس کے ذریعے قر عہ
اندازی میں انعام نکل آنے یا کار، بائیک،سونا، لیپ ٹاپ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف
حیلوں بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا یا کسی کو زمین کے جعلی کاغذات دکھا کر زمین کی
رقم وصول کرکے ر فو چکر ہوجانا وغیرہ وغیرہ۔
دھوکا دینا بھی کئی طرح سے ہوتا ہے، مثلاً اللہ پاک اور اس کے رسول
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے احکام کی بجا آوری نہ کرنا، والدین اور عزیز و
اقارب کو دھوکا دینا، خود کو اور اپنے دوستوں کو دھوکا دینا، کاروبار اور منفعت کے
لئے دھوکا دہی کرنا وغیرہ۔ دینِ اسلام نے ان تمام صورتوں سے سختی سے منع کیا ہے
اور ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم قراٰن و حدیث کی تعلیمات پرعمل کریں یہ ہماری دنیا و
آخرت کے لئے فائدہ مند ہے۔
اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے
ہمیں دینِ اسلام کے احکام پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دھوکا دینے سے
محفوظ فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم