
رسولِ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد
فرمایا: بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ انہیں روزہ سے سوائے بھوک کے کچھ نہیں ملتا اور بہت سے رات میں قیام کرنے والے ایسے کہ انہیں جاگنے کے سوا کچھ حاصل
نہیں۔ (ابن ماجہ، 2/320، حدیث: 1690)
روزہ کیا ہے؟ روزہ عرفِ شرع میں مسلمان کا
عبادت کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصداً کھانے پینے
جماع سے باز رکھنا ہے۔ (فتاوی ھندیۃ،1/194)
کسی بھی عبادت کو کرنے
کا مقصد رضائے الٰہی ہونا چاہئے، اور جب
تک وہ عبادت مقبول نہ
ہو رضائےالٰہی حاصل نہیں ہوتی۔ روزہ ایک عظیم عبادت ہے اور اس کو مرتبۂ قبولیت تک پہنچانے کےلئے کچھ اُمور کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔
گناہوں سےبچنا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
روزہ سِپر ہے، جب تک اسے پھاڑا نہ ہو۔ عرض کی گئی، کس چیز سے پھاڑا جائے گا؟ ارشاد
فرمایا:جھوٹ یا غیبت سے۔
(معجم اوسط،3 /264،
حدیث:4536)
بیہودہ باتوں سےبچنا:نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
فرمایا:روزہ کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں، روزہ تو یہ ہے کہ لغو و بیہودہ باتوں
سے بچا جائے۔ (مستدرک، 2/67، حدیث: 1611)
نیّت اچھی ہو: حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:
جو ایمان کی وجہ سے اور ثواب کے لئے رمضان کا روزہ رکھے گا، اس کے اگلے گناہ بخش دئیے
جائیں گے۔
(بخاری، 1/658، حدیث:2009)
متفرقات:نیز گناہوں سے بچے اور عبادات بجالائے،
ہر ایسی چیز سے بچے کہ جو روزے کی نورانیت ضائع کرنےوالی ہے، اعتکاف کرے، کثرت سے
سجدے کرے، ذکرُاللہ کرے،کثرت سے درودِ
پاک پڑھے، صدقہ و خیرات کرے، لوگوں سے اچھا سلوک کرے، اپنے اخلاق اچھے کرے، علمِ
دین سیکھے اور سکھائے، قراٰنِ پاک پڑھے اور پڑھائے کہ یہ کام اللہ کی رضا کے ہیں۔ غیبت، جھوٹ، چغلی، حسد،
تکبر، ریاکاری، خود پسندی، حبِّ جاہ، وعدہ خلافی اورظلم سے بچے۔ یادرکھئے! روزہ
وہی کام آئے گا جو قبول ہوگا، اپنا ذہن اس طرح بنائے کہ اگر میرا روزہ گناہوں سے
بھرا ہوا ہوگا، پھر جب یہ میرے رب کی بارگاہ میں پیش ہوگا تو میرا رب اس پر
کیا حکم فرمائے گا!
میرے اعمال ایسے ہوں
کہ میرا محبوب مجھ سے راضی ہو، میرے اعمال ایسے نہ ہوں کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض
ہوجائے۔ دنیا کا معاملہ تو یہ ہے کہ ہم کسی کے سامنے کم تر لباس میں آنا پسندنہیں
کرتے، کسی کوتحفہ دیں تو اچھا دینے کی کوشش کرتےہیں کہ اگر
تحفہ اچھا نہ ہوا تو سامنے والا کیا سوچے گا۔مگریہاں
معاملہ کیاہے؟
اللہ
پاک کو ہماری عبادات
کی ضرورت نہیں،مگریہ ہمارا امتحان ہے کہ ہم اپنے رب کی عبادت کیسی کرتےہیں، فرشتے ہمارےنماز، روزے سیاہ
کپڑوں میں لپیٹ کرلےجاتےہیں یا روشن اور چمک دار کپڑوں میں۔ یہ ہمارا امتحان ہے اور
درحقیقت یہ ہمارے عشق کا امتحان ہے کہ آیا ہمارے عشق کے دعوے صرف گفتار میں ہیں یا
کردار و عمل میں بھی ہیں۔ فیصلہ
خود کریں!

روزہ
ایک بہترین عبادت ہے، جس کے لُغوی معنی" رُکنا" اور اِصطلاحی معنی صبحِ
صادق سے غُروبِ آفتاب تک قصداً کھانے پینے
اور جماع سے رُکنا روزہ کہلاتا ہے۔
روزہ کس پر فرض ہے؟
توحیدو
رسالت کا اِقرار کرنے اور ضروریاتِ دین
پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مسلمان پر
نماز فرض ہے، اِسی طرح رمضان کے روزے بھی
ہر مسلمان عاقل و بالغ پر فرض ہیں، روزہ 10 شعبان 2 ہجری کو فرض ہوا۔
روزہ فرض ہونے کی وجہ:
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غارِ
حرا میں رَمضانُ المبارک کے چند دن گزارے، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم دن میں کھانے سے پرہیز فرماتے اور رات کو ذِکرُ اللہ کرنے میں مشغول رہتے تو اللہ نے آپ کی یاد تازہ کرنے کے لیے
روزہ فرض کیا۔
حضرت
مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہاس
حدیث مبارک کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" کہ ماہِ رمضان کا نفل دوسرے
مہینوں کے فرض کے برابر اور فرض عبادت دوسرے مہینوں کے کے ستّر فرائض کے مِثل ہے
اور اِرشاد فرماتے ہیں" ماہِ رمضان کے تین عشرے ہیں، پہلا عشرہ ربّ تعالی مؤمنوں پر خاص رحمتیں فرماتا ہے، دوسرا عشرہ تمام صغیرہ گناہوں کی معافی ہے، تیسرے عشرے میں روزے داروں کے لئے جنتی ہونے کا
اعلان ہے ۔
( مراۃ المناجیح، 140/142)
یا الٰہی تو
مدینے میں کبھی رمضان دکھا
مدتوں سے دل
میں یہ عطار کے اَرمان ہے
جب
بندہ رَمَضان کا پہلا روزہ رکھتا ہے تو اس کے گزشتہ رمضان سے لے کر اس دن تک کئے گئے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے، اس کے لئے روزانہ ستّر ہزار فرشتے نمازِ فجر سے لے کر غروبِ آفتاب تک اِستغفار
کرتے ہیں، اِسے رمضان کے ہر دن اور ہر رات میں سجدہ کرنے پر جنّت میں ایک ایسا درخت عطا
کیا جاتا ہے، جس کے سائے میں کوئی سوار
پانچ سو سال تک چلتا رہے گا۔
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا روزہ:
رمضان
المبارک کا مہینہ تھا، اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے پہلے روزہ کشائی کی تقریب تھی، افطار میں بہت قسم کا سامان تھا، ٹھیک گرمی کی شدّت کا وقت تھا، آپ رحمۃ اللہ
علیہ کے والد ماجد آپ کو
ایک کمرے میں لے کر گئے اور وہاں کا دروازہ بند کر دیا، وہاں فیرنی کا پیالہ پڑا تھا، آپ رحمۃ اللہ
علیہ کے والد ماجد نے آپ سے کہا کہ اسے کھالو، بچوں کا ایسا ہی روزہ ہوتا ہے اور میں نے دروازہ
بھی بند کر دیا ہے، کوئی دیکھنے والا بھی
نہیں ہے۔
اعلی
حضرت رحمۃ اللہ علیہ
عرض کرتے ہیں" جس کے حکم سے روزہ رکھا ہے وہ تو دیکھ رہا ہے"
یہ
سنتے ہی آپ رحمۃ اللہ علیہ
کے والد ماجد آپ کو کمرے سے باہر لے آئے۔
اس کی ہستی میں تھا عملِ جو ہر، سنتِ مصطفی کا وہ پیکر
عالمِ دین صاحبِ تقویٰ، واہ ! کیا بات اعلیٰ حضرت کی
سبق :
اس
حکایت سے بچوں کے لئے سبق ہے کہ انہیں ایمان داری اور اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے
لئے روزہ رکھنا چاہئے، روزے میں گناہ کرنا
بھی بہت بڑا گناہ ہے اور روزے میں نیک عمل کرنے البتہ روزے دار کا سونا
بھ عبادت ہے اور ہر چھوٹے عمل کرنے کا بھی
بڑا ثواب ہے۔
تو
نیت کیجئے کے روزے میں زیادہ سے زیادہ نیک عمل (مثلاً نماز، قرآن مجید کی تلاوت اور دعوتِ اِسلامی کے سنتوں
بھرے اِجتماع میں شرکت وغیرہ) کر کے خُوب ثواب حاصل کریں گے۔

توحیدو
رسالت کا اِقرار کرنے اور تمام ضروریاتِ دین
پر ایمان لانے کے بعد جس طرح ہر مسلمان پر
نماز فرض قرار دی گئی ہے، اِسی طرح رمضان شریف کے روزے بھی ہر مسلمان (مرد
و عورت)عاقل و بالغ پر فرض ہیں۔
روزے کا مقصد:
روزے
کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا
ہے تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق(practice) ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس(نفس
پر قابو)اور حرام سے بچنے پر قُوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر
قابو وہ بنیادی چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔
رمضان"
رَمض" سے بنا، بمعنی گرمی یا گرم، چونکہ بھٹی گندے لوہے کو صاف کرتی ہےاو ر صاف لوہے کو پُرزہ
بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو پہننے
کے لائق بنا دیتی ہے، اِسی طرح روزہ گناہ گاروں کے گناہ معاف کراتا ہے،
نیکو کار کے درجات بڑھاتا ہے، نیز روزہ اللہ
کی رحمت، محبت، ضمان، اَمان
اور نُور لے کر آتا ہے !
حق
یہ ہے کہ ماہِ رمضان میں آسمانوں کے دروازے بھی کھلتے ہیں، جن سے اللہ
کی خاص رحمتیں زمین پر اُترتی ہیں اور جنتوں
کے دروازے بھی، جس کی وجہ سے جنت والے حُوروغلمان کو خبر ہو جاتی ہے کہ دنیا
میں رمضان آگیا اور وہ روزہ داروں کے لئے
دعاؤں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔
لیکن
یاد رہے! کہ یہ فضائل و بَرَکات اُسی صورت میں مل سکتے ہیں، جبکہ روزہ کو اُس کے حق کے ساتھ رکھا جائے ، صرف کھانے پینے
سے رُک جانے کا نام روزہ نہیں بلکہ
داتا صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا اِرشاد:
حضرت
سیّدنا داتا گنج بخش علی ہجویری رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور
رُکے رہنے کی بہت سی شرائط ہیں، مثلاً
معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فِتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(کشف المحجوب، ص353,354)
روزے
کی قبولیت کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ بُری بات کہنے سے بچاجائے، جیسا کہ
اللہ عزوجل کو کچھ حاجت
نہیں:
نبیوں
کے سلطان، سرورِ ذیشان ، محبوبِ رحمٰن صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل
کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ عزوجل کو اس کی کُچھ حاجت نہیں کہ اس
نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔"( بخاری، ج1، ص668 ، حدیث1903)
اب
سوچئے! جو شخص پاک اور حلال کھانا پینا تو چھوڑ دے، لیکن حرام اور جہنّم میں لے جانے والے کام بدستُور
جاری رکھے تو وہ کس قسم کا روزہ دار ہے؟؟؟
اللہ پاک عزوجل! ہمیں روزوں کو اُس کے مقصد و حَقْ کے ساتھ رکھنے کی
توفیق عطا فرمائے اور اپنی بارگاہِ بے کس پناہ میں قبول فرمائے۔اٰمین
دو جہاں کی نعمتیں مِلتی ہیں، روزہ دار کو
جو نہیں رکھتا ہے روزہ ، وہ بڑا نادان ہے

روزہ ایسی اہم عبادت ہے، جسے اللہ عزوجل نے تقوٰی کے حصول کے لئے پچھلی اُمتوں پر فرض کیا تھا، سورہ بقرہ آیت 831، 184 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!تم پر
روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے، گنتی
کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر
میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ دیں ایک
مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لیے بہتر ہے اور
روزہ رکھنا تمہارے لیے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔"
مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ تفسیر صراط الجنان جلد 1
صفحہ 290 پر ہے:آیت کے آخر میں بتایا گیا ہے کہ روزے کا
مقصد تقویٰ و پرہیزگاری کا حصول ہے، روزے
میں چونکہ نفس پر سختی کی جاتی ہے اور
کھانے پینے کی حلال چیزوں سے بھی روک دیا جاتا ہے تو اس سے اپنے نفس پر قابو پانے کی مشق(Practice) ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس(نفس
پر قابو)اور حرام سے بچنے پر قوت حاصل ہوتی ہے اور یہی ضبطِ نفس اور خواہشات پر
قابو وہ بنیادی چیز ہے، جس کے ذریعے آدمی گناہوں سے رُکتا ہے۔(فیضان
رمضان مرمم، ص 73)
حدیث
پاک ہے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے ، کہ جنت میں
آٹھ دروازے ہیں، جن میں سے ایک باب الرّیان ہے، جس میں صرف روزہ دار داخل ہوں
گے۔" (مراۃ المناجیح، ص 146، حدیث 1861)
حدیث
پاک ہے:" جو بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ عزوجل
کو اس کی کچھ حاجت نہیں کہ اس نے کھانا پینا چھوڑ دیا ہے۔"( بخاری شریف، ج1، ص268، حدیث1093)
حضرت
داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:"روزے کی حقیقت" رُکنا" ہے اور رُکے رہنے کی بہت سی
شرائط ہیں مثلاً معدے کو کھانے پینے سے روکے رکھنا، آنکھ کو بد نگاہی سے روکے
رکھنا، کان کو غیبت سننے، زبان کو فضول اور فتنہ انگیز باتیں کرنے اور جسم کو حُکمِ الٰہی کی مخالفت سے روکے رکھنا "روزہ" ہے، جب بندہ اِن تمام شرائط کی پیروی کرے گا، تب وہ حقیقتاً روزہ دار ہوگا۔(فیضان رمضان، ص91)
حدیث
پاک کا حصّہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے :"جو ایمان اور اخلاص کے ساتھ رمضان کے
روزے رکھے، اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔"(مراۃ المناجیح، جلد 3، ص 146)
حاصلِ بحث:
آیتِ
مبارکہ، احادیثِ مبارکہ اور حضرت داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کے قول
سے ثابت ہوتا ہے کہ ایمان ، اخلاص اور
تقوی اختیار کرنا روزے کی قبولیت کے ذرائع ہیں۔
مفتی
احمد یار خان فرماتے ہیں:"حدیث سے معلوم ہوا کہ ہندوؤں کے صرف (روزہ) اور کافروں کے وہی روزوں
کا ثواب نہیں کہ وہاں ایمان نہیں اور جو شخص بیماری سے علاج کے لئےروزہ رکھے نہ کہ
طلبِ ثواب کے لئے تو کوئی ثواب نہیں کہ وہاں احتساب نہیں۔" (مراۃ
المناجیح، جلد 3، ص 146)
آیت
مبارکہ میں روزے کا مقصد وہی تقوٰی بتایا گیا، اگرمقصد رکھ کر حاصل کرنے کی
سعی ( کوشش) کی جائے
تو قبولیت کی قوی امید ہے۔

قرآن
کریم میں مختلف مقامات پر بیان ہوا ہے کہ جو اچھے اعمال کرے گا، اُسے جنت ملے گی، اچھے اعمال میں ایک عمل روزہ بھی ہے، چنانچہ اللہ
تبارک و تعالیٰ پارہ 30، سورہ البیّنہ کی آیت نمبر 7اور8میں اِرشاد
فرماتاہے:
ترجمہ کنز الایمان:"بے شک جو ایمان
لائے اور اچھے کام کئے، وہی تمام مخلوق میں
بہتر ہیں، ان کا صلہ ان کے ربّ کے پاس، بسنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں، ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی، یہ
اس کے لئے ہے جو اپنے ربّ سے ڈرے ۔"
اِمام
اَجل حضرت سیّدنا شیخ ابو طالب مکّی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی کتاب "قُوتُ القلوب" میں فرماتے ہیں:"روزہ
آگ سے ڈھال ہے اور نیک لوگوں کے دَرَجات
تک رسائی کا سبب ہے، جب روزہ دار روزے پر صبر
کرتا ہے تو اپنے اعضاء کو گناہوں سے بچاتا ہے، مگر
جب وہ اپنے اعضاء کو گناہوں میں خوب مگن کر دے تو اس کی مثال اس شخص جیسی ہےجوبار
بار توبہ کر کے توڑ دیتا ہے، پس اُس کی
توبہ توبہ نصوح نہیں ہےاور نہ ہی اس کا یہ روزہ صحیح ہے، کیا آپ کی نظروں سے رسولِ بے مثال صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ
فرمانِ عالیشان نہیں گُزرا کہ " روزہ آگ کے سامنے ایک ڈھال ہے، جب تک کہ اسے جھوٹ یا غیبت کے زریعے پھاڑا نہ جائے۔"
اِس
فرمانِ عالیشان کو پڑھ کر پتہ چلا کہ اگر
روزہ کو جھوٹ، غیبت اور اپنے اَعضاء کو
گناہوں سے بچا کر گزارا جائے تو وہ قبولیت کا زریعہ بن سکتے ہیں۔
واسِطہ رمضان کا یا ربّ ہمیں تو بخش دے
نیکیوں کا اپنے پلّے کچھ نہیں سامان ہے
(وسائلِ بخشش،
ص 704)

اللہ تعالی فرماتا ہے! یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ۔
ترجمہ: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض
کئے گئے جیسے کہ ان پر فرض کئے گئے جو تم سے پہلے تھے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:" کہ جب
رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو تمام جنتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور سارا مہینہ ایک
دروازہ بھی بند نہیں ہوتا اور اللہ تعالی
ایک آواز دینے والے کو یہ حکم دیتا ہے کہ یہ
آواز دو،
اے
بھلائی کے طلبگارو! آگے بڑھو، اے برائی کے
طلبگارو! پیچھے ہٹو، پھر فرماتا ہے، ہے کوئی بخشش مانگنے والا تا کہ اسے بخش دیا جائے، کوئی مانگنے والا ہے؟ تاکہ جو مانگا جائے اسے عطا کیا جائے، ہے کوئی توبہ کرنے والا کہ اس کی توبہ قبول کی جائے ، صبح طلوع ہونے تک اسی طرح آوازیں دی جاتی ہیں، افطار کے وقت ہر شب اللہ تعالی دوزخ سے دس لاکھ گناہ گاروں کو
آزاد فرماتا ہے، جن پر عذاب لازم ہو چکا تھا ۔( مکاشفۃ القلوب، ص686)
روزے کی حقیقت:
روزے
کی حقیقت امساک ہے، یعنی اپنی خواہشاتِ
نفس کو روکنا اور قابو میں رکھنا، چنانچہ
حضرت علی بن عثمان جلابی نے ایک مرتبہ سیّدِ عالم صلی
اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا، تو آپ صلی
اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا،(یا رسول اللہ اَوْھِنِی) یعنی اے اللہ
کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم
مجھے کوئی نصیحت فرمائیے ! آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:(اِحْبَسْ حَوَاسَکَ)یعنی
اپنی خواسِ خمسہ کو قابو میں رکھ! کیونکہ
انسان سے تمام نیکیوں اور برائیوں کا ظہور انہی پانچ حواس کے ذریعے سے ہوتا ہے، آنکھ جو دیکھنے کا آلہ ہے، کان جو سننے کا آلہ ہے، نا ک جو سونگھنے کاآلہ ہے، منہ جو ذائقے کا آلہ ہے اور پورا جسم جو چھونے کا آلہ ہے، یہ پانچوں فرمانبرداری اور معصیت کے مشترک اور یکساں آلات
ہیں، آدمی کے نیک اور بد اور اللہ عزوجل کے فرمانبردار اور نافرمان ہونے کا سارا انحصار انہیں
پانچ آلات کے استعمال پر ہے، ایک طرف علم
اور عقل اور روح کو دوسری طرف نفس اور ہوا کو اور ان آلات پر یکساں تصرّف کا اختیار اور موقع حاصل
ہے۔
اب
یہ آدمی کے اپنے ارادہ پر منحصر ہے کہ وہ ان آلات کو اپنے قابو میں رکھنے اور علم وعقل
اور روح کے تصرف میں دینے کی کوشش کرتا ہے یا انہیں نفس اور ہوا کے ہاتھ میں چھوڑ دیتا ہے، ان کو قابو میں رکھنے
کے لئے روزہ سے بڑھ کر مؤثر ذریعہ کوئی نہیں۔
جو
شخص ماہِ رمضان میں عبادت پر استقامت اختیار کرتا ہے، اللہ عزوجل
اسے ہررکعت پر نور کا ایک ایک شہر انعام دے گا، اس ماہ کا اوّل رحمت، ا وسط مغفرت اور آخری عشرہ
دوزخ سے آزادی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ماہِ
رمضان کی پہلی رات آسمان، جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور آخری شب تک کھلے رہتے ہیں، جو ایماندار اس کی کسی بھی شب میں عبادت کرتا ہے، اس کے ہر سجدہ کے عوض ایک ہزار سات سو نیکیاں
لکھی جاتی ہیں اور جنت میں سُرخ یاقوت سے محل تیار کیا جاتا ہے۔
حضرت علی المرتضی فرماتے ہیں:" کہ اگر اللہ عزوجل نے اُمّتِ محمدیہ کو عذاب سے
دوچار کرنا ہوتا، تو اسے ماہِ رمضان اور
سورۃ اخلاص کبھی عطا نہ فرماتا۔"
نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا:" بندہ کا روزہ آسمان و زمین کے درمیان معلّق رہتا ہے ،جب تک صدقہ
فطر ادا نہ کرے ۔ (تاریخ بغداد )

سبحان اللہ عزوجل رمضان کی تو کیا ہی بات
ہے، ماہِ رمضان جب آتا ہے رحمتوں اور برکتوں کے
دروازے کھل جاتے ہیں اور بھی بہت سے اعمال ہیں اورسب کی الگ الگ فضیلتیں ہیں، درود پاک کی، ذکرُ اللہ
عزوجل کی، اِستغفار کی،
لیکن جو رمضان کے مہینے کے روزے رکھنا، اس میں عبادت
کرنا، اس کا بدلہ اللہ عزوجل خود عطا
کرے گا، بہرحال ہمارا موضوع روزے کی قبولیت کے جو ذریعے ہیں کہ کن چیزوں سے ہمارا
روزہ قبول ہوگا، وہ میں کچھ عرض کرتی ہوں،
اگر غلطی ہو گئی تو معذرت ، بہرحال :
روزے
کی قبولیت کا ایک ذریعہ خود کو غیبت سے
بچانا بھی ہے ، کیونکہ تو ہم غیبت سے خود
کو بچائیں گے تو ان شاء اللہ عزوجل
روزہ قبول ہوگا۔
جب
آپ روزہ دار ہوں تو آپ کو چاہئے کہ صرف غیبت
سے نہیں، بلکہ جھوٹ، چغلی، بدنگاہی، ہر قسم کے گناہوں سے خود کو روکنا ہی روزے کی
قبولیت کا ذریعہ بنے گی، ایسا نہ ہو کہ
سارا دن روزہ دار ہوں پھر رات کو معاذ اللہ عزوجلگناہ بھری فلمیں، ڈرامے، گانے سنیں
تو روزے کا پھر کیا فائدہ ہوا ، اخلاص کے ساتھ روزہ رکھیں گے تو قبول بھی ہو گا، ہم دل سے روزہ رکھیں گے، اللہ عزوجلکی
رضا کے لئے روزہ رکھیں گے تو وہ روزہ کیوں
قبول نہ ہوگا، کیونکہ دل سے اور اخلاص کے
ساتھ جو عمل ہم کریں گے تو وہ ضرور قبول ہوتا ہے۔
اسی
طرح روزے میں ہر وقت اللہ عزوجل
کی عبادت کریں، قرآن مجید کی تلاوت کریں، ذکرِ الہی کریں، دُرود پاک پڑھیں، اِستغفار کریں، نوافل ادا کریں، خود کو فضول گفتگو سے بچائیں، اپنے نیک اعمال کا جائزہ لیں، یہ سب اعمال سارا
دن کریں گے، یہ سب روزے کی قبولیت کے
ذرائع ہیں، خوب صدقہ کریں اس کا تو ثواب
اتنا ہوگا کہ میں کیا بتاؤں۔
رمضان کے مہینے میں خوب نیک اعمال کریں، بے پردگی سے بچیں، جس طرح روزے میں کچھ نہیں کھاتے اسی طرح آنکھوں
کو بھی بدنگاہی سے بچائیں، منہ کو غیبت کرنے سے بچائیں، کانوں کو گانوں باجوں کے سننے سے بچائیں، نیز ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ سے خود کو بچانا روزے
کی قبولیت کا ذریعہ ہے۔
اللہ عزوجل
ہمیں رمضان کا احترام کرنے، اس میں خوب عبادتیں، نوافل، استغفار کرنے، گناہوں سے بچنے، اخلاص کے ساتھ روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے ، ہماری نمازوں، روزوں، تلاوتوں سارے اعمال کو قبول فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

روزہ:
صوم کے
معنی رُک جانے کے ہیں، خواہ کسی بھی چیز سے رک جانا" صوم" کہلاتا
ہے اور شریعت کی اصطلاح میں صوم یعنی روزہ سے مراد صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک بہ نیتِ عبادت خالص اللہ تعالی
کی خوشنودی کی خاطر کھانے پینے، خواہشاتِ نفسانی اور دیگر ممنوع باتوں سے رک جانا ہے ۔
روزے کی اہمیت:
روزہ
اِسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے، اللہ تعالی نے فرمایا:
ترجمہ:اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں، جیسا کہ تم سے پہلے اُمّتوں پر بھی فرض کئے گئے
تھے تاکہ تم متقی بن جاؤ۔"
آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے روزے
کے متعلق فرمایا:"روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہوتی ہیں، ایک اس وقت جب وہ افطار کرتا ہے تو خوشی محسوس
کرتا ہے اور دوسرے جب وہ اپنے ربّ سے ملاقات کرے گا تو روزے کا ثواب دیکھ کر خوش
ہو جائے گا۔"( صحیح بخاری شریف)
رمضان
کے روزے فرض ہیں، اِس کے علاوہ نفل روزے
رکھنا اَجرِ عظیم ہے، یہ تو معلوم ہو گیا
ہے کہ روزہ ایک اہم ترین عبادت ہے، پر یہ
معلوم نہیں ہوا کہ روزہ قبول ہوا یا نہیں،
اس کو جاننے کے لیے چند روزے کی قبولیت کے
ذرائع ملاحظہ فرماتے ہیں:
نیت کرنا:
روزے
میں نیت فرض عمل ہے، جس طرح اور عبادتوں میں
بتایا گیا ہے کہ نیت دل کے ارادے کا نام ہے، زبان سے کہنا ضروری نہیں، اسی طرح یہاں روزے میں بھی وہی مراد ہے، البتہ زبان سے کہہ لینا اچھا ہے، رات کو نیت کرے کہ کل روزہ رکھوں گا یا دن میں نیت
کی تو یہ کہنا ہوگا کہ "میں صبح صادق سے روزہ دار ہوں"، ہر نیک کام میں نیت کرنا افضل ہے، فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم:ترجمہ:" مؤمن کی نیت
اس کے عمل سے بہتر ہے۔"
اگر
اچھی نیت اور خلوص کے ساتھ روزہ رکھا جائے تو ثواب بھی اسی حساب سے ملے گا ۔
فرض کام انجام دیں:
کاموں
میں فرض نماز اور زکوٰۃ ہے، نماز دین
کا اہم رکن ہے، نماز کی پابندی اور ٹائم
کا خاص خیال رکھا جائے، اگر روزہ رکھا اور
نماز نہ پڑھی تو روزہ نہ قبول ہونے کا اندیشہ
ہے اور گناہ گار ہوں گے۔
روزے کا تقاضہ:
روزے
کا مقصد صرف بھوکے پیاسے رہ کر گزار لینا نہیں ہے، بلکہ اس کا مقصد عظیم ہے اور اس کو پانے کے لئے
کچھ تقاضے ہیں، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ:جو
انسان روزے کی حالت میں جھوٹی باتوں اور گناہ کے کاموں سے باز نہیں آتا، اللہ تعالی کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں۔
روزے
کے دوران جھوٹ، غیبت، چغلی، گالی دینا، بیہودہ بات کہنا، کسی کو تکلیف دینا، یہ چیزیں ویسے بھی ناجائز و حرام ہیں، روزے میں اور زیادہ حرام اور ان کی وجہ سے روزہ
بھی مکروہ ہوتا ہے، لہذا ان باتوں سے اِجتناب
کیا جائے، ان کا گناہ روزے میں مزید بڑھ
جاتا ہے۔
روزہ توڑنے والی چیزوں سے احتیاط کریں:
کھانے
یا پینے یا جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، جبکہ روزہ دار ہونا یاد ہو اور اگر روزہدار ہونایاد نہ رہا اور
بھول کر کھا لیا، پانی پی لیا یا جماع کر
لیا تو روزہ نہ گیا ۔
روزہ
رکھ کر ہمیں ان تمام اقوال و افعال سے گریز کرنا چاہئے، جس کی ممانعت اسلام میں آئی ہے، اور ہر وہ کام جس کا حکم اسلام نے دیا ہے
وہ بجا لانا چاہئے، ہمیں چاہئے ہم زبان سے جھوٹ نہ بولیں، آنکھوں سے بُرا نہ
دیکھیں، ہاتھوں سے وہ کام نہ کریں جو گناہ
کا سبب ہوں، کان سے حرام نہ سنیں اور دل میں کسی کے بارے میں برا خیال نہ کریں اور
خدمتِ خلق کا جذبہ رکھیں اور اشرف المخلوقات ہونے کا درس دیں تو یقیناً اللہ تعالی ربِّ کریم، غفور الرحیم اپنی
بارگاہِ عالیشان میں ہم گناہگاروں کا روزہ
قبول فرمائے گا ۔ اٰمین
(قانون شریعت ، ص169/182)

روزہ
یعنی صوم کسی چیز سے رُکنے اور چھوڑنے کو
کہتے ہیں اور روزہ دار کو صائم اس لئے کہتے ہیں کہ وہ کھانے پینے اور ہمبستری سے اپنے آپ کو روک لیتا ہے، روزے کے
ضمن میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے ، یٰۤاَیُّهَا
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ
مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ۔
ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو ! تم ہر روز
ے رکھنا فرض کیا گیا ہے کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا، تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔"(سورۃ بقرہ آیت
نمبر183)
روزہ
بڑی پرانی عبادت ہے، چنانچہ تفسیر خازن میں
ہے، حضرت آدم صفی اللہ علی نبینا و علیہ السلام سے لے
کر حضرت عیسی علیہ السلام تک جتنے
انبیاء کرام تشریف لائے اور ان کی امتیں
آئیں ہیں ان سب پر روزے فرض کئے گئے ہیں، کوئی ایسی نہ گزری جس پر روزے فرض نہ کیے گئے ہوں۔
روزہ
دراصل نام ہی اپنے آپ کو روکنے کا ہے اور وہ ہے گناہوں سے روکنا، وہ اس طرح روکے کہ اپنے تمام اعضاء کو گناہوں سے بچائے ۔
زبان
کو اس طرح روکے کہ زبان سے برا نہ بولے، نہ فحش گو ئی کرے نہ
کسی کی دل آزاری کرے اور آنکھوں کو اس طرح روکے کہ آنکھ کسی برائی کی طرف نظر نہ کرے، فلمیں ڈرامے نہ دیکھیں، کانوں کو اس طرح روکے کہ
برائی نہ سنے، فحش کلام، گانے باجے نہ سنے، کسی کی غیبت نہ سنے، ہاتھ کو گناہوں سے اس طرح بچائے کہ ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ پہنچائے، نہ کسی کی حق تلفی کرے، کسی پر ظلم نہ کرے، ہاتھ کو گناہوں والے کام میں استعمال نہ کرے، پاؤں کو گناہوں سے اس طرح بچائے کہ پاؤں سے برائیوں کی جگہ نہ جائے، پاؤں سے کسی کو تکلیف نہ دے، گناہوں کی طرف قدم نہ بڑھائے۔
اس
حوالے سے چند احادیث مبارکہ پیشِ خدمت ہیں:
1۔
سرکار ِمدینہ، راحتِ قلب وسینہ ، صاحب ِ معطر پسینہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو بُری
بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑ ے تو
اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی اللہ عزوجل
کو کوئی حاجت نہیں۔"( صحیح البخاری، ج 2، ص279)
2۔
ایک اور مقام پر میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"صرف
کھانے پینے سے باز رہنے کا نام روزہ نہیں ہے، بلکہ روزہ تو یہ ہے کہ لغو اور بیہودہ باتوں سے بچا جائے۔" (مستدرک للحاکم، ج 1 ، ص595)
ان
احادیث میں روزے کی قبولیت کے اسباب بیان کیے گئے ہیں، روزہ دار کو چاہئے کہ وہ روزے میں جہاں کھانا پینا چھوڑ دیتا ہے، وہاں جھوٹ، فریب، لڑائی جھگڑا اور بدزبانی وغیرہ
گناہ بھی چھوڑ دے۔
روزہ
در اصل نام ہی تقویٰ اور پرہیزگاری کا ہے اور روزے کا مقصد بھی تقویٰ کا حصول بتایا
گیا ہے، روزے میں چونکہ نفس پر سختی کی
جاتی ہے اور کھانے پینے کی حلال چیز وں سے بھی روک دیا جاتا ہے، تو اس سے اپنی خواہشات پر قابو پانے کی مشق ہوتی ہے، جس سے ضبطِ نفس اور حرام سے بچنے کی قوت حاصل ہوتی ہے، جس کے ذریعے گناہوں سے بچنا ممکن ہوتا ہے، اگر روزے میں بھی گناہوں
سے اپنے آپ کو نہ بچایا جائے، روزے کی روحانیت، کیف وسر
ور اور تقوی حاصل نہ ہوسکے گا اور روزہ شرفِ قبولیت تک نہیں پہنچ پائے گا۔
الغرض
یہی روزے کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع
ہیں کہ ان کو اللہ کے احکام کے مطابق کرے ، ان اعضاء سے اللہ کے احکام کی پیروی کریں اور
گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں۔
اللہ تعالی ہمیں روزے کی قبولیت کے اسباب اور ذرائع سیکھنے، انہیں اپنانے اور اللہ تبارک
و تعالی کے حکم کے مطابق روزہ رکھنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔
اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ
علیہ وسلم

دعوت اسلامی کے شعبہ
اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیہ) کے
تحت عالمی مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں مدنی مشورہ ہواجس میں شعبہ ملفوظات
امیر اہل سنت کے تینوں شعبہ ذمہ داران نے شرکت کی۔
مرکزی مجلس شوریٰ کے
رکن حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری نے شعبے کی کارکردگی کا جائزہ لیا اور اہداف طے
کئے۔
مدنی مشورے میں یہ طے
پایا کہ مدنی چینل پر ہونے والا سلسلہ ”دلوں کی راحت“ میں ہونے والے سوالات و جوابات
کو کتابی شکل دیکر ایک جلد تیار کی جائیگی
اور 1441ھ میں جتنے بھی مدنی مذاکروں پر کام ہوا اس پر ایک تفصیلی مضامین لکھے جائیں گے۔

دعوت اسلامی کے عالمی
مدنی مرکز فیضان مدینہ کراچی میں قائم اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیہ)میں اراکینِ مجلس کا مدنی مشورہ ہوا جس میں
مولانا آصف خان عطاری مدنی، ابو رجب مولانا حاجی آصف عطاری مدنی اور مولانا عدنان
چشتی مدنی نے شرکت کی۔
مدنی مشورے میں مرکزی
مجلس شوریٰ کے رکن حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری نے شعبے میں مزید ترقی کے حوالے
سے گفتگو کی جبکہ شعبے میں ہونے کاموں (تحریری، تصنیفی، تحقیقی)
کو مزید بہتر سےبہتر بنانے پر لائحہ عمل طے کیا ۔
9اپریل کو فیضان غوث پاک مسجد کراچی میں
مولانا عبد الحبیب عطاری بیان فرمائیں گے

دعوت اسلامی کے زیر
اہتمام 9 اپریل 2021ء بروز جمعہ جامع مسجد فیضان غوث پاک، 1/92میں خیابان حافظ،
خیابان سحر، D.H.A، فیز6، کراچی میں دوپہر 12:35 بجےسنتوں بھرے
اجتماع کا انعقاد کیا جائیگا ۔
اس اجتماع پاک میں
مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی مولانا عبد الحبیب عطاری خصوصی بیان فرمائیں گے۔
مسجد ہذا میں جمعہ کی
نماز دوپہر 1:30 بجے ادا کی جائیگی۔