14 مارچ 2022 ء  کو چیانوالی سرکار گوجرانوالہ میں دعوت اسلامی کے تحت مدرسۃ المدینہ فار بوائز کا افتتاح ہوا اس افتتاحی اجتماع میں ڈسٹرکٹ نگران و ڈسٹرکٹ ذمہ داران اور اہل علاقہ کے مدنی منوں کے سرپرستوں نے شرکت کی۔

ڈسٹرکٹ گوجرانوالہ کے نگران محمد یعقوب عطاری نے اجتماع کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک سے کیا ، دعوت اسلامی کا تعارف کرایا اور بچوں کو مدرسۃالمدینہ میں داخل کروانے پر گفتگو کی ۔اس اجتماع میں ڈویژن گوجرانوالہ کے شعبہ مدنی مذاکرہ کے ذمہ دار عبدالرحمن مدنی نے بھی شرکت کی۔(رپورٹ: (رپورٹ:رکن ڈویژن عبدالرزاق عطاری، کانٹینٹ: مصطفی انیس) 


14 مارچ 2022 ء  بروز پیر مدنی مرکز فیضان مدینہ بھاولپور میں دعوت اسلامی کے تحت تربیتی عمرہ معلم کورس کا انعقاد کیا گیا جس میں کثیر تعداد میں امام صاحبان نے شرکت کی ۔

نگران شعبہ حج و عمرہ قاری الحاج محمد شوکت عطاری نے آئمہ کرام کو حج وعمرہ کے بنیادی مسائل سکھائے ، احرام باندھنے کا عملی طریقہ اور دیگر اہم احتیاطیں بیان کیں ۔اس دوران رکن پنجاب شعبہ حج و عمرہ مولانا محمد عدنان مدنی نے بھی شرکت کی ۔(رپورٹ:رکن ڈویژن عبدالرزاق عطاری، کانٹینٹ: مصطفی انیس)


12 مارچ 2022 ء بروز ہفتہ تلو کر ٹاؤن  ہری پورہزارہ میں مدرسۃ المدینہ ہزارہ ڈویژن کے ناظمین کا مدنی مشورہ ہوا جس میں صوبائی ذمہ دار مدرسۃ المدینہ جہانگیر شاہ عطاری نے ناظمین سے گفتگو کرتے ہوئے مدارس میں تعلیم و تکمیل کو بہتر بنانے ، اپنے مدارس کو مثالی بنانے اور اجتماعِ تقسیم اسناد کے حوالے سے مشاورت کی۔(رپورٹ:جہانگیر شاہ مدرستہ المدینہ صوبہ، کانٹینٹ: مصطفی انیس)


قرآن مجید فرقان حمید میں ربِّ کریم نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت سارے ناموں کے ساتھ یاد فرمایا ہے جن میں سے چند نام یہ ہیں :

(1) یٰسٓ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے ،نیزاس کے بارے مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یس، تحت الآیۃ: 1، 5 / 1705)

(2) رحمة للعالمين : تمام جہانوں کے لیے رحمت ، ارشاد فرمایا کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا ہے۔

(3) طٰهٰ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے۔ مفسرین نے اس حرف کے مختلف معنی بھی بیان کئے ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ’’ طٰہٰ ‘‘تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے اور جس طرح اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام’’طٰہٰ‘‘ بھی رکھا ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: 1، 6 / 72، الجزء الحادی عشر)

(4) مزمل : چادر اوڑھنے والا ، ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں حضرت جبریل علیہ السّلام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ ‘‘ ۔( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 4 / 320، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 5 / 782)

(5) مدثر : چادر اوڑھنے والا ، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’میں حرا پہاڑ پر تھا کہ مجھے ندا کی گئی ’’یَا مُحَمَّدْ اِنَّکَ رسولُ اللّٰہ‘‘ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا توکچھ نہ پایا اور جب اوپر دیکھا تو ایک شخص (یعنی وہی فرشتہ جس نے ندا کی تھی) آسمان اور زمین کے درمیان بیٹھا ہے ،یہ دیکھ کر مجھ پر رُعب طاری ہوا اور میں حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا کے پاس آیا اور میں نے انہیں کہا کہ مجھے چادر اُڑھاؤ، انہوں نے چادر اُڑھا دی،اس کے بعد حضرت جبریل علیہ السلام آئے اور انہوں نے کہا ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ‘‘ اے چادر اوڑھنے والے۔( مدارک، المدثر، تحت الآیۃ: 1، ص:1296)

(6) شاهد : گواہ ،آیت کے اس حصے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گواہ۔ (صراط الجنان ، الاحزاب، الآیۃ 45)

(7،8) مبشر / نذیر : خوشخبری سنانے والا / ڈرانے والا، یہاں سیّد العالَمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اَوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والااور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔(مدارک، الاحزاب، تحت الآیۃ: 45، ص:944) صراط الجنان ، الاحزاب ، الآیۃ 46)

(9) داعي الی الله : اللہ کی طرف بلانے والا ، آیت کے اس حصے میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چوتھے وصف کا بیان ہے کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ، آپ کوخدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: 46، 7 / 196، جلالین، الاحزاب، تحت الآیۃ: 46، ص:355، ملتقطاً)

(10) سِراج منیر : روشن آفتاب ، یہاں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پانچواں وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔ (صراط الجنان، الاحزاب، الآیۃ 46)


بلال رضا عطاری کانپوری(درجہ  دورہ حدیث شریف جامعۃ المدینہ نیپال گنج، نیپال)

Tue, 15 Mar , 2022
3 years ago

اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے مثال و باکمال بنایا ایسا باکمال کہ جس کا ثانی ہے نہ سایہ، کسی نے کیا خوب کہا :

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا

رب العالمین نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رحمۃ للعالمین کیا اور بے شمار خصائص آپ کو عطا فرمائے، آپ کے شرف میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو کثیر نام عطا ہوئے، امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وكثرة الأسماء تدل على شرف المسمى.

ترجمہ: ناموں کی کثرت جس کے نام ہیں اس کے شرف پر دلالت کرتی ہے۔(المواهب اللدنيہ بالمنح المحمديہ، 1/364، دار الکتب العلمیہ)

جب علماء کرام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے مبارکہ کی تعداد شمار کی تو مختلف تعداد تک پہنچے، امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: فمنهم من بلغ تسعة وتسعين، موافقة لعدد أسماء الله الحسنى الواردة فى الحديث.

ترجمہ: ان میں سے بعض ننانوے اسماء تک پہنچے جو اللہ پاک کے اسماء حسنیٰ کے موافق ہے۔

قال القاضى عياض: وقد خصه الله تعالى بأن سماه من أسمائه الحسنى بنحو من ثلاثين اسما.

امام قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ کے ناموں میں سے تیس نام اپنے نام پر رکھے۔

وقال ابن دحية فى كتابه «المستوفى» : إذا فحص عن جملتها من الكتب المتقدمة والقرآن والحديث وفّى الثلاثمائة، انتهى.

ابن دحیہ نے اپنی کتاب "المستوفی" میں کہا جب گذشتہ کتب اور قرآن سے آپ کے ناموں کی تحقیق کی جائے تو وہ تین سو تک پہنچتے ہیں۔

ورأيت فى كتاب «أحكام القرآن» للقاضى أبى بكر بن العربى: قال بعض الصوفية: لله تعالى ألف اسم وللنبى صلى الله عليه وسلم ألف اسم انتهى.

امام قسطلانی فرماتے ہیں میں نے قاضی ابو بکر بن العربی کی کتاب "احکام القرآن" میں دیکھا کہ بعض صوفیا نے فرمایا کہ اللہ پاک کے ایک ہزار نام ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی ایک ہزار نام ہیں۔ (المواهب اللدنيہ، 1/366، دار الکتب العلمیہ)

اسماء النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کثیر نام وہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہوا، ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:

(1) محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: یہ مبارک نام سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے مشہور نام ہے، جو قرآن کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہوا، اللہ پاک نے فرمایا: وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

امام قسطلانی فرماتے ہیں: فيه معنى المبالغة والتكرار، فالمحمد هو الذى حمد مرة بعد مرة. ترجمہ: اس میں مبالغہ اور تکرار کا معنی ہے، تو محمد کا معنی ہوا وہ ذات جس کی باب باب تعریف کی جائے۔(المواهب اللدنيہ، 1/347، دار الکتب العلمیہ)

(2) احمد: یہ وہ مبارک نام ہے جسے اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے جاری فرمایا جس کا ذکر قرآن میں ہوا: وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں: قال العلماء: لم يسمّ به أحد قبل نبينا صلى الله عليه وسلم منذ خلق الله تعالى الدنيا. ترجمہ: علماء نے فرمایا: اللہ پاک نے جب سے دنیا بنایا ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے کسی کا نام احمد نہ ہوا۔ (سبل الهدى والرشاد، 1/416، دار الکتب العلمیہ)

(3) خاتم النبیین: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم النبیین بھی ہیں جس کا معنی ہے سب نبیوں میں آخر، کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

آپ کے خاتم النبیین ہونے کی کئی حکمتیں ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں:إنه لو كان بعده نبي لكان ناسخاً لشريعته. ومن شرفه أن تكون شريعته ناسخة لكل الشرائع غير منسوخة. ولهذا إذا نزل عيسى صلى الله عليه وسلم فإنما يحكم بشريعة نبينا صلى الله عليه وسلم لا بشريعته، لأنها قد نسخت. ترجمہ: اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ آپ کی شریعت کا ناسخ ہوتا، اور آپ کا شرف یہ ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوں کے لئے ناسخ ہو نہ کی منسوخ ہو، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا تو وہ ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے نہ کہ اپنی شریعت کے مطابق، کیونکہ ان کی شریعت منسوخ ہو چکی۔(سبل الهدى والرشاد، 1/453، دار الکتب العلمیہ)

اگر "تاء" پر فتح کے ساتھ خاتَم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:أنه أحسن الأنبياء خَلقاً وخُلُقاً، ولأنه صلى الله عليه وسلم جمال الأنبياء صلى الله عليه وسلم كالخاتم الذي يُتجمّل به. ترجمہ: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء علیہم السلام سے خَلق اور خُلق کے اعتبار سے عمدہ ہیں، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء کا جمال ہیں جیسے وہ انگوٹھی جس سے جمال حاصل کیا جاتا ہے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/452، دار الکتب العلمیہ)

(4) نور: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان:: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:وسمي نورا لأنه ينور البصائر ويهديها للرشاد، ولأنه أصل كل نور حسي ومعنوي. ترجمہ: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لئے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بصیرتوں کو روشن کرتے اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر نور حِسّی (وہ نور جسے دیکھا جا سکے) اور مَعْنَوِی (جیسے علم وہدایت) کی اصل ہیں۔(حاشیہ صاوی، 2 / 103)

علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:إنما سماه الله نورا لأنه يهتدى به كما يهتدى بالنور في الظلام. ترجمہ: اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔( تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل، 2/24)

(5) رحمۃ للعالمین:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

علامہ صالح الشامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:فهو صلى الله عليه وسلم رحمة لجميع الخلق، المؤمن بالهداية والمنافق بالأمان من القتل، والكافر بتأخير العذاب عنه. ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوق کے لئے رحمت ہیں، مؤمن کے لئے ہدایت کے ذریعے، منافق کے لئے قتل سے امان کے ذریعے، اور کافر کے لئے عذاب کو مؤخر کر کے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/464، دار الکتب العلمیہ)

اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب۔ (پ 22،احزاب:45)

مذکورہ آیت میں اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی اسمائے مبارکہ ذکر فرمائے، جن کی مختصر وضاحت ملاحظہ ہو:

(6) شاہد:اس کا معنی ہوتا ہے گواہ، علامہ صالح الشامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: أي على من بعثت إليهم مقبول القول عليهم عند الله تعالى كما يقبل الشاهد العدل. ترجمہ: یعنی جن کی طرف آپ کو مبعوث کیا ان لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجا، ان کے بارے میں آپ کا قول عند اللہ اسی طرح مقبول ہے جیسا عادل گواہ کا ہوتا ہے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/474، دار الکتب العلمیہ)

(7) سراج: سراج کا کا معنی ہوتا ہے سورج، سراج کی وضاحت کرتے ہوئے سبل الهدى والرشاد میں ہے :وسمي سراجاً لإضاءة الدنيا بنوره، ومحو الكفر وظلامه بظهوره، وشبع بالشمس لأنه الغاية في النيرات. ترجمہ: سراج آپ کو اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ آپ نے دنیا کو اپنے نور سے منور کر دیا، اور اپنے ظہور سے کفر اور اس کی ظلمت کو مٹا دیا، سورج سے آپ کو اس وجہ سے تشبیہ دی گئی کیونکہ وہ بہت زیادہ روشن ہے۔

آگے مزید فرماتے ہیں: أنها سيّدة الأنوار الفلكية، وهو صلى الله عليه وسلّم سيد الأنبياء. ترجمہ: آپ کو سورج سے اس وجہ سے تشبیہ دی گئی کیونکہ سورج انوار فلکیہ کا سردار ہے، اور سردار دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں۔(سبل الہدی والرشاد، 1/469، دار الکتب العلمیہ)

(8) منیر: اس کا معنی ہوتا ہے روشن کرنے والا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: وقد وصف الله رسوله صلى الله عليه وسلم بالمنير ولم يصف الشمس إذ سمّاها بذلك لأنها خلقت من نوره ولأن دولتها في الدنيا فقط ودولته ونوره صلى الله عليه وسلم في الدنيا وفي الآخرة أعظم. ترجمہ: اللہ پاک اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف منیر ذکر فرمایا لیکن سورج کا یہ وصف بیان نہیں کیا کیونکہ سورج کو آپ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے، اور اس لئے کیونکہ سورج کا اقتدار صرف دنیا پر ہے اور آپ کی حکومت کا جھنڈا دنیا وآخرت دونوں جہاں میں لہرا رہا ہے۔ (سبل الهدى والرشاد، 1/469، دار الکتب العلمیہ)

اللہ پاک نے آپ کے اسمائے مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ(۱۰۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(پ 15،بنی اسرائیل:105)

مذکورہ آیت میں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اسماء مبارکہ ذکر ہوئے:

(9) مبشر (10) نذیر : "مبشر" کا معنی ہوتا ہے خوشخبری دینے والا، اور "نذیر" کا معنی ہے ڈر سنانے والا، ان دونوں ناموں کی وضاحت کرتے ہوئے امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

مبشرا لأهل طاعته بالثواب، ونذيرا لأهل معصيته بالعذاب.

ترجمہ: جو آپ کی اطاعت کرتے ہیں انہیں ثواب کی خوشخبری دیتے ہیں، اور گنہگاروں کو عذاب سے ڈرانے والے ہیں۔(المواهب اللدنيہ، 1/385، دار الکتب العلمیہ)

نذیر کے تعلق سے علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں:وسمّي صلى الله عليه وسلم بذلك لأنه يخوّف الناس العذاب ويحذّرهم من سوء الحساب. ترجمہ: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نذیر اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ آپ لوگوں کو عذاب سے ڈراتے اور برے حساب سے خوف زدہ کرتے تھے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/529، دار الکتب العلمیہ)

یہ چند وہ اسمائے مبارکہ ہیں جن کا ذکر قرآن مقدس میں ہوا، تفصیل کے لئے "سبل الهدى والرشاد" اور "المواهب اللدنيہ" وغیرہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک اسماء کا فیض خاص عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید میں ربِّ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بہت سارے ناموں کا ذکر فرمایا جن میں سے چند نام یہ ہیں :

(1) أحمد : یہ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا بہت ہی زیادہ مشہور و معروف نام مبارک ہے اس کا ذکر قرآن پاک میں ارشاد ہوا: یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

(2) محمد :حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے مشہور نام محمد ہے قرآن میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

محمد کا معنی ہے بہت تعریف کیا ہوا ۔

(3) ‏یٰسٓ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ایک حرف ہے،اس کی مراد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے ،نیزاس کے بارے مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(جلالین مع صاوی، یس، تحت الآیۃ: 1، 5 / 1705)

(4) مزمل : چادر اوڑھنے والا ، ایک قول یہ ہے کہ وحی نازل ہونے کے ابتدائی زمانے میں سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے ،ایسی حالت میں حضرت جبریل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ‘‘ کہہ کر ندا کی ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ایک مرتبہ تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما رہے تھے، اس حالت میں آپ کو ندا کی گئی ’’ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ‘‘ ۔

( خازن، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 4 / 320، ابو سعود، المزمل، تحت الآیۃ: 1، 5 / 782)

(5) طٰهٰ : یہ حروفِ مُقَطَّعات میں سے ہے۔ مفسرین نے اس حرف کے مختلف معنی بھی بیان کئے ہیں ،ان میں سے ایک یہ ہے کہ’’ طٰہٰ ‘‘تاجدارِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَسماءِ مبارکہ میں سے ایک اسم ہے اور جس طرح اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام ’’محمد‘‘ رکھا ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام’’طٰہٰ‘‘ بھی رکھا ہے۔( تفسیرقرطبی، طہ، تحت الآیۃ: 1، 6 / 72، الجزء الحادی عشر)

اس کے علاوہ بھی قرآن میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نام مذکور ہے اس لئے آپ تفسیر کی کتب کا مطالعہ کریں۔


اللہ پاک نے قرآن پاک میں بے شمار مقامات پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور صفات بیان فرمائیں۔ جس طرح حضور کی صفات بے شمار ہیں اسی طرح شاہ بنی آدم حضور رحمت اللعالمین کے اسماء مبارکہ بھی قرآن پاک میں بے شمار ہیں۔ چنانچہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

(1) میرے بہت نام ہیں: عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم یقول ان لی اسماء انا محمد و انا احمد وانا الماحی الذی یمحوا اﷲ بی الکفر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علٰی قدمی وانا العاقب الذی لیس بعدہ نبی ترجمہ: حضرت جبیر بن مطعم سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بہت نام ہیں میں محمد ہوں ،میں احمد ہوں،محو کرنے والا ہوں کہ اللہ میرے ذریعے کفر محو فرمائے گا اور میں جامع ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں عاقب وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (مشکوٰة المصابیح ، 8 / 52 ،حدیث : 5522)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے نام بیان فرمائے: عن ابی موسی الاشعری قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یُسمی لنا نفسہ اسماءً فقال انا محمد و احمد المقفّی والحاشر ونبیّ التوبۃ ونبیّ الرحمۃ رواہ مسلم ترجمہ حضرت ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے اور فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو اپنے نام بیان فرمایا کرتے تھے کہ میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں حاشر ہوں، میں توبہ کا نبی ہوں ، میں رحمت کا نبی ہوں۔( مشکوٰة المصابیح ، 8 / 52 ،حدیث : 5523)

اللہ پاک نے جو قرآن پاک میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام بیان فرمائے ان میں سے بعض یہ ہیں:

(1) خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ سب نبیوں سے پچھلے ۔(پ 22،الاحزاب:40)

(2) رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) : سارے جہان کیلئے رحمت ۔(پ 17،الانبیاء:107)

(3) شَاهِدًا:حاضر و ناظر۔(پ 26،الفتح:8)

(4) مُبَشِّرًا : خوشخبری دینے والا۔(پ 26،الفتح:8)

(5) نَذِیْرًاۙ(۸) :ڈر سنانے والا۔(پ 26،الفتح:8)

(6) الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

(7) الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

(8) اَحْمَدُؕ :وہ حمد والا ہوا۔(پ 28،الصف:6)

(9) رَّسُوْلَ اللّٰهِ :اللہ کے رسول ۔(پ 22،الاحزاب:40)

(10) نُوْرٌ:نورانیت والے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔(پ 6،المائدہ:15)

اعلی حضرت شاہ امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ کیا خوب فرمائے ہیں :

شکل بشر میں نورِ الٰہی اگر نہ ہو!

کیا قدر اُس خمیرئہ مَا و مَدَر کی ہے

(حدائق بخشش ،ص206)

پَرتَوِ اسمِ ذاتِ اَحد پر درود

نسخۂ جامِعِیَّت پہ لاکھوں سلام

(حدائق بخشش ،ص297)


اللہ  پاک نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت سارے فضائل و کمالات سے نوازا ہے۔ ان کمالات میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسمائے مبارک بھی ہیں۔ جن کو اللہ پاک نے بہت خوبصورت انداز میں قرآن پاک میں ذکر فرمائیں ہیں۔

(1) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

تفسیر صراط الجنان: اس آیت میں اللہ پاک اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی پہچان کروا رہا ہے کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ پاک کے رسول ہیں۔

(2) وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترے۔(پ 27،نجم:1)

