صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

واقعی صحابہ کرام علیہم الرضوان  بے مثال و بے کمال ہیں کہ کوئی بھی اُنکے مقام و مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا۔

     (1) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے اوصافِ حمیدہ خود اللہ عَزَّ وَجَلَّنے قرآن پاک میں بیان فرمائے : چنانچہ اللہ تبارک و تعالی پارہ ١١ سورہ توبہ کی آیت نمبر ١٠٠ میں ارشاد فرماتا ہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ اُن سے اور وہ اللہ سے راضی اور اُن کے لیے تیار رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ اُن میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

(2) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کو نبی کریم صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنا دیدار کرنے کا شرف عطا فرمایا۔

             حضرت علّامہ مظہر الدین حسین زیدانی قُدِسَّ سِرَّهُ النُّورانی فرماتے ہیں: صحابہ کی فضیلت محض " رسول اللّٰه صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم کی صحبت (زیارت) کی وجہ سے تھی. ( المفاتيح فی شرح المصابیح، جلد: ٦، صفحہ نمبر: ٢٨٦، تحت الحديث: ٤٦٩٩ ماخوذ از ماہنامہ فیضان مدینہ شوال المکرم ١٤٣٩ سن ہجری)

(3) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کا جنتی ہونا قرآن پاک سے ثابت ہے. ( پارہ ٢٧، سورہ حدید،  آیت نمبر: ١٩).

      (4) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جو اُمت میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں جن کے مقام و مرتبہ کو آقاءِ کریم صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے یوں واضح کیا: " میرے اصحاب کو بُرا بھلا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی اُحُد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر دے تو وہ اُن کی ایک مُد ( ایک پیمانہ) کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اُس مُد کے آدھے کو" ( بخاری، جلد: ٢، صفحہ نمبر: ٥٢٢، حدیث نمبر: ٣٦٧٣، مطبوعہ: دار الکُتُب العلمیہ بیروت ماخوذ از فیضان نماز، صفحہ نمبر: ٣٣٢، مطبوعہ:مکتبۃ المدینہ.           

(5) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے ایمان کو اللّٰه عزوجل نے معیار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:"  پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لائے جیسا تم لائے جب تو وہ ہدایت پا گئے". ( پارہ: ١، سورہ بقرہ، آیت نمبر: ١٣٧)

   حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللّٰه تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام علیہم الرضوان ایمان کی کسوٹی (معیار) ہیں. ( امیر معاویہ رضی اللّٰه تعالٰی عنہ، صفحہ: ٢٩،مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور ماخوذ از فیضان نماز، صفحہ نمبر : ٣٣١، مطبوعہ: مکتبۃ المدینہ)

(6) یہ وہ مبارک ہستیاں ہیں کہ احادیث طیبہ میں ان کی شانیں بیان کی گئیں، چنانچہ نبی کریم صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نےارشاد فرمایا: " میرے تمام صحابہ میں خیر (یعنی بھلائی) ہے. (ابن عساكر، جلد: ٢٩، صفحہ نمبر:١٨٤ ماخوذ از فیضان نماز، صفحہ نمبر: ٣٣٢)

اللّٰه عزوجل ہمیں صحابہ کرام رضی اللّٰه تعالٰی عنہم کے فضائل و برکات سے مالا مال فرمائے. آمین بجاہ النبی الآمین صلی اللّٰه تعالٰی علیہ وآلہ وسلم.

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

فضائل صحابہ میں آیات قرآ نی اور احادیث نبوی کثرت سے وارد ہوئی ہیں یہ آیات و احادیث دو قسم کی ہیں ایک وہ آیات واحادیث ہیں جو عام صحابہ کرام کے فضائل میں و ارد ہوئی اور دوسری قسم وہ جو کسی خاص صحابی کے حق میں نازل ہوئی اورہم بطوراختصار دونوں قسموں سے کچھ آیات و احادیث پیش کرتے ہیں۔

پہلی قسم سے آیات:

۱۔ وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى وَ كَانُوْۤا اَحَقَّ بِهَا وَ اَهْلَهَاؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور پرہیزگاری کا کلمہ اُن پر لازم فرمایا اور وہ اس کے زیادہ سزاوار اور اس کے اہل تھے۔(الفتح ۔26)

اس آیت میں بیان ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے صلح حدیبیہ میں شریک صحابہ کرام پر پرہیزگاری کا کلمہ لازم فرمادیا پرہیزگاری کا کلمہ یعنی ایمان اور اخلاص ان سے جدا نہیں ہوسکتا۔(ج۹،ص ۳۸۰)

٢۔ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل تو انہیں دیکھے گا رکوع کرتے سجدے میں گرتے ۔ (الفتح ، 29)

اس آیت میں بیان ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپس میں نرم دل تھے اور کثرت سے اور پابندی سے نمازیں پڑھتے تھے، اس لیے کبھی تم انہیں رکوع اور کبھی سجدہ کرتے دیکھو گے۔(صراط الجنان، ج ۹، ص 386/387)

۲۔نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ست ایا اس نے مجھے ستایا، اس اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمائے۔(مرا ة المناجیح ج۸، ص ۳۴۰)

دوسری قسم سے آیات:

۱۔ وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰى حُبِّهٖ مِسْكِیْنًا وَّ یَتِیْمًا وَّ اَسِیْرًا(۸) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اَسِیر(قیدی) کو۔(الدھر ،8)

ایک قول کے مطابق جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یتیم مسکین اور قیدی کو کھانا کھلایا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کی مدح میں یہ آیت نازل کی۔(تفسیر مقاتل بن سلیمان، ج۳، ص ۴۲۸)

۲۔ وَ الَّیْلِ اِذَا یَغْشٰىۙ(۱) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور رات کی قسم جب چھائے ۔(اللیل ،1)

یہ سورت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی فضیلت میں نازل ہوئی۔

احادیث:

۱۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے احزاب کے د ن فرمایا، کہ قوم کی خبر کون لائے گا تو جناب زبیر نے عرض کیا، میں تب نبی صلی اللہ عیہ وسلم نے فرمایاکہ ہر نبی کے مخلص دوست ہوتے ہیں، اور میر ے مخلص دوست زبیر ہیں۔(مراة المناجیح ، ج۸،ص۴۲۷)

۲۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر امت کا کوئی امین ہوتا ہے اس امت کے امین ابو عبیدہ بن جراح ہیں(مراة المناجیح، ج ۸، ص ۴۲۹)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

صحابی کی تعریف:

علماء متقدمین ومتاخرین نے صحابی کی تعریف میں جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر اس صاحب ایمان شخص کو صحابی کہا جائے گا جس نے ایمان کی حالت میں خاتم النّبیین محمد عربی صلى اللہ عليه وسلم سے شرف ملاقات حاصل کیا اور اسی ایمان کے ساتھ وفات پائی،اور ظاہر ہے کہ وہ نابینا حضرات یا صحابہ کے نومولود بچے جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خدمت مبارکہ میں لائے گئے ان سب کو ملاقات حاصل ہے لہٰذا بلا تردد جماعت صحابہ میں ان کا شمار ہوگا۔

اس طرح کم وبیش ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم کا پاکیزہ گروہ اس زمرہ میں شما رکیا جاتا ہے جس کے بارے میں علماء اہل سنت والجماعت اور ائمہ سلف کا بالاتفاق قول ہے کہ سب کے سب نجوم ہدایت ہیں کیونکہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: اَصْحَابی کالنُّجوم بأیہم اقتدیتم اہتدیتم. (ترمذی)

گروہ صحابہ کا وجود، رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے معجزات میں سے ایک عظیم الشان معجزہ ہے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ومحبوب صلى الله عليه وسلم کے عالمگیر پیغام رسالت کو خطہٴ ارضی کے ہرگوشہ تک اس کی حقیقی روح کے ساتھ پھیلایا اور اس طرح آنحضور صلى الله عليه وسلم کا رحمة للعالمین ہونا بھی ثابت کردیا اور وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا كَآفَّةً لِّلنَّاسِ (سورہ فاطر:۲۴) کی تفسیر بھی دنیا کے سامنے پیش کردی گئی۔

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پاکیزہ برگزیدہ جماعت کے ذریعہ اسلام کا تعارف بھی کرادیاگیا اور رسول عربی صلى الله عليه وسلم کی سیرتِ طیبہ اور سنت کو عام کیاگیا اگر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو الگ رکھ کر ان کوعام انسانوں کی طرح خاطی و عاصی تصور کرکے غیر معتبر قرار دیا جائے گا تو اسلام کی پوری عمارت ہی منہدم ہوجائے گی نہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی رسالت معتبر رہے گی نہ قرآن اور اس کی تفسیر اور حدیث کا اعتبار باقی رہے گا کیونکہ اللہ کے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے جو کچھ من جانب اللہ ہم کو عطاء کیا ہے وہ ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہی کی معرفت پہنچا ہے خود معلم انسانیت محمد عربی نے اپنے جاں نثار اطاعت شعار صحابہ کی تربیت فرمائی تھی۔ صحابہ کرام نے اوّل، زبان رسالت سے آیات اللہ کو ادا ہوتے سنا تھااور کلام رسول کی سماعت کی تھی پھر دونوں کو دیانت وامانت کے ساتھ اسی لب ولہجہ اور مفہوم ومعانی کے ساتھ محفوظ رکھا اور بحکم رسول عربی صلى الله عليه وسلم اس کو دوسروں تک پہنچایا کیونکہ حجة الوداع کے موقع پر آنحضور صلى الله عليه وسلم نے ان کو تبلیغ کا مکلف بنایا تھا... بَلِّغُوْ عَنِّی وَلَوْ آیةً . میری جانب سے لوگوں کو پہنچادو اگرچہ ایک آیت ہی ہو۔(بخاری ومسلم)

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو درسگاہ نبوت میں حاضری کا مکلف ایک خاص حکم کے ذریعہ بنایا تھا کہ ہر وقت ایک معتدبہ جماعت اللہ کے رسول کی خدمت میں اسلام سیکھنے کیلئے حاضر رہے اس لئے کہ کب کوئی آسمانی حکم اور شریعت کا کوئی قانون عطا کیا جائے، لہٰذا ایک جماعت کی آپ کی خدمت میں حاضری لازمی تھی اور ان کو بھی حکم تھا کہ جو حضرات خدمت رسالت میں موجود نہیں ہیں ان تک ان نئے احکام اور آیات کو پہنچائیں۔

وَ مَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِیَنْفِرُوْا كَآفَّةًؕ-فَلَوْ لَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَآىٕفَةٌ لِّیَتَفَقَّهُوْا فِی الدِّیْنِ وَ لِیُنْذِرُوْا قَوْمَهُمْ اِذَا رَجَعُوْۤا اِلَیْهِمْ لَعَلَّهُمْ یَحْذَرُوْنَ۠(۱۲۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان:اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب نکلیں تو کیوں نہ ہو ا کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے کہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں

حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت وعقیدت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت نہیں ہوسکتی اور صحابہ کرام کی پیروی کئے بغیر آنحضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی کا تصور محال ہے۔ کیونکہ صحابہ کرام نے جس انداز میں زندگی گزاری ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے اور ان کے ایمان کے کمال وجمال، عقیدہ کی پختگی، اعمال کی صحت و اچھائی اور صلاح وتقویٰ کی عمدگی کی سند خود رب العالمین نے ان کو عطا کی ہے اور معلم انسانیت صلى الله عليه وسلم نے اپنے قولِ پاک سے اپنے جاں نثاروں کی تعریف وتوصیف اور ان کی پیروی کو ہدایت وسعادت قرار دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی انسان تھے ان سے بھی بہت سے مواقع پر بشری تقاضوں کے تحت لغزشیں ہوئی ہیں لیکن لغزشوں، خطاؤں، گناہوں کو معاف کرنے والی ذات اللہ کی ہے اس نے صحابہ کرام کی اضطراری، اجتہادی خطاؤں کو صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس معافی نامہ کو قرآن کریم کی آیات میں نازل فرماکر قیامت تک کیلئے ان نفوس قدسیہ پر تنقید و تبصرہ اور جرح و تعدیل کا دروازہ بند کردیا اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے ایمان کی صداقت اور اپنی پسندیدگی کی سند بھی بخشی ہے اس کے بعد بھی اگر کوئی فرد یا جماعت صحابہ کرام پر نقد و تبصرہ کی مرتکب ہوتی ہے تواس کو علماء حق نے نفس پرست اور گمراہ قرار دیا ہے ایسے افراد اور جماعت سے قطع تعلق ہی میں خیر اورایمان کی حفاظت ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پوری جماعت (خواہ کبار صحابہ ہوں یا صغار صحابہ) عدول ہے اس پر ہمارے ائمہ سلف اور علماء خلف کا یقین و ایمان ہے۔ قرآن کریم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متعلق آیات پر ایک نظر ڈالئے پھر ان کے مقام ومرتبہ کی بلندیوں کا اندازہ لگائیے اس کے بعد بھی اگرکسی نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیص کی جرأت کی ہے تواس کی بدبختی پر کفِ افسوس ملئے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل 

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

صحابۂ کرام ملت اسلامیہ کی وہ عظیم ہستیاں ہیں جو قرآن کریم کے اولین مخاطب ہیں۔ حضور سے بلاواسطہ شرفِ تعلیم و تربیت حاصل کرنے والے اور  دینِ اسلام کے اولین مبلغ ہیں۔ تمام صحابۂ کرام مومن مخلص سچے عادل اور جنتی ہیں سب کی تعظیم مسلمانوں پر لازم ہے. قرآن و حدیث میں صحابہ کرام کے بےشمار فضائل وارد ہوئے ہیں۔

1۔صحابہ کا ایمان معیار ہے:

فَاِنْ اٰمَنُوْا بِمِثْلِ مَاۤ اٰمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْاۚ- ترجمۂ کنز العرفان: پھر اگر وہ بھی یونہی ایمان لے آئیں جیسا تم ایمان لائے ہو جب تو وہ ہدایت پاگئے( سورہ بقرہ، آیت 137)

یہودیوں کو صحابۂ کرام رَضِی اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی طرح ایمان لانے کا فرمایا،اس سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کا ایمان بارگاہِ الہٰی میں معتبر اور دوسروں کیلئے مثال ہے۔(صراط الجنان ج 1،ص 246)

2۔صحابۂ کرام تمام برائیوں سے پاک اور تقوی والے ہیں:

اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ترجمۂ کنز العرفان: یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔(الاحزاب،3)

ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں: اللہ تعالی نے صحابہ کرام کو تمام برائیوں سے پاک فرمایا اور ان کے دلوں میں اپنا خوف اور تقوی ڈال دیا۔(تفسیر قرطبی، ج 16, ص 308, دار الکتب مصریۃ قاہرۃ ،طبعہ ثانیۃ)

3۔تمام صحابہ عادل اور جنتی ہیں:

رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، ترجمۂ کنزالعرفان: ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں اور اس نے ان کیلئے باغات تیار کررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ،ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے، یہی بڑی کامیابی ہے۔( سورۂ توبہ، آیت: 100)

اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم عادل ہیں اور جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق نہیں۔(تفسیر صراط جنان ج 4، ص 219)

ہر صحابیٔ نبی‌ جنتی جنتی

4۔صحابہ کرام امت میں بہترین لوگ ہیں:

سرکار علیہ السلام نے ارشاد فرمایا میرے صحابہ کی عزت کرو کیوں کہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔(مشکوۃ ج ۲ ص 413 حدیث: 6012)

5۔ صحابہ کو آگ نہیں چھوئے گی:

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اس مسلمان کو آگ نہیں چھو سکتی جس نے مجھے دیکھا ہو۔( امیر معاویہ پر ایک نظر،ص 30)

اللہ کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو کیا کرتا ہے:

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جب اللہ پاک کسی سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل میں میرے صحابہ کی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔ (فیضان نماز 332)

7۔صحابہ میں خیر ہے:

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میرے تمام صحابہ میں خیر ہے (ایضا)

8۔ صحابہ کو برا کہنے کا انجام :

آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرمایا جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ پاک، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہے، اللہ پاک اس کا نہ فرض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔ (ایضا)

ہمیں تمام صحابہ کرام کی محبت و تعظیم عطا فرمائے اور اسے عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

فضائل : فضیلت کی جمع ہے، جس سے مراد وہ خصائل اوراوصاف ہیں جو پسندیدہ اور قابلِ مدح ہوں۔( نعمة الباری فی شرح البخاری ، ج ۶،ص ۶۹۳)

اور صحابی وہ ہے جس نے ایمان کی حالت میں نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا، ہو اور ایمان پراس کی وفات ہوئی ہو۔( گلدستہ عقائد و اعمال، ص ۱۶، مکتبہ المدینہ)

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو انبیا کرام علیہم السلام کے درمیان منتخب فرمایا اسی طرح دین حنیف کے حاملین کو اور وہ صحابہ رسول تھے۔( عقائد و مسائل ص ۹۶)

شرفِ محبت و دیدار : سب سے پیاری فضیلت جو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو تمام امت پر حاصل ہے کہ انہیں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت اور شرف دیدار نصیب ہوا ۔ کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا کیوں نہ ہو کسی ادنیٰ صحابی کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکتا ،اور ان (صحابہ) میں کوئی ادنی نہیں۔(سنی بہشتی زیور ص ۹۹)

امت کے بہترین افراد:

حضو ر اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے صحابہ کرام کی عزت کرو، کہ وہ تمہارے بہترین افراد ہیں، پھر وہ جوان کے ساتھ متصل ہو، پھر و ہ جو ان سے متصل ہوں گے۔(عقائد و مسائل ، ص ۹۹)

صحابہ کرام کے خرچ کرنے کے ثواب کے برابر نہ پہنچ سکیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کو گالی نہ دو، قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم میں سے ایک شخص احد پہاڑ کی مثل سونا خرچ کردے توان کے ایک سیر اور آدھے سیر کو بھی نہیں پہنچ سکے گا۔(سنی بہشتی زیور، 98)

صحابہ کا ذکر خیر کے ساتھ ہونا فرض :

تمام صحابہ کر ام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اہل خیر و صلاح ہیں اور عادل ہیں ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے ۔

اور ان صحابہ کرام کو کیوں نہ امت پر فضیلت حاصل ہو؟ کہ یہ وہ مقدس نفوس ہیں جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے مخلص وزرا، اصحاب محبت اور سچ مددگار تھے آپ کی شریعت کا دفاع کرتے تھے۔ اس لیے اللہ پاک نے انہیں یہ بلند درجہ عطا فرمایا کہ وہ اعلیٰ ترین افراد ہیں اور ان کا مقام بلند اور مرتبہ نہایت اعلیٰ ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابی کون ؟:

صحابی سے مراد جن و انس میں سے ہر وہ فرد ہے جس نے ایمان کی حالت میں محمد مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی زیارت کی یاصحبت سے مشرف ہوا اور اسلام کی حالتوں میں ہی اسے موت آئی(حدیقۃ ندیہ، شرح مقدمۃ الکتاب ۱/۱۳)

صحابہ کا مقام:

صحابہ کرام علیہم الرضوان انبیا کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ہستیاں ہیں، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکاة المصابیح کتاب المناقب ، ۲/۴۱۳،حدیث ۶۰۱۲)

اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا، بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔(بخاری کتاب الشہادت2/193، حدیث: 2656)

رضائے الہی اور جنتی ہونے کی بشارت:

قرآن مجید میں صحابہ کرام علیہم الرضوان کو رضائے الہی کی خوش خبری سنائی گئی ہے اور ان کا قطعی جنتی ہونا قران سے ثابت ہے اسی لیے تو امت محمدیہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا نعرہ ہے ۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی

چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالعرفان : ان سب سے اللہ راضی ہوا اور یہ اللہ سے راضی ہیں، اور اس نے ان کے لیے باغات تیار رکر رکھے ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں گے یہی بڑی کامیابی ہے۔ (سورہ توبہ 11/100)

آگ سے امان یافتہ :

یہ مقدس ہستیاں آگ سے محفوظ رکھی گئی ہیں یہ اس کی گن گرج نہیں سنیں گی، یہ قیامت کے دن امن میں ہوں گی چنانچہ ار شادہوا۔ترجمہ کنزالایمان :وہ جہنم سے دور رکھے گئے ہیں وہ جہنم ک بھنک تک نہ سنیں گے وہ ہمیشہ اپنی من مانتی جی بھاتی مرادوں میں رہیں گے،قیامت کی وہ سب سے بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے یہ کہتے ہوئے کہ یہ تمہارا وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا( سورۃالانبیاء 17/102)

اسی طرح نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا (ترمذی، کتا ب المناقب، 5/461، حدیث 3884)

بیش بہا اجرو ثواب کے حقدار:

فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے، میرے صحابہ کو گالی گلوچ نہ کرو، اگر تم میں سے کوئی اُحد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے کسی صحابی کے مد بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔( بخاری کتا ب فضائل اصحاب النبی 2/522، حدیث ۔ 3673)

صحابہ کرام علیہم الرضوا ن کو یہ مقام و مرتبہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ملا، کوئی بڑے سےبڑ ا ولی بھی کسی صحابی کے مر تبے کو نہیں پہنچ سکتا، صحابہ کرام علیہم الرضوان سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جان نثار، غلام اور جنتی ہیں، ان سب سے بھلائی کا وعدہ ہے، قرآن پاک میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ- ترجمہ کنزالایمان : اور اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا۔(النساء : 95)

حقیقی مومن :

