اللہ کریم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا فرمائی اور سب پر پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فضیلت عطا فرمائی اسی طرح دنوں میں سے جمعۃ المبارک کو،مہینوں میں سے ماہ رمضان المبارک کو ،راتوں میں سے لیلۃ القدر کو اور شہروں میں سے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو فضیلت عطا فرمائی ۔ مکہ مکرمہ میں کعبہ اللہ، حجر ِاسود جنتی پتھر ،میدانِ عرفات ،مسجد ِنمرہ، جنت المعلی قبرستان ہے۔اور سب سے بڑھ کر اسی شہر میں ہی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی ۔یہاں ہر دم رحمتوں کی چھم چھم بارش برستی ہے۔ لطف کرم کا دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا اور مانگنے والا کبھی محروم نہیں لوٹتا ۔اسی طرح مدینہ منورہ کے بارے میں ہے: جب کوئی مسلمان زیارت کرنے کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔ (جذب القلوب، ص211) مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ ،2\176،حدیث :1413) ۔ مدینہ میں جینا حصولِ برکت اور مرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے : جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

شہر مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ بڑی ہی فضیلت والے شہر ہیں چنانچہ قرآنِ پاک میں اللہ کریم شہر مکہ کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(2)ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

تفسیر صراط الجنان:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ:مجھے اِس شہر کی قسماس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں  ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اِس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں  تشریف فرما ہو۔ یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قَسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ پاک نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں فرمایا: ’’اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(96) فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا‘‘(ال عمران:96،97)ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ اس میں کھلی نشانیاں ہیں ، ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔

اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں  کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا:’’وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ‘‘( بقرہ:144)ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں  کو حکم دیا:’’وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى‘‘(بقرہ:125) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور(اے مسلمانو!)تم ابراہیم کےکھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:’’وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ   حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ  اسْتَطَاعَ  اِلَیْهِ  سَبِیْلًا‘‘(ال عمران:97) ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:’’وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا‘‘(بقرہ:125)ترجمۂ کنزُ العِرفان: اور(یاد کرو)جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔ اورسورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔(تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ:2، 11/ 164)

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’علما فرماتے ہیں:اللہ پاک نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(1)وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ‘‘اس میں رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللہ پاک نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مبارک شہر میں  نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللہ پاک کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے۔مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانااس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت،1 /65 )

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں :

وہ خدانے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا           کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

اللہ کریم سے دعا ہے کہ تمام عاشقانِ رسول کو ہر سال ان شہروں کی باادب حاضری نصیب فرمائےاور ہمیں ان کی خوب خوب برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ کریم اور ذکر مکہ و مدینہ:

قرآنِ کریم اللہ کریم کی وہ آ خری کتاب ہے جو اللہ کریم نے اپنے آ خری نبی حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمائی۔اس کتاب قرآنِ مجید میں بے شمار چیزوں کا ذکر موجود ہے۔خصوصیت کے ساتھ کئی مقامات پر شہر مکہ و مدینہ کا بھی ذکر فرمایا گیا جس سے ان شہروں کی عظمت میں اضافہ ہوا۔ہر سورت کی تلاوت کے وقت بھی ان دو شہروں کی یاد تازہ ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے صرف ان دو شہروں کو نزول ِقرآن کے لئے چنا۔مکہ مکرمہ میں نازل ہونے والی سورت کو مکی سورت کہا جاتا ہے جبکہ مدینہ منورہ میں نازل ہونے والی سورت کو مدنی سورت کہا جاتا ہے۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

( وسائل بخشش 327)

ذکرِ مکہ مکرمہ:

اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں شہرِ مکہ کا ذکر کچھ اس طرح فرمایا:لا اقسم بھذا البلد وانت حل بھذا البلد ترجمہ:مجھے اس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پارہ 30 سورہ بلد آ یت 1/2)

(لا اقسم بھذا البلد) اس آیت اور اس کے بعد والی آ یت میں ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم جبکہ تم اس میں تشریف فرما ہو۔یہاں اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس کی قسم ارشاد فرمائی۔ (تفسیر صراط الجنان جلد 10 صفحہ 678)اور سورهٔ بلد کی دوسری آ یت میں گویا ارشاد فرمایا:اے پیارے حبیب! مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آ پ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی۔(صراط الجنان جلد 10 صفحہ:679)

مکہ مکرمہ کی ایک فضیلت یہ ہےکہ اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:ان اول بیت وضع للناس للذی ببکة مبارکا و ھدی للعلمین فیہ ایت بینت مقام ابراھیم و من دخله كان امنا ترجمۂ کنز العرفان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے ۔اس میں کھلی نشانیاں ہیں ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے اور جو اس میں داخل ہوا امن والا ہوگیا۔(سورہ ال عمران آ یت 96/97)

شان نزول:

یہودیوں کے رد میں آ یتِ کریمہ 96 نازل ہوئی کہ ان لوگوں نے کہا تھا :بیت المقدس کعبے سے افضل ہے ۔ (صراط الجنان پارہ 4/ خازن ال عمران تحت الایہ 96،1/274)انہیں بتادیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کے لئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش ص 124)

ذکرِ مدینہ منورہ:

قرآنِ پاک میں کئی مقامات پر ذکرِ مدینہ بھی گزرا ہے۔چنانچہ اللہ پاک قرآنِ پاک سورة المنافقون آ یت نمبر 8 میں ارشاد فرماتا ہے:یقولون لئن رجعنا الی المدینة لیخرجن العز منھا الاذل وللہ العزة ولرسوله وللمؤمنين ولكن المنفقين لا يعلمون0ترجمۂ كنز العرفان:کہتے ہیں:قسم ہے کہ اگر ہم مدینہ لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔(ترجمۂ کنز العرفان صراط الجنان صفحہ 168)ایک اور مقام پر ارشادِ خداوندی ہے:والذین تبوؤ الدار والايمان من قبلھم یحبون من ھاجر الیھم ترجمۂ کنز العرفان:اور وہ جنہوں نے ان (مہاجرین )سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت کرتے ہیں۔مذکورہ آ یت میں بھی شہر سے مراد شہر مدینہ ہے۔(صراط الجنان جلد 10 صفحہ 74سورہ حشر ،آ یت: 9)

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آ قا میرے سرور مدینے میں

(وسائل بخشش)

حرفِ آ خر:

ہمیں بھی چاہیئے کہ ہم بھی خوب ذوق و شوق کے ساتھ ذکر مکہ و مدینہ کریں۔اپنے اور اپنے بچوں کے دلوں میں بھی ان کی عظمت کو پیدا کرنے کی کوشش کریں۔اس کا بہترین ذریعہ دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ہے جس نے بچے بچے کو ذکر مکہ و مدینہ کرنے کا انداز سکھادیا۔

مری آ نے والی نسلیں ترے عشق ہی میں مچلیں انہیں نیک تو بنانا مدنی مدینے والے

(وسائل بخشش)


وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد                         یہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

حرمین طیبین وہ بلند پایہ مقامات ہیں کہ جن کے فضائل کوصرف سن کر ہی مسلمانوں کے دل ان کی زیارت کو تڑپ اٹھتے ہیں۔

فضیلت کی وجہ:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے وہاں قیام فرمانے کی وجہ سے ان کویہ فضیلت ملی ۔جیسا کہ یہ مثال مشہور ہے : شرف المکان بالمکین یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے ۔

قرآنِ کریم میں ذکر ِمکہ:

قرآنِ کریم میں جس کثرت سے مکہ مکرمہ کا ذکر ہے کسی اور مقام کا ایسا تذکرہ نہیں اس سے اس کی فضیلت کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔رب کریم کی مکہ کے بارے میں قسم کا ذکر موجود ہے۔فرمایا:لا اقسم بھذالبلد وانت حل بھذالبلد(البلد :1،2) ترجمۂ کنزالایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب ! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مکہ کے لیے مانگی گئی دعا کا تذکرہ بھی قرآن میں موجود ہے۔ عرض کی : رب اجعل ھذابلدا امنا(البقرہ :126)ترجمۂ کنزالایمان :اے رب میرے اس شہر کو امان والا کر دے ۔

پھر ایک مقام پر اس دعا کی مقبولیت کا ذکر بھی کیا گیا ہے ،فرمایا:انا جعلنا حرما امنا(العنکبوت :67)ترجمۂ کنز العرفان : ہم نے حرمت والی زمین امن والی بنائی ۔

قرآنِ کریم میں ذکر مدینہ :

مدینہ منورہ کا ذکر قرآنِ کریم میں مختلف انداز میں کیا گیا،کہیں مدینہ منورہ میں ہونے والی جنگوں کا بیان ہے ، تو کہیں مدینہ منورہ کی پاکیزگی کو بیان کیا گیا ہے،ایک مقام پرفرمایا گیا : وَ لَوْ دُخِلَتْ عَلَیْهِمْ مِّنْ اَقْطَارِهَا ثُمَّ سُىٕلُوا الْفِتْنَةَ لَاٰتَوْهَا وَ مَا تَلَبَّثُوْا بِهَاۤ اِلَّا یَسِیْرًا (سورہ احزاب:14)ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر ان پر مدینہ کی(مختلف) طرفوں سے فوجیں آجاتیں پھر ان سے فتنے کا مطالبہ کیا جاتا تو ضرور ان کا مطالبہ دےدیتےاور اس میں دیر نہ کرتے۔

اس آیتِ مبارکہ میں غزوۂ احزاب(جو کہ مدینہ میں ہوا )کا واقعہ بیان کیا گیا جب منافقین نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے گھر جانے کی اجازت مانگی اور کہا:ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں تو اس موقع پر ان کے نفاق کو رب کریم نے ظاہر فرمایا کہ اگر مدینے کے اطراف سے ان پر حملہ ہو اور کہا جائے کہ تمہارے بچنے صرف یہی صورت ہے کہ تم اسلام سے منحرف ہو جاؤتو ضرور یہ ایمان سے پھر جائیں گے ۔ایک مقام پر مدینہ منورہ کے لیے لفظ یثرب بھی آیالیکن وہ اللہ کریم نے استعمال نہیں فرمایابلکہ منافقین کاقول نقل کیا ہے ،فرمایا :یااھل یثرب لا مقام لکم (الاحزاب :13) ترجمۂ کنزالایمان : اے مدینہ والو! (یہاں) تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یہاں اللہ کریم نے منافقین کاقول نقل فرمایا ہے۔ (تفسیر صراط الجنان ،جلد ہفتم ،ص :575)جبکہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تو فرماتے ہیں:جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے،مدینہ طابہ ہے،مدینہ طابہ ہے۔(مسند امام احمد،حدیث :18544 )اللہ کریم ہمیں ان مقامات کی زیارت نصیب فرمائے اور ان کا فیضان نصیب فرمائے۔امین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اِس روئے زمین میں زمین کے کچھ طبقات ایسے ہیں، جن کو اللہ کریم نے برکتوں اور سعادتوں سے نوازہ ہے، جن کو اللہ کریم نے لوگوں کے لئے سعادتوں اور بخششوں کا گہوارہ بنایا ہے، اُن میں سے مکہ شریف اور مدینہ شریف ایسے مراکزہیں،جن کی طرف ہمیشہ سے عقیدتوں اور محبتوں کے کارواں چلتے ہیں،یہ دونوں مقامات برکتوں اور سعادتوں سےمالا مال ہیں، مسلمانوں کے اہم مراکز ہیں، مکہ شریف حج کے لئے جاتے ہیں اور مدینہ شریف عاشقوں کی جان ہے، آنکھوں کی ٹھنڈک ہے، شہر مدینہ اور شہرِ مکہ بے پناہ فضائل سے مالا مال ہیں۔

فضائلِ مکہ مکرمہ:

1۔ اللہ کریم پارہ 4 سورۂ ال عمران آیت نمبر 96 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ مُبَارکَاً وَّھُدًی لِّلْعٰلَمِیْنَ۔ ترجمہ: بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

تفسیر: اللہ کریم نے اس کو پہلا گھر قرار دیا، روئے زمین پر عبادت کے لئے، جو پہلا گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے، اِسے ام القری کہا جاتا ہے۔

2۔ اللہ کریم سورۃ البلد پارہ 30 آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔ترجمہ: مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔

یہاں اِس شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ان آیات میں ارشاد فرمایا :اے حبیب! مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جبکہ تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو،یہاں اللہ کریم نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ اس کی قسم ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کریم نے اِسے امن والی جگہ بنایا اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: پیارے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام وبقا کی قسم

اسی طرح قرآنِ پاک میں جگہ بہ جگہ مکہ مکرمہ کا ذکر ہے۔

3۔ سورۂ شوری آیت نمبر 7 پارہ 25 میں اللہ کریم فرماتا ہے:ترجمہ:اور یونہی ہم نے تمہاری طرف عربی قرآن کی وحی بھیجی تاکہ تم مرکزی شہر اور اس کے اردگرد رہنے والوں کو ڈر سناؤ اور تم جمع ہونے کے دن سے ڈراؤ، جس میں کوئی شک نہیں اور ایک گروہ جنت میں ہے اور ایک گروہ دوزخ ہے۔یہاں مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔

4۔ اسی طرح اللہ کریم پارہ 20 سورۃ النمل آیت 91 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: مجھے تو حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں، جس نے اِسے حرمت والا بنایا ہے اور ہر شے اِسی کی ملکیت ہے اور مجھے حکم ہوا ہے کہ فرمانبرداروں میں سے رہوں۔

5۔اللہ کریم سورۃ القصص کی آیت نمبر 59 پارہ 20 میں فرماتا ہے: ترجمہ:اور تمہارا ربّ شہروں کو ہلاک کرنے والا نہیں ہے، جب تک ان کے مرکزی شہر میں رسول نہ بھیجے، جو اِن پر ہماری آیتیں پڑھے اور ہم شہروں کو ہلاک کرنے والے نہیں ہیں، مگر (اسی وقت) جب ان کے رہنے والے ظالم ہوں۔

اِس آیت میں مرکزی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے اور رسول سے مراد نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔

فضائلِ مدینہ منورہ:

معطر معطر دیارِ مدینہ منور منور جوارِ مدینہ

دو عالم نہ کیوں ہو نثارِ مدینہ ہیں محبوبِ ربّ تاجدارِ مدینہ

شہرِ مدینہ ایمان کا سر چشمہ ہے، ایمان کے احکام کا مظہر ہے، یہ افضل مقام ہے، حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اِس شہر سے بے پناہ محبت ہے، اسلام کی قوت، دین کے رواج، خیر و برکت کا سر چشمہ مدینہ ہے۔

2۔ اللہ کریم سورۃ الاحزاب آیت 60 میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ: منافق اور وہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں،اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اُکسائیں گے، پھر وہ مدینے تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر تھوڑے دن۔

2۔ پارہ نمبر 21 آیت 13 سورۃ الاحزاب میں اللہ کریم ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ:اور جب اِن میں سے ایک گروہ نے کہا:اے مدینے والو! یہاں تمہارے ٹھہرنے کی جگہ نہیں تو تم واپس چلو اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے یہ کہتے ہوئے اجازت مانگ رہا تھا کہ بے شک ہمارے گھر بے حفاظت ہیں،حالانکہ وہ بے حفاظت نہ تھے، وہ تو صرف فرار ہونا چاہتے تھے۔

تفسیر: اس آیت میں یثرب کا لفظ ذکر ہوا ہے، اس کے بارے میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :یثرب کا لفظ فساد و ملامت سے خبر دیتا ہے، وہ ناپاک اِسی طرف اشارہ کرکے یثرب کہتے، اللہ کریم نے ان پر رد کے لئے مدینہ طیبہ کا نام طابہ رکھا،حضور پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:یَقُوْلُوْنَ یَثْرِبَ وَھِیَ الْمَدِیْنَۃُ وہ اِسے یثرب کہتے ہیں، وہ تو مدینہ ہے۔

میری الفت مدینے سے یوں ہی نہیں مرے آقا کا روضہ مدینے میں ہے

3۔ پارہ 28 سورۃ المُنفِقُوُنَ آیت 8 میں ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالعرفان:وہ کہتے ہیں: قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا، حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

تفسیر: منافق کہتے ہیں:اگر ہم اس غزوے سے فارغ ہونے کے بعد مدینے کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا۔منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا، اللہ کریم ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں مقامات ہی افضل و اعلیٰ ہیں، مکہ مکرمہ کی فضیلت یہ ہے کہ مکہ میں اعمال کا ثواب چندگنا ہے، مسجد نبوی میں ادا کی ہوئی نماز ہزاروں نمازوں کے برابر ہے، اور مسجد حرام میں ادا کی ہوئی نماز ایک لاکھ کے برابر ہے، لیکن افضلیت کا سبب ثواب کی زیادتی ہر منحصر نہیں۔

معجم کبیر میں حضرت رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے،وہ کہتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو کہتے سنا،آپ فرماتے تھے: اَلْمَدِیْنَۃُ خَیْرٌمِّنَ الْمَکَّۃِ۔ بحوالہ: تفسیر صراط الجنان

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں مرے آقا مرے دلبر مدینے میں


مکہ و مدینہ کے فضائل پر مختصر تمہید:

شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تصنیف جذب القلوب الٰی دیار المحبوب میں لکھا ہے: امت کے تمام علما کا اس پر اتفاق ہےکہ زمین بھر کے سب شہروں میں سب سے زیادہ فضیلت اور بزرگی رکھنے والے دو شہر مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ ہیں، مگر اس میں اختلاف ہے کہ دونوں شہروں میں سے کس شہر کو کس شہر پر فضیلت اور کس کو کس پر ترجیح ہے۔تمام علما کا اس پر اجماع ہے کہ زمین کے تمام حصوں حتی کی کعبۃ اللہ سے بلکہ بعض علما جملہ آسمانوں سے یہاں تک کہ عرشِ معلی سے بھی افضل زمین کا وہ مبارک ٹکڑا ہے ،جس سے حضور سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا جسمِ اطہر ملا ہوا ہے، کیونکہ آسمان اور زمین دونوں ہی حضور علیہ السلام کے قدموں سے مشرف ہوئے ہیں۔

حضرت عمر فاروقِ اعظم وحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت امام مالک رحمۃُ اللہِ علیہ اور اکثر علمائے مدینہ منورہ کا مذہب یہ ہے کہ مکہ معظمہ پر مدینہ منورہ کو فضیلت ہے، لیکن بعض علما کہتے ہیں:مدینہ منورہ اگر چہ مکہ معظمہ سے افضل ہے،لیکن خاص کعبۃ اللہ اس سے مستثنی ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شہر مکہ معظمہ حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی قبر شریف کو چھوڑ کر باقی مدینہ شہر سے افضل ہے اور سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی قبر شریف کی زمین مکہ کے شہر بلکہ خانہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔

جن آیات میں مکہ مدینہ کا ذکر آیا ہے، ان کا ترجمہ و تفسیر اور مختصر پس منظر:

آیت:لَا اُقْسِمُ بِہٰذَالْبَلَدْترجمہ:مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

اس آیت اور اس کے بعد والی آیت میں ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب!مجھے اس شہر مکہ کی قسم! جب کہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مکہ مکرمہ کے فضائل:

یہاں اللہ کریم نے مکہ مکرمہ کی فضیلت کی وجہ سے اس قسم کی ارشاد فرمائی اور مکہ مکرمہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کریم نے اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کے بارے میں فرمایا:ترجمہ:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا ہے، وہ مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے،اس میں کھلی نشانیاں ہیں،ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے جو اس میں داخل ہوا امن والا ہو گیا۔(سورۂ ال عمران:97،98)

حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:علما فرماتے ہیں:اللہ کریم نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے علاوہ کسی نبی کی رسالت کی قسم یاد نہ فرمائیں اور اس سورۂ مبارکہ:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ، وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَاالْبَلَدِ۔اس میں رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی انتہائی تکریم و تعظیم کا بیان ہے، کیونکہ اللہ کریم نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام بلد الحرام اور بلدالامین کے ساتھ مقید فرمایا ہے اور جب سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مبارک شہر میں نزولِ اجلال فرمایا، تب سے اللہ کریم کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور مزید فرماتے ہیں:اللہ پاک اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اشیا کے مقابلے میں چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے، جو لوگوں کے درمیان موجود ہے،تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم در بیان فضل و شرافت1/45)

مدینہ منورہ کے فضائل:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہسےروایت ہے،رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مدینہ منورہ کے دو پتھریلے کناروں کے درمیان کی جگہ کو میری زبان سے حرام قرار دیا گیا ہے۔اللہ کریم نےہر نبی کے لئے حرم بنایا ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے حرم مدینہ منورہ ہے اور اسے رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زبانِ اقدس سے حرم فرمایا۔رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اے اللہ پاک! میں ان کو پہاڑوں کے درمیان کی جگہ کو حرم قرار دیتا ہوں، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اللہ پاک! اہلِ مدینہ کے مد اور صاع میں برکت عطا فرما۔کیا شان ہے مدینہ کے شہر کی ! اس کے لئے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خود دعائیں مانگی اور اسے حرم قرار دیا ہے۔


ذکرآیا ہے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک شہروں کا، ایک کو مجبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ولادت مبارکہ کا شرف عطا فرمایااور ایک کو وصال شریف کا، ایک عاشق کے عشق کو اُبھارنے کے لئے یہ موضوع کافی معلوم ہوتا ہے، ارے کوئی اس کا دل چیر کے تو دیکھے، کیا سوز، کیا محبتیں، کیا آرزوئیں، کیا تمنائیں، کیا خیالات، کیا تصورات اُبل رہے ہیں، کبھی آنسوؤں سے دکھائی دیتے ہیں، کبھی اس کے چہرے پر فراق کی زردی بن کر ظاہر ہوجاتے ہیں، غرض محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مَسکَن عُشاق کے عشق کا ایک اہم جز ہے۔یہ تو بندے کی محبت کی جھلک تھی،ربّ کائنات جو محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بہت محبت فرماتا ہے،وہ اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مبارک شہروں سے کتنی محبت فرماتا ہوگا، ہاں ہاں یہ ظاہر بھی فرمایا کہ جگہ جگہ محبوب کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے شہروں کا ذکر فرمایا، ربِّ کریم فرماتا ہے:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)بَلَدًایعنی شہر سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ اور ارشاد فرمایا: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم۔( پارہ30، سورہ بلد:1)

حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:میں نے تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقام ِحزورہ کے پاس اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے،اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔ خدا کی قسم! اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، جلد 3، صفحہ 518، حدیث3108، عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 188)اس سے معلوم ہوا!اللہ کے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم شہرِ مکہ کو کتنا عزیز رکھتے تھے۔

اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور اَمان بنایا۔(پارہ 1، البقرہ: 125)یہاں بیت سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔

ارشاد فرمایا:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا، وہ ہے جو مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔(پارہ 4، ال عمران:96)

ہاں! یہ ساری شانیں مکہ کو حاصل ہوئیں،اس دو عالم کے سردار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی وجہ سے، اس کے کعبہ، اس کے صفا و مروہ،مقامِ ابراہیم،حجرِاسود سب آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی برکتیں لیتے رہے، یہاں تک کہ کریم ربّ نے ان کو معزز و متبرک بنا دیااور ارشاد فرمایا:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠ ۔ترجمۂ کنزالایمان:کہتے ہیں:ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزّت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلّت والا ہے اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 497، حدیث1482،عاشقان رسول کی حکایات،ص249)

اور جو اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو وہ مدینے حاضر ہو کر محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حضور اللہ کریم سے بخشش طلب کریں اور محبوب ان کے لئے بخشش طلب کریں تو اللہ کریم ان کی توبہ قبول فرمائے گا۔

مدینہ پاک ہے اور پاک کرنے والا ہے، عشاق کے دلوں کی دھڑکن ہے، ان کی امیدوں کا مرکز ہے، ارے کیسے نہ ہو کہ یہ وہ مبارک جگہ ہے کہ جس کو آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے قیامت تک اپنی رفاقت عطا فرما دی، ارے کیسے نہ ہو کہ جس کے ذرّے ذرّے نےمحبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں کو چوما،ارے کیسے نہ ہو کہ جس کی فضائیں اللہ پاک کے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے گرد پروانہ وار گھومتی رہیں، غرض اس کا ذرہ ذرہ جانِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عطاؤں اور نسبتوں والا ہے۔شیخِ کریم،پروانہ مصطفی،عاشقِ مدینہ ،اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا ارے سر کا موقع ہے او جانے والے

فداک یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مدینہ منورہ:

یہ وہ بستی ہے جہاں ہر وقت اللہ کریم کی رحمت برستی ہے، یہ وہ شہر ہے جو دارالہجرت بھی ہے اور دیارِ اُلفت بھی ہے، مرکزِ عشق ومحبت بھی ہے، دارالامن بھی ہے، دارالایمان بھی ہے، عاشقوں کی پہچان بھی ہے، یہ وہ شہر ہے جس کی ہوا صحت دیتی ہے، اس کے پھل برکت والے ہیں، اس کی روزی برکت والی ہے، اس کی مٹی بھی خاکِ شفاء کہلاتی ہے۔یہ وہ مبارک شہر ہے، جہاں مسجد نبوی بھی ہے، عاشقوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک گنبد ِخضرا ءبھی ہے، جہاں وہ مقام ہے جس کے بارے میں ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میرے گھر اور منبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔جہاں حاضری دینا عاشقانِ رسول اپنی معراج سمجھتے ہیں، حاضری کے لئے تڑپتے ہیں، جب مدینے کا ذکر سنتے ہیں تو مدینے جانے کے لئے بے قرار ہو جاتے ہیں۔

نبیوں میں جیسے افضل و اعلیٰ ہیں مصطفٰے شہروں میں بادشاہ ہے مدینہ حضور کا

قرآنِ کریم میں ہر چیز کا ذکر ہے، بہرحال مدینے کے 104 یا اس سے زائد نام ہیں۔اہل ِعلم جانتے ہوں گے کہ ناموں کی کثرت فضیلت پر دلالت کرتی ہے۔ چار جگہوں پر قرآنِ کریم میں مدینہ کا نام ذکر کیا گیا ہے:

1۔ پارہ 11، سورۂ توبہ، آیت 101:ترجمۂ کنز العرفان:اورتمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی) وہ منافقت پر اڑ گئے ہیں تم انہیں نہیں جانتے، ہم نہیں جانتے عنقریب ہم انہیں دو مرتبہ عذاب دیں گے، پھرانہیں بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا۔

حاشیہ:اس آیت سے معلوم ہوا!اگر کسی کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جا سکتا، جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں! اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے منافقین کا حال جاننے کی یہ نفی اس وقت کی ہے، جب آپ کو اس کا علم عطا نہیں ہوا تھا، بعد میں اس کا علم کر دیا گیا تھا، دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے کہ ایک مرتبہ تو دنیا میں رسوائی اور قتل کے ساتھ اور دوسری مرتبہ قبر میں عذاب دیں گے۔

2۔ پارہ 11، سورہ ٔتوبہ، آیت 120:ترجمہ کنز العرفان:اہل ِمدینہ اور ان کے اردگرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا۔

حاشیہ:یہاں اہلِ مدینہ سے مدینہ طیبہ میں سکونت رکھنے والے مراد ہیں، خواہ وہ مہاجرین ہوں یا انصار اور اعراب سے قرب و جوار کے تمام دیہاتی مراد ہیں۔

3۔پارہ 22، سورہ احزاب، آیت 60:ترجمہ ٔکنز العرفان:منافق اور وہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں۔

حاشیہ:غلط خبریں پھیلا کر مسلمانوں کی حوصلہ شکنی کرنے والے دل کے منافقوں کی حالت کو آج کے دور میں آسانی سے سمجھنا ہو تو چند دن اخبار پڑھ کر دیکھ لیں کہ مغرب کے غلام لکھاری مسلمانوں کو اپنے مغربی آقاؤں سے ڈرانے کے لئے ان کی طاقت،ترقی،تہذیب کو کیسے بڑھا چڑھا کر اور مسلمانوں کی طاقت، ترقی،تہذیب اور ماضی و حال کو کس طرح تاریک بنا کر پیش کرتے ہیں۔

4۔ پارہ 28، سورۂ منافقون، آیت8:ترجمہ ٔکنز العرفان:وہ کہتے ہیں: قسم ہے !اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے۔۔

حاشیہ:یہ بات عبداللہ بن ابی نے کہی، بڑی عزت والے سے اُس نے اپنی ذات مراد لی اور وہ نہایت ذلیل سے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور ان کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نفوسِ قدسیہ مراد لئے تھے،یہاں اس کی تردید کرتے ہوئے فرمایا گیا: عزت تو اللہ اوراس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں، اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے۔

مکہ مکرمہ:

بلدِ حرام مکہ اللہ کریم اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب شہروں سے زیادہ محبوب ہے، مسلمانوں کا قبلہ اور ان کی دلی محبت کا مرکز ہے، حج کا مرکز اور باہمی ملاقات و تعلقات کی جگہ ہے، روزِ اول ہی سے اللہ کریم نے اس کی تعظیم کے پیشِ نظر اسے حرم قرار دے دیا تھا۔اس میں کعبہ ہے، جوروئے زمین پر اللہ پاک کی عبادت کے لئے بنایا جانے والا سب سے پہلا گھر ہے، اس قدیم گھر کی وجہ سے اس علاقے کو حرم کا درجہ ملا ہے اور اس کی ہر چیز کو امن و امان حاصل ہے، اس جگہ کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی گناہ افضل ہے، یہاں کی ایک نماز ایک لاکھ نمازوں کا درجہ رکھتی ہے، مکہ مکرمہ کو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ کعبہ کی برکت سے ملا ہے۔ اس مقدس شہر اور عظیم حرم کے بہت سے نام ہیں، جو تقریبا 50 ہیں۔ قرآنِ کریم میں اللہ کریم نے پانچ نام ذکر فرمائے: مکہ، بکہ، البلد، القربہ، ام القری۔

طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

1۔ پارہ 26، سورۂ فتح، آیت 24 :ترجمہ ٔکنزالعرفان:اور وہی ہے جس نے وادی مکہ میں کافروں کے ہاتھ تم سے روک دئیے اور تمہارے ہاتھ ان سے روک دیئے،حالانکہ اللہ نے تمہیں ان پر قابو دے دیا تھا اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔

2۔ پارہ 7، سورۂ ال عمران، آیت 96:ترجمۂ کنزالعرفان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا، سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

3۔ پارہ 30، سورۂ بلد، آیت 1:ترجمۂ کنزالعرفان:مجھے اس شہر کی قسم۔ بلدیعنی شہر سے مراد مکہ ہے، ویسے لغت میں بلد بستیوں کے مرکز کو کہتے ہیں۔

4۔ پارہ 14، سورۃالنخل، آیت 112:ترجمۂ کنزالعرفان:اور اللہ نے ایک بستی کی مثال بیان فرمائی۔