نجم سے مراد تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک ہے ۔( تفسیر صراط الجنان)

(3) قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان:: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

تفسیر صراط الجنان: نور سے مراد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات و صفات ہے۔

(4) یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم۔(پ 22،یٰس:1 تا 3)

تفسیر صراط الجنان: یٰس اس بارے میں مفسرین کا ایک یہ بھی ہے کہ یہ سید المرسلین صلی اللہ. علیہ وسلم کے اسماء مبارک میں سے ایک اسم ہے ۔

(5) طٰهٰۚ(۱)

تفسیر صراط الجنان: طٰہٰ یہ تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم ہیں۔ جس طرح اللہ پاک نے اپنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد رکھا اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام طٰہٰ بھی رکھا ہے ۔

(6) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

تفسیر صراط الجنان: قرآن پاک میں دیگر انبیاء کرام کو ان کے نام شریف سے پکارا گیا جبکہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی صفات شریف سے ندا کی گئی۔ ندا کے اس انداز سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر ادا پیاری ہے۔

(7) یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

(8) یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اے رسول پہنچادو جو کچھ اُترا تمہیں تمہارے رب کی طرف سے۔(پ 6،مائدہ:67)

تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول کے لقب سے خطاب فرمایا یہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔

(9) یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ (پ 22،احزاب:45)

تفسیر صراط الجنان: اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد بنا کر بھیجا۔ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا۔

(10) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)

تفسیر صراط الجنان: سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ پاک نے چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔


فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: جس نے مجھ پرایک مرتبہ درو د پاک پڑھا اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اس کے دس گناہ مٹا دے گا اور اس کے دس درجا ت بلند فرمائے گا ۔

قرآن کریم سے 10 اسمائے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں۔

(1) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ ترجمہ کنزالایمان : بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ( پ 1، بقرہ : 119)

بشیر کا مطلب اچھی خوشخبری دینے والا (مراد جنت کی) ،نذیر کا مطلب وعیدوں سے ڈرانے والے (مراد جہنم سے)

(2) قلم اور نور :دونوں سے حقیقت محمدیہ مراد ہے۔ اسی لئے بعض مفسرین نے فرمایا کہ قلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔

أولُ ما خلق اللهُ القلَمَ دوسری میں ہے أول ما خلق الله نوری۔ان دونوں حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے قلم کہتے ہیں کہ جیسے تحریر سے پہلے قلم ہوتا ہے ایسے ہی عالم سے پہلے حضور علیہ السلام ہوئے۔

(3) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

(4) هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27،حدید:3)

مولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’مدارجُ النُّبوۃ“کے خطبے میں ذکر کیا ہے: یہ آیت کریمہ حمد الہی بھی ہے اور نعمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ حضور سب سے اوّل بھی ہیں اور آخر بھی اور سب پر ظاہر اور سب سے چھپے ہوئے ۔اول اور آخر کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام ہیں۔

(5) طٰهٰۚ(۱) مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔(پ 16،طٰہٰ:2،1)

یہ آیت کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف ہے اور اس میں پروردگار عالم کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی کرم ہے۔ اس آیت میں دو طرح سے نعت شریف ظاہر ہو رہی ہے: ایک تو کلمہ طہ سے اور ایک باقی آیت سے ہے بعض کے نزدیک متشابہات میں سے ہے۔( روح البیان) اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ حضور علیہ السلام کا اسم مبارک ہے اور بعض فرماتے کہ یہ لقب پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بعض نے کہا کہ اس سورہ کا نام ہے۔

(6) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

"المزمل " جو حضورعلیہ السلام کا صفاتی نام ہے اور حضور علیہ السلام کی بڑی خوبصورت ادا پر لکھا گیا ہے کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔ روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ رات کو محبوب علیہ السلام چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے رب العالمین نے اشتیاق فرمایا کہ اس وقت ہمارے محبوب ہم سے مناجات اور راز و نیاز کی باتیں کرے، تو ندا دے کر جگایا کہ اے آرام فرمانے والے محبوب، اس وقت ہم سے بات کرو۔

(7) یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم۔(پ 22،یٰس:1 تا 3)

یہ آیت کریمہ میں حضور علیہ السلام کی نعت ہے اس آیت میں تین کلمے ہیں ایک یٰسٓۚ دوسرے وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ تیسرے اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ اور تینوں میں علیحدہ علیحدہ لطف ہے۔ کلمہ یٰسٓۚ متشابہات میں سے ہے۔ اس کے صحیح معنی تو رب کریم ہی جانے یا محبوب علیہ السلام۔ مگر مفسرین نے کچھ تشریح کی ہے۔ اولا تو یہ کہ یٰسٓۚ حضور علیہ السلام کا اسم شریف ہے اور ندا پوشیدہ ہیں۔( یعنی اللہ پاک حضور سے حقیقی طور پر مخاطب ہیں) الْمُرْسَلِیْنَۙ اس سے مراد جہاں والوں کے سردار۔

(8) وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند۔(پ 19،فرقان:61)

یہ بھی حضور علیہ السلام کے صفاتی نام ہیں منیر۱ کامطلب ہے کہ اگر اس سے مراد سورج ہے تو آپ بھی آسمانِ ہدایت کے سورج ہیں۔

(9) لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔(پ 11،التوبہ : 128)

اس آیت میں حضور علیہ السلام کے میلاد اور ان کے نسب کی شان بیان کی گئی ہے کہ جہاں حضور کے صفاتی نام کی شان ہے وہاں حضور کے میلاد اور نسب کا بہت بڑا مقام ہے ۔۔حضور علیہ السلام کی عزت کا اظہار اور پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی امتوں کے سامنے حضور کے آنے کی بشارت دی تھی۔ معلوم ہوا کہ میلاد پاک سنت الٰہیہ اور سنت انبیاء ہے۔

(10) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا۔(پ 6،نساء:174)

برہان کے معنی دلیل ہیں۔ جس سے کہ دعوے کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں دلیل سے مراد معجزات ہیں۔ جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں کو ملے وہ سب حضور علیہ السلام کو عطا ہوئے۔ حضور علیہ السلام از سر تا قدم پاک خود اللہ پاک کی وحدانیت اور ذات و صفات کی دلیل ہیں۔ لہذا برہان سے مراد حضور علیہ سلام کی ذات پاک ہے۔ اور پیغمبروں کی ذات معجزہ نہیں ۔


پیارے بھائیو!  اللہ پاک نے ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی شان اور عظمت سے نوازا ہے۔ اور اس نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو مختلف اسماء سے پکارا ہے اور قرآن پاک میں مختلف نام ذکر کئے ہیں۔ آئیے حصول برکت کے لئے چند اسماء کا ذکر خیر کرتے ہیں:

(1 تا 3) شاہد ،مبشر ،نذیر: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) ترجمہ کنزالعرفان:بیشک ہم نے تمہیں گواہ اور خوشخبری دینے والااور ڈر سنانے والا بنا کربھیجا۔(پ 26،الفتح:8)

(4) مزمل: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

(5) رحمت اللعالمین: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

(6) نور: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

(7 تا 8) داعی، سراج: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)

(9) شہید: وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اے محبوب تمہیں ان سب پر گواہ اور نگہبان بنا کر لائیں(پ 5،نساء:41)

(10) مصدق : ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: پھر تشریف لائے تمہارے پاس وہ رسول (ف۱۵۶) کہ تمہاری کتابوں کی تصدیق فرمائے۔(پ 3،آل عمران:81)


اللہ پاک نے اپنے پیارے کلام قرآن کریم میں اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو کئی مبارک اور پیارے ناموں سے پکارا اور یہ صرف ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی خاصہ ہے اور کسی نبی علیہ السلام کو اتنے ناموں سے نہیں پکارا۔

حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کیا خوب ارشاد فرمایا:

خلقت مبرأ من کل عیب

کانک قد خلقت کما تشاء

یعنی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہر عیب سے پاک پید ا فرمائے گئے گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی تخلیق آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خواہش کے مطابق ہوئی۔

قرآن کریم سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے 10 اسمائے مبارک پیش کرتا ہو:۔

(1) محمد صلی اللہ علیہ وسلم

پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 40 میں ارشاد ہوتا ہے : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

