پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے تحت دینی کاموں کے سلسلے میں نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت اسلامی بہن نے دیگر ذمہ داران کے ہمراہ P.I.B کالونی کراچی کے ذیلی حلقے میں گھر گھر جاکر اسلامی بہنوں کے درمیان نیکی کی دعوت پیش کی۔

اس دوران نگرانِ عالمی مجلسِ مشاورت نے اسلامی بہنوں کو دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع سمیت دیگر دینی کاموں میں شرکت کرنے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہار کیا۔بعدازاں اسلامی بہنوں کے درمیان مکتبۃالمدینہ کے رسائل تقسیم کئے گئے۔


دعوتِ اسلامی کے شعبہ مدرسۃ المدینہ گرلزکے تحت پاکستان سطح کی ٹیچر ٹرینر اسلامی بہنوں کا آن لائن مدنی مشورہ ہواجس میں  شعبے کی عالمی مجلس مشاورت ذمہ دار اسلامی بہن نے اُن کی تربیت کی۔

دورانِ مشورہ عالمی مجلسِ مشاورت ذمہ دار نے لرننگ سیشن کی ٹریننگ ، کتاب قرآن سیکھیں اور سکھائیں پرگہری توجہ دلاتے ہوئے مخارج کی ادائیگی میں بہتری کے طریقے بتانے پر کلام کیا۔

اس کے علاوہ عالمی مجلسِ مشاورت ذمہ دار نے مدنی مشورےمیں شریک ذمہ دار اسلامی بہنوں کو ٹیچرٹرینر کا اوقاتِ جدول اور انہیں سنتوں پرعمل کرنے /کروانے کی ترغیب دلانے کا ذہن دیا۔بعدازاں اسلامی بہنوں نے ٹیچرٹریننگ کورس مزید احسن اندازسے کروانے کی اچھی اچھی نیتیں کیں۔


قرآنِ پاک اللہ عَزَّوَجَلَّ کاکلام ہے جسے آخری نبی حضرت محمد مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل کیا گیا۔ قرآن کریم تمام انسانوں کے لئے ہدایت ہے، اس عظیم کتاب کو پڑھنے والا اور درست سمجھ کر اس کے مطابق اپنی زندگی گزارنے والا کبھی رسوا نہیں ہوتا بلکہ وہ رب عَزَّوَجَلَّ کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔

عاشقانِ رسول کے قلوب کو قرآن پاک کی تلاوت کی طرف مائل کرنے اور قرآن پاک کے متعلق اہم معلومات فراہم کرنے کے لئے اس ہفتے خلیفہ امیر اہلسنت مولانا حاجی عبید رضا عطاری مدنی مُدَّ ظِلُّہُ العالی نے 17صفحات کا رسالہ امیر اہلِ سنّت سے قرآنِ پاک کے بارے میں سوال جوابپڑھنے/ سننے کی ترغیب دلائی ہے اور پڑھنے/ سننے والوں کو اپنی دعاؤں سے بھی نوازا ہے۔

دعائے جانشین امیر اہلسنت

یااللہ پاک! جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”امیر اہلِ سنّت سے قرآنِ پاک کے بارے میں سوال جواب“ پڑھ یا سن لے، اُس کے دل کو نورِ قرآن سے منوّر فرما اور اس کی بے حساب بخشش فرما۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتمِ النّبیِّین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

یہ رسالہ دعوتِ اسلامی کی ویب سائٹ سے ابھی مفت ڈاؤن لوڈ کیجئے

Download

رسالہ آڈیو میں سننے کے لئے کلک کریں

Audio Book

 


عاشقان رسول کی دینی تحریک دعوت اسلامی کے زیر اہتمام آج مؤرخہ 11 مئی 2023ء بروز جمعرات دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائیگا جن میں اراکین شوریٰ و مبلغین دعوت اسلامی سنتوں بھرے بیانات فرمائیں گے۔

تفصیلات کے مطابق مدنی مرکز فیضان مدینہ حیدر آباد آفنڈی ٹاؤن میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماع سے رکنِ شوریٰ مولانا حاجی عبد الحبیب عطاری براہِ راست مدنی چینل پر سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں رکن شوریٰ حاجی محمد امین عطاری، فیض مدینہ مسجد کریلا اسٹاپ نارتھ کراچی میں رکنِ شوریٰ حاجی محمد رفیع عطاری اور فٹبال گراؤنڈ گلشن معمارT3 جامع مسجد ابن آدم چار مینار سیکٹر میں رکنِ شوریٰ حاجی سید ابراہیم عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقان رسول سے آج رات ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ ہمارے پیارے آقا ﷺ اپنے رب کے اذن و حکم سے دافع البلاء ہیں یعنی مسائل کو حل فرماتے ہیں بلاؤں کو دفع فرماتے ہیں اور اسیروں کے مشکل کشا ہیں، اس عقیدے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:

آیت نمبر 1۔ وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-(پ 9، الانفال: 33) ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔ سبحٰن اللہ ہمارے حضور دافع البلاء ﷺ کفار پر سے بھی سبب دفعِ بلاء ہیں کہ مسلمانوں پر تو خاص رؤف رحیم ہیں۔

آیت نمبر 2۔ وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء: 64) ترجمہ: اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجائیں پھر اللہ سے معافی مانگیں اور رسول بھی ان کی مغفرت کی دعا فرمائیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ آیت کریمہ میں بالکل صاف واضح ہوا کہ حضور ﷺ کی بارگاہ میں حاضری سبب قبول توبہ و دفع بلائے عقاب ہے اور اس آیت مبارکہ سے حضور ﷺ کے دافع البلاء ہونے کا وصف رب کریم نے خود بیان فرمایا کہ وہ چاہے تو یونہی گناہ بخش دے مگر ارشاد فرمایا کہ اے لوگو! اگر اپنے گناہ معاف کروانا چاہو تو میرے محبوب کی بارگاہ میں آجاؤ اور پھر اگر میرے محبوب تمہارے لیے دعائے بخشش کردیں تو میں رب بھی تمہارے گناہ معاف فرمادوں گا۔ سیدی اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ پھر رد ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے

آیت نمبر 3۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں تمام جہاں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔ اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا کہ حضور ﷺ رحمت ہیں اور رحمت ہی وہ چیز ہوتی ہے جو سبب دفعِ بلا و زحمت ہوتی ہے۔

حدیث مبارکہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں لوگوں کو سخت قحط سالی پہنچی تو جب نبی ﷺ خطبہ پڑھ رہے تھے جمعہ کے دن ایک دیہاتی اٹھا بولا: یا رسول اللہ مال برباد ہوگیا اور بچے بھوکے ہوگئے آپ ہمارے لیے اللہ سے دعا فرمائیں تو حضور ﷺ نے اپنے ہاتھ اٹھائے ہم آسمان میں بادل نہیں دیکھتے تھے، تو اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ حضور نے ہاتھ نیچے نہ کیے حتیٰ کہ بادل پہاڑوں کی طرح اٹھا پھر حضور اپنے منبر سے نہ اترے حتیٰ کہ میں نے آپ کی داڑھی پر بارش ٹپکتی دیکھی۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 8، حدیث: 590) اس طرح کی کئی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضور ﷺ دافع البلاء ہیں کہ کبھی کسی صحابی کا غزوہ میں بازو کٹ جاتا ہے تو وہ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں حضور اپنا لعاب دہن لگا کر ان کے بازو کو درست فرماتے ہیں اور انہیں اس بلاء سے نجات بخشتے ہیں، اسی طرح کسی صحابی کی تیر لگنے سے آنکھ نکل جاتی ہے تو وہ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوجاتے ہیں تو حضور انہیں اس بلاء سے نجات بخشتے ہیں، دنیا میں بھی حضور دافع البلاء ہیں اور آخرت میں بھی کہ قبر کی وحشت اور اندھیرے سے نجات حضور کے کرم سے ملے گی وہ تشریف لائیں گے تو قبر کے اندھیرے سے نجات ملے گی۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

قبر میں لہرائیں گے تاحشر چشمے نور کے جلوہ فرما ہوگی جب طلعت رسول اللہ کی

اور آخرت کی ہولناکیوں سے نجات بھی حضور کے کرم سے ملے گی کہ حضور وہاں بھی دافع البلا ہوں گے اور آپ ہی کے صدقے سے آپ کی امت کے گنہگار لوگ محشر و پل صراط کی سختیوں اور بلاؤں سے بچ کر داخل جنت ہوں گے۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

رضا پل سے اب وجد کرتے گزریئے کہ ہے رب سلم دعائے محمد

پائے کوباں پل سے گزریں گے تیری آواز پر رب سلم کی صدا پر وجد لاتے جائیں گے


قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-(پ 9، الانفال: 33) ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔ ایک اور جگہ ارشاد باری ہے: لَوْ تَزَیَّلُوْا لَعَذَّبْنَا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابًا اَلِیْمًا(۲۵) (پ 26، الذریت: 35) ترجمہ: اگر مسلمان مکہ سے نکل جائیں تو ہم کافروں پر عذاب بھیجتے۔ ان آیات مبارکہ میں فرمایا کہ دنیا پر عذاب نہ آنے کی وجہ حضور کا تشریف فرما ہونا ہے نیز مکہ والوں پر فتح مکہ سے پہلے اس لیے عذاب نہ آیا کہ وہاں کچھ غریب مسلمان تھے معلوم ہوا کہ انبیائے کرام اور مؤمنین کے طفیل سے عذاب الٰہی نہیں آتا یہ حضرات دافع البلاء ہیں بلکہ آج بھی ہمارے اس قدر گناہوں کے باوجود جو عذاب نہیں آتا یہ سب اس سبز گنبد کی برکت سے ہے۔ اعلیٰ حضرت نے کیا خوب فرمایا:

تمہیں حاکم برایا، تمہیں قاسم عطایا تمہیں دافع بلایا تمہیں شافع خطایا

کوئی تم سا کون آیا

میرے آقا اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: سبحن اللہ ہمارے حضور دافع البلاء کفار پر سے بھی سبب دفر بلا ہیں اور مسلمانوں پر تو خاص رؤف و رحیم ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 30/379)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ہمیں نظر نہیں آتا مگر حضور ہر مصیبت کے وقت غمخواری فرماتے ہیں۔ (اطیب النعم، ص 4)

تڑپ کے غم کے مارو تم پکارو یا رسول اللہ تمہاری ہر مصیبت دیکھ نا دم میں ٹلی ہوگی

غلط فہمی کا ازالہ: 7 ویں صدی کے عظیم بزرگ امام تقی الدین سبکی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: حضور سے مدد مانگنے کا یہ مطلب نہیں کہ حضور خالق و فاعل مستقل یعنی اللہ پاک کے عطا کے بغیر مدد فرمانے والے ہیں یہ تو کوئی مسلمان ارادہ نہیں کرتا تو اس معنی پر کلام کو ڈھالنا یعنی حضور سے مدد مانگنے کو اللہ سے ملانا اور حضور سے مدد مانگنے کو منع کرنا دین میں مغالطہ دینا اور مسلمانوں کو پریشانی میں ڈالنا ہے۔ (شفاء السقام، ص 175)

حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے منکر آج ان سے التجا نہ کرے

شرح کلام رضا: میرے آقا اعلیٰ حضرت اس شعر میں فرماتے ہیں: جو لوگ آج دنیا میں اللہ پاک کے پیاروں کو بے اختیار سمجھتے ہیں روز محشر ہم بھی ان کا خوب تماشا دیکھیں گے کہ کس طرح بے بسی اور بے چینی کے ساتھ انبیائے کرام کے پاک درباروں میں شفاعت کی بھیک لینے کے لیے دھکے کھا رہے ہوں گے مگر ناکامی کا منہ دیکھیں گے جبھی تو کہا جا رہا ہے:

آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں قیامت میں اگر مان گیا

شرح کلام رضا: یعنی آج اختیارات مصطفیٰ کا اعتراف کرلے اور ان کے دامن کرم کی پناہ میں آجا اور ان سے مدد مانگ اگر تو نے یہ ذہن بنالیا کہ سرکار مدینہ ﷺ اللہ پاک کی عطا سے بھی مدد نہیں کر سکتے تو یاد رکھ کل بروز قیامت جب اللہ کے پیارے نبی ﷺ کی شان محبوبی ظاہر ہوگی اور تو اختیارات تسلیم کر لے گا اور شفاعت کی صورت میں مدد کی بھیک لینے دوڑے گا تو اس وقت سرکار نہیں مانیں گے کہ دنیا دار العمل یعنی عمل کی جگہ تھی اگر وہیں مان لیتا تو کام ہوجاتا اب ماننا کام نہ دے گا کیونکہ آخرت دار العمل نہیں دار الجزا یعنی دنیا میں جو عمل کیا اس کابدلہ ملنے کی جگہ ہے۔

بیٹھتے اٹھتے مدد کے واسطے یارسول اللہ کہا پھر تجھ کو کیا

خواب میں تشریف لا کر دلجوئی فرمائی: مکے مدینے کے تاجدار ﷺ اپنے غلاموں کے حالات سے کیسے خبردار ہیں اس ضمن میں امیر اہل سنت کے 1980ء کے سفر مدینہ کا ایک واقعہ پڑھئے اور جھومئے، چنانچہ سیدی قطب مدینہ رحمۃ اللہ علیہ کے ایک مرید حاجی اسمعیل مرحوم بمبئی ہند کے رہنے والے تھے مدینہ پاک میں سالہا سال رہتے رہے انہوں نے عاشق مدینہ امیر اہل سنت کو بتایا کہ ایک بڑی عمر کی خاتون سنہری جالیوں کے سامنے حاضر ہو کر اپنے سادہ سے انداز میں بارگاہ رسالت میں سلام عرض کر رہی تھی اتنے میں ان کی نظر ساتھ کھڑی ایک خاتون پر پڑی جو ایک کتاب سے دیکھ دیکھ کر خوبصورت القابات سے بارگاہ رسالت میں سلام عرض کر رہی تھی بڑی بی یہ دیکھ کر اداس ہوکر کہنے لگی: یا رسول اللہ میں تو اتنی پڑھی لکھی نہیں ہوں آپ تو شاید اسی اچھے انداز سے پڑھنے والی خاتون ہی کا سلام قبول فرمائیں گے میرا سلام بھلا کیسے پسند آئے گا اتنا کہہ کر وہ غمزدہ ہو کر رونے لگی جب رات میں سوئی تو اس کی قسمت جاگ گئی اللہ پاک کی عطا سے دلوں کی بات جاننے والے غمخوار آقا ﷺ نے خواب میں تشریف لاکر ارشاد فرمایا: مایوس کیوں ہوتی ہو؟ ہم نے تمہارا سلام سب سے پہلے قبول فرمایا ہے۔

تم اس کے مددگار ہو تم اس کے طرفدار جو تم کو نکمے سے نکما نظر آئے

لگاتے ہیں اس کو بھی سینے سے آقا جو ہوتا نہیں منہ لگانے کے قابل


ہمارے آقا ﷺ کو اللہ کریم نے سراپا رحمت بنایا ہے چنانچہ اللہ پاک پارہ 17 سورۃ الانبیا میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء: 107) ترجمہ کنز الایمان: ہم نے نہ بھیجا تمہیں مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔ یہ آپ ﷺ کی بے پایاں رحمت ہی ہے کہ کفار بھی دنیا میں عذاب سے محفوظ ہیں۔ اللہ پاک پارہ 9 سورۂ انفال کی آیت نمبر 33 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ- ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔ ہمارے حضور ﷺ دافع البلا کفار پر سے بھی سبب دفعِ بلا ہیں، پھر مسلمان پر تو خاص رؤف رحیم ہیں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ عرض کرتے ہیں:

شافع روز جزا تم پہ کروڑوں درود دافعِ جملہ بلا تم پہ کروڑوں درود

ہمارے آقا ﷺ دافع البلا ہیں یہ ایسا مسلم عقیدہ ہے جسے ساری امت مانتی ہے، صحابہ کرام سے لے کر آج تک اس امت کا یہی نظریہ اور اعتقاد رہا ہے کہ اللہ پاک نے اپنے پیارے آخری نبی ﷺ کو سراپا رحمت بنایا ہے اور رحمت دفعِ بلا و زحمت ہوتی ہے، آپ کی برکت سے لوگوں کی حاجتیں پوری ہوتی ہیں، آفات دور ہوتی ہیں، بے سہارے غم کے مارے امتی آپ کے دامن اقد میں پناہ لیتے ہیں، صرف انسانوں کے ہی نہیں میرے آقا تو جانوروں بلکہ بے جان چیزوں کے لیے بھی دافعِ بلا ہیں، لہٰذا کبھی تو صحابہ کروم اپنی حاجات کے حصول کے لیے اور آفات کے دو ہونے کے لیے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوتے ہیں اور کبھی جانور فریاد کر رہے ہیں کہیں لکڑی کا بے جان ستون حنانہ دافعِ بلا آقا ﷺ سے تسکین چاہتا ہے وہ سب کو نوازتے ہیں ہر جگہ عطا فرماتے ہیں، چنانچہ

جب حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی تو حضور انور ﷺ ان کے یہاں تشریف لے گئے اور ان کے یہاں یتیم بچوں کو خدمت اقدس میں یاد فرمایا، وہ حاضر ہوئے حضرت عبد اللہ بن جعفر طیار اسے بیان کر کے فرماتے ہیں: میری ماں نے حاضر ہو کر حضور پناہِ بے کساں ﷺ سے ہماری یتیمی کی شکایت عرض کی تو حضور نے فرمایا: کیا تو ان پر محتاجی کا اندیشہ کرتی ہے، حالانکہ میں ان کا والی و کارساز ہوں دنیا و آخرت میں۔

وہ غم نہیں کھاتا جس کا محافظ، والی، آقا اور ولی تو ہے

فتاویٰ رضویہ جلد 30 صفحہ نمبر 436 تا 437 پر ہے: حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ اپنے قصیدہ نعتیہ میں لکھتے ہیں، ترجمہ: ہمیں نظر نہیں آتا مگر سرکار ﷺ ہر مصیبت کے وقت غم خواری فرماتے ہیں۔

کیوں رضا مشکل سے ڈریئے جب نبی مشکل کشا ہو


اللہ پاک نے ہمارے پیارے اور آخری نبی ﷺ کو بے شمار کمالات اور معجزات سے نوازا ہے ان میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ آپ دافع رنج و بلا ہیں۔

شتر ناشاد کی داد رسی: حضرت یعلی بن مرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور ﷺ کے ساتھ کہیں جارہے تھے کہ ہمارا گزر ایک ایسے اونٹ پر ہوا جس پر پانی دیا جا رہا تھا، اونٹ نے حضور کو دیکھا تو بلبلانے لگا اور اپنی گردن حضور کے سامنے جھکا دی، آپ اس کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ مالک حاضر ہوا تو ارشاد فرمایا: یہ اونٹ بیچتے ہو؟ اس نے عرض کی نہیں بلکہ یہ آپ کے لیے تحفہ ہے۔ مزید عرض کی کہ یہ ایسے گھرانے کا ہے جن کے پاس اس کے علاوہ اور کچھ نہیں، آپ اس اونٹ نے شکایت کی ہے کہ تم اس سے کام زیادہ لیتے ہو اور چارہ کم ڈالتے ہو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس واقعے کے تحت فرماتے ہیں: اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:

1۔ حضور جانوروں کی بولی بھی سمجھتے ہیں۔

2۔ حضور مشکل کشا اور حاجت روا ہیں۔

اور یہ وہ مسئلہ ہے جسے جانور بھی مانتے ہیں جو انسان مسلمان ہو کر حضور کو حاجت روا نہ مانے وہ جانوروں سے بھی بدتر ہے۔

3۔ حضور کی کچہری میں جانور بھی فریادی ہوتے ہیں۔

ہاں یہی کرتی ہیں چڑیاں فریاد ہاں یہی چاہتی ہے ہرنی داد

اسی در پہ شتران ناشاد گلہ رنج و عنا کرتے ہیں

(مراٰۃ المناجیح، 8/238-239)

قاضی عیاض مالکی رحمۃ اللہ علیہ کی مشہور زمانہ کتاب الشفا جس کے متعلق بزرگوں نے فرمایا: شفاء شریف وہ متبرک کتاب ہے کہ جس مکان میں رہے اسے ضرر نہ پہنچے اور جس کشتی میں رہے وہ ڈوبنے سے محفوظ رہے اور جو مریض اس کتاب پڑھے یا سنے شفا پائے۔ آپ نے اپنی کتاب میں تحریر فرمایا: غزوہ ذی قرد میں حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ کے چہرے پر ایک تیر لگا تو حضور نے انہیں بلا لیا اور زخم پر مبارک لعاب لگایا فرماتے ہیں اس وقت سے نہ تو مجھے درد ہوا اور نہ زخم میں پیپ پڑی بلکہ اچھا ہو گیا۔ (شفا شریف، 1/212)

اسی مزید فرماتے ہیں: جنگ بدر میں ابو جہل نے حضرت معوذ بن عفراء رضی اللہ عنہ کا ہاتھ کاٹ ڈالا پس وہ اپنا ہاتھ اٹھائے ہوئے حاضر ہوئے تو حضور نے اس ہاتھ پر اپنا لعاب دہن لگا دیا اور اس کو جوڑ دیا تو وہ اسی وقت جڑ گیا۔ (شفا شریف، 1/213)

اس سے پتا چلا کہ ہمارے اسلاف کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ حضور رحمۃ للعالمین مشکل کشا اور دافع البلاء ہیں۔ اللہ پاک ہمیں خوش عقیدہ مسلمانوں کا ساتھ مقبول بارگاہ کے ساتھ حشر فرمائے۔ آمین

ہمارے پیارے آقا ﷺ دافع البلا ہیں اس متعلق احادیث میں کئی دلائل موجود ہیں جبکہ قرآن مجید خود اس پر شاہد ہے کہ آپ دافع البلا ہیں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا گیا کہ ایک بدمذہب کہتا ہے کہ درود تاج اور دلائل الخیرات پڑھنا شرک ہے اس لیے کہ اس میں حضور ﷺ کی شان میں یہ الفاظ کہے گئے کہ دافع البلا والوباء و القحط والمرض والالم یعنی مصیبتوں، وباؤں، قحط بیماری اور تکلیفوں کو دور کرنے والے اور یہ الفاظ کہنا شرک ہے اور اس درود کو پڑھنا بدعت سیئہ ہے۔ سوال کرنے والے نے اس بد مذہب کو جواب میں جو دلائل دیئے وہ سوال میں مذکور ہیں ان میں سے چند یہ ہیں:

وَ مَا كَانَ اللّٰهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَ اَنْتَ فِیْهِمْؕ-(پ 9، الانفال: 33) ترجمہ: اللہ کہ یہ شان نہیں کہ انہیں عذاب دے جب تک اے حبیب تم ان میں تشریف فرما ہو۔

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) (پ 17، الانبیاء: 107) ترجمہ: اور ہم نے تمہیں تمام جہاں کے لیے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔

قَالَ اِنَّمَاۤ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ ﳓ لِاَهَبَ لَكِ غُلٰمًا زَكِیًّا(۱۹) (پ 16، مریم: 19) ترجمہ: میں تو تیرے رب کا بھیجا ہوا ہوں تاکہ میں تجھے ایک پاکیزہ بیٹا عطا کروں۔

ہمیشہ سے علما ان کا ورد کرتے رہتے ہیں تو کیا سب مشرک ہوگئے؟ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے حضور ﷺ کو دافع البلاء فرمایا ہے، اس اعتراض کے جواب میں علمائے کرام نے اقوال پیش کیے ہیں، بدمذہبوں کے نزدیک تو معاذ اللہ سب مشرک جنہوں نے رسول ﷺ کو دافع البلاء لکھا ہے ہم احادیث سے کیا دلائل دیں جو بعد ہی لکھی گئی؟ حضور دافع البلاء ہیں اس پر قرآن مجید میں دلیل ہے: وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء: 64) ترجمہ: اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھیں تو اے حبیب تمہاری بارگاہ میں حاضر ہوجائیں پھر اللہ سے معافی مانگیں اور رسول بھی ان کی مغفرت کی دعا فرمائیں تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ آیت کریمہ صاف بتارہی ہے کہ حضور کی بارگاہ میں حاضری توبہ قبول ہونے اور عذاب دور ہونے کا سبب ہے حالانکہ رب قادر ہے کہ ایسے ہی گناہ بخش دے مگر فرمایا کہ توبہ کی قبولیت چاہو تو ہمارے محبوب کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ اسی طرح حدیث مبارکہ میں ہے: میں حمد ہوں میں محمد ہوں میں حاشر ہوں کہ لوگوں کو اپنے قدموں پر حشر دوں گا میں ماحی ہوں کہ اللہ میرے ذریعے سے کفر کی بلا دور فرماتا ہے۔ (مسلم، ص 985، حدیث: 2354)

رسالے میں ماحی یعنی مٹانے والا اس میں دلیل ہے کہ معاذ اللہ کفر سے بڑی اور کیا بلا ہے؟ آقا ﷺ کفر کو مٹانے والے ہیں ان سے بڑھ کر کون دافع البلاء ہے، اسی طرح تاریخ دمشق الکبیر میں ہے: میرا نام قرآن میں محمد، انجیل میں احمد، تورات میں اُحید اور میرا نام اُحید اس لیے ہوا کہ میں امت سے آتش دوزخ کو دفع فرماتا ہوں۔(فتاویٰ رضویہ، 30/473)

ان آیات و احادیث سے معلوم ہوا کہ حضور دافع البلا ہیں آقا ﷺ رب کی عطا سے بلاؤں کو دفع کرنے والے ہیں اور جو یہ کہے کہ حضور دافع البلاء نہیں اسے چاہیے کہ اپنی عقل کا علاج کروائے۔

کعبہ کے بدر الدجی تم پہ کروڑوں درود طیبہ کے شمس الضحی تم پہ کروڑوں درود


جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ ہم لمحہ بہ لمحہ موت کے قریب ہوتے جا رہے ہیں اور چونکہ موت کا وقت بھی کسی کو معلوم نہیں، یہ بھی جانتے ہیں کہ موت آنی ہی ہے اور ہمیں اپنے رب کے حضور پیش کیا جائے گا اور نہ کہ ہم خود بلکہ ہمارے اعمال بھی اللہ کی بارگاہ میں پیش کیے جائیں گے تو اگر ہمارے اعمال اللہ کی ناراضی والے ہوئے تو ہم کیا کریں گے اور ہمیں ہمارے گناہوں کے سبب جہنم میں ڈال دیا گیا تو ہم کس کے در پر جائیں گے؟ اس لیے ہمیں چاہیے کہ جو وقت ہمیں مل رہا ہے اس کو اللہ کی رضا والے کاموں میں بسر کریں تاکہ اللہ ہم سے راضی ہوجائے اور ہمیں بخش دے، ہم لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رحمٰن ہے رحیم ہے تو یہ بھی درست ہے مگر جہاں وہ رحمٰن ہے وہاں وہ قہار بھی ہے جہاں وہ رحم فرماتا ہے وہاں وہ پکڑ فرمانے پر بھی قادر ہے، تو ہمیں یہ ہی چاہیے کہ ہماری جب تک زندگی ہے ہم اللہ کو راضی کرنے والے کاموں میں لگ جائیں، آئیے ہم قرآن پاک کی روشنی میں دیکھتی ہیں کہ کون سے اعمال کر کے ہم اللہ کو راضی کر سکتے ہیں:

فرامینِ الٰہی:

الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) (پ 18، المؤمنون: 2) ترجمہ کنز الایمان: جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جو اپنی نماز کو خشوع و خضوع سے پڑھتے ہیں اس وقت ان کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے اس عمل کے ذریعے بھی ہم اللہ کو راضی کر سکتی ہیں۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَۙ(۳) (پ 18، المؤمنون: 3) ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جو فضول بات سے منہ پھیرنے والے ہیں۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِلزَّكٰوةِ فٰعِلُوْنَۙ(۴) (پ 18، المؤمنون: 4) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔

4،5۔ وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِاَمٰنٰتِهِمْ وَ عَهْدِهِمْ رٰعُوْنَۙ(۸) (پ 18، المؤمنون: 8) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کی رعایت کرنے والے ہیں۔ اس آیت میں دو اعمال کے متعلق ذکر فرمایا گیا کہ ایک تو وہ عمل ہے کہ بندہ امانت میں خیانت نہ کرے اور اللہ کی رضا حاصل کر لے اور دوسرا یہ کہ وعدہ خلافی نہ کرے۔ یاد رہے کہ امانتیں خواہ اللہ کی ہوں یا مخلوق کی اور اسی طرح عہدخدا کے ساتھ ہو یا مخلوق کے ساتھ سب کی وفا لازم ہے۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ عَلٰى صَلَوٰتِهِمْ یُحَافِظُوْنَۘ(۹) (پ 18، المؤمنون: 9) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنی نمازوں کی نگہبانی کرتے ہیں۔اس آیت میں یہ فرمایا گیا کہ وہ لوگ کامیاب ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور یہ رضائے الٰہی پانے کا اچھا ذریعہ ہے۔

وَ الَّذِیْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ(۵) (پ 18، المؤمنون: 5) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔

حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے لیے چھ چیزوں کے ضامن ہو جاؤ میں تمہارے لیے جنت کا ضامن ہوں: بات بولو تو سچ بولو، وعدہ کرو تو پورا کرو، تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، اپنی نگاہوں کو پست کرو اور اپنے ہاتھوں کو روکو۔ (مسند امام احمد، 8/412، حدیث: 22821) اس میں جنت کی ضمانت دی گئی تو ظاہر ہے کہ جو عمل کر کے ہم جنت حاصل کر سکتے ہیں وہ رضائے الٰہی پانے کا بھی بہترین ذریعہ ہے، کیونکہ اللہ کے راضی ہونے سے ہی ہم داخلِ جنت ہوں گے، اللہ رحم کرنے پر آئے تو وہ ایک چھوٹی سے چھوٹی نیکی پر بھی بخش سکتا ہے اور اگر غضب فرمانے پر آئے تو چھوٹے سے چھوٹے گناہ پر بھی پکڑ فرمانے پر قادر ہے، اس لیے ہم نیت کرتی ہیں کہ اللہ کی ناراضی والے تمام کاموں کو چھوڑ کر نیکیوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں گی۔ اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ تو ہمیں راضی فرما اور ہم سے راضی ہوجا۔ آمین


فرمانِ امام زین العابدین: غور و فکر ایک ایسا آئینہ ہے جو مؤمن کو اس کی اچھائیاں اور برائیاں دکھاتا ہے۔ (تاریخ ابن عساکر، 41/408) لہٰذا آئیں ہم بھی اپنے اخلاق میں غور و فکر کرتے ہیں کہ کہیں ہم بھی اس گناہ میں شامل تو نہیں! بداخلاق لوگوں سے انسان اتنا دور ہوجاتے ہیں کہ اس شخص کو دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے، چاہے وہ شخص کتنا ہی کام کرنے والا اور ہاتھ بٹانے والا کیوں نہ ہو، ایک بداخلاقی کی وجہ سے لوگ اس سے دور ہوجاتے ہیں پھر وہ انسان اکیلا رہ جاتا ہے۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: سب سے بڑی غربت اپنے پیاروں کو کھو دینا اور دور ہوجانا ہے۔ (حلیۃ الاولیاء، 3/158، رقم: 3540)

بداخلاقی کرنے والے کو خود بھی اپنی بد اخلاقی اور برے رویے کا خیال بہت دیر بعد ہوتا ہے، لہٰذا ہمیں بداخلاقی کے متعلق ضرور پڑھ لینا چاہیے۔

تعریف: لوگوں سے بری اور نازیبا عادات کے ساتھ ملنا اور ہر وقت غصے میں رہنا اور صلہ رحمی اور عاجزی نہ کرنا بداخلاقی کہلاتا ہے۔

حکم: بداخلاقی جہنم میں لے جانے والے اعمال میں سے ہے اور یہ گناہ ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ عمل کا برباد ہونا: بداخلاقی عمل کو اس طرح برباد کردیتی ہے جیسے سرکہ شہد کو خراب کر دیتا ہے۔ (کشف الخفا، ص 405، حدیث: 1496)

2۔ بداخلاق تنہا رہ جائے گا: جس کا اخلاق برا ہوگا وہ تنہا رہ جائے گا اور جس کے رنج زیادہ ہوں گے اس کا بدن بیمار ہوجائے گا اور لوگوں کو ملامت کرے گا اس کی بزرگی جاتی رہے گی اور مروت ختم ہوجائے گی۔ (کتاب البر و الصلۃ، 7/116، حدیث: 2602)

3۔ بداخلاق کی توبہ نہیں: بے شک ہر گناہ کی توبہ ہے مگر بداخلاق کی توبہ نہیں، کیونکہ جب وہ کسی ایک گناہ سے توبہ کرتا ہے تو اس سے بڑے گناہ میں پڑ جاتا ہے۔(جامع الاحادیث للسیوطی، 2/375، حدیث: 6064)

4۔ جنت میں نہ جائے گا: بداخلاق آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (ترمذی، ص 1847، حدیث: 1946)

اللہ اللہ! اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بداخلاقی سے دور رکھے کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں بداخلاقی کی توبہ قبول نہیں کی جاتی ہے۔ اپنی اصلاح کی کوشش جاری رکھیے کیونکہ جو خود نیک ہو وہ دوسروں کے بارے میں بھی نیک گمان رکھتا ہے جبکہ جو خود برا ہو اسے دوسرے بھی برے ہی دکھائی دیتے ہیں۔آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے ناپسندیدہ کاموں اور عادات سے ہمیشہ کے لیے دور رکھے اور ہمیشہ دعوت اسلامی کا وفادار رکھے۔ آمین


قطع تعلقی یعنی تعلقات توڑنا ایک معیوب عمل ہے جو انسان کو حسنِ اخلاق سے محروم کر دیتا ہے اور رب کی ناراضگی کا باعث بنتا ہے۔ صدرُالشریعہ مولانا امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صلۂ رحم کے معنی رشتہ کو جوڑنا ہے، یعنی رشتہ والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک کرنا، ساری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم (یعنی رشتہ کاٹنا) حرام ہے۔ (بہارِ شریعت، 3/558، حصہ: 6) یاد رہے قطع تعلقی ظلم کی ایک بد تر صورت جسکی احادیثِ مبارکہ میں سخت مذمت بیان کی گئی ہے، چنانچہ

فرامینِ مصطفیٰ:

1۔ شراب کا عادی، جادو پریقین رکھنے والا اور قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان، 7/648، حدیث: 6104)

2۔ جس قوم میں رشتہ داری توڑنے والا ہوتا ہے اس پر رحمت نہیں اترتی۔ (شعب الایمان، 6/223، حدیث: 7962)

3۔ کسی مسلمان کو یہ حلال نہیں کہ وہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رہے تو اگر اس پر تین دن گزر جائیں تو یہ اس سے ملے اسے سلام کرے پھر اگر وہ اسے سلام کا جواب دے دے تو دونوں ثواب میں شریک ہوگئے اور اگر جواب نہ دے تو وہ گناہ کے ساتھ لوٹا سلام کرنے والا چھوڑنے سے نکل گیا۔ ( مراة المناجیح، 6/ 414)

4۔ رشتہ کاٹنے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم، ص 1383، حدیث: 2556)

5۔ جس گناہ کی سزا دنیا میں بھی جلد ہی دیدی جائے اور اس کے لئے آخرت میں بھی عذاب رہے وہ بغاوت اور قَطع رَحمی سے بڑھ کر نہیں۔ (ترمذی، 4 / 229،حدیث: 2519)

اے حسنِ اخلاق کے طلبگارو! شیطان انسان کو قطع تعلقی پر ابھارنے کیلئے طرح طرح کے حیلے بہانوں پر ابھارتا ہے اور دل میں یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ فلاں کا رویہ میرے ساتھ ایسا تھا، فلاں نے مجھے طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا تو میں کیوں اچھائی کروں تو ذہن نشین فرما لیجیے کہ صلۂ رحمی اس کا نام نہیں کہ وہ سلوک کرے تو تم بھی کرو، یہ چیز تو حقیقت میں مکافاۃ یعنی ادلا بدلا کرنا ہے حقیقی مزہ تو تب ہی ہے کہ وہ کاٹے تم اس سے جوڑو، وہ تم سے دور جانا چاہتا ہے بے اعتنائی کرتا ہے تو تم اس کے ساتھ رشتے کے حقوق کی مراعات کرو اور یہ سب محض رضائے رب الانام کیلئے ہو۔ اللہ پاک ہمیں قطع تعلقی سے بچائے اور صلح رحمی کو اپنا شعار بنانے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین