فطرت کا تقاضا 

Thu, 7 Apr , 2022
3 years ago

اقوام عالَم کو درسِ صفائی:

سولہویں صدی عیسوی تک یورپ کے باشندے صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی سے ناواقف تھے ۔گندگی سے گھن کھانا تو دور کی بات ہے وہ تو جس مکان میں سوتے تھے اسی میں اپنے پالتوجانور باندھتے تھےاور گھر کے باہر کھلی گلیوں میں قضائے حاجت کرتے تھے ۔روشنی کا انتظام نہ ہونے کے باعث اگر کوئی اندھیرا چھاجانے کے بعد گھر سے باہر نکلتا تونجاست سے آلودہ ہوکر واپس آتا۔ مکان اورگلی کوچوں کی گندگی کے ساتھ ساتھ ان کے جسم اورروح بھی پراگندہ تھے ۔نہ انہیں قضائے حاجت وجنابت کے بعد استنجاوطہارت کا شعور تھا اور نہ ہی بلند پایہ اخلاق کی معرفت تھی ۔یہ تو اسلام کانور تھا جس نے اہل یورپ کوروشنی دی،انہیں نفاست وپاکیزگی کا طریقہ اوررہن سہن کا سلیقہ بتایا، انسانی فطرت کے تقاضوں سے آشنا کیا اور اعلیٰ اخلاقی اقدار سے روشناس کروایا۔اس کی وجہ علامہ عبدالرسول ارشد(گولڈ میڈلسٹ)کی زبانی ملاحظہ کیجئے :جب مسلمانوں کے شہر اپنی صفائی اور خوبصورتی کی وجہ سے دل ونگاہ کو اپنی طرف کھینچ رہے تھے ،اس وقت یورپ کے شہروں میں گندگی،غلاظت اور تاریکی کے سوا کچھ نہ تھا۔۔اور۔۔یہ انسانی فطرت ہے کہ اندھیروں میں بھٹکنے والا انسان اس طرف دوڑتا ہے جہاں اسے روشنی کی کرن نظر آتی ہے۔اہل یورپ نے بھی یہی کچھ کیا۔جب انہیں اپنے ہاں ہر طرف تاریک اور ظلمت نظر آئی تو انہوں نے علم، تہذیب،اخلاق اور خوش حالی کا درس لینے کے لئے مسلمانوں کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔

طہارتِ امت کافریضہ:

دین مبین نے نہ صرف اہل یورپ کو روشنی سے نوازابلکہ اپنے آفاقی پیغام اور فطرت سے کامل ہم آہنگی کی بدولت دنیا کی تمام ہی اقوام کونور بانٹا ہے۔اس مضمون میں ہم اسلام کے صرف اس پہلو پر گفتگو کریں گے کہ توحیدورسالت کی دعوت کے ساتھ ساتھ اسلام نے انسان کو نفاست وپاکیزگی کا تصور دیا اور اس پر کاربند رہنے کی تلقین کی ہے اور حضور خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے عظیم مقصد میں یہ بھی شامل تھا کہ امت کو نجاست وگندی سے پاک فرمائیں۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام نے تعمیرکعبہ کے بعد جو دعا فرمائی اس میں یہ بھی تھا : اے ہمارے رب ! ان میں ایسا رسول بھیج جو انہیں خوب ستھرا فرمادے۔۱،البقرۃ:۱۲۹) مفسرقرآن ابوالحسن علاء الدین علی بن محمد المعروف امام خازن رحمۃ اللہ علیہ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں: یعنی ایسا رسول جو انہیں شرک، بت پرستی، ہرقسم کی نجاست وگندگی،گھٹیاحرکتوں اور کوتاہیوں سے پاک کردے۔ (تفسیرخازن،ج۱،ص۹۲)پھر یہ کہ اسلام دین فطرت ہے اور صفائی ستھرائی اور طہارت وپاکیزگی فطرت کا تقاضا ہے۔حضورنبی طاہر ومطہر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: الفطرۃ خمس الختان والاستحداد وقص الشارب وتقلیم الأظفار ونتف الآباط یعنی پانچ چیزیں فطرت سے ہیں:(۱) ختنہ کرنا (۲)موئے زیر ناف صاف کرنا(۳) مونچھیں پست کرنا (۴) ناخن تراشنا (۵) اور بغل کے بال اکھیڑنا۔(صحیح بخاری،ج۴، ص۷۵، الحدیث:۵۸۹۱)

مسلمان کا اسلامی نشان:

صفائی ستھرائی کی اہمیت وافادیت کو اُجاگر کرتے ہوئے شیخ الحدیث حضرت علامہ عبدالمصطفی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں:صفائی ستھرائی کی مبارک عادت بھی مردوں اور عورتوں کے لیے نہایت ہی بہترین خصلت ہے جو انسانیت کے سر کا ایک بہت ہی قیمتی تاج ہے۔ امیری ہو یا فقیری ہر حال میں صفائی و ستھرائی انسان کے وقار و شرف کا آئینہ دار اور محبوبِ پروردگار ہے۔ اس لئے ہر مسلمان کا یہ اسلامی نشان ہے کہ وہ اپنے بدن، اپنے مکان و سامان، اپنے دروازے اور صحن وغیرہ ہر ہر چیز کی پاکی اور صفائی ستھرائی کا ہر وقت دھیان رکھے۔ گندگی اور پھوہڑ پن انسان کی عزت و عظمت کے بدترین دشمن ہیں اس لیے ہر مردو عورت کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کی عادت ڈالنی چاہیے۔ صفائی ستھرائی سے صحت و تندرستی بڑھتی رہتی ہے اور سینکڑوں بلکہ ہزاروں بیماریاں دور ہو جاتی ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کہ ’’اﷲتعالیٰ پاک ہے اور پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے‘‘۔(مشکوٰۃ المصابیح ،ج۲،ص۴۹۷، الحدیث : ۴۴۸۷) رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کو پھوہڑ اور میلے کچیلے رہنے والے لوگوں سے بے حد نفرت تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو ہمیشہ صفائی ستھرائی کاحکم دیتے رہتے اور اس کی تاکید فرماتے رہتے تھے۔پھوہڑ عورتیں جو صفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی ہیں وہ ہمیشہ شوہر کی نظروں میں ذلیل وخوار رہتی ہیں بلکہ بہت سی عورتوں کو ان کے پھوہڑ پن کی وجہ سے طلاق مل جاتی ہے اس لئے عورتوں کو صفائی ستھرائی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے۔(جنتی زیور،ص۱۳۹)

پاکیزگی آدھا ایمان:

یہ بھی ضروری ہے کہ بندہ ہر وقت بننے سنورنے ہی میں نہ لگا رہے کہ اس کی بھی ممانعت ہے بلکہ شرع میں جتنی صفائی مطلوب ہے وہ حسب قدرت وطاقت بجالائے ۔ ارشادِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے : تنظفوا بکل ما استطعتم فان اللّٰہ بنی الاسلام علی النظافۃ ولن یدخل الجنۃ الا کل نظیف ترجمہ:تم سے جتنا ممکن ہو صفائی رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی بنیاد صفائی پر رکھی ہے اور جنت میں وہی داخل ہوگا جو صاف ستھر اہوگا۔(جمع الجوامع،ج4،ص: 115) اسلام نے اپنے ماننے والوں کو ہر طرح کی صفائی کا حکم دیا ہے خواہ جسمانی ہو یا روحانی ،فرد کی ہو یا معاشرے کی ، گھر کی ہو یا مسجد کی یا پھر محلے کی ہو، الغرض اسلام جسم وروح ،دل ودماغ ،قرب وجواراورتہذیب وتمدن کو ستھرا رکھنے کا درس دیتا ہے ۔ اسے ہر جگہ ترتیب وسلیقہ اور نفاست وعمدہ مطلوب ومحبوب ہے اور گندگی وناپاکی اور غلاظت ونجاست ناپسند ہے۔ صفائی کی اہمیت بتاتے ہوئے حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’الطھورنصف الایمان یعنی پاکیزگی آدھا ایمان ہے۔‘‘ (سنن الترمذی ،ج ۵،ص۳۰۸،الحدیث: ۳۵۳۰)

جسمانی صفائی کتنے دن بعد ؟

جسم کی صفائی کے متعلق اول الذکر حدیث فطرت میں پانچ طرح کی صفائی کو بیان کیا گیا ہے،اول ختنہ کہ سنت ہے اور یہ شعار اسلام میں ہے کہ مسلم وغیرمسلم میں اس سے امتیاز ہوتا ہے اسی لیے عرف عام میں اس کو مسلمانی بھی کہتے ہیں۔ختنہ کی مدت سات سال سے بارہ سال کی عمرتک ہے اور بعض علما نے یہ فرمایا کہ ولادت سے ساتویں دن کے بعد ختنہ کرنا جائز ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۹)باقی چارچیزوں کے متعلق صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہرجمعہ کو اگر ناخن نہ ترشوائے تو پندرھویں دن ترشوائے اور اس کی انتہائی مدت چالیس ۴۰ دن ہے اس کے بعد نہ ترشوانا ممنوع ہے۔ یہی حکم مونچھیں ترشوانے اور موئے زیر ِ ناف دور کرنے اور بغل کے بال صاف کرنے کا ہے کہ چالیس دن سے زیادہ ہونا منع ہے۔ صحیح مسلم کی حدیث انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے، کہتے ہیں کہ’’ناخن ترشوانے اور مونچھیں کاٹنے اور بغل کے بال صاف کرنے میں ہمارے لیے یہ میعاد مقرر کی گئی تھی کہ چالیس دن سے زیادہ نہ چھوڑیں۔‘‘(صحیح مسلم ، ص۱۵۳،الحدیث:۲۵۸)مزید فرماتے ہیں : موئے زیر ناف دور کرنا سنت ہے۔ ہر ہفتہ میں نہانا، بدن کو صاف ستھرا رکھنا اور موئے زیر ناف دور کرنا مستحب ہے اور بہتر جمعہ کا دن ہے اور پندرھویں روز کرنا بھی جائز ہے اور چالیس روز سے زائد گزار دینا مکروہ و ممنوع۔ موئے زیر ناف استرے سے مونڈنا چاہیے اور اس کو ناف کے نیچے سے شروع کرنا چاہیے اور اگر مونڈنے کی جگہ ہرتال چونا یا اس زمانہ میں بال اڑانے کا صابون چلا ہے، اس سے دور کرے یہ بھی جائز ہے(بال صفاپاؤڈراور کریم وغیرہ بھی اسی حکم میں داخل ہیں)، عورت کو یہ بال اکھیڑ ڈالنا سنت ہے۔(بہارشریعت،ج۳،ص۵۸۴)ممکن ہوتو ہر جمعہ کو یہ کام کر لینے چاہیں کیونکہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن نماز کوجانے سے پہلے مونچھیں کترواتے اور ناخن ترشواتے۔ (شعب الایمان،ج۳،ص۲۴ ،الحدیث:۲۷۶۳)

دس چیزوں کی صفائی:

حجۃ الاسلام امام محمدبن محمد غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :طہارت حاصل کرنے والے کو چاہیے کہ پاکیزگی حاصل کرے، مونچھوں کو پست کرے، بغلوں کے بال اکھیڑے، موئے زیرِناف مونڈے، ناخن کاٹے، ختنہ کرے،وضو میں ہاتھ پاؤں کی انگلیوں کے جوڑاچھی طرح دھوئے، ناک کی صفائی کاخاص خیال رکھےاور کپڑوں اوربدن کی پاکیزگی کا خوب اہتمام کرے۔(رسائل امام غزالی ،ص۴۰۷) ۔۔صفائی اور پاکیزگی سے متعلق یہ وہ چیزیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام پر بھی لازم تھیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: وہ دس چیزیں جوحضرت ابراہیم علیہ السلام پرواجب تھیں وہ یہ ہیں:(۱) مونچھیں کتروانا(۲) کلی کرنا (۳) ناک میں صفائی کے لئے پانی استعمال کرنا (۴)مسواک کرنا (۵) سر میں مانگ نکالنا (۶) ناخن ترشوانا (۷) بغل کے بال دور کرنا (۸) موئے زیر ناف کی صفائی(۹) ختنہ (۱۰) پانی سے استنجا کرنا۔صدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ یہ قول نقل کرنے کے بعدفرماتے ہیں: یہ سب چیزیں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر واجب تھیں اور ہم پر ان میں سے بعض واجب ہیں بعض سنت۔ (خزائن العرفان،سورۃ البقرۃ، تحت الایۃ:۱۲۴)

خِلال بھی صفائی ہے:

ظاہری جسم کی صفائی میں اس قدر مبالغہ اور باریک بینی دین اسلام کا خاصہ اور طرۂ امتیاز ہے۔یہاں تک آیا ہے کہ کھانے کے بعدلکڑی وغیرہ سے دانتوں کا خلال کیا جائے اوردوران وضو اپنے ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور داڑھی کے بالوں کا خلال کیاجائے اور یہ مستحب ہے ۔سراپا پاکیزہ ونفیس حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: تخللوا فإنہ نظافۃ والنظافۃ تدعو إلی الإیمان والإیمان مع صاحبہ فی الجنۃ ترجمہ :خلال کیا کرو کیونکہ یہ صفائی ہے اور صفائی ایمان کی طرف بلاتی ہے اور ایمان مومن کے ساتھ جنت میں ہوگا۔(المعجم الاوسط،ج۷،ص:۲۱۵)دانتوں کی صفائی کے لئے خِلال نیم کی لکڑی کا ہوکہ اس کی تلخی سے منہ کی صفائی ہوتی ہے اور یہ مسوڑھوں کیلئے مفید ہوتی ہے۔ بازاریTOOTH PICKS عموماً موٹی اور کمزور ہوتی ہیں۔ ناریل کی تیلیوں کی غیرمستعمل جھاڑو کی ایک تیلی یا کھجور کی چٹائی کی ایک پٹی سے بلیڈ کے ذریعے کئی مضبوط خِلا ل تیار ہو سکتے ہیں۔بعض اوقات منہ کے کونے کے دانتوں میں خلا ہوتا ہے اوراس میں بوٹی وغیرہ کاریشہ پھنس جاتا ہے جوکہ تنکے وغیرہ سے نہیں نکل پاتا۔ اس طرح کے ریشے نکالنے کیلئے میڈیکل اسٹور پر مخصوص طرح کے دھاگے (flosses) ملتے ہیں نیز آپریشن کے آلات کی دکان پر دانتوں کی اسٹیل کی کریدنی (curved sickle scale) بھی ملتی ہے مگر ان چیزوں کے استعِمال کا طریقہ سیکھنا بہت ضروری ہے ورنہ مسوڑھے زخمی ہو سکتے ہیں۔(فیضان سنت،ج۱،ص۲۸۹)

صفائی کی اہمیت پراحادیث مبارکہ:

دین اسلام میں ظاہری بدن کے ساتھ لباس ،بالوں اور استعمال کی دیگر چیزوں کی صفائی پر بھی بہت زور دیا گیا ہے۔ ان چیزوں کی صفائی ستھرائی کے بارے میں بھی کثیراحادیث وآثار وارد ہیں۔چند روایات ملاحظہ کیجئے :

{1}حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اپنے کپڑے دھوؤ،بالوں کو سنوارو،مسواک کرو،زینت اپناؤاور صفائی ستھرائی رکھو کیونکہ بنی اسرائیل ایسا نہیں کرتے تھے تو ان کی عورتیں بدکاری میں مبتلا ہوگئیں۔ (کنزالعمال،ج۳،جزء۶،ص۲۷۳، الحدیث: ۱۷۱۷۱) {2} حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: من کرامۃ المؤمن علی اللہ نقاء ثوبہ ورضاہ بالیسیر ترجمہ: بندہ مومن کی بارگاہِ الہٰی میں عزت وکرامت سے یہ بھی ہے کہ اس کے کپڑے صاف ہوں اور وہ تھوڑے پر راضی رہے۔(المرجع السابق ،الحدیث:۱۷۱۸۲)علامہ عبدالروف مناوی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں :تھوڑے پر راضی رہنے سے مراد لباس،کھانے ،پانی اور مال ودولت میں کمی پر راضی رہنا ہے اور لباس میں یہ بات پسندیدہ ہے کہ وہ صاف ستھرا ہو اور متوسط درجے کا ہو۔ (التیسیرشرح الجامع الصغیر،ج۲،ص۷۴۱) {3} حضرت عطاء بن یساررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا جس کے سر اور داڑھی کے بال بکھرے ہوئے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اس کی طرف اشارہ کیا گویا اسے اپنے بال اور ڈاڑھی کی درستی کا حکم دے رہے ہیں ۔وہ درست کرکے حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: ألیس ہذا خیرا من أن یأتی أحدکم وہو ثائر الرأس کأنہ شیطان یعنی کیا یہ اس سے بہتر نہیں کہ تم میں سے کوئی شیطان کی طرح سر بکھیرے ہوئے آئے۔(مشکوۃ المصابیح ،ج۱،ص۱۳۷،الحدیث:۴۴۸۶) {4} حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی طرح کی ایک روایت ہے ۔آپ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے گھر ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ایک بکھرے بالوں والے کو دیکھا تو فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں جس سے اپنے بالوں کو سنوارے اور ایک میلے کپڑوں والے شخص کو دیکھ کر فرمایا:کیا اس کے پاس کوئی ایسی شے نہیں جس سے اپنے کپڑے دھو لے۔ (مسند ابی یعلی ،ج۲،ص ۲۷۷،الحدیث:۲۰۲۲) {5}حضرت ابوقتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری خوبصورت گھنی زلفیں تھیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:’’ان کا اچھی طرح خیال رکھنا۔‘‘تومیں دن میں ان کو دومرتبہ تیل لگاتا تھا۔(حلیۃ الاولیا،ج۳،ص۱۸۴،الحدیث:۳۶۳۸)

مسواک کی ضرورت واہمیت:

منہ کی صفائی وپاکیزگی بھی ظاہری جسم کی صفائی میں داخل ہے اور اس صفائی کے لئے مسواک سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور اس کی بڑی تاکید آئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے انہوں نے مجھے مسواک کرنے کی وصیت کی حتی کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ مجھ پر اور میری امت پر فرض نہ ہوجائے اور اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں پڑنے کاخوف نہ ہوتاتومیں ان پر مسواک کرنا فرض کردیتااور میں اس قدر مسواک کرتا ہوں کہ مجھے خوف ہے کہ کہیں اپنے اگلے دانت زائل نہ کرلوں۔(سنن ابن ماجہ ، ج ۱، ص۱۸۶، الحدیث: ۲۸۹)اورایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلمکا معمول تھا کہ جب گھر میں داخل ہوتے تو سب سے پہلے مسواک کیا کرتے ۔(صحیح مسلم،ص۱۵۲،الحدیث:۲۵۳)

اگر چہ منجن ، ٹوٹھ پیسٹ اور ماؤتھ واش سے بھی منہ کی صفائی ہوجاتی ہے مگران سے مسواک والا ثواب حاصل نہ ہوگا جبکہ مسواک عبادت کی نیت سے ہو ۔کیونکہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا: مسواک کولازم کرلو کہ یہ منہ کی صفائی اور رب تعالیٰ کی رضا کاسبب ہے۔(مسنداحمد ،ج۲،ص۴۳۸،الحدیث:۵۸۶۹)اس حدیث شریف کی شرح کرتے ہوئے حکیم الامت مفتی احمد یارخان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔خیال رہے کہ مسواک سے مسلمان کا مسواک کرنابنیت عبادت مراد ہے،کفار کی مسواک اورمسلمانوں کی عادتًا مسواک اگرچہ منہ تو صاف کردے گی مگر رضائے الٰہی کا ذریعہ نہ بنے گی نیز اگرچہ مسواک میں دنیوی اور دینی بہت فوائد ہیں،مگر یہاں صرف دو فائدے بیان ہوئے،یا اس لئے کہ یہ بہت اہم ہیں یا کیونکہ باقی فوائد بھی ان دو میں داخل ہیں۔منہ کی صفائی سے معدے کی قوت اور بے شمار بیماریوں سے نجات ہے اور جب رب راضی ہوگیا پھر کیا کمی رہ گئی۔(مراٰۃ المناجیح ،ج۱،ص۳۶۳)

عبادات اور مسواک:

خاص طور پر نماز سے قبل مسواک ضرورکی جائے کہ اس سے منہ کی صفائی کے ساتھ ساتھ نماز کا ثواب بڑھ جاتا ہے نیزاس میں فرشتوں کی راحت کا سامان بھی ہے۔ارشادنبوی صلی اللہ علیہ وسلمہے:مسواک کے ساتھ دو رکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعتیں پڑھنے سے افضل ہے ۔ (الترغیب والترہیب، ج ۱، ص ۱۰۲،الحدیث:۱۸)اور ایک موقع پر ارشادفرمایا: جب تم میں سے کوئی رات کو نمازکے لئے کھڑا ہو تواسے مسواک کرلینی چاہئے کیونکہ جب وہ نماز میں قرا ء ت کرتا ہے توفرشتہ اپنا منہ اس کے منہ پر رکھ لیتا ہے اور جو چیز اس کے منہ سے نکلتی ہے وہ فرشتے کے منہ میں داخِل ہوجاتی ہے۔(شعب الایمان،ج۲،ص۳۸۱، الحدیث:۲۱۱۷)اور اگر کوئی نمازی مسواک وغیرہ سے دانتوں میں پھنسے ریزے وریشے وغیرہ نہیں نکالتا تو اس سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔مروی ہے کہ دونوں فرشتوں کے لئے اس سے زیادہ کوئی چیزتکلیف دہ نہیں کہ وہ اپنے ساتھی کونماز پڑھتا دیکھیں اور اس کے دانتوں میں کھانے کے رَیزے پھنسے ہوں۔(المعجم الکبیر،ج۴،ص۱۷۷، الحدیث:۴۰۶۱)

