بلال رضا عطاری کانپوری(درجہ  دورہ حدیث شریف جامعۃ المدینہ نیپال گنج، نیپال)

Tue, 15 Mar , 2022
2 years ago

اللہ پاک نے اپنے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے مثال و باکمال بنایا ایسا باکمال کہ جس کا ثانی ہے نہ سایہ، کسی نے کیا خوب کہا :

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانی محمد

ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا

رب العالمین نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو رحمۃ للعالمین کیا اور بے شمار خصائص آپ کو عطا فرمائے، آپ کے شرف میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کو کثیر نام عطا ہوئے، امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وكثرة الأسماء تدل على شرف المسمى.

ترجمہ: ناموں کی کثرت جس کے نام ہیں اس کے شرف پر دلالت کرتی ہے۔(المواهب اللدنيہ بالمنح المحمديہ، 1/364، دار الکتب العلمیہ)

جب علماء کرام نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اسمائے مبارکہ کی تعداد شمار کی تو مختلف تعداد تک پہنچے، امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: فمنهم من بلغ تسعة وتسعين، موافقة لعدد أسماء الله الحسنى الواردة فى الحديث.

ترجمہ: ان میں سے بعض ننانوے اسماء تک پہنچے جو اللہ پاک کے اسماء حسنیٰ کے موافق ہے۔

قال القاضى عياض: وقد خصه الله تعالى بأن سماه من أسمائه الحسنى بنحو من ثلاثين اسما.

امام قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ کے ناموں میں سے تیس نام اپنے نام پر رکھے۔

وقال ابن دحية فى كتابه «المستوفى» : إذا فحص عن جملتها من الكتب المتقدمة والقرآن والحديث وفّى الثلاثمائة، انتهى.

ابن دحیہ نے اپنی کتاب "المستوفی" میں کہا جب گذشتہ کتب اور قرآن سے آپ کے ناموں کی تحقیق کی جائے تو وہ تین سو تک پہنچتے ہیں۔

ورأيت فى كتاب «أحكام القرآن» للقاضى أبى بكر بن العربى: قال بعض الصوفية: لله تعالى ألف اسم وللنبى صلى الله عليه وسلم ألف اسم انتهى.

امام قسطلانی فرماتے ہیں میں نے قاضی ابو بکر بن العربی کی کتاب "احکام القرآن" میں دیکھا کہ بعض صوفیا نے فرمایا کہ اللہ پاک کے ایک ہزار نام ہیں اور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بھی ایک ہزار نام ہیں۔ (المواهب اللدنيہ، 1/366، دار الکتب العلمیہ)

اسماء النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں کثیر نام وہ ہیں جن کا ذکر قرآن میں ہوا، ان میں سے چند ملاحظہ ہوں:

(1) محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: یہ مبارک نام سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سب سے مشہور نام ہے، جو قرآن کریم میں کئی مقامات پر مذکور ہوا، اللہ پاک نے فرمایا: وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ ترجمہ کنزالایمان: اور محمد تو ایک رسول ہیں۔(پ 4،آل عمران:144)

امام قسطلانی فرماتے ہیں: فيه معنى المبالغة والتكرار، فالمحمد هو الذى حمد مرة بعد مرة. ترجمہ: اس میں مبالغہ اور تکرار کا معنی ہے، تو محمد کا معنی ہوا وہ ذات جس کی باب باب تعریف کی جائے۔(المواهب اللدنيہ، 1/347، دار الکتب العلمیہ)

(2) احمد: یہ وہ مبارک نام ہے جسے اللہ پاک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے جاری فرمایا جس کا ذکر قرآن میں ہوا: وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ ترجمۂ کنزالعرفان : اور اس عظیم رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے ۔(پ 28،الصف:6)

علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں: قال العلماء: لم يسمّ به أحد قبل نبينا صلى الله عليه وسلم منذ خلق الله تعالى الدنيا. ترجمہ: علماء نے فرمایا: اللہ پاک نے جب سے دنیا بنایا ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے کسی کا نام احمد نہ ہوا۔ (سبل الهدى والرشاد، 1/416، دار الکتب العلمیہ)

(3) خاتم النبیین: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم خاتم النبیین بھی ہیں جس کا معنی ہے سب نبیوں میں آخر، کیونکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔ اللہ پاک نے قرآن میں فرمایا:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ ترجمہ کنزالعرفان: محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں ۔(پ 22،الاحزاب:40)

آپ کے خاتم النبیین ہونے کی کئی حکمتیں ہیں جس کا ذکر کرتے ہوئے علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں:إنه لو كان بعده نبي لكان ناسخاً لشريعته. ومن شرفه أن تكون شريعته ناسخة لكل الشرائع غير منسوخة. ولهذا إذا نزل عيسى صلى الله عليه وسلم فإنما يحكم بشريعة نبينا صلى الله عليه وسلم لا بشريعته، لأنها قد نسخت. ترجمہ: اگر آپ کے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ آپ کی شریعت کا ناسخ ہوتا، اور آپ کا شرف یہ ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوں کے لئے ناسخ ہو نہ کی منسوخ ہو، یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوگا تو وہ ہمارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شریعت کے مطابق فیصلے کریں گے نہ کہ اپنی شریعت کے مطابق، کیونکہ ان کی شریعت منسوخ ہو چکی۔(سبل الهدى والرشاد، 1/453، دار الکتب العلمیہ)

اگر "تاء" پر فتح کے ساتھ خاتَم پڑھا جائے تو اس کا معنی ہوگا:أنه أحسن الأنبياء خَلقاً وخُلُقاً، ولأنه صلى الله عليه وسلم جمال الأنبياء صلى الله عليه وسلم كالخاتم الذي يُتجمّل به. ترجمہ: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام انبیاء علیہم السلام سے خَلق اور خُلق کے اعتبار سے عمدہ ہیں، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء کا جمال ہیں جیسے وہ انگوٹھی جس سے جمال حاصل کیا جاتا ہے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/452، دار الکتب العلمیہ)

(4) نور: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵)ترجمہ کنزالعرفان:: بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آگیا اور ایک روشن کتاب۔(پ 6،المائدہ:15)

علامہ احمد صاوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:وسمي نورا لأنه ينور البصائر ويهديها للرشاد، ولأنه أصل كل نور حسي ومعنوي. ترجمہ: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نام اس آیت میں نور رکھا گیا اس لئے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بصیرتوں کو روشن کرتے اور انہیں رُشد و ہدایت فرماتے ہیں اور اس لئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہر نور حِسّی (وہ نور جسے دیکھا جا سکے) اور مَعْنَوِی (جیسے علم وہدایت) کی اصل ہیں۔(حاشیہ صاوی، 2 / 103)

علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:إنما سماه الله نورا لأنه يهتدى به كما يهتدى بالنور في الظلام. ترجمہ: اللہ پاک نے آپ کو نور اس لئے فرمایا کہ جس طرح اندھیرے میں نور کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔( تفسير الخازن لباب التأويل في معاني التنزيل، 2/24)

(5) رحمۃ للعالمین:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمہ کنزالعرفان: اور ہم نے تمہیں تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر ہی بھیجا۔(پ 17،الانبیاء:107)

علامہ صالح الشامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:فهو صلى الله عليه وسلم رحمة لجميع الخلق، المؤمن بالهداية والمنافق بالأمان من القتل، والكافر بتأخير العذاب عنه. ترجمہ: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوق کے لئے رحمت ہیں، مؤمن کے لئے ہدایت کے ذریعے، منافق کے لئے قتل سے امان کے ذریعے، اور کافر کے لئے عذاب کو مؤخر کر کے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/464، دار الکتب العلمیہ)

اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکادینے والا آفتاب۔ (پ 22،احزاب:45)

مذکورہ آیت میں اللہ پاک نے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے کئی اسمائے مبارکہ ذکر فرمائے، جن کی مختصر وضاحت ملاحظہ ہو:

(6) شاہد:اس کا معنی ہوتا ہے گواہ، علامہ صالح الشامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: أي على من بعثت إليهم مقبول القول عليهم عند الله تعالى كما يقبل الشاهد العدل. ترجمہ: یعنی جن کی طرف آپ کو مبعوث کیا ان لوگوں پر گواہ بنا کر بھیجا، ان کے بارے میں آپ کا قول عند اللہ اسی طرح مقبول ہے جیسا عادل گواہ کا ہوتا ہے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/474، دار الکتب العلمیہ)

