اللہ تعالی نے فرمایا: وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ ۔

(المائدہ، آيت : 83)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھو کہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں، اس لئے کہ وہ حق کو پہچان گئے، کہتے ہیں اے ربّ ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کی آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قرآن کو غم کے ساتھ پڑھوکیونکہ یہ غم کے ساتھ نازل ہوا۔

( معجم الاوسط 2/166، حدیث :2904)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مکی مدنی سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:" یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو رو ؤ، اگر رو نہ سکو تو رونے جیسی شکل بنا لو۔"( ابن ما جہ2/129، حدیث :1337)

ہمارے اسلافِ اکرام کاتلاوتِ قرآن کا کیا انداز تھا، آئیے تلاوتِ قرآن میں رونے والوں کے دو واقعات سنتے ہیں۔

آیت مکمل نہ پڑھ سکے:

ایک رات حضرت سیّدنا عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ سورۃ اللیل پڑھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے فَاَنْذَرْتُكُمْ نَارًا تَلَظّٰى ترجمہ کنزالایمان:تو میں تمہیں ڈراتا ہوں، اس آگ سے جو بھڑک رہی ہے۔(پ30، اللیل:14)

تو روتے روتے آپ کی ہچکی بندھ گئی آگے نہیں پڑھ سکے، نئےسرےسےتلاوت شروع کی، جب اس آیت پرپہنچے تو پھر وہی کیفیت طاری ہوئی اور آگے نہیں پڑھ سکے،بالآخر یہ سورت چھوڑ کر دوسری سورت پڑھی۔(سیرت ابن عبد الحکم، ص42)

آیت سن کر جان نکل گئی:

حضرت سیّدنا منصور بن عماررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں ایک اندھیری رات سفر پر روانہ ہوا، راستے میں ایک جگہ بیٹھ گیا، اچانک میں نے کسی نوجوان کے رونے کی آواز سنی، جو روتے ہوئے اس طرح کہہ رہا تھا ، اے میرے پروردگار! میں نے تیری نافرمانی،تیری مخالفت کی بناء پر نہیں کی اور نہ ہی گناہ کرتے وقت میں تیرے عذاب سے بے خبر تھا، بلکہ میری بدبختی نے گناہ کو میرے لئے مزیّن کر دیا، ہائےمیری بربادی! اب مجھےتیرےعذاب سے کون بچائے گا، ہائے افسوس! میں نے ساری جوانی تیری نافرمانی میں گزار دی، میں بار بار توبہ کرتا، پھر گناہ کر ڈالتا اب تو توبہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے، حضرت منصور بن عمار فرماتے ہیں اس نوجوان کی گر یہ و زاری سن کر میں نے قرآن پاک کی یہ آیت تلاوت کی یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَیْهَا مَلٰٓىٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ (پارہ 28، تحریم: 6)

ترجمہ کنزالایمان:"اے ایمان والو!اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو آگ سے بچاؤ، جس کے ایندھن آدمی اور پتھر ہیں، اس پر سخت کرّے فرشتے مقرر ہیں۔

جب میں نے یہ آیت تلاوت کی تو مجھے ایک چیخ سنائی دی اور پھر خاموشی طاری ہو گئی، اس کے بعد میں وہاں سے آگے روانہ ہو گیا، صبح جب اسی مکان کے قریب آیا تو وہاں کسی کا جنازہ رکھا دیکھا، میں نے پوچھا"یہ کس کا جنازہ ہے؟ ایک بوڑھی عورت نے بتایا"یہ میرے بیٹے کی لاش ہے، کل رات یہ نماز پڑھ رہا تھا کہ کوئی شخص گلی سے گزرا اور اس نے ایسی آیت پڑھی، جس میں جہنم کی آگ کا تذکرہ تھا، پس اس آیت کو سن کر میرا بیٹا تڑپنے لگا اور اس نے روتے روتے جان دے دی"یہ سن کر حضرت سیدنا منصور بن عمار وہاں سے چلے آئے اور اپنے آپ کو مخاطب کر کے فرمانے لگے" اے عمار! ایسے ہوتے ہیں ڈرنے والے۔"(عیون الحکایات، ج1، ص102)


تلاوتِ قرآن کے وقت رونے کی ترغیب:

         قراٰنِ کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث: ۱۳۳۷)

عطا کر مجھے ایسی رقّت خدایا

کروں   روتے روتے تِلاوت خدایا

یہ اللہ تعالیٰ کے جلیلُ القدر بندوں کا طریقہ ہے کہ بلند مراتب پر پہنچنے کے باوجودبھی ان کی دلی کیفیات یہ ہوتی ہیں کہ جب ان کے سامنے کلامِ الٰہی کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو انہیں سن کر وہ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے لگتے ہیں جیسا کہ سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 83 میں بیان ہوا، اسی طرح ان کی ایک اور کیفیت بیان کرتے ہوئےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذَا سَمِعُوْا مَاۤ اُنْزِلَ اِلَى الرَّسُوْلِ تَرٰۤى اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّۚ-یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَ( سورۃ المائدہ آیت83)

ترجمہ کنز الایمان: اور جب سنتے ہیں وہ جو رسول کی طرف اترا تو ان کی آنکھیں دیکھوکہ آنسوؤں سے اُبل رہی ہیں اس لیے کہ وہ حق کو پہچان گئے کہتے ہیں اے رب ہمارے ہم ایمان لائے تو ہمیں حق کے گواہوں میں لکھ لے۔

یقیناًذکرِ الٰہی کے وقت عشق و محبت میں رونا اعلیٰ عبادت ہے۔ اسی طرح عذابِ الٰہی کے خوف اور رحمتِ الٰہی کی امید میں رونا بھی عبادت ہے ۔بہت سےقاری قرآن، قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے جھومتے اور روتے ہیں ، یہ قرآن کریم سے لذت و سُرور حاصل ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے ۔

رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رونا:

حضرت عبید بن عمیر رضی اللہُ عنہفرماتے ہیں کہ: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا سے پوچھا کہ آپ نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سب سے زیادہ عجیب بات جو دیکھی ہو، وہ ہمیں بتادیں۔ پہلے تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:’’اے عائشہ! مجھے چھوڑو، آج رات میں اپنے رب کی عبادت کروں۔‘‘ میں نے عرض کیا: اللہ کی قسم! مجھے آپ کا قرب بھی پسند ہے اور جس کام سے آپ کو خوشی ہو وہ بھی پسند ہے، چنانچہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اُٹھے اور وضو کیا، پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے اور نماز میں روتے رہے اور اتنا روئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گود گیلی ہوگئی اور بیٹھ کر اتنا روئے کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی داڑھی آنسوؤں سے ترہوگئی، پھر سجدہ میں اتنا روئے کہ زمین تر ہوگئی، پھر حضرت بلال رضی اللہُ عنہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو نماز کی اطلاع دینے آئے، جب انہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو روتے ہوئے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ رو رہے ہیں؟ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب اگلوں پچھلوں کے تمام گناہ معاف کردیئے ہیں۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تو کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟ آج رات مجھ پر ایسی آیت نازل ہوئی ہے کہ جو آدمی اسے پڑھے اور اس میں غور وفکر نہ کرے، اس کے لیے ہلاکت ہے، وہ آیت یہ ہے:’’إِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّیْلِ وَالنَّہَارِ لَأٰیٰتٍ لِّأُوْلِیْ الْأَلْبَابِ‘‘۔ ( آل عمران:۱۹۰) ترجمہ:…’’بلاشبہ آسمانوں اور زمین کے بنانے میں اور رات ودن کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں۔‘‘

(اخرجہ ابن حبان فی صحیحہ، کذا فی الترغیب:۳۳۲ بحوالہ حکایۃ الصحابہ:۳/۱۵۰، ۱۴۹ )

صالح مُرِّی  رحمۃُ اللہِ علیہ اورقرآن سُن کر رونا:

حضرتِ سَیِّدُنا صالح مُرِّی ﷫نے ایک اجتماع میں   اپنے بیان کے دوران سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے فرمایا: ’’کوئی آیت پڑھو۔‘‘ تو اس نے سُوْرَۃُ الْمُؤْمِن کی آیت نمبر18 تلاوت کی :

وَ اَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْاٰزِفَةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَدَى الْحَنَاجِرِ كٰظِمِیْنَ۬ؕ-مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّ لَا شَفِیْعٍ یُّطَاعُؕ ۲۴، المؤمن:۱۸)

ترجَمۂ کنزُالایمان::اورانہیں   ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں   کے پاس آجائیں  گے غم میں بھرے ۔ اور ظالموں   کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے۔

یہ آیت مبارکہ سننے کے بعد آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے طویل خطاب فر مایا پھر حضرت سَیِّدُنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ بَہُت ر وئے اور ایک آہِ سرد، دلِ پُر درد سے کھینچ کر فرمایا:’’افسوس! کیسا دل ہِلا دینے والا منظر ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر پھر رونے لگے،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کو روتا دیکھ کرحاضِرین بھی رونے لگے ۔

عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ کا فرمان:

حضرت عبد الرحمٰن بن ابو لیلیٰ رضی اللہُ عنہ نے سورۂ مریم کی تلاوت کی ،  جب وہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان ’’خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُكِیًّا‘‘ پر پہنچے تو انہوں  نے سجدۂ تلاوت کیا اور جب سجدے سے سر اٹھایا تو فرمایا ’’یہ سجدہ ہے تورونا کہاں  ہے؟( شرح البخاری لابن بطال ، کتاب فضائل القرآن ، باب البکاء عند قراء ۃ القرآن ،  ۱۰ / ۲۸۲ )

ان کے اس قول سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ سجدہ کر کے رونے والے لوگ اب کہاں  ہیں ؟ اب تو لوگوں  کا حال یہ ہے کہ وہ سجدہ تو کرلیتے ہیں  لیکن ان کی آنکھیں آنسوؤں  سے تر نہیں  ہوتیں ۔ ان بزرگوں  کے یہ فرمان دراصل ہماری تربیت اور اِصلاح کے لئے ہیں  ، اے کاش! ہمیں  بھی تلاوتِ قرآن کے وقت اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونا نصیب ہو جائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


شعبہ ائمہ مساجد دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 26 اپریل2021 ء بروزپیر کراچی  ریجن، کوئٹہ زون و کابینہ، بلوچستان کا رکن شوری حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے نگران مجلس مولانا فیضان مدنی نگران کابینہ گلفام عطاری و ناظم اعلی نورمحمد عطاری کے ہمراہ وزٹ کیا جہاں مدنی حلقہ اور سنتوں بھرے بیان کا سلسلہ ہوا ۔

رکن شوری حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ماہ رمضان کو عبادت میں گزارنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل پر گفتگو کرتے ہوئے دعوتِ اسلامی کے ساتھ اپنے عطیات کے ذریعے تعاون کا ذہن دیا۔


اللہ پاک کے خوف سے رونا یہ اللہ والوں کا حصہ ہے ہمارے بزرگان دین تلاوت قرآن کرتے ہوئے اللہ عزوجل کے خوف سے رویا کرتے تھے ، اپنی نیکیوں کو چھپایا کرتے تھے اور اپنی نیکیاں دوسروں پر ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے ۔ آئیے خوف خدا سے تلاوت قرآن کرتے ہوئے رونے والے بزرگ کا واقعہ پڑھتے ہیں:

حضرت سیدنا ابو عبداللہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں: حضرت سیدنا ابو الحسن محمد بن اسلم طوسی علیہ رحمۃ اللہ القوی اپنی نیکیاں چھپانے کا بے حد خیال فرماتے یہاں تک کہ ایک بار فرمانے لگے: اگر میرا بس چلے تو میں کراماً کاتبین (اعمال لکھنے والے دونوں بزرگ فرشتوں )سے بھی چھپ کر عبادت کرو ں ۔

راوی کہتے ہیں میں بیس برس سے زیادہ عرصہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت میں رہا مگر جمعۃ المبارک کے علاوہ کبھی آپ رحمۃ اللہ تعالی کو دو رکعت نفل بھی پڑھتے نہیں دیکھ سکا آپ رحمۃ اللہ علیہ پانی کا کوزہ لے کر اپنے کمرے خاص میں تشریف لے جاتے اور اندر سے دروازہ بند کر لیتے تھے میں کبھی بھی نہ جان سکا کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کمرے میں کیا کرتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن آپ رحمۃ اللہ علیہ کا مدنی منازور زور سے رونے لگا ، اس کی امی جان چپ کروانے کی کوشش کر رہی تھی ؛میں نے کہا مدنی منا آخر اس قدر کیوں رو رہا ہے؟ بی بی صاحبہ نے فرمایا اس کے ابو (حضرت سیدنا ابو الحسن طوسی رحمۃ اللہ علیہ )اس کمرے میں داخل ہو کر تلاوت قرآن کرتے ہیں اور روتے ہیں تو یہ بھی ان کی آواز سن کر رونے لگتا ہے !شیخ ابو عبداللہ فرماتے ہیں: حضرت سید ابوالحسن طوسی علیہ رحمۃ اللہ تعالی علیہ( ریا کاریوں کی تباہ کاریوں سے بچنے کی خاطر) نیکیاں چھپانے کی اس قدر سعی فرماتے تھے کہ آپ نے اس گمراہ خاص سے عبادت کرنے کے بعد باہر نکلنے سے پہلے اپنا منہ دھو کر آنکھوں میں سرمہ لگا لیتے تاکہ چہرہ اور آنکھیں دیکھ کر کسی کو اندازہ نہ ہونے پائے کہ یہ روئے تھے ۔ (حلیۃ الاولیاء ، جلد 9 ، صفحہ نمبر 254)

اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میرا ہر عمل بس تیرے واسطے ہو

کرا خلاص ایساعطا یا الہی

اے عاشقان رسول! اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں بھی روتے ہوئے تلاوت قرآن کرنے کی سعادت عطا فرمائےاور اخلاص کے ساتھ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بزرگان دين رحمہم اللہ المبین قرآن پاک کی بکثرت تلاوت میں مشغول رہا کرتے ۔تلاوت صرف زبانی ہی نہ ہوتی، بلکہ قرآن کے معانی اور اسرار و نکات میں خوب غور و خوض کرتے ۔ آیات رحمت آتیں تو اللہ تعالیٰ سے بخشش و مغفرت طلب کرتے، آیات عذاب آتیں تو خوف خدا کے سبب آنسو بہاتے اور گریہ و زاری کرتے ۔ قرآن مجید غمگین کیفیت کے ساتھ پڑھنے کا حکم حدیث میں ارشاد ہوا ہے ۔ چنانچہ

حضرت سعد بن ابی وقاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔

(ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن، ۲ / ۱۲۹، الحدیث:۱۳۳۷ )

ذیل میں تلاوت میں رونے کے چند واقعات بطور ترغیب کے پیش کیے جاتے ہیں تا کہ ہمارے اندر بھی تلاوت قرآن کا ذوق پیدا ہو۔

1: حضرت ابراہیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا :مجھے قرآن پاک سناؤ تو انہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو سورۂ نساء کی ابتدائی آیات سنائیں اور جب اس آیت پر پہنچے: ترجمہ کنزُالعِرفان: تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سےایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں گے۔‘‘( النساء : 41) تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

(مسلم، کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص ۴۰۱، الحدیث: ۲۴۸(۸۰۰) ملخصاً )

2:سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ میرے والد ماجد حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب قرآن پاک کی تلاوت فرماتے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اپنے آنسوؤں پر اختیار نہ رہتا یعنی زار و قطار رونے لگ جاتے ۔ (فیضان صدّیق اکبر، صفحہ 157)

3:ایک بار امیر المومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آیات کی تلاوت کی، اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ(۷) مَّا لَهٗ مِنْ دَافِعٍۙ(۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک تیرے رب کا عذاب ضرور ہونا ہے۔ اسے کوئی ٹالنے والا نہیں ۔ آپ پر خوف خدا کے غلبہ کے سبب ایسی رقّت طاری ہوئی کہ آپ کی سانس ہی اُکھڑ گئی اور یہ کیفیت کم و بیش بیس (20) روز تک رہی۔

(فیضان فاروق اعظم ، صفحہ 151)

4:ایک مرتبہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک نوجوان کے پاس سے گزرے ،وہ نوجوان یہ آیت ’’ فَاِذَا انْشَقَّتِ السَّمَآءُ فَكَانَتْ وَرْدَةً كَالدِّهَانِۚ(۳۷) ‘‘ (الرحمن : 27) (ترجمہ کنز الایمان:"پھر جب آسمان پھٹ جائے گا تو گلاب کے پھول سا ہوجائے گا" جیسے سرخ نری ( سرخ رنگا ہو چمڑا)۔ آپ وہیں رک گئے اور دیکھا کہ اس نوجوان پر کپکپی طاری ہو گئی ہے اور آنسؤوں نے اس کا گلا بند کر دیا ہے ،وہ روتا رہا اور یہی کہتا رہا:اس دن میری خرابی ہو گی جس دن آسمان پھٹ جائے گا ۔ (تفسیر صراط الجنان سورہ ٔرحمٰن، تحت الآیۃ: 37-38)

اے کاش! ہمیں بھی تلاوت قرآن میں آنسو بہانے والی آنکھ نصیب ہوجائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


