پچھلے دنوں   دعوت اسلامی کے شعبہ ایف جی آر ایف کے ذمہ داران نے ایس ایس پی موٹروے پولیس آفس سیالموڑ کا دورہ کیا۔ایس ایس پی موٹروے پولیس محمد فیصل اکرم سی پی او، HQ موٹروے پولیس سید حسنات احمد شاہ ،انچارج لائنز موٹروے پولیس ایاز احمد خان نیازی و دیگر افسران سے ملاقات کی۔

تمام افسران کو دعوت اسلامی کے شعبہ جات کا تعارف کروایا گیا اور انہیں نیکی کی دعوت دی گئی۔ اس کے بعد تمام افسران کے ساتھ ملکر ایس ایس پی موٹروے پولیس آفس سیالموڑ میں شجرکاری کی گئی۔ (رپورٹ: کوآرڈینیشن ڈیپارٹمنٹ سرگودھا ، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


پنجاب پاکستان کے شہر فیصل آباد میں قائم دعوت اسلامی کے مدنی مرکز فیضان مدینہ میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری کے پاس فیصل آباد ڈویژن سے ایک ماہ کے مدنی قافلہ کے امیر مدنی قافلہ اسلامی بھائیوں اور فیصل آباد ڈویژن کے دیگر ذمہ دار اسلامی بھائیوں کی حاضری ہوئی۔

اس دوران نگران ِپاکستان مشاورت نے ”مدنی قافلوں کی اہمیت “ کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے اسلامی بھائیوں کی تر بیت کی اور مدنی قافلے کے لئے عاشقانِ رسول کو کیسے تیار کرنا ہے اس حوالے سے ذہن سازی کی نیز کن کن طریقوں سے عاشقانِ رسول کو مدنی قافلے کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے۔

نگران پاکستان مشاورت نے گفتگو کرتے ہوئے امیر مدنی قافلہ کی ذمہ داریوں اور امیر مدنی قافلہ کو شرکائے مدنی قافلہ کے ساتھ کس انداز سے پیش آنا چاہیئے اس کے متعلق مدنی پھول دیئے۔

مزید نگران پاکستان مشاورت نے بتایا کہ ان شا ءللہ فیصل آباد ڈویژن سے یکم اگست 2022ء کو ایک ماہ کے 110 مدنی قافلے عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی حاضر ہونگے۔بعدازاں اسلامی بھائیوں نے نگرانِ پاکستان مشاورت سے ملاقات کی۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں ڈسٹرکٹ حافظ آباد/ڈویژن گوجرانوالہ میں محمد مدثر عطاری ،محمد نعیم عطاری اور حافظ فاروق عطاری نے دعوت اسلامی کی تحت (ڈپٹی کمشنر حافظ آباد اللہ دتہ وڑائچ،ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر حافظ آبادسردار موارہن خان ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ریونیوعمر فاروق وڑائچ ، اسسٹنٹ کمشنر حافظ آباد رب نواز چدھڑ،ایس ایچ او سٹی حافظ آباد سید عروج شاہ، سیکورٹی انچارج ٹو ڈی سی آفس میاں امتیاز احمد،سیکورٹی انچارج ٹو ڈی پی او آفس فیصل اعجاز،پی آر او ٹو ڈی پی او دلدار بھٹی،اکاونٹینٹ ٹو ڈی پی او ملک سجاد اعوان،ڈسٹرکٹ انچارج IB محمد نواز چھینہ)ان سے ملاقات کی۔

عید الضحی کے موقع پر دعوت اسلامی کے ساتھ تعاون کرنے پر سب کا شکریہ ادا کیااور مکتبۃ المدینہ کی کتاب اور رسائل تحفہ میں دیئے۔ ان کو دعوت اسلامی کا تعارف کروایا نیز جامعۃ المدینہ اور مدنی مرکز وزٹ کی دعوت دی جو انہوں نے قبول کی۔(رپورٹ: مجلس رابطہ برائے شخصیات، کانٹینٹ:رمضان رضا عطاری)


دعوتِ اسلامی کے تحت صوبۂ پنجاب پاکستان کے شہر فیصل آباد میں واقع مدنی مرکز فیضان مدینہ میں اجتماعی طور پر ہفتہ وار مدنی مذاکرہ دیکھنے کا اہتمام کیا گیا جس میں مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری کے ہمرہ دیگر اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

بعد مدنی مذاکرہ سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں نگرانِ پاکستان مشاورت سمیت رکن ِشویٰ حاجی محمد اسد عطاری مدنی نے اسلامی بھائیوں کی تربیت کرتے ہوئے انہیں قیمتی مدنی پھولوں سے نوازا۔

بعدازاں حلقے میں سوالات کا سلسلہ ہوا اور قرعہ اندازی کے ذریعے اسلامی بھائیوں کے درمیان انعامات تقسیم کئے گئے نیز ملاقات اور دعا پر اس حلقے کا اختتام ہوا۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالو اپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


امام اہل سنت اعلحضرت  کے بیشمار خلفاء تھے جو برصغیر اور حرمین شریفین اور دیگر بلاد تک پھیلے ہوئے تھے رسالہ اَلإجَازاتُ المَتِیْنَة لِعُلَمَاءِ بَكَّة وَالْمَدِیْنَة کے سرسری مطالعے سے آپ کے خلفاء کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے آپ کے متعین خلفاء کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے تاہم انہی میں سے ایک محدث مغرب حضرت علامہ عبد الحی بن عبد الکبیر الکتانی رحمۃ اللّٰہ علیہ بھی ہیں۔

آپ اپنے وقت کے بہت بڑے محدث ، فقیہ ، مؤرخ ، مصنف، شاعر ، عظیم مبلغ اور سلسلہ کتانیہ کے پیشواتھے آپ کو تفسیر ، حدیث ، فقہ ، اصول فقہ، تصوف، تاریخ اور لغت پر مکمل عبور حاصل تھا تاہم خاص شغف علم حدیث و اسماء الرجال میں تھا آپ کی مشہور و معروف کتب ’’فھرس الفھارس ‘‘ اور ’’التراتیب الاداریة ‘‘ ہیں۔ آپ کو پانچ سو ( 500 ) سے زائد مشائخ سے اکتساب فیض اور اجازت و خلافت کا شرف حاصل ہے ۔

آپ اس لحاظ سے انفرادی حیثیت رکھتے ہیں کہ عرب میں امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ نے جس عظیم محدث کو سب سے پہلے شرف خلافت و اجازات سے نوازا وہ آپ کی ہی ذات گرامی تھی ۔

امام اہل سنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللّٰہ علیہ سے محدث مغرب کی ملاقات مکہ مکرمہ میں 1323ھ بمطابق 1905ء کو ایام حج کے دوران ہوئی اس ملاقات میں امام اہل سنت نے اجازت عامہ فی السلوک کی اجازت طلب کرنے پر دی ۔

امام اہل سنت آپ کا تذکرہ ان الفاظ میں کرتے ہیں :محدث المغرب، جلیل المنصب،السید الفاضل العالم الکامل مولانا السید عبدالحی ابن السید الکبیر الشریف عبد الکبیر الکتانی الفاسی۔(اَلإجَازاتُ المَتِیْنَۃ لِعُلَمَاءِ بَكَّۃَ وَالْمَدِیْنَۃ، ص: 6 )

