گفتگو اور قسم میں جھوٹ بولنا کبیرہ گناہوں اور بدترین عیوب میں سے ہے،جھوٹا شخص اپنا یقین ختم کرلیتا ہے یعنی لوگوں کے درمیان جھوٹ نفرتیں بڑھانے کا سبب ہے،لوگ اکثر جھوٹ محض اپنے نفس کو خوش کرنے کے لئے اور عزت و منصب کی خاطر بولتے ہیں اور جن کاموں کی بنیاد ہی جھوٹ پر ہو تو وہ کام باقی کیسے رہ  سکتے ہیں۔

جھوٹ کی تعریف : جھوٹ کی تعریف یہ ہے کہ حقیقت حال یعنی اصل بات کے بر خلاف بات کرنا جھوٹ کہلاتا ہے۔

پہلا جھوٹ کس نے بولا :سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا تھا۔

جھوٹ کی مذمت پر پانچ فرامینِ مصطفیٰ ٰ ﷺ :

1۔حضرت سیدنا اوسط بن اسماعیل علیہ الرحمۃ بیان کرتے ہیں میں نے امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو سرکار ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد خطبہ دیتے سنا آپ فرما رہے تھے پچھلے سال آپ ہمارے درمیان اس طرح قیام فرما تھے جس طرح میں کھڑا ہوں اتنا کہہ کر آپ رو نے لگے پھر ارشاد فرمایا:جھوٹ سے بچوکیو نکہ جھوٹ حق تعالیٰ کی نافرمانی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں (یعنی جھوٹ اور اللہ پاک کی نافرمانی ) جہنم میں لے جاتے ہیں۔ (احیاء العلوم،3/406)

2۔ جھوٹ نفاق کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے۔( احیاء العلوم،3/407)

3۔ کتنی بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔( احیاء العلوم،3/407)

4۔ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس میں خوب کوشش کرتا رہتا ہے حتی کہ اللہ پاک کے ہاں اسے کذّاب (بہت بڑا جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے۔ (احیاء العلوم،3/ 407)


جس طرح جسمانی امراض ہوتے ہیں۔ اسی طرح باطنی امراض بھی ہوتے ہیں مگر فرق صرف اتنا ہے کہ جسمانی امراض صحت و تندرستی کے لیے نقصان کا باعث بنتے ہیں جبکہ باطنی امراض ایمان کے زہر قاتل ہیں۔انہی امراض میں ایک بیماری جھوٹ بھی ہے۔ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس کے بارے میں معلومات حاصل کر کے اس سے بچنے کی کوشش کرے۔ اب کسی چیز سے نجات پانے کے لیے اس کے بارے میں علم ہونا نہایت ضروری ہے،تو آئیے! جان لیتے ہیں کہ جھوٹ ہے کیا؟

جھوٹ“ کے معنی ہیں اصل کے خلاف،سچ کے الٹ اور ”جھوٹ بولنے“ سے مراد ہے" اصل واقعے کے خلاف بیان کرنا۔(فیروز اللغات،ص 269)

سب سے پہلے جھوٹ کس نے بولا۔۔ ؟

اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا کو جنت میں رکھا اور جنتی پھلوں میں سے آپ علیہ السلام جو چاہیں کھائیں لیکن ایک درخت ( گندم یا کوئی اور)کے قریب جانے سے منع فرمایا پھر ابلیس

ملعون نے آپ علیہ السلام اور حضرت حوا رضی اللّہ عنہا کو وسوسہ ڈالا اور اللہ پاک کی جھوٹی قسم کھا لی اور پھر اس طرح یہ ملعون سب سے پہلے جھوٹ بولنے والا ہو گیا۔( تفسیر صراط الجنان،الاعراف: 19-22)

قارئین کرام! آئیے! اب جھوٹ کی چند مثالوں کو زیر نظر لاتے ہیں۔جیسے

1: خریداری کے وقت اس طرح کہنا کہ یہ چیز مجھے فلاں جگہ سے کم قیمت پر مل رہی تھی ( اور حقیقت میں ایسا نہ ہو)۔2: آپ کو کھانا پسند آیا؟تو جوابا جی بالکل کہنا اور اصل میں نہیں آیا۔3 :اصل کہہ کر نقل بیچنا۔

ذم الکذب پر 5 فرامینِ مصطفیٰ سے ہدایت پاتے ہیں:

1۔جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کا راستہ دکھاتا ہے آدمی برابر جھوٹ بولتا ہے اور جھوٹ بولنے کی کوشش کرتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ ( ظاہری گناہوں کی معلومات ص28)

2۔جھوٹ میں کوئی بھلائی نہیں۔( جھوٹا چور،ص 26)

3۔تین شخص سے اللہ پاک کلام نہ فرمائے گا ان میں سے ایک جھوٹا بادشاہ بھی ہے۔( 76 کبیرہ گناہ،ص 104)

4۔سرکار مدینہ ﷺ نے منافقین کی تین نشانیاں بیان فرمائیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے” جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔“( جھوٹ کی مذمت،ص 8)

قارئین محترم !اب تک ہم نے جھوٹ بولنے کے سبب ملنے والی سزا کے بارے میں جانا اب جھوٹ کو چھوڑ دینے کے بارے میں فرمانِ رحمت نشان ملا حظہ ہو۔