نماز کی طرح تلاوت اورذکرودعا کے لئے بھی مسواک کی رعایت رکھنا چاہیے ۔حدیث شریف میں ہے : طیبوا افواھکم فانہا طرق القراٰن یعنی اپنے منہ صاف رکھو کیونکہ یہ قرآن کا راستہ ہیں۔( کنز العمال،ج۱،ص۶۰۳،الحدیث: ۲۷۵۲) اوررئیس المتکلمین مولانا نقی علی خان حنفی رحمۃ اللہ علیہ’’احسن الوعالآداب الدعا‘‘میں دعاکا ۵۳واں ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جب قصدِ دعا ہو پہلے مسواک کر لے کہ اب اپنے رب سے مناجات کریگا، ایسی حالت میں رائحہ متغیرہ (یعنی منہ کی بدبو) سخت ناپسند ہے خصوصاً حقّہ پینے والے، خصوصاً تمباکو کھانے والوں کو اس ادب کی رعایت ذکر ودعا ونماز میں نہایت اہم ہے، کچا لہسن پیاز کھانے پر حکم ہوا کہ مسجد میں نہ آئے۔(صحیح مسلم، ص۲۸۲، الحدیث: ۵۶۴)وہی حکم یہاں بھی ہوگا، مع ہذا حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلمفرماتے ہیں:”مسواک رب کو راضی کرنے والی ہے۔“(صحیح بخاری،ج۱،ص۶۳۷،الحدیث:۱۹۳۳) اور ظاہر ہے کہ رضائے رب باعثِ حصولِ اَرب ہے (یعنی اللہ تعالیٰ کی رضا مراد ملنے کا سبب ہے)۔(فضائل دعا،ص۱۰۸)

گھر اور محلے کی صفائی:

انسانی طبیعت اپنے قرب وجوار سے بہت جلد اثر قبول کرتی ہے اور اچھے یا برے ماحول کے اثرات انسان پرضرور مرتب ہوتے ہیں خواہ معاملہ معاشرتی برائیوں اوربدکرداریوں کا ہو یا کچرے ،غلاظت اور نجاست کے ڈھیروں کا ہو لہٰذاانسان جس گھر ،محلے اور علاقے میں رہتا ہے اس کا صاف ستھرا ہونا بھی انتہائی ضروری ہے ۔گھر اور علاقے کا صاف ستھرا ہونا افرادِ معاشرہ کی نفاست،اچھے مزاج،پروقارزندگی اور خوبصورت سوچ کی عکاسی کرتا ہے ۔حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : إن اللہ طیب یحب الطیب نظیف یحب النظافۃ کریم یحب الکرم جواد یحب الجود فنظفوا افنیتکم ولا تشبہوا بالیہود ترجمہ: اللہ تعالیٰ پاک ہے پاکی کو پسند فرماتا ہے ،ستھرا ہے ستھرے پن کو پسند کرتا ہے،کریم ہے کرم کو پسند کرتا ہے ،جواد ہے سخاوت کو پسند فرماتا ہےتو تم اپنے صحنوں کوصاف ستھرا رکھو اوریہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ کرو۔(سنن الترمذی،ج۴،ص۳۶۵،الحدیث:۶۸۰۸)

ایک حدیث شریف میں یوں ہے : فنظِّفوا عَذِراتِكم ولا تَشبَّهوا باليَهود تجمع الأكْباء في دْورها ترجمہ:تم اپنے صحنوں کو صاف رکھو اور یہود سے مشابہت نہ کرو کیونکہ ان کے گھروں میں کچرے ڈھیر رہتے ہیں۔(غریب الحدیث لابن قتیبۃ،ج۱،ص۲۹۷)اس حدیث پاک میں ہمیں یہ درس دیا گیا ہے کہ اپنے گھر صاف رکھو ۔لباس، بدن وغیرہ کی صفائی تو بہت ہی ضروری ہے گھر بھی صاف رکھو وہاں کوڑا جالا وغیرہ جمع نہ ہونے دو اور اپنے صحن صاف رکھ کر یہود کی مخالفت کروکیونکہ یہود اپنے گھر کے صحن صاف نہیں رکھتے نیز یہود بہت گندے، بہت بخیل، بڑے خسیس ،بڑے ذلیل ہیں عیسائی اگرچہ کافر ہیں مگر وہ یہود کی طرح گندے نہیں ان میں کچھ صفائی ہے اگرچہ ان کے بھی دانت میلے منہ بدبو دار اور ناخن لمبے ہوتے ہیں۔ ہر طرح کی صفائی تو اسلام نے ہی سکھائی ہے۔(ماخوذ ازمراۃ المناجیح،ج۶،ص،ملخصاً) ۔

مسجد کی صفائی کا حکم:

ایک بندہ ٔمومن کااپنے گھر کے علاوہ مسجد سے بھی گہرا تعلق ہوتا اور وہ بارباریا وقتا فوقتا وہاں حاضری کی سعادت پاتا رہتا ہے اور اپنے خالق ومالک کے حکم کی بجاآوری میں عبادت وریاضت سے مشرف ہوتا ہے۔لہٰذا اس کی صفائی وستھرائی بھی ضروری ہے۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:وَعَہِدْنَاۤ اِلٰۤی اِبْرٰہٖمَ وَ اِسْمٰعِیۡلَ اَنۡ طَہِّرَا بَیۡتِیَ لِلطَّآئِفِیۡنَ وَالْعٰکِفِیۡنَ وَالرُّکَّعِ السُّجُوۡدِترجمہ :اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسمٰعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتکاف والوں اور رکوع و سجود والوں کے لئے۔ ۱،البقرۃ:۱۲۵)نیزصدرالافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ سورۃ توبہ کی آیت ۱۸کے تحت رقم طراز ہیں:اس آیت میں یہ بیان کیا گیا کہ مسجدوں کے آباد کرنے کے مستحق مؤمنین ہیں۔ مسجدوں کے آباد کرنے میں یہ امور بھی داخل ہیں جھاڑو دینا ، صفائی کرنا ، روشنی کرنا اور مسجدوں کو دنیا کی باتوں سے اور ایسی چیزوں سے محفوظ رکھنا جن کے لئے وہ نہیں بنائی گئیں ۔ مسجدیں عبادت کرنے اور ذکر کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں اور علم کا درس بھی ذکر میں داخل ہے۔(خزائن العرفان)

مسجد کی صفائی کرنا باعث اجروثواب ہے اور صفائی کرنے والوں کا مرتبہ بڑا بلند ہے۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی جوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا ۔ایک بار حضورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے موجودنہ پایا تو اس کے متعلق دریافت کیا ۔صحابہ کرام نے عرض کی:وہ تو فوت ہوگیا ۔ارشادفرمایا:کیا تم مجھے اس کی خبر نہیں دے سکتے تھے؟بقول راوی شاید لوگوں نے اس کے معاملے کو چھوٹا خیال کرکے خبر نہ دی ۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :مجھے اس کی قبر پر لے چلو ۔قبر پر پہنچ کر آپ نے اس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا:بے شک یہ قبریں اندھیرے سے بھری ہوئی ہیں اور اللہ تعالیٰ میرے ان پرنماز پڑھنے کی برکت سے ان کو روشن ومنورفرمادے گا۔‘‘(صحیح مسلم ، ج ۱ ،ص ۴۷۶ ، الحدیث:۹۵۶)اسی طرح مسجد کی صفائی کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:مسجد کی صفائی کرنا بڑی بڑی آنکھوں والی حوروں کا حق مہر ہے۔(المعجم الکبیر، الحدیث۲۵۲۱، ج۳، ص۱۹)

ظاہر کے ساتھ باطن کی صفائی:

ظاہرکی صفائی کے مقابلے میں باطن کی صفائی زیادہ اہم ہے۔انسان اگر صرف اپنا ظاہر صاف ستھرا رکھے مگر باطن طرح طرح کی نجاستوں سے آلودہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک امر ہے، کیونکہ باطن یعنی دل کی صفائی پورے جسم کو فیض یاب کرتی ہے اور اس کی درستی کی ضمانت ہے۔حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله وإذا فسدت فسد الجسد كله ألا وهي القلب ترجمہ:بے شک جسم میں ایک لوتھڑا ہے اگر یہ درست ہوجائے تو پوراجسم درست ہوجائے اور اگر یہ خراب ہوجائے تو پوراجسم خراب ہوجائے ۔سُن لو وہ دِل ہے۔(صحیح بخاری،ج۱، ص۳۳، الحدیث:۵۲) اوردل کادرست اورسلامتی والا ہونا یہ ہے کہ وہ کفر، گناہوں کے اِرتکاب اور تمام قباحتوں(یعنی برائیوں اور خرابیوں) سے پاک ہو۔(تفسیر بیضاوی،ج۴،ص۲۴۴)حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے :’’بُنِیَ الدِّیْنُ عَلَی النَّظَافَۃِ ترجمہ:دین کی بنیاد طہارت پر ہے۔‘‘(المجروحین لابی حاتم ،ج۲،ص۴۰۱، الحدیث :۱۱۱۹)حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس کی شرح میں فرماتے ہیں :’’یہاں طہارت سے مراد صرف کپڑوں کا صاف ہونا ہی نہیں بلکہ دل کی صفائی بھی مراد ہے۔ اس پریہ فرمانِ الہٰی دلیل وحجت ہے:اِنَّمَا الْمُشْرِکُوۡنَ نَجَسٌ ترجمہ: مشرک نرے ناپاک ہیں۔۱۰ ،التوبہ:۲۸) اس آیت مبارکہ سے ظاہر ہوا کہ نجاست صرف کپڑوں کے ساتھ خاص نہیں کیونکہ جب تک باطن خبائث سے پاک نہ ہو اس وقت تک علمِ نافع حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی علم کے نور سے انسان روشنی پاسکتا ہے۔(لباب الاحیاء،ص۳۲)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:’’ہرچیز کے لئے کوئی نہ کوئی صفائی کرنے والی شے ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی خدا کے ذکر سے ہوتی ہے۔‘‘(الترغیب والترہیب، ج۲،ص۲۵۴، الحدیث:۱۰)

اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے:

باری تعالیٰ کوطہارت و صفائی اس قدر محبوب ہےکہ اس نے صفائی اپنانے والے کو اپنا محبوب وپیارا قرار دیا ہے۔ارشادِ الہٰی ہے: وَاللہُ یُحِبُّ الْمُطَّہِّرِیۡنَ ترجمہ : اور ستھرے اللہ کو پیارے ہیں۔۱۰،التوبہ:۱۰۸)نیزاس کا اندازہ اُخروی چیزوں میں پاکیزگی وطہارت اور عمدگی ونفاست کے اہتمام سے بھی لگایا جاسکتا ہے ۔اس نے جنت بنائی تو انتہائی صاف ستھری ،وہاں بسنے والوں کو پسینہ نہیں آئے گا،ان کے بدن میلے نہیں ہوں،بول وبراز کی اذیت سے محفوظ ہوں گے،جنتی حوروں کو انتہائی پاکیزہ بنایا۔ارشادربانی ہے:کَاَنَّـہُنَّ الْیَاقُوۡتُ وَ الْمَرْجَانُترجمہ:(صفائی وخوش رنگی میں )گویا وہ یاقوت اور مونگا ہیں۔۲۷،الرحمن:۵۸) حدیث شریف میں ہے کہ جنّتی حوروں کے صفائے ابدان کا یہ عالَم ہے کہ ان کی پنڈلی کا مغز اس طرح نظر آتا ہے جس طرح آبگینہ کی صراحی میں شرابِ سرخ۔(خزائن العرفان)دوسرے مقام پرفرمایا:کَاَمْثٰلِ اللُّؤْلُؤَ الْمَکْنُوۡنِترجمہ:جیسے چُھپے رکھے ہوئے موتی۲۷،الواقعۃ:۲۳) یعنی جیسا موتی صدف میں چُھپا ہوتا ہے کہ نہ تو اسے کسی کے ہاتھ نے چھوا ، نہ دھوپ اور ہوا لگی اس کی صفائی اپنی نہایت پر ہے اس طرح حوریں اچھوتی ہوں گی ۔(خزائن العرفان)اور جنت کی شراب کے ستھرا ہونے کو یوں بیان فرماتا ہے:وَ سَقٰىہُمْ رَبُّہُمْ شَرَابًا طَہُوۡرًا ترجمہ :اور انہیں ان کے رب نے ستھری شراب پلائی۔۲۹،الدھر:۲۱)جو نہایت پاک صاف ، نہ اسے کسی کا ہاتھ لگا، نہ کسی نے چھوا ، نہ وہ پینے کے بعد شرابِ دنیا کی طرح جسم کے اندر سڑ کر بول بنے ، بلکہ اس کی صفائی کا یہ عالَم ہے کہ جسم کے اندر اتر کر پاکیزہ خوشبو بن کر جسم سے نکلتی ہے اہلِ جنّت کو کھانے کے بعدشراب پیش کی جائے گی ، اس کو پینے سے ان کے پیٹ صاف ہوجائیں گے اور جو انہوں نے کھایا ہے وہ پاکیزہ خوشبو بن کر ان کے جسموں سے نکلے گا اور ان کی خواہشیں اور رَغْبَتِیں پھرتازہ ہوجائیں گی۔(خزائن العرفان)

موجودہ مسلمان اور صفائی کا فقدان:

ہم نے مضمون کے شروع میں غیرمسلموں کی غیرفطری اور ناپسندیدہ روش کا تذکرہ کیا کہ وہ نفاست وپاکیزگی سے دور تھے اور یہ اسلام کا احسان تھا کہ انہوں نے صفائی ستھرائی کو کسی حد تک اختیار کیا مگر جب ہم آج کے دور میں خود اسلام کے پیروکاروں کو دیکھتے ہیں تو ان میں بھی ہمیں ایک تعداد ایسی ملتی ہے جو طہارت وپاکیزگی اور صفائی ستھرائی کے معاملے میں سست روی کا شکار ہے۔کسی مسلمان نے لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی ہیں تو کسی کو اظفارطویلہ یعنی لمبے ناخنوں کا شوق ہے بالخصوص عورتوں میں یہ مرض زیادہ ہے۔کوئی مسلمان میلے کچلے کپڑوں میں گھن محسوس نہیں کرتا توکوئی اپنے پسینے اور منہ کی بدبو سے آس پاس کا ماحول ’’مہکا ‘‘رہا ہوتا ہے ۔کوئی پان کھا کر دانتوں کی صفائی نہیں کرتا تو کسی نے سگریٹ پی پی کر سامنے کے دانت پیلے کر رکھے ہوتے ہیں۔ کوئی گٹکا کھا کر فٹ پاتھ،دکان ومکان کی دہلیز،دفاترومارکیٹس کے مخصوص کونے کھدرےرنگین کررہا ہوتا تو کوئی بس وغیرہ کی کھڑکی سے پیچھے آنیوالے موٹر سائیکل سوار کو اپنے پان یا گٹکے کی پچکاری سےصبروبرداشت کا’’درس‘‘ دے رہاہوتا ہے ۔کوئی اپنی بلڈنگ سے کچرے کا تھیلا باہر گلی میں پھینک کر اپنی ’’شرافت ونفاست‘‘کا مظاہرہ کررہا ہوتا ہے تو کوئی اپنے گھرکا کوڑاکرکٹ جمع کرکےکسی چوراہے یا گلی کے نکڑ کی’’ زینت‘‘ بنا رہا ہوتاہے۔ کوئی غسل جنابت میں سستی کرکے اپنے گھر کو رحمت کے فرشتوں کے لئے ”نوگوایریا“بنارہا ہے توکوئی ”اندرونی صفائی“سے غفلت برت کرفطرت سے ’’جنگ“ کررہا ہے ۔الغرض یہ سب ہمارے گردوبیش میں رہنے والے افراد کر رہے ہیں ۔وہ اسلام جس نے غیروں کو صفائی ستھرائی کا خوگر کیا آج اس کے بعض اپنوں میں طہارت وپاکیزگی مفقود ہے اور گندگی وناپاکی ان کی سِرشت وپہچان بنی ہوئی ہے ۔بہر حال مسلمان کو اپنے ظاہر وباطن دونوں کی صفائی کا خیال رکھنا چاہیے۔ ظاہر کو نجاست، غلاظت،گندگی اور میل کچیل وغیرہ سے اور باطن کو کینۂ مسلم ، غرو ر وتکبر اوربغض وحسد وغیرہ ر ذائل سے پاک وصاف رکھے۔ باطن کی صفائی کے لئے اچھی صحبت بے حد مفید ہے۔ ظاہروباطن کو صاف رکھنارب تعالیٰ کو محبوب،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند،صحت وتندرستی کی ضمانتاور فطرت کا تقاضاہے۔

محمد آصف اقبال عطاری مدنی

سینئر اسکالر اسلامک ریسرچ سینٹر دعوتِ اسلامی(المدینۃ العلمیہ)


گزشتہ دنوں ننکانہ ڈسٹرکٹ کے نگران محمد شکیل عطاری کے والد کا رضائے الٰہی سے انتقال ہوگیا جس پر دعوتِ اسلامی کے ذمہ دار اسلامی بھائیوں نے اُن سے تعزیت کی۔

تفصیلات کے مطابق مرحوم کی نمازِ جنازہ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی یعفور رضا عطاری نے پڑھائی جبکہ نمازِ جنازہ کے بعد مرحوم کے لئے فاتحہ خوانی کا سلسلہ بھی رہا۔

رکنِ شوریٰ نے مرحوم کے اہلِ خانہ سے تعزیت کرتے ہوئے انہیں صبر کی تلقین کی اور مرحوم کے لئے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرنے کا ذہن دیا۔(رپورٹ:غلام یاسین عطاری دفتر ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


یکم رمضانُ المبارک سے پاکستان کے مختلف شہروں میں دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام ایک ماہ کے اعتکاف کا انعقاد کیاگیا ہے جس میں کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی ہے۔

اسی سلسلے میں مدنی مرکز فیضانِ مدینہ فیصل آباد میں اعتکاف کرنے والے عاشقانِ رسول کے درمیان تفسیر سننے سنانے کا حلقہ لگایا گیا جس میں رکنِ مرکزی مجلسِ شوریٰ و نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے قراٰنِ پاک کی تفسیر پڑھ کر اسلامی بھائیوں کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی۔اس کے علاوہ نگرانِ پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے حلقے کے اختتام پر رقت انگیز دعا بھی کروائی۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالواپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ماہِ رمضان کی برکات

Thu, 7 Apr , 2022
3 years ago

رمضان اور قرآن:

خُدائے رحمن عزوجل کا اپنے رسولِ ذیشان صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اُمت پر یہ عظیم احسان ہے کہ انہیں قرآن اوررَمضان عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے اِن دونوں احسانات پر غور کیا جائے تو ان میں باہم ایک حسین اِمتزاج نظر آتا ہے۔ اگر رَمضان کی فضیلت جاننی ہو تو قرآنِ مجید بُرہانِ رشید اِس پر ناطق ہےاور اگر قرآن کے نُزول کاذکر کیا جائے تو قرآنِ کریم خود خبر دیتا ہے کہ نزولِ قرآن ماہِ رمضان ہی میں ہواہے۔چنانچہ خدائے مہربان عزوجل ارشاد فرماتاہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ([1])

ترجمۂ کنز الایمان: رمضان کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔

خلیفۂ اعلیٰ حضرت،صدرالاَفاضل سیّد مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آیتِ مبارَکہ کے اِس حصّے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’اس کے معنی میں مفسّرین کے چند اقوال ہیں:(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا (۲) یہ کہ قرآن کریم کے نزول کی اِبتداء رمضان میں ہوئی (۳) یہ کہ قرآن کریم بِتَمامِہٖ (پورا پورا) رمضان مبارک کی شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف اتارا گیا اور بیتُ العزّت میں رہا ، یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب ِاِقتضائے حکمت جتنا جتنا منظورِ الٰہی ہوا جبرئیل امین لاتے رہے، یہ نُزول تئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔‘‘([2])

مفسِّرشہیر ، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اسی (رمضان کے)مہینہ میں قرآن کریم اُترا اور اسی مہینہ کا نام قرآن شریف میں لیا گیا ۔‘‘([3])

مہینوں کا سردار:

اللہ ربُّ العزت نے اپنی مخلوقات میں بعض کو بعض پر افضلیت او ر بُزرگی بخشی ہے۔ اَفضلیت اور بُزرگی کا یہ تسلسل ہمیں مخلوقات کے ہر ہر طبقے میں نظر آتاہے۔دیگر مہینوں میں اگر ماہِ رمضان کی قدر و منزلت معلوم کرنی ہو تو سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ

"سَیِّدُ الشُّھُوْرِ رَمَضَانُ وَسَیِّدُ الْاَیَّامِ یَوْمُ الْجُمُعَۃِ([4])

یعنی ،سارے مہینوں کا سردار رَمضان ہے اورتمام دِنوں کا سردار جمعہ کا دِن ہے۔

جنّت اور آسمانوں کے دروازے:

ماہِ رَمضان کی تو دُنیا میں کیا آمد ہوتی ہے،قُدرت کی جانب سے خصوصی اِہتمام ہونے لگتے ہیں۔ مسلمانانِ عالَم کیلئے رحمتوں کے پیام آتے ہیں اور ہر سُو اَنوار و برکات کا ظُہور ہوتاہے۔ اِیمانی جذبے کو خوب حرارت ملتی ہے، گناہوں کا زور ٹوٹتا ہے اور مختلف قسم کے نیک اَعمال کا سلسلہ مسلمانوں میں عام ہو جاتاہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کی چند وُجوہات اَحادیثِ مبارَکہ میں بیان کی گئی ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان روایت کیا گیا ہےکہ :

إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ. ([5])

یعنی، جب رمضان آتا ہے تو جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔

اِسی میں ایک فرمانِ رسالت یوں روایت کیا گیا ہے کہ:

إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ. ([6])

یعنی، جب ر مضان آجاتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے۔

شرحِ حدیث:

فقیہ اعظم ہند، شارِحِ بخاری مفتی شریف الحق اَمجدی رحمۃ اللہ علیہ "نزھۃ القاری" میں ان احادیثِ مبارَکہ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:" اس سے کوئی مانع نہیں کہ دروازے کھولنے سے اس کا حقیقی معنی مراد لیا جائے ۔ مطلب یہ ہوا کہ رمضان میں شب و روز مسلمان اعمالِ صالحہ بہ کثرت کرتے ہیں، تو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کہ انہیں عروج اور درجہ قبول تک پہنچنے میں ادنیٰ سی رکاوٹ نہ ہو۔ نیز یہ کہ جب جنّت اور آسمان کے دروازے کھلے ہوئے ہیں تو رحمت و برکت کا تسلسل کے ساتھ نزول ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جہنم کے دروازوں کا بندہونا او رشیاطین کا زنجیروں میں جکڑنا حقیقی معنوں میں ہے۔" ([7])

ماہِ رمضان کی 10خصوصیات:

مفسِّرشہیر ، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی شاندار تصنیف "تفسیرِ نعیمی" میں ماہِ رَمضان کی کچھ خُصوصیات اور برکات تحریر فرمائی ہیں۔ ان میں سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:

(1) کعبہ معظّمہ مسلمانوں کو بُلا کر دیتا ہے اور یہ(رمضان) آکر رحمتیں بانٹتا ہے۔گویا وہ کنواں ہے اور یہ دریا ہے یا وہ دریا ہے اور یہ بارش ۔

(2) ہر مہینہ میں خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے۔ مثلاً بقر عید کی چند تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ افضل ،مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت افطار عبادت۔ افطار کے بعد تراویح کا انتظار عبادت۔ تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا عبادت ۔ پھر سحری کھانا عبادت۔ غرضیکہ ہر آن میں خُدا کی شان نظر آتی ہے۔

(3) رَمضان ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پُرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو زیور بنا کر محبوب کے استعمال کے لائق کر دیتی ہے ۔ ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو پاک کرتاہے اور نیک کاروں کے درجے بڑھاتاہے۔

(4) رَمضان میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا ستّر گنا ملتا ہے۔

(5) بعض علماء فرماتے ہیں کہ جو رَمضان میں مرجائے اس سے سوالات ِ قبر بھی نہیں ہوتے۔

(6) رَمضان میں ابلیس قید کر دیا جاتاہے اوردوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں جنّت آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اسی لئے اس زمانہ میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفسِ امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (قرین) کے بہکانے سے۔

(7) رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔

(8) قیامت میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا کہ مولیٰ میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا اور قرآن عرض کرےگا کہ یا ربّ میں نے اسے رات میں سونے سے روکا۔(شبینہ اور تراویح کی وجہ سے)

(9)قرآن کریم میں صرف رَمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینہ کا نہ صراحتاً نام ہے نہ ایسے فضائل۔

(10)رَمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دُعا قبول ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھا کر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینہ کو حاصل نہیں۔([8])

اللہ کریم ہمیں رَمضان المبارَک کی برکات سے حصّہ پانے اور اس میں خوب عبادات کرکے اسے راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس

از: ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی



[1] : پ 2، البقرۃ :185۔

[2] : "ترجمہ کنزالایمان مع خزائن العرفان"، ص:60-61، مکتبۃ المدینۃ۔

[3] : "مراٰت المناجیح"،3/133،نعیمی کتب خانہ۔

[4] : "معجم کبیر" ، حدیث:9000، 9/205۔

[5] : "صحیح بخار، کتاب الصوم،باب ھل یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔

[6] : "صحیح بخاری، کتاب الصوم،باب ھل یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔

[7] : "نزھۃ القاری، کتاب الصوم،3/258 ، فرید بُک سٹال۔

[8] : "تفسیر نعیمی" ،2/227، نعیمی کتب خانہ، ملتقطاً ۔


دعوتِ اسلامی کے تحت پنجاب پاکستان کے شہر فیصل آباد مدینہ ٹاؤن میں قائم مدنی مرکز فیضان مدینہ میں ایک میٹنگ ہوئی جس میں مختلف شعبہ جات (جن میں فیضان مدینہ فیصل آباد کے تمام ناظمین،اسٹور، لنگر رضویہ، استقبالیہ، پر چیزر، اراکین پاکستان مشاورت آفس، نگران مجلس، صوبائی اور ڈویژن ذمہ داران سمیت دیگر آفسزکے اسلامی بھائی شامل تھے) کے ذمہ داراسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن و نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری نے ذمہ داران سے گفتگو کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے 12 دینی کاموں کا جائزہ لیا نیز دینی کاموں میں ترقی کےحوالے سے مدنی پھول ارشاد فرمائے۔(رپورٹ:عبدالخالق عطاری نیوز فالواپ ذمہ دار، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پچھلے دنوں پاکستان کے شہر اسلام آباد میں واقع ریڈیو پاکستان کے آفس میں دعوتِ اسلامی کے تحت ایک میٹ اپ ہوا جس میں مختلف افسران سمیت ذمہ دارانِ دعوتِ اسلامی نے شرکت کی۔

دورانِ میٹ اپ مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی محمد جنید عطاری مدنی نے وہاں موجود افسران کو نیکی کی دعوت دیتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے مختلف شعبہ جات کا تعارف کروایا۔

اسی طرح رکنِ شوریٰ نے بعد نمازِ تراویح جامع مسجد فیضانِ عشقِ رسول میں سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے عاشقانِ رسول کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی۔ (رپورٹ:حافظ ساجد سلیم عطاری مدنی، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوت اسلامی کے تحقیقی و تصنیفی شعبے اسلامک ریسرچ سینٹر فیصل آباد کی کارکردگی اور دیگر انتظامات کا جائزہ لینے کے لئے نگران مجلس مولانا محمد آصف خان عطاری مدنی 30 مارچ 2022ء کو کراچی سے مدنی مرکز فیضان مدینہ فیصل آباد پہنچے جہاں انہوں نے المدینۃ العلمیہ کے ذیلی شعبہ جات کا فردا فردا  اور اجتماعی مشورہ لیا۔

مدنی مشورے میں شعبہ جات کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا اور اہداف طے کرتے ہوئے دیگر معاملات پر گفتگو کی گئی۔ ذیلی شعبہ جات کے ہونے والے مدنی مشوروں کی تفصیلات اور اہداف ملاحظہ کیجئے:

شعبہ بیانات دعوت اسلامی

نگران مجلس مولانا آصف خان عطاری مدنی نے شعبہ بیانات دعوت اسلامی کے اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ لیا جس میں شعبے کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئےآئندہ کے اہداف طے کئے۔

مدنی مشورے میں طے ہونے والے اہداف کی تفصیل: ٭2021ء کے بیانات کی کتب ضرور تیار کرنی ہیں اس کے بہت سےفوائد ہیں ٭5اپریل 2022ء تک دو ماہ کا ایڈوانس بیان تیارکرنا ہے ٭جمعہ بیان کی ایڈوانس کتاب تیار کرنے کا طے ہوا ٭کوشش کی جائے کہ 2023ء تک تین کتابیں تیار کرلی جائے جس کی پہلی جلد کا ہدف 31 جولائی 2022ء کا طے ہوااور چھپنے کا ہدف 20 اگست 2022ء مقرر کیا گیا، اس کے علاوہ 2022ء کے اہداف بھی تیار کرلئے جائیں ٭حدیث چیکنگ کے لئے نکات بھی لکھ لئے جائیں۔

شعبہ مدنی چینل پروگرام

بعد ازاں شعبہ مدنی چینل پروگرام کے اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ ہواجس میں نگران مجلس مولانا محمد آصف خان عطاری مدنی نے مختلف امور پر گفتگو کی۔

٭مدنی چینل کے سلسلوں اور بیانات کے مواد کو عنوان دے کر ویب ایڈیشن کے لئے دیا جائے گا۔ ٭”جنت میں آقا کا پڑوسی“ اس پر جلد کام کرکے اسے کتابی صورت میں تیار کیا جائے۔

شعبہ فیضان صحابیات

شعبہ فیضان صحابیات کے اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں انہیں چند اہداف دیئے گئے۔

٭2022 کے سالانہ اور مہینے وائز اہداف بناکر دیئے جائیں ٭شعبے میں کتب کی کمی کو پورا کرنے کے لئے کراچی کے لائبریرین اسلامی بھائی سے خواتین سے متعلقہ تمام کتب حاصل کی جائیں۔

شعبہ فقہِ شافعی

اسلامک ریسرچ سینٹر فیصل آباد میں قائم ”شعبہ فقہ شافعی“ کے اسلامی بھائیوں کا مدنی مشورہ ہوا جس میں نگران مجلس مولانا محمد آصف خان عطاری مدنی نے شرکا کو مختلف اہداف دیئے۔

اجتماعی مدنی مشورہ

نگران مجلس المدینۃ العلمیہ مولانا محمد آصف خان عطاری مدنی نے اسلامک ریسرچ سینٹر کے اسٹاف کا اجتماعی مدنی مشورہ لیا جس میں ان کی تربیت کرتے ہوئے شعبے کی ترقی کے حوالے سے کلام کرتے ہوئے بتایا کہ امید ہے شوال المکرم میں تربیتی نشست ہوگی ، اس کے علاوہ ادارے میں چونکہ سب کام کمپیوٹر پر ہی کئے جاتے ہیں، لہذا کمپیوٹر ٹریننگ کے حوالے سے سیشن بھی کروائے جائیں گے۔ 


دعوتِ اسلامی کے تحت پچھلے دنوں شعبہ رابطہ برائے شخصیات کے ذمہ داراسلامی بھائیوں نے رخشان ڈویژن خاران ڈسڑک کے اطراف کلی تاگزی میں سابقہ چیئرمین نور احمد بلوچ، کلی پنڈوک میں زمین دار حافظ طفیل اور تحصیل مسکان قلات کے کلی چبیی میں قاری خدابخش سے ملاقات کی۔

اس دوران ذمہ داران نے شخصیات کو دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پر ہونے والی دینی و فلاحی خدمات کے بارے میں بتاتے ہوئے انہیں اپنی فصل کا عشر دعوتِ اسلامی کے شعبہ جات کے لئے دینے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتوں کا اظہا رکیا۔(رپورٹ:رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


گزشتہ دنوں پاکستان کے صوبے بلوچستان میں سب انسپکٹر کشمیر خان منجھو کے والد کی وفات پر شعبہ رابطہ برائے شخصیات دعوتِ اسلامی کے ذمہ داران نے اُن سے اظہارِتعزیت کی۔

ذمہ داراسلامی بھائیوں نے مرحوم کے ایصالِ ثواب کے لئے فاتحہ خوانی کا اہتمام کرتے ہوئے دعا کروائی اور انہیں مرحوم کے لئے زیادہ سے زیادہ ایصالِ ثواب کرنے کا ذہن دیا۔اس موقع پر قاری امیر بخش عطاری اور احمد عطاری بھی موجود تھے۔(رپورٹ:رابطہ برائے شخصیات بلوچستان، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کے مرحوم چچا چودھری مسعود الزمان کے ایصالِ ثواب اور استقبالِ رمضان کے سلسلے میں دعوتِ اسلامی کے تحت سنتوں بھرے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں مختلف شخصیات سمیت شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے اسلامی بھائیوں نے شرکت کی۔

اس موقع پر اسلام آباد کے ذمہ دار محمد عامر عطاری نے سنتوں بھرا بیان کرتے ہوئے وہاں موجود اسلامی بھائیوں کی دینی و اخلاقی اعتبار سے تربیت کی اور انہیں اپنے مرحوم مین کے ایصالِ ثواب کے لئے زیادہ سے زیادہ عطیات دعوتِ اسلامی کو دینے کا ذہن دیا جس پر انہوں نے اچھی اچھی نیتیں کیں۔بعدازاں مبلغِ دعوتِ اسلامی نے دعا بھی کروائی۔(رپورٹ:رابطہ برائے شخصیات، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


دعوتِ اسلامی کے زیرِاہتمام پچھلے دنوں پنجاب پاکستان کے شہر کامونکی میں قائم ایک نجی میرج ہال میں افطار اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں صحافیوں سمیت کثیر عاشقانِ رسول نے شرکت کی۔

اس اجتماعِ پاک میں صوبائی ذمہ دار میڈیا ڈیپارٹمنٹ مولانا محمد فاروق انجم عطاری مدنی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہیں دعوتِ اسلامی کی عالمی سطح پر ہونے والی دینی و فلاحی خدمات کے بارے میں بتایا جس پر انہوں نے دعوتِ اسلامی کی کاوشوں کو سراہا۔

بعدازاں گوجرانوالہ کے نگران مولانا محمد یعقوب عطاری نے ملک و قوم کی ترقی کے لئے دعا کروائی۔اس موقع پر تحصیل نگران کامونکی محمد سلمان عطاری، سرکاری ڈویژن ذمہ دار میڈیا ڈیپارٹمنٹ محمد مبشر عطاری، ڈسٹرکٹ ذمہ دار میڈیا ڈیپارٹمنٹ گوجرانوالہ محمد وقار سرویا عطاری، شعبہ تعلیم محمد فیاض عطاری، حاجی محمد عباس عطاری اور محمد زاہد عطاری سمیت دیگر عاشقان رسول موجود تھے۔(رپورٹ:محمد وقار عطاری، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)


پیارے آقاﷺ نے ارشاد فرمایا:جب تم چاند دیکھو تو روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو (یعنی عید کرو)، اسی حدیثِ پاک پر عمل کرتے ہوئے پچھلے دنوں دعوتِ اسلامی کے زیرِ اہتمام عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی سے رمضانُ المبارک کا چاند دیکھنے کا سلسلہ ہوا۔

اس دوران عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ سمیت پاکستان بھر میں دعوتِ اسلامی کے قائم کردہ مراکز سے بھی چاند دیکھنے کی اطلاعات موصول ہوئیں۔اس موقع پر نگرانِ شعبہ اوقات الصلوٰۃ مولانا وسیم عطاری مدنی سمیت دیگر اہم ذمہ داران بھی موجود تھے۔(رپورٹ:شعبہ اوقات الصلوٰۃ، کانٹینٹ:غیاث الدین عطاری)