فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم: جس نے مجھ پرایک مرتبہ درو د پاک پڑھا اللہ پاک اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا اس کے دس گناہ مٹا دے گا اور اس کے دس درجا ت بلند فرمائے گا ۔

قرآن کریم سے 10 اسمائے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں۔

(1) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًاۙ ترجمہ کنزالایمان : بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا ( پ 1، بقرہ : 119)

بشیر کا مطلب اچھی خوشخبری دینے والا (مراد جنت کی) ،نذیر کا مطلب وعیدوں سے ڈرانے والے (مراد جہنم سے)

(2) قلم اور نور :دونوں سے حقیقت محمدیہ مراد ہے۔ اسی لئے بعض مفسرین نے فرمایا کہ قلم میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام ہے۔

أولُ ما خلق اللهُ القلَمَ دوسری میں ہے أول ما خلق الله نوری۔ان دونوں حدیثوں میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے قلم کہتے ہیں کہ جیسے تحریر سے پہلے قلم ہوتا ہے ایسے ہی عالم سے پہلے حضور علیہ السلام ہوئے۔

(3) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: محمد اللہ کے رسول ہیں۔(پ 26،الفتح:29)

(4) هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ(۳) ترجَمۂ کنزُالایمان:وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(پ 27،حدید:3)

مولانا شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ’’مدارجُ النُّبوۃ“کے خطبے میں ذکر کیا ہے: یہ آیت کریمہ حمد الہی بھی ہے اور نعمتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہے۔ حضور سب سے اوّل بھی ہیں اور آخر بھی اور سب پر ظاہر اور سب سے چھپے ہوئے ۔اول اور آخر کریم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفاتی نام ہیں۔

(5) طٰهٰۚ(۱) مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ(۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے محبوب ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہ اُتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔(پ 16،طٰہٰ:2،1)

یہ آیت کریمہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت شریف ہے اور اس میں پروردگار عالم کا اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم پر انتہائی کرم ہے۔ اس آیت میں دو طرح سے نعت شریف ظاہر ہو رہی ہے: ایک تو کلمہ طہ سے اور ایک باقی آیت سے ہے بعض کے نزدیک متشابہات میں سے ہے۔( روح البیان) اور بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ یہ حضور علیہ السلام کا اسم مبارک ہے اور بعض فرماتے کہ یہ لقب پاک مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے بعض نے کہا کہ اس سورہ کا نام ہے۔

(6) یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے جھرمٹ مارنے والے ۔(پ 29،مزمل:1)

"المزمل " جو حضورعلیہ السلام کا صفاتی نام ہے اور حضور علیہ السلام کی بڑی خوبصورت ادا پر لکھا گیا ہے کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز تہجد ادا فرماتے تھے۔ روح البیان میں اس آیت کی تفسیر میں فرمایا کہ رات کو محبوب علیہ السلام چادر اوڑھے آرام فرما رہے تھے رب العالمین نے اشتیاق فرمایا کہ اس وقت ہمارے محبوب ہم سے مناجات اور راز و نیاز کی باتیں کرے، تو ندا دے کر جگایا کہ اے آرام فرمانے والے محبوب، اس وقت ہم سے بات کرو۔

(7) یٰسٓۚ(۱) وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ(۲) اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ(۳)ترجَمۂ کنزُالایمان: حکمت والے قرآن کی قسم بےشک تم۔(پ 22،یٰس:1 تا 3)

یہ آیت کریمہ میں حضور علیہ السلام کی نعت ہے اس آیت میں تین کلمے ہیں ایک یٰسٓۚ دوسرے وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِۙ تیسرے اِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَۙ اور تینوں میں علیحدہ علیحدہ لطف ہے۔ کلمہ یٰسٓۚ متشابہات میں سے ہے۔ اس کے صحیح معنی تو رب کریم ہی جانے یا محبوب علیہ السلام۔ مگر مفسرین نے کچھ تشریح کی ہے۔ اولا تو یہ کہ یٰسٓۚ حضور علیہ السلام کا اسم شریف ہے اور ندا پوشیدہ ہیں۔( یعنی اللہ پاک حضور سے حقیقی طور پر مخاطب ہیں) الْمُرْسَلِیْنَۙ اس سے مراد جہاں والوں کے سردار۔

(8) وَّ جَعَلَ فِیْهَا سِرٰجًا وَّ قَمَرًا مُّنِیْرًا(۶۱)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان میں چراغ رکھا اور چمکتا چاند۔(پ 19،فرقان:61)

یہ بھی حضور علیہ السلام کے صفاتی نام ہیں منیر۱ کامطلب ہے کہ اگر اس سے مراد سورج ہے تو آپ بھی آسمانِ ہدایت کے سورج ہیں۔

(9) لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔(پ 11،التوبہ : 128)

اس آیت میں حضور علیہ السلام کے میلاد اور ان کے نسب کی شان بیان کی گئی ہے کہ جہاں حضور کے صفاتی نام کی شان ہے وہاں حضور کے میلاد اور نسب کا بہت بڑا مقام ہے ۔۔حضور علیہ السلام کی عزت کا اظہار اور پیغمبروں نے بھی اپنی اپنی امتوں کے سامنے حضور کے آنے کی بشارت دی تھی۔ معلوم ہوا کہ میلاد پاک سنت الٰہیہ اور سنت انبیاء ہے۔

(10) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَكُمْ بُرْهَانٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ نُوْرًا مُّبِیْنًا(۱۷۴)ترجَمۂ کنزُالایمان: اے لوگو بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے واضح دلیل آئی اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور اُتارا۔(پ 6،نساء:174)

برہان کے معنی دلیل ہیں۔ جس سے کہ دعوے کو مضبوط کیا جاتا ہے۔ یہاں دلیل سے مراد معجزات ہیں۔ جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں کو ملے وہ سب حضور علیہ السلام کو عطا ہوئے۔ حضور علیہ السلام از سر تا قدم پاک خود اللہ پاک کی وحدانیت اور ذات و صفات کی دلیل ہیں۔ لہذا برہان سے مراد حضور علیہ سلام کی ذات پاک ہے۔ اور پیغمبروں کی ذات معجزہ نہیں ۔