رمضان اور قرآن:
خُدائے
رحمن عزوجل کا
اپنے رسولِ ذیشان صلی
اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی اُمت پر یہ عظیم احسان ہے کہ انہیں قرآن اوررَمضان عطا فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کے اِن دونوں احسانات پر غور کیا
جائے تو ان میں باہم ایک حسین اِمتزاج نظر آتا ہے۔ اگر رَمضان کی فضیلت جاننی ہو تو قرآنِ مجید
بُرہانِ رشید اِس پر ناطق ہےاور اگر قرآن کے نُزول کاذکر کیا جائے تو قرآنِ کریم
خود خبر دیتا ہے کہ نزولِ قرآن ماہِ رمضان ہی میں ہواہے۔چنانچہ خدائے مہربان عزوجل ارشاد فرماتاہے:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ([1])
ترجمۂ
کنز الایمان: رمضان
کا مہینہ جس میں قرآن اترا۔
خلیفۂ
اعلیٰ حضرت،صدرالاَفاضل سیّد مفتی محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالی علیہ آیتِ
مبارَکہ کے اِس حصّے کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’اس کے معنی میں مفسّرین کے چند اقوال ہیں:(۱) یہ کہ رمضان وہ ہے
جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا (۲) یہ کہ قرآن کریم کے نزول کی
اِبتداء رمضان میں ہوئی (۳) یہ کہ قرآن
کریم بِتَمامِہٖ (پورا
پورا)
رمضان مبارک کی شبِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف اتارا گیا اور بیتُ
العزّت میں رہا ، یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب ِاِقتضائے
حکمت جتنا جتنا منظورِ الٰہی ہوا جبرئیل
امین لاتے رہے، یہ نُزول تئیس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔‘‘([2])
مفسِّرشہیر
، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
فرماتے ہیں:’’اسی (رمضان
کے)مہینہ
میں قرآن کریم اُترا اور اسی مہینہ کا نام قرآن شریف میں لیا گیا ۔‘‘([3])
مہینوں کا سردار:
اللہ
ربُّ العزت نے اپنی مخلوقات میں بعض کو بعض پر افضلیت او ر بُزرگی بخشی ہے۔
اَفضلیت اور بُزرگی کا یہ تسلسل ہمیں مخلوقات کے ہر ہر طبقے میں نظر آتاہے۔دیگر
مہینوں میں اگر ماہِ رمضان کی قدر و منزلت
معلوم کرنی ہو تو سیِّدِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ
"سَیِّدُ الشُّھُوْرِ رَمَضَانُ وَسَیِّدُ الْاَیَّامِ یَوْمُ
الْجُمُعَۃِ"۔([4])
یعنی
،سارے مہینوں کا سردار رَمضان ہے اورتمام دِنوں کا سردار جمعہ کا دِن ہے۔
جنّت اور آسمانوں کے دروازے:
ماہِ
رَمضان کی تو دُنیا میں کیا آمد ہوتی
ہے،قُدرت کی جانب سے خصوصی اِہتمام ہونے لگتے ہیں۔ مسلمانانِ عالَم کیلئے رحمتوں کے پیام آتے ہیں اور ہر سُو اَنوار و برکات کا ظُہور ہوتاہے۔ اِیمانی جذبے کو خوب حرارت
ملتی ہے، گناہوں کا زور ٹوٹتا ہے اور
مختلف قسم کے نیک اَعمال کا سلسلہ مسلمانوں میں عام ہو جاتاہے۔ اس خوشگوار تبدیلی کی چند وُجوہات اَحادیثِ مبارَکہ میں بیان کی گئی
ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سرکارِ اعظم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کا فرمان روایت کیا گیا ہےکہ :
إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ. ([5])
یعنی،
جب رمضان آتا ہے تو جنّت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں۔
اِسی
میں ایک فرمانِ رسالت یوں روایت کیا گیا ہے کہ:
إِذَا دَخَلَ
شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ وَ سُلْسِلَتِ الشَّيَاطِينُ. ([6])
یعنی،
جب ر مضان آجاتا ہے توآسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطانوں کو
زنجیروں میں جکڑ دیا جاتاہے۔
شرحِ
حدیث:
فقیہ
اعظم ہند، شارِحِ بخاری مفتی شریف الحق
اَمجدی رحمۃ
اللہ علیہ
"نزھۃ
القاری"
میں ان احادیثِ مبارَکہ کی تشریح کرتے
ہوئے فرماتے ہیں کہ:" اس سے کوئی مانع نہیں کہ دروازے کھولنے سے اس کا حقیقی معنی مراد لیا جائے ۔ مطلب یہ
ہوا کہ رمضان میں شب و روز مسلمان اعمالِ
صالحہ بہ کثرت کرتے ہیں، تو دروازے کھول دیئے جاتے ہیں کہ انہیں عروج اور درجہ قبول تک پہنچنے میں ادنیٰ سی رکاوٹ نہ
ہو۔ نیز یہ کہ جب جنّت اور آسمان کے
دروازے کھلے ہوئے ہیں تو رحمت و برکت کا تسلسل کے ساتھ نزول ہوتا رہے گا۔ اسی طرح جہنم کے دروازوں کا بندہونا او رشیاطین کا زنجیروں میں جکڑنا
حقیقی معنوں میں ہے۔" ([7])
ماہِ رمضان کی 10خصوصیات:
مفسِّرشہیر
، حکیم الاُمت مفتی اَحمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی
شاندار تصنیف "تفسیرِ نعیمی" میں ماہِ رَمضان کی کچھ خُصوصیات اور برکات تحریر فرمائی ہیں۔ ان میں سے
چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
(1) کعبہ
معظّمہ مسلمانوں کو بُلا کر دیتا ہے اور یہ(رمضان) آکر رحمتیں
بانٹتا ہے۔گویا وہ کنواں ہے اور یہ دریا ہے یا وہ دریا ہے اور یہ بارش ۔
(2) ہر مہینہ میں
خاص تاریخیں اور تاریخوں میں بھی خاص وقت میں عبادت ہوتی ہے۔ مثلاً بقر عید کی
چند تاریخوں میں حج ،محرم کی دسویں تاریخ
افضل ،مگر ماہِ رمضان میں ہر دن اور ہر وقت عبادت ہوتی ہے۔روزہ عبادت افطار عبادت۔
افطار کے بعد تراویح کا انتظار عبادت۔
تراویح پڑھ کر سحری کے انتظار میں سونا عبادت ۔ پھر سحری کھانا عبادت۔ غرضیکہ ہر
آن میں خُدا کی شان نظر آتی ہے۔
(3) رَمضان ایک بھٹی ہے جیسے کہ بھٹی گندے
لوہے کو صاف اور صاف لوہے کو مشین کا پُرزہ بنا کر قیمتی کر دیتی ہے اور سونے کو
زیور بنا کر محبوب کے استعمال کے لائق کر دیتی ہے ۔ ایسے ہی ماہِ رمضان گنہگاروں کو پاک کرتاہے اور نیک
کاروں کے درجے بڑھاتاہے۔
(4) رَمضان
میں نفل کا ثواب فرض کے برابر اور فرض کا
ستّر گنا ملتا ہے۔
(5) بعض علماء
فرماتے ہیں کہ جو رَمضان میں مرجائے اس سے سوالات ِ قبر بھی نہیں ہوتے۔
(6)
رَمضان میں ابلیس قید کر دیا جاتاہے اوردوزخ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں جنّت
آراستہ کی جاتی ہے اس کے دروازے کھول دیئے
جاتے ہیں اسی لئے اس زمانہ میں نیکیوں کی زیادتی اور گناہوں کی کمی ہوتی ہے۔جو لوگ گناہ کرتے بھی ہیں وہ نفسِ امارہ یا اپنے ساتھی شیطان (قرین) کے
بہکانے سے۔
(7) رَمضان کے کھانے پینے کا حساب نہیں۔
(8) قیامت
میں رَمضان و قرآن روزہ دار کی شفاعت کریں گے کہ رَمضان تو کہے گا کہ مولیٰ میں نے اسے دن میں کھانے پینے سے روکا تھا
اور قرآن عرض کرےگا کہ یا ربّ میں نے اسے رات میں سونے سے روکا۔(شبینہ
اور تراویح کی وجہ سے)
(9)قرآن
کریم میں صرف رَمضان شریف ہی کا نام لیا گیا اور اسی کے فضائل بیان ہوئے کسی دوسرے مہینہ کا نہ صراحتاً نام ہے نہ
ایسے فضائل۔
(10)رَمضان شریف میں افطار اور سحری کے وقت دُعا قبول
ہوتی ہے یعنی افطار کرتے وقت اور سحری کھا کر۔یہ مرتبہ کسی اور مہینہ کو حاصل
نہیں۔([8])
اللہ
کریم ہمیں رَمضان المبارَک کی برکات سے حصّہ پانے اور اس میں خوب عبادات کرکے اسے راضی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ طہ ویٰس
از:
ابوالحقائق راشد علی رضوی عطاری مدنی
[1] : پ 2، البقرۃ :185۔
[2] : "ترجمہ کنزالایمان مع خزائن
العرفان"، ص:60-61، مکتبۃ المدینۃ۔
[3] : "مراٰت المناجیح"،3/133،نعیمی کتب
خانہ۔
[4] : "معجم کبیر" ، حدیث:9000، 9/205۔
[5] : "صحیح بخار، کتاب الصوم،باب ھل
یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔
[6] : "صحیح بخاری، کتاب الصوم،باب ھل
یقال : رمضان أو شهر رمضان، 1/255۔
[7] : "نزھۃ القاری، کتاب الصوم،3/258 ، فرید
بُک سٹال۔
[8] : "تفسیر نعیمی" ،2/227، نعیمی کتب
خانہ، ملتقطاً ۔