حق کی تعریف:حق سے مراد وہ ذمہ داری ہے جو ایک ذات پردوسری ذات کے مقابل لازم ہو۔

حق کی اقسام:حقوق دو قسم کےہیں:( 1)حقوق اللہ( 2)حقوق العباد۔

ہمارا دین کامل،جامع اور مکمل ہے۔اس میں اللہ اور بندے دونوں کے حقوق کا بیان ہے۔دنیا میں آنے کا مقصد اللہ پاک نے قرآن ِکریم میں بیان فرمایا ہے کہ بندے کو رب کریم کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے تو اب اس کا بندہ ہونے کے ناطے یہ ضروری ہے کہ اس کی عبادت کی جائے۔اگر کوئی کسی پر احسان کرے تو لازمی طور پر وہ اس کا مشکور اور ممنون ہوگا تو رب کریم جس کے اتنے احسانات ہیں کہ شمار نہیں تو اس کا شکر ادا کرنااس سے بھی زیادہ ضروری ہے اور محبت کا تقاضا بھی یہ ہے کہ اس کی خوشنودی حاصل کرنے میں کوشش کی جائے۔یہ جب ہی ممکن ہے کہ اس کے حقوق ادا کیے جائیں۔

حقوق العباد پر تو کلام بہت عام ہے مگر حقوق اللہ سے عام طور پر یہی سمجھا جاتا ہے کہ نماز ادا کرنی ہے،روزہ رکھ لیا تو اللہ کے حقوق ادا ہو گئے،جان لیجیے!حقوق اللہ کے معنی اس سے کہیں وسیع ہیں۔آئیے !اپنے پیدا کرنے والے کے چند حقوق کے بارے میں جان لیتے ہیں۔

اللہ پاک کا پہلا حق:اس کی ذات و صفات پر کامل ایمان لانا ہے۔ ایمان وہ چیز ہے کہ اس کے بغیر کسی دوسری چیز کا تصور ہی ممکن نہیں۔بات شروع ہی اٰمنتُ باللّٰہ (میں اللہ پر ایمان لایا )سے ہوتی ہے،رسول و فرشتے و کتاب اس کے بعد آتے ہیں اور ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ جیسے ایمان لانے کا حق ہے ویسے ایمان لایا جائے کہ صرف ظاہرا ًہی نہیں بلکہ دل سے ایمان لائے،دل سے اس کے رب ہونے اور وہ تمام صفات جو اس کے بارے میں بیان کی جاتی ہیں ان کو مانے اور دل سے خود کو اس کا بندہ تسلیم کرے۔

دوسرا حق:اللہ پاک کا دوسرا حق یہ ہے کہ جو یہ ایمان لایا اس کو اپنا کمال نہیں بلکہ اس کا ہی احسان اور اس کی ہی عطا سمجھے کہ بغیر اس کی توفیق کے ایمان لانا ممکن ہی نہیں اور یہی سمجھے کہ اگر اللہ چاہے تو ہی میرے دل میں ایمان ہے اگر نہ چاہے تو اس عاجز بندے کے اختیار میں کچھ نہیں۔اللہ پاک ایمان کی سلامتی عطا فرمائے۔قبر میں بھی ایمان ساتھ لے کر جائیں۔قرآنِ کریم میں ان لوگوں کے بارے میں فرمایا گیا جو اسلام لانے پر آقا ﷺ پر احسان جتاتے تھے:یَمُنُّوْنَ عَلَیْكَ اَنْ اَسْلَمُوْاؕ- قُلْ لَّا تَمُنُّوْا عَلَیَّ اِسْلَامَكُمْۚ-بَلِ اللّٰهُ یَمُنُّ عَلَیْكُمْ اَنْ هَدٰىكُمْ لِلْاِیْمَانِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ0 اے محبوب وہ تم پر احسان جتاتے ہیں کہ مسلمان ہوگئے تم فرماؤ اپنے اسلام کا احسان مجھ پر نہ رکھو بلکہ اللہ تم پر احسان رکھتا ہے کہ اُس نے تمہیں اسلام کی ہدایت کی اگر تم سچے ہو۔ (الحجرات:17)

تیسرا حق:اللہ پاک کا تیسرا حق یہ ہے کہ اس کی ملاقات کا شوق رکھا جائے،جس سے محبت ہو اس سے ملنے کا شوق بھی ہوتا ہے اور اس ملاقات کو خوبصورت بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے،جو اللہ پاک سے ملاقات کا شوق رکھتا ہے وہ اس سے ملاقات کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتا ہے اور اس کو بہتر بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ اس کی عبادت میں کوشش کی جائے۔فرمایا:وَ اِنَّهَا لَكَبِیْرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخٰشِعِیْنَ0الَّذِیْنَ یَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ بے شک نماز ضرور بھاری ہے مگر ان پر جو دل سے میری طرف جھکتے ہیں جنہیں یقین ہے کہ انہیں اپنے رب سے ملنا ہے۔(البقرہ:45-46)

چوتھا حق:اللہ پاک کا چوتھا حق یہ ہے کہ اس سے اعلیٰ درجے کی محبت کی جائے،اس کی محبت میں جیے اور اس کی محبت میں مرے،اپنی خوشی پر اللہ کی رضا اور خوشنودی کو ترجیح دے،اس کی یاد میں روئے اس کی خاطر دوستی رکھے،اس کی خاطر ہی دشمنی رکھے،اس کے پسندیدہ لوگوں کو خود بھی پسند کرے،قرآنِ کریم میں ایمان والوں کی نشانی بیان فرمائی گئی ہے:وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ (البقرہ:165)

پانچواں حق:اللہ پاک کا پانچواں حق اس کی اطاعت ہے کہ جس جس چیز کا اس نے حکم دیا اسے بجا لائے اور جس جس چیز کا اس نے منع فرمایا اس سے رک جائے اور اس کی اطاعت میں دل تنگ نہ ہو بلکہ خوشی خوشی اس کی عبادت میں کوشش کرے،نماز پڑھے تو خشوع و خضوع سے،زکوٰۃ ادا کرے تو دل تنگ نہ ہو،روزہ رکھے تو بھوک پیاس پر رب کی رضا کی خاطر صبر کرے،حرام سے پرہیز کرے تو رب کے لیے،کفر سے بچے تو رب کے لیے،پھر ان سب کو اللہ کی توفیق اور احسان جانے اور اپنی عبادت پر ناز نہ کرے بلکہ استغفار کرے، جیسے قرآنِ کریم میں پرہیزگاروں کے بارے میں ارشاد فرمایا:وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ0اور رات کے آخری پہروں میں بخشش مانگتے تھے۔(الذٰریٰت:18)اور یہ بھی فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ اے ایمان والوں اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔(الانفال:20)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سارے حقوق ہیں کہ جن کا احاطہ کرنا مشکل ہے۔اگر ہم اللہ پاک کے ان حقوق کی ادائیگی کریں گے تو ہی محض بندے سے حقیقی بندہ بن سکتے ہیں۔ اللہ پاک سے ملاقات تو کرنی ہے اس کی دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو اللہ پاک ہم سے خوش ہو یا ناراض ہو تو کیوں نہ اس حال میں ملاقات کی جائے کہ وہ ہم سے راضی ہو اور اس سعادت کو پانے کے لیے اس کے حقوق ادا کرنے ہوں گے۔اللہ پاک توفیق عطا فرمائے۔


یہ ایک مسلم بات ہے کہ ہم پر جس کے جتنے احسان ہوتے اس کے حقوق بھی اتنی کثرت سے ہوتے ہیں۔ الله پاک ہمارا خالق و مالک ہے اس کی عنایات نوازشات شمار سے باہر ہیں،ارشادِ ربانی ہے:اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو شمار نہیں  کر سکو گے۔( ابراہیم:34) لہٰذا اس ذاتِ پاک کے ہم پر بے شمار حقوق بھی ہیں۔ اگرچہ بندہ بہت کمزور ہے اور اس کے حقوق کما حقہ ادا نہیں کر سکتا مگر کوشش ضرور کرے۔وہ کریم ذات بندے کی حقیر کوشش پر اسے بے انتہا ثواب عطا فرمادیتی ہے۔ فرماتا ہے:اور اگر کوئی نیکی ہو تو اسےدونی کرتاہے اور اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔( النساء:40) اس کیلئے چند حقوق اللہ کا مختصر ذکر درج ذیل ہے:

(1) اللہ پاک کو معبودِ برحق و ایک ماننا:دوسرے الفاظ میں بیان کیا جائے تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کی تصدیق کرنا،اسی کو مستحقِ عبادت جاننا،اس کی ذات،صفات،اسماء و افعال،احکام میں کسی دوسرے کو شریک نہ ٹھہرانا،اسی کو عقیدۂ توحید سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ترجمہ:اور تمہارا معبود ایک معبود ہے۔( البقرۃ:163) تمام انبیائے کرام علیہ السلام نے اپنی قوموں کو سب سے پہلے اسی حق سےروشناس کرایا۔

(2)حدود الله کی پاسداری کرنا:اس میں فرائض و واجبات کی ادائیگی اور معصیت ونافرمانی سے بچنا دونوں آگئے،جو حدود الله کی حفاظت نہ کرے اس کیلیے قرآنِ کریم میں وعید بیان فرمائی گئی۔ ترجمہ:اور جو الله کی حدوں سے آگے بڑھا بے شک اس نے اپنی جان پر ظلم کیا۔( الطلاق:1)

(3) شکر:شکر کی حقیقت یہ ہے کہ نعمت دینے والے کی نعمت کا اس کی تعظیم کے ساتھ اعتراف کرے اور نفس کو اس چیز کا عادی بنائے۔(صراط الجنان، ابراہیم،تحت الآیۃ 1) سرکارِ دو عالمﷺنے فرمایا:جسے شکر کرنے کی توفیق ملی وہ نعت کی زیادتی سے محروم نہ ہوگا۔(صراط الجنان، ابراہیم،تحت الآیۃ 1)شکر ادا کرنے کا طریقہ ایک یہ بھی ہے کہ محسن کی فرمانبرداری کی جائے اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔

(4) توکل علی الله:توکل ترکِ اسباب کا نام نہیں بلکہ توکل تو یہ ہے کہ اسباب اختیار کر کے نتیجہ اللہ پاک کے سپرد کر دیا جائے۔قرآن و حدیث میں جابجا اس کی ترغیب موجود ہے۔فرمانِ باری ہے:بے شک تو کل والے اللہ کو پیارے ہیں۔(اٰل عمران:163) آخری نبی ﷺ فرماتے ہیں:اگر الله پاک پر جیسا چاہیے ویساتو کل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتےہیں۔(ترمذی، حدیث:2351)

(5)صبر:صبر کا معنی ہے نفس کو اس چیز پر روکنا جس پر رکنے کا عقل اور شریعت تقاضا کر رہی ہو یا نفس کو اس چیز سے باز رکھنا جس سے رکنے کا عقل و شریعت تقاضا کر رہی ہو۔صبر کے 3 فضائل درج ذیل ہیں:(1)الله پاک صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔ (2)صبر کرنے والوں کو بے حسا ب اجرملے گا۔ (3)صبر آدھا ایمان ہے۔(صراط الجنان)

محبت میں اپنی گمایا الٰہی ! نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الٰہی !

مزید معلومات کیلئے مدنی چینل کا سلسلہ اللہ کے حقوق دیکھئے۔


معاشرے کا چین و سکون،تعمیر و ترقی و فلاح و بہبود اس میں بسنے والے افراد کے اخلاق وکردار کی حفاظت اور باہمی تعلقات کی مضبوطی کا مرہونِ منت ہوتا ہے،اس لیے مختلف تہذیبوں اور معاشروں میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لیے مختلف قوانین رائج ہیں مگر دینِ اسلام کو حقوق کے تحفظ پر برتری حاصل ہے۔ حقوق میں والدین،اولاد،میاں بیوی،رشتہ داروں،یتیموں،مسکینوں وغیرہ ہر قسم کے لوگوں کے حقوق ہیں جنہیں ادا کرنا دوسرے کا فرض ہے۔اسی طرح معاشرہ امن و سکون کا گہوارہ بنا رہے گاکہ ہر انسان اپنے فرض کو اچھے سے ادا کرے جو کہ دوسرے کا حق ہے۔

حقوق کی دو طرح سے اقسام ہیں:حقوق اللہ و حقوق العباد۔اللہ پاک کا حق تمام مخلوقات پر سب سے زیادہ ضروری اور اہم ہے کیونکہ وہ ہمارا خالق ہے اور اس کائنات کا مالک ہے جس نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔

حق کی تعریف:حقوق حق کی جمع ہے۔حق کسی چیز کا اس طرح ثابت ہو جانا،واقع ہو جانا اور موجود ہو جانا ہے کہ اس کے واقع ہونے پر اس کے موجود ہونے کا انکار نہ کیا جا سکےحق کہلاتا ہے۔حق کے معنی درست،ذمہ داری،بجا وغیرہ بھی ہے۔

اللہ پاک کے حقوق:

اللہ پاک کی معرفت:یہ سب سے پہلا اور اہم حق ہے جس کا ادا کرنا ہر شخص پر ضروری ہے اس کی ذات،صفات،حقوق کی معرفت کرنا۔هُوَ الْاَوَّلُ وَ الْاٰخِرُ وَ الظَّاهِرُ وَ الْبَاطِنُۚ-وَ هُوَ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ0وہی اوّل وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن اور وہی سب کچھ جانتا ہے۔(الحدید:03)

اللہ پاک پر ایمان:اللہ پاک کی ایسی معرفت حاصل کی جائے جو اس پر ایمان لانے کے متقاضی ہو،اللہ پاک پر ایمان لانے میں مندرجہ ذیل امور شامل ہیں:اللہ کے وجود،ربوبیت،الوہیت،اسماء و صفات پر ایمان لانا وغیرہ۔

اللہ پاک کی عبادت:ایمان لانے کے بعد عظیم حق یہ ہے کہ اس کی عبادت کی جائے،اس کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے،نہ کسی نبی،نہ کسی ولی،نہ دوسری مخلوق کو۔عبادتِ قلبیہ،لسانیہ،بدنیہ،مالیہ،بدنیہ و مالیہ مرکب جیسے قلبیہ خوف و رجاء،لسانیہ فریاد و دعا طلبی،بدنیہ نماز و روزہ،مالیہ صدقہ و خیرات اور مالیہ و بدنیہ مرکب حج و زیارت۔

حدیثِ مبارکہ:حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں اللہ کے رسولﷺ کے پیچھے ایک گدھے پر سوار تھا،آپ نے فرمایا:اے معاذ!کیا تم جانتے ہواللہ پاک کا حق اس کے بندوں پر کیا ہے؟ بندوں کا حق اللہ پاک پر کیا ہے؟ میں نے کہا:اللہ اور اس کے رسولﷺ بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک کا حق بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اللہ پاک پر بندوں کا حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے اسے عذاب نہ دے۔(صحیح البخاری،حدیث:2856)

حدیث:رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:اللہ پاک نے کچھ فرائض مقرر کیے ہیں پس انہیں ضائع نہ کرو اور کچھ حدود مقرر کی ہیں پس ان سے آگے نہ بڑھو،کچھ اشیا حرام کی ہیں پس ان کی خلاف ورزی نہ کرو اور جو بھولے بغیر تم پر رحم فرماتے ہوئے کچھ اشیاکا ذکر نہیں کیا پس ان کے بارے میں بحث نہ کرو۔(اربعین نووی،حدیث:30)

حقوق کی ادائیگی کا درس:حقوق اللہ کی ادائیگی سے اللہ پاک کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ اس کے بندوں کو پہنچتا ہے۔اللہ پاک کے حقوق کو مفاسد سے محفوظ رکھنا ضروری ہے کیونکہ اخروی مقاصد کے حصول پر سزا ملتی ہے اور ثواب چھن جاتا ہے۔ حقوق اللہ کی ادائیگی اصل میں احکام ِالٰہی کی پیروی کا نام ہے،ان کی ادائیگی سے جہاں حقوق اللہ کی بجا آوری ہوتی ہےوہاں اللہ پاک کے دوسرے بندوں کے لیے بھی نفع رسانی کا سامان وافر موجود ہوتا ہے۔حقوق اللہ کی کما حقہ ادائیگی سے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے جس سے رضائے الٰہی کا حصول یقینی ہوجاتا ہےاور ایک بندے کو رضائے الٰہی کے علاوہ اور کیا چاہئے !جو دنیا و مافیا سے بڑھ کر ہوتی ہے،اللہ پاک ہمیں اپنے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ 


حقوق (Rights)کا لفظ ہم بڑی کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔آج کے زمانے میں ہر شے کے ساتھ حقوق اور Rightsکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے جیسے ماں باپ کے حقوق،بیوی بچوں کے حقوق،پڑوسیوں کے حقوق،عوام کے حقوق،حکمرانوں کے حقوق حتی کہ آج تو جانوروں کے حقوق کا لفظ بھی بڑی کثرت کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد (Topic)اللہ کے حقوق ہے۔اللہ پاک کے اپنے بندوں پر اپنی مخلوق پر بلا شک و شبہ بہت سے حقوق ہیں مثلا اللہ پر ایمان لانا اور کسی کو اس میں شریک نہ ماننا،اللہ پاک کے بھیجے ہوئے پیغمبروں پر ایمان لانا اور ان کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کرنا،خدا کی عبادت کرنا یعنی نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ ارکانِ اسلام کی پابندی یہ سب حقوق اللہ میں شمار ہوتے ہیں۔

حق کی تعریف:حق کے لغوی معنی جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں،اس طرح حق ایک ذومعنی لفظ ہے ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے،دوسری جانب اس چیز کی طرف جیسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعوی کر سکتے ہیں۔

آئیے !اب اللہ پاک کے حقوق کے متعلق پانچ احادیثِ طیبہ ملاحظہ کیجئے:

(1) روایت میں آیا ہے کہ ہمارے پیارے آخری نبی ﷺ نے فرمایا:اے معاذ !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے ؟میں نے عرض کی:اللہ اور اس کے رسول ﷺہی زیادہ جانتے ہیں! آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور بندوں کا اللہ پاک پر یہ حق ہے کہ جو بندہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا تا ہو اللہ پاک اسے عذاب نہ دے،میں نے کہا:یا رسول اللہ ﷺ!کیا میں اس کی لوگوں کو بشارت نہ دے دوں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا:لوگوں کو اس کی بشارت نہ دو ورنہ وہ خالی اعتماد کر بیٹھیں گے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:2856) (2) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اے انسان!تو میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند کردوں گا اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو میں تیرے دونوں ہاتھ مصروفیات سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کا دروازہ بند نہیں کروں گا۔(ترمذی،4/211،حدیث:2474)

(3) اللہ پاک کے حقوق میں سے ایک حق تو کل بھی ہے،چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اگر اللہ پاک پر جیسا چاہئے ویسا توکل کرو تو تم کو ایسے رزق دے جیسے پرندوں کو دیتا ہے کہ وہ صبح کو بھوکے جاتے ہیں اور شام کو شکم سیر لوٹتے ہیں۔(ترمذی، حدیث:2351)

(4)حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:کسی شخص کا کوئی عمل ایسا نہیں جو اللہ پاک کے ذکر سے زیادہ (اس کے حق میں )اللہ پاک کے عذاب سے نجات دلانے والا ہو۔لوگوں نے عرض کی:کیا اللہ پاک کی راہ میں جہاد بھی نہیں؟ارشاد فرمایا:اللہ کی راہ میں جہاد بھی ذکر کے مقابلے میں زیادہ نجات کا باعث نہیں مگر یہ کہ مجاہد اپنی تلوار سے خدا کے دشمنوں پر اس قدر وار کرے کہ تلوار ٹوٹ جائے۔(الدعوات الکبیر، حدیث:19)

(5)اللہ پاک کے حقوق میں سے ایک حق،اس کا خوف رکھنا اس سے ڈرنا ہے،چنانچہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:مخلوق میں سے اللہ پاک کا خوف اس کو ہے جو اللہ پاک کے جبروت اور اس کی عزت و شان سے باخبر ہے۔ (مدارک،فاطر،تحت الآیۃ:28،ص 977-978)

ہمیں چاہیے کہ حقوق اللہ کے معاملے میں کوتاہیوں سے خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلائیں۔حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جو شخص اللہ پاک کی اطاعت کر کے تعظیم بجا لائے تو اللہ پاک اپنی جنت کے ساتھ اسے اس طرح عزت عطا فرماتا ہے کہ اسے جہنم میں داخل نہیں کرتا۔ مزید فرماتے ہیں: اللہ پاک سے مدد مانگو وہ تمہیں اپنے سوا ہر ایک سے بے پروا کر دے گا،نہ تو تم سے بڑھ کر کوئی اللہ پاک کا نیاز مند ہو نہ ہی تم سے بڑھ کر کوئی اس کا محتاج۔ (حلیۃ الاولیا،3/257،رقم:3877)

اللہ کریم ہمیں صحیح معنوں میں حقوق اللہ کی بجاآوری کی توفیق عطا فرمائے،اس سلسلے میں ہماری تمام کوتاہیوں کو معاف فرما کر اپنے مقربین میں سے بنائے۔آمین یا رب العالمین 


شریعتِ اسلامی کی رو سے خدا کے حقوق بندے پر  مثلاً اس پر ایمان لانا،اس کے پیغمبروں پر ایمان لانا،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ماننا اور نماز،روزہ،حج،زکوٰۃ وغیرہ اللہ پاک کے حقوق میں شامل ہیں۔

اسلام نے انسان تو انسان ہر جاندار کے حقوق کا تحفظ کیا ہے،اسلام مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ایک پُرامن معاشرے کی تشکیل کے لیے ہر قدم پر رہنمائی فرماتا ہے۔اب اگر کوئی اسلام میں داخل ہو جاتا ہے کلمہ طیبہ پڑھتا ہے تو اس پر کلمہ طیبہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے پڑھنے سے کتنے اللہ اور نبی کریم کے حقوق آجاتے ہیں۔ اللہ پاک کا حق تمام مخلوقات پر سب سے زیادہ ضروری اور سب سے اہم ہے کیونکہ وہ اس کائنات کا اور ہمارا خالق،مالک،مولی اور تمام امور کی تدبیر کرنے والا ہے۔اللہ پاک کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ صرف اس کی عبادت کی جائے۔ارشاد ِباری:وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ0مَاۤ اُرِیْدُ مِنْهُمْ مِّنْ رِّزْقٍ وَّ مَاۤ اُرِیْدُ اَنْ یُّطْعِمُوْنِ0 اور میں نے جن اور انسان کو بنایا ہے تو صرف اپنی بندگی کے لیے میں ان سے کوئی روزی نہیں چاہتا ہوں اور نہ ہی چاہتا ہوں کہ وہ مجھے کھلائیں بے شک اللہ پاک ہی بڑا روزی دینے والا،زبردست طاقت دینے والا ہے۔( الذاریات:56-57)

حق کی تعریف:حقوق حق کی جمع ہے،حق کسی چیز کا اس طرح ثابت ہو جانا واقع ہو جانا اس طرح موجود ہو جانا کہ اس کے موجود ہونے کا انکار نہ کیا جا سکے،حق کہلاتا ہے۔حق کا معنی درست ذمہ داری،سچ اور انصاف،جائز مطالبہ وغیرہ بھی ہے۔

احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں:حضوراکرم ﷺ نے حضرت معاذ سے پوچھا:اے معاذ !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کا اس کے بندوں پر کیا حق ہے؟انہوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسول ﷺہی بہتر جانتے ہیں! نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اللہ کا حق اپنے بندوں پر یہ ہے کہ وہ صرف اس کی عبادت کریں اور اس کا کوئی شریک نہ ٹھہرائیں۔(صحیح البخاری،حدیث:2856) مطلب ہر مشکل و آسانی میں اپنی ہر ضرورت کے لیے ہر حال میں اللہ پاک کی طرف رجوع کرنا اور اس کے غیر کی طرف متوجہ نہ ہونا،ہر کام میں اللہ کو ہی کارساز سمجھنا،اللہ پاک کا حق ہے۔ اللہ پاک کی ایسی معرفت حاصل کی جائے جو اس پر ایمان لانے کے متقاضی ہو،اللہ پاک پر ایمان لانے میں یہ امور شامل ہیں:اللہ پاک کے وجود پر ایمان لانا،اس کی الوہیت پر ایمان لانا،اس کی ربوبیت پر ایمان لانا،اس کے اسما و صفات پر ایمان لانا۔

شریعتِ اسلامیہ میں بدکاری کرنے،چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔نماز میں کوتاہی کرنے والے کی سزا کے متعلق تین آیاتِ مبارکہ یہ ہیں:

(1)فَوَیْلٌ لِّلْمُصَلِّیْنَ0الَّذِیْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ0ترجمہ: تو ان نمازیوں کے لئے خرابی ہے۔جو اپنی نماز سے غافل ہیں۔ وہ جو دکھاوا کرتے ہیں۔( الماعون:4-5)۔ اس سے وہ لوگ مراد ہیں کہ جو نماز یا تو پڑھتے ہی نہیں یا پہلے پڑھتے تھے،اب نہیں پڑھتےیا سست ہو گئے،تاخیر سے پڑھنے کو معمول بنا لیتے ہیں،اس لیے نماز کی ساری کوتاہیوں سے بچنا چاہیے۔

(2)فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاترجمہ: تو ان کے بعد وہ نالائق لو گ ان کی جگہ آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشوں کی پیروی کی تو عنقریب وہ جہنم کی خوفناک وادی غی سے جاملیں گے۔(مریم:59)

(3)مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ0قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَ0وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَ0ترجمہ:کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے۔( المدثر:42-44)

اہل ِجنت جنت کے بالا خانوں میں بیٹھےجہنمیوں سے سوال کرتے ہیں کہ کس وجہ سے تمہیں جہنم میں ڈالاتو وہ جواب دیں گے کہ ہم دنیا میں نہ نماز پڑھتے تھے نہ مسکینوں کو کھانا کھلاتے تھے۔

زکوٰۃ:جو شخص زکوٰۃ کے فرض ہونے کا انکار کرے وہ کافر ہے،زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے اور اگر مرنے سے پہلے اس نے سچی توبہ نہ کی اس گناہ سے تو اسے آخرت میں سخت سزائیں دی جائیں گی۔قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے،اللہ پاک نے ان لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی جو اپنے مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ كَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّهْبَانِ لَیَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ یَكْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَ الْفِضَّةَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَهَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِۙ-فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ0 یَّوْمَ یُحْمٰى عَلَیْهَا فِیْ نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوٰى بِهَا جِبَاهُهُمْ وَ جُنُوْبُهُمْ وَ ظُهُوْرُهُمْؕ-هٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ فَذُوْقُوْا مَا كُنْتُمْ تَكْنِزُوْنَ0 اے ایمان والو بےشک بہت پادری اور جوگی لوگوں کا مال ناحق کھا جاتے ہیں اور اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ کہ جوڑ کر رکھتے ہیں سونا اور چاندی اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی۔ جس دن وہ تپایا جائے گا جہنم کی آگ میں پھر اس سے داغیں گے ان کی پیشانیاں اور کروٹیں اور پیٹھیں،یہ ہے وہ جو تم نے اپنے لیے جوڑ کر رکھا تھا اب چکھو مزااس جوڑنے کا (توبۃ:34-35)

مسلمان ہونے کے لیے انسان کلمہ طیبہ پڑھتا ہے جس میں اللہ کے معبودِ برحق ہونے کی گواہی ہے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ہر دو جہاں علم کی قید میں ہے اور علم کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کی قید میں ہے اور کلمہ طیبہ اسم اللہ کی قید میں ہےاور جو شخص زبان سے کلمہ پڑھتا ہے اور دل سے اس کی تصدیق کرتا ہے اور کلمہ طیبہ کی حقیقت کو جانتا ہے،اس سے علم مخفی نہیں رہتا۔(امیر الکونین)

انسان پر حق ہے کہ وہ صرف اور صرف اسی کو خالق و مالک مانے یعنی اللہ پاک کے سوا کسی کی بھی کسی بھی حالت میں عبادت،اطاعت،فرمانبرداری نہ کرے بلکہ اطاعت اور فرمانبرداری میں اللہ پاک کی رضا شامل رکھے۔ آقا ﷺ فرماتے ہیں:فقر میرا فخر ہے اور فقر کی بدولت مجھے تمام انبیا و مرسلین پر فخر حاصل ہے۔(عین الفقر )

فقر اللہ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے(شمس الفقرا)اے کاش !ہم بھی صحیح معنوں میں حقوق اللہ ادا کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔

پس مذکورہ تمام آیاتِ مبارکہ اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ صرف اور صرف اللہ کی عبادت کی جائے،خشوع و خضوع کے ساتھ فرض نمازوں کی پابندی کی جائے،مال پر زکوٰۃ فرض ہونے اور پھر اس کا حساب لگا کر ہر سال زکوٰۃ ادا کی جائے اس طرح دیگر جو حقوق بیان کیے گئے ان کی بھی ادائیگی کر کے عذابِ نار سے بچانے کا سامان کرنا چاہیے اس کا ایک آسان ذریعہ آپ کو بتاتی چلوں کہ دعوتِ اسلامی کا پیارا پیارا دینی ماحول ہے،اس سے وابستہ ہو جائے آپ جس وقت چاہیں دعوتِ اسلامی آپ کی رہنمائی کے لیے اسی وقت حاضر ہے۔اللہ کریم ہمیں اخلاص کے ساتھ حقوق کی ادائیگی کرنے اور دین کے لیے کوشاں رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین


حقوق اللہ پر تمہید:وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ- ترجمہ: اور اگر تم اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہیں کرسکو گے۔الله نے ہمیں پیداکیا،بے شمار نعمتیں دیں۔ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا،احکام دیے تاکہ ہم زندگی کو صراط ِمستقیم پر چلا سکیں۔ ان احکام پر عمل کرنا ہم پر اللہ کا حق ہے۔ اللہ کے ان احکام کو صحیح طریقے سے اور بھر پور انداز میں ماننے کا نام ہی بندگی ہے،بندگی کا سلیقہ ہمیں تب ہی آسکتا ہے جب ہم یہ جانیں کہ حقوق الله کیا ہیں اور ان کو کیسے پورا کیا جا سکتا ہے!

حق کی تعریف:ایک ایسی ذمہ داری جو الله کی طرف سے ایک ذات پر کسی دوسری ذات کے مقابلے میں لازم کی گئی ہو اگر وہ ذات خود اللہ کی ہے۔ اس نے اپنی ذات کے پیشِ نظر ہم پر کچھ ذمہ داریاں رکھی ہیں انہیں حقوق اللہ کہتے ہیں۔اور اگر کسی بندے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے اس کے مقابلے میں ہم پر ذمہ داری ہے تو وہ بندے کا حق کہلائے گا۔

اللہ پاک کے 5 حقوق پر 5 احادیث:

1۔کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ پاک کا اپنے بندوں پر کیا حق ہے اور بندوں کا اللہ پاک پر کیا حق ہے ؟ میں نے عرض کی:الله اور اس کا رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا:اللہ پاک کا بندوں پر یہ حق ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں،اور بندوں کا اللہ پر حق یہ ہے کہ جو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے،اسے عذاب نہ دے۔(صحیح بخاری )اور یہ حق تمام حقوق سے پہلے ہے نہ کوئی حق اس سے پہلے ہے،اور نہ اس سے بڑھ کر ہے۔

2۔اے ابنِ آدم !تو میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرا سینہ تونگری سے بھر دوں گا اور تیری حاجتیں پوری کر دوں گا،اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو اشغال سے بھردوں گا،اور تیری حاجت مندی کا راستہ بند نہیں کروں گا۔(مسند احمد)

3۔مجھے اس سے بالکل خوشی نہیں ہوگی کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور اس پر مجھے تین دن اسی طرح گزر جائیں کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس باقی رہ جائے،سوائے اس تھوڑی سی رقم کے جو میں قرض کی ادائیگی کے لیے رکھ چھوڑدوں۔ (صحیح بخاری)

4۔جس شخص نے خالص اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کیا،اور ان دنوں میں نہ تو اس نے کوئی فحش بات کی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس ہو گا جیسے اُس کی ماں نے اُسے جنا تھا۔ ( صحیح بخاری)

5۔روزہ تمہیں عذابِ الٰہی سے اسی طرح بچاتا ہے جس طرح ڈھال تمھیں لڑائی سے بچاتی ہے۔ (مسند احمد)

الله پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حقوق اللہ پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنے کا سلیقہ عطا فرمائے۔ (آمین بجاہ النبی العظیم)


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اللہ پاک نے  ہمیں پیدا کیا،بے شمار نعمتوں سے نوازا،ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ،احکام دیے تاکہ ہم زندگی کو صراط ِمستقیم پر چلاسکیں،ان احکام پر عمل ہم پر اللہ پاک کا حق ہے،انھیں ہم سچے دل سے مانیں اور عمل پیرا ہوں ان تمام باتوں کو حقوق اللہ کہتے ہیں۔

درس:اللہ پاک نے انسان کو پیدا کیا اور اس کی ضروریات کی تکمیل کا ساز و سامان بھی کیا وہ اس طرح کہ ایک تو خود اسے بھی عقل و شعور سے نوازا اور دوسرے نمبر پر ساری کائنات کو اس کی خدمت میں لگا دیا۔انسان اللہ پاک کی عطا کردہ عقل و بصیرت سے کام لے کر کائنات میں الله کی پیدا کردہ چیزوں کو جوڑ جوڑ کر یا ان کو مختلف صورتوں میں ڈھال ڈھال کر ایسی ایسی چیزیں بنا لیتا ہے جس سے انسان کو تمدنی سہولتیں اور جسم انسانی کو راحتیں حاصل ہوتی ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں اتنی زیادہ نعمتوں سے نوازا ہے بدلے میں ہمیں اللہ پاک کے احکام پر عمل کرنا چاہیے۔ اور ہم اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔

آیاتِ مبارکہ:اِنَّهٗ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰهُ عَلَیْهِ الْجَنَّةَ وَ مَاْوٰىهُ النَّارُؕ-وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ0ترجمہ:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: جو شخص اللہ پاک کے ساتھ شرک کرتا ہے،تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ اور ان مشرکوں کا (وہاں )کوئی مددگار نہیں۔(المائدہ:12) نبی کریم ﷺ نے فرمایا:معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی کریمﷺ نے فرمایا: تم جانتے ہو بندوں کا اللہ پر کیا حق ہے؟ انھوں نے کہا:اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں،آپ نے فرمایا:یہ کہ انھیں عذاب نہ دے یعنی اگر وہ اللہ کی عبادت کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے تو اس صورت میں اللہ پاک انھیں عذاب نہیں دے گا۔(صحیح بخاری: حدیث:2856)

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْۤا اِیْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓىٕكَ لَهُمُ الْاَمْنُ وَ هُمْ مُّهْتَدُوْنَ0ترجمہ: وہ جو ایمان لائے اور اپنے ایمان میں کسی ناحق کی آمیزش نہ کی انہی کے لیے امان ہے اور وہی راہ پر ہیں(الانعام:82)نبی کریم ﷺ کا ارشادِ مبارک ہے:شرک اور جادو سے بچو،یہ ہلاک کرنے والے ہیں۔(صحیح بخاری، حدیث:5764 )

قرآنِ پاک میں ارشاد ہے:اِنَّ اللّٰهَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَكَ بِهٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ مَنْ یُّشْرِكْ بِاللّٰهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیْدًا0اللہ اسے نہیں بخشتا کہ اس کا کوئی شریک ٹھرایا جائے اور اس سے نیچے جو کچھ ہے جسے چاہے معاف فرمادیتا ہے اور جو اللہ کا شریک ٹھہرائے وہ دور کی گمراہی میں پڑا۔ (النساء:116)

بے شک اللہ پاک بہت رحیم و کریم ہے،اللہ بے نیاز ہے اللہ ہی ہے جو ہر چیز پر قدرت رکھنے والا ہے،کوئی بھی کام اس سے چھپا ہوا نہیں وہ ظاہر کو بھی دیکھنے والا ہے اور باطن کو بھی دیکھ سکتا ہے۔ہم پر اللہ پاک کے حق ہیں کہ ہم مسلمان اللہ کو ایک مانیں،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں،وہ یکتا ہے،ہمیں اللہ پاک کی عبادت کرنی چاہیے اور جن نا جائز کاموں سے اللہ اور اس کے رسول ﷺنے منع فرمایا ہے،ان کاموں سے باز رہیں اور جن کاموں کو کرنے کا حکم دیا ہے ان کاموں کو بجالائیں۔آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے جن باتوں پہ ہمارا عمل ہے اس پر استقامت عطا فرمائے اور جن پر عمل نہیں ان پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ


بندوں پر سب سے پہلا حق اگر کسی کا واجب ہوتا ہے تو وہ اللہ پاک کا ہے جس نے کائنات کو پیدا فرمایا پوری حکمت و دانائی کے ساتھ،وہی ہے جس نے تمام چیزوں کو عدم سے وجود بخشا وہ ایک اللہ ہی ہے جس نے تمام انسانوں کی حفاظت فرمائی ان کے ماں کے پیٹ  میں اور جب وہ دنیا میں آئے اور یہاں تک کہ وہ بالغ ہو گئے وہی اللہ ہے جو تمام مخلوق کا پالنہار ہے اور پھر ان کی زندگیوں کی تمام ضروریات کا اہتمام فرماتا ہے۔

حج کرنا:بیت اللہ کا حج کرنا فرض ہے ان پر جو اس کی استطاعت رکھتا ہو ہم پر ضروری ہے کہ ہم اللہ پاک کی اطاعت کریں اور اس کی منع کردہ چیزوں سےپرہیزکریں تمام اعمال میں جن کا مطالبہ اللہ پاک ہم سے کرتا ہے اور جو مشکل اور نا ممکن نہیں ہے اور جن کے سوا کرنے پر بے شمار و اجر ثواب کا وعدہ ہے،اللہ پاک نے فرمایا:پس جو آگ سے بچا کر جنت میں داخل کیا گیا وہ مراد کو پہنچا اور دنیا کی زندگی تو یہی دھوکے کا مال ہے۔ (اٰل عمران:185 )

اللہ پاک کا فرمان:اور جو نعمتیں تم کو میسر ہیں خدا کی طرف سے ہیں پھر جب تم کو کوئی تکلیف ہوتی ہے تو اسی کے آگے چلاتے ہو۔

اخلاص اور عملِ صالح میں جدوجہد:اللہ پاک بندوں کے لئے آسانی چاہتا ہے وہ ان کو مشکل یا مصیبت میں ڈالنا نہیں چاہتا۔ اللہ پاک کا فرمان ہے:اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا جہاد کرنے کا حق ہے اس نے تم کو برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین کی کسی بات میں تنگی نہیں کی اور تمہارے لئے تمہارے باپ ابراہیم کا دین پسند کیا اسی لئے پہلی کتابوں میں تمہارا نام مسلمان رکھا اور اس کتاب میں بھی وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو تاکہ پیغمبر تمہارے بارے میں شاہد ہوں اور نماز پڑھو اور زکوٰۃ دو اور خدا کے دین کی رسی کو پکڑے رہو وہی دوست ہے تمہارا اور خوب دوست اور خوب مددگار ہے۔ (الحج:78)

عبادت میں آسانیاں:اللہ پاک ہم سے یہ چاہتا ہے کہ ہم اس کی خالص عبادت کریں اور دین کے جو امور ہیں ان کو بخوبی ادا کریں پنجگانہ نماز ادا کرنا جو ہمارے گناہوں کی مغفرت کا باعث اور دل کی پاکی اور صفائی کا سبب ہے،مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ نمازوں کو ان کے آداب کے ساتھ مکمل ادا کریں اللہ پاک کا فرمان ہے:پس جہاں تک تم سے ہو سکے اللہ سے ڈرتے رہو۔(التغابن:16)

اللہ پاک کی اپنے بندوں پر بے شمار نعمتیں ہیں اور ہر نعمت پر اللہ کا شکر واجب ہے اللہ کے اپنے بندوں پر بہت سے حقوق ہیں جن میں بہت ہی اہمیت کے حامل ذکر کیے جاتے ہیں:

توحید:توحید یہ ہے کہ اللہ پاک کی ذات و صفات اور اس کے اسماو افعال میں اسے یکتا و اکیلا مانا جائے اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ بے شک اللہ وحدہ لا شریک ہے اور سارے معاملات میں تصرف کرنے والا اور رزق دینے والا وہی ہے جس کے ہاتھ میں بادشاہی ہے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔

عبادت:یہ ہے کہ اس اللہ وحدہ ہی کی عبادت کی جائے کیونکہ وہ ان کا رب اور ان کا خالق اور رازق ہے اور عبادت کی ساری کی ساری انواع واقسام صرف اور صرف اللہ وحدہٗ لاشریک ہے اس کے سامنے ہی امید رکھی جائے اس کے لیے ہیں نذر و نیازاور ذبح وغیرہ اس کے نام کا ہو وغیرہ۔اللہ پاک کا فرمان ہے:اور تم اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔(النساء:32)

شکر:ساری مخلوق پر اللہ پاک ہی کی نعمتیں اور احسان ہے اس لیے ان کے ذمہ ان نعمتوں پر اللہ پاک کا اپنی جانوں،زبانوں اور دلوں اور اعضاء کے ساتھ شکر کرنا واجب ہے اور وہ شکر اللہ پاک کی ان نعمتوں پر اس کی حمد و تعریف اور ان نعمتوں پر اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری اور ان میں کرنا چاہیے جو کہ اللہ پاک نے حلال قرار دی ہیں۔اللہ پاک کا فرمان ہے: تو میری یاد کرو میں تمہارا چرچا کروں گا اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔(پ2،البقرۃ:152)


ادب و تعظیم کو عبادت کے لائق نہ سمجھیں تومحض تعظیم ہے جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے اور نماز کے علاوہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا تعظیم ہے۔(صراط الجنان)

بارگاہ الٰہی کے آداب والی آیات ترجمہ و تفسیر کی روشنی میں:

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ0ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔( البقرۃ:4)اس آیت میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ پاک ہے،بندوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ پاک ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حق کی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے اور تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی ظاہری باطنی، جسمانی،روحانی،چھوٹی،بڑی مدد نہیں کر سکتا۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہیے۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ0 اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔( اٰل عمران:31) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعوی جب ہی سچا ہو سکتا ہےجب بندہ رسول اللہ کی اتباع کرنے والا ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔ایک قول کے مطابق مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہمیں حضور کی اتباع کرنے کی ضرورت نہیں ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔اس سے معلوم ہوا ہر شخص کو حضور پر نور ﷺ کی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔ (صراط الجنان)

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا0ترجمہ: او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (النساء: 64)

تفسیر:یہاں رسول کی تشریف آوری کا مقصد بیان ہے کہ اللہ تعالی رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔اللہ تعالی انبیاء اور رسول کو معصوم بناتا ہے،کیونکہ اگر انبیاء خود گناہوں کے مرتکب ہوں گے تو اللہ کی اطاعت کے لیے،رسول کی اطاعت ضروری ہے اس سے ہٹ کر اطاعت الٰہی کا دوسرا طریقہ نہیں،جو رسول کی اطاعت کا انکار کرےگاہ وہ کافر ہو گا۔ (صراط الجنان،جلد 2) 4۔ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ0 ترجمہ: تم فرما دو کہ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے حبیب آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ تعالی نے میری اطاعت اس لیے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں،اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ رسول ہی ہیں اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ کی محبت حاصل نہ ہو گی اللہ انہیں سزا دے گا۔(صراط الجنان، جلد 2)


جس طرح دنیا میں اگر کسی کی عزت کرتے ہیں تو جب ہم اس کی بارگاہ میں جاتے ہیں تو اس کی بارگاہ کا ادب کرتے ہیں اس کی بارگاہ میں جانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں،اسی طرح بارگاہِ الٰہی میں جانے کے بھی کچھ آداب ہیں۔قرآنِ کریم میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ- اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی (پ7، المائدۃ، 119)

حدیث شریف میں ہے:اِنَّ اللّٰهَ تَعالٰي يَتَجَلَّي لِلْمُؤمِنِینَ فَیَقُوْلُ سَلُوْنِي فَيَقُوْلُوْنَ رِضَاكَبے شک اللہ پاک مومنوں پر تجلی فرماکر ارشاد فرمائے گا:مجھ سے سوال کرو! تو وہ عرض کریں گے:ہم تیری رضا کے طلب گار ہیں۔پس دیدار کے بعد رضا کا سوال کرنا بہت بڑی فضیلت ہے۔حدیثِ مبارکہ میں ہے:اللہ کے محبوب،دانائے غیوب،منزه عن العيوب ﷺ نے صحابہ کرام علیہم الرضوان کی ایک جماعت سے استفسار فرمایا :تم کون ہو ؟ انہوں نے عرض کی:ہم مومن ہیں۔ آپ نے پھر پوچھا:تمہارے ایمان کی علامت کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی:ہم آزمائش پر صبر کرتے ہیں،فراخی میں شکر ادا کرتے ہیں اور اللہ پاک کے فیصلوں پر راضی رہتے ہیں۔تو آپ نے ارشاد فرمایا: رب کریم کی قسم! تم مومن ہو۔ (ایک اور روایت میں ہے) کہ آپ ﷺ کا فرمانِ حکمت نشان ہے:قریب تھا کہ حکما،علما اپنی فقہ (یعنی سمجھ بوجھ) کی بدولت انبیا ہوتے۔(الزهد الکبیر للبیہقی،ص 354،حدیث:970)

اللہ پاک نے ارشادفرمایا:(1)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ:165 ) ترجمہ: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابرکسی کی محبت نہیں۔اور فرمایا(2)یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤۙ-(پ5، المائدۃ: 54) ترجمہ کنز الایمان:وہ اللہ کے پیارے اللہ ان کا پیارا۔

حدیثِ پاک میں ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتاجب تک اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس کے نزدیک اس کے اہل و عیال اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائیں۔(صحیح مسلم،ص 188، حديث: 168)

محبت کا معنی: محب کے نزدیک محبت کے لذیذ ہونے کی وجہ سے طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے اور بغض اس کی ضد ہے جو کسی چیز سے طبعی نفرت کا نام ہے، کیونکہ وہ طبیعت کے موافق نہیں ہوتی اور جس چیز کی لذت بڑھتی ہے اس کی محبت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے،آنکھوں کی محبت دیکھنے میں،کانوں کی لذت سننےمیں اورناک کی لذت پاکیزہ خوشبوؤں میں ہے۔ اسی طرح ہر چیز کے موافق ایک چیز ہے جس سے انسان لذت حاصل کرتا ہے اور اسی سبب سے اس چیز سے محبت کرتا ہے۔ حضور پاک،صاحب ِلولاک، سیاحِ افلاک ﷺ کایہ فرمانِ عالیشان ہے:حُبِّبَ اِلَيَّ مِن دُنياكم:النِّساءُ والطِّيبُ و جُعِلَتْ قُرَّةُ عيني في الصَّلاةِتمہاری دنیا میں مجھے 3 چیزیں محبوب ہیں:(1)خوشبو(2)عورتیں(3)اور میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:اِنَّا وَجَدْنٰهُ صَابِرًاؕ-نِعْمَ الْعَبْدُؕ-اِنَّهٗۤ اَوَّابٌ0ترجمہ:بے شک ہم نے اسے صابر پایا کیا اچھا بندہ،بے شک وہ بہت رجوع لانے والا ہے۔

تو ارشاد فرمایا: تعجب کی بات ہے خود ہی دیتا ہے اور خود ہی تعریف ہے۔یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جب اس نے اپنے دینے پر ا س کی تعریف کی تو گویا اپنی تعریف کی پس ولی تعریف کرنے والا اور اسی کی تعریف کی جاتی ہے۔ حضرت شیخ ابو سعید مہینی رحمتہ اللہ علیہ نے بھی اسی نظر سے دیکھا جب ان کے سامنے یہ آیت پڑھی گئی: یُّحِبُّهُمْ وَ یُحِبُّوْنَهٗۤ(پ5، المائدہ، 54) ترجمہ کنز الایمان: وہ اللہ کے پیارے اللہ ان کا پیارا۔ تو انہوں نے فرمایا: میری عمر کی قسم ! اللہ پاک انہیں چاہتا ہے، انہیں پسند کرتا ہے اور انہیں پسند کرسکتا ہے کیونکہ وہ (اس طرح ) آپ کو چاہتا ہے۔

الله پاک نے ارشاد فرمایا:هَؤُلَاءِ فِي الْجَنَّةِ وَلَا أُبَالِي، وَهَؤُلَاءِ فِي النَّارِ وَلَا أُبَالِي وہ جنت میں ہوں تب بھی مجھے پروا نہیں اور وہ دوزخ میں تب بھی مجھے کوئی پروا نہیں۔ (مسند امام احمد، 9/255-256، حدیث: 17686)

خوف اور امید دو لگا میں ہیں جن کے ذریعے اس شخص کوقابو میں کیاجاسکتا ہے،جس کے دل میں جمالِ حق ظاہر نہ ہوا ہو اور جس نے دل کے ساتھ اس جمالِ حق کا مشاہدہ کر لیا وہ خوف کے درجہ سے بلند ہو گیا۔ حضرت واسطی رحمۃ اللہ علیہ نے اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: خوف اللہ پاک اور بندے کے درمیان حجاب ہے اور جب دلوں پر حق ظاہر ہو جائے تو اُن میں امید و خوف کی کوئی فضیلت باقی نہیں رہتی۔ وہ کلام یہ ہے کہ جب محب محبوب کے جمال کو حاصل کر لیتا ہے تو اس کی توجہ فراق کے خوف سے محبوب کے وصال کو ضائع کر دیتی ہے، لیکن ہم اس کےمقامات کی ابتدا کے بارے میں گفتگو کررہے ہیں، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ اپنے اوپر خوف طاری کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ انسان شدتِ عذاب و حساب کے بارے میں وارد ہونے والی آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ میں غور و فکر کرے اور اللہ پاک کی عظمت و جلال کے مقابلے میں اپنی حالت دیکھے اور( حدیثِ قدسی میں مذکور) الله کے اس فرمان پر غور کریں جو اوپر وارد ہے۔

حضرت ابو موسی دیلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا:تَوَکُّل کیا ہے ؟ انہوں نے مجھ سے استفسار فرمایا:تم کیا کہتے ہو؟میں نے کہا:ہمارےاصحاب تو فرماتے ہیں کہ اگر درندے اور سانپ تمہارے دائیں بائیں ہوں تو بھی تمہارے باطن میں کوئی حرکت نہ ہو۔تو حضرت ابو یزید رحمۃ اللہ علیہ فرمانے لگے: ہاں۔یہ تَوَکُّل کے قریب ہے لیکن اگر اہلِ جنت جنت میں نعمتوں سے لطف اندوز ہورہے ہوں اور جہنمیوں کو جہنم میں عذاب دیا جا رہا ہو، پھر تم ان دونوں کے درمیان تمیز کرنے لگو تو تَوَکُّل سے نکل جاؤ گے۔ اللہ پاک کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آ ٓفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ پاک کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے،جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کافروں سے کلام کےدوران جب اللہ پاک کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ پاک کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ0 اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہی شفا عطا فرماتا ہے۔ ان سب سے معلوم ہوا کہ ہمیں بھی بارگاہِ الٰہی کا ادب کرنا چاہیے۔اللہ ہمیں بھی ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


ادب دنیا و آخرت کی کامیابیوں اور سعادتوں کے حصول کا ذریعہ ہے۔ اس کی تعلیم خود ربِّ کائنات نے اپنے پیارے نبی، مکی مدنی، محمد عربی ﷺ کو ارشاد فرمائی،چنانچہ حضور خاتم النبیین ﷺنے ارشاد فرمایا:اَدَّبَنِيْ رَبِّيْ فَاَحْسَنَ تَاْدِيْبِيْ یعنی مجھے میرے ربّ کریم نے ادب سکھایا اور بہت اچھا ادب سکھایا۔(جامع صغیر، ص25، حدیث:310)

ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:ادب کا ایک مفہوم یہ ہے کہ انسان بارگاہِ الٰہی میں حضوری کا خیال رکھے۔ ابو علی دقّاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:بندہ اطاعت سے جنت تک اور اطاعتِ الٰہی میں ادب کرنے سے اللہ پاک تک پہنچ جاتا ہے۔ (الرسالۃ القشیریۃ، ص 316)

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری ہے:

1:وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًاؕ-اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ0(الاعراف: 56)ترجمہ کنز العرفان:اور اللہ سے دعا کرو ڈرتے ہوئے اور طمع کرتے ہوئے۔ بیشک اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اس آیتِ مبارکہ میں بارگاہِ الٰہی میں دعا مانگنے کا یہ ادب ارشاد فرمایا گیا ہے کہ جب بھی دعا مانگو تو اللہ پاک کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کی رحمت کی طمع کرتے ہوئے دعا کرو۔ اس سے معلوم ہوا کہ دعا اور عبادات میں خوف و امید دونوں ہونے چاہئیں، اس سے ان شاء اللہ الکریم جلد قبول ہوگی۔

2:اِنَّمَا كَانَ قَوْلَ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذَا دُعُوْۤا اِلَى اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ لِیَحْكُمَ بَیْنَهُمْ اَنْ یَّقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَاؕ-وَ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ0 (النور: 51) ترجمہ کنز العرفان: مسلمانوں کی بات تو یہی ہے کہ جب انہیں اللہ اور اس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تا کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ فرمادے تو وہ عرض کریں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔

اس آیت میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو شریعت کا ادب سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جب انہیں اللہ پاک اور اس کے رسولِ کریم ﷺ کی طرف بلایا جائے تاکہ رسولِ اکرم ﷺ ان کے درمیان اللہ پاک کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق فیصلہ فرمادیں تو وہ عرض کریں کہ ہم نے بُلاوا سُنا اور اسے قبول کرکے اطاعت کی اور جو ان صفات کے حامل ہیں، وہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں۔( خازن،النور، تحت الآیۃ: 51،3 / 359)

3:حٰفِظُوْا عَلَى الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوةِ الْوُسْطٰىۗ-وَ قُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِیْنَ0 (البقرۃ: 238)ترجمہ کنز العرفان: تمام نمازوں کی پابندی کرو اور خصوصاً درمیانی نماز کی اوراللہ کے حضور ادب سے کھڑے ہوا کرو۔

اس آیتِ مبارکہ میں پنجگانہ فرض نمازوں کو ان کے اوقات پر ارکان و شرائط کے ساتھ ادا کرتے رہنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ شریعت کے دیگر معاملات میں حکمِ الٰہی پر عمل اسی صورت میں ہوگا جب دل کی اصلاح ہوگی اوردل کی اصلاح نماز کی پابندی سے ہوتی ہے۔ نیز فرمایا کہ تمام نمازوں کی پابندی و نگہبانی کرو، اس نگہبانی میں ہمیشہ نماز پڑھنا،باجماعت پڑھنا،درست پڑھنا،صحیح وقت پر پڑھنا سب داخل ہیں۔ درمیانی نماز کی بالخصوص تاکید کی گئی ہے، اور درمیانی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے۔ نیز اس آیتِ مبارکہ میں بارگاہِ الٰہی میں کھڑا ہونے کا طریقہ یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ادب سے کھڑا ہوا جائے، لہٰذا کھڑے ہونے کے ایسے طریقے ممنوع ہوں گے جس میں بے ادبی کا پہلو نمایاں ہو۔ (صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 238)

4:وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَاؕ-قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًاؕ-اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ0(یونس: 21)ترجمہ کنز العرفان: اور جب ہم لوگوں کو انہیں تکلیف پہنچنے کے بعد رحمت کا مزہ دیتے ہیں تو اسی وقت ان کا کام ہماری آیتوں کے بارے میں سازش کرنا ہوجاتا ہے۔تم فرماؤ:اللہ سب سے جلد خفیہ تدبیرفرمانے والا ہے۔بیشک ہمارے فرشتے تمہارے مکر و فریب کو لکھ رہے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ رب العالمین کی بارگاہ کا ادب یہ ہے کہ رحمتوں کو اس کی طرف منسوب کیا جائے اور آفات کو اس کی جانب منسوب نہ کیا جائے اور یہی اللہ پاک کے نیک بندوں کا طرزِ عمل ہے، جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کافروں سے کلام کے دوران جب اللہ پاک کی شان بیان فرمائی تو ادب کی وجہ سے بیماری کو اپنی طرف اور شفا کو اللہ پاک کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرمایا: وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ یَشْفِیْنِ0(الشعراء:80)ترجمہ کنزُالعِرفان:اور جب میں بیمار ہوں تو وہی مجھے شفا دیتا ہے۔( صراط الجنان، یونس، تحت الآیۃ: 21)

یاد رہے!اچھے بُرے تمام افعال جیسے ایمان،کفر،اطاعت اور معصیت وغیرہ کا خالق اللہ پاک ہے اور ان افعال کو پیدا کرنے میں اللہ پاک کا کوئی شریک نہیں، بُرے افعال کو بھی اگرچہ اللہ پاک نے پیدا فرمایا ہے، لیکن اس کے ادب اور تعظیم کا تقاضا یہ ہے کہ کلام میں ان افعال کی نسبت اللہ پاک کی طرف نہ کی جائے۔ (تفسیر قرطبی،صٓ،تحت الآیۃ:41، 8/155)

اسی ادب کی وجہ سے حضرت ایوب علیہ السلام نے تکلیف اور ایذا پہنچانے کی نسبت شیطان کی طرف فرمائی ہے۔ ( صراط الجنان،صٓ،تحت الآیۃ: 41) جیساکہ قرآنِ مجید میں ہے:وَ اذْكُرْ عَبْدَنَاۤ اَیُّوْبَۘ-اِذْ نَادٰى رَبَّهٗۤ اَنِّیْ مَسَّنِیَ الشَّیْطٰنُ بِنُصْبٍ وَّ عَذَابٍ0(صٓ: 41)ترجمہ کنز العرفان: اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کروجب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے شیطان نے تکلیف اور ایذا پہنچائی ہے۔

5:تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَ لَاۤ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِكَ ؕ اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ0 (المائدۃ: 116)

ترجمہ کنز العرفان:تو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو تیرے علم میں ہے۔بیشک تو ہی سب غیبوں کا خوب جاننے والا ہے۔

یہاں علم کو اللہ پاک کی طرف نسبت کرنا اور معاملہ اس کے سپرد کردینا اور عظمتِ الٰہی کے سامنے اپنی عاجزی کا اظہار کرنا یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شانِ ادب ہے۔ اللہ پاک ہمیں باادب بنائے اور بےادبی و بے ادبوں سے محفوظ فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

محفوظ سدا رکھنا شہا بےادبوں سے اور مجھ سے بھی سرزد نہ کبھی بےادبی ہو


ادب انسان کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ادب یہ ہے کہ انسان کے گفتار اور کردار میں تقویٰ نظر آئے،بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کریں،نیز ادب کو محض فصاحت و بلاغت میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے۔ کتب احادیث میں خصوصی طور پر ادب کے عنوان کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ ادب کا صلہ اور بدلہ بہت عظیم ہوتا ہے، چنانچہ با ادب شخص کے لئے نبی کریم ﷺنے جنت میں محلات کی ضمانت دی ہے۔مسلمانو! تقویٰ اختیار کرو کیونکہ متقی کامیاب ہوں گے اور حد سے تجاوز کرنے والے بدبخت تباہ و برباد ہوں گے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ0 اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔ (اٰل عمران: 102 )

ادب انسان کا شرف ہے، ادب پر مبنی شرف کی وجہ سے حسب و نسب کے شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ شرف بلند ہمتی سے حاصل ہوتا ہے۔بوسیدہ ہونے والی ہڈیوں سے نہیں۔

بارگاہِ خداوندی کے آداب: بندے کو چاہیے کہ بارگاہِ الٰہی میں اپنی نگاہیں نیچی رکھے،اپنے غموں اور پریشانیوں کو اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرے، خاموشی کی عادت بنائے، اعضاء کو پر سکون رکھے،جن کاموں کا حکم دیا گیا ہے ان کی بجا آوری میں جلدی کرے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے اور اُن پر اعتراض کرنے سے بچے، اچھے اخلاق اپنائے، ہر وقت ذکر ِالہٰی کی عادت بنائے، اپنی سوچ کو پاکیزہ بنائے،اعضا ءکو قابو میں رکھے، دل پر سکون ہو،اللہ پاک کی تعظیم بجالائے،غیض و غضب نہ کرے،محبتِ الہٰی کو لوگوں سے چھپائے، اخلاص اپنانے کی کوشش کرے،لوگوں کے پاس موجود مال و دولت کی طرف نظر کرنے سے بچے، صحیح و درست بات کو ترجیح دے، مخلوق سے اُمید نہ رکھے، عمل میں اخلاص پیدا کرے، سچ بولے اور گناہوں نیکیوں کو زندہ کرے( نیکیوں پر عمل پیرا ہو)لوگوں کی طرف اِشارے نہ کرے اور مفید باتیں نہ چھپائے ہمیشہ باوقار و پیر جلال رہے، حیا کو اپنا شعار بنانے، خوف وڈر کی کیفیت پیدا کرے، تو کل اپنائے، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرے، ذکر کرتے وقت دل میں خوفِ خداوندی پیدا کرے،فقر و فاقہ کے وقت تو کل کو اپنا شعار بنائے اور جہاں تک ہو سکے قبولیت کی امید رکھتے ہوئے صدقہ کرے۔

قرآن ِکریم میں بارگاہِ الٰہی کے آداب: جس طرح اللہ پاک کے حضور نماز ادا کرنا فرض ہے۔اسی طرح ہر نمازی پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے دوران قرآن و سنت کے احکام کی پابندی کرے۔ صلوۃ:(نماز) کے معنی ہیں کسی کے قریب ہو جانا اور دعا کرنا۔ لہٰذا نماز کی لفظی و معنوی حقیقت تین نکات پر مشتمل ہے۔ یہ کہ الله پاک کے دربار میں شعوری طور پر بڑھ کر حاضر ہو جانا۔ الله پاک کے حضور ہمہ تن متوجہ ہو جانا، اللہ پاک سے ہم کلام ہو جانا، نماز کے ان تینوں بنیادی لوازمات کے ساتھ نماز میں اللہ پاک سے ہم کلامی کے طریقے کے لیے قرآن و سنت کے احکام کی پابندی بھی لازم و واجب ہے۔

نماز سے متعلق اولین حکم یہ ہے کہ نمازی پورے شعور کے ساتھ اپنا رخ الله پاک کے لیے اس کعبۃ اللہ کی جانب کر لے جو دنیا میں انسانوں کے لیے بنایا گیا،قرآن مجید میں ارشاد ہے: اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَ0 بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا ہے وہ جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہانوں کا رہنما۔ (اٰل عمران:96) ایک اور جگہ ارشاد ہے:وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمْ فَوَلُّوۡا وُجُوۡهَکُمْ شَطْرَہٗؕ اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو۔( مسجد حرام) (البقرۃ:15)