(2) احمد صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک میں پارہ 28 سورۃ الصف آیت نمبر 6 میں ارشاد فرمایا: یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اے بنی اسرائیل! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں ، اپنے سے پہلی کتاب تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

(3) محمود صلی اللہ علیہ وسلم

قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا : عَسٰۤى اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا(۷۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: قریب ہے کہ تمہیں تمہارا رب ایسی جگہ کھڑا کرے جہاں سب تمہاری حمد کریں۔(پ15،بنی اسراءیل:79)

(4) نبی صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک میں پارہ 10 سورہ انفعال آیت نمبر 64 میں ارشاد ہوتا ہے : یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ حَسْبُكَ اللّٰهُ وَ مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ۠(۶۴) ترجَمۂ کنزُالایمان:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) اللہ تمہیں کافی ہے اور یہ جتنے مسلمان تمہارے پیرو ہوئے۔(پ10،انفال:64)

(5) رسول صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک میں پارہ 26 سورۃ الفتح آیت نمبر 29 میں ارشاد فرمایا : مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

(6تا8) شَاهِدًا ، مُبَشِّرًا ، نَذِیْرًا ، صلی اللہ علیہ وسلم

اللہ پاک نے قرآن پاک پارہ 22 سورۃ الاحزاب آیت نمبر 45 میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(پ 22،احزاب:45)

(9 تا 10) سِرَاجًا ، مُّنِیْرًا صلی اللہ علیہ وسلم

پارہ 22 سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 46 میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجمہ کنزالعرفان: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا اور چمکا دینے والا آفتاب بنا کر بھیجا۔(پ 22،الاحزاب:46)


پیارے پیارے  نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم ذاتی محمد اور احمد ہیں اور باقی تمام نام صفاتی ہیں مثلا شاہد، نذیر وغیرہ۔ قرآن پاک میں اللہ پاک نے صرف پانچ مقامات پر حضور کے اسم ذاتی کو ذکر کیا اور باقی تمام مقامات پر صفاتی نام مذکور ہیں۔ اب تمام کی تفصیلات آپ کو مفتی احمد یار خان کی پیاری تصنیف "شان حبیب الرحمن من آیات القرآن" میں مل سکتی ہے۔

(1 تا 3) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

اس آیت مبارکہ میں اللہ پاک نے ہمارے پیارے نبی کا اسم ذاتی اور دو صفاتی نام ذکر کئے ہیں: (1) محمد (2) رسول اللہ (3) خاتم النبیین

(4) یٰس: کلمہ یٰس آیت متشابہات میں سے ہے مگر مفسرین نے کچھ روایتیں کچھ تاویلیں فرمائی ہیں ان میں سے ایک یہ کہ یٰس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم شریف ہے ۔

(5) وَ النَّجْمِ اِذَا هَوٰىۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اس پیارے چمکتے تارے محمد کی قسم جب یہ معراج سے اُترے۔(پ 27،نجم:1)

بعض مفسرین نے نجم سے مراد سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات لی ہے کیونکہ ستارے کا کام ہدایت دینا ہے اور یہ ذات بھی ہادی خلق ہے۔

(6) نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: قلم اور ان کے لکھے کی قسم (پ 29،قلم:1)

مفتی احمد یار خان شان حبیب الرحمن میں لکھتے ہیں کہ لفظ نون میں چند احتمال ہے ان میں سے ایک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم شریف ہے۔

(7) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

مفسرین کا ایک قول اس کے شانِ نزول کے متعلق یہ ہیں کہ زمانہ وحی کی ابتدا میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام الہی کے ہیبت سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے۔ اس حالت میں آپ کو یہ ندا دی گئی۔

(8) یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ(۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے بالا پوش اوڑھنے والے ۔(پ 29،مدثر:1)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے شان نزول کے بارے میں فرمایا کہ جب میں نے جبرئیل علیہ السلام کو دیکھا تو خدیجہ کے پاس آیا اور حکم دیا کہ چادر اوڑھا دو۔ جب چادر اوڑھی تب یہ وحی آئی۔

(9) وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اس میں حضور کی ایک خاص صفت رحمۃ اللعالمین کو بیان کیا ہے۔

(10) طٰهٰۚ(۱) کلمہ طٰہٰ بھی متشابھات میں سے ہے۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ حضور کا اسم مبارک ہے۔