کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ”جو بے ادب ہو ، وہ علم سے فائدہ اٹھا نہیں سکتا“ ۔ لہذا علم چاہے دینی ہو کہ دنیوی، مکمل فائدہ تب ہی حاصل ہوگا جب علم حاصل کرنے کا ذریعہ بننے والی ہر شہ کا ادب کیا جائے ۔ خصوصاً کتابوں کا خواہ جس بھی علم کے متعلق ہوں۔

اگر کتب ایک دوسرے کے اوپر رکھنی پڑیں تو ترتیب کچھ یوں ہو کہ سب سے اوپر قرآن مجید پھر تفاسیر ، پھر کتبِ حدیث، پھر فقہ اورپھر دیگر کتب۔ قرآن مجید کا ادب تو اس قدر ضروری ہے کہ بے وضو کو قرآن مجید یا اس کی کسی آیت کو چھونا حرام ہے۔

(بہارِ شریعت ،ج ٢ ، ص ٣٢٦)

اسی طرح دیگر کتب خواہ دینی یا دنیوی علوم سے متعلق ہوں بے وضو نہ چھوئیں جائیں کہ شیخ امام حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا ۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص ٥٢)

اسی طرح ایک مرتبہ شیخ شمس الائمہ امام سرخسی رحمۃُ اللہِ علیہ کا پیٹ خراب ہوگیا ۔ آپ کی عادت تھی کہ رات کتابوں کی تکرار اور و مباحثہ کیا کرتے تھے ۔ایک رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو ١٧ بار وضو کرنا پڑا کیونکہ آپ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص ٥٢)

اللہ اكبر ! ایک رات میں ١٧ بار وضو اور ایک ہم ہیں کہ اگر وضو ٹوٹ جائے تو جب تک لازمِ وضوعمل درپیش نہ ہو تو وضو کرتے ہی نہیں ۔ اللہ پاک ہمیں اسے سمجھنے اور باادب بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اے عاشقانِ علم و علماء ! بزرگانِ دین فرماتے ہیں ”باادب بانصیب“ اس مقولے کو ہر وقت ذہن میں رکھا جائے اور ہر کتاب کا احترام کیا جائے یہاں تک کہ بلا ضرورت کتب پر کوئی غیر ضروری شہ بھی نہ رکھی جائے اور نہ ہی انھیں زمین پر رکھا جائے بلکہ اونچی جگہ رکھا جائے اور علما فرماتے ہیں کہ کتاب کے اداب میں سے ہے کہ جب پڑھنے کے لئے سامنے رکھی جائے تو ناف سے اوپر رکھی جائے ۔ نہ صرف کتب کا بلکہ سادہ کاغذ بھی ہوتو اسکا بھی ادب کیا جائے کہ یہ بھی قرآن و حدیث اور اسلامی باتیں لکھنے کے کام آتا ہے کہ

حضرت سیدنا شیخ احمد سرھندی المعروف مجدّدالف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ سادہ کاغذ کا بھی احترام فرماتے تھے چنانچہ ایک روز اپنے بچھونے پر تشریف فرما تھے کہ یکا یک بے قرار ہو کر نیچے اتر آئے اور فرمانے لگے ، معلوم ہوتا ہے ، اس بچھونے کے نیچے کوئی کاغذ ہے۔

(زبدة المقامات، ص ١٩٢)

اللہ پاک ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

علم اور ادب کا بہت بڑا ساتھ ہے، یوں سمجھئے کہ جہاں ادب نہیں وہاں علم کا کوئی فائدہ نہیں،  کوئی بھی طالبِ علم نہ تو اس وقت تک علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ ان ذرائع کا ادب نہ کرے جن کے ذریعے علم کے حصول میں مدد ملتی ہے اُنھیں ذرائع میں سے ایک ذریعہ کتاب بھی ہے ۔

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تَعَلِّمُوا العِلْمَ وَ تَعَلَّمُوْا لِلْعِلْمِ السَّكِيْنَةَ علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو ۔ ( والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، صفحہ 95، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

بظاہر تو ہو سکتا ہے کہ اس کو کالے حروف سمجھ میں بھی آ جائیں، وہ ان کو یاد بھی کر لے اور امتحان میں کامیاب بھی ہو جائے، لیکن جو علم کی نورانیت و روحانیت ہے وہ اس کو کبھی نہ پا سکے گا آپ ہمارے بزرگانِ دین کو ہی دیکھ لیجیے کہ بظاہر تو قرآن و حدیث میں یوں مسائل مذکور نہیں ہیں جس طرح آج ہماری کتابوں میں موجود ہیں اور ہمیں سکھائے جاتے ہیں یہ کیا ہے؟ یہ اُن كا ادب ہی ہے کہ اُن نُفُوسِ قُدسیہ میں اپنی کتابوں کا ادب ہی اس قدر تھا کہ کتاب ان کو خود بتاتی تھی کہ بھئ! میرے اندر یہ بات بھی چُھپی ہوئی ہے ۔ جس نے بھی کہا ہے بے مثال کہا ہے. "مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْكِ الْحُرمَةِ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔

( راہِ علم، صفحہ 29، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

کتابوں کا ادب کس طرح کیا جائے:

1) کتابوں کو اونچی جگہ رکھا جائے۔

2) کبھی بھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پڑھی جائے ۔

3) بغیر وضو کے کتاب کو نہ پڑھا جائے۔

4) کتابوں کی طرف پاؤں نہ پھیلائے جائیں۔

کتابوں کے ادب کے چند واقعات:

1) شمسُ الائمہ حضرت سیدنا امام سرخسی رحمۃ اللّٰه علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کا پیٹ خراب ہو گیا ، آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مُباحثہ کیا کرتے تھے پس اُس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو 17 بار وضو کرنا پڑا کیونکہ آپ  بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے ۔ ( راہِ علم، صفحہ 33، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

2) حافظِ ملّت شاہ عبد العزیز مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ جب کسی طالبِ علم کو دیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کر چل رہا ہے تو فرماتے: " کتاب جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہو گی ۔

( شانِ حافظِ ملّت رحمۃُ اللہِ علیہ ، صفحہ 6، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

دین سراپاسوختن اندر طلب

انتہایش عشق و آغازش ادب

طلبِ محبوب میں تڑپنے کا نام دین ہے، ادب سے شروع ہوتا ہے عشق پہ ختم ہو جاتا ہے۔ 

کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

کیا کتابوں کا ادب ضروری ہے  :

علم حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کتابیں بھی ہیں جس طرح teacher اور علم کا ادب ضروری ہے اسی طرح جن کتابوں کے ذریعہ علم حاصل کیا جاتا ہے انکا ادب بھی ضروری ہے ۔ بعض اوقات ادب سے وہ مقام بہت جلد مل جاتا ہے جو دوسری کسی چیز سے اتنی جلدی نہیں ملتا ۔

اب المیہ یہ ہے کہ دنیاوی کتابوں کا ادب تو دور کی بات مقدس کتابوں تک کا ادب نہیں رھا ۔ اب دور حاضر میں یہ بات بھی دیکھنے ،سننے کو ملی ہے کہ مقدس کتابیں حتی کہ افضل ترین کتاب قرآن پاک اگر پڑھنے کے قابل نہیں رہتا تو انہین ایسی جگہوں کی نظر کردیا جاتا ہے جہاں ادب کا الف تک نہیں ہوتا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ مقدس تحریرات کے حوالے سے ہمارے بزرگان دین کتنے حساس ہوا کرتے تھے ۔ملاحظہ فرمائیں ۔

1 ۔شرابی کی بخشش کا راز :

نزہۃ المجالس کتاب کے ایک طویل واقعے کا کچھ اسطرح کا مضمون ہےکہ ۔

ایک شخص نے اپنے شرابی بھائی کو بعد وفات خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے اس نے اپنے مرحوم بھائی سے پوچھا کہ تجھے جنت کیسے نصیب ہوگئی حالانکہ تو تو شرابی تھا ، مرحوم بھائی نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ میں شراب پینے کی وجہ سے آپ سے مار کھا کر جا رہا تھا راستے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دیکھا جس پر ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “لکھا تھا ، میں اسے اٹھا کر نگل گیا تھا جب قبر میں پہنچا تو منکر نکیر کے سوالات پر میں نے عرض کی کیا آپ مجھ سے سوالات فرما رہے ہیں حالانکہ میرے پرور دگار کا نام میرے پیٹ میں ہے ، ایک منادی نے نداء دی : صدق عبدی قد عفرت لہ یعنی میرا بندہ سچ کہتا ہے بے شک میں نے اسے بخش دیا ۔ (نزہۃ المجالس ، جلد 1 ، ص 41 )

( مقدس تحریرات کے بارے میں سوال جواب )

2 ۔حافظ ملت کا ادب قرآن :

ایک مرتبہ چھٹی کے بعد کئی طلبہ دار العلوم اہلسنت اشرفیہ کی سیڑھیوں کے پاس حافظ ملت رحمۃُ اللہِ علیہ کی زیارت و ملاقات کے لئے منتظر کھڑے تھے آپ تشریف لائے تو سب طلبہ پاس ادب ( ادب کا خیال ) رکھتے ہوئے آپکے پیچھے پیچھے چل پڑے ۔اچانک آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک طالب علم سے فرمایا آپ آگے آگے چلیں یہ سن کر وہ طالب علم جھجکے تو فرمایا : آپکے پاس قرآن شریف ہے اس لئے آگے چلنے کا کہ رہا ہوں ۔ (حیات حافظ ملت ، ص 66)

3 ۔توبہ کی توفیق ملنے کا راز :

حضرت سیدنا منصور بن عمار رحمۃُ اللہِ علیہکی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ انکو راہ میں کاغذ کا پرزہ ملا جس پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا تھا انہوں نے ادب سے رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نا پائی تو اسے نگل لیا رات خواب دیکھا کوئی کہ رہا ہے کہ اس مقدس کاغذ کے احترام کی برکت سے اللہ رب العزت جل جلالہ نے تجھ پر حکمت کے دروازے کھول دیئے ۔

( الرسالۃ القشیریہ ،ص 48 ، مقدس تحریرات کے بارے میں سوال جواب )

ماہنامہ فیضان مدینہ کے محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے ہمارے بزرگان دین کا ادب کتاب، وہ کتابوں کا ادب تو کرتے ہی تھے لیکن کتاب کے ہر ہر جزء کا ادب کرتے تھے اور ایک ہمارا ادب ہے الامان و الحفیظ ۔۔ ایک مشہور محوارہ جو موضوع اعتبار سے بہترین سمجھ آتا ہے کہ ” با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب “ ۔ 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

دین اسلام میں ادب کو بہت زیادہ مقام و مرتبہ حاصل ہے۔قرآن و حدیث میں جا بجا طور پر ادب کی تاکید و اہمیت بیان کی گئی ہے۔علم کے حصول کی پہلی سیڑھی ادب ہے ۔ ادب کی برکت سے بہت سے کند ذہن لوگوں نے وہ علمی مقام و مرتبہ حاصل کیا کہ بڑے بڑے عقلاء بھی حیران رہ گئے۔ ایک طالب علم پر جن چیزوں کا ادب ضروری ہے ان میں کتاب کا ادب بھی شامل ہے۔امت مسلمہ میں کتاب کے ادب کے حوالے سے بےشمار واقعات موجود ہیں ۔ذوق طبع کیلئے چند واقعات ذیل میں مذکور ہیں:  

1: شمس الائمه حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا:"میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا وُہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔"(راہ علم صفحہ 33)

2:حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ قیام گاہ پر ہوتے یا درس گاہ میں،کبھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پڑھتے نہ پڑھاتے،قیام گاہ سے مدرسے یا مدرسے سے قیام گاہ کوئی کتب لے جانی ہوتی تو داہنے ہاتھ میں لے کر سینے سے لگا لیتے ۔ آپ علیہ الرحمۃ کا ارشاد ہے : کتاب جب سینے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی۔ (فیضان حافظ ملت ، صفحہ 6 بتغیر)

3: امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی دینی کتب سے محبت اور ان کے ادب کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ کسی نے دوران گفتگو حدیث مبارکہ کی کتاب "مشکوۃ شریف" کو اس طرح اوپر سے میز پر رکھا کہ اچھی خاصی "دهمک" پیدا ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں مجھے اس بات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود جب بھی وہ واقعہ یاد آتا ہے تو اس "دھمک" کا صدمہ محسوس ہوتا ہے۔ (شوق علم دین صفحہ 35 بتغیر )

معزز قارئین! علم کے حصول میں ادب کا بہت بڑا کردار ہے ادب کی اہمیت کے متعلق امام زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہل علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ "جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا"۔(راہ علم صفحہ 29)

کتاب کے چند آداب یہ بھی ہیں:کتاب کو باوضو ہی چھونا چاہیے۔ کتاب کی طرف پاؤں پھیلانا ، ٹیک لگانا کتاب کو پیٹھ کرنا ، پاؤں کے پاس یا زمین پر رکھنا اس پر سر رکھ کر سونا ان سب باتوں سے بچا جائے۔کتاب کو لاپرواہی کے ساتھ اِدھر اُدھر رکھنے کے بجائے ادب کے ساتھ کسی ادب والی جگہ پر رکھا جائے۔یونہی بلا ضرورت کتاب پر قلم دوات وغیرہ کچھ بھی نہ رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبوں کے سائے سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا

کی لینا علم نوں پڑھ کے ھو 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

علم ایک  نور ہے یہ نور جہاں صحرائے ظلمات کی تاریکیاں کافور کرتا ہے وہیں تہذیب و تمدن کا جوہر بھی عطا کرتا ہے۔ علم ادب سکھاتا ہے باہمی روابط کے گر سے آشنا کرتا ہے ،خالق کی معرفت و مخلوق کی خدمت کے جذبہ ٔ جاویداں سے فکر انسانی کو سرشار رکھتا ہے ۔

اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ حصول علم کے ذرائع کیا کیا ہوسکتے ہیں ?

گذشتہ ادوار ہوں یا عہدِ رواں ذرائع مختلف ہوتے رہتے ہیں، طلبہ کے مزاج تنوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسا عظیم المرتبت ذریعہ آج بھی جوں کا توں باقی ہے جیسا زمانہ ماضی میں تھا ۔

وہ ذریعہ ہے "کتاب" بے شک مقتضائے حالات کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع بدلے اور بدلنے بھی چاہیے لیکن ایک کتاب ہی وہ واحد و یگانہ ذریعہ ہے جو گردش ایام کے ساتھ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس کی مقدار میں مزید اضافہ ہوا ۔

یہاں سے اس کی اہمیت و افادیت اجاگر ہوتی ہے کہ دیگر وسائل تغیر پذیر ہوئے لیکن یہ نہیں بدلا تو یقینا یہ ایک اہم ذریعہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا ادب کریں اس کی قدر کو پہچانیں ،اس کا بھی ایک حق ہے اس حق کی ادائیگی میں بالکل کوتاہی نہ برتیں ۔ہمارے اسلاف نے اس گوشہ کو بہت ہی حساسیت سے لیا اتنی احتیاط برتی کہ پڑھ سن کر ہی قوت فکر تاباں ہوجائے ۔

مکمل کتاب کا ادب تو ایک امر عظیم ہے ہمارا دین تو ہمیں حروف تہجی کے آداب سے بھی آشنا کرتا ہے کہ جہاں الف ، با وغیرہ مرقوم ہوں اس جگہ کی قدر کرو راہ چلتے کہیں بوسیدہ ورق مل جائے معطر کرکے پلکوں پہ رکھ لو پھر اگر یہ وسوسہ لاحق ہو کہ اس طرح کے ادب کا صلہ کیا ملے گا تو حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا مطالعہ کرلو آپ کا شمار اولیائے کبار میں ہوتا ہے آپ کی ولایت کا سبب ادب ِ تسمیہ شریف ہے ۔

آپ کی توبہ کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ بالکل عنفوان شباب پر ہیں میخانے کا رخ کیے ہوئے تشریف لیے جارہے ہیں راستے میں ایک بوسیدہ کاغذ پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ مسطور پایا جذباتی ہوگئے کہ میرے رب کا نام اس حالت میں! بلا تاخیر اس پرچہ کو وہاں سے اٹھایا میخانے کا عزم منسوخ کیا گھر تشریف لائے عطرسے معطر کیا گھر کی محفوظ و بلند جگہ پر رکھا ، دوسرے ہی دن حضرت ذو النون مصری رضی اللہ تعالی عنہ پیغام ولایت لے کر پہنچ گئے اور گویا یوں ہوئے کہ اے مرد قلندر ! تمہارے ادب نے اپنا رنگ دکھا دیا آج تم ایک عام انسان نہیں رہے محبوبان خدا کی صف میں شامل ہوچکے ہو ۔

مدعا یہ کہ آپ نے تسمیہ شریف کا احترام کیا تو ولایت نصیب ہوگئی ہم بھی اگر اپنے تٔیں ان کی روش پہ چلیں توبادشاہت نہیں کم از کم ان کی رقیت تو نصیب ہوہی جائے گی ۔ ان شا اللہ تعالٰی عزوجل

اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ دوسری بار حج کے لیے بیت اللہ شریف و مدینہ المنورہ تشریف لے گئے تو آپ کے شہزادے حضرت علامہ مولانا حامد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ بھی آپ کے ساتھ تھے آپ کو وہاں کتابوں کی ضرورت پڑ تی تھی اس لیے کبھی کبھار حرم کی لائبریری میں تشریف لے جاتے لائبریری میں ایک دن بعد عصر مفتی حرم تصنیفی کام انجام دے رہے ہیں اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اور آپ کے شہزادے چند حوالہ جات کی تصحیح کے لیے وہاں تشریف لے جاتے ہیں مجدد اعظم تو سیدھا لائبریری میں داخل ہوجاتے ہیں مگر آپ انہیں مفتی صاحب کے پاس تشریف لے گئے جو مفتی حرم تھے قریب گئے تو دیکھا کہ مفتی حرم اپنے کام میں مشغول ہیں اور نسیان سے سیاہی کی دوات کتاب پر رکھی ہوئی ہے آپ نے دھیرے سے اس دوات کو وہاں سے ہٹایا اور اپنی انگلی مبارک کو وہاں رکھ دیا تاکہ ہوا کی وجہ سے کتاب کے اوراق منتشر نہ ہونے پائیں جب مفتی صاحب قبلہ نے اس چیز کو محسوس کیا تو آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا آپ نے فرمایا : فقہ کی کتابوں میں اس کو خلاف اولی لکھا ہے انہوں نے کہا میں مفتی ہوں میں نے کبھی نہیں پڑھا تم جوان بچے ہو کہاں سے پڑھ لیا آپ نے فرمایا اسی کتاب سے جس کی مدد سے آپ کچھ تحریر فرمارہے ہیں وہ کتاب فتح القدیر تھی مفتی صاحب نے تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا کہ دکھاو کہاں ہے آپ نے فوراً کتاب کو لیا اور ایک جزٔیہ کی روشنی میں یہ ثابت کردیا کہ یہ امر خلاف اولی ہے تب مفتی صاحب کو یہ سمجھ آگیا کہ واقعی یہ امر خلاف اولی ہے حالانکہ وہ بھی اس نوعیت کے ادب کے قائل تھے ۔

اب ہمیں خوب اچھے طور سے پتہ چل گیا کہ دینی کتابوں کا نیز دیگر دینی ذخائر کا کس قدر ادب ہونا چاہیے ، کتاب کا ادب یقینا علم کا فیضان نصیب کرتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ کتابوں کا خاص طور سے ادب کریں اور علمی فیضان سے اپنے آپ کو منور کریں ۔ 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

ادب انسان کو دنیا وآخرت میں کامیابی اوربارگاہِ الٰہی میں سرخروئی اور بلندمقام تک پہنچاتا ہے ۔ ادب ہی انسان کوممتاز بناتا ہے۔علم بہت سے طریقوں سے حاصل کیاجاسکتا ہے،ان میں ایک طریقہ مطالعۂ کتب بھی ہے۔کتاب کامطالعہ کرنے والا مصنف کی صحبت میں ہوتا ہے۔کتاب کاادب کرنے والامصنف کاادب کرنے والا ہوتا ہے،ان سے فیض پائے گا۔کتاب کے آداب میں سے چند یہ ہیں:

1:باوضو مطالعہ :

شمس الدین امام سرخسی رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیشہ باوضو کتب کا تکرار کرتے تھے۔ایک مرتبہ پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے 17بار وضو کرناپڑا لیکن بغیر تکرار نہ کیا ۔ ( راہِ علم،(تعلیم المتعلم طریق التعلم)،(ّبتغیر) صفحہ 33،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

2:بغیر ٹیک لگائے پڑھنا :

حافظ ملت مولاناعبدالعزیز محدث مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ قیام گاہ میں ہوتے یادرس گاہ میں کبھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگاکر نہ پڑھتے بلکہ تکیہ یاڈیسک پر رکھ لیتے۔ (شان حافظِ ملت،صفحہ 6،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

3: چلنے میں کتاب کاادب :

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ قیام گاہ سے مدرسہ یامدرسے سے قیام گاہ کبھی کوئی کتاب لے جانی ہوتی توداہنے ہاتھ میں کے کرسینے سے لگا لیتے کسی طالب علم کودیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کرچل رہا ہے تو فرماتے : "کتاب جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کوسینے سے دور رکھاجائے گاتو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی۔" (ایضاً)

4:کتاب پر کوئی چیز نہ رکھی جائے:

محدثِ اعظم پاکستان مولانا سرداراحمد قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کے شاگرد نے ایک مرتبہ بخاری شریف پرگلاب رکھا تو آپ نے فرمایا: ’’پھول اگرچہ بڑی نازک چیز ہے،بہرحال بخاری شریف سے افضل نہیں‘‘۔(فیضان محدث اعظم پاکستان،صفحہ 20،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

5:قبلہ رو مطالعہ:

دو طالب علم تعلیم کے لیے گئے،دونوں ایک درجہ میں تھے،جب علم کی تکمیل کی توایک فقیہ بن چکے تھے اور دوسرا کورے کا کوراتھا۔دونوں کے اندازِ مطالعہ اوررہن سہن کے بارے میں تحقیق کی گئی توپتہ چلاکہ جوفقیہ بن کرلوٹے وہ قبلہ رو بیٹھا کرتے۔جبکہ جو کورے کا کورا لوٹے وہ قبلہ کوپیٹھ کرکے بیٹھا کرتے تھے۔ (راہِ علم،(بتغیر)صفحہ 83،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

6: حفظِ مراتب :

کتابوں کواوپر نیچے رکھنا ہوتو ترتیب کچھ یوں ہونی چاہیے،سب سے اوپر قرآن حکیم،اس کے نیچے تفاسیر،پھر کتبِ حدیث،پھر کتبِ فقہ،پھر دیگر کتبِ صرف ونحو وغیرہ۔ (نماز کے احکام،صفحہ124،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

کتابوں کاادب بہت ضروری ہے،ہمارے اسلاف کتابوں کابہت زیادہ ادب کیاکرتے تھے۔یہاں تک کہ سادہ کاغذ کابھی ادب کیاکرتے تھے؛کیونکہ اس پرقرآن وحدیث اوردیگر اسلامی باتیں بھی لکھی جاتی ہیں۔

اللہ عزّوجلّ سے دعا ہے کہ ہمیں کتابوں کاادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے، جب تک کہ وہ علم اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو، کسی نے کہا ہے کہ"ما وَصَل مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَۃِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الحُرْمَۃِ۔ یعنی"جس نے جو کچھ پایا، ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"

کہا جاتا ہے: اَلْحُرْمَۃُ خَیْرُ مِنَ الطَّاعَۃِ۔ کہ ادب و احترام کرنا، اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ دیکھ لیجئے، انسان گناہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔

تعظیمِ علم، اہل علم و اساتذہ کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ادب و احترام کرنا بھی بہت ضروری ہے، تعظیمِ علم میں کتابوں کا ادب کرنا بھی شامل ہے، لہذا طالب علم کو چاہئے کہ کبھی بھی بغیر طہارت کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے۔

حضرت سیّدنا شمس الائمہ حلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔"

طالب علم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے، کتبِ تفاسیر کو تعظیماً تمام کتب کے اوپر رکھے اور کتاب کے اوپر کوئی دوسری چیز ہرگز نہ رکھی جائے۔

ہمارے استادِ محترم شیخ الاسلام حضرت سیّدنا امام برہان الدّین علیہ رحمۃ الرحمن اپنے مشائخ میں سے کسی بزرگ رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت بیان کرتے تھے کہ ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے تو شیخ نے ان سے فارسی میں فرمایا"ہرنیابی" یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

ہمارے استادِ محترم امامِ اجل فخر الاسلام حضرت سیّدنا قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن فرمایاکرتے تھے:"کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیرِ علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، مگر اولٰی یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔


Under the supervision of ‘Majlis short courses for Islamic sisters’, a 2-day course, namely ‘Ramadan - a month of deliverance’ will be conducted on 8th and 9th May 2021 in Manchester Division, UK.

In this course, the attendees (Islamic sisters) will be able to learn about the blessings of the month of Ramadan and the method of attaining steadfastness on worship after the month of Ramadan.

For admission in the course, please contact this number.

07938590494


کتابوں  کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

مشہور مقولہ ہے باادب با نصیب اور بے ادب بے نصیب۔ انسان نے جو کچھ بھی پایا اپنے ادب ہی کے سبب اور جو کھویا اپنے ادب نہ کرنے کے سبب۔ آئیے کچھ کتابوں کے ادب کے بارے میں گفتگو کی جائے تاکہ انکا ادب کرنے کا مزیدذہن بنے۔ تعظیم علم میں کتابوں کا ادب بھی شامل ہے  لہذا

باوضو پڑھیں:

جہاں تک ہوسکے دینی کتابوں کو با وضو پڑھیں بزرگان دین کو وضو سے اس وجہ سے بھی محبت تھی کہ علم نور ہے اور وضو بھی نور پس وضو کرنے سے علم کی نورانیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ (راہ علم)

پاؤں نہ کریں:

جس طرف کتابیں رکھی ہوں اس طرف پاوں ہرگز نہ پھیلائیں ، کتابوں کو رکھنے میں ترتیب کا خیال۔

کتابوں کے ادب میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ ان کو رکھنے میں جو ترتیب بیان کی گئی انکو اسی لحاظ سے رکھیں ۔سب سے اوپر قرآن کریم پھر تفسیر قرآن پھر حدیث پاک کی کتاب پھر اس کی شرح پھر اصول فقہ پھر فقہ پھر اس کے بعدنیچے دیگر کتابیں رکھیں اور اسکے علاوہ اس بات کا خیال رکھیں کہ کتاب کے اوپر کوئی چیز نہ رکھی جائے حتیٰ کہ قلم بھی نہ رکھیں۔ اس ضمن میں امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی ایک حکایت ملاحظہ ہو چنانچہ۔

ایک مرتبہ اشراق چاشت کے نوافل کی ادائیگی کے بعد آپ دامت برکاتہم العالیہ کی نظر ایک دینی کتاب پر پڑی جس پر کسی نے وائٹو رکھ دیا تھا آپ نے وائٹو کو اوپر سے ہٹاتے ہوئے اس طرح ارشاد فرمایا کہ دینی کتاب پر کسی شے کا رکھنا ادب کے خلاف ہے اسکا خیال رکھنا سعادت مندی ہے ورنہ جو اس طرف توجہ نہیں دیتا تو اس کی بے احتیاطیاں بڑھ جاتی ہیں۔ (تذکرہ امیر اہلسنت، ص34)

کتاب کی حفاظت سبب مغفرت:

کتابوں کی حفاظت اور انکی دیکھ بھال بھی رکھیں کہ نہ جانے اللہ پاک کس کام سے خوش ہو کر ہمیں سعادتوں سے مالامال فرمادے آئیے ایک کتاب کی حفاظت کرنے والے کی حکایت ملاحظہ ہو چنانچہ۔ ابو ایوب سلمان کو وفات کے بعد کسی نے خواب میں دیکھا تو پوچھا اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا ؟ تو انھوں نے کہا بخش دیا گیا ۔ جب سبب پوچھا گیا تو فرمایا کہ اصبہان کے راستے میں تھا کہ بارش شروع ہوگئی اور میرے ساتھ کتابیں بھی تھیں اور میں کھلے آسمان تلے تھا کہ میرے اوپر کوئی چھت وغیرہ نہ تھی تو میں صبح تک ان کتابوں پر جھکا رہا یہاں تک کہ بارش تھم گئی بس اللہ پاک نے دوسروں کے ساتھ مجھے بھی بخش دیا ۔ (اصول جرح و تعدیل، ص119) )

اسی طرح کتابوں وغیرہ کی بائنڈنگ کا بھی خیال رکھا جائےکہ اگر تھوڑی سی کہیں سے بھی کتاب کی بائنڈنگ یا صفحہ وغیرہ پھٹکنے لگے تو فوراً اس کو درست کر لیا جائے تاکی مزید اور کتاب کو نقصان نہ پہنچے۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی کتابوں سے مستفید ہوتے رہنے اور انکا ادب و احترام کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

جو ہے باادب وہ بڑا بانصیب اور

جو ہے بے ادب وہ نہایت بُرا ہے

(وسائل بخشش)


Under the supervision of Majlis ‘Islah-e-A’maal’, an ‘Islah-e-A’maal Ijtima’ was conducted in Rochdale Division, UK on 23rd April 2021. 21 Islamic sisters had the privilege of attending this great Ijtima’.

Kabinah responsible Islamic sister (donation box) delivered a Bayan on the topic ‘blessing of recitation’ and gave the attendees (Islamic sisters) the mindset of reciting the Holy Quran abundantly, especially in Ramadan-ul-Mubarak. Moreover, she gave an introduction of the booklet, ‘Nayk A’maal’ and gave them mindset of analysing their deeds daily and becoming the practicing individuals of ‘Nayk A’maal’.

In order to spread the message, ‘calling people to righteousness’, some glimpses of the religious activities carried out by Islamic sisters in the UK in the last week are as follows:

1234 Islamic sisters had the privilege of reciting one part of the Holy Quran daily.

525 Islamic sisters had the privilege of reciting a half part of the Holy Quran daily.

472 Islamic sisters had the privilege of giving Dars at home daily.

1409 Islamic sisters had the privilege of reciting Durood-e-Pak daily for 313 times.

1046 Islamic sisters had the privilege of reciting Durood-e-Pak daily for 1200 times.

577 Islamic sisters had the privilege of reading a book daily for 12 minutes.


Under the supervision of Majlis ‘Islah-e-A’maal’, ‘Islah-e-A’maal Ijtima’ were conducted in Walthamstow and Ilford, UK on 22nd April 2021. Approximately, 36 Islamic sisters had the privilege of attending these great Ijtima’at.

The female preachers of Dawat-e-Islami delivered a Sunnah-inspiring Bayan via Skype, explained the attendees (Islamic sisters) about the booklet, ‘Nayk A’maal’ in detail and described them the method of acting upon ‘Nayk A’maal’ with ease. Furthermore, she gave them the mindset of becoming the practicing individuals of ‘Nayk A’maal’.