مکہ مکرمہ نہایت برکت اور صاحب اعظم شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے۔قرآنِ کریم میں بھی متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ  کا بیان ہے۔پارہ 30، سورۂ بلد کی پہلی آیت میں ہے:لا اقسم بھذا البلد۔ترجمۂ کنزالایمان:مجھے اس شہر کی قسم، یعنی (مکہ مکرمہ کی)۔

ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش)

پیاری بہنو!آئیے ! مکہ مکرمہ کے چند فضائل پڑھئے:

1۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا، غیر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔( جمع الجوامع، ج 4، ص 372، حدیث 12589)

2۔مالکِ بحروبر،قاسمِ کوثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔ (مسند احمد بن حنبل، ج10، ص 85، حدیث 26109)

3۔حضرت صفیہ بنتِ شیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:نبیِ رحمت، شفیعِ امت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فتحِ مکہ کے دن خطبہ دیا اور فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و زمین پیدا کیا، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت والا)ہے۔(ابن ماجہ، ج3، ص 519، حدیث 3109)

4۔نبی ِّکریم، رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔(اخبار مکہ، ج 2، ص311، حدیث 1565)

5۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔ایک دوسری روایت میں ہے: وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔(عاشقان رسول کی حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں، ص194)

آمنہ کے مکاں پہ روز و شب بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش)

6۔حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، میں نے حضور تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مقامِ حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم! مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ، ج 3، ص 518، حدیث 3108)

میں مکے میں جا کر کروں گا طواف اور نصیب آب زمزم مجھے ہوگا پینا(وسائل بخشش)

7۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے ابو القاسم محمد رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:جو خانہ کعبہ کے قصد(یعنی ارادے) سے آیا اور اونٹ پر سوار ہوا تو اونٹ جو قدم اٹھاتا اور رکھتا ہے، اللہ پاک اس کے بدلے اس کےلئے نیکی لکھتا ہے اور خطا مٹاتا ہے اور درجہ بلند فرماتا ہے، یہاں تک کہ جب کعبہ معظمہ کے پاس پہنچا اور طواف کیا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی، پھرسر منڈایا یا بال کتروائے تو گناہوں سے ایسا نکل گیا، جیسے اس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔(شعب الایمان، ج3، ص 478، حدیث 4115)

پاک گھر کے طواف والوں پر بارش اللہ کے کرم کی ہے(وسائل بخشش)

8۔رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو بیت اللہ کے طواف کے سات پھیرے کرے اور اس میں کوئی لغو یعنی بیہودہ بات نہ کرے، تو یہ ایک غلام آزاد کرنے کے برابر ہے۔(المعجم الکبیر، ج20، ص360، حدیث 845)

9۔جس نے مکہ مکرمہ میں ماہِ رمضان پایا اور روزہ رکھا اور رات میں جتنا میسر آیا، قیام کیا تو اللہ پاک اس کے لئے اور جگہ کے ایک لاکھ رمضان کا ثواب لکھے گا اور ہر دن ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر رات ایک غلام آزاد کرنے کا ثواب اور ہر روز جہاد میں گھوڑے پر سوار کر دینے کا ثواب اور ہر دن میں نیکی اور ہر رات میں نیکی لکھے گا۔(ابن ماجہ، ج 3، ص 523، حدیث 3117)

10۔حدیثِ پاک میں ہے:کعبہ معظمہ دیکھنا عبادت، قرآنِ عظیم کو دیکھنا عبادت ہے اور عالم کا چہرہ دیکھنا عبادت ہے۔ (اخبار مکہ لکفاکھی، ج 2، ص 14، حدیث 1105)اللہ کریم ہمیں با ادب حاضریِ مکہ کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مکہ وہ شہر ہے جس کی تعریف میں قرآنِ مجید رطب اللسان ہے، یہ اپنے اندر آثارِ انبیائےکرام رکھتا ہے، اسے محبوبِ خدا،سرورِ انبیا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام علیہم الرضوان کے مولد ہونے کا شرف حاصل ہے، یہ مبارک شہر جو سب شہروں سے افضل ہے ، کئی خصوصیات و فضائل رکھتا ہے، مکہ کے فضائل بیان کرنے سے قبل اس کی مختصر تاریخ جانتی ہیں:

بلدِ حرام مکہ اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔ لفظ مکہ یا مک یا مکک سے مشتق ہے اور مَک جذب کرنے اور دھکیلنے کو کہتے ہیں، اسی لئے اس شہر میں لوگ چلنے اور طواف کرنے میں ایک دوسرے کو دھکیلتے ہیں۔(تاریخ العروس،6/462، شفاء العرام1/154)

ولادتِ مکہ مکرمہ:

مکہ کا وجود کس طرح عمل میں آیا؟ اس پر مفسرین کے مختلف اقوال ملتے ہیں:

1۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں:دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے مکہ مکرمہ بنایا گیا، جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں، پھراس کے نیچے زمین پھیلا دی گئی۔(مصنف عبد الرزاق، تفسیر طبری1/547)

تفسیر ِ کبیر میں ایک روایت ہےکہ مکہ مکرمہ روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے،اس لئے اسے ام القریٰ بھی کہا جاتا ہے اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے۔(معجم البلدان7/256، تفسیر کبیر3/9)

اس کے علاوہ بھی قول ملتے ہیں، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مکہ سرزمین دنیا کی تمام زمینوں سے باعتبارِ پیدائش قدیم ہے۔

نام مکہ:

انگریزی زبان میں Mecca کا لفظ کسی بھی خاص شعبہ یا گروہ کے مرکزی مقام کے لئے استعمال ہوتا ہے، 1980ءکی دہائی میں حکومتِ سعودی عرب نے شہر کا انگریزی نام Mecca سے بدل Makkah کر دیا، اس مقدس شہر اور عظیم شہر کے بہت سے نام ہیں، جو تقریبا 50 ہیں۔(شفاء الغرام، معجم البلدان)

قرآنِ مجید میں اس عظیم شہرکو مختلف مقامات پر مختلف ناموں سے ذکر فرمایا ہے،جیسے مکہ،بکہ،البلد، القریہ،اُم القریٰ،معاد،اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے:لا اقسم بہذا البلدمیں اس بلد کی قسم اٹھاتا ہوں۔(سورۃ البلد، آیت نمبر1)

اسی طرح سورہ فتح:24 میں مکہ کا ذکر آیا:وہوالذی کف ایدیھم عنکم وایدیکم عنھم ببطن مکۃ۔اللہ نے وادیِ مکہ میں ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے۔

بکہ کا ذکر اس آیت میں ملتا ہے:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ بِبَکَّۃَ ۔ ترجمہ:لوگوں کے لئے عبادت کی غرض سے بنایا جانے والا پہلا گھر بکہ میں ہے، جو تمام دنیا کے لیے برکت اور ہدایت والا ہے۔(سورہ ٔال عمران، آیت نمبر 96)

مکہ اور بکہ کےدرمیان فرق:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے:بکہ صرف بیت اللہ شریف ہے اور اس کے ماسوائے پورا شہر مکہ ہے، بکہ ہی وہ مقام ہے جہاں طواف کیا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ طواف صرف حرم کے اندر ہی جائز ہے، باہر نہیں، کیونکہ باہر کا حصہ مکہ میں شمار ہوتا ہے، یہی قول امام مالک، امام ابراہیم نخعی، امام عطیہ اور امام مقاتل رحمۃُ اللہِ علیہم کا ہے۔(معجم البلدان8/134، ابن کثیر1/383، تفسیر طبری4/6)الغرض مکہ مکرمہ کے اور بھی کئی نام ہیں، جیسے نسَّاسَہٗ، حَاطِمہٗ، حرم، صلاح، با سہٗ، راس،و غیرہ

مکہ مکرمہ کی ابتدائی آبادی:

اس لق و دق صحرا کو گلِ گلزار اور چمن دار بنانے والے پہلے انسان حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا ہیں،جنہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام حکمِ الٰہی سے اس بے آب و گیاہ ریگستان اور نا ہموار ٹیلہ میں تھوڑا سا پانی اور مشکیزہ بھر کر پانی دے کر اللہ پاک کے حکم سے چھوڑ آئے، بیابان ٹیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ پاک فرماتا ہے:اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لئے مقرر کیا گیا، وہی ہے، جو مکہ شریف میں ہے جو تمام لوگوں کے لئے بابرکت اور رحمت والا ہے۔(ال عمران:96)

اس آیت سے معلوم ہوا!حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے اس مقدس شہر کو آباد کیا،البتہ اطراف واکناف میں قبیلہ جرہم آباد تھا، جسے بعد میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کا رشتہ ازدواج قائم ہوا۔(ماخوذ تاریخ مکہ مکرمہ)

فضائلِ مکہ احادیث کی روشنی میں:

کعبہ کی زمین(باستثنائے مرقد ِمبارک رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)دنیاو مافیہا سے افضل ہے، جو کعبہ کے اندر داخل ہوتا ہے، وہ اللہ پاک کی رحمت میں داخل ہوتا ہے اور جو اندر جا کر باہر آتا ہے، وہ اللہ پاک کی مغفرت لئے ہوئے آتا ہے، اس جگہ کا ثواب دوسرے مقامات سے کئی گنا افضل ہے،اللہ پاک نے مکہ مکرمہ کو جو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ عطا فرمایا، سب کعبہ کی برکت سے عطا فرمایا، فرمانِ باری ہے:وَمَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِناً۔جو اس (حرم) میں داخل ہو جائے امن والا ہے۔

حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:مکہ میں رمضان گزارنا غیِر مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔اللہ پاک نے شہر ِمکہ کو یہ خصوصیت بیت اللہ کی وجہ سے دی اور اس شہر مکہ کو اپنے گھر کے لئے منتخب کر کے اس شہر کی عظمت بڑھا دی۔

2۔ پیارے آقا علیہ السلام نے فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔(مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر 26106)

3۔جو دن کے کچھ وقت مکہ کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔

4۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :تم میں سے کسی کو یہ جائز نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مسلم شریف)

5۔شہرِ ِ مکہ کی خصوصیت و فضیلت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مکہ معظمہ سے فرمایا:تو کیسا پاکیزہ شہر ہے اور تو مجھے کیسا پیارا ہے، اگر میری قوم مجھے یہاں سے نہ نکالتی تو میں تیرے علاوہ کہیں نہ ٹھہرتا۔(ترمذی)

6۔حضرت عیاش بن ابو ربیعہ مخزومی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس حرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، حالات ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ)

معلوم ہوا ! انسان کی بقا، اتحاد، عزت و وقار مکہ سے وابستہ ہے، اس کی تعظیم مسلمانوں میں کم ہوگی تو امت افتاد و پریشانی میں گرفتار ہو جائے گی۔

7۔مسلم و بخاری کی حدیثِ مبارکہ میں ہے:حج و عمرہ ایک ساتھ کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقرو گناہوں کو مٹاتے ہیں، جیسا کہ بھٹی سونے، لو ہے اور چاندی سے زنگ ختم کرتی ہے۔

8۔مکہ کی عظمت اور فضائل کا اندازہ اس سے کریں کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس مقدس شہر سے نقل مکانی سے منع فرمایا۔

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جس دن مکہ فتح کیا تو فرمایا: ہجرت باقی نہ رہی، لیکن جہاد اور نیت ہے۔(بخاری18/3)

9۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:گھر میں آدمی کی نماز ایک نماز کا ثواب رکھتی ہے، محلہ کی مسجد میں نماز پڑھنے کا ثواب 25 نمازوں کے برابر ہے، جو جامع مسجد میں نماز پڑھے، اسے پانچ سو نمازوں کا ثواب ملے گا اور جو مسجد اقصیٰ اور میری مسجد یعنی مسجد نبوی میں نماز پڑھے، اسے پچاس ہزار کا ثواب ملے گا اور جو مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ نماز پڑھنے کا ثواب ملے گا۔(ابن ماجہ)

10۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے بیت اللہ کی زیارت کی، پھر یہاں سے کسی سے جھگڑا، بدزبانی، فساد نہ کیا تو گناہوں سے اس طرح ہو جاتا ہے، جیسے ماں کے پیٹ سے، گناہوں سے پاک پیدا ہوا تھا۔(بخاری)

شہرِ مکہ کی فضیلت کے بارے میں احادیثِ مبارکہ میں آتا ہے، حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: فتحِ مکہ کے دن حضور علیہ السلام نے فرمایا:اس شہر کو اللہ پاک نے اس دن حرمت عطا فرمائی، جس دن زمین آسمان کو پیدا فرمایا، یہ اللہ پاک کی حرمت کے باعث تا قیامت حرام ہے ۔(بخاری)

الغرض کوئی انسان جس سے محبت کرتا ہے، اس سے پہچانا جاتا ہے،جس طرح انسان نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کرتا ہے، وہ عام انسان نہیں رہتا، بلکہ وقت کا غوث، قطب ،ابدال بن جاتا ہے، یہی وجہ ہے مکہ مکرمہ کو عظمت، حرمت اور امان سب کچھ کعبۃ اللہ، بیت اللہ کی برکت سے ملا ہے ۔


مکہ مکرمہ وہ مبارک جگہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس میں رہنے کی خواہش فرمائی، مکہ مکرمہ کی رہائش مستحب ہے، کیونکہ اِس میں نیکیاں اور اطاعتیں بڑھتی ہیں، سلف و خلف آئمہ میں سے بے شمار حضرات نے مکہ مکرمہ کی رہائش اختیار کی، مکہ مکرمہ میں رہائش کی سب سے بڑی دلیل یہ ہےکہ رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس میں رہائش فرمائی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اپنے اشعار میں مکہ مکرمہ دوبارہ جانے کی تمنا کی تھی۔(صحیح بخاری، حدیث نمبر : 3926)

کعبۃ الله قابلِ احترام گھر ہے، جو مسجد حرام کے درمیان واقع ہے۔اب مکہ مکرمہ کے 10 فضائل حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں پیش کئے جاتے ہیں:

1۔رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کعبہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:اللہ پاک کی قسم !توالله پاک کی زمین بہترین جگہ ہے اور اللہ پاک کو محبوب ترین ہے، اگر مجھے تجھ سے زبردستی نکالا نہ جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔(جامع ترمذی ، حدیث نمبر 3925)

2 ۔حضرت کعب بن احبار رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا:اللہ پاک نے شہروں کو چنا تو سب سے زیادہ بلد حرام کو پسند فرمایا۔ (شعب الایمان، بیہقی ، حدیث : 3740)

3۔عبدالله بن عدی بن حمراء رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مکہ مکرمہ میں اونٹنی پر سوار حزوره(یہ وہ بازار ہے جو مکہ میں سیدہ ام ہانی رضی الله عنہا کے گھر کے باہر تھا جو کہ بعد میں مسجد ِحرام کی توسیع میں شامل ہو گیا) مقام پر یہ فرماتے سنا :اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی زمین میں بہترین جگہ ہےاور الله پاک کے ہاں محبوب ترین ہے۔ اگر مجھے تجھ سے نکلنے پر مجبور نہ کیا جاتا تو میں کبھی نہ نکلتا۔(مسند احمد 4/305)

4۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میری اس مسجد میں ایک نماز دیگر مساجد میں ہزار نمازوں سے بہتر ہے، البتہ مسجد حرام کی ایک نمازایک لاکھ نمازوں سے بھی بڑھ کر ہے۔(مسند احمد : 3/ 343، 397)

5۔حضرت عبد الله بن زبیر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کعبہ کو بیتِ عتیق اس لئے کہا گیا ہے، کوئی کافر بادشاہ اس پر قابض نہیں ہوا۔ (جامع ترمذی، حدیث نمبر : 3170)

6۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں،میں نے نبی ِّکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا: کیا وجہ ہےکہ بیت اللہ کا دروازہ اونچا لگایا گیا ہے؟ تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تیری قوم (قریش) کا مقصد یہ تھا کہ جسے چاہیں بیت اللہ میں داخل ہونے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔(صحیح بخاری ، حدیث نمبر : 1584)

7۔ بہت سی احادیث میں یہ مضمون آیا ہے:قربِ قیامت کعبہ کو شہید کر دیا جائے گا، چنانچہ حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:چھوٹی چھوٹی ٹیڑھی پنڈلیوں والا ایک حبشی کعبہ کی عمارت ڈھائے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث نمبر 1591)

8۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:گویا کہ میں اُس کالے ٹیڑھی پنڈلیوں والے شخص کو دیکھ رہا ہوں، جو کعبہ کے ایک ایک پتھر اکھاڑ دے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث نمبر :1595)

9۔نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا:ایک لشکر کعبہ پر حملہ کرنے آئے گا تو ان سب کو مقامِ بیداء پر دھنسا دیا جائے گا۔( صحیح بخاری ، حدیث 2117)

10۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، میں نے گزارش کی: اللہ پاک کے رسول! میں بھی کعبہ میں داخل ہونا چاہتی ہوں تو رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حجر (حطیم) میں داخل ہو جاؤ، یہ بیت اللہ ہی کا حصّہ ہے۔(سنن نسائی ، حدیث نمبر : 2914)

واہ! کیا شان ہے مکہ مکرمہ کی! الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اس مقدس شہر، مقدس جگہوں میں حاضری کے شرف سے نوازے، اس کا ادب اور احترام کرنے کی توفیق سے نوازے اور ڈھیروں نیکیاں اکٹھی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


تاریخ کے اوراق :

فتحِ مکہ:ہجرت کے آٹھویں سال رمضان المبارک کے مہینے میں آسمان و زمین نے ایک ایسی فتح کا منظر دیکھا کہ جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، اس فتح کا پسِ منظر و سبب کیا تھا اور کیا نتائج رونما ہوئے، اس کا خلاصہ ملاحظہ کیجیئے۔

رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بعثت و اعلانِ نبوت کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ کے وہ لوگ جو آپ کو صادق و امین، محترم، قابلِ فخر اور عزت و کرامت کے ہر لقب کا اہل جانتے تھے، یک لخت آپ کے مخالف ہوگئے، انہیں دینِ اسلام کے پیغام پر عمل پیرا ہونے میں اپنی سرداریاں کھو جانے کا ڈر ہوا، انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ اگر آج رسول ِخدا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پکار پر لبیک کہہ دیں تو 14 صدیاں بعد تو کیا، قیامت تک صحابی رسول کے عظیم لقب سے جانے جائیں گے، ہر کلمہ گو انہیں رضی اللہ عنہم کہہ کر یاد کرے گا۔

بہر کیف یہ ان کے نصیب میں ہی نہ تھا، جن کے مقدر میں تھا، انہوں نے لبیک کہا اور پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مخالفت کرنے والوں کے ہاتھوں طرح طرح کی اذیتیں اٹھائیں، لیکن صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھا، جب کفارِمکہ کا ظلم و ستم حد سے تجاوز کر گیا اور اللہ پاک نے بھی اجازت دے دی تو مسلمان مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کر گئے، لیکن افسوس! کفارِ مکہ پھر بھی باز نہ رہے اور مسلمانوں کو پے در پے اذیت دیتے رہے، وقت گزرتے گزرتے ہجرت کا چھٹا سال آگیا، مسلمان مکہ مکرمہ میں بیت اللہ شریف کی زیارت کیلئے بے قرار تھے، چنانچہ رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 1400 صحابہ کرام کی ہمراہی میں ادائیگی عمرہ کیلئے مکہ مکرمہ کی جانب روانہ ہوئے۔کفارِ مکہ نے پھر جفا کاری سےکام لیا اور مسلمانوں کو مکہ مکرمہ میں داخل ہونے سے منع کردیا، بالآخر طویل مذاکرات کے بعد معاہدہ طے پایا، جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا۔

10 رمضان المبارک 8 ہجری کو نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر مکے کی طرف روانہ ہوگئے، مکہ شریف پہنچ کر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ رحمت بھرا فرمان جاری کیا کہ جو ہتھیار ڈال دے ، اُس کیلئے امان ہے، جو دروازہ بندکرے ، اس کے لئے امان ہے، جو مسجد حرام میں داخل ہو جائے ، اُس کیلئے امان ہے۔

پھر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کعبہ مقدسہ کو بتوں سے پاک فرما کر کعبہ شریف کے اندر نفل ادا فرمائے اور باہر تشریف لا کر خطبہ ارشاد فرمایا۔

مکہ مکرمہ کے فضائل تاریخ:

الحمد لله مکہ مکرمہ نہایت با برکت اور صاحبِ عظمت شہر ہے، ہر مسلمان اس کی حاضری کی تمنا و حسرت رکھتا ہے اور اگر ثواب کی نیت ہو تو یقیناً دیدارِ مکہ مکرمہ کی آرزو بھی عبادت ہے، اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرما لیجیئے، تاکہ دل میں ا س کی مزید عقیدت جاگزیں ہو۔

وہاں پیارا کعبہ یہاں سبز گنبد وہ مکہ بھی میٹھا تو پیارا مدینہ

مكۃ المكرمہ امن والا شہر ہے:

قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر مکۃ المکرمہ کا بیان کیا گیا ہے، چنانچہ پارہ اول سورۃ البقرہ آیت نمبر 126 میں ہے: وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا ۔ترجمۂ کنز الایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)

پارہ 30 سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ہے :لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ ۔ترجمۂ کنز الایمان:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)۔(خزائن العرفان، ص1104)

مکۃ المکرمہ کے دس حروف کی نسبت سے مکے کے دس نام :

اے عاشقانِ رسول!مکۃ المکرمہ کے بہت سے نام کتابوں میں درج ذیل ہیں، ان میں سے 10 یہ ہیں۔

(1)البلد(2)البلدالامین(3)البلدہ(4)القریہ(3)القادسیہ(5)البیت العتیق(1)معاد(8)بکہ(9)الرَّاسُ (10) اُم القری۔ (العقد الثمنين فی تاريخ البلدالامین، ج1،ص204)

کفارِ قریش سے ارشاد فرمایا : بولو تم کو کچھ معلوم ہے ؟ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں؟ کفار آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رحمت کو مدِّنظر رکھتے ہوئے بولے:اَخٌ کَرِیمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْم۔آپ کرم والے بھائی اور کرم والےبھائی کے بیٹے ہیں،نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رحمت جوش میں آئی اور یوں فرمایا:لا تثریب علیکم الیوم فااذھبوا انتم الطلقاء۔آج تم پر کوئی الزام نہیں،جاؤ تم آزاد ہو۔

بالکل غیر متوقع طور پر یہ اعلان سُن کر کفار جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، اس عام معافی کا کفار کے دلوں پر بہت اچھا اثر پڑا اور وہ آکر آپ کے ہاتھ پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔

فتحِ مکہ کے روز دو ہزار افراد ایمان لائے، اللہ پاک اپنے حبیب فاتحِ مکہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حسنِ اخلاق کے صدقے ہمیں بھی با اخلاق بنائے اور دنیا و آخرت میں اس خلق عظیم والے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا سایہ رحمت عطا فرمائے۔آمین

احادیثِ فضائلِ مکہ:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اُس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب، ایک دوسری روایت میں ہے:بعث نمن الاٰمنین یوم القیامۃ یعنی وہ بروزِ قیامت امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔

میں مکے میں جاکر کروں گا طواف اور نصیب آبِ زم زم مجھے ہو گا پینا

الله پاک ہمیں بار بار ہزار بار پیارے مکے اور میٹھے مدینے کی حاضری نصیب فرمائے۔(آمین)


مکہ مَکٌ سے بنا ہے، مکہ کا معنی ہلاکت اور سر کچل ڈالنا، کیونکہ اللہ پاک  نے کئی بار مکہ معظمہ کے دشمنوں کو ہلاک کیا، اس لئے اسے مکہ کہتے ہیں، مکہ حجاز کا مشہور شہر ہے، جو مشرق میں جبل ِابو قبیس اور مغرب میں جبلِ قعیقعان کے درمیان واقع ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا کو مکہ مکرمہ میں لاکر شہرِ مکہ آباد کیا، شہرِ مکہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا آبائی وطن اور وحی کے نازل ہونے کی جگہ ہے، مکہ مکرمہ کے فضائل کی طرح اس کے نام بھی متعدد ہیں:

1۔البلد الامین 2۔القادسیہ 3۔البیت العتیق 4۔معاد 5۔بکہ 6۔ام القری 7۔الراس 8۔القریہ

فضائل مکہ:

1۔حرم ہونا، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنا دیا ہے، جس دن آسمان و زمین پیدا کئے، لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام ہے۔(ابن ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3109)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس شہر پاک کا حرم شریف ہونا صرف اسلام میں نہیں، بلکہ بڑا پرانا مسئلہ ہے، ہر دین میں یہ جگہ محترم ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 221)

2۔بہترین زمین: نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔(ابن ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، حدیث 3108)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:جمہور علما کے نزدیک مکہ معظمہ شہر مدینہ سے افضل اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو زیادہ پیارا ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 225)

3۔حرم شریف کی بے حرمتی مؤجب ہلاکت:نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی، جب تک اس کی حرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے، ہلاک ہو جائیں گے۔(ابن ماجہ، جلد 3، صفحہ 519، ح3110)

4۔ہتھیار اٹھانا منع ہے: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کسی کو یہ حلال نہیں کہ مکہ معظمہ میں ہتھیار اٹھائے پھرے۔(مسلم شریف، جلد 1، صفحہ 506، ح3307)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ معظمہ میں کھلے ہتھیار اٹھائے پھر نا کہ مسلمان مرعوب ہوں،حرام ہے، غلاف میں ڈھکے ہوئے ہتھیار اپنی حفاظت کے لئے اٹھانا درست ہے۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 223)

5۔حساب سے امن:مصطفے کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں سے حرمین(مکہ مدینہ) میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا، نہ عذاب۔(مصنف عبدالرزاق، جلد 9، صفحہ 174، ح17479)

6۔قیامت کے خوف سے امن:فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو حرمین میں سے کسی ایک میں مرے گا، اللہ پاک اسے اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے دن امن والوں سے ہوگا۔(مشکوۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ 241، ح2632)

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:حرمین میں مرنے والا قیامت کی بڑی گھبراہٹ جسے فزع اکبر کہتے ہیں، اس سے محفوظ رہے گا، مگر یہ فوائد فقط مسلمانوں کے لئے ہیں۔(مرآۃ المناجیح، جلد 4، صفحہ 246)

7۔رمضانِ مکہ مکرمہ:نبی رحمت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع الجوامع، جلد 4، صفحہ 372، ح12579)

حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس افضلیت کی وجہ تحریر فرماتے ہیں:اللہ پاک نے مکے کو اپنے گھر کے لئے منتخب فرمایا، اپنے بندوں کے لئے اس میں حج کے مقامات بنائے، اس کو امن والا حرم بنایا۔(فیض القدیر، جلد 4، صفحہ 51)

8۔جہنم کی آگ سے دوری: حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے، جہنم کی آگ اس سے دور ہو جاتی ہے۔(اخبار مکہ، جلد 2، صفحہ 311، ح1565)

9۔دگنا اجر: آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو ایک دن مکے میں بیمار ہوجائے، اللہ پاک اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا فرماتا ہے، جو وہ سات سال سے کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ (بیمار) مسافر ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔(مرجع الی السابق)

10۔دجال سے حفاظت:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مکہ اور مدینہ میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔

(مسند احمد بن حنبل، جلد 10، صفحہ 85، ح26106)

اے اللہ پاک ہمیں مقبول حج و عمرہ کی سعادت عطا فرما۔آمین


مکہ مکرمہ نہایت فضیلت و عظمت والا شہر ہے۔ اسی مبارک شہر میں حضور شہنشاہِ کونین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی۔ کعبہ معظمہ، صفا مروہ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، غارِ حرا، غارِ ثور جیسے بابرکت مقامات بھی اسی شہر میں واقع ہیں۔ مکہ مکرمہ میں ہر سال ذوالحجۃ الحرام کے مہینے میں تمام دنیا کے لاکھوں مسلمان حج کیلئے آتے ہیں۔ (سیرتِ مصطفیٰ ، ص41 ملتقطا)

جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ پاک کے حکم سے اپنی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور بیٹے حضرت اسماعیل علیہ الصلوة والسلام کو اس سرزمین میں،جہاں اب مکہ مکرمہ ہے، چھوڑ کر تشریف لے گئے تو اس وقت یہاں نہ کوئی آبادی تھی، نہ کوئی چشمہ، نہ پانی۔ جب ان کے پاس موجود پانی ختم ہوگیا اور پیاس کی شدت ہوئی اور صاحب زادے کا حلق شریف بھی پیاس سے خشک ہوگیا تو آپ پانی کی جستجو یا آبادی کی تلاش میں صفا و مروہ کے درمیان سات بار دوڑیں اور اللہ پاک کے حکم سے اس خشک زمین میں ایک چشمہ(زم زم) نمودار ہوا۔ بعد ازاں جُرْہَم نامی ایک قبیلے نے اس طرف سے گزرتے ہوئے ایک پرندہ دیکھا تو انہیں تعجب ہوا کہ بیابان میں پرندہ کیسا! جستجو کی تو دیکھا کہ زم زم شریف میں پانی ہے !یہ دیکھ کر ان لوگوں نے حضرت ہاجرہ رضی اللہُ عنہا سے وہاں بسنے کی اجازت چاہی،انہوں نے اس شرط پر اجازت دی کہ پانی میں تمہارا حق نہ ہوگا۔چنانچہ وہ لوگ وہاں بسے اور اس طرح شہرِ مکہ میں آبادی کا سلسلہ شروع ہوا۔ (تفسیر صراط الجنان، ابرٰھیم، تحت الآیۃ:37 ملتقطا)

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں اللہ پاک کے اس پیارے شہر کے فضائل ملاحظہ فرمائیے تاکہ دل میں اس کی مزید عقیدت جاگزیں ہو:

1:”اے لوگو! اس شہر کو اسی دن سے اللہ پاک نے حرم بنادیا ہے جس دن آسمان و زمین پیدا کیے لہٰذا یہ قیامت تک اللہ پاک کے حرام فرمانے سے حرام(یعنی حرمت والا)ہے۔“

(ابن ماجہ،3/519،حدیث:3109)

2:”یہ امت ہمیشہ خیر کے ساتھ رہے گی جب تک اس حُرمت کی پوری تعظیم کرتی رہے گی اور جب لوگ اسے ضائع کر دیں گے ہلاک ہو جائیں گے۔“(ابن ماجہ، 3/519، حدیث :3110)

3:”تم میں سے کسی کیلئے مکہ مکرمہ میں ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے۔“ (مسلم،1/506،حدیث:3307)

4:”اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں مجھے زیادہ پیاری ہے۔خدا کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جاتا تو میں ہرگز نہ نکلتا۔“

(ابن ماجہ،3/518، حدیث:3108)

شارحِ بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں: یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت تک مدینۂ طیبہ حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے مشرف نہیں ہوا تھا۔ اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے افضل تھا مگر جب حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مدینۂ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔ (نزہۃ القاری،2/711) راجح یہی ہے کہ مکہ عمومی طور پر مدینہ سے افضل ہے۔

کیونکر نہ ہو مکے سے سوا شانِ مدینہ وہ جبکہ ہوا مسکنِ سلطانِ مدینہ

مکے کو شرف ہے تو مدینے کے سبب سے اس واسطے مکہ بھی ہے قربانِ مدینہ

5:”مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔“

(جمع الجوامع،4/372،حدیث:12589)

6:”مکے اور مدینے میں دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔“(مسند امام احمد،10/85،حدیث:26106)

7:”جو دن کے کچھ وقت مکے کی گرمی پر صبر کرے جہنم کی آگ اس سے دور ہوجاتی ہے۔“

(اخبار مکہ،2/311،حدیث:1556)

8:”جو ایک دن مکے میں بیمار ہوجائے اللہ پاک اس کیلئے اسے اس نیک عمل کا ثواب عطا فرماتا ہے جو وہ سات سال سے کررہا ہوتا ہے(لیکن بیماری کی وجہ سے نہ کرسکتا ہو)اور اگر وہ(بیمار)مسافر ہو تو اسے دگنا اجر عطا فرمائے گا۔“ (اخبار مکہ ،2/311،حدیث:1556)

9:”جس کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حرمین یعنی مکے یا مدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اس طرح اٹھائے گا کہ اس پر نہ حساب ہوگا نہ عذاب۔“

(مصنف عبدالرزاق، ٩ /174،حدیث:17479)

10:”جو حرمین(یعنی مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ کے حرم)میں سے کسی ایک میں مرے گا وہ قیامت کے دن امن والے لوگوں میں اٹھایا جائے گا۔“ (جواہر البحار،4/29)

اللہ پاک ہمیں مکہ مکرمہ کی باادب باذوق حاضری نصیب فرمائے اور مقبول حج و عمرے کی سعادت سے مشرف فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حدیثِ پاک میں ہے: کعبہ معظمہ بیت المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، 2/427،حدیث:3366) ارشاد باری ہے:ترجمۂ کنزالایمان:بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے، برکت والا ہے اور سارے جہاں والوں کے لئے ہدایت ہے۔(آل عمران:96)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے: دنیا کی تخلیق سے دو ہزار سال پہلے پانی کے چار ستونوں پر کھڑا کر کے مکہ مکرمہ بنایا گیا، جن کی بنیادیں ساتویں زمین تک گہری تھیں،پھر زمین اس کے نیچے سے پھیلا دی گئی۔(مصنف عبد الرزاق5/ 92-تفسیر طبری1/547) تفسیر کبیر میں ہے: مکہ مکرمہ روئے زمین کے اوسط میں واقع ہے اور یہ زمین کی ناف ہے، اس لئے اسے ام القریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ بیت المعمور کا سایہ ہے۔ (معجم البلدان7/256، تفسیر کبیر3/9)قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مکہ مکرمہ کا بیان آیا ہے:ترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)مکہ مکرمہ میں مسجد الحرام کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا:اور اے مسلمانو!تم جہاں کہیں بھی ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔( بقرہ: 144)اور اس میں موجود مقام ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا: ترجمۂ کنزالعرفان:اور (اے مسلمانو) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(البقرہ: 125)اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:ترجمہ کنزالعرفان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(آل عمران:97)اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:ترجمہ ٔکنزالعرفان:اور یاد کرو جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔(بقرہ:125)پارہ 30، سورۃ البلد کی پہلی آیت میں ارشاد فرمایا:مجھے اس شہر کی قسم(یعنی مکہ مکرمہ کی)(خزائن العرفان، صفحہ1104)حضور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:مکے میں رمضان گزارنا غیرِ مکہ میں ہزار رمضان گزارنے سے افضل ہے۔(جمع الجوامع،جلد 4، صفحہ 472، حدیث12589)مالکِ بحروبر، قاسمِ کوثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یعنی مکے اور مدینے میں دجّال نہیں ہو سکے گا۔( مسند احمد بن حنبل جلد 10، صفحہ 85، حدیث26106)حضرت عبداللہ بن عدی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور تاجدار رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو دیکھا کہ آپ مقام حزورہ کے پاس اپنی اونٹنی پر بیٹھے فرما رہے تھے: اللہ پاک کی قسم! تو اللہ پاک کی ساری زمین میں بہترین زمین ہے اور اللہ پاک کی تمام زمین میں سے مجھے زیادہ پیاری ہے،اللہ پاک کی قسم!اگر مجھے اس جگہ سے نہ نکالا جات تو میں ہرگز نہ نکلتا۔(ابن ماجہ،3/518، حدیث3108) شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت نزہۃالقاری میں لکھتے ہیں :یہ ارشاد ہجرت کے وقت کا ہے، اس وقت مدینہ طیبہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے مشرف نہیں ہوا تھا،اس وقت تک مکہ پوری سرزمین سے افضل تھا، مگر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ طیبہ تشریف لائے تو یہ شرف اسے حاصل ہوگیا۔(نزھۃ القاری، جلد 2، صفحہ 711)حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اس عزت والے گھر کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔(تالی تلخیص2:365، رقم 221)حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مسجد اقصی اور میری مسجد میں نماز پڑھے، اسے پانچ ہزار نمازوں کا اور مسجد حرام میں نماز پڑھے، اسے ایک لاکھ نمازوں کا ثواب ملتا ہے۔بیشک یہاں سے کوئی محروم نہیں لوٹتا، مگر یہ بھی یاد رہے! وہاں ایک گناہ بھی ایک لاکھ گناہ ہے۔اللہ پاک ہم سب کو فرض علوم سیکھ کر میٹھا میٹھا مکہ اور مدینہ کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الکریمصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


2 جولائی 2022ء بروز ہفتہ شعبہ مدنی قافلہ دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتما م پاکستان کے شہر اسلام آبا دمیں ایک تربیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مدرسۃ المدینہ اسلام آباد اور راولپنڈی ڈویژن کے ناظمین نے شرکت کی۔

اس تربیتی نشست میں مبلغِ دعوتِ اسلامی نعمان عطاری نے دنیا بھر میں نیکی کی دعوت عام کرنے کے لئے 3 دن، 12 دن، ایک ماہ اور 12 ماہ کے مدنی قافلے میں سفر کرنےکا ذہن دیاجس ناظمین نے اپنے آپ کو ملک و بیرونِ ملک مدنی قافلے میں سفر کرنے کی اچھی اچھی نیتیں کیں۔(رپورٹ:بدر منیر عطاری شعبہ مدنی قافلہ سوشل میڈیا پنجاب، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


شعبہ رابطہ بالعلماء دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں سرکاری ڈویژن گوجرانوالہ کے ذمہ دار محمد ظہیر عباس عطاری مدنی کی صاحبزادہ پروفیسر سیّد ریاض حسین شاہ صاحب (شیخ الحدیث مانچسٹر مسلم کالج یوکے، مہتمم الجامعۃالاسلامیہ اسرار العلوم باگڑیانوالہ ضلع گجرات) سے ملاقات ہوئی۔

اس موقع پر ذمہ دار نے انہیں دعوتِ اسلامی کے بیرون ممالک میں ہونے والے دینی کاموں کے حوالے سے آگاہ کیا اور مدنی مرکز فیضانِ مدینہ گوجرانوالہ کا وزٹ کرنے کی دعوت دی نیز ماہنامہ فیضان مدینہ تحفے میں پیش کیا۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے تحت ہالہ ناکہ قادر ایونیو میں قائم مدرسۃ المدینہ برائے نابینا افراد میں مدنی قافلہ سفر پر روانہ ہوا جس میں صوبائی ذمہ دار اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ عابد حسین عطاری، ڈویژن ذمہ دار اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ وقار حسین عطاری سمیت اسپیشل پرسنز نے شرکت کی۔

اس مدنی قافلے میں اسپیشل پرسنز نے دیگر اسلامی بھائیوں کے ہمراہ علاقے میں دکان دکان جاکر عاشقانِ رسول کو نیکی کی دعوت پیش کی نیز اسپیشل پرسنز کی تربیت کے لئے عملی طور پر نماز کی مشق کروائی۔(رپورٹ:محمد سمیر ہاشمی عطاری اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


یوں تو مدینہ منورہ کو تمام شہروں پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی عزت و عظمت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃ الرسول ہے، ہجرت گاہِ کو نین ہے اور اسے رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے نسبت حاصل ہے اور اسی مقدس شہر میں حضور آرام فرما ہیں۔

ہم کو پیارا ہے مدینہ اس لئے کہ رہتے ہیں اس میں شاہِ بحرو بر میٹھا مدینہ مرحبا

یثرب سے مدینہ:

مدینہ منورہ کا پرانا نام یثرب تھا جو ثَبَرَّب،ثَرَابَ اور اَثْرَبَ سے بنا ہے،یہاں کی آب وہوا ایسی تھی کہ اگر تندرست آئے تو بیمار ہو جاتا تھا، لیکن جب اس جگہ کو سرکارِ دو عالم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی قدم بوسی کا شرف ملا تو یہ مدینہ منورہ بن گیا، اب یہاں کی مٹی میں بھی الله پاک نے شفا رکھ دی۔چنانچہ فرمانِ مصطفٰے ہے:اس ذات کی قسم!جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے،بیشک خاکِ مدینہ ہر بیماری سے شفا ہے۔

(الترغيب والترهيب، ج 2، ص 122، حدیث 1885)

جن کے آنے سے یثرب مدینہ بنا اُس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام

شہر نبوی کے 10 فضائل حدیث کی روشنی میں:

1۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جو شخص مدینے میں رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکالیف پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے دن اُس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا۔(مشكاۃ المصابیح، حدیث 2755)

2۔اس محبوب شہر کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمیوں دعا فرماتے:اے اللہ پاک! ہمارے لئے مدینہ کو اتنا ہی محبوب کردے، جتنا مکہ کو کیا تھا ، بلکہ اس سے بھی زیادہ۔(بخاری شریف، ج1، میں 253)

3۔سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:المدينۃ معلقۃ بالجنۃ۔یعنی مدینہ منورہ جنت میں داخل ہے۔(کتاب البلدان، ص23)

4۔مدینہ طیبہ کے پھل بھی باعثِ شفا ہیں،حضور سیّد العالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جو شخص سات عدد عجوہ کھجور نہار منہ کھائے، اس پر زہر اور جادو اثر نہ کرے گا۔(جذب القلوب، ص31)

5۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دعافرمائی:اے اللہ پاک! مکہ معظمہ کی بنسبت مدینہ طیبہ میں دو چند (دو گنی) برکت عطا فرما۔(بخاری شریف، ج 1، ص 253)

6۔حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:جس نے میری قبر کی زیارت کی،اس کے لئے میری شفاعت واجب ہوگئی۔(دارقطنی، کتاب الحج ، حدیث 2669)

7۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں مرے تو مد ینے ہی میں مرے،کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی،کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، حدیث 3943)

8۔فرمانِ مصطفٰے:خاکِ مدینہ میں جذام سے شفا ہے۔(جامع صغیر، حدیث 5754)

9۔سرکار علیہ الصلوۃ والسلام مدینہ کا گرد و غبار اپنے چہرہ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے: خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، ص 22)

10۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:خاکِ مدینہ جذام(کوڑھ)کو اچھا کر دیتی ہے۔(جامع صغیر، ص355)

نہ ہو آرام جس بیمار کو سارے زمانے سے اُٹھا لے جائے تھوڑی خاک اُن کے آستانے سے

مدینے شریف کا ذکرِ خیر ہوتے ہی عاشقانِ رسول، مدینے کے عاشقوں کے دل خوشی سے جھوم اٹھتے، چہرے پر مسکراہٹ آجاتی ہے،جس پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے ہم بے پناہ محبت کرتے ہیں، خود وہ آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینے سے بہت محبت کرتے ہیں، لہٰذا محبتِ رسول کا تقاضا یہ ہے کہ مدینے کے کوچہ وبازار، گلشن و صحرا ، درو دیوار ، اس کے پھول حتٰی کہ کانٹے کی محبت بھی دل میں بسائے رکھیں۔ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے دل وجان کو سکون دیتا ہے، مدینے کے عشاق اس کی جدائی میں تڑپتے اور اشک بہاتے ہیں۔ الله پاک ہمیں بھی مدینے کی محبت اور اس کی جدائی میں تڑپنا نصیب فرمائے۔اللہ پاک ہمیں مدینہ طیبہ میں ایمان کے ساتھ موت اور بقیع مبارک میں خیر کے ساتھ مدفن نصیب فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

ہے یہی عطار کی حاجت مدینے میں مرے ہو عنایت سیدا ، یا غوثِ اعظم دستگیر


اللہ پاک نے اس کائنات رنگ و بُو میں بعض انسانوں کو دوسروں سے افضل و برتر بنایا ہے،ایسے ہی انبیاعلیہم السلام کو دوسرے تمام انسانوں پر فضیلت بخشی اور پھر انسانوں میں سے علما، صلحا، اتقیا، عابدین اور زاہدین کو بقیہ تمام لوگوں پر فضیلت بخشی۔لیکن فضیلت و برتری ایک ایسی چیز ہے جس کا دائرہ صرف انسانوں تک محدود نہیں،بلکہ نوعِ انسان سے متجاوز ہوکر حیوانات،نباتات،مقاماتِ امکنہ تک پہنچتا ہے،ایسے ہی اللہ پاک نے مقامات و امکنہ میں سے بعض مخصوص و مقدس مقامات کو دوسرے بعض پر فوقیت بخشی ہے، ان مقدس مقامات میں سے ایک دار ہجرتِ نبی بھی ہے۔یہ مبارک زمین بہت سے فضائل و مناقب کی حامل ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو مدینہ سے اتنی محبت تھی کہ مدینہ کو قابلِ احترام قرار دے دیا۔

حضرت سعد سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشاد ہے:میں حرم قرار دیتا ہوں اس علاقے کوجو مدینہ کی دو پہاڑوں کے درمیان ہے، کہ اس کے خار دار درختوں کو کاٹا جائے یا اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔(مصنف ابن ابی شیبہ، باب مساحۃ حرم المدینہ7/295)

مدینہ میں مرنے والوں کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے بشارت دی ہے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر ِشفاعت نگر کی ہے

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619، حدیث 1880)

نبیِّ مکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ، مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

(مسلم شریف ، ص 714، حدیث 1378)

اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا۔روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں۔ بعض علمانے 100 تحریر کئے ہیں۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجب سفر سے واپس آتے تو مدینہ کے قریب پہنچ کر زیادتی ِشوق سے اپنی سواری تیز کردیتے۔

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمیہاں کاگردوغبار اپنے چہرہ ٔانور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے :خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب ،صفحہ22)

مسجدِ نبوی میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ، ج 2، ص 176، حدیث 1413)

قیامت کے قریب تمام اہلِ ایمان دنیا کے گوشے گوشے سے سمٹ کر مدینہ آ جائیں گے۔روایت ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے،فرماتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایمان سمٹ کر اس طرح مدینہ آ جائے گا جس طرح سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔(بخاری، باب الایمان بارز الی المدینہ1/252)