کھوئی ہوئی چیز وہیں سے مل جاتی ہے جہاں وہ گمُی تھی سوائے اعتبار کے کہ جس شخص کا اعتبار ایک مرتبہ ختم ہوجائے دوبارہ مشکل ہی سے قائم ہوتا ہے۔ اعتبار ختم ہونے میں اہم کردار" دھوکے" کا بھی ہے جب ہم کسی سے جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے یا گھٹیا چیز کو عمدہ بول کر اسے بے وقوف بنانے کی کوشش کریں گے توحقیقت سامنے آنے پر وہ دوبارہ کبھی بھی ہم پر بھروسا نہیں کرے گا دھوکہ دینے کی بُری عادت نے تاجر اور گاہک، مزدور اور سیٹھ ،اور کئی لوگوں کو ایک دوسرے سے خوفزدہ کردیا ہے ۔

ہمارے معاشرے میں دھوکہ دینا عام ہو چکا ہے اور لوگ مختلف معاملات میں ایک دوسرے کو دھوکہ دینے اور بے وقوف بنانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے دھوکہ کرنے والے کئی مرتبہ دینی معاملات میں بھی دھوکہ دینے سے گریز نہیں کرتے فی زمانہ دھوکہ دینے کی نت نئی صورتیں سامنے آتی ہیں کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے قرعہ اندازی میں انعام نکل آنےیا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورلیتا ہے توکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو دُکھ وتکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے افسوس دھوکا دینا لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہےجب کہ اسلام میں یہ حرام اور گناہِ کبیرہ ہے ۔

اللہ پاک نے سورۃ البقرہ کی آیت نمبر9میں منافقین کی یہ صفت بیان فرمائی ہے ،ارشاد فرماتا ہے: یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ۚ-وَ مَا یَخْدَعُوْنَ اِلَّاۤ اَنْفُسَهُمْ وَ مَا یَشْعُرُوْنَؕ(۹) ترجمۂ کنزالایمان: فریب دیا چاہتے ہیں اللہ اور ایمان والوں کواور حقیقت میں فریب نہیں دیتے مگر اپنی جانوں کو اور انہیں شعور نہیں۔(پ1،البقرۃ:9)

(1) صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ''نجش‘‘ ( فریب‘ دھوکہ ) سے منع فرمایا تھا۔

(2) امیرالمؤمنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو کسی مومن کو ضرر پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر اور دھوکہ بازی کرے وہ ملعون ہے۔

(3)صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر دھوکہ دینے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، جس کے ذریعہ وہ پہچانا جائے گا۔

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک غلے کے پاس سے گزر ہوا آپ نے اپنا ہاتھ اس غلے میں داخل کیا تو ہاتھ میں تری پائی آپ نے فرمایا! یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا ، یا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم! آسمان سے بارش ہوئی تھی آپ نے فرمایا: اسے اوپر کیوں نہ کیا کہ لوگ اسے دیکھ لیتے، جس نے دھوکا دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

(5)سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مومن(دنیا کے بارے میں) بھولا بھالا اور کریم النفس ہوتا ہے جبکہ کافر اور منافق دھوکے باز، خبیث اور کمینہ ہوتا ہے۔