(7) سراج: سراج کا کا معنی ہوتا ہے سورج، سراج کی وضاحت کرتے ہوئے سبل الهدى والرشاد میں ہے :وسمي سراجاً لإضاءة الدنيا بنوره، ومحو الكفر وظلامه بظهوره، وشبع بالشمس لأنه الغاية في النيرات. ترجمہ: سراج آپ کو اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ آپ نے دنیا کو اپنے نور سے منور کر دیا، اور اپنے ظہور سے کفر اور اس کی ظلمت کو مٹا دیا، سورج سے آپ کو اس وجہ سے تشبیہ دی گئی کیونکہ وہ بہت زیادہ روشن ہے۔

آگے مزید فرماتے ہیں: أنها سيّدة الأنوار الفلكية، وهو صلى الله عليه وسلّم سيد الأنبياء. ترجمہ: آپ کو سورج سے اس وجہ سے تشبیہ دی گئی کیونکہ سورج انوار فلکیہ کا سردار ہے، اور سردار دو جہاں صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم انبیاء علیہم السلام کے سردار ہیں۔(سبل الہدی والرشاد، 1/469، دار الکتب العلمیہ)

(8) منیر: اس کا معنی ہوتا ہے روشن کرنے والا، اس کی وضاحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: وقد وصف الله رسوله صلى الله عليه وسلم بالمنير ولم يصف الشمس إذ سمّاها بذلك لأنها خلقت من نوره ولأن دولتها في الدنيا فقط ودولته ونوره صلى الله عليه وسلم في الدنيا وفي الآخرة أعظم. ترجمہ: اللہ پاک اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا وصف منیر ذکر فرمایا لیکن سورج کا یہ وصف بیان نہیں کیا کیونکہ سورج کو آپ کے نور سے پیدا کیا گیا ہے، اور اس لئے کیونکہ سورج کا اقتدار صرف دنیا پر ہے اور آپ کی حکومت کا جھنڈا دنیا وآخرت دونوں جہاں میں لہرا رہا ہے۔ (سبل الهدى والرشاد، 1/469، دار الکتب العلمیہ)

اللہ پاک نے آپ کے اسمائے مبارکہ کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۘ(۱۰۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر خوشی اور ڈر سناتا۔(پ 15،بنی اسرائیل:105)

مذکورہ آیت میں نبی رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو اسماء مبارکہ ذکر ہوئے:

(9) مبشر (10) نذیر : "مبشر" کا معنی ہوتا ہے خوشخبری دینے والا، اور "نذیر" کا معنی ہے ڈر سنانے والا، ان دونوں ناموں کی وضاحت کرتے ہوئے امام قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

مبشرا لأهل طاعته بالثواب، ونذيرا لأهل معصيته بالعذاب.

ترجمہ: جو آپ کی اطاعت کرتے ہیں انہیں ثواب کی خوشخبری دیتے ہیں، اور گنہگاروں کو عذاب سے ڈرانے والے ہیں۔(المواهب اللدنيہ، 1/385، دار الکتب العلمیہ)

نذیر کے تعلق سے علامہ صالح الشامی فرماتے ہیں:وسمّي صلى الله عليه وسلم بذلك لأنه يخوّف الناس العذاب ويحذّرهم من سوء الحساب. ترجمہ: آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نذیر اس وجہ سے کہا گیا کیونکہ آپ لوگوں کو عذاب سے ڈراتے اور برے حساب سے خوف زدہ کرتے تھے۔(سبل الهدى والرشاد، 1/529، دار الکتب العلمیہ)

یہ چند وہ اسمائے مبارکہ ہیں جن کا ذکر قرآن مقدس میں ہوا، تفصیل کے لئے "سبل الهدى والرشاد" اور "المواهب اللدنيہ" وغیرہ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔

اللہ پاک اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبارک اسماء کا فیض خاص عطا فرمائے۔ اٰمین یا رب العالمین بجاہ سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم