آج کل کثیر لوگوں کا بات بات پر جھوٹ بولنے کا رجحان دیکھا جا رہا ہے،بار ہا تو جھوٹی قسم بھی کھالی جاتی ہے اور پھر اس سے توبہ کا ذہن نہیں ہوتا،جھوٹ وہ بری خامی ہے جسے مسلمان تو مسلمان غیر مذہب بھی ناپسند کرتے ہیں۔جھوٹ کی مذمت پر  فرامینِ مصطفے ﷺ کامطالعہ کرنے سے پہلے جھوٹ کی تعریف ملاحظہ فرمائیں:

جھوٹ کی تعریف :کسی کے بارے میں خلاف حقیقت خبر دینا۔ قائل گناہ گار اس وقت ہو گا جبکہ (بلا ضرورت ) جان بوجھ کر جھوٹ بولے (76 کبیرہ گناہ،ص 99)

سب سے پہلا جھوٹ کس نے بولا : حضرت آدم علی نبینا و علیہ الصلاۃ والسلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا،لہٰذا وہ آپ علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا جب اللہ پاک نے حضرت آدم و حوا کو جنت میں رکھنے کا فرمایا اور اس سے منع فرمایا کہ وہ فلاں درخت سے کچھ کھائیں تو شیطان نے کسی طرح ان حضرات کے پاس جا کر کہا میں تمہیں شجر خلد بتادوں حضرت آدم علیہ السلام نے منع فرمایا تو شیطان نے قسم کھائی کہ میں تمہارا خیر خواہ ہوں انہیں خیال ہوا کہ بھلا اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کھا سکتا ہے یہ سوچ کر انھوں نے اس درخت سے کچھ کھا لیا۔(قسم کے بارے میں مدنی پھول،ص،4)

5 فرامینِ مصطفیٰ ٰ ﷺ:

1۔ نہ دی ہوئی چیز کا ظاہر کرنے والا دو جھوٹے کپڑے پہننے والے کی طرح ہے یعنی کوئی شخص امانت یا عاریت کے اعلیٰ کپڑے پہن کر پھرے لوگ سمجھیں کہ اس کے اپنے کپڑے ہیں پھر بعد کھلنے میں بدنامی بھی ہو گناہ بھی،یا جیسے کوئی فاسق و فاجر متقی کا لباس پہن کر صوفی بنا پھرے پھر حال کھلنے پر رسوا ہو۔ (76 کبیرہ گناہ،ص،103)

2۔ تم بدگمانی سے بچو کیونکہ بلاشبہ یہ سب سے بڑی جھوٹی بات ہے۔بغیر کسی دلیل کے دل میں پیدا ہونے والی تہمت کو بدگمانی کہتے ہیں،اس سے بچنا چاہئے۔ (76 کبیرہ گناہ،103 )

3۔ توریہ کے سبب جھوٹ کی حاجت نہیں رہتی۔ توریہ یعنی لفظ کے جو ظاہر معنی ٰ ہیں وہ غلط ہیں مگر اس نے دوسرے معنی ٰ مراد لئے جو صحیح ہیں ایسا کرنا بلا حاجت جائز نہیں اور حاجت ہو تو جائز ہے توریہ کی مثال یہ بھی ہے کہ تم نے کسی کو کھانے کے لئے بلایا وہ کہتا ہے میں نے کھانا کھا لیا اس کے ظاہر معنی ٰ یہ ہیں کہ اس وقت کا کھا لیا ہے مگر وہ یہ مراد لیتا ہے کل کھایا ہے یہ بھی جھوٹ میں شامل ہے۔(76 کبیرہ گناہ،103 )

4۔ بروز قیامت تین شخصوں سے اللہ پاک کلام نہیں فرمائے گا ان میں ایک جھوٹا بادشاہ بھی ہے۔(76 کبیرہ گناہ،103 )

5۔ منافق کی تین نشانیاں ہیں : 1۔ جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔2۔ جب وعدہ کرے تو پورا نہ کرے۔ 3۔جب اس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔

نفاق کا لغوی معنی ٰ باطن کا ظاہر کے خلاف ہونا اگر اعتقاد اور ایمان کے بارے میں یہ حالت ہو تو اسے نفاق کفر کہتے ہیں اور اگر اعمال کے بارے میں ہو تو اسے نفاق عملی کہتے ہیں اور یہاں حدیث میں یہی مراد ہے۔(76 کبیرہ گناہ،ص 101 )

چند مثالیں : 1۔بعض اوقات کوئی شخص کام کردے تو بعد میں جب اس سے پوچھا جائے تو اسے جھٹلادے۔ 2۔ ایک شخص نے دوسرے سے کہا کیا زید آیا تھا اگر نہیں آیا تھا اس کے باوجود یہ کہہ دے کہ زید آیا تھا تو یہ جھوٹ میں شمار ہو گا۔ 3۔ اگر کسی نے دوسرے سے کہا کھانا کھالو تو دوسرے نے کہا میں کھا کر آیا ہوں تو اگر وہ کھانا کھا کر نہیں آیا تو جھوٹ میں شمار ہو گا۔

چند معاشرتی نقصانات : جھوٹ بولنے والے سے اللہ پاک اور اسکا رسول ناراض ہوتے ہیں،لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں،اس پر اعتماد نہیں کرتے،اس سے بات کرنا ناگوار سمجھتے ہیں،جھوٹا ذلیل و خوار ہوتا ہے،جب کوئی جھوٹ بولتا ہے اس سے رحمت کے فرشتے دور ہو جاتے ہیں،جھوٹا شخص بھری مجلس میں بھی تنہا رہتا ہے،جھوٹ بولنے والے کو کوئی پسند نہیں کرتا۔