           رب تعالیٰ نے بندوں کی اصلاح کے لیے اور انہیں آداب زندگی سکھانے کے لیے رسل و انبیاء کو مبعوث فرمایا اور ان پر کتب اور صحائف نازل فرمائے تاکہ راہ حق کے متلاشی علم کے نور سے اپنے سینوں کو منور کریں ۔مختلف انبیاء علیہمُ السّلام پر مختلف کتابیں اور صحیفے نازل ہوئے ۔آخری آسمانی کتاب قرآن پاک ہمارے پیارے پیارے آقا محمد مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر نازل ہوئی قرآن پاک لاریب کتاب ہے (ترجمہ سورۃ بقرہ آیت 2 )اس میں ہر خشک و تر کا بیان ہے(ترجمہ سورۃ انعام آیت 59) اور اس میں رب تعالیٰ نےجگہ بہ جگہ جنت دوزخ ،عذاب وثواب کا ذکر فرمایا اور اس کی تلاوت کرتے ہوئے بہت سے عاشقان قرآن جھومتے ہیں اور عذاب الہی والی آیات پڑھ کر عذاب الہی کے خوف سے اور رحمت والی آیات پڑھ کر رحمت الہی کی امید سے ان کی آنکھوں سے آنسوں رواں ہوجاتے ہیں ۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : جب یہ آیت نازل ہوئی اَفَمِنْ هٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَۙ(۵۹) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ(۶۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔ ( سورۃ النجم آیت 59 ، 60) تو اصحاب صفہ اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہوگئے اور انہیں دیکھ کر رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بھی رونے لگے ۔ ( شعب الایمان، جلد 1 ، ص 489 ، دارلکتب العلمیہ)

ایک روز نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرت سیدنا عبد اللہ بن مسعود سے ارشاد فرمایا : میرے سامنے تلاوت کرو ۔ عرض کی میں آپ کے سامنے کیا پڑھوں آپ پرہی قرآن اترا ہے ارشاد فرمایا :میں چاہتا ہوں کہ دوسروں سے سنو ں چنانچہ آپ تلاوت کر رہے تھے اور رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چشمان مبارک سے آنسو بہتے رہے۔

(صحیح البخاری ، کتاب فضائل قرآن ، حدیث نمبر : 5055 )

قلب مضطر چشم تر سوز جگر سینہ تیاں طالب آہ و فغاں جان جہاں عطار ہے

(وسائل بخشش ، صفحہ222)

قاری نے ایک دن اس آیت کریمہ کی تلاوت کی هٰذَا كِتٰبُنَا یَنْطِقُ عَلَیْكُمْ بِالْحَقِّؕ-اِنَّا كُنَّا نَسْتَنْسِخُ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالایمان: ہمارا یہ نوشتہ تم پرحق بولتا ہے ہم دیکھتے رہتے تھے جو تم نے کیا ۔ (سورۃ الجا ثیہ، آیت : 29 )

اسے سن کر حضرت سید عبدالواحد بن زید رحمۃُ اللہِ علیہ اتنا روئے کے بے ہوشی طاری ہوگئی ۔

حضرت قاسم بن معین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک بار امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃُ اللہِ علیہ نے اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَ السَّاعَةُ اَدْهٰى وَ اَمَرُّ(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: بلکہ ان کا وعدہ قیامت پر ہے اور قیامت نہایت کڑی اور سخت کڑوی ۔ (سورۃ القمر آیت :46 ) طلوع فجر تک یہی آیت دہراتے رہے اور گریہ زاری کرتےرہے ۔

(حکایتیں اور نصیحتیں ،335 )

حضرت اسمابنت ابی بکر رضی اللہُ عنہا کے غلام ابو عمر بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہِ علیہ گورنر تھے میں جدہ سے ان کے لیے تحائف لے کر مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفا ً و تعظیماً پہنچا تو وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد مسجد میں ہی موجود تھے اور گود میں قرآن پاک لیے تلاوت کر رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔

(سیرت و مناقب عمر بن عبد العزیز لابن جوزی ، صفحہ 42 ، دارلکتب العلمیہ )

اللہ تعالی ہمیں دلی سوز کے ساتھ تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

عطا کر مجھے ایسی رقت خدایا کروں روتے روتے تلاوت خدایا


شعبہ ائمہ مساجد دعوتِ اسلامی کے زیر اہتمام 25 اپریل2021 ء بروزاتوار کراچی  ریجن ،کوئٹہ زون، لسبیلہ کابینہ، حب چوکی، میں رکن شوری حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے نگران مجلس مولانا فیضان مدنی نگران کابینہ گلفام عطاری و ناظم اعلی نورمحمد عطاری کے ہمراہ جامع مسجد حاجیانی رضیہ عدالت روڈ حب،بلوچستان کاوزٹ کیا جہاں مدنی حلقہ اور سنتوں بھرے بیان کا سلسلہ ہوا ۔

رکن شوری حاجی محمد عقیل عطاری مدنی نے ماہ رمضان کو عبادت میں گزارنے اور راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے شرکا کی تربیت کی۔اس موقع پر بیان کے بعدحب چوکی میں شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور مدنی حلقوں کا سلسلہ ہوا۔ (رپورٹ:محمدعابد عطاری مدنی)


دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 132 صفحات پر مشتمل کتاب" توبہ کی روایات اور حکایات" صفحہ 75 تا 77 پر ہے : حضرت سیدنا صالح مُرِّی رحمۃ اللّٰہ علیہ نے ایک اجتماع میں اپنے بیان کے دوران سامنے بیٹھے ہوئے ایک نوجوان سے فرمایا :" کوئی آیت پڑھو-" تو اس نے سُوْرَۃ المؤمن کی آیت نمبر 18 تلاوت کی:

ترجمہ کنزالایمان: اور انہیں ڈراؤ اس نزدیک آنے والی آفت کے دن سے جب دل گلوں کے پاس آجائیں گے غم میں بھرے ۔ اور ظالموں کا نہ کوئی دوست نہ کوئی سفارشی جس کا کہا مانا جائے ۔ (پ24 ،المؤمن: 18)

یہ آیت مبارکہ سن کر آپ رحمۃُ اللہِ علیہ یہ نے فرمایا: کوئی ظالم کا دوست یا مددگار کس طرح ہو سکتا ہے؟ کیونکہ وہ تو اللہ تعالی کی گرفت( یعنی پکڑ) میں ہوگا بے شک تم سرکشی کرنے والے گنہگاروں کو دیکھو گے کہ انہیں زنجیروں میں جکڑ کر جہنم کی طرف لے جایا جا رہا ہو گا اور وہ بَرَہْنہ( یعنی ننگے) ہوں گے ان کے جسم بوجھل چہرے سیاہ (یعنی کالے) اور آنکھیں خوف سے نیلی ہوں گی وہ چِلائیں گے ہم ہلاک ہو گئے! ہم برباد ہو گئے! ہمیں زنجیروں میں کیوں جکڑا گیا ہے؟ ہمیں کہاں لے جایا جا رہا ہے؟ اور ہمارے ساتھ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ فرشتے انہیں آگ کےکوڑوں سے مارتے ہوئے ہانکیں گے کبھی وہ منہ کے بل گریں گے اور کبھی انہیں گھسیٹ کر لے جایا جائے گا جب رو رو کر ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے تو خون کے آنسو بہنے لگیں گے، ان کے دل دَہل جائیں گے اور حیران و پریشان ہوں گے اگر کوئی انہیں دیکھ لے تو ان پر نگاہ نہ جما سکے، نہ ہی اپنا دل سنبھال سکے، یہ ہَولناک منظر دیکھنے والے کے بدن پر لرزہ طاری ہو جائے ۔

یہ فرمانے کے بعد حضرت صالح مُرِّی رحمۃ اللہ علیہ بہت روئے اور ایک آہ سَرددلِ پُر درد سے کھینچ کر فرمایا:" افسوس! کیسا دل ہلا دینے والا منظر ہوگا یہ کہہ کر پھر رونے لگے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو روتا دیکھ کر حاضرین بھی رونے لگے ،اتنے میں ایک نوجوان کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: "یا سیدی! کیا یہ سارا منظر بروز قیامت ہوگا؟ آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے جواب دیا:" ہاں، یہ منظر زیادہ طویل نہیں ہوگا کیونکہ جب انہیں جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو ان کی آواز آنا بند ہو جائیں گی، یہ سن کر نوجوان نے ایک چیخ ماری اور کہا: "افسوس میں نے اپنی زندگی گزار دی، افسوس میں کوتاہیوں کا شکار رہا افسوس! میں خدائے باری تعالی کی اطاعت و فرمانبرداری میں سستی کرتا رہا آہ! میں نے اپنی زندگی بیکار ضائع کر دی " یہ کہہ کر وہ رونے لگا کچھ دیر بعد اس نے رب کائنات عزوجل کی بارگاہ بے کس پناہ میں یوں مناجات کی:

" میرے پروردگار عزوجل میں گنہگار توبہ کے لئے حاضر دربار ہوں، مجھے تیرے سوا کسی سے کوئی سروکار نہیں، گناہوں سے معافی دیکر مجھے قبول فرما لے، مجھ سمیت تمام حاضرین پر اپنا فضل وکرم فرما اور ہمیں جود و نوال( یعنی عطا و بخشش) سے مالامال کر دے ، میں نے گناہوں کی گٹھڑی تیرے سامنے رکھ دی ہے اور سچے دل سے تیری بارگاہ میں حاضر ہوں، اگر تو مجھے قبول نہیں فرمائے گا تو یقیناً میں ہلاک ہوجاؤں گا ۔" اتنا کہہ کر وہ نوجوان غش کھا کر گِر پڑا اور چند روز بستر علالت پر گزار کر (یعنی بیمار رہ کر) موت سے سے ہمکَنار ہو گیا ۔ اس کے جنازے میں بے شمار لوگ شریک ہوئے، رو رو کر اس کے لیے دعائیں کی گئیں۔ حضرت سیدنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ اکثر اس کا ذکر اپنے بیان میں کیا کرتے۔ ایک دن کسی نے اس نوجوان کو خواب میں دیکھا تو پوچھا: اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟ تو تو اس نے جواب دیا "مجھے حضرت سیدنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ کے اجتماع سے برکتیں ملی اور مجھے جنت میں داخل کر دیا گیا۔

(کتاب التَّوَّابِین ص 250۔202)

اللہ رب العزت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے باعمل مبلغین کا بیان کس قدر پُر اثر ہوتا ہے، خوف خدا رکھنے والے مبلغ کا بیان تاثیر کا تیر بن کر گنہگار کے جگر سے آرپار ہو جاتا اور بسا اوقات اس کی دنیا اور آخرت سنوار دیتا ہے ۔ سیدنا صالح مُرِّی رحمۃُ اللہِ علیہ یہ بڑے زبردست قاری بھی تھے ،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی قراءت میں سوز ہی سوز ہوتا تھا آپ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: ایک بار میں نے خواب میں جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قرآن کریم کی تلاوت کی سعادت پائی، تاجدار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے صالح! یہ تو قرءات ہوئی رونا کہاں ہے؟ (احیاء العلوم ،ج 1، ص 368)

اللہ تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے رونا مستحب ہے۔ فرمان مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے: قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی سی شکل بناؤ ۔ (سنن ابن ماجہ، ج 2 ، ص 129 ، حدیث : 1337 )

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! تلاوت کرتے یا سنتے ہوئے رِقت طاری ہونا آنکھوں سے آنسو جاری ہونا یقیناً بڑی سعادت کی بات کے مگر شیطان کے وار سے خبردار! رہنا ایک ایسا عمل ہے کہ اس میں ریا کا خطرہ بہت زیادہ رہتا ہے۔ لہذا دعا وغیرہ میں بالخصوص دوسروں کے سامنے رونے میں ریا سے بچنا ضروری ہے کہ ریاکار عذاب نار کا حقدار ہوتا ہے تلاوت و نعت میں اخلاص کے ساتھ رونے رلانے کا شوق بڑھانے کے لئے دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے، اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے کُڑھتے رہیے، نمازوں کی پابندی جاری رکھیئے، سنتوں پر عمل کرتے رہئے، اور اس مدنی مقصد" مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش کرنی ہے" کہ حصول کی خاطر پابندی سے ہر ماہ کم از کم تین دن کے سنتوں کی تربیت کے مدنی قافلے میں عاشقان رسول کے ہمراہ سنتوں بھرا سفر بھی کیجیئے ۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کے ہمیں اپنے عشق میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائےاور خوب تلاوت قرآن کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(نیکی کی دعوت صفحہ 198 تا 201)


قرآن پاک اللہ پاک کا ایسا بے مثل کلام ہے کہ جب کوئی اس کی تلاوت کرتا یا سنتا ہے تو اس کلام کی ہیبت اس پر ایسے طاری ہوتی ہے کہ اس کی آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوجاتے ہیں، اس کی ھجکیاں بندھ جاتی ہیں، ان کا رواں رواں خوف خدا سے لرز رہا ہوتا ہے ۔ رب تعالیٰ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرماتا ہے :

تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس سے بال کھڑے ہوتے ہیں ان کے بدن پر جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں ۔ (الزمر : 23 )

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کے بارے میں فرمایا کہ "جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے بندے کے بال کھڑے ہو جائیں تو اس کے گناہ اس طرح جھڑتے ہیں جس طرح خشک درخت سے اس کے پتے جھڑتے ہیں ۔ ( شعب الایمان، الحادی عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، ۱ / ۴۹۱ ، الحدیث: ۸۰۳ )

یاد رہے کہ تلاوت قرآن کے دوران رونا مستحب ہے۔ حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے خاتم النبيين صلی اللہ علیہ وسلم تک،اور ان سے لے کر آج تک اللہ کے ایسے نیک بندے موجود ہیں کہ جب اللہ پاک کا کلام پڑھتے یا سنتےہیں تو ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں اور آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی بندھ جاتی ہے ۔

تلاوت میں رونے کے متعلق کچھ روایات:

حضور پُر نور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’یہ قرآن غم کے ساتھ نازل ہوا تھا، جب تم اسے پڑھو تو روؤ اور اگر رو نہ سکو تو رونے کی شکل بنا لو۔( ابن ماجہ، کتاب اقامۃ الصلاۃ والسنّۃ فیہا، باب فی حسن الصوت بالقرآن ، ۲ / ۱۲۹ ، الحدیث: ۱۳۳۷ )

حضرت ابو معمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے سورۂ مریم کی تلاوت اور (سجدہ کرنے کے بعد) فرمایا ’’یہ سجدے ہیں تو رونا کہا ں ہے؟ ( شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔ الخ، فصل فی البکاء عند قراء تہ ، ۲ / ۳۶۵ ، الحدیث: ۲۰۵۹ )

دوران تلاوت رونے والوں کے واقعات :

ایک مرتبہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ کو قرآن سنانے کا حکم فرمایا جب آپ سورۃ النساء کی اس آیت پر پہنچے۔ فَكَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِیْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰۤؤُلَآءِ شَهِیْدًاﳳ(۴۱) ترجمہ کنزُالعِرفان : تو کیسا حال ہوگا جب ہم ہر امت میں سےایک گواہ لائیں گے اور اے حبیب! تمہیں ان سب پر گواہ اورنگہبان بناکر لائیں گے۔ (النساء : 41)

تو سرکارِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے۔

( مسلم،کتاب صلوۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل استماع القرآن۔۔۔ الخ، ص ۴۰۱ ، الحدیث: ۲۴۸، ۸۰۰)

قرآن مجید تو ایسا اثرانگیز کلام ہے کہ بعض اوقات اسلام قبول کرنے سے پہلے زمانۂ کفر میں بھی قرآن کی تلاوت سننے سے سننے والے کی حالت غیر ہو جاتی ہے ۔

چنانچہ حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ یہ اسیران بدر کے متعلق گفتگو کرنے مکہ سے مدینہ آئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی نماز میں سورۂ طور کی تلاوت فرما رہے تھے۔ تلاوت سنتے ہی ان کے دل ودماغ میں دہشت طاری ہو گئی جیسے جیسے تلاوت سنتے گئے دل کی دنیا زیروزبر ہوتی گئی حتی کہ نماز کے بعد اسلام قبول کر لیا۔

( قرآن اور اور حاملین قرآن، ص96)

اللہ پاک ہمیں ان کے خوف خدا سے حصہ نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پچھلے دنوں  دعوت اسلامی کے اسپیشل پرسنز ڈیپارٹمنٹ کے زیر اہتمام ایسٹ ملیر زون کی کورنگی کابینہ کے ڈویژن ناصر کالونی کے علاقے ضیاء کالونی میں اسپیشل اسلامی بھائیوں کے لئے اجتماع کا انعقاد کیا گیا جس میں گونگے، بہرے اور نابینا افراد نے شرکت کی ۔

اجتماع میں مبلغ دعوت اسلامی نے رمضان کے حوالے سے بیان فرمایا اور اس کی تیاری کرنے کے حوالے سے شرکا کو ذہن دیا۔ رکن زون بن قاسم محمد وسیم عطاری نے اس اجتماع کی اشاروں کی زبان میں ترجمانی کی۔اس موقع پر رکن ریجن اسپیشل پرسنز کراچی محمد عمران عطاری نے خصوصی شرکت کی اور انہوں نے دعا بھی کروائی ۔(رپورٹ: محمد سمیر عطاری اسلام آباد ، میڈیا ڈیپارٹمنٹ اسپیشل پرسنز دعوت اسلامی)


گوجرانوالہ فیضان مدینہ میں اسپیشل پرسنز اسلامی بھائیوں کے لے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں گونگے بہرے اور نابینا اسپیشل اسلامی بھائیوں کے صدر نے  خصوصی شرکت کی۔

اس تقریب میں رکن زون گوجرانوالہ محمد احسان عطاری نے خصوصی بیان فرمایا اور اسپیشل اسلامی بھائیوں کی دینی اور اخلاقی تربیت فرمائی۔(رپورٹ: محمد سمیر عطاری اسلام آباد ، میڈیا ڈیپارٹمنٹ اسپیشل پرسنز دعوت اسلامی)


محمد حنیف عطاری نگران شعبہ اسپشل پرسنز  اور فیصل آباد ریجن کے رکن سلطان عطاری نے جڑنوالہ زون میں ایک ڈیف صدر کے گھر پر مدنی حلقہ لگایا جس میں نگران شعبہ نے ڈیف کلب کے صدر کو دعوت اسلامی کا تعارف پیش کرتے ہوئے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنے کے حوالے سے مدنی ذہن دیا اور مزید جو ان کے ڈیف کلب کے ممبران ہیں ان کو بھی اس میں شرکت کروانے کے حوالے سے ترغیب دلائی۔