مزید دوسری جگہ ارشاد فرمایا:المحدث الفاضل ،العالم الکامل، السید النسیب، الحسیب الاریب، مجمع الفضائل، مبنع الفواضل مولانا السید الشیخ محمد عبدالحی ابن الشیخ الکبیر السید عبد الکبیر الکتانی الحسنی الادریسی الفاسی محدث الغرب بل محدث العجم والعرب انشاء الربث۔( اَلإجَازاتُ المَتِیْنَة لِعُلَمَاءِ بَكَّة وَالْمَدِیْنَة ،ص: 17 )

امام اہل سنت کا القاب سے ذکر کرنا محدث مغرب کی علمیت و جلالت کا ظہور ہے ۔

مزید یہ کہ محدث مغرب رحمۃ اللّٰہ علیہ امام اہل سنت کی علمی وجاہت اور روحانی شخصیت سے اس قدر متأثر ہوئے کہ زندگی بھر ان کا تذکرہ ادب و احترام سے کرتے رہے یہی جھلک آپ کی تحریروں میں بھی نظر آتی ہے ،آپ نے امام اہل سنت کا تذکرہ انتہائی عقیدت و احترام اور القاب سے کیا جیسا کہ اپنی کتاب’’الاجوبة النبعة عن الاسئلة الاربعة‘‘ میں امام اہل سنت کے بارے میں ارشاد فرمایا : صاحب التألیف العیدیدۃ العلامة الکبیر الشھاب احمد رضا علي خان البریلوي الھندي۔( الاجوبة النبعة عن الاسئلة الاربعة ص 70 )

اسی طرح دوسری جگہ مسلسل بالاولیہ کا ذکر کرتے ہوئے ’’ فھرس الفھارس‘‘ میں ان القاب سے ذکر خیر کیا : وحدثنا به الفقیه المسند الصوفی الشھاب احمد رضا علي خان البریلوي الھندي و ھو اول حدیث سمعته منه بمکة۔( فھرس الفھارس ، ج: ،1 ص: 86 )

علامہ کتانی نے اپنی کتاب ’’ اداء الحق الفرض الذین یقطعون ما امر الله به ان یوصل و یفسدون فی الارض ‘‘ میں اپنے بعض مشائخ کا تذکرہ کرتے ہوئے امام اہل سنت کا بھی ذکر خیر فرمایا ۔ یہ کتاب ابھی طبع تو نہیں ہوئی البتہ مخطوط سے امام اہل سنت کا تعارف علیحدہ طور پر مکتبہ دار الامام یوسف النبھانی سے ’’ ترجمہ امام اہل السنہ احمد رضا خان البریلوي‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں طبع ہوچکا ہے ۔

شیخ کتانی نے امام اہل سنت کی خدمات کا ذکر اپنی کتاب ’’ الیواقیت الثمینة فی الاحادیث القاضیة ‘‘ میں کیا اور’’ المباحث الحسان المرفوعة الی قاضی تلسمان‘‘ میں امام اہل سنت کو بطور شیخ تصوف ذکر کیا ۔( المباحث الحسان المرفوعة الی قاضی تلسمان، ص: 252)

الله پاک ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت فرمائے۔ آمین

حوالہ جات

خلیفہ امام اہل سنت شیخ سید عبدالحی الکتانی ادریسی حسنی فارسی رحمۃ اللّٰہ علیہ (مخلصاً )،فھرس الفھارس، المباحث الحسان المرفوعة الی قاضی تلسمان،الاجوبة النبعة عن الاسئلة الاربعة،الإجازات المتینة لعلماء بكَّة وَالمدینة

از: قلم

احمدرضا مغل،16 شعبان المعظم 1443

بمطابق 20 مارچ 2022،بروز اتوار


سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کا تعارُف:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اللہ پاک کے برگزیدہ رسول ہیں۔ آپ کا لقب ’’خطیب الانبیاء‘‘ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم کو انتہائی اچھے طریقے سے دین کی دعوت دیتےتھے۔ نیز اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کا تذکرہ کرتے تو ارشاد فرماتے: ’’وہ خطیب الانبیاء تھے۔‘‘(نوادر الاصول، الاصل الثالث و الستون والمائتان،۶/ ۲۰۶، تحت الحدیث:۱۴۰۸) حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام جَلیلُ القدر رسول حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کے سسر اور حضرت سیِّدُنا ابراہیم خَلِیْلُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد میں سے ہیں۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کے اوصاف:

اوصاف:(1)حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اپنی قوم میں انتہائی امانت دار شخص کی حیثیت سے معروف تھے، اسی لئے توحید ورسالت کی دعوت دیتے وقت آپ عَلَیْہِ السَّلَام نے قوم سے فرمایا:اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۷۸) ۱۹، الشعراء: ۱۷۸) ترجمۂ کنزالایمان: بےشک میں تمہارے لئے اللہ کا امانت دار رسول ہوں۔ (2)دیگر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی طرح حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے بھی بےلوث ہو کر اور صرف رضائے الٰہی کے حصول کے لئے توحید و رسالت کی دعوت دی۔ چنانچہ قوم سے فرمایا:وَ مَاۤ اَسْــٴَـلُكُمْ عَلَیْهِ مِنْ اَجْرٍۚ-اِنْ اَجْرِیَ اِلَّا عَلٰى رَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۱۸۰)۱۹، الشعراء: ۱۸۰) ترجمۂ کنزالایمان: اور میں اس (تبلیغ) پر تم سے کچھ اجرت نہیں مانگتا، میرا اجر تو اسی پر ہے جو سارے جہان کا رب ہے۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی اولاد:

قرآنِ کریم میں حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی دو شہزادیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک حضرت سیِّدُنا موسیٰ کَلِیْمُ اللہ عَلَیْہِ السَّلَام جیسے جَلیلُ القدر اور اُولُوا الْعَزم رسول کے نکاح میں آئیں۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:

قَالَ اِنِّیْۤ اُرِیْدُ اَنْ اُنْكِحَكَ اِحْدَى ابْنَتَیَّ هٰتَیْنِ ۲۰، القصص:۲۷)

ترجمۂ کنزالایمان: کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی ان دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں۔

سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی قوم:

اللہ پاک نے حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو دو قوموں کی طرف رسول بنا کر بھیجا:(1)اہْلِ مدین اور (2) اَصْحَابُ الْاَیْکَہ۔(روح المعانی، الاعراف، تحت الایة:۸۵،جزء۸، ۴/ ۵۷۵) مدین: سے مراد وہ شہر ہےجس میں رہنے والوں کی طرف حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو رسول بنا کر بھیجا گیا۔(روح المعانی، ھود، تحت الایة:۸۴،جزء۱۲، ۶/ ۴۳۰) اَصْحَابُ الْاَیْکہ: جنگل اور جھاڑی کو ’’ایکہ‘‘ کہتے ہیں، ان لوگوں کا شہر چونکہ سرسبز جنگلوں اور مرغزاروں کے درمیان تھا اس لئے انہیں قرآن پاک میں’’اَصْحَابُ الْاَیْکَہ‘‘ یعنی جھاڑی والے فرمایا گیا۔ یہ شہر، مدین کے قریب واقع تھا۔ (خازن، الحجر، تحت الایة:۷۸، ۳/ ۱۰۷۔ جلالین، الشعراء، تحت الایة:۱۷۶، ص ۳۱۵)

قوم کو نیکی کی دعوت:

مدین کے رہنے والے لوگ کفر و شرک، بت پرستی اور ناپ تول میں کمی کرنے جیسے بڑے گناہوں میں مبتلا تھے۔ حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے انہیں احسن انداز میں توحید و رسالت پر ایمان لانے کی دعوت دی اور ناپ تول میں کمی کرنے اور دیگر حقوق العباد تلف کرنے سے منع فرمایا۔ عرصہ دراز تک وعظ و نصیحت کے باوجودصرف چند افراد ہی ایمان لائے اور دیگر افراد کو قوم کے سرداروں نے قوم کو معاشی بدحالی سے ڈرا دھمکا کر ایمان قبول کرنے سے روکے رکھا۔ (ابو سعود، الاعراف، تحت الایة:۹۰، ۲/ ۲۷۶۔روح البیان، الاعراف، تحت الایة:۹۰، ۳/ ۲۰۳ ملخصًاو ملتقطًا)

اہْلِ مدین کے گناہ اور بُرائیاں:

قرآنِ پاک میں اہْلِ مدین کے درج ذیل گناہوں کا تذکرہ ہے: (1) اللہ پاک کی وحدانیت کا انکار۔ (2)بتوں کی پوجا کرنا۔ (3)نعمتوں کی ناشکری۔ (4)ناپ تول میں کمی۔ (5)لوگوں کو ان کی چیزیں کم کرکے دینا۔ (6)زمین میں فساد پھیلانا۔ (7)لوگوں کو اذیت دینے کے لئے راستوں میں بیٹھنا۔ (8)لوگوں کو اللہ پاک پر ایمان لانے سے روکنا۔ (9)لوگوں کو حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام سے دور کرنے کی کوشش کرنا۔ (10)حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو جھٹلانا۔ (11)نبی کو اپنے جیسا بشر کہنا۔(12 تا 15)نماز پڑھنے والوں اور اہْلِ علم پر طنز کرنا، اپنی بڑائی جتانا اور اہْلِ ایمان کو حقیر جاننا۔۸، ۹، الاعراف: ۸۵ تا ۹۳۔ پ ۱۲، ھود: ۸۴ تا ۹۵۔ پ ۱۹، الشعراء: ۱۷۶ تا ۱۹۰ ملخصًا)

ناپ تول میں کمی کرنے پر قرآنی وعید:

اللہ رَبُّ الْعٰلَمِیْن قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ٘ۖ(۲)وَاِذَاكَالُوْهُمْ اَوْوَّزَنُوْهُمْ یُخْسِرُوْنَؕ(۳) اَلَایَظُنُّ اُولٰٓىٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُوْنَۙ(۴)لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ(۵) یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَؕ(۶) ۳۰، المطففین:۱ تا ۶)

ترجمۂ کنزالایمان: کم تولنے والوں کی خرابی ہے وہ کہ جب اوروں سے ماپ(ناپ) کر لیں پورا لیں اور جب انھیں ماپ یا تول کر دیں کم کر دیں کیا ان لوگوں کو گمان نہیں کہ انھیں اٹھنا ہے ایک عظمت والے دن کے لیے جس دن سب لوگ ربُّ الْعٰلَمِیْن کے حضور کھڑے ہوں گے۔

تفسیر خزائن العرفان:

(سورۂ مُطَفِّـفِیْن کا) شانِ نزول :رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم جب مدینہ طیبہ تشریف فرما ہوئے تو یہاں کے لوگ پیمانہ میں خیانت کرتے تھے، بالخصوص ایک شخص ابو جہینہ ایسا تھا کہ وہ دو پیمانے رکھتا تھا لینے کا اور دینے کا اور ان لوگون کے حق میں یہ آیتیں نازل ہوئیں اور انہیں پیمانے میں عدل (انصاف) کرنے کا حکم دیا گیا۔ (خزائن العرفان، سورۂ مُطَفِّـفِیْن)

تفسیر نور العرفان:

مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ’’کم تولنے والوں کے لیے خرابی ہے‘‘ کے تحت فرماتے ہیں:دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، دنیا میں لوگوں کی گالیاں کھاتا ہے، اس کا اعتبار اٹھ جاتا ہے کم تولنے سے تجارت کا فروغ نہیں ہوتا، رزق میں بےبرکتی ہوتی ہے، آخرت میں اس کا یہ گناہ معاف نہ ہوگا کیونکہ اس نے بندے کا حق مارا۔ نیز حرام رزق سے دل سیاہ، خیالات خراب، نیک اعمال برباد ہوتے ہیں اس سے معلوم ہوا کہ کم تولنے والا تاجر، چور، ڈاکو سے بدتر ہے کیونکہ یہ ترازو کے ذریعہ سے چوری کرتا ہے حالانکہ ربّ (کریم) نے ترازو عدل کے لئے اتاری تھی گویا کہ یہ شریف بدمعاش ہے، کھلے مجرم سے چھپا مجرم زیادہ خطرناک ہے۔(نورالعرفان، پ۳۰، سورۂ مطففین، تحت الآیہ:۱)

ناپ تول میں کمی کرنے پر حدیث میں وعید:

حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ناپ تول کرنے والوں سے ارشاد فرمایا: ’’تم دو ایسی چیزوں کے ذمہ دار بنائے گئے ہو جن کی وجہ سے تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو چکی ہیں (یعنی ناپ تول میں کمی کی وجہ سے)۔‘‘(ترمذی، کتاب البیوع، باب ماجآء فی المکیال والمیزان، ۳/ ۹، حدیث:۱۲۲۱)

حضرت سیِّدُنا نافع رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَاایک بیچنے والے کے پاس سے گزرے تو فرمایا: ’’ اللہ پاک سے ڈر اور ناپ تول پورا پورا کر! کیونکہ کمی کرنے والوں کو میدانِ محشر میں کھڑا کیا جائے گا یہاں تک کہ ان پسینہ ان کے کانوں کے نصف تک پہنچ جائے گا۔‘‘(بغوی، المطففین، تحت الآیة:۳، ۴/ ۴۲۸)

نافرمانی پر قوم کا انجام:

جب ان لوگوں کے ایمان لانے کی کوئی صورت نہ رہی تو حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی دعا کے بعد اللہ پاک نے انہیں ایک ہولناک چیخ اور زلزلے کے عذاب سے تباہ و برباد کر دیا۔(ابو سعود، الاعراف، تحت الایة:۹۱، ۲/ ۲۷۶)

قرآن مجید میں ان کے عذاب کو مختلف مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ

(1)……سورۂ اعراف میں ہے:

فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۚۖۛ(۹۱)۹، الاعراف:۹۱)

ترجمۂ کنزالایمان: تو انھیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے ۔

(2)……سورۂ ہود میں ہے:

وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواالصَّیْحَةُ فَاَصْبَحُوْافِیْ دِیَارِهِمْ جٰثِمِیْنَۙ(۹۴) كَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْهَاؕ-اَلَا بُعْدًا لِّمَدْیَنَ كَمَا بَعِدَتْ ثَمُوْدُ۠(۹۵)۱۲، ھود:۹۴، ۹۵)

ترجمۂ کنزالایمان: اور ظالموں کو چنگھاڑ نے آ لیا توصبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے گویا کبھی وہاں بسے ہی نہ تھے ارے دور ہوں مدین جیسے دور ہوئے ثمود۔

(3)…… سورۂ عنکبوت میں ہے:

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَتْهُمُ الرَّجْفَةُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دَارِهِمْ جٰثِمِیْنَ٘(۳۷) ۲۰، العنکبوت:۳۷)

ترجمۂ کنزالایمان: تو اُنھوں نے اُسے جھٹلایا تو اُنھیں زلزلے نے آ لیا تو صبح اپنے گھروں میں گھٹنوں کے بل پڑے رہ گئے۔

مردوں سے خطاب:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام قوم کی ہلاکت کے بعد ان کی نعشوں کے پاس سے گزرے تو ان سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے میری قوم! بےشک میں نے تمہیں اپنے رب کے پیغامات پہنچا دیئے اور میں نے تمہاری خیرخواہی کی لیکن تم کسی طرح ایمان نہ لائے اور جب تم خود ہی کفر پر قائم رہ کر اپنے آپ کو تباہ وبرباد کرنے پر تُل گئے تو میں کافروں کی ہلاکت پر کیوں غم کروں۔(صاوی، الاعراف، تحت الایة:۹۳، ۲/ ۶۹۴) قرآن پاک میں ہے:

فَتَوَلّٰى عَنْهُمْ وَ قَالَ یٰقَوْمِ لَقَدْ اَبْلَغْتُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَنَصَحْتُ لَكُمْۚ-فَكَیْفَ اٰسٰى عَلٰى قَوْمٍ كٰفِرِیْنَ۠(۹۳) ۹، الاعرف:۹۳)

ترجمۂ کنزالایمان: تو شعیب نے ان سے منہ پھیرا اور کہا اے میری قوم میں تمہیں اپنے رب کی رسالت پہنچا چکا اور تمہارے بھلے کو نصیحت کی تو کیوں کر غم کروں کافروں کا۔

تفسیر صراط الجنان:

کفار کی ہلاکت کے بعد حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے ان سے جو کلام فرمایا ا س سے معلوم ہو اکہ مردے سنتے ہیں۔ حضرت سیِّدُنا قتادہ رَضِیَ اللہُ عَنْہ فرماتے ہیں: ’’اللہپاک کے نبی حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا، بے شک اللہ پاک کے نبی حضرت سیِّدُنا صالح عَلَیْہِ السَّلَام نے اپنی قوم کو سنایا اور اللہ پاک کی قسم! رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے اپنی قوم کو سنایا۔ (تفسیر ابن ابی حاتم، الاعراف، تحت الآیۃ: ۹۳، ۵ / ۱۵۲۴)

مُردوں کے سننے کی قوت سے متعلق بخاری شریف میں ہے: جب ابوجہل وغیرہ کفار کو بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا تو اس وقت رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے ان سے خطاب فرمایا: فَهَلْ وَجَدْتُّـمْ مَّا وَعَدَ رَبُّكُمْ حَـقًّا یعنی توکیا تم نے اس وعدے کو سچا پایا جو تم سے تمہارے رب نے کیا تھا؟ حضرت سیِّدُنا عمر فاروق رَضِیَ اللہُ عَنْہ نے عرض کی: یا رسولَ اللہصَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ! آپ ایسے جسموں سے کلام فرما رہے ہیں کہ جن کے اندر روحیں نہیں۔ ارشاد فرمایا:وَالَّذِیْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہٖ مَا اَنْتُمْ بِاَسْمَعَ لِمَا اَقُوْلُ مِنْہُمْ یعنی : اس ذات کی قسم ! جس کے قبضے میں محمد (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ) کی جان ہے جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اسے تم ان سے زیادہ نہیں سنتے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب قتل ابی جہل، ۳ / ۱۱، حدیث: ۳۹۷۶)

سابقہ اُمتوں کے احوال بیان کرنے سے مقصود:

پچھلی امتوں کے احوال اور ان پر آنے والے عذابات کے بیان سے مقصود صرف ان کی داستانیں سنانا نہیں بلکہ مقصودنبی آخر الزّمان صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی امت کو جھنجوڑنا ہے۔ اِن کے سامنے اُن قوموں کا حال بیان کیا گیا ہے کہ جن سے عرب کے لوگ واقف تھے ،جن کے کھنڈرات عربوں کے تجارتی قافلوں کی گزرگاہوں کے ارد گرد واقع تھے ،جن کی خوشحالی، بالا دستی اور غلبہ و اقتدار کی بڑی شہرت تھی اور پھر انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کی نافرمانی کے باعث ان کی تباہی و بربادی کے دِلخراش واقعات ہوئے جوسب کو معلوم تھے، یہ واقعات اور حالات بتا کر انہیں آگاہ کیا کہ محمد مصطفٰے صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَبھی انہیں تعلیمات کو کامل اور مکمل صورت میں تمہارے پاس لائے ہیں جو پہلے نبیوں عَلَیْہِمُ السَّلَامنے اپنی اپنی امتوں کو اپنے زمانے میں دیں ، اگر تم نے بھی انکار کیا اور سرکشی کی رَوِش اختیار کی تو یاد رکھو تمہارا انجام بھی و ہی ہو گاجو پہلے منکرین کا ہوتا آیا ہے۔ دونوں جہاں کی سعادت اور سلامتی مطلوب ہے تو رسولِ خدا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اطاعت کرو اور ان کا دامَن رحمت مضبوطی سے تھا م لو ،تمہیں دنیا و آخرت دونوں میں سربلندی نصیب ہو جائے گی۔ (صراط الجنان۳/ ۳۸۳ملخصاً)

اصحاب ایکہ پر عذاب:

پھر حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو اصحاب ایکہ کی طرف مبعوث فرمایا۔ یہ لوگ بھی اہْلِ مدین جیسے ہی گناہوں میں مبتلا تھے، انہوں نے بھی حضرت شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کی تبلیغ سے نصیحت حاصل نہ کی تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر جہنم کا دروازہ کھولا اور ان پر دوزخ کی شدید گرمی بھیجی جس سے سانس بند ہوگئے، اب نہ انہیں سایہ کام دیتا تھا نہ پانی اس حالت میں وہ تہ خانہ میں داخل ہوئے تاکہ وہاں انہیں کچھ امن ملے لیکن وہاں باہر سے زیادہ گرمی تھی وہاں سے نکل کر جنگل کی طرف بھاگے، اللہ تعالیٰ نے ایک ابر (بادل) بھیجا جس میں نہایت سرد اور خوش گوار ہوا تھی، اس کے سایہ میں آئے اور ایک نے دوسرے کو پُکار پُکار کر جمع کر لیا، مرد، عورتیں، بچے سب مجتمع ہوگئے تو اچانک زلزلہ آیا اور بادل سے آگ برسنے لگی، سب کے سب ٹڈیوں کی طرح تڑپ تڑپ کر جل گئے۔ چونکہ ان لوگوں نے اپنی سرکشی سے حضرت سیِّدُنا شعیب سے یہ کہا تھا کہ’’ تو ہم پر آسمان سے کوئی ٹکڑا گرا دواگر تم سچے ہو۔‘‘۱۹، الشعراء:۱۸۷)اس لئے اس سرکش قوم پر وہی عذاب اس صورت میں آگیا اور سب کے سب راکھ کا ڈھیر بنا دیئے گئے۔(صاوی، الشعراء، تحت الایة:۱۸۹، ۴/ ۱۴۷۴)

قرآن مجید میں ان کے عذاب کو یوں بیان فرمایا گیا ہے۔ چنانچہ سورۂ شعراء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

فَكَذَّبُوْهُ فَاَخَذَهُمْ عَذَابُ یَوْمِ الظُّلَّةِؕ- اِنَّهٗ كَانَ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ(۱۸۹)۱۹، الشعراء:۱۸۹)

ترجمۂ کنزالایمان: تو انھیں اسے جھٹلایا تو اُنھیں شامیانے والے دن کے عذاب نے آ لیا بےشک وہ بڑے دن کا عذاب تھا۔

قرآنی مقامات:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام اور ان کی قوموں کا اجمالی ذکر قرآنِ پاک کی متعدد سورتوں میں ہے جبکہ تفصیلی تذکرہ درج ذیل پانچ سورتوں میں ہے: (1) سورۂ اعراف، آیت:85 تا 93۔ (2) سورۂ ہود، آیت:84 تا 95۔ (3) سورۂ حجر، آیت:78، 79۔ (4) سورۂ شعراء، آیت:176 تا 190۔ (5) سورۂ عنکبوت، آیت:36، 37۔

احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی سمجھنے والے غور کریں:

حضرت سیِّدُنا شعیب عَلَیْہِ السَّلَام کو قوم کے سرداروں کو احکامِ الٰہیہ کی پابندی میں اپنی ناکامی، راہِ راست پر چلنے میں اپنی ہلاکت اور دیْنِ حق پر ایمان لانے میں مہیب خطرات نظر آتے تھے اور انہوں نے دوسروں کو بھی دیْنِ حق سے دور کرنے کی کوشش شروع کر دی۔ اس طرح کی بیمار ذہنیت کے حامل افراد کی ہمارے معاشرے میں بھی کوئی کمی نہیں جو اسلامی احکام پر عمل کو اپنی ترقی وخوشحالی کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں بلکہ اسلامی احکام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ہمارے ہاں کتنے لوگ یہ نعرہ لگانے والے ہیں کہ ’’اگر سودی نظام کو چھوڑ دیا، اگر عورتوں کو پردہ کروایا تو ہم نقصان میں پڑ جائیں گے اور ہماری ترقی رک جائے گی۔‘‘ اس جملے میں اور اہْلِ مدین کے جملے ’’اگر تم شعیب کے تابع ہوئے تو ضرور نقصان میں رہو گے‘‘ میں کتنا فرق ہے اس پر غور فرمالیں۔(سیرت الانبیاء، ص۵۲۵ ملخصاً)

(ازقلم : ابو محمد محمد عمران الٰہی عطاری مدنی)


نام و نسب:

عبد الرحمن بن احمد بن عبد الرحمن بن حسن بن محمد بن ابو البرکات مسعود سلامی بغدادی دمشقی حنبلی،شہرت ابنِ رجب کےنام سے ہے۔

ابن رجب کی وجہ تسمیہ:

آپ کے دادا عبد الرحمن کو ماہِ رجب میں پیدا ہونے کی وجہ سے رجب کہا جاتا تھا ۔آپ کو دادا کی اسی نسبت کے باعث ابنِ رجب کہا جانے لگا۔

کنیت ولقب:

کنیت ابو الفرج اور زین الدین لقب ہے۔

ولادت:

امام ابن رجب رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادت بروز ہفتہ 15 ربیع الاول 736ھ بمطابق 4 نومبر 1335ء کو بغداد میں ہوئی۔

تحصیل علم:

آپ ایک علمی گھرانے پیدا ہوئے ،آپ کے والد اور دادا اپنے وقت کے جید عالم اور محدث تھے۔چھوٹی سی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور بچپن ہی میں احادیث سننے میں مشغول ہوگئے۔آپ نے اپنے والد اور بہت سے مشائخ سے علم حاصل کیا اور اس کے لئے دوردراز کا سفر کیا۔حصول علم کی طرف راغب کرنے میں آپ کے والد کا بڑا کردار رہا وہ آپ کوعلم حدیث کی مجلسوں میں ساتھ لے کر جاتے اور احادیث کی اجازتیں آپ کے لئے حاصل کرتے۔آپ نے مکہ میں شیخ عثمان بن یوسف نویری ،بیت المقدس میں حافظ کبیر صلاح الدین علائی ،مصر میں صدر الدین ابو الفتح میدومی اور ناصر الدین ابن ملوک اور قاہرہ میں ابو الحرم محمد بن قلانسی حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہمسےاحادیث سنیں۔ عظیم محدث امام زین عراقی رحمۃُ اللہِ علیہ علما اور مشائخ سے احادیث سننے میں آپ کے ساتھی رہے۔

اساتذہ:

آپ نے جن اساتذہ اور مشائخ سے علم حاصل کیا ان کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔ان میں سے چند کے نام یہ ہیں:قاضی القضاۃ حضرت احمد بن حسن المعروف ابنِ قاضی جبل ،حضرت احمد بن سلیمان حنبلی،حضرت احمد بن عبد الرحمن حریری مقدسی ، حضرت احمد بن عبد الکریم بعلی ،حضرت ابن عبد الہادی مقدسی ، حضرت شیخ عز الدین امام ابنِ جماعہ، حضرت عبد المؤمن بن عبدالحق بغدادی حنبلی، محدث عراق حضرت ابو حفص عمر بن علی،مؤرخ شام حضرت قاسم بن محمد برزالی، حضرت ابن خباز محمد بن اسماعیل،حضرت فقیہ ابن نباش حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہموغیرہ ۔

تلامذہ:

آپ سے کثیر حضرات نے علم حاصل کیا جن میں چند کے نام یہ ہیں:حضرت ابنِ رسام حموی حنبلی،مفتی دیار مصر شیخ محب الدین احمد بن نصر،حضرت داود بن سلیمان دمشقی حنبلی،حضرت ابو شعر عبد الرحمن بن سلیمان حنبلی،حضرت امام عبد الرحمن زرکشی،حضرت شیخ ابن لحام علی بن محمد بعلی،حضرت علاء الدین ابن مغلی، قاضی مکہ حضرت محمد بن احمد مقدسی حنبلی،قاضی القضاۃ دمشق حضرت شمس الدین محمد بن محمد انصاری حنبلی رحمۃُ اللہِ علیہوغیرہ۔

تصانیف:

آپ نے مختلف موضوعات پر بہت سی کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں سے کچھ کتب کے نام یہ ہیں:(1)ذیل طبقات الحنابلہ(یہ کتاب آپ کی وجہ شہرت بھی بنی)(2)شرح جامع تِرمذی (3) جامع العلوم والحکم(4)فتح الباری فی شرح البخاری(یہ شرح صرف کتاب الجنائز تک ہے) (5) اختیار الاولیٰ فی شرح حدیث اختصام الملا الاعلیٰ(6)نور الاقتباس فی مشکاۃ وصیۃ النبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم لابن عباس(7)الاستخراج لاحکام الخراج (8). نزہۃ الاسماع فی مسئلۃ السماع(9) وقعۃ بدر(10) اختیار الاَبرار(11) اہوال یوم القیامۃ (12) البشارۃ العظمیٰ فی ان حظ المومن من النار الحمی(13) کتاب التوحید (14)الخشوع فی الصلوٰۃ(15)ذم الخمر (16)ذم المال و الجاہ(17)رسالۃ فی معنی العلم(18)التخویف من النار (19)الفرق بین النصیحۃ والتعییر(20)فضائل الشام(21) فضل علم السلف علی الخلف(22)کشف الکربۃ فی وصف حال الغربۃ (23) الکشف والبیان عن حقیقۃ النذور وَ الایمان(24) اللطائف فی الوعظ ۔ عادات واطوار:آپ زہد وتقویٰ ،خشیت الٰہی اور فضل وکمال میں اپنی مثال آپ تھے۔لوگوں سے ملنے جلنے کے بجائے گوشہ نشینی پسند کرتے تھے۔نہ عوامی اور معاشرتی مسائل سےخبردار تھے اور نہ ہی حکام وقت سے کوئی سروکار تھی۔علم کی اشاعت اور تصنیف وتالیف میں مشغول رہتے تھے۔قصاعین کے مدرسہ سکریہ میں رہائش رکھتے تھے۔ آپ کا علمی مقام اتنا بلند تھا کہ لوگ دور دور آپ کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔آپ بہترین واعظ تھے۔لوگوں پر آپ کا وعظ اثر انداز ہوتا اور اسے سن کر لوگوں کے دل بیدار ہوتے ۔وعظ میں آپ کا اسلوب اور انداز حضرت امام ابن جوزی رحمۃُ اللہِ علیہ کی طرح تھا ۔آپ کے وعظ میں آیات و احادیث اور رقت انگیز اشعار ہوتے جسے سن کر لوگوں پر گریہ اور رقت طاری ہوجاتی۔آپ کو اسلاف کا کلام اور ان کے واقعات خوب یاد تھے۔تقویٰ و پرہیزگاری کے ساتھ آپ کو عبادت کا ذوق وشوق بھی بہت تھا،کثرت کے ساتھ عبادت فرماتے اور تہجدگزار تھے۔

وفات:

آپ کی وفات بروز اتوار 6 رجب المرجب 795ھ بمطابق 18 مئی 1393ء کو دمشق میں ہوئی۔ کل مدت حیات 59 سال 3 ماہ 21 یوم تھی۔ بابِ صغیر دمشق میں شیخ حنابلہ امام ابو الفرج عبد الواحد بن محمد شیرازی دمشقی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پہلو میں آپ کی تدفین کی گئی ۔

حوالہ جات: الدر رالکامنہ،2/107دار الجیل بیروت، الاعلام زرکلی،3/295 دار العلم للملایین بیروت،اردو دائرہ معارف اسلامیہ،1/521، انباء الغمر،1/460 احیاء التراث الاسلامی مصر، اختیار الاولی،ترجمۃ المصنف،1/13 مکتبہ دار الاقصی کویت وغیرہ۔

ازقلم:محمد گل فراز مدنی(اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی)


مسلمان پر پہلا فرض نماز ہے،قرآن وسنت میں اس کی بہت زیادہ تاکید ومطالبہ ہے۔ روز محشر اسی کے متعلق سب سے پہلے پوچھا جائے گا۔جہاں نماز کے دینی وروحانی فضائل وثمرات ہیں وہیں اس کے بے شمار طبی، سائنسی اور دنیاوی فوائد وبرکات بھی ہیں۔پیش نظر مضمون ایسے ہی فوائدوبرکات پر مشتمل ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں نماز اللہ پاک کا حکم سمجھ کر پڑھنی ہے، ضمنی طور پریہ فوائد بھی حاصل ہوجائیں گے۔ان شاء اللہ

طہارت کے فوائد وبرکات:

نماز کی طہارت میں تین چیزیں آتی ہیں(1)جسم کا پاک ہونا(2)لباس کا پاک ہونا(3)جگہ کا پاک ہونا۔

(1) جسم کا پاک ہونا:جسم کو چھوٹی اور بڑی دونوں طرح کی ناپاکی سے پاک رکھنا ضروری ہے۔احتیاط کے ساتھ غسل کرنے سے وہ تمام اعضا دھل جاتے ہیں جو بے دھیانی میں دھلنے سے رہ جاتے ہیں۔ یوں انسان اپنے اندر فرحت بخش احساس اور نئی زندگی محسوس کرتا ہے۔یہ فرحت اور تازگی خشوع کے زیادہ قریب کرتی ہے اور دل ودماغ کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔

(2) لباس کا پاک ہونا:اگر نمازی کا لباس پاک نہ ہو تو قسم قسم کے جراثیمی مادے مختلف بیماریوں کا باعث بن جاتے ہیں ، گندے کپڑوں میں نماز پڑھنے میں وہ تازگی وفریش نیس حاصل نہیں ہوتی جو صاف ستھرے لباس سے ہوتی ہے۔ ناپاک کپڑے والا جہاں بیٹھے وہاں امراض پھیلانے کا سبب بنے نیز ایسے شخص کی سوشل لائف بھی متأثر ہوتی ہے کہ لوگ اس سے دو بھاگتے ہیں۔ اسلام نے نماز کے ذریعے بندے کو معاشرے میں رہنے اور عزت والی زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا کیا ہے کہ وہ پاک صاف رہے اور سب لوگ اس سے محبت کریں۔

(3) جگہ کا پاک ہونا: نماز کے لیے ایسی جگہ ہونی چاہیے جو پاک صاف ہو ۔ناپاک اور غیرموزوں جگہ انسانی جسم پر خطرناک اثرات مرتب کرتی ہے اور پیٹھالوجی(حیاتیات) کے مطابق کئی ایسی بیماریاں پیدا کرتی ہے جو جسم ودماغ کی تمام قوتیں ختم کردیتی ہیں ۔اس کے علاوہ ناپاک زمین سے تشنج،ہیضہ،ٹائی فائیڈ وغیرہ جیسے موذی امراض کا خطرہ ہوتا ہے۔

وضو کے فوائد وبرکات:

نماز کے لیے وضو ضروری ہے اور وضو میں ہاتھ دھلنے سے ہاتھوں کے جراثیم دھل جاتے ہیں اور منہ کے راستے جسم میں داخل نہیں ہوپاتے ورنہ متعدد امراض کا باعث ہوں۔اگر ہاتھ باربار نہ دھلیں تو جلدی رنگت کے خراب ہونے،گرمی دانے،ایگزیما،جلدی سوزش وغیرہ کے امراض ہوسکتے ہیں۔ کھاتے وقت غذائی ذرات دانتوں میں اٹک کر رہ جاتے ہیں ،یہ متعفن ہوکر تھوک کے ساتھ معدے میں پہنچتے ہیں نیز دانتوں اور مسوڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں کلی ومسواک سے ان خطرات میں کافی کمی آجاتی ہے۔یوں ہی ہوا کے ساتھ سینکڑوں جراثیم منہ میں جمع ہوجاتے ہیں اور لعاب کے باعث منہ میں چپک جاتے ہیں اور منہ کے کناروں کے پھٹنے، ہونٹوں اور منہ کی داد،چھالوں وغیرہ کا سبب بنتے ہیں ۔دن میں پانچ بار ناک دھونے سے دائمی نزلہ،زکام اور ناک کے امراض سے بچا جاسکتا ہے۔چہرہ دھونے سے خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے نیز چہرے پر دانوں اور الرجی سے حفاظت رہتی ہے نیز چہرے کا مساج ہوجانے سے خون کا دوران متوازن رہتا ہے۔کہنیوں سمیت ہاتھ دھونے سے اُن تین رگوں کو تقویت ملتی ہے جن کا بالواسطہ دل ودماغ اور جگر سے تعلق ہے۔مسح کرنے سے دماغ اصلی پوزیشن پر رہتا ہے۔پاؤں دھونے اور انگلیوں کا خلال کرنے سے اُس انفیکشن سے بچاؤ ہوجاتا ہے جو دھول مٹی اور جراثیم لگنے سے انگلیوں کے درمیان ہوتا ہے ۔ نیز پاؤں دھونے سے ڈپریشن،بے چینی،بے سکونی،دماغی خشکی اور نیند کی کمی جیسے مسائل کا خاتمہ ہوتا ہے۔

نیت نماز کے فوائد وبرکات:

جب نماز کی نیت کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر جسم میں تناؤ پیدا ہوتا ہے ۔ایسی حالت میں انسان کے اوپر سفلی جذبات کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔سیدھے کھڑے ہونے میں ام الدماغ سے روشنیاں چل کر ریڑھ کی ہڈی سے ہوتی ہوئی پورے اعصاب میں پھیل جاتی ہیں۔۔۔ نماز میں جب ہاتھ اٹھا کرعورت کندھوں کے اور مرد کانوں کے قریب لے جاتا ہے تو ایک مخصوص برقی رو نہایت باریک رگ سے دماغ میں جاتی ہے اور دماغ کے خلیوں کو چارج کردیتی ہے۔ جس کو شعور نے نظر انداز کردیا تھا۔ یہ خلیے چارج ہوتے ہیں تو دماغ میں روشنی کا ایک جھماکہ ہوتا ہے جس سے تمام اعصاب متاثر ہوکر دماغ کے اس خانے کی طرف متوجہ ہوجاتے ہیں جس میں دماغ کی روحانی صلاحیتیں مخفی ہیں۔

نماز کے دینی ودنیاوی فوائد وبرکات:

(1)نماز میں تمام فرشتوں کی عبادات کو جمع کردیا گیا ہے۔(2)نماز میں ساری مخلوقات کی عبادت شامل ہے،درخت قیام،چوپائے رکوع،سانپ بچھو سجدے،مینڈک وغیرہ قعدہ اورپرندے ہروقت انتقالات میں اور یہ سب اشرف المخلوقات انسان کی عبادت میں جمع کردیا گیا۔(3)نماز برائی سے بچاتی اور حالت درست کرتی ہے،آزمائی ہوئی بات ہے کہ بڑے بڑے گناہ گاروں نے سچے دل سے نماز شروع کی تو گناہوں سے بچ گئے۔ (4)نماز مصیبتوں سے بچاتی ہے،قحط میں نماز استسقاء،مشکل میں نماز حاجت اوربیماری میں نفل نماز۔ (5)نماز سے ذہن صاف ہوتا ہے اور غصے کی آگ بجھ جاتی ہے۔(6)وضو کرنے والا دماغی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے اور نماز کے لیے بار بار وضو کیا جاتا ہے۔(7)نمازی آدمی اکثر تلی کی بیماریوں اور جنون وغیرہ سے محفوظ رہتا ہے۔(8)نمازی کے اعضا دھلتے رہتے،کپڑے وگھر پاک رہتے ہیں اور گندگی سے بچا رہتا ہے اور گندگی سے بیماریاں آتی ہیں ۔ (9)نماز رزق دلاتی ہے۔ (10)نماز درود غم کا احساس بھلا دیتی یا کم کردیتی ہے۔ (11)نماز میں بہترین ورزش ہے کہ اس کے قیام ،رکوع اور سجدے وغیرہ سے بدن کے اکثر جوڑ حرکت کرتے ہیں۔(12)سجدے سے بند ناک کھلتی ہے۔(13)آنتوں میں جمع ہونے والے غیر ضروری مواد کو حرکت دے کر نکالنے میں سجدہ کافی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ (14)نماز پڑھنے سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے کیونکہ نماز سے قبل وضو سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے۔(15)نماز پڑھنے سے جوڑوں کے درد سے نجات ملتی ہے۔(16) گٹھیا کے مریضوں کے لیے نماز بہترین علاج اور ورزش ہے۔

نماز فجرکے فوائد وبرکات:

جو شخص فجر پڑھتا ہے وہ خوش خوش ،تروتازہ ہوکر صبح کرتا ہے ورنہ غمگین د ل اور سستی کے ساتھ صبح کرتا ہے اور اُسے بہت ساری فکریں گھیر لیتی ہیں، وہ اپنے کام پورے کرنے کے تعلق سے حیران وپریشان ہوکر صبح کرتا ہے اور جو کام بھی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اُس میں ناکامیاب رہتا ہے کیونکہ وہ اللہ پاک کی نزدیکی سے دور ہوکر شیطان کے دھوکے کے جال میں پھنس چکا ہوتا ہے۔نیز صبح انسان خالی پیٹ ہوتا ہے اور اس حالت میں اٹھتے ہی فورا سخت محنت اور زیادہ ورزش نقصان دہ ہوتی ہے ،چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ پاک نے صبح کی نماز مختصر رکھی ہے۔ صبح کی نماز کا ایک مقصد انسان کو طہارت وصفائی کی طرف مائل کرنا بھی ہے کہ اٹھتے ہی انسان وضو اور مسواک سے منہ کی اچھی طرح صفائی کرلے تاکہ رات بھر منہ میں موجود رہنے والے جراثیم ختم ہوجائیں،اگر منہ کے بیکٹریاز اندر چلے جائیں تومعدے کی سوزش،آنتوں کے ورم اور السر کے خطرات ہوجاتے ہیں۔

نماز ظہر کے فوائد وبرکات:

بندہ صبح سے دوپہر تک مسلسل کام میں مگن رہتا ہے،مرد گھر سے باہر اور خواتین گھر کے اندر جس کی وجہ سے ذہن وجسم تھک جاتا ہے اور تجربے سے ثابت ہے کہ اس تھکن کے وقت نماز ظہر ادا کرلی جائے تو یہ جسم ودماغ کو پھر سے ہشاش بشاش ،تروتازہ اور بقیہ دن میں کام کرنے کے قابل کردیتی ہے۔نیز سورج کی تمازت (گرمی)ختم ہونے کے بعد زمین کے اندر سے ایک خاص قسم کی گیس خارج ہوتی ہے۔یہ زہریلی گیس اگر انسان پر اثرانداز ہوجائے تو اُسے طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا کردیتی ہے۔دماغی نظام اتنا درہم برہم ہوجاتا ہے کہ آدمی پاگل پن کا گمان کرنے لگتا ہے۔ جب کوئی بندہ ذہنی طور پر عبادت میں مشغول ہوجاتا ہے اُسے نماز کی نورانی لہریں خطرناک گیس سے محفوظ رکھتی ہیں۔

نماز عصر کے فوائد وبرکات:

ہر ذی شعور یہ بات محسوس کرتا ہے کہ وقت عصر میں اُس پر تھکان وبے چینی جیسی کیفیت طاری ہوتی ہے اور نماز عصر شعور کو اس حد تک تھکان وبے چینی سے روک دیتی ہے جس سے دماغ پر خراب اثرات مرتب ہوں۔ وضو اور نماز عصر قائم کرنے والے بندے کے شعور میں اتنی طاقت آجاتی ہے کہ وہ لاشعوری نظام کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے اور اپنی روح سے قریب ہوجاتا ہے نیز نماز عصر کی پابندی سے دماغ روحانی تحریکات قبول کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔

نماز مغرب کے فوائد وبرکات:

بوقت مغرب عموماً سب گھر والے ایک ساتھ ہوتے ہیں،ماں باپ اپنے بچوں سے بات چیت کرتے ہیں۔اس باہمی گفتگو کے لیے ذہنی سکون بے حد ضروری ہے اور جب ذہنی سکون کے ساتھ ماں باپ اپنے بچوں سے بات کرتے ہیں تووالدین کے اندر کی روشنیاں بچوں میں براہ راست منتقل ہوتی ہیں جس سے اولاد کے دل میں ماں باپ کا احترام اور وقار قائم ہوتا ہے اور اس میں اعلی ترین ذہنی سکون ان والدین کو حاصل ہوتا ہے جو پابندی کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں اور ایسا کرنے والوں کی اولاد سعادت مند اور ماں باپ کی خدمت گزار ہوتی ہے۔

نماز عشاکے فوائد وبرکات:

انسان جب کاروبار اور اپنی جاب سے گھر واپس آتا ہے تو کھانا کھاتا ہے اور زیادہ تر لذت حرص میں زیادہ کھا جاتا ہے۔اب اگر وہ اس کھانے کے بعد لیٹ جائے تو مہلک امراض میں مبتلا ہوسکتا ہے۔نیز سارے دن کا تھکا ماندہ ذہن لے کر اگر نیند کرے گا تو بے سکون رہے گالہذا عشا کی نماز پڑھنے سے ممکنہ امراض اور بے سکونی سے بچ جائے گا۔ اب تو ماہرین سونے سے قبل ہلکی ورزش پر زور دیتے ہیں اور خود ماہرین کا کہنا ہے کہ نماز سے بڑھ کر اس وقت کوئی بہترین ورزش نہیں ۔

باجماعت نماز کے فوائد وبرکات:

(1)نماز باجماعت درس دیتی ہے کہ معاشرے سے انتشارکا خاتمہ کرکے اتفاق واتحاد کا ماحول پیدا کیا جائے۔(2)نماز باجماعت بتاتی ہے کہ جماعت کے لیے ہم زبان،ہم رنگ یا رشتہ دار ہونا ضروری نہیں ۔یوں ہی ہمیں اجتماعی زندگی میں بھی اسلام کو معیار بنانا چاہیے نہ کہ قومیت،نسل،رنگ،خون اور قرابت کو۔پتا چلا قوم مذہب سے بنتی ہے نہ کہ وطن سے۔ (3)نماز باجماعت امیرغریب کا فرق بھی مٹاتی ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سب برابر ہوجاتے ہیں ،لہذا کوئی اپنے بادشاہ ہونے،حاکم ہونے ،سیٹھ ہونے یا باس ہونے پر نہ اترائے۔باجماعت نماز میں کبھی تو غریب اور ملازم اگلی صف میں اور امیراور سیٹھ عین اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے ۔بقول ڈاکٹر اقبال :

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز

نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز

بندہ وصاحب ومحتاج وغنی ایک ہوئے

تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے

(4)نماز باجماعت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ہم وقت کی پابندی کریں۔اولا تو نماز بھی وقت میں پڑھنی ہے پھر ایک خاص وقت میں جماعت کے ساتھ ادا کرنے سے وقت کی پابندی کا ذہن ملتا ہے۔(5)نماز کے اعمال جیسے رکوع،سجدے پھر تشہد میں بیٹھنا یہ تمام اعمال انسانی جوڑوں اور ہڈیوں کی تقویت کا باعث ہیں ۔(6)سنت کے مطابق رکوع کیا جائے،کمر سیدھی رہے اور گھٹنے جھکے ہوئے نہ ہوں تو یہ عمل معدے کو قوت دیتا اور امراض جگر سے نجات دلاتا ہے۔

نماز میں خشوع وخضوع کے فوائد وبرکات:

(1) خشوع وخضوع یعنی انتہائی توجہ کے ساتھ پڑھی جانے والی نماز خود کشی کے رجحان کو کم کرتی ہے اور یہ رجحان ذہنی سطح سے کم ہوکر دھل جاتے ہیں ۔

(2)حرص ،لالچ،جھوٹ،بخل،کینہ حسد ایسےباطنی امراض ہیں جن کی وجہ سے انسان نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتا ہے، پورے دھیان اورتوجہ سے پڑھی جانے والی نمازان امراض ومسائل سے نجات دلاتی ہے۔

(3)ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر لوگوں کو خشوع وخضوع کے فوائد کا علم ہوجائے تو وہ کاروبار چھوڑ کرتوجہ کے ساتھ نماز میں لگ جائیں۔

تحریر: محمد آصف اقبال مدنی عطاری


رابطہ برائے ایگریکلچر اینڈ لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ملتان ڈویژن کے محمود ٹیکسٹائل ملز میں سیکھنے سکھانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں ملز کے ملازمین سمیت دیگر عاشقانِ رسول کی شرکت رہی۔

دورانِ حلقہ ذمہ دار اسلامی بھائی نے شرکا کو دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف کرواتے ہوئے فرض علوم کورس کرنے اور تجوید کے ساتھ قراٰنِ پاک سیکھنے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔

بعدازاں ذمہ دار نے شرکائے حلقہ کو دعوتِ اسلامی کے تحت سفر کرنے والے مدنی قافلوں کی اہمیت بیان کی اور انہیں مدنی قافلے میں سفر کرنے کی ترغیب دلائی۔(کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں پاکستان کے شہر اوکاڑہ میں دعوتِ اسلامی کے تحت روحانی علاج کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں ساہیوال ڈویژن سے آنے والے مختلف عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

دورانِ کورس شعبہ روحانی علاج کے معلم محمد طیب عطاری نے شرکا کی تربیت کرتے ہوئے تعویذات لکھنے کے حوالے سے اُن کی ذہن سازی کی اور انہیں دم کرنے نیز کاٹ کرنے کا طریقہ سکھایا۔

مزید معلمِ کورس نے اسلامی بھائیوں کو چند ضروری احتیاطیں بتاتے ہوئے شعبے کے حوالے سے نئی اپ ڈیٹس بیان کیں اور انہیں دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں میں حصہ لینے کا ذہن دیا۔(رپورٹ:سمیر علی آفس ذمہ دار ،کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوت اسلامی کے شعبہ تعلیم(اسلامی بہنوں ) کےتحت جون2022 ء میں ہند،یوکے، ساؤتھ افریقہ، یوکے ، اور ماریشس میں کل منسلک ادارے ’’21 ‘‘ ہیں جن میں سے ’’8‘‘ اداروں میں ماہانہ اور ’’ 13‘‘ اداروں میں ہفتہ وار درس ہوتا ہے ۔

٭’’ 2 ‘‘ اداروں میں ایک گھنٹہ 12 منٹ کے مدرسۃ المدینہ بالغات اور ایک ادارے میں 30 منٹ کا مدرسۃ المدینہ بالغات لگتا ہے ۔

٭اس ماہ مختلف اداروں کی شخصیات جو دعوت اسلامی کے شعبہ تعلیم سے وابستہ ہوئیں ان کی تعداد ’’145‘‘ہے جن میں سے ’’100‘‘ نے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کیں۔

٭جون 2022ء میں شخصیات اسلامی بہنوں کے لئے ’’24‘‘خُصوصی ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات منعقد کئے گئے ان میں شرکت کرنے والی اسلامی بہنوں کی تعداد ’’697‘‘ تھیں۔

٭’’11‘‘شخصیات خواتین کو مدرسۃ المدینہ بالغات / آن لائن مدرسۃ المدینہ میں داخلے کروائے گئے نیز ’’40‘‘ شخصیات اسلامی بہنوں سے نیک اعمال کے رسائل وُصول کئے گئے ۔

٭شخصیات اسلامی بہنوں کے گھروں میں لگائے گئے مدنی حلقوں کی تعداد:’’ 3 ‘‘ ہے۔

٭’’69‘‘ شخصیات نے دعوت اسلامی کے ماہانہ میگزین ’’ ماہنامہ فیضان مدینہ ‘‘ کی سالانہ بکنگ کروائی ۔


دعوتِ اسلامی کےتحت  17 جولائی 2022ء بروز اتوار خیبر پختونخواہ کی ڈویژن ہزارہ کے شہر ہری پور میں شخصیات اجتماع کا انعقاد ہواجس میں شخصیات خواتین نے شرکت کی۔

نگران پاکستان اسلامی بہن نے ’’علمِ دین کے فضائل‘‘کے موضوع پر سنتوں بھرا بیان کر کے بچوں کی تربیت کرنے ان کو دارالمدینہ اور مدرسۃ المدینہ میں ایڈمیشنز کروانے کا ذہن دیا نیز اپنے علاقے میں اجتماع شروع کرنے اور محارم کو مدنی قافلوں میں سفر کروانے کی بھی ترغیب دلائی اس پر شخصیات نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