مختلف اقوال:

ممکن ہے اس سے مراد مکہ مکرمہ ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد مکہ کے علاوہ کوئی اور بستی ہو، اکثر مفسرین کے نزدیک اس بستی سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔

5۔ پارہ 7، سورۂ انعام، آیت 92: ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ برکت والی کتاب ہے،جسے ہم نے نازل فرمایا ہے،پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے،اس لئے(اتری)تاکہ تم اس کے ذریعے مرکزی شہر اور اس کے اردگرد والوں کو ڈر سناؤ۔

6۔ پارہ 7، سورۂ مائدہ، آیت 95:ترجمہ ٔکنزالعرفان:اور تم میں سے جو اسے (شکار) قصداً قتل کرے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ مویشیوں میں سے، اسی طرح کا وہ جانور دے دے، جس کےشکل کی مثل ہونے کا تم میں سے دو معتبر آدمی فیصلہ کریں، یہ کعبہ کو پہنچتی ہوئی قربانی ہو۔

ان آیاتِ مبارکہ سے معلوم ہوا!مکہ مدینہ کے کثیر در کثیر فضائل و مراتب ہیں،قرآنِ کریم میں اور بھی بہت سی آیات مبارکہ میں مکہ مدینہ کا ذکر اللہ کریم نے فرمایا ہے۔مکہ مدینہ کی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے ہر جگہ دجال آئے گا، مگر مکہ مدینہ میں دجال نہیں آئے گا۔

واہ کیا بات ہےمکہ مدینہ کی


مکۃ المکرمہ کے فضائل:

الحمدللہ مکہ مکرمہ نہایت بابر کت و صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔ مکہ مکرمہ کی زیارتوں کے باقاعدہ بیان سے قبل اللہ کریم کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجئے،تاکہ دن میں اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکّہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان کیا گیا ہے،چنانچہ پارہ اوّل، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 126 میں ہے:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔

پارہ30، سورۂ بلدکی پہلی آیت میں ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی۔)(خزائن العرفان، صفحہ 1104)

مدینہ منورہ کے فضائل:

الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت ِقلب وسینہ ہے، عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ منورہ کے ہجر و فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے یا پڑھے جاتے ہیں، اتنے دنیا کے کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہ ہی پڑھے جاتے،جسے ایک بار بھی مدینے کا دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا، مدینے میں گزرے ہوئے حسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے۔کسی عاشقِ رسول نے کیا خوب کہا ہے:

وہی ساعتیں تھیں سرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضور شافعِ امتاں، میری جن د نوں طلبی ر ہی

قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مدینہ کیا گیا ہے، مثلاً پارہ 28، سورۃ المنافقون، آیت نمبر 8 میں ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: وہ کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اِس میں سے نکال دے گا،اسے جو نہایت ذلت والا ہے،اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے، مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

کعبے کے بارے میں دلچسپ معلومات:

مکہ مکرمہ کی سب سے عظیم زیارت گاہ کعبہ مشرفہ ہے، ہر مسلمان اس کے دیدار وطواف کے لئے بے قرار رہتا ہے، کعبۃ اللہ کے بارے میں دلچسپ معلومات پیش کی جاتی ہیں،قرآن شریف میں کئی مقامات پر کعبہ شریف کا ذکر خیر کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ 1،سورۃ البقرہ، آیت 125 میں ربّ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور اَمان بنایا۔

تفسیر:

اس آیتِ کریمہ کے تحت صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد مفتی محمد نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمۃ خزائن العرفان میں لکھتے ہیں:(اس آیتِ مبارکہ کے لفظ)بیت سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل اور امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرمِ کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے یا یہ کہ وہاں شکار تک کو امن ہے، یہاں تک کہ حرم شریف میں شیر بھیڑیے بھی شکار کا پیچھا نہیں کرتے، چھوڑ کر لوٹ جاتے ہیں۔

ایک قول یہ ہے کہ مومن اس میں داخل ہوکر عذاب سے مامون ہو جاتا ہے،حرم کو اس لئے حرم کہا جاتا ہے کہ اس میں قتل، شکار حرام و ممنوع ہے۔(تفسیرات احمدیہ، صفحہ34)اگر کوئی مجرم بھی داخل ہو جائے تو وہاں اس سے تعرض (یعنی روک ٹوک) نہ کیا جائے گا۔(تفسیرنسفی، صفحہ 77)

کعبہ سارے جہاں کے لئے رہنما ہے:

اللہ رحمٰن کا پارہ 4، سورۂ ال عمران، آیت نمبر 96 میں فرمانِ عالیشان ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ ۔ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب میں پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا، وہ ہے جو مکے میں ہے، برکت والا اور سارے جہان کا رہنما۔

تفسیر:

حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت تحریر فرماتے ہیں:اے مسلمانو! یا اے سارے انسانو! یقین سے جان لو کہ ساری روئے زمین پر سب سے پہلے اور سب سے افضل گھر جو لوگوں کے دینی اور دنیوی فائدے کے لئے پیدا کیا گیا اور بنایا گیا ہے،وہی ہے جو کہ مکہ شریف میں واقع ہے، نہ بیت المقدس جو درجے میں بھی کعبے کے بعد ہے اور فضیلت میں بھی۔(تفسیر نعیمی، جلد 4، صفحہ 29، مختصرا)

مدینہ منورہ کے بارے میں احادیثِ کریمہ:

1۔مصطفے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی:اللہم اجعل بالمدینۃ ضعفی ما جعلت بمکۃ من البرکۃ۔اے اللہ پاک!جتنی تو نے مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے،مدینہ میں اس سے دوگنی برکت عطا فرما۔

(بخاری، جلد 1، صفحہ 620، حدیث 1885)

مذکورہ حدیثِ پاک میں اللہ پاک کے آخری نبی محمد مصطفے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے برکت کی دعا فرمائی ہے۔ بہت ساری خیر کا نام برکت ہے۔

2۔چونکہ مدینہ منورہ کو پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شرفِ قیام بخشا،سرزمینِ مدینہ کو اپنے قدموں کے بوسے لینے کی سعادت عطا فرمائی، ان سعادتوں سے فیض یاب ہو کر شہرِ مدینہ نے عظمت و رفعت پائی، آپ کی دعا سے اس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینہ میں مرنا شفاعتِ مصطفے کی ضمانت اور مدینہ میں رہنا عافیت کی علامت قرار پایا، یوں یہ شہر بہت فضیلت اور دگنی خیروبرکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنے کے لئے ہر عاشقِ رسول تڑپتا ہے۔بخاری شریف کی اس حدیث میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفے کا ذکر ہے، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اور اشیا میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔(عمدۃ القاری، 7/594)

برکاتِ مدینہ میں سے سات ملاحظہ کیجئے:

1۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب، صفحہ 211)ایک موقع پر نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یوں دعا فرمائی :اے اللہ پاک! ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے۔(ترمذی،5/282، حدیث3465)

2۔مسجد نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ،2/176، حدیث1413)

3۔ایمان کی پناہ گاہ مدینہ منورہ ہے۔(بخاری،1/618، حدیث1876)

4۔مدینے کی حفاظت پر فرشتے مامور ہیں،چنانچہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینےمیں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ ہے، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم،ص548، حدیث1374)

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس کے بعد میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور رسول ِاکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زمانے میں اس کی حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔(شرح مسلم للنوی،5/148)

5۔خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے، چنانچہ جب غزوہ ٔتبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے گرد اُڑائی، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول،9/297، حدیث6962)

6۔مدینہ کے پھل بھی بابرکت ہیں، کیونکہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے دعا فرمائی ہے۔(ترمذی،5/282، حدیث3465)

7۔مدینے میں جینا حصولِ برکت اور مرنا شفاعت پانے کا ذریعہ ہے، چنانچہ رحمتِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشاد ہے:جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے،کیونکہ میں مدینے میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،5/483، حدیث3943)

یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے:اے اللہ پاک!مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کے شہر میں موت عطا فرما۔(بخاری،1/622، حدیث1890)اللہ پاک ہمیں برکاتِ مدینہ سے مالامال فرمائے۔آمین


مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حجازِمقدس کے دو قدیم شہر ہیں، جو اسلام کا مرکز اور نہایت افضل واعلیٰ ہیں، مکہ مکرمہ جائے ولادت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے اور مدینہ منورہ جائے مدفن ِسرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قبرِ انور رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے اور کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے، مدینہ طیبہ علاوہ قبر ِاطہر اور مکہ مکرمہ علاوہ خانہ کعبہ کی افضلیت میں اختلافِ علما ہے، جمہور کے نزدیک مکہ معظمہ افضل ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 711)اور عشاق کی نگاہ میں مدینہ افضل ہے۔

ذکرِ مکہ:

قرآنِ کریم میں جابجا مکہ مکرمہ کے مقدس مقام کا تذکرہ ہے، دو جگہ ربّ کریم نے اس محترم شہر کی قسم یاد فرمائی اور ارشاد فرمایا:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ۔ترجمۂ کنز العرفان: مجھے اِس شہر کی قسم ۔(پ30،البلد:1) مزید فرمایا: وَھٰذَاالْبَلَدِالْاَمِیْنِ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اس امن والے شہر کی قسم۔(پارہ 30، والتین:3)

امام عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ مکرمہ کی قسم ذکر فرمانے سے اس بابرکت مقام کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس مقام پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیروبرکت واضح ہوئی۔(تفسیر مدارک، صفحہ 1360)

ربّ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت مکہ مکرمہ کے بارے میں مانگی جانے والی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے اور اس کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دے جو ان میں سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی، مکہ مکرمہ میں نہ کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے، نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہاں کی گھاس کاٹی جا سکتی ہے،نیز دنیا بھر کے پھل اور کھانے یہاں پر بکثرت ملتے ہیں، ربّ کریم نے مکہ مکرمہ کے حرمت والا ہونے کا ایک مقام پر ذکر فرمایا :اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا۔ ترجمۂ کنزالعرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر( مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں، جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔(پارہ 20، نمل:91)اللہ پاک نے یہاں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے فرمایا کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر خازن، جلد 3، صفحہ 422)

ذکرِ مدینہ:

قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر مدینہ واہلِ مدینہ کا ذکر موجود ہے، ایک مقام پر مدینہ منورہ کی مسجد کا ذکر فرمایا:لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیز گاری پر رکھی گئی، وہ اس کا حق دار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔(پارہ 11، توبہ: 108)

اس مسجد سے مراد اسلام کی پہلی مسجد، مسجدِ قبا ہے اور مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجد مدینہ مراد ہے۔(تفسیر مدارک، صفحہ 455)ایک جگہ ربّ کریم نے مسلمانانِ مدینہ، انصار صحابہ کرام علیہم الرضوان کا شہر مدینہ کو آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے ہی مسکن بنانے کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد فرمایا:وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جنہوں نے ان(مہاجرین)سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا۔(پارہ 28، الحشر: 9)

معلوم ہوا!جس جگہ کو ربّ کے محبوب بندوں سے نسبت ہو جائے، ربّ اس جگہ کا ذکر بھی قرآن میں فرماتا ہے، ایک مقام پر اللہ پاک نے فرمایا:یہ مقدس زمین ناپاک باطن والوں کے لائق نہیں ہے،ربّ کریم جلد منافقوں سے مدینہ طیبہ کو پاک فرمائے گا،چنانچہ فرمایا:لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا۔ترجمۂ کنز العرفان:ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر تھوڑے دن۔(پارہ 22، سورہ احزاب، آیت60)

معلوم ہوا!اچھی جگہوں پر بھی گمراہ لوگ ہوتے ہیں، کسی کا کسی مقدس جگہ پر رہنا اس کے اچھا ہونے کی دلیل نہیں ہے، نیز ایسے لوگ جلد یا بدیر اس جگہ سے نکال دیئے جائیں گے۔ اللہ پاک ہمیں مکہ مدینہ کی با ادب، با ذوق، باشوق، مقبول حاضری عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ کریم میں مکہ اور مدینہ کا ذکر ہوا، بلکہ اللہ پاک نے ان کی فضیلت کو  ہی قرآن میں ارشاد فرمایا، مکہ مکرمہ کی قسم ارشاد فرمائی اور اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنایا اور مدینہ کے بارے میں فرمایا :یہاں حاضر ہونا گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے، درحقیقت یہ مکہ اور مدینہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والے شہر ہیں اور قرآن نعتِ مصطفے ، تو ان کا ذکر تو ہونا ہی تھا، خیر اب آیات اور ان کی کچھ تفسیر۔

مکہ مکرمہ کی قسم ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کریم نے فرمایا:آیت:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اِس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع (اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی، وہ مکہ شریف ہے۔(اسلامی بیانات، جلد 6، صفحہ 163)

اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر چیزوں میں سے ممتاز کرنے کے لئے ہے، جو لوگوں کے درمیان موجود ہیں، تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و فضیلت والی ہے۔(صراط الجنان، جلد 10، ص 679)اور مکہ میں موجود خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(سورۃ ال عمران:97) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا:وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ؕ۔ترجمۂ کنز العرفان: اور اے مسلمانوں! تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(سورہ بقرہ:125)اور اس میں موجود مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ ؕ۔ ترجمۂ کنزالعرفان:اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کر لو۔(البقرہ:144)(یہ تمام صراط الجنان جلد 10، صفحہ 678 سے لیا گیا ہے خلاصہ)

اس سے معلوم ہوا!مکہ مکرمہ کی فضیلت ایسی ہے کہ اس میں موجود کعبہ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا گیا، اس کا حج ہر مسلمان پر فرض کر دیا گیا اور تفسیر صراط الجنان جلد 2،صفحہ 191 پر ہے:کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں، البتہ حجِ مقبول پر اس کی بشارت ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کے معاف ہونے کی اور حج مکمل ذکرِ الٰہی ہے اور مدینہ کے بارے میں یوں اللہ پاک نے فرمایا:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں اور اے محبوب آپ کے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگیں تو خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(سورۃ النساء:64)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عالم حیات ظاہری میں حضور(یعنی حاضر ہونا) ظاہر تھا،اب حضور(حاضر ہونا) مزار پر انوار ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 15،654)

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور سے ہی یہ معمول رہا ہے کہ آپ کی حیات ظاہری کے بعد آپ کے مزار پر حاضر ہو کر مشکلات کا حل چاہتے تھے، اپنی مغفرت ونجات کی التجا کرتے تھے۔(صراط الجنان سے خلاصہ، جلد 2، صفحہ 234)

مدینے کی فضیلت سمجھنے کے لئے بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آرام گاہ اور اس سے بڑھ کر کون سی فضیلت تھی جو مدینہ کو حاصل ہوتی۔

اس در کے حضوری ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر ِمعاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ(سامان بخشش)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے بھی فرمایا :

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ پھر ردّ ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے


قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مکہ و مدینہ کیا گیا ہے۔ارشادِ باری ہے:

1:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ (پ،ال عمرن:69)ترجمۂ کنز العرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

2:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ۔(پ13، ابرٰھیم:35)ترجمۂ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے۔

3:اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا (پ20، النمل:91)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔

اس آیت میں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے ہواہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، النمل، تحت الآیۃ:91 ملتقطاً)

4:وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۙ (پ30، التین:3)ترجمۂ کنز العرفان: اور اس امن والے شہر کی(قسم)۔

5:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ (پ30، البلد:1-2)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرینِ کرام کا اس بات پر اجماع(اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی ہے وہ مکہ شریف ہے۔اسی آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جناب میں یوں عرض گزار ہوئے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ کی فضیلت اللہ پاک کےہاں اتنی بلند ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کی ہی اللہ کریم نے قسم ذکر فرمائی ہے نہ کہ دوسرے انبیائے کرام علیہم الصلوة و السلام کی اور آپ کا مقام و مرتبہ اس کے ہاں اتنا بلند ہے کہ اس نےلَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ کے ذریعے آپ کے مبارک قدموں کی خاک کی قسم ذکر فرمائی ہے۔(اسلامی بیانات، 6/163 بحوالہ شرح زرقانی علی المواہب،8/ 463- فتاویٰ رضویہ،5/ 556)

6:وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ (پ11،التوبۃ:101)ترجمۂ کنز العرفان: اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی) وہ منافقت پر اڑگئے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا !کسی کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جا سکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں !اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ:101)

7:مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ۔ (پ11، التوبۃ:120)ترجمۂ کنز العرفان: اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں۔

8:لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا (پ22،الاحزاب:60)ترجمۂ کنز العرفان: منافق اوروہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں اگرباز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منافق ہیں اور وہ لوگ جو فاجر و بدکار ہیں اور وہ لوگ جو مدینے میں اسلامی لشکروں کے متعلق جھوٹی خبریں اڑانے والے ہیں اور یہ مشہور کیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوگئی، وہ قتل کر ڈالے گئے، دشمن چڑھا چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کی دل شکنی اور ان کو پریشانی میں ڈالنا ہوتا ہے، اگر یہ لوگ اپنے نفاق،بدکاری اور دیگر حرکتوں سے باز نہ آئے تو ضرور ہم مسلمانوں کو ان کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دیں گے اور مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس تھوڑے دن ہی رہیں گے، پھر ان سے مدینہ طیبہ خالی کرا لیا جائے گا اور وہ لوگ وہاں سے نکال دیئے جائیں گے۔ (تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:60)

9:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَل َّ ؕوَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۠(پ28،المنٰفقون:8)ترجمۂ کنز العرفان: وہ کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

10:وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۙ (پ14،النحل:41)ترجمۂ کنز العرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ پاک نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان، النحل، تحت الآیۃ:41)


دعوت اسلامی کے تحت 27 جون 2022 ء کو رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داران فیصل  آباد میں ایس ایس پی پٹرولنگ پولیس مرزا انجم کمال بیگ ، ڈی ایس پی پٹرولنگ پولیس ملک محمد امین، پی آر او ٹو ایس ایس پی محمد رضوان اور کرائم رپورٹر 24 نیوز محمد وقاص بیگ سے ملاقات کی اور انہیں نیکی کی دعوت پیش کی ۔

اس کے علاوہ ذمہ داران نے ایس ایس پی کے ہمراہ روڈ سیفٹی پروگرام کے تحت کینال روڈ پر ریفلکٹر راڈ ز لگانے والے ورکرز سے ملاقات کی اور وہاں کے انتظامات بھی دیکھے ۔ ( کانٹینٹ: محمد مصطفی انیس )