اللہ تعالی قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا
الْاِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِیْمِۙ(۶)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے آدمی
تجھے کس چیز نے فریب دیا اپنے کرم والے رب سے ۔(پ30،الانفطار:6)
اس آیت کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ا نسان! تجھے کس چیز نے
اپنے کرم والے رب کریم کے بارے میں دھوکے میں ڈال دیا کہ تو نے اس کی نعمت اور کرم
کے باوجود اس کا حق نہ پہچانا اور اس کی نافرمانی کی جو تجھے عدم سے وجود میں لے
کر آیا،پھر اس نے تمہارے اعضاء کو ٹھیک بنایا اور تجھے پکڑنے کے لئے ہاتھ،چلنے کے
لئے پاؤں ،بولنے کے لئے زبان،دیکھنے کے لئے آنکھ اور سننے کے لئے کان عطا
کئے،اور تمہارا حال یہ ہے کہ تم اللہ پاک کی ان کرم نوازیوں کو دیکھ کر بھی ا س کی
نافرمانی سے نہیں رکے بلکہ تم انصاف کے دن کو جھٹلانے لگے اور اعمال کی جزاملنے کے
دن کاانکار کرنے لگ گئے۔( جلالین، الانفطار، تحت الآیۃ: 6، ص492، ملتقطاً)
دھوکے کی تعریف : نفس کا اس بات پر ٹھہر جانا جو خواہشِ نفس کے مطابق ہو اور
شیطانی شبہ اور فریب کے باعث طبیعت اس کی طرف مائل ہو دھو کا کہلاتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک ایسے آدمی کے پاس سے گزرے جو غلہ بیچ رہا تھا۔ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے پوچھا کہ تم اسے کس طرح فروخت کرتے ہو۔ اس نے آپ
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بتلا دیا۔ اس دوران آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم پر وحی نازل ہوئی کہ اپنا دستِ مبارک اس غلہ کے اندر داخل کریں۔ جب حضور صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنا دستِ مبارک اس غلہ میں داخل کیا تو وہ اندر سے
گیلا اور تر نکلا، اس پر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس
نے دھوکا دہی سے کام لیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔(ابو داؤد، جلد 3، حدیث : 57)
عقل مندوں( یعنی علم والوں) کے کھانے پینے اور سونے کی بھی
کیا بات ہے ،انہیں جاہلوں کی شب بیداری اور عبادت میں محنت ومشقت کیسے دھوکا دے
سکتی ہے ؟صاحب تقوی اور یقین رکھنے والے کا ذرہ برابر عمل دھوکے میں مبتلا لوگوں
کے زمین بھر کے عمل سے افضل ہے ۔(الزھد للامام احمد بن حنبل ، زہدابی الدرداء،ص162،حدیث
: 738)
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث
پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی وہ بے وقوف ہے جو کام کرے دوزخ کی اور امید کرے جنت
کی ،کہا کرے اللہ غفور الرحیم ہے باجرہ بوئے اور امید کرے گیہوں کاٹنے کی،کہا کرے
اللہ غفور الرحیم ہے کاٹتے وقت اسے گندم بنا دے گا اس کا نام امید نہیں۔ عقل مند
وہ ہے جو اپنے نفس کو فرمانبردار بنائے اور موت کے بعد کام آنے والے عمل کرے اور
بیوقوف وہ ہے جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے پھر بھی اللہ پاک سے امید رکھے۔ (مرأة
المناجیح،7/103)
خواجہ حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعض لوگوں کو
جھوٹی امید نے سیدھے راہ نیک اعمال سے ہٹا دیا ہے جیسے جھوٹی بات گناہ ہے ایسے ہی
جھوٹی آس بھی گناہ ہے ۔(احیاء العلوم، 3/1125)
مذکورہ بالا احادیث کریمہ سے یہ بات معلوم ہوگئی کہ دھوکا
تمام برائیوں کی جڑ ہے اور اسی سے ہلاکت میں ڈالنے والے تمام معاملات کی ابتدا
ہوتی ہے تو ان تمام چیزوں کا جاننا ضروری ہے جو دھوکے کی طرف لے جانے والے ہیں ۔
اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ دھوکا دینے والے کی عزت سماج
میں نہیں ہوتی ہے سید عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:
"دھوکا دینے والا ہم میں سے نہیں ہے" تو اس کی عزت سماج میں کیسے ہو
سکتی ہے اور ایسے لوگوں کو عوام الناس پسند نہیں کرتے ہیں
حضرت ابوہریرہ (رضى
اللہ عنہ) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: نیکوکار مومن بڑا بھولا اور شریف ہوتا ہے
جب کہ بدکار بڑا مکار و بخیل و کمینہ ہوتا ہے۔ (اس حدیث میں ایک لفظ غرّ ذكر ہوا
جس کا معنی ہیں دھوکہ کھانے والا شخص) (، ترمذی، ابوداؤد)
وعن
أبي هريرة قال قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم هلك كسرى فلا يكون كسرى بعده وقيصر
ليهلكن ثم لا يكون قيصر بعده ولتقسمن كنوزهما في سبيل اللہ وسمى الحرب خدعة ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کسریٰ ہلاک ہوگیا، اس کسری کے بعد اور کوئی
کسری نہیں ہوگا اور یقیناً قیصر یعنی روم کا بادشاہ بھی ہلاک ہوگا جس کے بعد کوئی
اور قیصر نہیں ہوگا، نیز ان دونوں بادشاہوں کے خزانے اللہ کی راہ میں تقسیم کئے
جائیں گے۔ اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے جنگ کا نام دھوکہ اور فریب
رکھا۔ (بخاری و مسلم)
دھوکے سے بچنے کا
علاج :دھوکے سے بچنے کے دوعلاج ہیں:(1) ایک ایمان کی تصدیق کے ذریعے(2) دوسرا دلیل حجّت سے ۔
پہلا ایمان کی تصدیق اس طرح کرے کہ اللہ پاک کے ان تمام
فرامین کو سچّا جانے جو دھوکے کی وعید کے متعلق نازل ہوئی ۔ دوسرا یہ ہے کہ انسان
ان تمام خیالات کے پیچھے نہ پڑے جو شیطان کے طرف سے ہو اس لیے کہ شیطان انسان کا
کھلا ہوا دشمن ہے اور ہمیشہ شریعت کو پیشِ نظر رکھیں ،تو آپ دھوکا سے بچ سکتے ہیں
اور دھوکا سے بچنے کے تین اسباب علمائے کرام بیان فرماتے ہیں (1)عقل (2) معرِفت (3)علم
اس کی تفصیل جاننے کے لیے آپ احیاء العلوم جلد سوم کا مطالعہ فرمائیے
(ص1223سے1226تک)
حاصل کلام ایک لفظوں میں یہ ہے کہ دھوکا سے وہی شخص بچ سکتا
ہے جس کی عقل و ذہانت عمدہ ترین میں شمار ہوتا ہو اور شریعت کا علم رکھتا ہو۔
اللہ رب العزت کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کے پاک پروردگار
عالم ہم تمام مسلمانوں کو دھوکہ دہی اور مکرو فریب سے محفوظ ومامون فرمائے اور ہم
تمام مسلمانوں کو اسلام کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین یارب العالمین