صحابہ کر ام علیہم الرضوان عادل ، متقی اور نبی پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سچے پیرو کار ہیں تو قرآن نے انہیں نوید سنائی ۔ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴)تَرجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔(الانفال : 74)

ہدایت کیسے ملے؟

ہدایت، ہدایت یافتہ کی پیروی کرنے سے ملتی ہے حبیب خدا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی بھی اقتدا کرو گے فلاح و ہدایت پا جاؤ گے۔( مشکا ة المصابیح کتاب المناقب 2/414، حدیث 6018)

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسولُ اللہ کی

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

صحابی وہ خوش نصیب مومن ہیں جنہوں نے ایمان کی حالت میں حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو جاگتی آنکھوں سے دیکھا یا انہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت نصیب ہوئی ہو پھر ایمان پرخاتمہ بھی نصیب ہوا ہو۔

قرآن کی روشنی میں:

اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد فرمائی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، ہمیشہ رہیں گے ان میں۔(القرآن ، سورة مجادلہ آیت نمبر۲۲)

اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اس کی رحمت اور کرم سے یہ اللہ کی جماعت ہے، سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کا میاب ہے۔(القرآن ، سورہ مجادلہ آیت ۲۲)

احادیث کی روشنی میں :

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو بُرا نہ کہو اور گالی نہ دو، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم میں سے کوئی اگر اُحد پہاڑکے برابر سونا بھی خرچ کردے تو وہ ان کے ایک مد اور نہ ہی اس کے نصف تک پہنچ سکتا ہے۔(صحیح بخاری ، حدیث 3673 ، صحیح مسلم ،، حدیث 2541)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم ان لوگوں کو دیکھو جو میرے صحابہ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہتے ہیں تو کہو کہ تمہاری شرارت پر اللہ کی لعنت ہو۔(ترمذی، کتاب المناقب، حدیث، 3866)

راوی روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ صحابۂ کرام کو برا مت کہو کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت میں گزرا ہوا ان کا ایک لمحہ تمہارے زندگی بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔(سنن ابن ماجہ، کتاب المقدمہ، حدیث 162)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق سوال کیا جو میرے بعد ہوا، اللہ نے میری طرف وحی فرمائی ۔ اے محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے بعض بعض پر افضل ہیں، لیکن سب کے سب نور ہیں، اے محبوب اگر ان میں بعد میں اختلاف ہوجائے تو جوان میں سے جس کی پیروی کرے وہ ہدایت پاجائے گا، پھر نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا اے لوگو جان لو میرے صحابہ آسمان میں چمکتے ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کرو گے ہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکاة ، مناقب صحابہ، حدیث 5762)

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابہ کرام کے فضائل

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

فضائل سے مراد وہ فضائل اور اوصاف ہیں جو پسندیدہ اور لائق مدح ہوں ۔  اور صحابی اس مسلمان کو کہتے ہیں جس نے بحالتِ بیداری میں اپنی آنکھوں سے سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دیکھا یا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا اور ایمان کی حالت میں اس کا خاتمہ ہوا۔

صحابہ کرام کے بہت سے فضائل ہیں جیسا کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کرو گے فلاں و ہدایت پاجاؤ گے۔ (مشکوة المصابیح کتاب المناقب ، باب مناقب، صحابہ حدیث 6018)

صحابہ کرام تمام جہان کے مسلمانوں سے افضل ہیں روئے زمین کے سارے ولی غوث قطب ایک صحابی کے گردِ قدم کو نہیں پہنچتے، صحابہ میں خلفائے راشدین پر ترتیب ، خلافت افضل ہیں پھر عشرہ مبشرہ پھر بدر والے پھر بیعت رضوان والے پھر صاحبِ فضیلت کوئی صحابی فاسق نہیں سب عادل ہیں، حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کو پہنچے نہ آدھے کو۔(مراۃ جلد ہشتم ص،307)

یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لیے چنا، صحابہ کرام کا ذکرخیر سے کرنا چاہیے کسی صحابی کو ہلکے یا کم الفاظ سے یاد نہیں کرنا چاہیے۔صحابہ کرام کے فضائل کے کیا کہنے جن صحابہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت پائی حضور سے علم و عمل حاصل کیے حضور کی تربیت پائی وہ تو انسان کیا فرشتوں سے بڑھ گئے۔(مراة جلد ہشتم ، ص ۳۱۲)

اسی طرح صحابہ کرام کے فضائل میں یہاں تک آتا ہے جن لوگوں کو اخلاص سے صحابہ کرام کی صحبت نصیب ہوئی ان کی خدمات میسر ہوئی ، وہ نچلی دوزخ سے محفوظ ہے۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ سے بغض مجھ سے بغض ہے ،تواس کے برعکس صحابہ سے محبت مجھ سے محبت ہے صحابہ کی شان تو بہت اونچی ہے آپ نے فرمایا میرے صحاب کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا بغیر نمک کے درست نہیں ہوتا یعنی جیسے کھانے میں نمک تھوڑا ہوتا ہے مگر سارے کھانے کو درست کردیتا ہے ایسے ہی میرے صحابہ میری امت میں تھوڑے ہیں مگر سب کی اصلاح اسی کے ذریعے ہے۔(میراث جلد ہشتم ح ، ۶۰۱۶ص ۳۱۴)

صحابہ کرام کے فضائل بہت سارے ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت پائی آخر ان کے فضائل کیوں نہ ہوں گے جن کے بارے میں خود حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرمارہے ہیں جس سرزمین میں میرے کسی صحابی کی وفات یا دفن ہوں تو قیامت کے دن اس سرزمین کے سارے مسلمان ان صحابی کے جلوؤں میں محشر کی طرف چلیں گے اور یہ صحابی ان سب کے لیے روشن شمع ہوں گے ان کی روشنی میں سارے لوگ قبروں سے محشر تک اور محشر سے جنت تک پل صراط وغیرہ سے ہوتے ہوئے پہنچیں گے۔(مراة جلد ہشتم ص ، ۳۱۵)

سبحان اللہ کیسے پیارے فضائل ہیں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو ہدایت کے تارے فرمایا کہیں کھانے میں نمک سے مثال دی کہیں تمام صحابہ کرام کو حق مانتے ہوئے ان کی تعظیم و توقیر کرنی چاہیے ، امت مسلمہ اپنی ایمانی زندگی میں صحابہ کرام کے حا جت مند ہیں امت کے لیے صحابہ کرام کی ا قتدا ہدایت ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


صحابۂ کرام کی تعریف کر تے ہوئے مفسر شہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان علیہم الرحمۃ الحنان فرماتے ہیں: شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو ہوش و ایمان کی حالت میں حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پراس کا خاتمہ ہو جاوے۔(مراة المناجیع ج ۸، ص ۳۳۴)

صحابہ وہ صحابہ جن کی ہر صبح عید ہوتی تھی

خدا کا قرب حاصل تھا نبی کی دید ہوتی تھیْ

ان نفوس قدسیہ کی فضیلت میں قرآن پاک میں جا بجا آیات مبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں ان کے حسن عمل ، حسن اخلاق اور حسن ایمان کا تذکرہ ہے، دنیا میں ہی مغفرت اور انعامات اخروی کا مژدہ سنایا گیا ہے۔فرمانِ خدائے ذوالجلال ہے: اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) تَرجَمۂ کنز الایمان:یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی (الانفال ، 4)

ارشاد ربانی ہے: رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ، تَرجَمۂ کنز الایمان:اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔(التوبہ : 100)

نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان ہے: اللہ نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو نبیوں اور رسولوں علیہم الصلوة والسلام کے علاوہ تمام جہانوں پر فضیلت عطا فرمائی۔(مجمع الزوائد کتاب المناقب باب ماجا فی اصحابہ رسولُ اللہ 9/736 ، حدیث 16383 )

نمایاں ہیں اسلام کے گلستان میں

ہر اک گل پہ رنگ بہا ر صحابہ

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے صحابہ کی فضلت بیان کرتے ہوئے فرمایا جو شخص راہِ راست پر چلنا چاہتا ہے اسے چاہیے کہ ان لوگوں کے راستے پر چلے اور ان کی پیروی کرے جو اس جہاں سے گزر گئے، یہ لوگ رسول کریم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ حضرات امت میں سب سے زیادہ افضل ہیں ان کے دل نیکوکار ان کا علم سب سے زیادہ گہرا ، ان کے اعمال تکلف سے خالی جنہیں اللہ نے اپنے نبی کی رفاقت، صحبت،اور خدمت دین کے لیے چنا ان کا فضل پہنچانو ان کے آثار کی پیروی کرو ، ان کے اخلاق اور سیرت اختیار کرو، یہ لوگ درست راہ پر قائم تھے۔

خلافت امامت ولایت کرامت

ہر اک فضل پر اقتدار صحابہ

یاد رہے کہ اہل سنت و جماعت کا اجماع ہے کہ مرسلین ملائکہ و رسل و انبیا علیہم السلام کے بعد خلفا اربعہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم تمام مخلوق سے افضل ہیں خلفائے راشدین کے بعد بقیہ عشرہ مبشرہ ، حضرات حسنین و اصحاب بدر و اصحاب بیعۃ الرضوان کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔

ہر صحابی نبی جنتی جنتی

سب صحابہ سے ہمیں تو پیار ہے

ان شا اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

خدائے احکم الحاکمین جل جلالہ کی بے شمار نعمتیں ساری کائنات کے ذرے ذر ے پر بارش کے قطروں سے زیادہ درختوں کے پتوں سے زیادہ ، دنیا بھر کے پانی کے قطروں سے زیادہ ، ریت کے ذروں سے بڑھ کر ہر لمحہ ہر گھڑی بن مانگے طوفانی بارشوں سے تیز برس رہی ہیں۔

جن کو شمارکرنا انسان کے بس کی بات نہیں اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ ۱۴، النحل ۱۸)

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَ اشْكُرُوْا لِیْ وَ لَا تَكْفُرُوْنِ۠(۱۵۲)

ترجمہ کنزالایمان ۔ میرا حق مانو (شکر ادا کرو) اور میر ی ناشکری نہ کرو۔(پ ۲۔ البقرہ ۱۵۲)

اور ایک مقام پر اللہ تعالی ارشاد فرماتاہے: لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے سنادیا کہ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے (پ ۱۳، ابراہیم ۰۷)

ان آیات سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمتوں پر شکر کرنا واجب ہے۔(تفسیر خزائن العرفان)

شکر اور ناشکری کی حقیقت :

شکر کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو اللہ کی طرف منسوب کرے اور نعمت کا اظہار کرے جب کہ ناشکری کی حقیقت یہ ہے کہ آدمی نعمت کو بھول جائے اور اسے چھپائے۔(تفسیر صراط الجنان)

حضرت امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔ بے شک اللہ جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا رہتا ہے اور جب اس کی ناشکر ی کی جاتی ہے تو وہ اسی کو عذاب بنادیتاہے۔