5۔نبی رحمت ﷺنے فرمایا : جو شخص جھوٹ بولنا چھوڑ دے اور وہ باطل ہے (چھوڑنے کی چیز ہے)اس کے لیے جنت کے کنارے میں مکان بنایا جائے گا۔(تفسیر صراط الجنان،البقرہ: 10)

جھوٹ میں بظاہر نجات دکھائی دیتی ہے مگر اصل میں نقصان در نقصان ہے لوگ اس کے ظاہری دھوکے میں آ کر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور نہ صرف اخروی نقصانات میں گرفتار ہوتے ہیں بلکہ ڈھیروں معاشرتی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔جن میں سے کچھ پر نظر ڈالیں۔1:لوگ اس پر اعتبار نہیں کرتے۔2:اس کی گواہی قبول نہیں۔3:جھوٹ کے سبب حقیقت کا سامنا نہیں کر پاتا اور ہمیشہ اس کا سہارا لیتا اور اپنے آپ کو ہلاکت میں مبتلا کرتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اس مہلک مرض سے اپنی امان میں رکھے اور سچ بولنے کی توفیق بخشے۔آمین


آج کل کثیر لوگوں کا بات بات پر جھوٹ بولنے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے،بار ہا تو جھوٹی قسم بھی کھالی جاتی ہے اور پھر اس سے توبہ کا ذہن نہیں ہوتا،جھوٹ وہ بری خامی ہے جسے مسلمان تو مسلمان غیر مذہب بھی ناپسند کرتے ہیں۔جھوٹ کی مذمت پر  فرامینِ مصطفے ﷺ کامطالعہ کرنے سے پہلے جھوٹ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:

جھوٹ کی تعریف :کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل گناہ گار اس وقت ہو گا جبکہ (بلا ضرورت ) جان بوجھ کر جھوٹ بولے (76 کبیرہ گناہ،ص 99)

سب سے پہلا جھوٹ کس نے بولا : حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا،لہٰذا وہ آپ علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا جب اللہ پاک نے حضرت آدم و حوا کو جنت میں رکھنے کا فرمایا اور اس سے منع فرمایا کہ وہ فلاں درخت سے کچھ کھائیں تو شیطان نے کسی طرح ان حضرات کے پاس جا کر کہا میں تمہیں شجر خلد بتادوں حضرت آدم علیہ السلام نے منع فرمایا تو شیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں انہیں خیال ہوا کہ بھلا اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے یہ سوچ کر انھوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا۔(قسم کے بارے میں مدنی پھول،ص،4)

5 فرامینِ مصطفیٰ ٰ ﷺ:

1۔ نہ دی ہوئی چیز کا ظاہر کرنے والا دو جھوٹے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے یعنی کوئی شخص امانت یا عاریت کے اعلیٰ کپڑے پہن کر پھرے لوگ سمجھیں کہ اس کے اپنے کپڑے ہیں پھر بعد کھلنے میں بدنامی بھی ہو گناہ بھی،یا جیسے کوئی فاسق و فاجر متقی کا لباس پہن کر صوفی بنا پھرے پھر حال کھلنے پر رسوا ہو۔ (76 کبیرہ گناہ،ص،103)

2۔ تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بلاشبہ یہ سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔بغیر کسی دلیل کے دل میں پیدا ہونے والی تہمت کو بدگمانی کہتے ہیں،اس سے بچنا چاہئے۔ (76 کبیرہ گناہ،103 )

3۔ توریہ کے سبب جھوٹ کی حاجت نہیں رہتی۔ توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہر معنی ٰ ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معنی ٰ مراد لئے جو صحیح ہیں ایسا کرنا بلا حاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے توریہ کی مثال یہ بھی ہے کہ تم نے کسی کو کھانے کے لئے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھا لیا اس کے ظاہر معنی ٰ یہ ہیں کہ اس وقت کا کھا لیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کل کھایا ہے یہ بھی جھوٹ میں شامل ہے۔(76 کبیرہ گناہ،103 )

4۔ بروز قیامت تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا ان میں ایک جھوٹا بادشاہ بھی ہے۔(76 کبیرہ گناہ،103 )

5۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں : 1۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2۔ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ 3۔جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔

نفاق کا لغوی معنی ٰ باطن کا ظاہر کے خلاف ہونا اگر اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نفاق کفر کہتے ہیں اور اگر اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نفاق عملی کہتے ہیں اور یہاں حدیث میں یہی مراد ہے۔(76 کبیرہ گناہ،ص 101 )

چند مثالیں : 1۔بعض اوقات کوئی شخص کام کردے تو بعد میں جب اس سے پوچھا جائے تو اسے جھٹلادے۔ 2۔ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کیا زید آیا تھا اگر نہیں آیا تھا اس کے باوجود یہ کہہ دے کہ زید آیا تھا تو یہ جھوٹ میں شمار ہو گا۔ 3۔ اگر کسی نے دوسرے سے کہا کھانا کھالو تو دوسرے نے کہا میں کھا کر آیا ہوں تو اگر وہ کھانا کھا کر نہیں آیا تو جھوٹ میں شمار ہو گا۔

چند معاشرتی نقصانات : جھوٹ بولنے والے سے اللہ پاک اور اسکا رسول ناراض ہوتے ہیں،لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں،اس پر اعتماد نہیں کرتے،اس سے بات کرنا ناگوار سمجھتے ہیں،جھوٹا ذلیل و خوار ہوتا ہے،جب کوئی جھوٹ بولتا ہے اس سے رحمت کے فرشتے دور ہو جاتے ہیں،جھوٹا شخص بھری مجلس میں بھی تنہا رہتا ہے،جھوٹ بولنے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا۔


ہمارے معاشرے میں جھوٹ اتنا عام ہو چکا ہے کہ اب اسے معاذ اللہ برائی تصور نہیں کیا جاتا  لوگوں کے اکثر جھوٹ محض اپنے نفسوں کو خوش کرنے کے لئے پھر مال اور جاہ و منصب کی زیادتی اور ایسے کاموں کے لئے ہوتے ہیں جن کے چھوٹ جانے سے کوئی خرابی لازم نہیں آتی۔مفسر شہیر،حکیم الامت مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنان ایک جگہ فرماتے ہیں کہ جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔( مراٰۃ المناجیح )

جھوٹ کی تعریف : جھوٹ کے معنی ہیں سچ کا الٹ خلافِ واقعہ بات کرنے کو جھوٹ کہتے ہیں۔

سب سے پہلا جھوٹ کس نے بولا : سب سے پہلا جھوٹ شیطان لعین نے بولا کہ جب اللہ پاک نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو جنت میں ایک مخصوص درخت کے قریب جانے سے منع فرمایا تو شیطان لعین نے جھوٹی قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور انہیں فریب دیا۔

احادیثِ مبارکہ :

1۔ ہلاکت ہے اس شخص کے لئے جو بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تا کہ اس کے ذریعے لوگوں کو ہنسائے اس کے لئے ہلاکت ہے اس کے لئے ہلاکت ہے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا ک ہ مذاق میں بھی جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے اس حدیث مبارکہ میں نبی کریم ﷺ نے تاکیداً فرمایا کہ جھوٹ بولنے والے کے لئے ہلاکت ہے ہمارے معاشرے میں یہ خرابی عموماً پائی جاتی ہے کہ لوگ ہنسی مذاق کرتے ہوئے جھوٹ بول دیتے ہیں انہیں اس حدیث مبارکہ سے درس حاصل کرنا چاہئے۔

2۔ حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ ہمارے گھر تشریف لائے اس وقت میں چھوٹا تھا کھیلنے کے لئے باہر جانے لگا تو میری والدہ نے آواز دی یہاں آؤ میں تمہیں کچھ دوں گی آپ ﷺ نے استفسار فرمایا: تم اسے کیا دینا چاہتی ہو ؟ عرض کی: کھجور۔ فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرتی تو تم پر ایک جھوٹ لکھا جاتا۔ ( سنن ابی داود،4/387،حدیث: 4991 )

اس حدیث مبارکہ میں جھوٹ کو ایک بہت ہی عام بات کے ذریعے واضح کیا گیا ہے جس تک عموماً لوگوں کی توجہ نہیں جاتی کہ وہ اسے جھوٹ سمجھتے ہی نہیں عموماً بچوں کو بہلانے کے لئے یا انہیں کسی کام سے روکنے کے لئے ان کے سامنے ایسی بات پیش کی جاتی ہے جو واقعتاً نہیں ہوتی ہمیں اس سے بچنا چاہئے کیونکہ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح ہے یہ بھی جھوٹ ہے۔

3۔ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اسکی بدبو کے سبب فرشتے اس سے ایک میل دور چلے جاتے ہیں۔ ( سنن الترمذی،3/392،حدیث:1979)

اس حدیث مبارکہ میں جھوٹ کی مذمت کرتے ہوئے جھوٹ کا نقصان بیان کیا گیا ہے کہ جھوٹ کی بدبو کے سبب فرشتے ایک میل دور چلے جاتے ہیں اور یہ سراسر محرومی ہے۔

4۔ تمام عادتیں مومن کی فطرت میں ہو سکتی ہیں سوائے جھوٹ اور خیانت کے۔( مسند امام احمد،8/276،حدیث:22232 )

اس حدیث مبارکہ میں مومن کی صفت بیان کی گئی ہے کہ ایک مومن کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا اگرچہ دیگر برائیوں کا وہ مرتکب ہو سکتا ہے لیکن جھوٹ کا نہیں۔

5۔ خواب میں ایک شخص میرے پاس آیا اور بولا :چلئے۔ میں اس کے ساتھ چل دیا،میں نے دو آدمی دیکھے ایک کھڑا اور دوسرا بیٹھا تھا،کھڑے ہوئے شخص کے ہاتھ میں لوہے کا زنبور ( سلاخ ) تھا جسے وہ بیٹھے شخص کے ایک جبڑے میں ڈال کر اسے گدی تک چیر دیتا،اتنے میں پہلا والا جبڑا اپنی اصلی حالت پر لوٹ آتا۔ میں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہ جھوٹا شخص ہے اسے قیامت تک قبر میں یہی عذاب دیا جاتا رہے گا۔ ( مساوی الاخلاق،ص 76،حدیث:231 )

اس حدیث مبارکہ میں جھوٹ کی مذمت بیان کرتے ہوئے جھوٹ کی سزا ملنے والے عذ اب کا تذکرہ ہے۔ جھوٹ بولنا اور جھوٹا خواب بیان کرنا حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ مرنے کے بعد جھوٹے کو بہت ہی خراب عذاب ہو گا جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے واضح ہے۔

جھوٹ کی چند مثالیں : ہمارے معاشرے میں عموماً جو جھوٹ بولے جا رہے ہوتے ہیں ان کی چند مثالیں درج ذیل ہیں : 1۔ کسی کے کھانے کے بارے میں پوچھنے پر کہنا کہ بہت مزے کا تھا یا اس کی مزید تعریفیں کرنا جبکہ حقیقت میں اسے کھانا پسند نہیں آیا تو یہ جھوٹ ہے۔ 2۔سفر میں تکلیف کے متعلق دریافت کرنے پر کہنا کوئی تکلیف نہیں ہوئی بہت آسانی سے سفر گزرا حالانکہ سفر میں مشقت اٹھائی ہو تو یہ جھوٹ ہے۔ 3۔ اسلامی بہنیں اکثر بچوں کو بہلانے کے لئے کہہ دیتی ہیں کھانا کھا لو گے تو کھیلنے دوں گی،دیکھو بلی آ رہی ہے جبکہ واقعتاً ایسا نہ ہو تو یہ جھوٹ ہے۔ کسی نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو کہنا کہ مجھے بھوک نہیں لگی حالانکہ اصل میں اسے بھوک لگی ہو تو یہ جھوٹ ہے۔ کسی ادارے میں لیٹ پہنچنے کے سبب پوچھ گچھ کی گئی تو کہا کہ ٹریفک میں پھنس گیا تھا حقیقت میں اپنی سستی کی وجہ سے تاخیر ہوئی تو یہ جھوٹ ہے۔کسی نے فون کر کے پوچھا کہ کہاں تک پہنچ گئے ہو تو کہنا کہ راستے میں ہوں یا بس پانچ منٹ میں پہنچ جاؤں گا جبکہ حقیقت میں ابھی گھر سے ہی نہیں نکلا یا پہنچنے میں زیادہ ٹائم ہے تو یہ بھی جھوٹ ہے۔

جھوٹ بولنے کے معاشرتی نقصانات :جھوٹ بولنے کے دنیا و آخرت میں بے شمار نقصانات ہیں جھوٹ بولنے سے تھوڑی دیر کا ظاہری فائدہ تو نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ان کا نقصان زیادہ بڑا ہے جھوٹ بولنے کے چند معاشرتی نقصانات یہ ہیں: 1۔ جھوٹے شخص پر لوگ اعتماد نہیں کرتے۔ 2۔ جھوٹے شخص کی کسی بات کا یقین نہیں کیا جاتا اگرچہ وہ سچ بول رہا ہو۔ 3۔ جھوٹے شخص کی لوگ عزت نہیں کرتے۔ 4۔ جھوٹ کی وجہ سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ 5۔ جھوٹ کی وجہ سے دنیا میں بھی رسوائی ہوتی ہے اور آخرت میں بھی عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 6۔ جو جھوٹ بول کر دوسروں کی تباہی و بربادی چاہتا ہے وہ خود تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔

بڑا نقصان : جھوٹ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ اللہ پاک ناراض ہو جاتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ہے لَّعْنَتَ اللّٰهِ عَلَى الْكٰذِبِیْنَ ( پ 3،اٰل عمران:61 )ترجمہ کنزالایمان : جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے۔

اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسی بیماری سے محفوظ فرمائے۔آمین بجاہ النبی ﷺ

جھوٹ کے خلاف اعلان جنگ ہے نہ جھوٹ بولیں گے نہ بلوائیں گے۔ انشاءاللہ


جھوٹ گناہوں کی جڑ ہے،یہ سب سے بری خصلت ہے،جھوٹ کو ہر دین میں برا کہا گیا ہے،جو شخص جھوٹ بولتا ہے وہ لوگوں کی نظروں میں گر جاتا ہے اور اپنا اعتماد گنوا لیتا ہے،جھوٹ ایک باطنی بیماری ہے۔

جھوٹ کی تعریف:حقیقت کے برعکس کوئی بات کرنا جھوٹ کہلاتا ہے سچ کی ضد۔(حدیقہ ندیہ،2/400)

حدیث 1: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اسکی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔ (ترمذی،3/392،حدیث:1979 )

شرح :جھوٹے کے منہ سے ایسی بدبو آتی ہے مگر یہ بدبو اس لئے محسوس نہیں ہوتی کہ جھوٹ کی کثرت کے سبب ہر طرف اسکی بدبو کے بھپکے اٹھ رہے ہوتے ہیں اور ہماری ناک اٹ چکی ہے۔( جھوٹ کی بدبو،ص 5)

حدیث 2: جھوٹ بولنے والے قیامت کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ نا پسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔(کنزالعمال،39/16،حدیث:4407)

شرح :دیکھا جھوٹ کتنی نقصان دہ چیز ہے کہ اللہ پاک اسے نا پسند کرنے لگتا ہے اس لئے جھوٹ کو چھوڑ کر ہمیشہ سچ کا دامن تھامے رکھیں۔ (جھوٹ کی تباہ کاریاں،ص 12)

حدیث 3: جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے اور بے شک بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک کذاب یعنی جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(بخاری، 4/125)

شرح :سچ پاکیزہ عادت ہے جو جنت تک پہنچا دیتی ہے جھوٹ بدترین صفت ہے جسکی وجہ سے انسان کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔ (جھوٹ کی بدبو،ص 11 )

حدیث4:سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق و فجور دوزخ میں لے جاتا ہے۔( صحیح مسلم،ص 1077 )

شرح :سچ پاکیزہ عادت ہے اور جھوٹ بری صفت ہے اور یہ انسان کو فاسق و فاجر بنا دیتی ہے۔ ( جھوٹ کی بدبو،ص11 )

حدیث5: خرابی ہے اس کے لئے جو بات کرے تو جھوٹ بولے تاکہ اس سے قوم کو ہنسائے اس کے لئے خرابی ہے اس کے لئے خرابی ہے (ترمذی،4/142،حدیث:2322)

شرح :فضول چوپال لگانے،ہوٹلوں کی رونق بڑھانے،لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹے افسانے سنانے میں سراسر نقصان ہے۔(جھوٹ کی بدبو ص:13)

جھوٹ کی مثالیں: 1۔بچوں سے کہنا کہ چپ ہو جاؤ ہم آپ کو پیزا لا کر دیں گے جبکہ ایسا ارادہ نہ ہو۔ 2۔ بچوں کو ڈرانے کی خاطر بلی یا کسی جانور کا حوالہ دینا جبکہ معاملہ ایسا نہ ہو وہاں کوئی جانور موجود نہ ہو۔

سب سے پہلا جھوٹ شیطان نے بولا۔(قسم کے بارے میں مدنی پھول،ص5)

معاشرتی نقصانات: 1۔ جھوٹا شخص ہر مجلس میں بے وقار اور بے اعتبار ہو جاتا ہے۔2۔ جھوٹے لوگ ناپسندیدگی کا شکار ہوتے ہیں۔3۔ جھوٹے لوگ معاشرے میں اکیلے رہ جاتے ہیں۔ 4۔لوگ جھوٹے انسان سے لین دین چھوڑ دیتے ہیں۔


جھوٹ کو عربی میں کذب انگلش میں (لائی ) اور فارسی میں (دروغ ) کہتے ہیں۔

جھوٹ کی تعریف :کسی شخص یا گروہ کا کسی دوسرے شخص یا گروہ کے متعلق قصداً کسی بات کے خلاف بیان کرنا جھوٹ ہے۔

جھوٹ کبھی فائدہ حاصل کرنے یا پھر نقصان سے بچنے کے لئے بولا جانے والا گناہ ہے،تاریخ بالکل خاموش! کیونکہ پتا نہیں ہے کہ دنیا میں سب سے پہلا انسان کون ہے جس نے جھوٹ جیسے بدترین گناہ کا آغاز کر ڈالا اب تو آج کل سب سے بڑا جھوٹ ہی یہی ہے کہ انسان کہتا پھرتا ہے میں جھوٹ نہیں بولتا جبکہ ہر انسان نے زندگی میں کبھی نہ کبھی جھوٹ بولا ہوگا۔

پہلا جھوٹ : بعض لوگوں کے نکتہ نظر میں آتا ہے کہ شیطان ہی ہے جس نے سب سے پہلے جھوٹ جیسے ذلیل وخوار کر دینے والے گناہ سے حضرت آدم وحوا کو بہکایا۔

لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں (سوال ہوا) جھوٹ بولنے کی کئی وجوہات ہیں بعض لوگ اس گناہ کا ارتکاب اس لئے کرتے ہیں اگر ان کا غلط لوگوں کے سامنے آ گیا تو لوگ اس صورت میں اس کی عزت نہیں کریں گے یا پھر شان وشوکت قائم رکھنے کے لئے اس بڑے گناہ کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں بعض لوگ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں تو جھوٹ بولتے ہیں۔

مثالیں : بچوں کو بہکانا کہ ایسا کرو گے تو چیز دوں گی جبکہ ایسا نہ کرنا جھوٹ ہے،ماں بچوں سے کہے: سو جاؤ ! ورنہ بلی آجائے گی،یہ بھی جھوٹ ہے،استاد پوچھے: کام لکھا؟ تو طالب علم کہے : لکھا تھا،رجسٹر گھر رہ گیا،جبکہ کام نہ لکھا ہو تو یہ بھی جھوٹ،بیمار ہونے کا بہانہ کرے چھٹی کی جبکہ بیمار نہ ہو تو بھی جھوٹ۔

نقصان : جھوٹے انسان کی عزت کوئی نہیں کرتا،اعتبار نہیں کرتا،معاشرے میں رہنا دشوار ہو جاتا ہے،اس سے وقار متاثر ہوتا ہے پھر بعد میں چاہے سچا بنا پھرے لیکن کوئی نہیں مانتا،یہ حرام کام ہے اور جہنم میں لے جانے والا،دنیا میں تو چلو گزارا ہو جائے اللہ پاک کو کیا جواب دے گا۔

غلطی کسی کی بھی ہو یاد رکھنے والی بات ہے کہ جھوٹ بولنا دھوکہ دینا غلطی نہیں،فیصلہ ہوتا ہے،جھوٹ ایک ایسا غلیظ کیچڑ ہے جس میں پتھر پھینکنے کی کوشش کی جائے تو انسان خود بھی اس سے محفوظ نہیں رہ سکتا۔

جھوٹ ایک ایسی تیز قینچی ہے جو ہر قسم کے تعلق (پھر چاہے تعلق کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو ) کو کاٹ دیتی ہے۔

ایک مشہور قول ہے: جھوٹ کی رفتار بہت تیز ہوتی ہے منزل پر سچ پہنچتا ہے۔

فرامینِ مصطفیٰ ٰ ﷺ :

1۔ بلاشبہ سچ آدمی کو نیکی کی طرف بلاتا ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور ایک شخص سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ صدیق کا لقب اور مرتبہ حاصل کر لیتا ہے بلاشبہ جھوٹ برائی کی طرف لے جاتا ہے اور برائی جہنم کی طرف ایک شخص جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ (شرح صحیح بخاری،حدیث 6094)

2۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں: 1۔ جب بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے۔2۔ جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے۔3۔ جب اسے امین بنایا جاتا ہے تو خیانت کرتا ہے۔

3۔ ظن و گمان کے پیچھے پڑنے سے بچو یا بد گمانی سے بچو اس لئے کہ بدگمانی سب سے بڑا جھوٹ ہے نہ ٹوہ میں پڑو اور نہ جاسوسی کرو۔( شرح صحیح بخاری)

ویل ( ہلاکت جہنم کا گڑھا ) ہے اس کے لئے جو بولتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے تاکہ اس سے لوگوں کو ہنسائے ویل ہے اس کے لئے ویل ہے اس کے لئے۔( سنن ابو داود،حدیث: 4990)

5۔ جس نے روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ پاک کو کوئی حاجت نہیں کہ وہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے۔ ( شرح صحیح بخاری 1903 )


جھوٹ آج کل بہت عام ہو چکا ہے،چھوٹے اور بڑے سب جھوٹ میں مبتلا ہیں،جھوٹ بہت بڑا گناہ اور حرام  بھی ہے،قرآنِ پاک اور حدیث میں جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے،جنت میں حضرت آدم علیہ السلام سے شیطان نے جھوٹ بولا اس طرح یہ پہلا جھوٹ بولا گیا۔

جھوٹ کیا ہے ؟بات کا حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ کہلاتا ہے۔

حدیث مبارکہ : جھوٹ اپنے برے انجام اور برے نتیجے کی وجہ سے تمام برائیوں کی جڑ ہے اس سے چغلی کا دروازہ کھلتا ہے چغلی سے بغض پیداہوتا ہے بغض سے دشمنی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے امن وسکون قائم نہیں ہو سکتا۔(ادب الدنیا والدین،ص،413 )

حدیث مبارکہ :حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق و فجور ہے اور فسق وفجور دوزخ میں لے جاتا ہے۔ (انوار حدیث،ص377)

حدیث مبارکہ :حضور اکرم ﷺ نے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے سے منع فرمایا اور ارشاد فرمایا:یعنی بربادی ہے اس کیلئے جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولے بربادی ہے اس کے لئے۔(ترمذی شریف،4/ 142 )

حدیث مبارکہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے اسکی بدبو سے فرشتے ایک میل دور ہٹ جاتے ہیں۔ (انوار حدیث،ص377)

حدیث مبارکہ :اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ کا فرمان ہے: جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔(ترمذی شریف،1/39)

جھوٹ کے نقصانات:1۔ جھوٹ کبیرہ گناہ ہے۔2۔ جھوٹ بولنا منافق کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

3۔جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہو جاتا ہے۔4۔ جھوٹ ایمان کے مخالف ہے۔5۔ جو جھوٹ بولتا ہے اس کا حسن و جمال جاتا رہتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو جھوٹ جیسے کبیرہ گناہوں سے بچائے۔ آمین بجاہ النبی الامین 


الله پاک ارشاد فرماتا ہے۔ ترجمہ کنزالایمان جھوٹ بہتان وہی باندھتے ہیں جو الله کی آیتوں پر ایمان نہیں رکھتے اور وہی جھوٹے ہیں (النحل : 105)  آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جھوٹ بولنا اور بہتان باندھنا بے ایمانوں کا ہی کام ہے۔ (خازن،النحل،تحت الآیۃ : 105،3/ 144،ملخصا)

جھوٹ کیا ہے ؟ بات کا حقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ہے۔ یہ ایک ایسی برائی ہے کہ ہر مذہب والے اس کی برائی بیان کرتے ہیں۔ ہر دین نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ اسلام میں خاص طور پر جھوٹ سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔ قرآنِ پاک میں جھوٹ کی مذمت بیان کی گئی ہے جھوٹ بولنے والوں پر الله پاک کی لعنت آئی۔ حضور اکرم ﷺنے بھی جھوٹ کو سخت نا پسند فرمایا۔

جھوٹ کا حکم : اوپر بیان کی گئی آیت سے معلوم ہوا کہ جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بد ترین گناہ ہے۔ (تفسیر صراط الجنان) گویا جھوٹ بولنا مسلمانوں کا طریقہ نہیں،جھوٹ تو منافقوں کا طریقہ ہے۔ افسوس! ہمارے معاشرے میں ایسے غافل بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اب تو سچ کا زمانہ ہی نہیں ہےجھوٹ کے بغیر کام ہی نہیں چلتا۔

جھوٹ کے متعلق احادیث :

ابو داود نے سفیان بن اسید حضرمی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور ﷺ نےفرمایا : بڑی خیانت کی بات ہے کہ تو اپنے بھائی سے کوئی بات کہے اور وہ تجھے اس بات میں سچا جان رہا ہے اور تو اس سے جھوٹ بول رہا ہے۔(سنن ابی داود،4/281،حدیث: 297)

امام احمد و ترمذی وابوداود اور دارمی نے بروایت بہزبن حکیم روایت کی کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا : ہلاکت ہے اس کے لیے جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے۔ اس کے لیے ہلاکت ہے،اس کے لیے ہلاکت ہے۔(سنن ترمذی،4/142،حدیث : 2322 )

امام مالک و بیہقی نے صفوان بن سلیم سے روایت کی،کہ رسول الله ﷺ سے پوچھا گیا،کیا مومن بزدل ہوتا ہے؟ فرمایا : ہاں پھر عرض کی گئی،کیا مومن بخیل ہوتا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ پھر کہا گیا : کیا مومن کذاب (جھوٹا) ہوتا ہے؟ فرمایا: نہیں۔( موطا،2/468،حدیث : 1913)

ترمذی نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی،رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے،اس کی بدبو سے فرشتہ ایک میل دور ہو جاتا ہے۔(المرجع السابق)

امام احمد نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : بندہ پورا مومن نہیں ہوتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ دے اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے،اگرچہ سچا ہو۔

بیان کی گئی احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ جھوٹ کا وبال کتنا بڑا ہے۔ بظاہر فائدہ دینے والی بات کیلئے ہم جھوٹ بول دیتے ہیں ہم دھوکہ کھا لیتے ہیں کہ جھوٹ سے فائدہ ملے گا حالانکہ جھوٹ نری (بالکل) ہلاکت ہے۔ اور آج ہمارا معاشرہ اس وبا سے دو چا رہے۔ الله پاک ہمیں جھوٹ بولنے سے بچانے اور اپنا پسندیدہ بندہ بنا ئے۔ آمین 


آج مؤرخہ 17 نومبر 2022ء بروز جمعرات بعد نماز مغرب دعوت اسلامی کے زیر اہتمام دنیا بھر میں ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماعات کا انعقاد کیا جائے گا جن میں مبلغین دعوت اسلامی و اراکین شوریٰ سنتوں بھرے  بیانات فرمائیں گے۔

تفصیلات کے مطابق ڈگری کالج قصور پنجاب سے براہ راست مدنی چینل پر نگران پاکستان مشاورت حاجی محمد شاہد عطاری ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

اس کے علاوہ مدنی مرکز فیضان عطار ادیب کالونی جی ٹی روڈ سرائے عالمگیر میں رکن شوریٰ مولانا حاجی محمد اسد عطاری مدنی اور جامع مسجد بہزاد لکھنوی میں رکن شوریٰ حاجی سید ابراہیم عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔

تمام عاشقان رسول سے اپنے اپنے قریبی مقامات پر ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کرنے کی درخواست ہے۔


ایسا واقع جو پیش ہی نہیں آیا ہو اسکو بیان کرنا جھوٹ کہلاتا ہے۔

سب سے پہلے جھوٹ شیطان نے بولا۔

5 فرامینِ مصطفیٰ ﷺ :

1۔لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولنے والا جہنم کی اتنی گہرائی میں گرتا ہے جو آسمان و زمین کے درمیان فاصلے سے زیادہ ہے۔(شعب الایمان،4/213،حدیث:4832)

2۔جھوٹ بولنے سے منہ کالا ہو جاتا ہے۔(شعب الایمان،4 /208،حدیث:4813)

جھوٹی بات کہنا گناہ کبیرہ ہے۔(المعجم الکبیر،14/18،حدیث: 293)

4۔جھوٹ بولنا منافق کی علامتوں میں سے ایک نشانی ہے۔(صحیح مسلم،ص 50،حدیث:106)

جھوٹ بولنے والے قیامت کے دن اللہ پاک کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ افراد میں شامل ہوں گے۔(کنزالعمال،39/ 16،حدیث : 44037)

5احادیثِ شریف :

حدیث (1): سچ بولنا نیکی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے اور جھوٹ بولنا فسق وفجور ہے اور فسق وفجور (گناہ) دوزخ میں لے جاتا ہے۔(صحیح مسلم،ص 165،حدیث :267)

حدیث (2): بیشک سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے اور بیشک بندہ سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک صدیق یعنی بہت سچ بولنے والا ہو جاتا ہے – جبکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنّم کی طرف لے جاتا ہے اور بیشک بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کذّاب یعنی بہت بڑا جھوٹا ہو جاتا ہے۔( بخاری،6/ 125)


انسان معاشرے میں رہتا ہے تو اس کا بہت سے لوگوں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے۔ ہر کسی کے ایک دوسرے کے ساتھ کچھ نہ کچھ حقوق ہیں۔اگر درست انداز سے حقوق کی ادائیگی نہ کی جائے تو معاشرتی نظام تباہ ہو جائے،انسان چونکہ شریعت کا مکلف ہے اور بندوں پر پہلا حق اگر کسی کا واجب ہوتا ہے تو وہ اللہ کا ہے جس نے تمام چیزوں کو عدم سے وجود بخشا ہے۔

حق اللہ سے مراد:وہ حقوق جو بندے پر اللہ کی طرف سے ہیں انسان کی وہ ذمہ داریاں جنہیں سرانجام دینا ہے،انہیں حقوق اللہ کہتے ہیں۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اللہ کا حق بندوں پر یہ ہے کہ اس کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ (صحیح البخاری،حدیث:2856)

اللہ پاک کے اپنے بندوں پر بہت سے حقوق ہیں جن میں سے پہلا حق:

1) معرفتِ الٰہی:معرفتِ الٰہی اولین فرائض میں سے ہے۔اس کی کئی اقسام ہیں جیسے معرفتِ عینیہ،معرفتِ تشبیعیہ،معرفتِ برہانیہ وغیرہ۔

معرفتِ برہانیہ دلیل اور برہان سے حاصل ہوتی ہے۔یہ تمام مخلوق کو حاصل ہے۔قرآنِ پاک معرفت کے دلائل پر مشتمل ہے۔مطالعہ کائنات کرکے معرفتِ الٰہی حاصل کی جاسکتی ہے۔

2) توحید کا اقرار:توحید سے مراد یہ ہے کہ اللہ کو اس کی ذات و صفات،اس کے اسماء و افعال میں یکتا مانا جائے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا جائے۔قُلْ هُوَ اللّٰهُ اَحَدٌ0ترجمہ:تم فرماؤ وہ اللہ ایک ہے۔ (الاخلاص:01)

3)عبادات:انسان کی پیدائش کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ خالص اللہ کی عبادت کرے،معبود سمجھ کر جو بھی تعظیم کی جائے گی وہ عبادت کہلائے گی۔حدیثِ قدسی میں اللہ پاک فرماتا ہے:اے انسان تو میری عبادت کے لیے فارغ ہو جا میں تیرا سینہ غنا سے بھر دوں گا۔(ترمذی،حدیث:2674) اس لئے حق یہ ہے کہ عبادت کی ساری انواع و اقسام صرف اللہ وحدہٗ لاشریک کے لیے خاص کی جائیں نماز،روزہ،زکوٰۃ،حج وغیرہ عبادات میں داخل ہیں۔

4) شکر:اللہ پاک ساری مخلوق پر احسان فرمانےاور نعمتیں عطا کرنے والا ہے اس لئے واجب ہے کہ زبان،دل اور اعضاء کے ذریعے اس کا شکر ادا کیا جائے۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ0اور میرا حق مانو اور میری ناشکری نہ کرو۔( البقرۃ:152)

5)اللہ کے محبوب بندوں کی تعظیم اور محبت کرنا:یہ اللہ پاک کا حق ہے کہ جن بندوں سے اللہ پاک محبت فرماتا ہے ان سے خالص اللہ کی رضا کے لئے محبت کی جائے اور ان کی تعظیم کی جائے،جیسے انبیائے کرام،اولیائے کرام و علمائے کرام وغیرہ۔


انسان کو اللہ نے اپنی عبادت کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں ہے کہ اس کی بادشاہت اور سلطنت میں یا اس کی قوت و شوکت میں اضافہ ہو جائے اور اگر انسان اللہ کی عبادت نہیں کرے گا تو اس کی سلطنت و شوکت میں کمی آ جائے گی ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اللہ پاک ہر چیز سے بے نیاز ہے اور بلا شرکت غیر ے تمام اختیارات اور قوتوں کا مالک ہے۔اللہ پاک کے حقوق کی مختصر تفصیل مندرجہ ہے:

(1)توحیدِ الٰہی (2)نماز (3)زکوٰۃ (4)روزہ (5)حج بیت اللہ۔

پہلا حق توحیدِ الٰہی:قرآنِ پاک میں ہے:اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَاِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ0ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔(پ 1،الفاتحہ:4) اللہ پاک ہمارا پروردگار ہے ہمیں اسی کی عبادت کرنی چاہیے،اللہ پاک کے ساتھ کسی اور کو شریک ٹھہرانا بہت بڑا شرک ہے۔ ہر رسول اور نبی نے اپنی اپنی قوموں کو اسی توحید کی دعوت دی۔

دوسرا حق نماز:اللہ کی توحید کا اقرار و اعتراف اور اس کے تقاضوں کی تکمیل اللہ کا پہلا حق ہے۔ سورۃ البقرہ میں اللہ پاک فرماتا ہے:وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ0اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (البقرۃ:43)

تیسرا حق زکوٰۃ:زکوٰۃ ایک مالی عبادت ہے،نماز کے بعد اللہ پاک کا عام حق زکوٰۃ کی ادائیگی ہے۔ اللہ پاک نے کمالِ شفقت اور رحمت سے اپنے ضرورت مند بندوں کی فلاح و بہبود کو اپنا حق قرار دیا،یہ اللہ پاک کی کس قدر مہربانی ہے،حق اس کا اور فائدہ اٹھائیں بندے !سبحان اللہ! قرآنِ پاک میں ہے:اللہ پاک فرماتا ہے:خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّیْهِمْ بِهَا وَصَلِّ عَلَیْهِمْؕ- اے محبوب ان کے مال میں سے زکوٰۃ تحصیل(وصول) کرو جس سے تم انھیں ستھرا اور پاکیزہ کردو اور ان کے حق میں دعائے خیر کرو۔ (پ11،التوبۃ:103)

چوتھا حق روزہ:توحید،نماز اور زکوٰۃ کے بعد اب ہم روزہ کی مختصر تفصیل دیکھتے ہیں۔اللہ پاک نے سورۃ البقرہ میں فرمایا:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ0اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کیے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے۔( پ2،البقرۃ:183)

پانچواں حق حجِ بیت اللہ:اللہ پاک فرماتا ہے:وَ  لِلّٰهِ  عَلَى  النَّاسِ حِجُّ  الْبَیْتِ  مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ  سَبِیْلًاؕ-اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا ہے جو اس تک چل سکے۔( پ 4،اٰ ل عمران:97)