دیواریں چھوٹی ہوتی تھیں لیکن پردہ ہوتا تھا

تالوں کی ایجاد سے پہلے صرف بھروسہ ہوتا تھا

کسی نے کیا خوب لکھا ہے : وقت، اعتبار اور عزت ایسے پرندے ہیں جو اُڑ جائیں تو واپس نہیں آتے، ہمارے معاشرے کی کہانی میں بھی یہ پرندے اُڑتے دکھائی دیتے ہیں، ہر بازار ہر گھر اور ہر دفتر کا حال یہ ہو گیا کہ مسلمان ،مسلمان ہی کو اپنے ذاتی فائدے کے لیے دھوکہ دے رہا ہے کہیں کوئی کسی کو ایس ایم ایس کرکے لاٹری میں انعام نکل آنے،یا کار وغیرہ ملنے کی اطلاع دے کر مختلف حیلے بہانوں سے اس سے رقم بٹورنا شروع کردیتا ہے تو کہیں کوئی کسی کی زمین کے جعلی کاغذات دِکھا کر زمین کی رقم وصول کرکے رفو چکر ہوجاتا ہے اورکہیں نوکری دلوانے یا بیرونِ ملک بھجوانے کا جھانسہ دے کر جمع پُونجی پر ہاتھ صاف کرلیا جاتا ہے ،الغرض طرح طرح سے مسلمانوں کو تکلیف میں مبتلا کیا جاتا ہے،اس طرح اعتبار کی زنجیر کو پاش پاش کر دیا جاتا ہے ۔

آج جن دوستوں، گھرانوں، تاجروں وغیرہ میں اعتبار کا رشتہ مضبوط ہے وہ سکھی اور جنہیں کسی نے دھوکا دیا ہو وہ دُکھی دکھائی دیتے ہیں۔ مذہب اسلام اس کی پرزور انداز میں تردید کرتا ہے۔ دھوکا دینے والے سے اللہ پاک کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا، لہٰذا دھوکے کے متعلق 5 حدیثیں ذیل میں ذکر کرتا ہوں :-

(1)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) نے فرمایا کہ مومن آدمی بھولا بھالا (دھوکہ کھانے والا) اور شریف ہوتا ہے اور فاسق انسان دھوکا باز اور کمینہ ہوتا ہے۔ (سنن ابوداؤد،جلد سوم،حدیث: 1387)

(2) اللہ کے رسول علیہ السلام نے فرمایا: جس نے ہمارے ساتھ دھوکا کیا وہ ہم سے نہیں۔(مسلم، ص65، حدیث:101)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے منع فرمایا دھوکا کی بیع سے اور کنکر کی بیع سے۔(سنن ابوداؤد،جلد دوم،حدیث: 1600)

(4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا تم خریدار کو دھوکا دینے کے واسطے کسی چیز کی قیمت نہ بڑھایا کرو ۔(سنن نسائی،جلد دوم،حدیث: 1152)

دھوکا دینے والوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ ایک دن وہ بھی آئے گا، جب انہیں دنیا سے رخصت ہونے کے بعد اپنی کرنی کا پھل بُھگتنا ہوگا ،چنانچہ حسابِ ِآخرت سے بچنے کے لئے یہیں دنیا میں سچی توبہ کرکے اپنا حساب کرلیں کہ جس جس سے رقم ہتھیائی ہے اس کو واپس کریں یا معاف کروالیں ،اگر وہ زندہ نہ ہوتو اس کے وارثوں کو ادائیگی کریں یا معاف کروا لیں۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

مجھے سچّی توبہ کی توفیق دیدے،

پئے تاجدارِ حرم یاالٰہی