اور حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہہ الکریم نے ارشاد فرمایا:بے شک نعمت کا تعلق شکر کے ساتھ ہے اور شکر کا تعلق نعمتوں کی زیادتی کے ساتھ ہے، پس اللہ کی طرف سے نعمتوں کی زیادتی اسی وقت تک نہیں رکتی، جب تک کہ بندہ اس کی ناشکر نہیں کرتا۔(شکر کے فضائل ص ۱۱)

عبادت بغیر شکر کے مکمل نہیں ہوتی۔(تفسیر بیضاوی)

شکر تمام عبادتو ں کی اصل ہے۔(تفسیر کبیر)

حضرت شیخ ابن عطا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو نعمتوں کا شکر ادا نہیں کرتا گویا وہ ان کے زوال کا سامان پیدا کر تا ہے، اور جو شکر ادا کرتا ہے گویا وہ نعمتوں کو اسی سے باندھ کر رکھتا ہے۔ (التحریر والتنویر ج ۱، ص ۵۱۲)

نعمتوں کے بدلے ناشکری کا نتیجہ ہلاکت و بربادی ہے۔

نعمتوں کی ناشکری میں مشغول ہونا سخت عذاب کا باعث ہے۔(تفسیر رازی ج ۱۹، ص ۶۷)

شکرکے فوائد:

۱۔اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا زیادہ نعمت کا سبب ہے۔

۲۔ شکر رب عزوجل کی اطاعت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔

۳۔ شکر میں نعمتوں کی حفاظت ہے۔

۴۔شکر اللہ والوں کی عادت ہے۔

۵۔ شکر نعمتوں کی بقا کا ذریعہ ہے۔

۶۔شکر ادا کرنا گناہوں کو چھوڑنے کا سبب ہے۔

۷۔شکر کی توفیق عظیم سعادت ہے۔

۸۔شکر ادا کرنا معرفتِ نعمت کا ذریعہ ہے۔

ناشکری کے نقصانات:

۱۔ ناشکری نعمتوں کے زوال کا ذریعہ ہے۔

۲۔ناشکری اللہ کو ناراض کرنے کا سبب ہے۔

۳۔ ناشکری باعث ہلاکت ہے۔

۴۔ناشکری اللہ کے عذاب کو بلانا ہے۔

۵۔ناشکری نعمتوں میں رکاوٹ ہے۔

۶۔ناشکری اللہ کو ناپسند یدہ ہے۔

۷۔ ناشکری ایک بڑا گناہ ہے۔

ناشکری کی مختلف صورتیں:

۱۔دل میں گناہ کی نیت کرنا۔

۲۔زبان سے شکایت کرنا

۳۔بُرے کام کرنا۔

۴۔ بدگمان رہنا

۵۔اللہ کے فضل و احسان سے ناامید ہونا۔

۶۔ اللہ سے خوش نہ ہونا

۷۔اللہ کی نافرمانی کرنا۔

۸۔ اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کرنا۔

۹۔ اللہ کی یاد سے غافل رہنا

۱۰۔ حرام کھانا۔

۱۱۔ احسان جتانا۔

۱۳۔ اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو اپنا کمال سمجھنا۔

۱۴۔ دوسروں کی نعمتوں کو دیکھ کر حسد کرنا۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل سے شکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی نعمتوں کی ناشکری کرنے سے محفوظ فرمائے امین۔

میں ہردم کرتا رہوں تیرا شکر ادا یا الہی

تو ناشکری سے مجھے محفوظ رکھ یا الہی

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

اللہ پاک کی بے شمار بے انتہا نعمتیں ہیں، جو بارش کے قطروں کی طرح برس رہی ہیں ان نعمتوں کو شمار نہیں کیا جاسکتا، اس کا اعلان اللہ پاک نے اس طرح فرمایا:

وَ اِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ لَا تُحْصُوْهَاؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۸)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اگر اللہ کی نعمتیں گنو تو انہیں شمار نہ کرسکو گے بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔(پ14، النحل:18 )

ربِّ کریم کی ان بے شمار نعمتوں کے باوجود انسان میں ناشکری کا پہلو پایا جاتا ہے، ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں کبھی انسان اعضا کی ناشکری کرتا ہے کبھی کسی کے مال واسباب کو دیکھ کر ناشکری میں مبتلا ہوجاتا ہے اورکبھی کسی کا منصب و اقتدار اسے ناشکری میں مبتلا کردیتا ہے۔اعضا کی ناشکری کی صورت: تمام اعضا کو اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کے کاموں میں استعمال کریں اگر ان اعضا سے نافرمانی والے کام کئے تو یہ اعضا کی ناشکری کہلائے گی۔

مال و اسباب میں ناشکری کی صورت: کسی کا مال و مکان دیکھ کر یہ سوچنا فلاں کے پاس تو اتنا مال ہے مگر میں بمشکل دو وقت کی روٹی کھاتاہوں، فلاں کے پاس تو عالیشان مکان ہے مگر میں تو دو کمروں کے ٹوٹے پُھوٹے گھر میں رہتا ہوں۔

منصب واقتدار میں ناشکری کی صورت:اسی طرح کسی کا منصب واقتدار (Status) دیکھ کر یہ سوچنا کہ اس کے نوکر چاکر ہیں آگے پیچھے گُھومتے رہتے ہیں کار میں آتا ہے، وغیرہ وغیرہ اور میرے پاس تو سائیکل بھی نہیں بسوں میں دھکے کھاتا ہوں۔ناشکر ی کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ اس معاملے میں سب سے بڑا عمل دخل نفسانی خواہشات کابھی ہے ۔اس لئے کہا جاتا ہے کہ ”انسان کی خواہشات کا پیالہ کبھی نہیں بھرتا کیونکہ اس میں ناشکری کے چھید ہوتے ہیں“۔ علاج: جن کے ساتھ ایسامعاملہ ہوانہیں چاہئے کہ دنیاوی نعمتوں میں اپنے سے نیچے کی طرف نظر کرے مثلاً موٹر سائیکل کی سہولت ہے تو کار والے کی طر ف نظر کرنے کی بجائے سائیکل والے کی طرف نظر کرے، سائیکل والے کو چاہئے کہ پیدل سفر کرنے والے کو دیکھے، اس طرح ناشکری کا پہلو ذہن میں نہیں آئے گا۔

دوسری طرف شکر کے فضائل پر غور کریں کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :اللہ پاک اپنے بندوں کو شکر کی توفیق عطا فرماتا ہے تو پھر اسے نعمت کی زیادتی سے محروم نہیں فرماتا کیونکہ اس کا فرمانِ عالی شان ہے:

لَىٕنْ شَكَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّكُمْ وَ لَىٕنْ كَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ(۷)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا اور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے۔

(پ13، ابراہیم: 7)

ہمیں اپنے ربِّ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہئے اور عافیت طلب کرنی چاہئے کہ ہمارے ہزار ہا ہزار گناہ کرنے کے باوجود اللہ پاک ہم سے اپنا رزق نہیں روکتا۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نفسِ راضِیَہ نصیب فرمائے، ہمیں اپنی نعمتوں سے مالا مال فرمائے اور ان نعمتوں پر شکر ادا کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں


ناشکری کی مختلف صورتیں

Wed, 2 Sep , 2020
5 years ago

ناشکری شکر کی ضدہے ،یعنی ہر وہ شے جن کا شکر ادا کرسکتے ہیں ان کا شکر ادا نہ کرنا یہ ناشکری ہے ناشکری کی مختلف صورتیں ہیں ناشکری کی بہت بری صورتیں یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کاشکر ادا نہ کرنا اللہ پاک نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے، مثلا آنکھ ، کان ، ناک بلکہ انسان کا اپنے سارا جسم ہی باعث نعمت ہی نعمت ہے اگر انسان ان کا غلط استعما ل کرے تو یہ اللہ پاک کی بہت بڑی ناشکری ہےـ مثلا ہمیں آنکھ عطا فرمائی ہمیں چاہیے کہ اس سے ہمیشہ اچھا ہی دیکھیں، ناکہ فلمیں ڈرامے اور بدنگای وغیرہ وغیرہ،

دیگر اعضا کا ن سے گانے باجے سن کر انسان ناشکری کرتا اور زبان سے فحش کلام و گالیاں دے کر ناشکری کا ارتکاب کرتا ہے۔ ناشکری کی ایک دوسری صورت یہ ہے کہ انسان اپنے محسن کے احسان کو ہی بھول جاتا ہے کہ تم نے مجھ پر کون سے احسانات ہے، قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ۔ بے شک آدمی اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے (پ ۳۰، العدیت ۶)

اللہ پاک نے ہم پر بے شمار احسانات فرمائیں، لیکن انسان ناشکری پر ناشکری کرتا ہے ۔

ایک واقعہ پیش خدمت ہے کسی بزرگ کے پاس کوئی شخض کہتا ہے مجھے اللہ پاک نے کچھ نہیں دیا، ان بزرگ نے فرمایااچھا کچھ نہیں دیا ؟بتا ہاں کچھ نہیں دیا؟ تو آپ نے اسے کہا کہ ایسا کر ایک آنکھ دے دو اور دس لاکھ لے لو، وہ کہنے لگا میں حضور آنکھ دوں گا، تو بوڑھا ہوجاؤ ں گا تو بزرگ نے فرمایا ایک بازو دے دو دس لاکھ لے اس نے کہا پھر انکار کا بزرگ نے اسی طرح ایک ایک چیز گنوائی او ر مگر وہ نا ہی کرتا رہا پھر بزرگ نے فرمایا کہ تم لاکھوں کی Property  لے کر گھوم رہے ہو اور کہتے ہو کہ اللہ نے مجھے کچھ نہیں، لہذا ہمیں اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا چاہیے کیونکہ ناشکری عذاب کا باعث ہے، حضرت سیدنا امام حسن بصری رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بے شک اللہ عزوجل جب تک چاہتا ہے اپنی نعمت سے لوگوں کو نوازتا ہے اور جب اس کی ناشکری کی جائے تو وہ اسی نعمت کو ان کے لئے عذاب بنادیتا ہے۔

ہمیں ناشکری نہیں کرنی چاہیے، ہر حال میں شکر ہی ادا کرنا چاہیے کیونکہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: ترجمہ کنزالایمان۔ اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دوں گا۔(پ ۱۳، ابراہیم ،آیت۷)

آخر میں ایک اہم بات کہ ہمیں نعمتوں میں اپنے سے پیچھے والے کو دیکھنا چاہیے اور عبادت میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھنا چاہیے، یہ ذہن ہوگا تو اللہ نے چاہا تو ناشکری سے بچے رہیں گے اللہ پاک ہم سب کو ناشکری سے بچائے کیونکہ ناشکری سے نعمت کے چھن جانے کا ڈر ہوتا ہے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں